حکمرانوں کے دلفریب نعروں کی حقیقت

عین الحق بغدادی/ نوراللہ صدیقی

پاکستان میں آج کل مردہ اور حرام جانوروں کے گوشت کی فروخت معمول کی بات ہے۔ آئے روز اس حوالے سے کسی نہ کسی جگہ کی خبر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر نشرہوتی رہتی ہے۔ یہ واقعات انتہائی گھمبیر حالات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ حال ہی میں یہ رپورٹ بھی منظر عام پر آئی ہے کہ عالمی شہرت یافتہ کمپنیاں پاکستانی عوام کو حرام اشیاء کھلا رہی ہیں۔حیران کن بات یہ تھی کہ یہ صرف ٹی وی اور اخبار ات کی خبر نہیں تھی بلکہ قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ حکومت اور اس کے ماتحت اداروں کی ملی بھگت کے بغیر ایسا ممکن نہیں۔قائمہ کمیٹی کا اعتراف اور تشویش حکومتی ناکامی کے واضح ثبوت ہیں مگر کیا کریں مملکت پاکستان(مملکتِ بے یارو مددگار )کی سرزمین کو بے حس اور ہوس کے غلام حکمرانوں نے ہر چیز کی فروخت کے لئے ہموار کر دیا ہے۔

ہوسِ زر نے ان ناخدؤں کے دل و دماغ سے حلال و حرام کی تمیز ختم کر دی ہے۔ دیگر ممالک میں درآمدات پر اس قدر سخت چیک اینڈ بیلنس ہوتا ہے کہ انہیں کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ ان کے ہاں کوئی مضرِ صحت چیز درآمد ہوئی ہو۔ مگر ہمارے حکمرانوں کی پالیسیوں نے ہمیں بے حس بنا دیا ہے۔

یہاں ملاوٹ والی اشیاء بکتی ہیں۔۔۔ پانی دودھ بن کر بکتا ہے۔۔۔ دیسی گھی میں ڈالڈا اور ڈالڈا میں حرام جانوروں کی چربی بکتی ہے۔۔۔یہاں عزت بکتی ہے۔۔۔ ضمیر بکتا ہے۔۔۔ انسان اور اس کی غیرت بکتی ہے۔۔۔ عورت بکتی ہے۔۔۔ ووٹ بکتا ہے۔۔۔ اسمبلی و سینٹ بکتا ہے۔۔۔ جب دونوں ایوان بکؤ مال بن جائیں تو پھر یہی لوگ اس عوام کی تقدیر کا سودا کرتے ہیں۔یہاں تک کہ اس مملکتِ خداد دادپاکستان کو بھی اپنی ہوس کی تسکین کے لئے لوٹ سیل پر لگا دیا ہے۔

یہ نوبت کیوں آئی؟ کیونکہ انسان رشتے کی اہمیت کو سمجھے گا تو صلہ رحمی کرے گا۔۔۔ ملک،ریاست اور سرزمین کے رشتے کو سمجھے گا تو اس کی حفاظت کرے گا۔۔۔ جذبہِ خدمت،آخرت کا خوف اور احترامِ انسانیت ہو گا تو عوام کی خدمت کرے گا مگر یہ سب کچھ تب ہو گا جب عقل سے کام لیا جائے گا۔۔۔ جب انسان عقل کے ذریعے اپنی ہوس اور جذبات پر کنٹرول حاصل کر لیتا ہے تو اشرف المخلوقات ہو جاتا ہے اور جب یہی انسان عقل،ہوس اور جذبات کے تابع ہو جائے تو حیوان سے بھی بد تر ہو جاتا ہے۔۔۔ اس وقت سب رشتے اور قدریں ختم ہو جاتی ہیں۔حرام و حلال میں تمیز ختم ہو جاتی ہے اور پھر دعائیں بھی بے اثر ہو جاتی ہیں۔علامہ اقبالؒ سے پوچھا گیا کہ ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟ فرمایا: ’’شکم لقمہِ حرام سے سیر ہو تو دعا عرشِ معلی پر کیسے پہنچے گی‘‘۔

اندھیر نگری چوپٹ راج

عوامِ پاکستان کو اس حالت تک پہنچانے کی ذمہ داری جہاں ایک طرف عوام کے اپنے اوپر عائد ہوتی ہے تو دوسری طرف اس سے کئی گنا بڑھ کر ان تمام حالات کی ذمہ داری ہمارے نام نہاد حکمرانوں پر بھی عائد ہوتی ہے جو نت نئے دلفریب نعروں اور جھوٹے دعوئوں کے ذریعے عوام کے حقوق کو پامال کرتے رہتے ہیں۔ موجودہ حکمرانوں کے دلفریب نعروں پر نظر دوڑائی جائے تو آپ کو یاد ہوگا کہ:

  • وزیراعلیٰ پنجاب نے جب 2روپے میں روٹی بیچنے کا اعلان کیا تھا تو صبح، دوپہر شام روٹی روٹی کرتے تھے۔ شفافیت کو قائم و دائم رکھنے اور ن لیگ کے کارکنان کی طرف سے سستا آٹا کھلی مارکیٹ میں بیچے جانے کی مصدقہ خبروں کے بعد تنوروں پر ٹی سی ایس کے ذریعے آٹا کی ترسیل کرواتے رہے۔ 2روپے میں روٹی تو عوام کو نہ مل سکی البتہ خزانے کو 30ارب روپے کا ٹیکہ ضرور لگ گیا۔ آج تک ان 30ارب روپے کا آڈیٹر جنرل پاکستان کو حساب نہیں دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ سستے آٹے کی ترسیل کا ریکارڈ غائب ہو گیا ہے۔
  • اسی طرح موصوف نے فوڈ پنجاب پروگرام شروع کیا۔ اس پروگرام کے تحت 6 لاکھ غریب شہریوں کو ماہانہ 1 ہزار روپے نقد دیے جانے تھے مگر 14ارب روپے خزانے سے تو نکل گئے مگر غریبوں تک نہ پہنچ سکے اور پھر 2روپے والی روٹی کی طرف فوڈ سپورٹ پروگرام بھی بند کر دیا گیا۔
  • اسی طرح لیپ ٹاپ، پیلی ٹیکسی، آشیانہ سکیم، سولر لیمپ، دانش سکول کو پنجاب اور پاکستان کی تقدیر بدلنے کے منصوبے قرار دیا گیا۔ آج کل وزیراعلیٰ پنجاب ان سکیموں کے نام بھی بھول گئے ہیں۔

چنیوٹ کے معدنی ذخائر کی حقیقت

ماہ فروری 2015ء میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب نے چنیوٹ میں زیر زمین سونے چاندی، لوہے ، تانبے کے ذخائر کی خوشخبری سنائی۔اِن ذخائر کی دریافت کی حقیقت کیا ہے، آیئے اس کا جائزہ لیتے ہیں:

کیا چنیوٹ کے ذخائر راتوں رات دریافت ہوئے؟ یقینا نہیں، لہذا قوم کو بتایا جائے ان ذخائر کی دریافت کے حوالے سے کیا اور کس وقت کام شروع کیا گیا اور کس کمپنی کے ذریعے کیا گیا؟ حقیقت یہ ہے کہ چنیوٹ میں دریافت ہونے والے سونے، تانبے اور لوہے کے مبینہ ذخائر 24سال پہلے دریافت ہو چکے تھے۔ 1989ء میں پنجاب میں میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے اس کے بعد بھی دوبار شریف برادران پنجاب میں برسراقتدار آئے اب پھر مسلسل 7سال سے میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں اور ان ذخائر کے حوالے سے مجرمانہ خاموشی اختیار کی گئی۔ چنیوٹ کے مبینہ ذخائر کا اعلان کمپنی بنانے اور ضروری بندوبست کرنے تک موخر رکھا گیا۔ جس کمپنی کو 1200 ملین کی ادائیگی کی گئی اس کا نام ،کام اور معاہدے کی شرائط قوم کے سامنے لائی جائیں۔

صوبہ لمیٹڈ کمپنی کی طرح چلایا جارہا ہے۔ گندگی اٹھانے سے لیکر گوشت بیچنے تک کی کمپنیاں بن چکی ہیں۔چنیوٹ ذخائر کی تلاش اور استعمال کا ٹھیکہ ای آر پی ایل نامی کمپنی کو بغیر ٹینڈر دیا گیا۔ یہ کمپنی بیرون ملک مقیم کسی نا معلوم پاکستانی کی ہے جسے جملہ حقوق تفویض کئے گئے ہیں۔معدنی ذخائر قوم کی امانت ہیں کسی فرد واحد کو اسکا مختار عام نہیں دیا جا سکتا ۔اس بات کا ڈر ہے کہ ان ذخائر کا حال بھی بلوچستان کے معدنی ذخائر اور کرپشن اور کمیشن سے بھرپور ٹھیکوں والا نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے اندر ایک حکومت اور محکموں کے اندر ایک خفیہ محکمہ کام کررہاہے جسے وزیراعلیٰ پنجاب براہ راست کنٹرول کرتے ہیں۔ بجٹ دستاویز 2014-15ء کے مطابق پنجاب حکومت نے ذخائر کی دریافت کے حوالے سے نہ تو کسی نئی سکیم کا ذکر کیا اور نہ ہی آئندہ 3سال تک کسی منصوبے کا ذکر کیا اور نہ ہی متعلقہ وزارت کو ترقیاتی فنڈز دئیے گئے۔ الٹا گزشتہ مالی سال کی نسبت رواں مالی سال کے بجٹ کو 421ملین روپے سے کم کر کے 260 ملین کر دیا گیا۔ اگر معدنیات کی دریافت کے حوالے سے اگر کوئی منصوبہ تھا تو پھر بجٹ کم ہونے کی بجائے بڑھنا چاہیے تھا۔ رواں مالی سال وزارت معدنیات کو 260ملین جبکہ ’’کمپنی‘‘ کو 12 سو ملین جاری کیے گئے جو ٹرانسپرنسی کے حوالے سے ایک بہت بڑا سوال ہے؟

معدنیات کی دریافت اچھی بات ہے اس سے صوبہ کی معیشت اور عوام کے معیار زندگی کو بہتر کرنے میں مدد مل سکتی ہے لیکن موجودہ حکمرانوں کو سرکاری کام پرائیویٹ کمپنیوں اور نجی مشیروں کی بجائے سرکاری محکموں کے ذریعے کرنا چاہئیں اور اگر محکموں میں مطلوبہ اہلیت نہیں تو اسکی استعداد کار بڑھانے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ عوام کے خون پسینے کے جمع شدہ ٹیکسوں کی کمائی سے ان محکموں کے جو بھاری اخراجات ادا کیے جاتے ہیں اس کا ملک اور عوام کو کوئی فائدہ بھی پہنچ سکے۔معدنیات کی کمپنی سمیت تمام کمپنیوں کی شرائط اور بجٹ اور ان کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تفصیلات قوم کے سامنے لائی جائیں،تاکہ ان کی کارکردگی اور ان پر اٹھنے والے اخراجات کا پتہ چل سکے۔

نندی پور پاور پراجیکٹ

  • ان تاجر حکمرانوں نے نندی پورپاور پراجیکٹ کا افتتاح کرتے وقت بھی کہا تھا کہ اب اندھیرے دور ہو نگے اور گھر روشنی سے چمکیں دمکیں گے مگر افتتاح سے لیکر آج تک نندی پور پاور پراجیکٹ بند پڑا ہے لیکن 37ارب روپے لاگت والے نندی پور پراجیکٹ کو 54ارب روپے میں مکمل کر کے خزانے کو اربوں روپے کا ٹیکہ لگا دیا گیا۔نندی پور پاورپراجیکٹ کے نامکمل منصوبے کے افتتاح پر 16کروڑ روپے کے اخراجات آئے تھے اور وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو جس افتتاحی دروازے سے گزارا گیا وہ 20 لاکھ روپے میں تیار ہوا اور آج کل وہی منصوبہ ایک ملائیشین فرم کو ٹھیکے پر دیا جارہا ہے کیونکہ حکومت اس منصوبہ کو چلانے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے جو حکومت 100 میگاواٹ کے پلانٹ کو چلانے کے قابل نہیں وہ اس ملک کو اندھیروں سے کیسے نکالے گی۔
  • ایک طرف جنوبی پنجاب کے درجنوں اضلاع کے عوام صاف پانی، تعلیم، صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ جنوبی پنجاب میں 22 ہزار کلو میٹر سڑکوں کا انفراسٹرکچر کھنڈرات میں بدل چکا ہے۔ 8 سال میں مرمت کیلئے بھی ایک پائی جاری نہیں کی گئی جبکہ دوسری طرف پسماندہ اضلاع کا یہ پیسہ صرف ایک ضلع لاہور کی خوبصورتی پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ ان منصوبوں پر خرچ کرنے میں وزیراعلیٰ پنجاب جتنی دلچسپی لیتے ہیں کاش اس کا 10 فیصد بھی وہ عوام کے جان و مال کے تحفظ پر خرچ کرتے تو آئے روز دہشت گردی کے واقعات میں قیمتی جانیں ضائع ہونے سے بچ جاتیں۔
  • پنجاب حکومت قیمتی وسائل صاف پانی، تعلیم اور صحت کی سہولتوں پر خرچ نہیں کرنا چاہتی۔لاہور سمیت صوبہ بھر کی 80 فیصد آبادی صاف پانی، 38 فیصد آبادی تعلیم، 75 فیصد معیاری علاج اور 98 فیصد آبادی جان و مال کے تحفظ سے محروم ہے، جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب لاہور کو جوائے لینڈ بنانے کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے 147 پرائمری، مڈل اور ہائی سکولوں کو نجی شعبے کے حوالے کیا جانا انتہائی تشویش ناک ہے۔ آئین کے آرٹیکل 25A کے تحت بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، مگر ریاست یہ کام ٹھیکے پر دے رہی ہے جو خلاف آئین و قانون ہے۔ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی طرف سے سرکاری سکول نجی شعبے کو دیے جانے کا 15 سالہ غیر قانونی معاہدہ ختم کیا جائے اور قیمتی وسائل چیئر لفٹ جیسے عیاش منصوبوں میں ضائع کرنے کی بجائے تعلیم، صحت، عوام کے تحفظ اور انصاف کی فراہمی پر خرچ کیے جائیں۔

آئندہ بجٹ کیلئے تجاویز

پاکستان عوامی تحریک عوامِ پاکستان کو حقیقی خوشحالی سے بہرہ مند کرنے کے لئے اپنا ہر ممکن کردار ادا کرتی رہے گی۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی خصوصی ہدایات پر عوامی تحریک نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے آئندہ مالی سال کے بجٹ کیلئے تجاویز دی ہیں۔ تجاویز مرکزی صدر محترم ڈاکٹر رحیق عباسی اور صوبائی صدر محترم بشارت جسپال کی طر ف سے میڈیا کو جاری کی گئیں۔ تجاویز دیتے ہوئے راہنماؤں نے کہا کہ:

  • گورننس بہتر بنانے کیلئے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنایا جائے۔
  • مزدور کی کم سے کم تنخواہ 20 ہزار اور ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد اضافہ کیا جائے۔
  • حکمران پنشنرز اور بچت سکیموں پر گزارہ کرنے والوں کو بھی انسان سمجھیں، بچت سکیموں میں مہنگائی کی شرح کے حساب سے اضافہ کیلئے صوبہ وفاقی حکومت سے مطالبہ کرے اور اراکین صوبائی اسمبلی اس حوالے سے قرارداد منظور کریں۔
  • کسانوں کو سنٹر کی سطح پر قائم پروکیورمنٹ کمییٹوں میں شامل کیا جائے اور چھوٹے کاشتکاروں کو ڈیزل بجلی پر خصوصی سبسڈی دی جائے۔
  • گندم کی طرح چاول کی خریداری کیلئے بھی بجٹ مختص کیا جائے۔
  • اتوار بازاروں اور رمضان بازاروں کے ڈرامے بند کر کے مستقل بنیادوں پر پنجاب فیئر پرائس شاپس کھولی جائیں۔
  • برین ڈرینج روکنے کیلئے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو گریڈ 16 کے افسر کی بنیادی تنخواہ کے برابر ملازمت ملنے تک وظیفہ مقرر کیا جائے۔
  • خواتین کو ٹیکسیاں اور رکشے دینے کی بجائے اعلیٰ تعلیم دی جائے۔
  • امن کے فروغ اور مدرسوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے بجٹ رکھا جائے۔
  • 100 ارب روپے سالانہ کا بجٹ استعمال کرنے والی پنجاب پولیس کی تنظیم نو اور اسے سیاست سے پاک کیا جائے۔

رہنمؤں نے کہا کہ ن لیگ نے پنجاب پر اپنے مسلسل 7 سالہ عہد اقتدار میں 6 ہزار ارب روپے استعمال کیے، اسکے باوجود عوامی خدمت کے کسی ایک شعبے میں بھی سو فیصد ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ ناانصافی اور ظلم حد سے بڑھ گیا ہے۔ عدل کی شہبازی زنجیر ہلانے پر انصاف نہیں پولیس کے ڈنڈے حرکت میں آتے ہیں۔کسانوں، کلرکوں، اساتذہ، لیڈی ہیلتھ ورکرز، مزدوروں، نابینؤں کا سڑکوں پر آنا گورننس کی ناکامی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کو اپنا طرز حکمرانی تبدیل کرتے ہوئے وزراء ، آئی جی پنجاب اور پٹواریوں کے اختیارات سرنڈر کر دینے چاہییں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب وزیر اعلیٰ لاہور کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اختیار اور وسائل کی مرکزیت کی گورننس ناکام ہو چکی۔ ن لیگ پنجاب اسمبلی کی متفقہ قرارداد کے باوجود جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ نہیں بننے دے رہی۔ وزیر اعلیٰ سیلاب کے دنوں میں جنوبی پنجاب جاتے ہیں یا پھر اس وقت جب کوئی عرب شہزادہ شکار کیلئے آتا ہے۔ وہ کسی وقت وہاں کے انسانوں کو درپیش مشکلات کو قریب سے دیکھنے کیلئے بھی چند روز گزاریں۔

تجاویز میں کہا گیا کہ ن لیگ کے 8 سالہ عہد اقتدار میں عوام کا معیار زندگی گرا، فنانشل مس مینجمنٹ اور کرپشن بڑھی۔ تعلیم اور صحت کے حوالے سے ملینیم ڈویلپمنٹ گولز 2015ء کے حصول میں پنجاب حکومت بری طرح فلاپ ہوئی۔ سانحہ ماڈل ٹؤن، سانحہ کوٹ رادھا کشن اور سانحہ یوحنا آباد سے عوام کا پولیس پر اعتماد ختم ہوا۔

تجاویز میں کہا گیا کہ پنجاب بھر میں یکساں ترقی و خوشحالی کیلئے جنوبی پنجاب سمیت مزید صوبے بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ پولیس کی تنظیم نو کی جائے اور اسے سیاسی مداخلت سے پاک کیا جائے۔ پولیس کی تربیت فوج سے کروائی جائے، اشتہاریوں کو گرفتار کرنے اور عدالتی امور نمٹانے کیلئے الگ یونٹ تشکیل دیے جائیں۔ پنجاب حکومت 225 ملین کی خطیر رقم سے وی وی آئی پیز کیلئے بم پروف گاڑیاں خریدنے کی بجائے یہ رقم عوام کے جان و مال کے تحفظ کیلئے استعمال کرے۔

تجاویز میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ وفاقی وزیر داخلہ نے وزیر اعظم کو رپورٹ دیتے ہوئے پنجاب میں جن 95 کالعدم تنظیموں کی نشاندہی کی، انہیں پبلک کیا جائے تاکہ عوام ان تنظیموں اور انکے عہدیداروں سے دور رہ سکیں۔

سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے حوالے سے تجاویز دیتے ہوئے کہا گیا کہ قومی اسمبلی میں پیش کی جانیوالی ایک رپورٹ کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں 1 لاکھ 73 ہزار 37 اور ڈسٹرکٹ کورٹس میں 11 لاکھ 76 ہزار 6 سو 34 کیسز التوا کا شکا ر ہیں، لہذا فوری اور سستے انصاف کیلئے لاہور ہائی کورٹ کا بنچ ہر ضلع میں قائم کیا جائے۔ سیشن کورٹ کا دائرہ تحصیل تک اور 50 ہزار آبادی والے ہر شہر میں سول کورٹ قائم کی جائے، ہر ضلع میں مستحقین کیلئے مفت قانونی امداد کی فراہمی کیلئے لیگل ایڈ سیل بنائے جائیں۔

صحت کے شعبہ کے حوالے سے تجاویز دیتے ہوئے کہا گیا کہ صوبہ کے 600 بنیادی ہیلتھ مراکز میں نہ ڈاکٹرز ہیں نہ دوائی۔ یہاں فوری ڈاکٹرز تعینات کئے جائیں، ڈاکٹر ز کی 8 ہزار آسامیاں پْر کی جائیں۔ پنجاب میں ہر سال 25 ہزار کے لگ بھگ مائیں دوران زچگی وفات پا جاتی ہیں، ہر یونین کونسل کی سطح پر گائنی سنٹر ز بنائے جائیں۔ پنجاب میں 2700 شہریوں کیلئے ایک بیڈ کی سہولت ہے، صوبہ کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں فوری طور پر دس ہزار بیڈز کی تعداد بڑھائی جائے۔

تعلیم کے شعبے کے حوالے سے تجاویز دیتے ہوئے کہا گیا کہ Annual Status of Education 2015 کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں پانچویں جماعت کے 46 فیصد بچے اردو نہیں پڑھ سکتے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مقدار کی بجائے معیار پر توجہ دیں۔ تجاویز میں مطالبہ کیا گیا کہ پنجاب حکومت لاہور کے 147 سکولز جو ایک این جی او کے حوالے کر دئیے گئے فوراً واپس لے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سرکاری پیسے سے میٹرو بس چلا سکتے ہیں تو سکول کیوں نہیں چلا سکتے۔

تجاویز میں فنانشل مینجمنٹ کو بہتر بنانے کا مطالبہ کیا گیا اور کہا گیا کہ آڈیٹر جنرل پاکستان کی 2014ء کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کے 16 محکموں نے آڈٹ کے دوران 5 ہزار ملین کے اخراجات کا ریکارڈ پیش نہیں کیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے آڈیٹر جنرل پاکستان کے 2012ء میں لکھے گئے خط کے باوجود ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کو دیے جانے والے 150 ارب کا آڈٹ نہیں کروایا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ڈسٹرکٹ ناظمین کی کرپشن پر مبنی اشتہارات شائع کروائے۔ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ لوٹا گیا کتنا پیسہ واپس لیا گیا اور کتنے ڈسٹرکٹ ناظمین کے خلاف کارروائی ہوئی؟۔۔۔تجاویز میں کہا گیا کہ پنجاب حکومت نے بجلی پیدا کرنے کے نام پر خزانے سے 30 ارب روپے لئے اور تاحال ایک یونٹ بجلی پیدا نہیں کی۔ عوام اس ناکامی کی وجوہات جاننا چاہتے ہیں۔

تجاویز میں مطالبہ کیا گیا کہ آٹے کی قیمتیں کنٹرول میں رکھنے کیلئے محکمہ خوراک کے ذمہ واجب الادا 100 ارب کے قرضے ادا کئے جائیں اور کسانوں سے انکی فصل کا دانہ دانہ خریدنے کیلئے پروکیورمنٹ کمیٹیوں میں خریداری سنٹر کی سطح پر کسان نمائندوں کو شامل کیا جائے۔

اگر ہمارے حکمران فی الواقع عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو انہیں عوام کو اُن کے بنیادی حقوق اور ضروریات کی اشیاء ہر صورت فراہم کرنا ہوں گی۔ پاکستان عوامی تحریک اسمبلیوں میں موجود نہ ہونے کے باوجود عوام کے مسائل کو سامنے لاکر حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرتی رہے گی۔