سانحہ ماڈل ٹاؤن: ریاستی دہشت گردی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ

17 جون 2014ء: سانحہ ماڈل ٹاؤن کو 7 ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا۔ دھرنے کی صورت میں ملکی تاریخ کے سب سے بڑے احتجاج اور مزید قربانیوں کے باوجود ریاستی دہشت گردی کا شکار ہونے والے 14 شہداء کے لواحقین انصاف کے انتظار میں ہیں۔ دھرنے کے دوران آرمی چیف کی مداخلت پر حکمران بادل نخواستہ ذمہ داران پر ایف آئی آر کاٹنے پر مجبور تو ہوگئے مگر ابھی تک کسی بھی ملزم کو پکڑا نہیں جاسکا۔ 14 شہداء کے لواحقین اور پولیس کی گولیوں کا نشانہ بننے والے 100 سے زائد زخمی عدل و انصاف کے علمبرداروں سے یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ اگر یہی دہشت گردی عامۃ الناس میں کسی نے کی ہوتی تو وہ اب تک کیفر کردار کو پہنچ چکے ہوتے، کیا ملک پاکستان کا آئین و قانون حکمرانوں اور رعایا کے ساتھ الگ الگ سلوک کرنے کی تعلیم دیتا ہے؟

محترم قارئین! ہماری طرف سے اس سانحہ کی غیر جانبدارانہ تحقیق کے لئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (JIT) بنانے کا مطالبہ ہوا تو اس پر بھی حکمرانوں نے جو اصل میں اس واقعہ کے براہ راست ذمہ دار ہیں، اپنی مرضی کے افراد پر مشتمل JIT بنا ڈالی۔ پاکستان عوامی تحریک اور شہداء کے لواحقین کی طرف سے اس حکومتی ٹیم پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اس کا بائیکاٹ کیا گیا۔

گذشتہ ماہ اس حوالے سے ایک اور مضحکہ خیز صورتحال اس وقت سامنے آئی جب سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مرکزی کردار ڈاکٹر توقیر شاہ کا منہ بند رکھنے کیلئے قوانین میں ترمیم کر کے اسے غیر قانونی ترقی دے دی گئی اور سانحہ ماڈل ٹاؤن میں 14 بے گناہوں کا خون بہانے کے صلہ میں گریڈ 20 سے ترقی دے کر22 کی پوسٹ پر ڈبلیو ٹی او میں بغیر کسی تجربہ اور اہلیت کے سفیر لگایا گیا ہے۔ قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اڑھائی ماہ قبل 20 نومبر 2014ء کو پریس کانفرنس میں سرکاری لیٹر میڈیا کو دکھا کر اس تقرری کا انکشاف کر دیا تھا کہ زیر تربیت ڈاکٹر توقیر شاہ کو ڈبلیو ٹی او کا سفیر بنایا جا رہا ہے۔ بے گناہ انسانوں کے قاتل جنھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے تھا، انہیں نواز حکومت دونوں ہاتھوں سے نواز رہی ہے۔ موجودہ حکمرانوں کو ڈر تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے اس اہم کردار کا منہ بند نہ کیا گیا تو وہ اہم راز اگل سکتا ہے۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر توقیر شاہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دوران ایوان وزیر اعلیٰ، سابق وزیر قانون اور وقوعہ پر موجود پولیس افسران کے درمیان پیغام رسانی کا کام کرتا رہا۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کے سابق پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کی ڈبلیو ٹی او میں بطور سفیر تقرری کے خلاف پاکستان عوامی تحریک کے صدر محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے ڈبلیو ٹی او کے چیئر پرسن Ms Jonathan Fried اور دیگر اعلیٰ حکام کو گزشتہ ماہ خط لکھا ہے۔ اس خط کے ساتھ شہداء کے لواحقین، زخمیوں اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین عوام الناس کی دستخط شدہ فہرست بھی WTO کو بطور احتجاج ارسال کی گئی ہے کہ ایسا شخص جو 14 افراد کے قتل میں ملوث ہو اس کی WTO میں بطور سفیر تقرری قطعاً درست نہیں ہے۔ PAT ہر پلیٹ فارم سے اس تقرری کو روکنے کی بھرپور کوشش کرے گی۔ خط کے ہمراہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے واقعہ کا پس منظر، پولیس کی براہ راست فائرنگ اور مظالم کی ویڈیوبھی ارسال کی گئی ہے اور ڈاکٹر توقیر شاہ کے سانحہ میں ملوث ہونے کے حوالے سے قومی اخبارات کے تراشے بھی بھجوائے گئے ہیں۔

٭ پاکستان عوامی تحریک نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر انصاف نہ ملنے کے خلاف شہر شہر احتجاجی مظاہروں کا اعلان کردیا ہے۔ احتجاجی مظاہرے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے 6 ماہ مکمل ہونے پر 17 دسمبر سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر سانحہ پشاور کے سوگ میں ایک ماہ کیلئے احتجاج موخر کر دیا گیا۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے اور انصاف کے لئے احتجاجی مظاہروں کا آغاز گذشتہ ماہ 17 جنوری 2015ء کو لاہور سے ہوا۔ لاہور پریس کلب کے سامنے ہزاروں خواتین و حضرات، کارکنان اور سول سوسائٹی نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داران کے خلاف کاروائی، انصاف کے حصول اور شہداء کے لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے بھرپور مظاہرہ کیا۔ شرکاء ریلی ’’ن لیگ خون لیگ‘‘، ’’خون رنگ لائے گا انقلاب آئے گا‘‘، ’’جعلی جے آئی ٹی نا منظور‘‘، ’’ظالموں جواب دو خون کا حساب دو‘‘ کے فلک شگاف نعرے لگا تے رہے۔

اس احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے صدر PAT محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے کہا کہ ایک ماہ کے اندر اندر ہمارے مطالبات نہ مانے گئے تو احتجاجی تحریک کا دائرہ پھر سے پورے ملک میں پھیلا دیا جائیگا۔ عوامی تحریک کا موقف آج بھی وہی ہے جو 18 جون 2014ء کو تھا کہ ’’وزیر اعلیٰ پنجاب استعفیٰ دیں، شہداء کے لواحقین کی رضا مندی سے جے آئی ٹی تشکیل دی جائے، حکومتی جے آئی ٹی کا نوٹیفیکیشن معطل اور اس کی کاروائی کو فوری طور پر روکا جائے، جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو شائع کیا جائے، ڈاکٹر توقیر شاہ کو گرفتار کیا جائے، سانحہ ماڈل ٹاؤن کا کیس فوجی عدالت میں لے جایا جائے‘‘۔

آرمی چیف کی مداخلت پر ایف آئی آر درج ہوئی اور انہوں نے انصاف دلانے کا وعدہ بھی کیا تھا اب ہم ان کے وعدہ پر عمل درآمد کے منتظر ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف قومی ایکشن پلان کے پیچھے اپنے جرائم بھی چھپانا چاہتے ہیں۔ جو حکومت سانحہ ماڈل ٹاؤن پر قائم ہونے والے جوڈیشنل کمیشن کی رپورٹ شائع نہیں کررہی، اس کے ہوتے ہوئے انصاف ملنے کی کوئی امید نہیں لیکن ہم اپنے شہداء کے خون کا حساب لئے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ انصاف نہ ملا تو ماڈل ٹاؤن، رائے ونڈ اور اسلام آباد میں دوبارہ دھرنے دے سکتے ہیں۔ سفاک حکمرانوں اور دہشت گردوں نے17 جون کو معصوم شہریوں کو شہید کر کے بربریت کی انتہا کی۔ کچھ دہشت گرد پہاڑوں اور غاروں میں اور کچھ ایوانوں میں پناہ لئے بیٹھے ہیں۔ قائد انقلاب ڈاکٹر طاہرالقادری نے 10نکاتی ایجنڈے کے ذریعے حکمرانوں کے ظلم کے خاتمہ اور عوام کو بااختیار بنانے کا نعرہ لگایا تو ظلم کے نظام کے محافظوں نے ماڈل ٹاؤن میں خون کی ندیاں بہا دیں۔ سانحہ پشاور، سانحہ واہگہ کے ذمہ دار تو ملکی اداروں کی دسترس میں نہیں مگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دہشت گرد تو سب کے سامنے موجود ہیں، انہیں کون پکڑے گا؟ ماڈل ٹاؤن میں بہنے والا خون رائیگاں نہیں جائے گا، خون کے ایک ایک قطرے کا آئین و قانون کے تحت حساب لیں گے۔

تحریک منہاج القرآن لاہور کے امیر محترم ارشاد احمد طاہر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج سانحہ ماڈل ٹاؤن کو 7 ماہ گزر گئے ہم اپنے شہداء سے یہ عہد کرتے ہیں کہ حالات چاہے کتنے ہی کٹھن ہوں انکا خون رائیگاں نہیں جائیگا۔ نام نہاد حکمرانوں سے انتقام، انقلاب کی صورت میں لے کر رہیں گے۔ زندگی کی آخری سانس تک ہمت، حوصلہ اور پرامن طریقے سے عہد انقلاب کرتے رہیں گے۔ پاکستان عوامی تحریک کے شہداء نے ثابت کر دیا کہ طاغوتی قوتیں ہمارے عزائم کو ڈگمگا نہیں سکتیں۔ شہدا نے ہمارے سر فخر سے بلند کردیے ہیں۔

پاکستان عوامی تحریک لاہور کے صدر چودھری افضل گجر نے کہا کہ پاکستان کے آئین کا ابتدائیہ جمہوریت کی تین شرائط مساوات اور عدل و انصاف بیان کرتا ہے، لیکن ظالم حکمرانوں نے 19 کروڑ عوام کے حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کو 17 جون کو ریاستی جبر و دہشت گردی کے ذریعے گولیوں سے بھون دیا۔ ہر پاکستانی شہری کو تحفظ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے مگر 17 جون کو 15 گھنٹے حکومت نے عوام پر جس بربریت اور ریاستی دہشت گردی کے ذریعے آئین کی دھجیاں بکھیری ہیں اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

مظاہرین سے صوبائی صدر بشارت جسپال، مجلس وحدت المسلمین کے رہنماء علامہ سید حسن رضا نقوی، تحریک منہاج القرآن لاہور کے ناظم حافظ غلام فرید اور دیگر مرکزی و مقامی قائدین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے حکومتی JIT کو اس لئے مسترد کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ اور پولیس انتظامیہ جو قاتل ہے انکی موجودگی میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔ قائد انقلاب کا چوروں، لٹیروں اور وڈیروں سے کوئی مطالبہ نہیں بلکہ انکی طاقت تو بیواؤں، یتیموں کے آنسو اور سسکیاں ہیں۔ قائد انقلاب قوم کو انقلاب کا جو پیغام دے رہے ہیں اسکی تقلید کرنا ہو گی۔ عوام کو امن اور دہشت گردی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔ قائد انقلاب کا پیغام امن، اسلام اور پاکستان کیلئے ہے۔ اس پر عمل درآمد سے ہی ملک میں دائمی امن قائم ہو گا۔ پوری قوم متفق ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ظلم و بربریت کی وہ داستان ہے جس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔

احتجاجی مظاہرہ سے آڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب نے فرمایا:

سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داروں کے تختہ دار پر لٹکنے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ حکمرانوں کا کوئی ہتھکنڈہ ہمیں انصاف کی راہ سے نہیں ہٹا سکتا۔ حکمرانوں کے دہشت گردوں سے رابطے ہیں، فوجی عدالتوں کو ناکام بنانے کیلئے سازشیں شروع ہو چکی ہیں۔ اس جنگ میں فوج کے بعد صرف عوامی تحریک پوری جرات کے ساتھ آواز اٹھا رہی ہے۔ اس پارلیمنٹ کو تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنی جنگ قرار دینے کی بھی توفیق نہیں ہو سکی۔ قاتلوں کی بنائی جے آئی ٹی نہ پہلے قبول تھی نہ آئندہ قبول کریں گے۔ 14بے گناہوں کے خون سے بے وفائی کا تصور بھی نہیں کر سکتے، سانحہ ماڈل ٹاؤن دہشتگردی کا کیس بھی فوجی عدالتوں میں چلایا جائے۔

ظلم کے خاتمے اور انصاف کیلئے قوم کو باہر نکلنا پڑے گا۔ بجلی، گیس، پٹرول بند ہے۔ مہنگائی، بدامنی کا شکار عوام کب تک گھروں میں بیٹھ کر تبدیلی کا انتظار کرتے رہیں گے۔ تنہا ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان گھر بیٹھے عوام کو انقلاب کا تحفہ نہیں دے سکتے، قوم کو باہر نکلنا پڑے گا۔ حکمران دہشت گردی کی جنگ کے نام پر قوم کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس ایک مہینہ جاری رہا مگر افسوس ایک منٹ کیلئے بھی دہشت گردی کے خلاف بحث نہیں کی گئی، جب اجلاس ختم ہوا تو لولا لنگڑا آرڈیننس جاری کر دیا گیا۔ حکمران قوم سے جھوٹ بول رہے ہیں اور دہشت گردی کے نام پر سیاست کر رہے ہیں۔ فرانس میں دس، بارہ لوگ مرے تو وہاں کے صدر نے پوری قوم کو باہر نکالا اور احتجاج کی قیادت کی، پاکستان کے وزیر اعظم کی غیرت کیوں نہیں جاگی ؟انہوں نے دہشت گردی کے خلاف ملین مارچ کی کال کیوں نہیں دی؟ عوامی تحریک واحد جماعت ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف ملک کے 60 شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالیں۔