حکیم محمد طارق محمود چغتائی

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں اسلام ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج 1400 سال گذر جانے کے باوجود پیغمبر اسلام کی تعلیمات نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہر انسانی معاشرے کے لئے مشعل راہ ہیں۔ جدید سائنس بھی ان تعلیمات سے متاثر ہے اور یہ کہنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ انسانی وجود کی سالمیت اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے ہی ممکن ہے۔ ذیل میں معمولات زندگی کے حوالے سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کے متعلق چند سائنسی اعترافات اور فوائد کا تذکرہ پیش کیا جا رہا ہے۔

اچھے نام کے اثرات

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے متعدد فرامین میں بچوں کے اچھے نام رکھنے کی طرف متوجہ کیا۔ ارشاد فرمایا:

لوگو تم قیامت میں اپنے اور باپوں کے نام سے پکارے جاؤ گے پس تم اپنا نام اچھا رکھا کرو۔ (ابوداؤد)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: جس نام میں عبدیت اور خدا کی تعریف کا ظہور ہوتا ہے وہ نام اللہ کو بہت پیارا ہے۔ (بخاری)

حضرت ابووہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم پیغمبروں کے نام پر نام رکھا کرو اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ پیارا نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہے اور سب سے سچا نام حارث اور ہمام ہے۔ (ابوداؤد، نسائی)

جدید سائنس نے اچھے ناموں کو پسند کیا ہے۔ ان کی پسند دراصل ناموں کے الفاظ اور پھر ان کے اثرات کی وجہ سے ہے۔ پیراسائیکالوجی کے ماہر پروفیسر پیرل ماسٹر نے اپنی حالیہ تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ

نام زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں حتی کہ نام کے الفاظ کا ترجمہ بھی اپنے فوائد اور اثرات بدل دیتا ہے۔ پروفیسر کے مطابق ’’میں نے ’’رحیم‘‘ اور ’’پرویز‘‘ کا موازنہ کیا تو ’’رحیم‘‘ سے سبز اور سفید روشنی نکلتی ہوئی نظر آئی اور ’’پرویز‘‘ سے سیاہ اور نسواری رنگ کی روشنی مترشح ہورہی تھی۔

یہی کیفیت تعویذ کے فوائد اور اس کے الفاظ کی ہے۔ طاقت دراصل الفاظ میں ہے، چاہے وہ نام کی شکل میں ہو یا وہی نام تعویذ کی شکل میں ہو۔

اعمال، ناموں کو مبارک یا بد بنادیتے ہیں۔ فرعون، نمرود یا یزید کچھ الفاظ کا مجموعہ ہے لیکن ان کی تاریک لہریں سننے والے کے اندر نفرت اور ظلمت پیدا کردیتی ہیں اور عجیب و غریب اثرات پیدا ہوتے ہیں۔

میرے پاس ایک صاحب علاج کی غرض سے آئے۔ گفتگو کے دوران انہوں نے اپنا ذاتی واقعہ بیان کیا کہ میرے گدھے کے پیٹ کے قریب گہرا زخم ہوگیا، بہت علاج کرائے لیکن افاقہ نہ ہوا۔ حتی کہ اس میں کیڑے پڑگئے۔ ایک صاحب نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا گدھا تندرست ہوجائے، کیڑے ختم ہوجائیں اور زخم مندمل ہوجائے تو تین پکے سود خوروں کے نام کاغذ پر لکھ کر گدھے کے گلے میں باندھ دو۔ پہلے تو مجھے حیرانگی ہوئی کہ اس سے کیا ہوگا لیکن اس کے اصرار پر میں نے اپنے علاقے کے تین سود خوروں کے نام کاغذ پر لکھ کر گدھے کے گلے میں لٹکادیئے۔ آپ حیران ہوں گے کہ صرف تین دن کے اندر اندر میرا گدھا ہر لحاظ سے تندرست ہوگیا، کیڑے مرگئے اور زخم بھرگئے۔

گویا بداعمالی انسان کو اتنا زہریلا بنادیتی ہے کہ اُس کا نام بھی مکروہ اور زہریلا ہوجاتا ہے۔ اسی بداعمالی کے سبب قرآن مجید کے مطابق انسان جانوروں سے بدتر ہوجاتا ہے۔ سود خوری نے ان کو اتنا مکروہ بنادیا کہ ان کا نام بھی زہر آلود ہوگیا۔ یہ اسی طرح ہے جیسے کینسر، ناسور، گلے سڑے زخموں کیلئے زہریلی ادویات، سپرے یا مرہم استعمال کرنے سے یہ بیماریاں ختم ہوجاتی ہیں۔

مغربی دانشوروں کا خیال ہے کہ انسان کے جسم سے مختلف رنگ کی شعاعیں نکلتی ہیں جو جسم کے اردگرد ایک ہالہ سا بناتی ہیں۔ یہ شعاعیں اورا کہلاتی ہیں۔ یہ شعاعیں ہر آدمی خارج کرتا ہے خواہ وہ نیک ہو یا بد۔ فرق یہ ہے کہ نیک و بد کی شعاؤں کا رنگ حسب کردار مختلف ہوتا ہے۔ موت سے عین پہلے یہ اورا نیلگوں مائل بہ سیاہی ہوجاتا ہے۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ ہر انسان اپنے اعمال کے مطابق ایک ماحول اپنے اردگرد بنالیتا ہے۔ بدکار کا ماحول دیوار کی طرح سخت ہوتا ہے جس سے نہ کوئی فریاد یا دعا باہر جاسکتی ہے اور نہ کا سمک ورلڈ کے عمدہ اثرات اندر آسکتے ہیں۔ ایسا آدمی خفیہ طاقتوں کی امداد سے محروم ہوجاتا ہے۔ ممکن ہے کہ قرآن حکیم کے ’’حجاب، غشاوہ (پردہ) ستر (دیوار) اور غلف (غلاف) سے مراد یہی ماحول ہو‘‘، ڈاکٹر کرنگٹن کا خیال یہ ہے کہ

’’اورا وہ غیر مرئی مقناطیسی روشنی ہے جو انسانی جسم سے خارج ہوتی ہے۔ یہ یا تو دوسروں کو اپنی طرف کھینچتی ہے، یا پرے دھکیل دیتی ہے‘‘۔

اس قسم کی شعاعوں سے انکار ناممکن ہے کیونکہ بعض افراد کی طرف کھینچنا اور بعض سے دور بھاگنا ہمارا روزانہ کا تجربہ ہے۔ یہ شعاعیں جسم خاکی اور جسم لطیف دونوں سے خارج ہوتی ہیں۔ نیک کردار لوگ جسم لطیف کی شعاعوں سے دنیا کو کھینچتے ہیں اور دنیا عقیدت، ایمان اور تنظیم کے تحائف لے کر ان کے ہاں جاتی ہے۔ دوسری طرف جسمانی شعاعیں بعض سفلی جذبات میں تو ہیجان پیدا کرسکتی ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتیں۔

فلسفہ دعا و عبادات

دعا و عبادت کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ ماہرین روحانیات کے ہاں ہر حرف کا ایک خاص رنگ، اور اس میںایک خاص طاقت ہوتی ہے۔ غیب بینوں نے حروف کو لکھ کر تیسری آنکھ سے دیکھا تو انہیں ’’الف‘‘ کا رنگ سرخ، ’’ب‘‘ کا نیلا، ’’و‘‘ کا سبز اور ’’س‘‘ کا رنگ زرد نظر آیا۔ پھر ان کے اثرات کا جائزہ لیا تو بعض الفاظ کے پڑھنے سے بیماریاں جاتی رہیں۔ بعض سے بچھو کے ڈنگ کی تکلیف غائب ہوگئی اور بعض سے سانپ تک پکڑ لئے گئے۔ انبیاء کرام اور اولیاء عظام کی روحانی قوت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ان کے کلمات میں حیرت انگیز طاقت پائی جاتی ہے، اتنی طاقت کہ ایک صاحب دل ان سے خطرناک امراض و آلام تک دور کرسکتا ہے۔

تعویذ کی طاقت کا راز بھی یہی ہے کہ ’’ایک تعویذ یا ٹوٹکہ، جس میں کوئی زبردست مقناطیسی شخصیت کسی خاص مقصد کے لئے مقناطیسی طاقت بھر دے، بہت مفید ثابت ہوتا ہے‘‘۔

پادری لیڈیٹیر یورپ کے مشہور دانشور میں سے تھے۔ ان کی وفات غالباً 1935ء میں ہوئی۔ یہ جسم لطیف میں دور دور تک پرواز کرتے اور مخفی اشیاء کو دیکھ سکتے تھے، وہ اپنی کتاب The Masters and the path کے صفحہ 136 پر لکھتے ہیں کہ

’’ہر لفظ ایتھر میں ایک خاص شکل اختیار کرلیتا ہے مثلاً لفظ ’’نفرت‘‘ اس قدر بھیانک صورت میں بدل جاتا ہے کہ ایک مرتبہ میں نے یہ صورت دیکھ لی اور اس کے بعد مجھے یہ لفظ استعمال کرنے کی کبھی جرات نہ ہوئی۔ اس منظر سے مجھے انتہائی ذہنی کوفت ہوئی تھی‘‘۔

اس کتاب میں یہ واقعہ بھی درج ہے کہ ایک محفل میں چند احباب گفتگو میں مصروف تھے اور میں ذرا دور بیٹھ کر ان کے اجسام لطیفہ کا مشاہدہ کررہا تھا۔ ایک نے کسی بات پر زور سے قہقہہ لگایا، ساتھ ہی کوئی پھبتی کس دی۔ اس کے اس عمل کے فوراً بعد اس کے جسم لطیف پر گہرے نسواری رنگ کا ایک ایسا جالا تن گیا، جسے دیکھ کر انتہائی کراہت پیدا ہوئی۔

الہامی الفاظ اور اسمائے الہٰی میں اتنی طاقت ہے کہ ان کے ورد سے ہماری پریشانیاں اور بیماریاں دور ہوجاتی ہیں۔ مسلمان اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کے پاس اللہ کے ننانوے صفاتی نام مثلاً رحیم، کریم، غفور، خبیر وغیرہ موجود ہیں۔ جنہیں حسب حاجت پکارا جاسکتا ہے۔ الفاظ کی یہ طاقت اصل حروف میں ہوتی ہے۔ اگر کسی لفظ کا ترجمہ کردیا جائے تو وہ بات نہیں رہتی اور اثر بدل جاتا ہے۔ جو طاقت ’’یارحیم‘‘ میں ہے وہ ’’یا مہربان‘‘ میں نہیں۔ قوت کا جو خزانہ الہامی الفاظ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجویز کردہ دعاؤں میں ہے، وہ ہمارے الفاظ میں نہیں ہوسکتا۔

ہر لفظ ایک یونٹ یا آئٹم ہے جسے اندرونی جذبات کی بجلیاں چارج کرتی ہیں اور اس کے اثرات اس عالم خاکی اور عالمِ لطیف (کا سمک یا آسٹرل ورلڈ) دونوں میں نمودار ہوتے ہیں۔ اس کی ہلکی سی ایک مثال گالی ہے۔ گالی کسی تلوار یا توپ کا نام نہیں بلکہ یہ چند الفاظ کا مجموعہ ہے لیکن منہ سے نکلتے ہی مخاطب کے تن بدن میں آگ لگادیتی ہے۔ یہ آگ کہاں سے آتی ہے؟ الفاظ کے اس مجوعہ سے۔

اس کی ایک اور مثال وہ ’’کراہ‘‘ یا ’’چیخ‘‘ ہے، جو کسی دکھیا کے منہ سے نکل کر، تمام ماحول کو بے چین کردیتی ہے، یا وہ تقریر ہے جو کوئی آتش بیان جرنیل، بے ہمت فوج کے سامنے جھاڑتا ہے اور ہر سپاہی میں اس قدر آگ بھردیتا ہے کہ وہ موت کے سیلابوں اور طوفانوں سے بھی نہیں بجھ سکتی۔

آرام / نیند

اچھے ناموں کے اثرات کے بعد اب ہم آرام/ نیند کے طریقہ کار کے حوالے سے اسلام اور جدید سائنس کے تناظر میں بات کریں گے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں آرام کرنا یا سونا کس طرح ہمارے اوپر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے، جن کی تصدیق آج جدید سائنس بھی کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین میں سے کوئی آدمی بھی کبھی بھی بے خوابی کا شکار نہیں ہوا، اس کی وجہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ مبارک طریقہ ہے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آرام فرماتے تھے۔ آیئے اس مبارک طریقہ کو میڈیکل اور سائنس کی رو سے دیکھیں کہ یہ طریقہ موجودہ انسانی زندگی کے لئے کس طرح مفید اور موثر ہے؟

دائیں کروٹ لیٹنا

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دائیں جانب رو بقبلہ ہوکر آرام فرماتے تھے۔ دل بائیں طرف ہے اگر بائیں طرف لیٹیں تو دل کے امراض پیدا ہونے کا قوی خطرہ ہوتا ہے۔ کیونکہ بائیں کروٹ لیٹنے سے معدہ اور آنتوں کا بوجھ دل پر پڑتا ہے جس کی وجہ سے دوران خون اور دل کی حرکات میں کمی پیدا ہوجاتی ہے۔ نیند کے بارے میں تجربات سے یہ چیز واضح ہوئی کہ جن مریضوں کو مسلسل دائیں کروٹ سلایا گیا وہ مریض بہت جلد صحت یاب ہوگئے اور جن مریضوں کو بائیں کروٹ سونے دیا گیا وہ مریض بے چین ہی رہے۔ جدید تحقیق سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دائیں طرف سونا دل اور معدے کے امراض سے بچاتا ہے۔ حتی کہ بے ہوشی اور مسلسل بے ہوشی سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔

صاحب مدارج النبوۃ نے اس کی حکمت یہ نقل کی ہے کہ چونکہ بائیں جانب دل ہوتا ہے اگر اس کروٹ کے بل سویا جائے تو نیند بہت گہری آتی ہے۔ حتی کہ آدمی اپنے آپ سے بالکل بے خبر ہوجاتا ہے ہلکی آہٹ پر بھی آنکھ نہیں کھلتی، ظاہر ہے کہ ایسی نیند محمود نہیں۔ اگر دائیں کروٹ سویا جائے تو دل معلق رہتا ہے اور شدید گہری نیند نہیں آتی۔ یعنی ذرا سی آہٹ پر آنکھ کھل جاتی ہے۔ اس طرح خدانخواستہ کسی بھی ناگہانی صورت میں انسان اپنی اور اپنے اہل و عیال کی حفاظت کرسکتا ہے اور صبح کی نماز کے لئے آسانی سے آنکھ کھل جاتی ہے۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوران سفر اگر صبح کے وقت کبھی آرام فرماتے تو دایاں بازو کی ہتھیلی پر سر رکھ کر آرام فرماتے تاکہ نیند زیادہ گہری نہ آئے اور نماز فجر قضا نہ ہوجائے۔

٭ اسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بغیر منڈیر کی چھت پر سونے سے منع فرمایا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جب نیند سے بیدار ہوتا ہے یا رات کو پیشاب وغیرہ کے لئے اٹھے اور اندھیرے میں پتہ نہ چلے اور آنکھیں نیند سے بوجھل ہورہی ہوں تو ایسی صورت میں بغیر منڈیر والی چھت سے گرنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ ایسی احتیاطیں اب جدید دنیا نے بہت زیادہ کی ہیں حالانکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدیوں پہلے فرما دیا تھا۔

اوندھے منہ لیٹنے کی ممانعت

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اوندھے منہ لیٹنے سے منع فرمایا ہے۔ اوندھے منہ لیٹنے سے تمام اعضاء ہضم اور اعضائے رئیسہ اوندھے اور بے ترتیب ہوجاتے ہیں۔ اس کا سب سے پہلا نقصان دماغ پر پڑتا ہے۔ دماغی لہریں اپنی ترتیب سے ہٹ کر دوسرا منفی رخ اختیار کرلیتی ہیں حالانکہ وہ مسلسل مثبت انداز سے انسان کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔ جب یہ لہریں منفی آتی ہیں تو آدمی کو ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔ حتی کہ ماہر نفسیات کے مطابق ایسے شخص کی زندگی کا رخ بھی اپنی ترتیب سے ہٹ جاتا ہے اور وہ الٹی سوچ کا حامل ہو جاتا ہے۔

زیادہ سونے کی ممانعت

اسی طرح احادیث میں زیادہ سونے سے منع فرمایا گیا ہے۔ زیادہ سونے سے بدن میں سستی اور کسل مندی پیدا ہوجاتی ہے جس سے جہاں دنیا کے کاموں میں حرج پڑتا ہے اور وہاں دین کو بھی سریع نقصان پہنچتا ہے۔

زیادہ سونے سے مرگی، اخشاق الرحم یا ہسٹریا اور بے خوابی کی مرض میں اضافہ ہوتا ہے۔

زیادہ سونے سے آنکھوں کے امراض خاص طور پر پپوٹوں کی ورم پیدا ہوتی ہے۔

زیادہ سونے سے بدخوابی کا مرض پیدا ہوتا ہے اور بدخوابی کے مریضوں کے لئے تو زیادہ سونا سم قاتل سے کم نہیں۔

چمڑے اور کھجور کی چھال کا بستر

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بستر چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ (مدارج النبوۃ)

سائنس فطرت کی طرف لوٹ رہی ہے۔ جدید تحقیقات کے مطابق چمڑے سے بنی ہوئی چیز انسانی جسم کے عین مطابق ہے یہ کسی طور پر بھی نقصان دہ نہیں ہوسکتی۔

امریکن کونسل فار ہیلتھ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں چمڑے کا ذکر بھی کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چمڑے کا بستر بواسیر، کمر کا درد، اعصابی کمزوری اور عضلاتی کھچاؤ کا واحد علاج ہے۔ کھجور کی چھال ریشہ دار ہونے کی وجہ سے فوم کی مانند نرم ہوتی ہے۔ لیکن نقصان فوم جیسا ہرگز نہیں ہوتا اس لئے یہ مفید ہے۔

سائنس اور اس کی تمام مشینری پھر سے اسلامی علوم کو کھنگال رہی ہے کہ اس میں کہاں کہاں شفاء کے راز موجود ہیں۔

عشاء سے قبل سونے کی ممانعت

آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عشاء سے قبل سونے سے منع فرمایا۔

عصر کے بعد زمین کی گردش محوری اور گردش طولانی کے کم ہونے سے ایک خاص قسم کی گیس زمین سے نکلتی ہے جس سے آدمی کے دل و دماغ پر ایک بوجھ اور وزن پڑتا ہے۔ اگر آدمی عصر اور عشاء کے درمیان سوجائے تو اس گیس کا مقابلہ نہیں کرسکتا جس کی وجہ سے طرح طرح کے امراض میں مبتلا ہوسکتا ہے۔

وضو کرکے سونا

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سونے سے قبل وضو فرمایا کرتے تھے۔

عشاء کی نماز کے بعد زندگی کے کچھ معمولات ہوتے ہیں اب جبکہ آرام کا وقت آگیا ہے تو ایسی حالت میں آرام اور سکون کے لئے وضو بہت ضروری ہے۔ وضو اعضاء کو تعدیل میں لاتا ہے۔

وضو بے خوابی بے سکونی اور ڈپریشن کا معقول علاج ہے۔

اس سکون کے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے سنت ہے کہ وضو کر کے سویا کریں۔

سونے سے قبل لباس تبدیل کرنا

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سونے سے قبل لباس تبدیل فرمالیا کرتے۔

حفظان صحت کا اصول ہے کہ جس لباس میں آپ تمام دن رہیں، اسی لباس میں ہرگز نہ سوئیں بلکہ کسی ایسے لباس میں سوئیں جو ہلکا اور ڈھیلا ہو کیونکہ تنگ اور سخت لباس میں نیند نہیں آتی۔

سونے کا لباس یا سلیپنگ ڈریس اہل یورپ کی ہی اصطلاح ہے جسے وہ صحت کے اصولوں کے موافق اور فخر سمجھ کر پہنتے ہیں۔ جبکہ اسلام نے صدیوں قبل مسلمانوں کو رات کو ہلکا اور کھلا لباس پہننے کی طرف متوجہ کیا ہے۔

بستر کو جھاڑنا

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سونے سے قبل بستر کو جھاڑنے کی ہدایت فرمائی ہے۔

ایسی احتیاطی تدبیر جو شاید کسی بھی مذہب میں نہ ملے۔ لیکن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر لحاظ سے محفوظ رہنے کے لئے بستر کو جھاڑنے کا حکم فرمایا ہے تاکہ کسی قسم کے حشرات الارض مثلاً کیڑا، سانپ، بچھو وغیرہ نقصان نہ دے سکیں۔

حاجتی

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چارپائی کے نیچے ایک حاجتی (وہ برتن جس میں پیشاب کیا جاتا ہے) ہوتی تھی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو اٹھ کر پیشاب کیا کرتے تھے۔

مفسرین نے اس بات کی وضاحت میں مختلف آراء پیش کی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا کسی سخت ضرورت یا مرض میں کیا ہو یا سخت سردی میں ایسا کرتے ہوں۔

اٹیچ باتھ کا جو تصور یورپ نے دیا ہے صرف اس لئے کہ سردی کی رات میں جبکہ آدمی گرم بستر میں لیٹا ہوا ہوتا ہے اور اگر یہ باہر جائے تو اسے ٹھنڈی ہوا لگ جائے گی اور اس ٹھنڈی ہوا سے فالج، لقوہ اور جوڑوں کے دردوں کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

حاجتی اسی اٹیچ باتھ کا نام ہے اور یہ عمل بھی مسلمانوں کو مسلسل احتیاط سکھاتا ہے تاکہ وہ تندرستی سے اللہ تعالیٰ کی مکمل اطاعت کر سکیں۔

مشکیزے کا منہ بند کر کے رکھنا

اگر مشکیزے (موجودہ دور میں گھڑا، پانی کا کین، پانی کی بالٹی وغیرہ) کا منہ کھلا رہ گیا تو اس میں کوئی کیڑا، سانپ، بچھو وغیرہ جاسکتا ہے۔ (زادالمعاد)

اسلام نے اس کی احتیاط یہاں تک بتائی ہے کہ مشکیزے کو منہ لگاکر پانی نہ پیو تاکہ ضرر رساں جانور منہ میں نہ چلا جائے۔ یہی احتیاطیں آج کی ماڈرن زندگی کا حصہ ہیں۔

اٹھنے کے فوراً بعد ہاتھ دھونا

احادیث میں اٹھنے کے فوراً بعد ہاتھ دھونے کی ہدایت ہے۔

سوتے ہوئے ہاتھ نامعلوم کہاں کہاں لگتے رہتے ہیں اور ان پر قسم قسم کے جراثیم لگے رہتے ہیں۔ اب اگر وہی جراثیم آلودہ، ہاتھ پانی وغیرہ میں ڈالیں گے تو پانی بھی آلودہ ہوجائے گا۔ اس خطرناک کیفیت سے بچنے کے لئے اسلام نے اٹھنے کے فوراً بعد ہاتھ دھونے کا حکم فرمایا ہے۔ پیٹ کے کیڑوں کے بعض مریضوں کے ناخنوں میں کیڑوں کے انڈے پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اگر یہی ہاتھ بغیر دھوئے پانی میں ڈالیں تو یہی انڈے پانی میں مل کر دوسرے انسان کے لئے ضرر کا باعث بن سکتے ہیں۔

سخت زمین پر سونا

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات میں زمین پر آرام فرمانا زیادہ ثابت ہے۔ کمر کے درد کے مریضوں کو سخت زمین یا تختے پر سونے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ حتی کہ جدید تحقیق کے مطابق جو آدمی سخت زمین یا تختے پر سوئے گا وہ کبھی بھی ریڑھ کی ہڈی کے درد، حرام مغز کے ورم اور کمر کے درد میں مبتلا نہیں ہوگا۔

چراغ بجھادینا

حدیث میں سونے سے قبل چراغ بجھا دینے کی ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ

چراغ بجھا دیا کرو ورنہ بتی چوہیا لے کر چھت پر پہنچ جاتی ہے اور چھت کو آگ لگ جاتی ہے۔

آج کے دور میں بلب بجھانا ضروری ہے۔ اگر بلب بجھا ہوا ہوگا تو نیند سکون سے آئے گی اور آنکھوں پر برے اثرات نہیں پڑیں گے۔

اگر بلب بجھا ہوا ہوگا تو تیز لائٹ سے وہ نہیں پھٹے گا۔ حتی کہ اگر بجلی بجھا کر سوئیں تو شارٹ سرکٹ کی وجہ سے آگ لگنے سے بچ جاتا ہے۔ آج کے دور میں بجلی کی وجہ سے مارکیٹیں جل جاتی ہیں۔ مزید یہ کہ دھواں جو مکمل کاربن گیس سے مرکب ہے اگر کمرے میں بھر جائے تو دم گھٹ کر مرنے کا خطرہ ہے۔

محترم قارئین! اگر ہم اپنی زندگی کو سنتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مزین کریں تو اس سے جہاں ہمیں دنیاوی فوائد نصیب ہوتے ہیں وہاں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و اتباع کی بناء پر اخروی کامیابی و فلاح بھی ہمارا مقدر بنے گی۔