اداریہ: یمن کا قضیہ اورپاکستان کا موقف

یمن کی موجودہ صورت حال نے پورے عالم اسلام کے لیے نئے خطرات اور آزمائشوں کا دروازہ کھول دیا ہے۔ مسلم دنیامیں دستوری و جمہوری سیاسی نظام کے فقدان، فرقہ واریت کے طوفان کی موجودگی اور مختلف ممالک میں مسلکی بنیاد پرغیر اعلانیہ گھمسان کے ماحول نے اس صورت حال میں جنم لینے والے خطرات کو مزید مہیب بنا دیا ہے۔یمن کے حوثی قبائل کی طرف سے بغاوت کو کچلنے کی خاطر یمن پر حملہ کو اخلاقی جواز فراہم کرنے کے لیے سعودی عرب نے دعوی کیا کہ اُسے یمن کے حوثی قبائل کے خلاف کارروائی کے لیے پاکستان، مراکش، مصر، سوڈان اور خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ ضرورت پڑنے پر وہ یمن کے صدر عبدالرب منصور ہادی کی جانب سے مدد کی درخواست پر جنگ میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔ یمن قبائل کی بغاوت کو کچلنے کے لیے سعودی عرب کی طرف سے فضائی حملہ اگرچہ اس کا فطری ردعمل تھا مگر اس سے ہونے والے کلمہ گو مسلمانوں کے جانی و مالی نقصانات سے بے شمار سوالات اور معاملات سر اٹھاچکے ہیں۔

پاکستان کے لیے یہ صورت حال بہت نزاکت کی حامل ہے۔ پاکستانی حکمرانوں نے ہمیشہ کی طرح اس مسئلہ پر بھی عاقبت نااندیشانہ اور غیر سنجیدہ طرز عمل اختیار کیا۔ پاکستان کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ سنگین بحرانوں کے مرحلہ پرجعلی مینڈیٹ رکھنے والی نا اہل قیادت ملک پر مسلط ہے اور پاکستان تیزی کے ساتھ اپنے دوست کھوتا چلا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز ہو یا برادر اسلامی ممالک کے درمیان با مقصد گفتگو ہر مرحلہ پر حکمران بد حواس پائے گئے جس کا نتیجہ ملک و قوم کو تقسیم و انتشار کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ وزیر اعظم نے یمن کے معاملہ کی ابتداء ہوتے ہی اپنے اٰمرانہ طرز عمل کی وجہ سے اپنی کچن کیبنٹ اور کرائے کے مشیروں کے مشورہ سے یکطرفہ اعلان کرتے ہوئے سعودی حکومت کے ساتھ کھڑا ہونے کا اعلان کیا۔ ذاتی تعلقات نبھانے اور ’’ احسانات‘‘ کا بدلہ دینے کے لئے وزیراعظم کے اس اعلان کانتیجہ آج پوری قوم شرمندگی، رسوائی اور دوسرے اسلامی ممالک کی دھمکیوں کی صورت میں بھگت رہی ہے۔ ان حکمرانوں کی اس سے بڑھ کراور نا اہلی کیا ہو گی کہ بھائیوں کے درمیان مسائل کے حل میں بھی درست فکر اور سمت کا تعین نہ کر سکے۔ نالائق حکمرانوں نے اپنی غیر محتاط بیان بازی سے پہلے یمن میں مقیم پاکستانیوں کیلئے خطرات پیدا کئے اور اب اپنے رویے سے عرب ممالک میں مقیم لاکھوں خاندانوں کیلئے مشکلات کھڑی کر رہے ہیں۔اس حساس معاملہ پر اپنا سرکاری مؤقف دیتے ہوئے ان حکمرانوں کو اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہیے تھا کہ اگر ایک طرف سعودی عرب کے ساتھ ہمارے ایسے برادرانہ تعلقات جو آزمائش کی ہر گھڑی میں پورے اترے ہیں تو دوسری طرف ایران ہمارا ہمسایہ برادر ملک ہے اور اس کے ساتھ تعلقات کے نشیب وفراز کا اثر ہمارے علاقائی ماحول پرہی نہیں بلکہ داخلی صورت حال پر بھی پڑتا ہے۔

وزیر اعظم کے اس بیان پر جب عوامی سطح پر احتجاج سامنے آیا تو پارلیمان کا مشترکہ اجلاس طلب کر لیا گیا۔ اس بحران میں تعاون کی حدود کے تعین کے لیے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلا کر ایک بے جا بحث نے صورت حال کو مزید خراب کر دیا ۔ قرارداد کے الفاظ اگرچہ متوازن تھے مگر پارلیمنٹ میں لگائے گئے تماشے نے عرب ممالک میں بے چینی کی کیفیت پیدا کردی۔ اس اجلاس میں حکومتی وزیروں نے جو سیاسی تماشے کئے اس سے انکی حساس ترین ایشو پر سنجیدگی قوم کے سامنے آ گئی ۔ یمن کے ایشو پر پاکستان میں گلی محلے کی سطح پر غیر ضروری مباحثہ کروا کر برادر اسلامی ملک سعودی عرب کو متنازعہ بحث کاموضوع بنا یا گیا جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

پارلیمان کی مشترکہ قرارداد سامنے آئی تو اب کی بار احتجاج عرب ممالک کی طرف سے سامنے آیا ۔ نااہل حکمران سٹپٹا کر رہ گئے۔ جواب دینے کے لئے وزیر داخلہ میدان میں نکل آئے اور ایسا جواب دیا کہ جو شاید کبھی بھارت کو بھی نہ دیا ہو۔ مقام حیرت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے اشاروں پر اپنی معاشی پالیسیاں بنانے اور ملک چلانے والوں کو متحدہ عرب امارات کے وزیر کا بیان برا لگا، حالانکہ ہاتھوں میں کشکول لیے پوری دنیا سے بھیک مانگنے والے اور غیر ملکی مالیاتی اداروں کے احکامات پر غریب عوام پرمہنگائی کے چھرے چلا کران کی کھال کھینچنے والے کس خودی اور خودمختاری کی بات کرتے ہیں؟ وزیر داخلہ اور دفتر خارجہ کے متضاد موقف سے نہ صرف پوری قوم پریشان ہوئی بلکہ عالمی سطح پر بھی رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان حالات میں ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم سامنے آتے ہیں اور اپنے، وزارت خارجہ، وزارت داخلہ کے بیانات اور پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد کی وضاحتیں کرتے ہیں۔ الغرض ہر اہم ایشو کی طرح یہاں بھی وزیراعظم اور وزراء الگ الگ بولیاں بول رہے ہیں۔

ابھی پاکستان اس جنگ کا حصہ نہیں بنا مگر مذہبی جماعتوں نے ایک فریق کے حق میں مظاہروں کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ گویا یہ اس جنگ کے مسلکی اور فرقہ وارانہ اثرات کے اظہار کا ایک ابتدائیہ ہے۔ ہم ابھی تک سابقہ ادوارکی سیاسی و مذہبی فرقہ واریت کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ قیمتی موقع تھا کہ وہ کسی ایک فریق کا حمایتی بننے کی بجائے قائدانہ کرادر ادا کرتا۔ پاکستان اور ترکی کی مصالحتی کوششیںاس بحران کے فرقہ وارانہ تاثر کو زائل کرنے اور مسلم امہ میں اتحاد کی بنیاد بن سکتی تھیں جس سے علاقے میں فرقہ واریت کے اس امکان کا اثر کم کیا جا سکتا تھا۔

جس ملک میں باقاعدہ وزیرخارجہ نہ ہو، جز وقتی وزیر دفاع ہو اور پارلیمنٹ میں مشترکہ قرارداد وزیر خزانہ کو پیش کرنی پڑے تو اس مملکت خداداد میں موجود نظام حکمرانی اور طرز سیاست پر ہر ذی شعور کا ماتم کرنے کوجی چاہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کو اتفاق فؤنڈری کی طرح چلایا جارہا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری نے درست کہا کہ نااہل حکمرانوں نے بیک ڈور ڈپلومیسی سے نتیجہ خیز مفاہمتی کوششوں کاقیمتی موقع گنوا دیا اور اس حساس ایشو پر منافقت کا اظہار کیا ۔ خارجہ پالیسی سے محروم حکمرانوں نے پاکستان کو بند گلی میں کھڑا کر دیا۔ موجودہ حکمران سے بڑھ کر عوام پاکستان کے لئے اور کیا ستم ظریفی ہوگی۔

ہوئے تم دوست جس کے
دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

اس موقع پراسلامی ممالک کے سکالرز، سیاسی دانشوروں اورسیاسی و سماجی حلقوں کوامت مسلمہ کو ایک تسبیح میں پرونے اور حقیقی معنوں میں امت واحدہ کے قالب میں ڈھالنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امت کے اتحاد کو سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھنے سے روکا جائے۔ اسلامی ممالک کے سربراہان سیاسی مسائل کا حل ڈھونڈنے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھیں۔ عالم اسلام کو اتحاد اور اتفاق کی جتنی آج ضرورت ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔

پاک فوج امت مسلمہ کا اثاثہ ہے، کسی مسلم ملک پر حملہ میں شرکت سنگین غلطی ہو گی البتہ مکہ اور مدینہ کی حرمت جان سے زیادہ عزیز ہے اور ان کی حفاظت کے لئے پاکستان میں کوئی دو آراء نہیں۔ ہماری رائے میں امت مسلمہ کو باہم سیاسی مسائل کو مسلک اور عقیدے سے الگ رکھنے کی ضرورت ہے ورنہ مسلکی تعصب کی آڑ میں عالم اسلام کو خانہ جنگی میں دھکیلنے کی اسلام دشمن عناصر کی سازش حقیقی روپ دھار سکتی ہے۔ حکمرانوں اور انکے وزراء کی بلاسوچے سمجھے بیان بازی کی وجہ سے شکوک و شبہات نے جنم لیا ۔ حالات کتنے بھی سنگین ہوں موجودہ حکمران اپنی ذات کے خول سے باہر نہیں نکلتے اور نہ ہی ان میں دور تک دیکھنے کی صلاحیت اور اہلیت ہے۔ یمن خانہ جنگی کا شکار ہے، سعودی عرب، پاکستان، ایران، ترکی سمیت تمام بااثر اسلامی ممالک کو ملکر تمام متحارب فریقین کو ایک میز پر بٹھانا چاہیے اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل ڈھونڈنا چاہیے۔ فی الوقت انتخابات کے ذریعے نمائندہ حکومت کے قیام کو ترجیح دیتے ہوئے یمن کے عوام کی مدد کی جانی چاہیے اور انتخابات کے انعقاد کے لئے تمام فریقین کے لئے قابل قبول نگران سیٹ اپ کے قیام کے لئے ضروری اقدامات کرنا چاہیے۔ طاقت کے استعمال سے نہ ہم اپنے کسی خیر خواہ کی مدد کرینگے اور نہ ہی عالم اسلام کا مفاد طاقت کے استعمال میں ہے، اس سے صرف اور صرف اسلام کی دشمن قوتوں کو فائدہ پہنچے گا۔