مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال: کیا اپنا جائز اور حق پر مبنی کام کروانے کے لئے مجبوراً رشوت دینے والا گناہ گار ہوگا؟

جواب: پاکستان ایک ایسا اسلامی ملک ہے جس کا سارے کا سارا نظام ظالمانہ اور سامراجی خطوط پر استوار ہے۔ معیشت سے لے کر عدالتوں تک کہیں بھی ہمیں اسلامی نظام نظر نہیں آتا۔ الغرض اگر اس ملک کے اداروں میں اگر کوئی شے نہیں ہے تو وہ اسلامی نظام ہے۔ آج کے پرفتن دور میں کوئی شخص چاہے تو بھی انفراداً پاکیزہ زندگی نہیں گزار سکتا۔ اسے بھی مجبوراً اس ظالمانہ استحصالی نظام کا حصہ بننا پڑتا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ظالمانہ، استحصالی نظام اور اس کی حفاظت کرنے والے حکمرانوں کے خلاف علم جہاد بلند کریں۔ بہر حال اگر آپ کو اپنا حق لینے یا ظلم سے بچنے کی خاطر ایسا عمل مجبوراً کرنا پڑے تو مجبوری کی حالت میں یہ جائز ہوگا۔ جب تک کوئی صحیح، پاکیزہ راستہ نہ ملے۔

سوال: ایک شخص سنوکر گیم کا کاروبار کرتا ہے۔ ان میں نوجوان مالک کو بتائے بغیر، مالک کی تنبیہ کے باوجود شرط لگاکر گیم کرتے ہیں جو کہ جواء کی صورت اختیار کرجاتی ہے۔ قرآن و سنت کی رو سے کیا مالک کی روزی حلال ہے یا حرام؟

جواب: آپ سختی سے ان نوجوانوں کو شرط لگانے سے منع کریں۔ اس کے باوجود کوئی خفیہ طور شرط لگاتا اور جوا کھیلتا ہے تو آپ مجرم نہیں، اس کا جوابدہ وہ خود ہے۔ آپ کی روزی حلال ہے۔

اسلام نے نوجوانوں کے لئے کھیل کی ایسی صورتیں بتائیں، جن میں ان کی ذہنی و جسمانی تربیت بھی ہو اور عملی زندگی میں مجاہدانہ کردار کرنے کی صلاحیت بھی ان میں پیدا کرے۔ لیکن ایک سازش کے تحت مسلمانوں کے شاندار ماضی کو ان کی نظروں سے اوجھل کرکے ان کی صلاحیتیں ضائع کی جارہی ہیں۔ ان کا سرمایہ اور وقت ضائع کیا جارہا ہے، مثلاً کشتیاں، کبڈی، نشانہ بازی، گھڑ دوڑ اور شمشیر زنی کی جگہ دوسرے نکمے کھیل ان میں مروجہ کردیے جن سے وقت روپیہ اور جسمانی و ذہنی صلاحیتیں زنگ آلود ہوکر رہ گئیں۔

ہم کھیل کے خلاف نہیں، بشرطیکہ مفید ہو۔ مفید کھیل کا مقصد انسان کی صحت اچھی ہو اور صحت کا مقصد انسان اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کے حصول کے لئے اسلامی تعلیمات پر نہ صرف کماحقہ خود کاربند ہوسکے بلکہ ان کے فروغ میں بھی عملی طور پر شریک ہو سکے۔

سوال: وکالت کرنا شرعی اعتبار سے کیسا ہے؟

جواب: وکالت اسلامی اصولوں کے مطابق جائز ہے۔ وکالت کا کورس کرنے والا جب وکالت کو بطور پیشہ اختیارکرے تو قرآن کا یہ حکم ہمیشہ پیش نظر رہے کہ لاتکن للخائنين خصيما ’’جو خیانت والے ہیں ان کے لئے نہ جھگڑنا‘‘۔ بس وکلاء کو چاہئے کہ ان کی تمام تر کوشش حق ثابت کرنے اور حق کے مطابق فیصلہ کرنے میں ہونی چاہئے۔ فیس لے کر اپنے فریق کے لئے جاننے کے باوجود حق کو باطل اور باطل کو حق ثابت کرنا، قرآن کی رو سے حرام ہے۔ اگر آپ کی وکالت ’’حق بہ حقدار رسید‘‘ کے لئے ہے تو جائز اور اگر حق واضح ہونے کے باوجود ظلم کو انصاف ثابت کرنے کے لئے کاوشیں صرف کررہے ہیں تو یہ حرام ٹھہرے گا۔ ہمیشہ اسلامی قوانین اور حق و سچ کے مطابق فیصلے کروانے کی کوشش کریں۔ اگر اپنی توجہ حق و سچ پر مرکوز کرتے ہوئے وکالت کریں گے تو روزی حلال بصورت دیگر حرام۔

سوال: گناہ کے ذریعے توبہ کو توڑنا ایک شخص کا معمول ہے۔ یہ شخص اپنے آپ کو کس طرح توبہ پر استقامت دے سکتا ہے؟

جواب: یہ کسی ایک شخص کا مسئلہ نہیں۔ ہم مانیں یا نہ مانیں اکثریت کا یہی حال ہے کہ گناہ بھی ہورہے ہیں اور توبہ و استغفار بھی۔ اللہ رب العزت اپنے محبوب پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کے صدقے ہمیں سچی توبہ نصیب فرمائے۔ انسان کے لئے دو صورتیں ہیں:

  1. یا تو اتنا دور نکل جاتا ہے کہ پلٹنے کا کبھی خیال ہی نہیں آتا۔ ندامت کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ اپنے مالک سے صلح کرنے اور اس سے معافی مانگنے کا سوچتا ہی نہیں۔ اس صورت میں عمر بھر غلاظت میں لتھڑا رہتا ہے اور ہمیشہ کی ذلت و رسوائی سے ہمکنار ہوجاتا ہے۔
  2. یا پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت دستگیری فرمائے، کسی صاحب دل کی صحبت میسر آجائے۔ کوئی پاکیزہ کلمہ دل پر اثر کرجائے اور انسان ہلاکت کے گڑھے سے نکل کر اللہ کی رحمت و حفاظت کی پناہ گاہ میں محفوظ ہو جائے۔

انسان اگر اپنے معمولات تبدیل کرلے تب بھی اس پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ گناہوں کی جانب مائل نہیں ہوتا۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ مزاراتِ اولیاء پر حاضری کو معمول بنائیں۔۔۔ شبِ بیداری یا محافل میں حاضری کو یقینی بنائیں۔۔۔ منہاج القرآن میں قائم گوشہ درود میں حاضری یا پورے ملک میں قائم حلقاتِ درود میں حاضری بھی توبہ پر استقامت عطا کرتی ہے۔۔۔ اسی طرح اچھی کتب کا مطالعہ اور اچھے خطابات کا سننا بھی کارگر ہوتا ہے۔۔۔ شیخ الاسلام کی توبہ، محبت الہٰی وغیرہ کے موضوعات پر خطابات حاصل کرکے انہیں سنیں۔ ان شاء اللہ طبیعت میں تبدیلی آئے گی۔ شیخ الاسلام کی مختلف موضوعات پر لکھی گئی دیگر کتابیں پڑھیں، ان شاء اللہ خیالات میں پاکیزگی آئے گی۔

پابندی سے مسجد میں باجماعت نماز ادا کریں۔۔۔ اللہ کا ذکر اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کثرت سے پڑھیں۔۔۔ اچھی کتابیں پڑھیں۔۔۔ نیک صحبت اختیار کرلیں۔۔۔ اپنے نیک ارادوں میں پختگی پیدا کریں۔۔۔ عزم و حوصلہ سے کام لیں۔۔۔ شیطان و نفس کے آگے ہتھیار نہ ڈالیں۔۔۔ جب دنیا کے معاملات کامل یقین اور پکے ارادے سے کرتے ہیں تو اپنی آخرت سنوارتے وقت بھی پختہ فیصلے کریں۔۔۔ ایک انسان دوسرے انسان سے کی ہوئی اپنی بات کی پاسداری میں تو تن، من، دھن قربان کر دیتا ہے۔ اپنی بات سے پھرتا نہیں، مگر ہم اللہ تعالیٰ سے بار بار وعدے کرتے اور پھر توڑ دیتے ہیں۔ یہ افسوس ناک رویہ ہے، جس پر غوروفکر کی ضرورت ہے۔

کبھی قبرستان سے گزر ہو تو سوچیں کہ کیسے کیسے شاہ زور، معززین و شرفاء، عاشقان جانباز، مست خانہ خراب، ظالم، عیاش و بدمعاش اور جاہ و جلال والے تھے یہ لوگ۔ ان کی وہ عزتیں کہاں گئیں۔۔۔؟ ان کے جھوٹے عشق کہاں گئے۔۔۔؟ ان کی بدمستیاں ان کے مظالم ان کی عیاشیاں، ان کی بدمعاشیاں ان کے جاہ و جلال کہاں گئے۔۔۔؟ اللہ بس، باقی ہوس۔

جدید و قدیم بستیوں میں گھومیں، کیسی کیسی عظیم الشان خوبصورت کوٹھیاں ہیں۔۔۔ کیسے کیسے محلات و قلعے ہیں۔۔۔ کیسے کیسے باغ اور سیرگاہیں ہیں۔۔۔ کیسے کیسے تالاب و آبشار ہیں۔۔۔ ان کو تعمیر کرنے والے کہاں گئے۔۔۔؟ کس نے بنایا تھا یہ سب کچھ۔۔۔؟ آج کس کے قبضہ و تصرف میں ہیں۔۔۔؟ کل ان سے کون لطف اندوز ہوگا۔۔۔؟ ارے بھائی غور سے دیکھ یہ کیا ہے۔۔۔ اس کی حقیقت کیا ہے۔۔۔؟ کیا یہ سب کچھ ایک سرائے نہیں۔۔۔؟ بس ہماری حقیقت ایسے مسافر کے سوا کچھ نہیں جو کچھ وقت سستانے کے لئے کسی سرائے میں ٹھہرتا ہے۔ عقل مند ایسی آرام گاہوں سے دل نہیں لگاتے۔ سستا کر اصل منزل کی طرف چل پڑتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی اس مسافر خانے کی حقیقت سے آشنا کردے اور خواب غفلت سے بیدار فرمادے۔ آمین۔

سوال: ایک شخص اپنی ساری جائیداد اپنی زندگی میں اپنے پوتے کے نام ہبہ کرجاتا ہے جبکہ اس کی اور اولاد ابھی زندہ ہے، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب: جب کوئی شخص اپنی زندگی میں کوئی ایسا دور رس فیصلہ کرنے لگے تو اسے اس کے تمام اثرات و نتائج پر پوری طرح غور کرلینا چاہئے تاکہ دنیا یا آخرت میں کسی مرحلہ پر وہ فیصلہ اس کے لئے حسرت وندامت کا باعث نہ ہوجائے۔ اس سلسلہ میں چند ہدایات پہلے سن لیں:

اللہ رب العزت نے فرمایا:

اِنَّ اﷲَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ.

(النحل:90)

’’بے شک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے ‘‘۔

قرآن کریم میں ورثاء کے حصے مقرر کرتے وقت اصول بیان فرمایا:

اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ ج لَا تَدْرُوْنَ اَيُّهُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا ج فَرِيْضَةً مِّنَ اﷲِط اِنَّ اﷲَ کَانَ عَلِيْمًا حَکِيْمًا.

’’تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ فائدہ پہنچانے میں ان میں سے کون تمہارے قریب تر ہے یہ (تقسیم) اللہ کی طرف سے فریضہ (یعنی مقرر) ہے، بے شک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے‘‘۔

(النساء،11)

اللہ تعالیٰ نے مالی معاملات میں کسی کو من مانی کا حق نہیں دیا بلکہ اپنی حکمت کاملہ سے انہیں خود حل فرمایا ہے۔ مذکورہ شخص بہتر جانتا ہے کہ اس نے اپنی دیگر اولاد کو کس بناء پر اپنی جائیداد سے محروم رکھا ہے۔ اگر کوئی شرعی جواز نہ تھا تو یقینا یہ جرم ہے، جس کی سزا وہ اگلے جہاں بھگتے گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ان الرجل ليعمل والمراة بطاعة الله ستين سنة ثم يحضرهما الموت فيضاران فی الوصية فتجب لهما النار.

(احمد، ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجه)

’’ایک شخص مرد یا عورت ساٹھ سال اللہ کی اطاعت کرتے ہیں۔ پھر موت کا وقت آتا ہے، وہ وصیت میں کسی کو نقصان پہنچاتے ہیں تو ان کے لئے جہنم لازم ہوجاتی ہے‘‘۔

نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيمة.

(ابن ماجه، بيهقی)

’’جس نے اپنے وارث کی وراثت ختم کی، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی جنت کی میراث ختم کر دے گا‘‘۔

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے والد نے مجھے عطیہ دیا۔ میری والدہ عمرہ بنت رواحہ نے کہا میں راضی نہیں جب تک آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس پر گواہ نہ بناؤ۔ میرے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ عرض کی میں نے عمرہ بنت رواحہ سے پیدا ہونے والے اپنے بیٹے کو عطیہ دیا ہے۔ میری بیوی نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گواہ بنالوں۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

قال اعطيت سائر ولدک مثل هذا؟ قال لا.

’’فرمایا باقی اولاد کو بھی اتنا ہی دیا؟ انہوں نے عرض کی نہیں‘‘۔ فرمایا:

فاتقوا الله واعد لوا بين اولادکم قال فرجع فرد عطيته.

(صحيح بخاری، 1: 352)

’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں انصاف کرو۔ سو میرے والد نے واپس آکر اپنا عطیہ واپس لے لیا‘‘۔

ظلم پھر ظلم ہے۔ آپ نے قرآن و حدیث کی ہدایات پڑھ لیں۔ شخص مذکور نے باقی اولاد کے ہوتے ہوئے بھی اپنی زندگی میں اپنی تمام جائیداد اپنے پوتے کے نام ہبہ کردی۔ یہ ہبہ قانوناً نافذ ہوگیا اور ساری جائیداد کا مالک اس کا پوتا ہوجائے گا مگر اس شخص نے دوسرے وارثوں کو بالکل محروم کرکے ظلم کیا ہے۔ لہذا قانوناً اس کی تمام جائیداد کا مالک اس کا پوتا اس کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا۔ مرتے وقت تو اس کے پاس کچھ تھا ہی نہیں جو وارثوں میں تقسیم ہوتا۔ پس وارث محروم اور پوتا ہر شے کا مالک اور گناہ مرنے والے پر جس نے حقداروں میں انصاف نہ کیا اور اللہ کے فیصلہ کی خلاف ورزی کی۔ یہ ہے صحیح شرعی صورت۔

سوال: کیا مشترکہ وراثت کی زمین میں سے تقسیم سے پہلے ورثاء میں سے کوئی ایک اپنے حصے کی زمین زمین، مسجد یا مدرسہ وغیرہ کے لئے وقف کرسکتا ہے یا نہیں؟ وضاحت فرمادیں۔

جواب: باپ کے تمام ترکہ میں اولاد کا حق ہے لہذا غیر منقسم جائیداد میں سے دوسرے ورثاء کی اجازت کے بغیر کوئی ایک وارث اس جائیداد میں کوئی تصرف نہیں کرسکتا اور نہ بیچ سکتا ہے، نہ کسی کو ہبہ کرسکتا ہے نہ صدقہ و خیرات، نہ مسجد بناسکتا ہے نہ مدرسہ، نہ ہسپتال وغیرہ۔ جب ترکہ تقسیم ہوجائے اور ہر وارث اپنا حصہ الگ کرلے تو اپنے حصہ میں سے جہاں چاہے نیک کام میں رقم لگاسکتا ہے۔ لہذا جس بھائی نے اپنی ساری زمین مسجد پر وقف کردی ہے، اس نے غلط کیا۔ پہلے ہر ایک کا حصہ الگ کرنا تھا۔ تجہیز و تکفین، ادائیگی قرض (اگر قرض تھا) اور وصیت پر عمل کرنے کے بعد اگر مال بچ جائے تو وہ تمام بہن، بھائیوں میں شرعی اعتبار سے تقسیم ہوگا اور پھر کوئی اپنا حصہ وقف کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔