ایس ایچ صدیقی

واضح سوچ، مثبت پروگرام اور مخلص قیادت

اس وقت پوری قوم ایک عجیب کیفیت سے دوچار ہے۔ فکری لحاظ سے وہ سخت انتشار میں مبتلا ہے اور عملی لحاظ سے وہ گروہ در گروہ تقسیم ہوچکی ہے۔ اسے اپنے نصب العین کا واضح شعور حاصل ہے نہ اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق۔ وہ ہوا کے تند جھونکوں کے ساتھ ساتھ لمحہ بہ لمحہ اپنا رخ بدلتے رہنے پر مجبور نظر آتی ہے۔ اس کی آزادی، اس کی عصمت، اس کا ضمیر سب کچھ اس کے ’’قائدین‘‘ کے ہاتھوں غیر محفوظ ہے اور اس کے اندر حالات کا مقابلہ کرنے کی سکت تک باقی نہیں رہی ہے۔

یہ قوم امید و پیہم کے عالم میں کسی ایسے واقعہ کی منتظر نظر آتی ہے جو اسے اس مایوسی کی حالت سے نجات دلائے اور حالات کا مقابلہ کرنے بلکہ ان پر قابو پانے کا داعیہ پیدا کر سکے۔

ایسی صورت حال کسی بھی قوم کے مستقبل کے لئے خوش آئند نہیں ہوسکتی اور اس حالت میں سے نکلے بغیر کوئی بھی قوم ترقی و خوشحالی تو کجا اپنی بقا کی ضمانت بھی حاصل نہیں کرسکتی۔ اس لئے ہمارے لئے ناگزیر ہوگیا ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنے آپ کو اس تباہی و بربادی سے بچانے کی کوئی سبیل کریں جس کی طرف قوم کے ’’لیڈر‘‘ اسے تیز رفتاری سے لئے جا رہے ہیں۔

یہ بدیہی امر ہے کہ ہم اس وقت جس سنگین صورت حال سے دوچار ہیں اس میں سے نکلنے کے لئے ہمیں صحیح اور واضح سوچ، مثبت پروگرام اور مخلص قیادت کی ضرورت ہے۔ انہیں تین چیزوں کی کمی نے پاکستانی قوم کے مسائل کو الجھایا ہے اور انہی کی فراہمی قوم کو درپیش خطرات سے محفوظ کرسکتی ہے۔

جس بات نے قوم کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے وہ ہمارے اکثر سیاست دانوں کا خودغرضانہ اور مفاد پرستانہ طرز عمل ہے جو وہ عوامی مفاد کے بارے میں اختیار کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے ذاتی مقاصد اور مخصوص مفادات کے لئے کام کیا۔ اسلام اور جمہوریت کے نعروں کو انہوں نے عوام کو محض دھوکہ دینے اور ان کا استحصال کرنے کے لئے استعمال کیا۔ وہ انہیں یہی تاثر دیتے رہے کہ ان کے پیش نظر عوامی فلاح و بہبود ہی ہے۔

اب اس کا علاج اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک ایسی قیادت سامنے آئے جو اپنے وعدوں میں سچی ہو۔۔۔ جس کے قول اور عمل میں تضاد نہ ہو۔۔۔ جو ذاتی اغراض کو اجتماعی مفاد پر ترجیح نہ دیتی ہو۔۔۔ جسے اپنے نصب العین کا واضح شعور حاصل ہو۔۔۔ جو مختلف دلفریب نعروں کو محض اپنی مخصوص اغراض کے حصول کے لئے استعمال نہ کرے۔۔۔ جو ملک کے مسائل کا اپنے پاس واضح حل رکھتی ہو۔۔۔ جو زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھ کر ایک عادلانہ معاشرہ قائم کرنے کے لئے جان و مال کی بازی لگادینے پر آمادہ ہو۔

یہ کون نہیں جانتا کہ ہمارے موجودہ حکمران ان اوصاف سے عاری ہیں۔ اس لئے اس کا حل اس کے سوا اور کیا ہے کہ قوم کی کشتی کو بھنور سے نکالنے کے لئے ایسے افراد سامنے آئیں جو خودغرضی اور مفاد پرستی کی آلائشوں سے پاک ہوں اور جو اجتماعی مفاد اور معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے اپنی جان و مال اور صلاحیتوں کی قربانی دینے پر آمادہ ہوں نیز جمہوریت کے نام پر آمرانہ طرزِ حکومت کو ہمیشہ کے لئے ختم کرکے صحیح اور حقیقی جمہوری اور انسانی تصور کو جنم دیں۔

واضح اور مثبت سوچ کی ضرورت

یہ بات ذہن نشین رہے کہ واضح سوچ کے بغیر قوم کی صحیح رہنمائی ممکن نہیں ہے؟ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے بعد پاکستان کے کسی لیڈر نے بھی ایسی عملی سوچ کا مظاہرہ نہیں کیا ہے جو آزادی حاصل ہونے کے بعد قوم کو ایک بہترین نظام حکومت اور مثالی معاشرہ کے قیام میں مدد دیتی۔ ان نام نہاد حکمرانوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے ہمیں نوجوانوں، طالب علموں، مزدوروں، کسانوں، غریب عوام اور ذرائع و وسائل رکھنے والے انسان دوست افراد کی مدد سے خود اپنے طور پر فطرت کے محکم اصولوں کی بنیاد پر اور نئے حالات اور وقت کے تقاضوں کی روشنی میں سوچنا ہوگا اور اس سوچ کی بنیاد پر اپنے حال اور مستقبل کے لئے راہیں تجویز کرنا ہوں گی۔

قیام پاکستان کے تھوڑے ہی عرصہ بعد یہاں سیاسی قوت یا دوسرے الفاظ میں معاشرے کو تشکیل دینے کا اختیار، ایسے افراد کے ہاتھ میں محفوظ رہا جن کا تعلق عوام سے قطعاً نہ تھا بلکہ اس خاص طبقے سے تھا جنہیں انگریزوں کی غلامی کے دور میں سرکاری ملازمتوں میں خصوصی مراعات حاصل رہیں یا پھر جن کا اس سرسبز و شاداب سرزمین کے بیشتر حصے پر مالکانہ تسلط رہا۔ چند خاندانوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی عمائدین (Political Elite) در حقیقت مذہبی زعما (Religous Elite) کے تعاون سے پاکستان کے عوام پر حکومت کرتے رہے۔ ان کے عہد حکومت میں ایک طرف عوام کی غربت و افلاس میں اضافہ ہوا اور دوسری طرف گنتی کے اجارہ دار افراد کے ہاتھوں میں ملک کے بیشتر ذرائع و وسائل آتے چلے گئے۔ اس کا قدرتی نتیجہ یہی نکلا کہ معاشرہ متحارب گروہوں اور طبقوں میں بٹ گیا جو ایک دوسرے کے دشمن اور خون کے پیاسے بنتے چلے گئے۔ محبت اور باہمی تعاون کے بجائے نفرت و حقارت اور عدم تعاون کے جذبوں نے معاشرے کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کردیا اور نوبت اب یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ قوم کی اکثریت اپنے مسائل کے بارے میں بے بس اور انہیں حل کرنے کے اختیار سے محروم ہوچکی ہے۔

یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ اس لئے کہ عام طور پر عوام کے ذہنوں میں چند اجارہ دار سیاسی لیڈروں کی مسلسل کوششوں سے یہ بات بٹھادی گئی ہے کہ عوام صرف ووٹ دینے کا حق رکھتی ہیں، عملی سیاست میں حصہ لینے کا حق صرف چند سیاسی گھرانوں اور شخصیات ہی کو حاصل ہے کیونکہ وہی سیاست کے نشیب و فراز اور ضرورتوں سے واقف ہیں۔

اب اگر ہمیں ان روح فرسا حالات کو بدلنا ہے اور معاشرے کی تعمیر حق و انصاف کی بنیادوں پر کرنی ہے تو یہ تبھی ممکن ہے کہ ہم اجارہ دار سیاست دانوں کے چکر میں سے نکل کر حقیقی معنوں میں جمہوریت اور عوام کے حقوق کی بحالی کے لئے کوشش کریں۔ اس فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام سے چھٹکارا اور اس کی جگہ حقیقی جمہوری نظام اس وقت تک وجود میں نہیں آسکتا جب تک ہم خود میدان عمل میں نکلتے ہوئے اس مقصد کے حصول کے لئے جدوجہد کا آغاز نہ کردیں۔ اسی صورت یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ عوام کی قسمت بدلے گی اور پاکستان حقیقی جمہوریت اور امن و ترقی سے ہمکنار ہوسکے گا۔ پاکستان کے اجارہ دار طبقوں نے نوبت یہاں تک پہنچادی ہے کہ 1971ء میں پہلے یہ ملک دولخت ہوا اور اب دہشت گردی و انتہاء پسندی کے خاتمہ کے لئے موثر اور فیصلہ کن اقدامات نہ کرنے کہ وجہ سے ملکی بقاء خطرہ میں ہے۔ پاکستان کا مستقبل اس کے بغیر محفوظ ہوتا نظر نہیں آتا کہ سیاسی قوت کو سیاسی اجارہ داروں کے ہاتھوں سے چھین کر حقیقی معنوں میں عوام کے نمائندوں کے ہاتھوں میں دے دیا جائے۔ اس لئے ہمیں آئندہ اس بات کی بھرپور کوشش کرنا ہوگی کہ عوامی شعور کو بیدار کرکے ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو مضبوط اور صحت مند بنیادوں پر منظم کریں اور انہیں ہر طرح کی تحریص و تخریب کی آلہ کار قوتوں سے بچاتے ہوئے عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کے لئے ایک انقلابی قوت بنایا جائے۔ پاکستان نہ صرف وسائل کے اعتبار سے بلکہ افرادی قوت و قابلیت کے اعتبار سے بھی بے پناہ صلاحیتوں کا حامل ہے۔ لہذا اگر ہم اپنے آپ کو ان اجارہ دار حکمرانوں کے اثر سے آزاد کرلیں تو باہمی تعاون سے قوم کے افراد اپنے ملک اور قوم کے لئے مفید خدمات انجام دے سکتے ہیں۔

پاکستان کے عوام 67 سالوں کی جھوٹ اور نفرت پر مبنی سیاست کے بوجھ تلے دبے رہنے کے بعد اب یہ بات سمجھنے لگے ہیں کہ صحیح بات کون سی ہے اور غلط بات کون سی۔ وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ سابقہ متعدد ناخوشگوار تجربوں کے بعد بھی اب اگر وہ جھوٹ اور نفرت کی سیاست کو ترک نہیں کردیں گے تو جو آگ دوسروں کے گھروں کو لپیٹ میں لے چکی ہے وہ خود ان کے اپنے گھر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ جھوٹ اور نفرت پر مبنی سیاست کون سے عناصر کررہے ہیں اور کن مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے کررہے ہیں۔ وہ یہ جان چکے ہیں کہ اس گندی سیاست کوجاری رکھنے کے لئے وہ استحصالی طبقے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں جو قیام پاکستان سے قبل ہی سے جاگیرداروں اور سامراج کے آلہ کار کے طور پر محض اپنے مذموم مفادات کو تحفظ دینے کے لئے اسلام اور جمہوریت کے ناموں کو استعمال کرتے رہتے ہیں اور جو فی الحقیقت اسلامی تعلیمات کے حقیقی تقاضوں سے بغاوت کئے ہوئے ہیں۔ وہ حکمرانوں کے اس مستقل رویئے کو مزید گوارا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ جو بھی ان کے ووٹوں سے برسراقتدار آیا اس نے اپنے اس اقتدار کو مختلف حیلوں بہانوں سے دائمی بنانے اور عوام کے اقتدار اعلیٰ کو غصب کرنے کی کوشش کی اور ان کوششوں میں قوم کے سالہا سال ضائع کردیئے۔ اب عوام کے لئے یہ فیصلہ کرنا ناگزیرہوچکا ہے کہ اس ملک میں آئندہ ایسے واضح جمہوری خطوط وضع کریں کہ جنہیں بدلنے اور مسخ کرنے کی کسی کو بھی جرات نہ ہوسکے اور عوام کی مرضی پر کوئی بھی جماعت یا فرد اپنی مرضی مسلط نہ کرسکے۔ اس مقصد عظیم کو حاصل کرنے کے لئے جو بھی جتنی قربانی دے گا وہ اسی قدر خوش نصیب ہوگا۔

اچھی قیادت، مضبوط قوم

اس وقت پاکستان کی سیاست میں جو عام میلان پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ محدود اور غیر منصفانہ الیکشنوں کے ذریعے استحصالی طبقات سے تعلق رکھنے والے مالدار اور بااثر افراد کو (بظاہر عوام کے ووٹوں سے) حکومتی اختیار دلایا جائے اور استحصال زدہ عوام کو یہ باور کرایا جاتا رہے کہ یہی وہ جمہوریت ہے جس کے ذریعے ان کے مسائل حل کئے جاسکتے ہیں۔ یہ کھیل قیام پاکستان کے تھوڑے ہی عرصہ بعد سے اب تک بڑی کامیابی کے ساتھ کھیلا جاتا رہا ہے۔ اس سیاسی کھیل میں جو پتے استعمال کئے جاتے رہے ہیں وہ ’’نظریہ پاکستان‘‘ ’’جمہوریت‘‘ ’’اسلامی نظام‘‘ اور ’’ملکی سالمیت‘‘ کے ہیں۔ حقیقت کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو (جیسا کہ پاکستان کی 67 سالہ تاریخ سے ثابت ہوچکا ہے) یہ کھیل کھیلنے والے ملک اور قوم کے خیر خواہ نہیں ہیں اور انہوں نے ملک و قوم کو ذاتی مفادات کی خاطر سخت نقصان پہنچایا ہے۔ یہ اس ملک میں نہ تو جمہوریت لانا چاہتے ہیں، نہ یہ اسلامی نظام کے بارے میں کوئی واضح تصور رکھتے ہیں اور نہ ہی ملکی سلامتی کا تحفظ ان کے بس کی بات ہے۔ یہ تو محض اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں چاہے ملک کے عوام کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہوجائے۔ پے درپے حادثات و سانحات کے باوجود ہمارے سیاسی لیڈروں کی سیاست کے ڈھنگ اور حکمرانوں کے طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ان عناصر کو اپنا مذموم کھیل کھیلنے کی اسی طرح آزادی حاصل رہی تو خدانخواستہ یہ ملک کسی اور بڑے حادثہ کا شکار ہو جائے۔

کسی بھی قوم کے لیڈر اسے بناتے ہیں یا بگاڑتے ہیں۔ لیڈر اچھے ہوں تو قوم مضبوط ہوتی ہے اور ترقی کرتی ہے وہ اگر برے ہوں تو قوم کمزور ہوجاتی ہے اور تنزلی کی جانب سفر کرنے لگتی ہے۔ پاکستانی قوم کی یہ بدقسمتی ہے کہ معمار پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کے بعد سے اسے اب تک بہت کم ایسے لیڈر میسر آئے ہیں جنہوں نے اس امر کی کوشش کی ہے کہ قوم کے پسماندہ اور مظلوم غریب عوام کو ذلت آمیز زندگی سے نجات دلاکر خوشحال اور باوقار بنایا جائے۔ وہ ایسا کرتے بھی کیوں؟ ان کا تعلق تو بیشتر ان اجارہ دار طبقوں اور عناصر سے تھا جن کا وجود عوام کے استحصال کا مرہون منت تھا اور قیام پاکستان سے قبل برطانوی سامراج نے اپنے قائم کردہ استحصالی نظام میں اپنی مطلب براری کے لئے انہیں عوام پر مسلط کرکے سیاہ و سفید کا مالک بنادیا تھا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ نظام انتخابات کو جو کسی بھی آزاد مملکت میں بسنے والی قوم کے لئے ترقی کی منزلیں طے کرنے کا پہلا زینہ ہوا کرتا ہے، پاکستان کے حکمرانوں نے پس پشت ڈال دیا اور چند حکمران خاندان آپس کی ملی بھگت سے اور نوکر شاہی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے، عوام کی گردنوں پر سوار ہوگئے اور ان کے لئے نئی نئی مشکلات پیدا کرتے چلے گئے اور خود اپنے لئے وسائل دولت سمیٹتے رہے۔

انہوں نے عوام میں تعلیم عام نہیں ہونے دی، انہیں تنگیِ روزگار اور جاہلانہ رسم و رواج میں الجھائے رکھا اور عوامی شعور کو کند کرنے اور غیر جمہوری رویوں کو فروغ دینے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا۔ یہی سب کچھ اس بات کا سبب بنا کہ ملکی معاملات کو چلانے کے تجربہ سے تہی دامن حکمرانوں نے ایک طرف غیر جمہوری اقدامات کے ذریعے، لامتناہی سیاسی، معاشی، معاشرتی مسائل کھڑے کردیئے اور دوسری طرف عالمی سطح کا وژن نہ رکھنے کی وجہ سے عالمی طاقتوں کے ساتھ ملکی و قومی مفادات کے مطابق معاملات چلانے کے بجائے اپنی غلامانہ روش کی بنا پر پاکستانی قوم کے لئے سخت مشکلات پیدا کردیں۔

ان تمام نتائج کی ذمہ داری سیاسی لیڈروں پر عائد ہوتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے ابتدائی چار پانچ سال چھوڑ کر، جو لٹے پٹے مہاجرین کو آباد کرنے اور ایک نئے ملک کو درپیش سنگین مسائل کو سلجھانے میں صرف ہوئے، باقی برسوں میں مختلف اوقات میں جمہوریت کے حق میں چلنے والی متعدد سیاسی تحریکوں کے دوران سیاسی لیڈروں کو کئی بیش بہا مواقع میسر آتے رہے جن سے فائدہ اٹھا کر وہ درپیش مسائل اور ان کے حل کے طریقوں سے قوم کو آگاہ کرکے اور اسے اعتماد میں لے کر عوام کی سیاسی تربیت کرسکتے تھے اور ان میں مرکزی اور صوبائی سطحوں پر دوسری اور تیسری سطح کی منجھی ہوئی سیاسی قیادت تیار کرکے ان کی مدد سے وہ سامراج کے پیچھے چھوڑے ہوئے استحصالی انتظامی و معاشی ڈھانچے کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوسکتے تھے۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ وہ ایسا کرتے بھی کیوں۔ اس سے تو ان کے اپنے مفاد پر زد پڑتی تھی۔ وہ جمہوریت کے مزاج سے واقفیت نہ رکھتے تھے۔ ان کی سیاسی تربیت ہی ایسے ماحول میں ہوئی تھی جہاں وہ اپنے آپ کو عوام کے سامنے جوابدہ نہ سمجھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ عوام ان کا محاسبہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ان لیڈروں کا وجود چونکہ جمہوری الیکشن کے عمل کا محتاج نہیں تھا بلکہ زیادہ تر جوڑ توڑ یا بیرونی طاقتوں کی حمایت کے ذریعے حاصل کردہ آمرانہ تسلط کی بنا پر ایوان اقتدار میں براجمان سربراہان مملکت کے قرب و عنایات کی وجہ سے تھا اس لئے وہ اس کی چنداں ضرورت ہی محسو س نہ کرتے تھے کہ ملک کے عوام کو بھی اعتماد میں لیں اور انہیں اپنا شریک سفر بنائیں۔

چنانچہ ہمارے لئے اس کے سوا کوئی دوسرا باعزت اور پروقار راستہ نہیں ہے کہ ہم سب مل کر بے بہا قربانیوں کے ذریعے حاصل کردہ اپنے اس ملک میں جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لئے مخلصانہ کوششیں کریں اور اس راہ میں ایڑی چوٹی کازور لگادیں۔ اسی میں ہماری اپنی ذات کی، قوم کی اور ملک عزیز کی بھلائی اور سلامتی مضمر ہے۔

جمہوریت کے تقاضے

اب ہم اس بات پر غور کریں گے کہ سیاسی عمل اور جمہوریت کے حقیقی تقاضے کیا ہیں اور انہیں کس طرح پورا کیا جاسکتا ہے؟ عوام کی حقیقی ضرورتیں کیا ہیں جنہیں پورا کرنا سیاسی لیڈروں کی ذمہ داری ہے؟ ہمارے ملک کے اصل مسائل کیا ہیں جن کی طرف سیاسی لیڈروں کو متوجہ ہونا چاہئے؟ وہ کون سی خصوصیات ہیں جو ایک سیاسی لیڈر میں ہونی چاہئیں جن کے بغیر وہ قائد کہلائے جانے کا مستحق نہیں ہے؟

پاکستانی قوم کو کم ہی ایسے لیڈر میسر آئے ہیں جنہوں نے قوم کے پس ماندہ اور مظلوم طبقوں کو ذلت آمیز زندگی سے نکال کر خوشحال اور باوقار بنانے کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا ہو۔ اس صورتحال کی وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت زیادہ تر جاگیرداروں کے ہاتھوں میں رہی اور انہوں نے برطانوی استعماری مقاصد کے تحت وضع کردہ نوکر شاہی اور عوام کو علم کی دولت سے محروم کرنے اور انہیں بالائی طبقوں کے معاشی جبر پر راضی رکھنے والوں سے گٹھ جوڑ کرکے نچلے محروم طبقوں کو تنگی روزگار اور جاہلانہ رسم و رواج میں جکڑ دیا اور ان میں آزادی کی امنگ اور ظلم و جبر کے خلاف بغاوت کے فطری جذبات کو اور ترقی کرنے کی خواہش کو کچل کر رکھ دیا۔ انہوں نے عوام میں سرے سے اس تصور ہی کو ختم کردیا کہ اس ملک پر حکمرانی اور قوم کی ضروریات کی فراہمی کا حق دراصل اس اکثریت کا ہے جسے عرف عام میں عوام کہا جاتا ہے۔

عوام کی اس حکمرانی کو نافذ العمل کرنے کا واحد ذریعہ ایک ایسا باضابطہ آئین ہوا کرتا ہے جو ان کے اس حق کا نہ صرف باقاعدہ اعلان کرے بلکہ اس کے تحفظ کا بھی پورا پورا بندوبست کرے اور اسے ممکن بنانے کے لئے مرحلہ وار لائحہ عمل طے کرے۔ یہ اجارہ دار طبقہ جو پاکستان بنتے ہی اختیار حکمرانی پر قابض ہوگیا تھا عوام کو اقتدار کی منتقلی کے لئے ہرگز رضا مند نہ ہوسکتا تھا۔ چنانچہ اس نے 1973ء تک پورے چھبیس سال ’’عوام کے حق میں‘‘ ملک کا آئین نہ بننے دیا اور جب بالآخر 1973ء کے آئین کی صورت میں ایک متفقہ دستور بنا بھی تو عوام کے حقِ حکمرانی کے خلاف گھنائونی سازش کے ذریعے ملک کے جاگیردار طبقے نے عوام کی بنیادی آزادیاں سلب کرکے انہیں بدترین معاشی و سماجی استحصال کا نشانہ بنایا تاکہ ان کی قوت کو کمزور اور منتشر کرکے اجارہ دار طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ رہنے دیا جائے۔

یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ جب تک موجودہ نظام حکومت و سیاست مندرجہ بالا عناصر کے رحم و کرم پر قائم ہے اس وقت تک عوام کی بہتری، قوم کی سربلندی اور ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے موثر کارکردگی ممکن نہیں ہے چاہے ہم اس کے لئے نجی اور سرکاری سطح پر کتنے ہی منصوبے بنائیں اور نیک خواہشات کے کیسے ہی انبار لگائیں۔ یہ سارے کام صرف اس صورت میں ہوسکتے ہیں جبکہ نہ صرف سیاسی سطح پر جمہوریت اپنی حقیقی شکل میں قائم ہو بلکہ جمہوری کلچر کے طور پر قوم کی سوچ کا حصہ بن جائے اور اکثر لوگ اپنے روزمرہ کے معاملات (خواہ وہ خاندانی امور ہوں یا کاروباری و انتظامی) کو باہمی مشورے سے نمٹانے کے عادی نہ ہوجائیں۔ گویا قومی اور حکومتی سطح پر جمہوریت کو اس طرح اپنائے بغیر مثبت پیش رفت نہیں ہوسکتی۔

ایک اور بات جو ہمیں ہمہ وقت اپنے ذہن میں رکھنی چاہئے یہ ہے کہ ہمارے ملک کے جاگیردار ہوں، صنعت کار ہوں، تاجر ہوں، سول و فوجی بیوروکریسی ہو یا مذہبی پیشوا سب کے سب ہماری قوم کا حصہ ہیں اور ان سب کا مفاد فی الحقیقت قوم کے مفاد سے وابستہ ہے۔ اگر یہ تمام عناصر اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کو کسی طرح محدود کرسکیں یا ان پر قابو پاسکیں اور عوام کے مفاد کو ترجیح دے سکیں تو اس اصول کی عملی تعبیر دیکھنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ ’’اکثریت کی بہتری ہی میں اقلیت کی بہتری ہوا کرتی ہے‘‘۔ اس لئے یہ بات ہم سب کے سوچنے کی ہے کہ آخر کب تک اور کس حد تک، ہم ملک کے حالات کو بگڑتے دیکھتے چلے جائیں گے؟ انہیں بہتر بنانے کے لئے اپنے کردار کا آغاز ہم کب کریں گے؟

اجتماعی نظم کی ضرورت

ملک کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی حالات کو بہتر بنانے اور قوم کو ترقی کی راہوں پر لے چلنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنی سمت سفر کو درست کریں اور یہاں کے سیاسی عمل کو جمہوری خطوط پر استوار کریں اور قومی تعمیر کے جذبے سے سرشار اور خدا و خلق کے سامنے جوابدہی کے احساس سے معمور ہوکر قوم و ملک کی خدمت پر کمربستہ ہوجائیں۔ یہ خدمت بے سوچے سمجھے اور غیر منظم انداز میں اور متلون مزاجی سے انجام نہیں دی جاسکتی۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ افراد اپنے آپ کو اجتماعی ہئیت کی شکل دیں اور اپنے آپ کو باقاعدہ منظم کریں۔

افراد قوم کو اس امر کی جانب بھی متوجہ ہونا ہوگا کہ وہ اپنے انفرادی مفاد کے ساتھ ساتھ اجتماعی مفادات کے لئے بھی اپنے وقت اور مال کی قربانی دیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سیاسی پارٹیوں کی بیشتر قیادت قوم و ملک کی ترقی اور سالمیت کے تقاضوں سے عاری ہے۔ وہ اقتدار کے حصول کی کشمکش میں باہم دست و گریباں ہے۔ جو دھڑا بھی برسراقتدار آتا ہے وہ بیس، پچیس سال تک برسر اقتدار رہنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اپنی مرضی سے کرسی اقتدار چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ وہ ملک کی پولیس اور عدالتی نظام کو جو دراصل عوام کی مشکلات میں کمی اور ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے ریاستی مشینری کا حصہ ہوتے ہیں، اپنے مخالفین اور حزب اختلاف کی پارٹیوں کے ارکان پر جبرو تشدد کرنے اور ان پر جھوٹے مقدمات قائم کرکے ان کی زندگی اجیرن کردینے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

اگر ان سے کہا جائے کہ ملک کے حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے تصور کو پانچ دس سال کے لئے خیرباد کہہ کر ایک ’’قومی حکومت‘‘ قائم کی جانی چاہئے جو قوم کے تمام عناصر کو آپس میں جوڑ کر، ہنگامی بنیادوں پر، قوم و ملک کو موجودہ انتہائی پیچیدہ حالات میں سے نکال کر سلامتی کے راستے پر چلاسکے تو وہ کہیں گے کہ ہم تو ابھی ابھی عوام سے حکمرانی کا بھرپور اختیار (Clear mandate) لے کر آئے ہیں اس لئے ہمیں تو بلاشرکت غیرے حکومت کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ انہیں کون سمجھائے کہ جس دلدل میں ملک پھنس چکا ہے اس میں سے کوئی بھی سیاسی پارٹی اسے اکیلے نہیں نکال سکتی خواہ وہ اسمبلیوں کی سوفیصد نشستیں بھی حاصل کرلے۔ انہیں کون بتائے کہ حالات کا تقاضا یہی ہے کہ پوری قوم جنگی حالات میں مقابلہ کی تیاری کے طرز پر (on War-footing) موجودہ ناگفتہ بہ حالات میں سے اپنے آپ کو نکالنے کے لئے کمربستہ ہوجائے۔ قومی سطح پر جدوجہد کے ذریعے اس سیاسی و انتخابی نظام کی اصلاح و تطہیر اور حالات کو ایک حد تک درست کرلینے کے بعد ازسر نو جعل سازی سے پاک انتخابات کا انعقاد کرکے بہتر حالات میں جمہوری عمل کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔

اگر ہمیں اپنے ملک سے محبت اور اپنی قوم سے لگائو ہے۔ اگر ہم میں ملک کی خیر خواہی کا جذبہ ہے، ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی سے دلچسپی ہے، اپنے اور اپنے اہل و عیال کے مستقبل کا لحاظ ہے اور اگر ہم اپنے سماج کو انسانی بھائی چارا، امن، پیارو محبت اور روحانی بالیدگی کی بنیاد پر قائم کرنا چاہتے ہیں اور ایک دوسرے کی بھلائی کے لئے جینا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنے ملک کے انتخابی نظام کو درست کرنے کے لئے اپنی پوری توانائیاں صرف کرنی ہوں گی۔ مندرجہ بالا خطوط پر انتخابی نظام کو درست کئے بغیر کوئی بھی الیکشن عوام کے حق میں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکے گا۔ ہمیں اپنے آپ کو ان تمام اجارہ دار قوتوں سے جو عوام کا خون چوس رہی ہیں آزاد کرانا ہوگا اور ان سے حکومت کرنے کا اختیار حاصل کرکے اس کے اصل حقداروں یعنی ملک کے باصلاحیت، حوصلہ مند اور باوقار عوام کی طرف منتقل کرنا ہوگا۔ جو کوئی اس جدوجہد میں آگے بڑھ کر اپنی قربانی پیش کرے گا وہ کامیاب وکامران ہوگا اور جو اس سے جی چرائے گا اور دور بھاگے گا وہ خسارے اور نامرادی کا سزاوار ٹھہرے گا۔ کامیابی اور ناکامی دونوں اپنی اپنی جگہ ہمارے فیصلے کی منتظر ہیں۔

حرفِ آخر!

کسی بھی ملک کی ترقی و استحکام اور اس کے باشندوں کی صلاحیتوں کے نشوونما کے لئے ضروری ہے کہ انہیں جمہوریت اور امن و سکون کی فضا میسر آئے۔جمہوری قیادت، جمہوری اداروں اورجمہوری عمل کے بغیر عامۃ الناس کبھی سکھ کا سانس نہیں لے سکتے۔ جمہوریت کے بغیر معاشی، سیاسی، سماجی، تہذیبی، اخلاقی اور روحانی کسی بھی لحاظ سے انسان کے لئے ترقی کرنا، اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا اور آگے بڑھنا ناممکن ہوجاتا ہے۔

پاکستان کے قیام کا جواز صرف اسی صورت میں تھا جبکہ اس ملک میں پاکستانی قوم کی تعمیر حقیقی جمہوری بنیادوں پر کی جاتی اور جمہوری اصولوں پر چلتے ہوئے اس نظریہ کو عمل کے میدان میں یہاں کی معاشرتی زندگی، یہاں کے اداروں اور حکومتی نظام میں جاری و ساری کرنے کی کوشش کی جاتی، جسے بنیاد بناکر اور جس کے بلند و بانگ دعوے کرکے اتنا بڑا تاریخی اقدام کیا گیا تھا۔ لیکن یہ کسے معلوم نہیں کہ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کے بعد یہاں پر قائم ہونے والی تمام حکومتوں نے اس بنیادی وعدے کو پورا کرنے کے بجائے (جو قیام پاکستان کا جواز تھا) یہاں کی معیشت اور سیاست میں اجارہ داریوں کو فروغ دیا، عوام کے بنیادی حقوق اور ایک ایک کرکے تمام آزادیوں کو سلب کیا، غربت و افلاس میں اضافہ کیا، ملک کو عالمی سامراج کی جھولی میں ڈال دیا اور اس ملک کی ننانوے فی صد آبادی کو ایک فی صدی جاگیرداروں اور عالمی سامراجی طاقتوں کی آلہ کار سیاسی و معاشی اجارہ داریوں کے ملک دشمن مفادات کا غلام بناکر رکھ دیا۔

ملک کے اندرونی حالات کا جائزہ لیا جائے تو رشوت ستانی میں روز افزوں اضافہ، ملک کی کارکردگی میں افسوس ناک حد تک کمی، ملک کے نوجوانوں میں بیروزگاری کا مہیب سایہ، معاشرے میں بدامنی، لوٹ مار اور قتل و غارت گری کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ، صحت، تعلیم، شہری سہولتوں اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں شدید انحطاط، دیہات میں کسانوں اور چھوٹے زمینداروں کے حقوق کی عدم ادائیگی اور ان کی پیداوار میں کمی، ملک کی صنعتی ترقی میں تجارت کے شعبہ میں ذخیرہ اندوزی، چور بازاری، سمگلنگ وغیرہ کی لعنتوں میں روز بروز اضافہ، غیر ترقیاتی کاموں پر بے جا اخراجات، ترقیاتی کاموں سے مجرمانہ صرف نظر، مثبت سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کو منظم کرنے نیز جمہوری اداروں اور سیاسی عمل کو مستحکم کرنے میں افسوس ناک غفلت اور قومی آزادی و وقار کے منافی خارجہ پالیسی، وہ چند امور ہیں جن کی طرف فوری توجہ دے کر انہیں درست کرنے کی ضرورت ہے۔

لیکن ان امور کو صرف اس صورت میں درست کیا جاسکتا ہے جبکہ ہم بحیثیت قوم اور ہمارے سیاسی لیڈر بحیثیت رہنمائِ قوم، اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس کریں اور ذاتی، گروہی و جماعتی مفادات سے بالاتر ہوکر قومی مفاد کو پیش نظر رکھیں۔ ہمارے سیاسی لیڈر شعوری و غیر شعوری طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جو چاہیں کریں اور جس طرح چاہیں قوم کی قسمت سے کھیلیں، انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں، نہ پارٹی کارکنوں کے سامنے اور نہ عوام کے روبرو۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر طرح کے جوڑ توڑ اور سودے بازی کو اور ناجائز الاٹ منٹوں اور پرمٹوں کو انتہائی ڈھٹائی سے سیاست کا حصہ سمجھنے لگے ہیں اور ان کاموں کے کرنے میں کسی قسم کی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ قوم کی طرف سے ان کے محاسبہ کے لئے کسی موثر نظام کی عدم موجودگی ہی نے دراصل ہمارے لیڈروں کو لاپرواہ اور بے خوف بنایا ہے اور ہمیں اس حال تک پہنچایا ہے کہ ہم اپنے آپ کو حالات کے سامنے بے بس پاتے ہیں اور گوناگوں مشکلات و مصائب کا شکار ہیں۔

اگر ہم اپنے مستقبل کو محفوظ اور تابناک بنانا چاہتے ہیں تو پاکستان کے عوام کو، خصوصاً باشعور سیاسی کارکنوں کو، آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور خاموش تماشائی بنے رہنے کا اپنا اب تک کا کردار ترک کرنا ہوگا۔ حالات اب اس خطرناک حد تک پہنچ چکے ہیں کہ ہم اپنے موجودہ حکمرانوں اور موجود سیاسی قیادت پر اندھا اعتماد نہیں کرسکتے۔ ہم انہیں اس بات کی مزید اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ من مانے طریقے سے ہم پر برے حالات مسلط کرتے رہیں اور سیاست کو ایک سنجیدہ عمل اور عبادت کا درجہ دینے کے بجائے محض کھیل سمجھ کر اس سے کھیلتے رہیں۔