اداریہ: ’’یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہِ محشر میں ہے‘‘

گذشتہ دہائیوں میں وطن عزیز کی کرسیِ اقتدار پر مسلط رہنے والے حکمرانوں کی مصلحت آمیز سیاست نے ملک کو جس حال میں پہنچادیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ سیاست تو نرا دھوکہ اور فراڈ کا کھیل بن چکی ہے۔ سودے بازی، خریدو فروخت اور پھر مک مکا یہاں عام بات ہے۔ سیاستدانوں کے قومی وسائل کے ساتھ اس بے رحمانہ سلوک ہی کے پیش نظر مملکتِ خداداد پاکستان میں عوام آج بنیادی سہولتوں سے محروم دکھائی دیتی ہے۔ ان سیاستدانوں نے سیاست کو ذاتی مفادات کا کھیل بنادیا نتیجتاً بنیادی سہولتوں کی فراہمی تو دور کی بات انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے عفریت نے بھی ڈیرے ڈال لئے۔

پاک فوج نے حالیہ آپریشن کلین اپ میں شمالی علاقہ جات کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کا عزم ظاہر کیا اور عملاً قربانیاں دے کر علاقے کو قاتلوں کی آماجگاہ بننے سے بچالیا، جو ایک تاریخی کارنامہ ہے۔ یہی عزم و عمل اگر ہماری سیاسی قیادتیں ظاہر کرتیں تو موجودہ تباہی کی نوبت ہی نہ آتی۔ ہمار ے حکمرانوں نے ایک طرف عالمی طاقتوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کیا اور دوسری طرف ملکی وسائل کو بے دردی کے ساتھ لوٹنے میں مصروفِ عمل رہے۔ حکومت کی ناک کے نیچے انتہاء پسندی پروان چڑھی مگر یہ لوگ اقتدار کے نشے میں مست رہے۔ جب انتہا پسندی و دہشت گردی کا یہ ہاتھی بے قابو ہوگیا تو اس کی سونڈھ کاٹنے کے لئے فوج کو پہلے سوات میں اور بعد ازاں فاٹا میں آپریشن کا رسک لینا پڑا جو خود ایک بہت بڑی ہجرت کا سبب بھی بنا۔ مگر اس کے علاوہ اس مرض کا کوئی علاج بھی نہیں تھا۔ پشاور کے دلخراش واقعہ نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور فوج کے موجودہ سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے صحیح معنوں میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہوئے دلیرانہ اور مجاہدانہ حوصلے کے ساتھ اس ایشو کے نتائج اور اس کے اسباب پر حکمت عملی وضع کی۔

جنرل راحیل شریف نے بڑے واضح الفاظ میں آخری دہشت گرد کو پکڑ کر عبرتناک سزا دینے کا اعلان کرتے ہوئے قوم کو خوش خبری دی ہے کہ فوج اس ملک اور اس کے عوام کے مفادات کی حفاظت کرتی رہے گی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، تحریک منہاج القرآن، پاکستان عوامی تحریک نے فوج کے حالیہ اقدامات کی بھرپور حمایت کی ہے۔ ان حالات میں حکمرانوں اور سیاسی قیادت پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قومی ایکشن پلان کو مؤثر بنانے اور اس پر کماحقہ عمل پیرا ہونے کے لئے نہ صرف زبانی بلکہ عملی یکجہتی کا مظاہرہ بھی کریں۔ اپنے سیاسی مفادات کو یکسر فراموش کرتے ہوئے دہشت گردی کی وجوہات اور انتہا پسندانہ افکار و نظریات کا قلع قمع کرنے کے لئے پاک فوج کو ہر ممکن تعاون فراہم کریں۔

قومی ایکشن پلان پر حکومتی عدمِ دلچسپی ہر آئے روز واضح ہوتی چلی جارہی ہے۔ APC میں جن نکات پر اتفاق رائے کا ڈھنڈورا پیٹا گیا، آج 3 ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس پر عمل درآمد میں لیت و لعل سے کام لیا جارہا ہے۔ دہشت گردی جیسے ناسور کے خاتمہ کے لئے حکومت کی اتنی سی بھی سنجیدگی نظر نہیں آئی جتنی گذشتہ ماہ منعقد ہونے والے سینٹ کے انتخابات میں دکھائی دی۔

سینٹ الیکشن کے نام پر پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی منڈی لگی اور تماشا ہوا۔ سینٹ الیکشن سے ایک روز قبل رات کے اندھیرے میں جاری ہونے والے صدارتی آرڈیننس نے پارلیمنٹ کی اصلیت ظاہر کر دی۔ الیکشن کمیشن کا کہیں وجود نظر نہیں آیا۔ اراکین اسمبلی کو کروڑوں روپے کی رشوت دی گئی۔ ایسی پارلیمنٹ اور ایسی سینٹ کی قانون سازی کی کیا اخلاقی حیثیت ہو گی۔۔۔؟ جعلی جمہوریت اور جعلی الیکشنوں سے غریب عوام کے کبھی حالات نہیں بدلیں گے۔ سینٹ الیکشن کے بعد عوام کا اس جعلی جمہوری نظام سے بچا کھچا اعتماد بھی اٹھ گیا ہے۔ ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ پیسہ طاقتور اور ادارے کمزور ہیں۔ ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے بظاہر آئینی ترمیم کیلئے اے پی سی کا ڈرامہ رچایا گیا لیکن دوسری طرف صدر کے ذریعے رات کے اندھیرے میں آرڈیننس جاری کروا کر ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے اپنی پوزیشن بہتر کرنے کیلئے فاٹا کے الیکشن کو رکوایا گیا۔ یہ فیصلہ کرنے والے بتائیں کہ یہ فیصلہ انہوں نے کس اے پی سی اور پارلیمنٹ کے فلور پر کیا؟ اگر ملکی معاملات کے فیصلے پارلیمنٹ سے بالا بالا اور رات کے اندھیرے میں ہونے ہیں تو پھر پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے ؟ پاکستان کے عوام کے خون پسینے کے ٹیکسوں کی کمائی پر یہ ایوان چلتے ہیں جنہیں دولت مند، مقتدر سیاستدانوں نے خرید و فروخت کی منڈی بنا رکھا ہے۔ یہ سٹیٹس کو قوتیںاس استحصالی نظام کی محافظ ہیں اور جعلی مینڈیٹ والی اسمبلیاں پوری قوم کا استحقاق مجروح کررہی ہیں۔ افسوس! دہشت گردی کے خلاف آئینی ترمیم پر ایک نہ ہونے والے آج اقتدار کے لئے پاور شیئرنگ فارمولے پر ایک ہو گئے اور سینٹ الیکشن خرید و فروخت سے شروع ہو کر مک مکا پر ختم ہو گئے۔

عوام بدقسمتی سے زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو ترس رہے ہیں۔ غریب عوام ان نااہل حکمرانوں کی وجہ سے زندگی کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا کر زندہ رہنے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ عوام سوال کرتے ہیں کہ ضمیر فروش لوگ سینٹ میں آ کر عوام اور ملک کی بہتری کیلئے کیا کام کرینگے۔ غریب عوام کوبیماریوں، بھوک، بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں مرنے کیلئے بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا ہے اور حکمران طبقہ قوم کے وسائل کا بے دریغ استعمال کر رہا ہے۔ ان حکمرانوں کے یہی طرز عمل حقیقی جمہوریت کو اس ملک میں پنپنے نہیں دے رہے۔ ملکی سیاست پر قابض مقتدر جماعتیں قوم کو مسلسل بے وقوف بنانے اور غیرت و حمیت کا سودا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ سینٹ الیکشن نے ثابت کر دیا ہے کہ نااہل سیاستدانوں کی ترجیح قومی مفاد کے بجائے ذاتی مفادات ہیں۔ اگر وہ ملک کو سنوارنے کیلئے سنجیدہ ہوتے تو آج ہماری حالت اتنی دگرگوں نہ ہوتی۔

اس استحصالی اور فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام سے جان چھڑوائے بغیر حقیقی تبدیلی ناممکن ہے۔ حکمران طبقہ کی انہی نااہلیوں اور ملک و قوم کے ساتھ سنجیدہ نہ ہونے کی وجہ سے ہی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’سیاست نہیں، ریاست بچاؤ‘‘ کا نعرہ لگایا۔ آئین کی بالا دستی، بنیادی حقوق کی بحالی، ظالمانہ نظام کے خاتمہ، امن و رواداری کے فروغ، اقتدار میں عوام کی حقیقی شرکت کو یقینی بنانے اور سیاست نہیں، ریاست بچاؤ کے نعرہ کی عملی تعبیر کے لئے شیخ الاسلام کی قیادت میں ہم میں سے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہِ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے