اسلام کا تصور علم اور ہمارا تعلیمی نظام

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین معاون: محمد شعیب بزمی

علم اور تعلیم محض خواندگی کا نام نہیں اور نہ صرف پڑھ لکھ لینے کا نام ہے بلکہ اسلام میں اس کا ایک اعلیٰ و عظیم تصور ہے۔ محض پڑھنا لکھنا اور اس کے مختلف پیشہ وارانہ پہلوئوں (Professional Aspects) پر تھوڑا زیادہ ہاوی ہوتے چلے جانا فی نفسہ مقصود بالذات نہیں ہے۔ حصول و فروغ علم اتنا بڑا مقصد ہے کہ اللہ رب العزت نے اولاً یہ منصب اپنی ذات کے لئے بیان کیا اور ثانیاً یہ منصب پیغمبر اسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بیان کیا۔ صرف اسی بات سے یہ سمجھنا آسان ہوجاتا ہے کہ محض خواندگی اور پڑھنے لکھنے کے عمل کو تعلیم اور علم کا نام نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ ان تمام امور سے بلند و بالا اور ارفع چیز ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

اَلرَّحْمٰنُ. عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ. خَلَقَ الْاِنْسَانَ. عَلَّمَهُ الْبَيَانَ.

’’(وہ) رحمن ہی ہے۔ جس نے (خود رسولِ عربی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو) قرآن سکھا یا۔ اُسی نے (اِس کامل) انسان کو پیدا فرمایا۔ اسی نے اِسے (یعنی نبیِّ برحق صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمکو ماکان و ما یکون کا) بیان سکھایا‘‘۔

(الرحمن، 55: 1تا4)

یہاں اللہ رب العزت نے اپنے آپ کو معلم فرمایا، علم اور تعلیم کو پھیلانا اپنا عمل اور اپنی سنت قرار دیا اور قرآن مجید کو علم کی کتاب قرار دیا ہے۔ اللہ رب العزت نے دوسرے مقام پر اپنے اس منصب کا ذکر حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے بھی فرمایا:

وَاَنْزَلَ اﷲُ عَلَيْکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ ط وَکَانَ فَضْلُ اﷲِ عَلَيْکَ عَظِيْمًا.

’’اوراللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے، اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے‘‘۔

(النساء: 113)

اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سارا علم عطا کیا اور خود معلم بن کر تعلیم کے عمل اور طریق سے گزارتے ہوئے انہیں نقطہ کمال تک پہنچایا نیز اس فروغ علم کے عمل اور طریق کو اللہ رب العزت نے فضلِ عظیم قرار دیا۔

تخلیقِ آدم پر اعتراضِ ملائکہ

جب حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی تخلیق سے انسانیت اور بشریت کی ابتداء ہوئی اور انہیں منصبِ خلافت پر سرفراز و فائز کیا گیا تو ملائکہ نے انسان کی بشری فطرت اور اس سرشت میں موجود خون ریزی، قتل و غارت گری اور فتنہ و فساد کے بنیادی جوہر کی نشاندہی کرتے ہوئے سوال کیا اور بالواسطہ طور پر خود اپنے آپ کو منصب و نیابت کا حقدار ٹھہرایا۔ فرشتوں کا کہنا تھا:

اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَيَسْفِکُ الدِّمَـآءَ ج وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ.

’’کیا تُو زمین میں کسی ایسے شخص کو (نائب) بنائے گا جو اس میں فساد انگیزی کرے گا اور خونریزی کرے گا؟ حالاں کہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں اور (ہمہ وقت) پاکیزگی بیان کرتے ہیں‘‘۔

(البقرة، 2: 30)

گویا فرشتوں نے اپنی حیثیت واضح کی کہ خلافت کے حقدار تو ہم ہیں کہ جن کے اندر خون ریزی اور فساد انگیزی جیسی کوئی چیز ہے ہی نہیں یعنی ہم تو سراپا امن، سلامتی اور عافیت ہیں۔ نیز یہ بھی کہ ہر وقت تیری تسبیح اور تیرا ذکر کرتے ہیں، لہذا ہمیں اپنی خلافت عطا کر۔ اس انسان کو خلافت دینے کی کیا وجہ ہے جن کے ہاتھوں سے خون بہے گا اور قتل و غارت گری ہوگی۔

حضرتِ آدم علیہ السلام کو عطا علمِ کلّی کا مقصد

اللہ رب العزت نے ملائکہ کے اس سوال کو رد نہیں فرمایا۔ یہ نہیں کہا کہ اس کے ہاتھوں سے خون نہیں بہے گا، قتل و غارت اور فساد انگیزی نہیں ہوگی۔ اللہ رب العزت نے فرشتوں کی اس Observation اور Comments کو Reject نہیں کیا بلکہ فرمایا:

اِنِّی اَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَ.

’’میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے‘‘۔

یعنی تم نے اس کی سرشت کے اندر موجود مادہ کی بنیادی خصوصیات کو دیکھا کہ وہ اسے ایسا جری بنائیں گی کہ حق یا ناحق، غلط یا صحیح دونوں صورتوں میں وہ خونریزی کرے گا، مرے گا یا مارے گا، خون بہائے گا، اپنی جان دے دے گا، فساد انگیزی ہوگی، تمہاری نظر اس پہلو پر ہے لیکن یاد رکھو صرف یہی کچھ نہیں، اس کی حقیقت میں کچھ اور بھی ہے جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ وہ حقیقت کیا تھی؟ اگلی آیت مبارکہ میں اس سے بھی پردہ اٹھایا:

وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَی الْمَلٰئِکَةِ فَقَالَ اَنْبِئُوْنِيْ بِاَسْمَآءِ هٰؤُلَآءِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ.

’’اور اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا، اور فرمایا: مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو اگر تم (اپنے خیال میں) سچے ہو‘‘۔

(البقرة، 2: 31)

یعنی میں نے اس کو علم کلی عطا کیا ہے۔ علم کو کُلَّہَا کے ساتھ علمِ کلی قرار دینے کا مقصد یہ ہے کہ اس کو وہ علم عطا کیا ہے جس کے ذریعے سارے مقاصدِ علم پورے ہوں گے اور وہ علم اس کو مطلوبہ منزل، کمالِ سیرت و کردار، شعورِ مقصدیت اور تقویٰ تک پہنچائے گا۔ حقیقی منزل سے اس کو آشنا کرے گا۔۔۔ اچھے اور برے کی تمیز دے گا۔۔۔ فجور اور تقویٰ کا امتیاز دے گا۔۔۔ غلط اور صحیح میں فرق کرنے کی صلاحیت دے گا۔ علم اور شعور کی وہ کلی صفت اس کو عطا کی ہے کہ اس کے آجانے سے اس کی خونریزی کی صفت صرف فتنہ و فساد کے لئے ہی استعمال نہیں ہوگی بلکہ جس میں یہ خوبی علم آئے گی، وہ اس خوبی کو باطل کو مٹانے کے لئے استعمال کرے گا۔۔۔ شر کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کرنے کے لئے استعمال کرے گا۔۔۔ مظلوم کی مدد کے لئے استعمال کرے گا۔۔۔ انسانی حقوق کی بحالی کے لئے استعمال کرے گا۔۔۔ حق کو سربلند کرنے کے لئے استعمال کرے گا۔

اللہ رب العزت کا فرشتوں کو یہ جواب واضح کر رہا تھا کہ مرنا اور مارنا فی نفسہ غلط عمل نہیں۔ یہ داعیہ اگر استحصال، ظلم، جبر، انسانیت اور اخلاقی اقدار کی پامالی کے لئے استعمال ہو تو یہ فتنہ ہے اور منفی خوبی ہے لیکن اگر یہی خون بہنے اور بہانے کا عمل باطل کو مٹانے، ظلم و جبر کے خاتمے، حق کو سربلند کرنے اور انسان کو ذلت سے اٹھا کر منصبِ عظمت پر سرفراز کرنے کے لئے استعمال ہو تو پھر یہی وہ منصب ہے جس کی وجہ سے میں اسے خلافت دے رہا ہوں۔

معیارِ خلافت

ملائکہ نے اظہارِ برتری و دعویٰ پارسائی کیا کہ ہم سراپا تسبیح ہیں لہذا ہم ہی حقدار ہیں۔ اللہ نے ان کی اس خوبی کو خلافت کے معیار کے طور پر قبول نہیں کیا حتی کہ اس کا جواب بھی نہیں دیا یعنی اللہ نے اسے نظر انداز کردیا اور اس پر گفتگو ہی نہ فرمائی بلکہ فرمایا:

اِنِّيْ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْن تمہیں یہ سمجھ ہی نہیں۔ اگر خالی تسبیح، تذکیر، عبادت اور اللہ اللہ کرنے والوں کو میں نے خلافت دینی ہوتی تو میں انسان کو پیدا ہی نہ کرتابلکہ اے فرشتو! تمہیں آسمان سے زمین پر بھیج دیتا۔ انسان کو اس لئے بنایا کہ خالی تسبیح سے منصبِ خلافت کا حق ادا نہیں ہوتا۔ اگر خالی اس عمل سے خلافت و نبوت کے حق ادا ہوتے تو معرکہ جہاد بپا نہ ہوتے۔۔۔ مکہ شہر سے ہجرت نہ ہوتی۔۔۔ غزوہ بدر، غزوہ احد اور حنین کے معرکے بپا نہ ہوتے۔۔۔ واقعہ کربلا بپا نہ ہوتا۔۔۔ گردنیں نہ کٹتیں، خون نہ بہتے۔۔۔ دس برس کی مدنی زندگی کے اندر 83 جنگوں کے ذریعے باطل کو مغلوب کرکے اسلام کا جھنڈا سربلند کرنے کا عمل نہ ہوتا۔

گویا قرآن مجید نے تخلیقِ انسانیت کے وقت سے ہی اس تصور کو واضح کردیا تھا کہ خلافت و نیابتِ حق کو سربلند کرنے اور باطل قوتوں سے برسرِپیکار ہونے کا یہ عمل محض عبادت، تسبیح و اذکار سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے ایک جہادی صلاحیت، ایک انقلابی جوہر اور کردار چاہئے۔ اگر وہ انقلابی کردار، علم اور شعور کی صحت کے بغیر ہو تو وہ ظلم ہوجاتا ہے اور اگر علم و شعور کے ساتھ ہوجائے تو وہ امن اور سلامتی میں بدل جاتا ہے۔ جس کو علامہ اقبال نے یوں بیان کیا کہ

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہوں دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

اسلام کا تصور ِعلم

قرآن مجید کے مطابق منصبِ خلافت و نبوت کی ابتداء ’’علم‘‘ سے ہوئی۔ یہ بات قرآنی نقطہ نظر سے واضح ہے کہ صرف کتابیں پڑھ لینا، نصاب پورا کرلینا اور ڈگری لے لینے کا عمل، ابتدائی خواندگی سے لے کر Specialized Knowledge تک کے مرحلہ کو ہی فقط علم نہیں کہتے بلکہ یہ علم کا ایک جز اور کتاب علم کا ایک باب ہے۔ مغربی شعورِ علم (Western Concept of Knowledge) کے مطابق تو یہ علم ہوسکتا ہے مگر اسلامی تصورِ علم کے تقاضوں کے مطابق یہ علم نہیں کہلاسکتا۔

قرآن مجید کی پہلی وحی بھی علم ہی سے متعلق ہے۔علم کی فضیلت کے ساتھ ہی پہلی بعثت کا اجراء کیا گیا یعنی حضرت آدم علیہ السلام کی بعثت کا فضیلت علم سے اجراء ہوا اور علم کے ساتھ ہی آخری بعثت کا اجراء بھی کیا گیا۔ فرمایا:

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِيْ خَلَقَ

’’(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا‘‘۔

(العلق:1)

لفظِ اقراء میں پڑھنے اور خواندگی کا پہلو مذکور ہے۔ اس کا اطلاق ابتدائی خواندگی سے لے کر Specialized Professional Education تک ہوتا ہے۔ مگر صرف اس کو اللہ رب العزت نے علم نہیں کہا، جب تک کہ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِيْ خَلَقَ ساتھ شامل نہیں کیا۔ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وحی کے نزول کے وقت محض ’’اقرائ‘‘ کو نہ پڑھا لیکن جب کہا کہ اس رب کے نام سے، اس شعور کے ساتھ پڑھئے کہ جس نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا کیا ہے۔ تب آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی وحی کے ان الفاظ کو ادا فرمایا۔ گویا خواندگی علم نہیں بنتی جب تک رب کے رب ہونے کا شعور بندے کے اندر داخل نہ ہوجائے۔ جب تک شعورِ بندگی نہ ہو اور رب کائنات کے خالق اور مالک ہونے کا تصور جاگزیں نہ ہو کہ بندے اور رب کے تعلق بندگی کی حقیقت اور معرفت کیا ہے؟ اس وقت تک یہ عملِ خواندگی (Process of Literacy) علم نہیں بنتا۔

علم شعور کے داخل ہونے سے وجود میں آتا ہے۔ قرآن مجید نے پہلی وحی میں علم کو اس طرح واضح کیا کہ خواندگی کے ساتھ بندگی اور ربوبیت کے شعور کو ملایا جائے تب علم وجود میں آتا ہے۔ گویا سورہ علق کی پہلی آیت تصور علم کو واضح کررہی ہے جس میں خواندگی اور رب کی ربوبیت کی معرفت کے تعلق کو علم قرار دیا ہے۔

تصورِ علم کو واضح کرنے کے بعد پہلی وحی ہی میں (Professional Knowledge) کی بات کی۔ ارشاد فرمایا:

خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ

’’اس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا کیا‘‘۔

قرآن مجید نے اس کے ذریعے Biology، Embryology اور Botany کا باب کھول دیا۔ یعنی نظام تعلیم میں Scientific تعلیم کے حصول کی طرف بھی راہنمائی فرمائی۔ پھر فرمایا:

اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ

’’پڑھیئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے‘‘۔

(العلق:3)

سائنس اور ٹیکنالوجی کا دروازہ کھولنے کے بعد اس آیت کا لانا اس بات کا اشارہ ہے کہ سائنس بھی وہی سائنس ہے جو تمہیں اپنے رب کی معرفت تک لے جائے۔۔۔ جو تمہیں حقیقتِ بندگی سے آگاہ کردے۔۔۔ خالقِ کائنات تک رسائی دے۔۔۔ اس کے حکم کی تعمیل اور نفاذ کی طرف تمہیں راغب کرے۔وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُکا مطلب ہے کہ وہ نظام تعلیم جو مسلمان کو رب کی بڑائی اور اس کی کبریائی کی معرفت کی دہلیز تک نہیں پہنچاتا وہ نظام تعلیم اسلامی نہیں ہوسکتا۔

پہلی وحی میں جہاں اللہ تعالیٰ نے علم کی تعریف، جدید سائنسی علوم اور مقاصد علم کو واضح فرمایا وہاں ذرائع علم Education Process of کو بھی بیان کیا۔ ارشاد فرمایا:

الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۔

’’جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا‘‘۔

(العلق:4)

یہاں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جہاں تعلیم کا عمل جاری و ساری ہو، اس جگہ کا اسلحہ قلم ہوتا ہے نہ کہ کلاشنکوف۔ ایک فرد جب طالبعلم ہوتا ہے تو اس کا سب سے بڑا اسلحہ قلم ہوتا ہے کہ وہ قلم کے اندر زور پیدا کرے۔ پھر فرمایا:

عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ يَعْلَمْ

’’جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘۔

(العلق:5)

پس قرآن مجید کی پہلی وحی کی صورت میں جو پانچ آیتیں نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئیں اور جن سے بعثت نبوی اور نزول وحی کا آغاز ہوا ان پانچوں آیات کا موضوع علم تھا، ان کے ذریعے تصور علم اور نظام تعلیم کی بنیاد رکھ دی گئی۔ یہ نظام تعلیم حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عمل سے امت کو عطا کیا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانیت کے لئے معلم بن کر آئے لہذا امت مسلمہ کا فریضہ یہ ہے کہ نظام تعلیم کے اصول بھی قرآن و سنت سے لیں۔

مروجہ فرسودہ نظامِ تعلیم

سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں رائج الوقت نظام تعلیم کیا اللہ کی معرفت اور اس کی کبریائی کی دہلیز تک پہنچارہا ہے؟ ہم یونیورسٹیوں، کالجوں اور تعلیم اداروں سے وہ افراد پیدا کررہے ہیں جو تعلیمی ادارے میں داخل ہونے سے پہلے کچھ نہ کچھ رسمی تعلق خاندانی روایت کی بنیاد پر اپنے مولا سے رکھتے تھے اور سولہ برس کی تعلیم کے بعد جب تعلیمی اداروں سے ڈگری لے کر گئے تو رسمی تعلق بھی اپنے رب سے کاٹ چکے تھے۔ اب ان کا قبلہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی خوشنودی نہ رہی بلکہ ان کا مقصد حیات مادہ پرستی تک محدود ہوکر رہ گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تعلیمی ادارے جس نظام تعلیم کے ذریعے جو Production دے رہے ہیں، اس سے علم وجود میں نہیں آرہا بلکہ اس سے جہالت وجود میں آرہی ہے۔۔۔ ہدایت وجود میں نہیں آرہی بلکہ ضلالت وجود میں آرہی ہے۔۔۔ عظمت وجود میں نہیں آرہی بلکہ ذلت وجود میں آرہی ہے۔۔۔ نور میسر نہیں آرہا بلکہ کردار اور سیرت کو اندھیرا میسر آرہا ہے۔

افسوس ہماری منزل بدل گئی ہے، راستے بدل گئے ہیں۔ قرآن تو کہتا ہے کہ علم وہ ہے جو تمہیں رب کی کبریائی کی دہلیز پر لے جاکر سجدہ ریز کردے۔۔۔ نظام تعلیم وہ ہو کہ رب کی کبریائی کی دہلیز پر طلبہ کو اس طرح سجدہ ریز کردے کہ پھر یہ طلبہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیئے ہوئے احکامات اور نظام کے سوا باقی جتنے احکامات ہیں، معاشرتی، معاشی، سیاسی، تعلیمی الغرض کسی بھی عنوان سے کوئی بھی نظام ہو جو انہیں اللہ کی کبریائی سے ہٹائے، اسے ٹھوکر کے ساتھ پامال کردیں۔ ایسا سسٹم ایمان و اسلام کے خلاف بغاوت ہے۔ قرآن اور اسلام کے تحت اس کو نہ علم کہیں گے اور نہ اسلامی نظام تعلیم کہیں گے بلکہ یہ سامراج کی وہ سازش ہے جس سازش نے ہمیں اس انجام تک پہنچایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں طرح طرح کی بولیاں سننے کو ملتی ہیں۔

افسوس کی بات ہے کہ ہم نے قرآن و سنت کو صرف رسموں کے لئے رکھ چھوڑا ہے۔ صرف کلمہ پڑھنے، مردے نہلانے، نکاح و طلاق، وراثت، انتخابات اور سیاست میں جھوٹ بولنے اور دھوکہ بازی کے لئے ہم قرآن و سنت کو استعمال کرتے ہیں۔ ہمارا اسلام کے ساتھ عملی تعلق کٹ کر رہ گیا ہے۔ اگر ہم سچے مسلمان ہیں تو ہمیں اپنے نظام تعلیم کے اصول قرآن و سنت اور سیرت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کرنا ہوں گے۔

اسلامی نظامِ تعلیم کے بنیادی عناصر

ایک مرتبہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف لائے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں دو حلقات دیکھے۔ ایک حلقہ ذکر کررہا تھا جبکہ دوسرا حلقہ تعلیم کے عمل میں مصروف تھا۔ حلقہ ذکر والوں کو امید تھی شاید حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف رکھیں گے اور ہمیں زیادہ افضل قرار دیں گے لیکن آقا علیہ السلام حلقہ علم میں جاکر بیٹھ گئے اور فرمایا:

اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا۔ مجھے معلم بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔

(سنن ابن ماجه، المقدمه، ج:1، ص83، الرقم:229)

اس کی وجہ کیا تھی کہ آپ نے علم کو ذکر پر ترجیح دی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ علم کُل ہے اور ذکر اس کا ایک جز ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کلّیت کو لے لیا تاکہ سارے اجزاء اس میں آجائیں۔ علم کُل کس طرح ہے؟ اس سوال کا جواب ہمیں قرآن مجید ہی سے میسر آتا ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں نظام تعلیم کے بنیادی عناصر تک بیان کئے۔ ارشاد فرمایا:

کَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ يَتْلُوْا عَلَيْکُمْ اٰیٰـتِنَا وَیُزَکِّيْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ

’’اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہی میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اسرارِ معرفت وحقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے‘‘۔

(البقرة: 151)

ان آیات میں نظام تعلیم کا تصور بیان کیا کہ نظام تعلیم کیسا ہونا چاہئے؟ اس کے عناصر اور اس کی ترجیحات کیا ہیں؟ یاد رکھیں نظام تعلیم میں اول تا آخر اس بات کو مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہئے کہ عقیدے اور نظریئے کو کسی سطح پر بھی نظر انداز نہیں ہونا چاہئے۔ اس ضمن میں اس آیت مبارکہ میں درج ذیل چار نکات کی جانب توجہ مبذول کروائی گئی ہے:

1۔ کلام الہٰی سے تعلق

Comparehensive Knowledge of Concept جس کو ہم اسلام کے تصور کے مطابق علم کہیں گے، اس علم کی پہلی اینٹ اور بنیاد تلاوتِ آیات ہے۔ اللہ کے کلام کے ساتھ طالبعلم کی شناسائی ہو، اس سے ربط ہو، اس کی پہچان و معرفت ہو، اس کا مفہوم سمجھ میں آئے، اس میں انہماک و توجہ پیدا ہو، تعلق پیدا ہو اور اللہ کے کلام کو سمجھے۔ اس لئے کہ Basic Source of Knowledge قرآن ہے۔

دوران نظام تعلیم بندے کا تعلق اللہ سے کٹنے نہ پائے بلکہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے۔ اس لئے فرمایا کہ وہ ہماری آیتیں تلاوت کرتے ہیں، آیتوں میں ہی جیتے اور آیتوں میں ہی رہتے ہیں۔۔۔ آیتوں کے نور میں چلتے ہیں اور آیتوں سے شعور لیتے ہیں۔۔۔ آیتوں سے راستے کا انتخاب کرتے ہیں اور آیتوں کی مدد سے منزل تک پہنچتے ہیں۔

2۔ تزکیہ و تربیت

فرمایا:

وَيُزَکِّيْکُمْ

’’اور تمہیں (نفساً و قلباً) پاک صاف کرتا ہے‘‘۔

اس سے نظام تعلیم کا دوسرا بنیادی عنصر تربیت مقصود ہے۔ آج ہمارا نظام تعلیم و تربیت، تہذیب، اخلاق، تزکیہ نفوس اور شخصی تربیت کے تمام عنوانات اور مضامین سے خالی ہے۔ ہمارے ہاں رائج نظام تعلیم میں تربیت نام کی کوئی شے نہیں۔ تزکیہ و تربیت کو علم اور تعلیم کا حصہ ہی نہیں سمجھا گیا حالانکہ ہمارے تصور علم اور نظام تعلیم کا دوسرا بنیادی عنصر تربیت اور تزکیہ ہے جس سے Spiritual personality Develope ہوتی ہے اور یہی ہمارا بنیادی اخلاق ہے۔

حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف نظام تعلیم دیا بلکہ نظام تعلیم کے اجراء کے لئے ’’صفہ‘‘ کی صورت میں مکتبِ علم بھی وضع فرمایا۔ آپ اس کو مدرسہ کہئے یا سکول، یونیورسٹی، جامعہ، درسگاہ کہئے یا تربیت گاہ، یہ سب کچھ تھا۔ اس میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم براہ راست صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تعلیم و تربیت کے عمل سے گزارتے تھے۔ اس سائبان کے نیچے صحابہ کرام کے قلیل المدتی اور طویل المدتی (Long & Short) کورسز ہوتے۔۔۔ کوئی یہاں زیادہ عرصہ رہتا، کوئی تھوڑا عرصہ رہتا۔۔۔ یہیں سے جہاد کی تربیت پاتے۔۔۔ یہیں سے معاش کی تربیت پاتے۔۔۔ یہیں سے اخلاق کی تربیت پاتے۔ یہ نظام تعلیم و تربیت کا مرکز تھا۔ جس طرح GC یونیورسٹی سے پڑھنے والوں Ravians، منہاج یونیورسٹی سے پڑھنے والوں کو Minhajians اور قائداعظم یونیورسٹی سے پڑھنے والوں کو Quaidian کہتے ہیں۔ اسی طرح تمام کتبِ حدیث و سیرت میں مذکور ہے کہ جو اس یونیورسٹی میں حضور علیہ السلام کی براہ راست تربیت میں پڑھتے تھے ان کو اصحاب صفہ کہا جاتا تھا۔ اصحاب سارے تھے مگر جو اس تربیت گاہ میں آجاتے وہ اصحاب صفہ کہلاتے، جہاں تزکیہ اور تربیت کے ذریعے ان کی علمی، فکری، نظریاتی، اخلاقی اورتنظیمی تربیت کی جاتی۔

3۔ مروجہ نصابِ تعلیم

تزکیہ کے بعد اسلامی نظریہ تعلیم کے تیسرے عنصر کو اللہ رب العزت نے وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ کے ذریعے بیان فرمایا۔

کتاب کی تعلیم سے مراد تعلیم کا Process ہے۔ یعنی نصاب پڑھائے جاتے ہیں اور والحکمۃ سے مراد Philosophy، Wisdom اور Science Professional تعلیم ہے۔

4۔ تخصص

اس کے بعد فرمایا:

وَیُعَلِّمُکُمْ مَالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ

یعنی سائنسی، مادی، ثقافتی، معاشی، سماجی اور تہذیبی ترقی کے تمام گوشے، علوم، معارف اور میدان جو تمہیں معلوم نہیں، وہ سارے تمہیں سکھاتے ہیں اور یہ تمام ابواب اسی تربیت سے کھلتے ہیں۔ گویا علم کا ایک غیر منتہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

وَیُعَلِّمُکُمْ مَالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ سے تخصص واضح ہورہا ہے۔ جس میں expansion of knowledge ہوتی چلی جاتی ہے۔ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف یہ نظام تعلیم دیا بلکہ اس نظام تعلیم کااجراء بھی فرمایا۔

عقیدہ و نظریہ کی مرکزیت

اسلام کے تصور علم میں علم وہ ہے جس میں عقیدہ اور نظریہ کو مرکزیت حاصل ہو۔ اسلامی اور مغربی تصوراتِ علم میں بہت نمایاں فرق ہے۔ بطور مسلمان ہمارا ایک عقیدہ اور نظریہ ہے ہم ایک نظریاتی مملکت ہونے کے دعویدار بھی ہیں۔ یہ درست بات ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان (Islamic Republic of Pakistan) نام رکھ دینے کے بعد شبہ کی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی کہ آیا ہمارا کوئی عقیدہ اور نظریہ ہے یا نہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ ملک کا یہ نام رکھنے کے بعد پھر ہم سیکولر ملک ہونے کے دعویدار بنتے ہیں، یہ ایک ایسا تضاد ہے جوکہ ناقابل فہم ہے۔ افسوس ہمارے تصور علم اور رائج نظام تعلیم میں عقیدے اور نظریئے کی مرکزیت تو درکنار، اس کا تصور بھی موجود نہیں۔ ہمارے عقیدہ میں توحید، رسالت اور آخرت کو مرکزیت حاصل ہے۔ ذیل میں اس کی وضاحت کی جارہی ہے:

1۔ بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے

توحید کے ذریعے طالبعلم اور فرد میں تقویٰ، صالحیت اور اللہ کی بندگی کا نور پیدا ہوتا ہے اور اس توحید کا اثر شخصیت پر ہوتا ہے کہ

ہرکہ رمز مصطفی فہمیدہ است
شرک را در خوف مضمر دیدہ است

’’جس کسی نے رمز مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچان لیا جان گیا کہ (کسی دوسرے کے) خوف میں بھی شرک پوشیدہ ہے‘‘۔

اسلام کے تصور علم کے تحت اگر علم میں عقیدے اور نظریئے کو مرکزیت ہو تو توحیدکا نور علم حاصل کرنے والے کے اندر اس طرح جاگزیں ہوتا ہے اللہ کے سوا دنیا کی ہر شے اور ہر طاقت سے وہ بے خوف و خطر ہوتا چلا جاتا ہے۔ افسوس! ہمارا موجودہ نظام تعلیم بے توحید نظام ہے۔ لہذا جو بے توحید نظام ہوگا اس میں اللہ کا خوف پیدا نہیں ہوسکتا اور جس سیرت اور دل میں اللہ کا خوف نہیں، اس میں اللہ کے سوا باقی ہر شے کا خوف ہوگا۔ مال و دولت کا خوف بھی ہوگا۔۔۔ ہر بڑے کا خوف آئے گا۔۔۔ دیدہ اور نادیدہ ساری طاقتوں کا خوف ہوگا۔ یاد رکھیں! جس دل میں توحید جاگزیں نہیں ہوتی وہ شخص بزدل، بے حس اور بے ضمیر ہے۔ اس کی غیرت، حمیت اور جرات مرگئی۔ وہ نہ مرد اور نہ مومن رہا۔ جب وہ مردانگی سے عاری ہوگیا پھر دنیا کی ظالم طاقتیں اس کو غلام بناکر اس کے گلے میں اپنی غلامی کا پٹہ ڈال کر جو کام چاہیں، اس سے لے لیں، اس کو احساس تک نہیں ہوتا۔

دوسری طرف جب نظام تعلیم عقیدہ توحید کی مرکزیت پر استوار ہوتا ہے تو وہ بندے کو بندہ خدا بناتا ہے۔ رمز مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جوں جوں اس کے من میں پیوست ہوتی چلی جاتی ہے، وہ ہر ایک سے بے خوف ہوتا چلا جاتا ہے۔ حتی کہ اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ اگر گولیوں کی بوچھاڑ بھی اس کے سینے پر کی آجائے تو اس کے پائے استقامت متزلزل نہیں ہوتے۔ اگر ساری طاغوتی، صیہونی، استعماری اور سامراجی قوتیں صف آراء ہوکر اس کے سامنے کھڑی ہوجائیں تو چونکہ اس نے تعلیم کے نظام کے ذریعے توحید کا سبق لیا ہے لہذا وہ کٹ تو سکتا ہے مگر خدا کے غیر کے سامنے کبھی جھک نہیں سکتا۔

توحید سے عاری نظام تعلیم نے اس قوم کے نام نہاد لیڈروں، سیاست دانوں، حکمرانوں اور نام نہاد دانشوروں کو نہ صرف بزدل بنادیا بلکہ عملاً مشرک بنادیا۔ یعنی اُن کا باطن دنیاوی طاقتوں اور اپنے مفادات کے حضور سجدہ ریز ہے۔ آج کل تو توحید اور شرک کے ٹھیکیداروں نے فتوئوں کے بازار گرم کررکھے ہیں جن سے جھگڑے ہوتے ہیں۔ اس موقع پر میں اس ’’شرک‘‘ کی بات نہیں کررہا بلکہ توحید کے مجاہدانہ تصور کی بات کررہا ہوں۔ اسلام تو مصطفوی توحید کی بات کرتا ہے۔ یہ توحید وہ ہے جو بندے کو بے خوف کرکے مردِ حق بنادیتی ہے اور وہ تلواروں کے سامنے بھی کلمہ حق کہنے سے نہیں گھبراتا۔ کوئی حرص اور لالچ بھی اس کے قدموں کو متزلزل نہیں ہونے دیتی۔ لیکن جب توحید کایہ تصور کردار سے ختم ہوجائے تو انسان دنیا کی طاقتوں کا غلام بن جاتا ہے۔ افسوس!ہمارے نظام تعلیم سے پیدا ہونے والے لوگوں کو توحید کا سبق نہ ملنے کی وجہ سے بے خوف کردار نہیں ملا۔ لہذا خیانت، کرپشن، چوری، حقوق کی پامالی ان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے۔ اس لئے کہ وہ تعلیم ہی نہیں ہے جس کے اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصول مقرر کئے۔ جب بندہ، خدا کا بندہ نہ رہا پھر وہ ہر شے کا بندہ ہوگیا اور جو خدا کا بندہ ہوگیا اس نے غلامی کے سارے طوق گلے سے اتار کے پھینک دیئے۔

2۔ وفا بالمصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

اسلامی تصور علم میں عقیدے کی مرکزیت کا دوسرا نقطہ ’’تصور رسالت‘‘ ہے۔ ہمارے موجود نظام تعلیم میں تصور رسالت کا کہیں وجود نہیں ہے حالانکہ اس تصور کے بغیر اسلام کا نظامِ تعلیم ہی مکمل نہیں ہوپاتا۔ اگر عقیدہ رسالت کی مرکزیت ہو تو نظام تعلیم انسان اور معاشرے کو نظام اور وفاداری دے دیتا ہے۔ عقیدہ رسالت کا مطلب یہ ہے کہ امت مسلمہ، اس کا معاشرہ اور اس کا نظام اگر کسی کا وفادار ہے تو محمد الرسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وفادار ہے، وہ باقی ساری نظام ٹھکرا کر پھینک دیتا ہے۔ لا الہ الا اللّٰہ کا معنی ہے کہ یہ بندہ صرف اللہ کا بندہ ہے باقی سب کی کبریائی کے بتوں کو پاش پاش کرتا ہے۔ محمد الرسول اللّٰہ کا مطلب یہ ہے کہ یہ حکومت، معاشرہ اور عوام صرف محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیئے ہوئے نظام کو اور ان کے عطا کردہ دین کو نظام مانتے ہیں۔ اس کے سوا باقی سارے نظاموں کے بتوں کو پاش پاش کرتے ہیں۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا باقی کسی کی قیادت اور باقی کسی کی غلامی اور طوقِ غلامی کو قبول نہیں کرتے۔ وہ فرد اور معاشرہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نظام، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت و سیرت کا وفادار ہوتا ہے۔ وہ جائز و ناجائز کے احکامات حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لیتا ہے۔

ہم نے توحید و رسالت کو ایک رسمی کلمہ کے اندر بند کرکے رکھ دیا ہے۔ رسمی اور حقیقی توحید میں فرق ہے۔ حقیقی توحید یہ ہے کہ

دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی

جب اللہ کی لذتِ توحید ملتی ہے اور انسان شرابِ توحید کا جام پیتا ہے تو اس کو وہ لذت و راحت، سکون اور سرور و انبساط آتا ہے کہ دنیا کے سارے نشے کافور ہوجاتے ہیں۔ وہ للچائی ہوئی نگاہوں سے دنیا کو نہیں دیکھتا۔ جس نوجوان کو نظام تعلیم کے ذریعے توحید کی شراب پلادی جاتی ہے پھر اس کے قدم نہ کبھی کلب کی طرف اٹھتے ہیں، نہ کبھی میخانوں کی طرف اور نہ کبھی رقص کدوں کی طرف اٹھتے ہیں۔ اس کے قدم جب اٹھتے ہیں تو خدا کے حضور سجدہ ریزی کے لئے اٹھتے ہیں۔ آج کا نوجوان دنیا کے جھوٹے مصنوعی حسن کے پیچھے اس لئے مارا مارا پھرتا ہے کہ اسے الوہی جمال کا نقشہ نظر نہیں آیا۔ اس تعلیم نے اسے حسن مطلق کا چہرہ نہیں دکھایا، اسے الوہی حسن و جمال کی جھلک نہیں دکھائی۔ اس لئے کہ جنہوں نے الوہی حسن و جمال کی جھلک دیکھ لی تھی ان کی گردنیںکٹتی تھیں مگر وہ ’’اَحَدْ اَحَدْ‘‘ کا نعرہ لگاتے رہے۔

3۔ جوابدہی کا تصور

اسلامی تصور و نظام تعلیم میں فکر آخرت کو بھی مرکزیت حاصل ہے۔ اس عقیدہ سے اخلاص اور طہارت جنم لیتی ہے۔ ہمارا نظام تعلیم فکر آخرت سے بھی خالی ہے۔ پورے 16 برس کی تعلیم سے کسی کو آخرت کی فکر کیا میسر آنی ہے بلکہ رہی سہی بھی بھلادی جاتی ہے۔ بیشتر طلبہ جب پڑھ کر نکلتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے ان نوجوانوں نے کبھی آخرت کا ذکر ہی نہیں سنا۔ گویا ہمارا نظام تعلیم عقیدہ کی مرکزیت کے حامل تصورات یعنی توحید، رسالت اورآخرت سے یکسر عاری ہے۔ لہذا اسی نظامِ تعلیم کو ایمان کش نظام کہنا بے جانہ ہوگا۔ (جاری ہے)