شفاقت علی شیخ

فرض کریں کہ آپ ایک جنگل میں سے گزر رہے ہیں جہاں ایک شخص بڑی تیزی کے ساتھ ایک آری کے ساتھ درخت کا تنا کاٹ رہا ہے۔ وہ شخص پسینے میں شرابور ہے۔ اُسے اس کام کو کرتے ہوئے چار گھنٹے کا وقت گزر چکا ہے۔ آپ نے اِس کی حالت دیکھ کر اُسے مشورہ دیا کہ ’’ تھوڑا سا آرام کر لیں اور اس دوران آپ اپنی آری کو بھی تیز کر لیں کیونکہ یہ کانی کند ہو چکی ہے۔ ایسا کرنے سے کام سہولت اور آسانی سے مکمل ہو جائے گاـ‘‘۔

اس نے آپ کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’ میرے پاس آرام کرنے اور آری کو تیز کرنے کیلئے وقت نہیں ہے۔ ابھی بہت سارا کام پڑا ہے۔ مجھے اسے ختم کرنا ہے ‘‘۔

یہ کہہ کر وہ دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو جاتا ہے۔ معمولی سے غور و فکر سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ اگر یہ شخص چند منٹ کا وقفہ لیکر آری کو اچھی طرح تیز کر لے تو اس کے نتیجے میں یہ شخص اپنا کافی سارا وقت بچا سکتا ہے اور اپنے کام کو جلد مکمل کر سکتا ہے۔

اسی طرح ہمارے ہاں ’’ لالچ بُری بلا ہے ‘‘ کے عنوان کے تحت ایک غریب کسان اور اس کی پالتو بطخ کی کہانی بیان کی جاتی ہے۔ وہ بطخ روزانہ سونے کا انڈہ دیتی تھی جس سے وہ کسان نہایت خوش ہوتا۔ اُس میں لالچ اور حرص بڑھنے لگی اور اُس کے لئے ہر روزانڈے کا انتظار کرنا ایک مشکل سا کام بن گیا۔ چنانچہ ایک روزوہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ وہ بطخ کو ذبح کر دے گا اور اُس کے اندر سے ایک ہی مرتبہ تمام انڈے نکال لے گا تاکہ اُسے روزانہ انتظارکی کوفت برداشت نہ کرنی پڑے۔ لیکن جب وہ بطخ کو ذبح کرنے کے بعد اُس کا پیٹ چاک کرتا ہے تو وہاں اُسے کوئی انڈہ نہیں ملتا اور نہ ہی آئندہ انڈوںکے ملنے کی کوئی اُمید باقی رہتی ہے۔

اگریہ شخص لالچ اور بے صبری کا شکار ہو کر ایک ہی بار انڈوں کو حاصل کرنے کے شوق میں بطخ کو نہ مارڈالتا تو وہ مستقل بنیادوں پر انڈے حاصل کر سکتا تھا۔ لیکن اب اُس نے وہ ذریعہ ہی ختم کر دیا ہے جس سے انڈے ملا کرتے تھے۔

اسی طرح ہمارے ہاں اچھی کمپنیاں اپنی اشیاء تیار کرتی ہیں وہ سالہا سال تک چلتی رہتی ہیں اور مختلف اوقات میں اُن کے چلنے کا مجموعی دورانیہ ہزاروں گھنٹوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم کسی اچھی سے اچھی کمپنی کی کوئی چیز خرید کر اُسے بغیر کسی وقفہ کے چلاتے جائیں تو وہ بمشکل ایک سو گھنٹے چل کر جواب دے دے گی اور خراب ہو جائے گی۔

یہی چیز جب مناسب وقفوں سے چلائی جاتی ہے تو وہ بغیر کسی خرابی کے ہزاروں گھنٹے چل سکتی ہے۔ لیکن جب اُسے آرام کا وقفہ دئیے بغیر چلایا جاتا ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ سو گھنٹے تک چل کر بند ہو جاتی ہے۔

پیداوار اور پیداواری صلاحیت میں توازن

مندرجہ بالا تینوں مثالوں میں جوبات قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر جگہ پر دو چیزیں ہیں:

  1. پیدا وار یعنی وہ منافع جو حاصل کیا جا رہا ہے۔
  2. پیداواری صلاحیت، یعنی وہ ذریعہ اور وسیلہ جس کے ذریعے سے مطلوبہ منافع حاصل کیا جا رہا ہے۔

پہلی مثال میں درخت کا کاٹنا پیداوار ہے جبکہ آری پیداواری صلاحیت ہے۔ دوسری مثال میں سونے کا انڈہ پیداوار ہے جبکہ بطخ پیداواری صلاحیت ہے۔ تیسری مثال میں کمپنی کی تیار کردہ شے سے فوائد حاصل ہونا پیداوار ہے جبکہ کمپنی کی تیار کردہ شے پیداواری صلاحیت ہے۔

سمجھنے والی بات یہ ہے کہ جب ہم اپنی توجہ پیداوار کو حاصل کرنے پر مرکوز کر دیتے ہیں اور اس میں انہماک ہمیں پیداواری صلاحیت کی حفاظت اور نگہداشت سے غافل کر دیتا ہے تو پھر یا تو پیداواری صلاحیت ختم ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں ہمیں بالآخر پیداوار سے بھی محروم ہونا پڑتا ہے جیسا کہ دوسری اور تیسری مثالوں سے آشکار ہے۔ اور یا پھر پیداواری صلاحیت کی استعداد میں کمی آ جاتی ہے اور اُس کا نتیجہ پیداوار میں کمی کی صورت میں نکلتا ہے جیسا کہ مثال نمبر ایک میں دکھائی دے رہا ہے۔ لہذا ہمارے لئے بہترین راستہ یہی ہے کہ پیداوار اور پیداواری صلاحیت میں توازن کو کسی بھی سطح پر نظر انداز نہ ہونے دیں۔ ہماری نظر ایک طرف پیداوار کے حصول پر ہو تو ساتھ ہی ساتھ پیداواری صلاحیت کی حفاظت اور نگہداشت پر بھی توجہ مرکوز ہو۔ اور اُسے بہترین حالت میں رکھنے کیلئے مناسب وقفوں کے ساتھ مناسب اقدامات اُٹھائے جاتے رہیں۔ صرف اسی صورت میں ہم اپنے مطلوبہ مقاصد لمبی مدت تک بطریق احسن حاصل کرسکتے ہیں۔ بصورت دیگر پیداواری صلاحیت کو نظر انداز کرنے کی صورت میں وقتی طور پر تو شاید ہمیں پیداوار کے حوالے سے توقع سے بھی بڑھ کرشاندار نتائج مل جائیں لیکن جلد یا بدیر ہمیں اُن سے مستقل طور پر محروم ہونا پڑے گا۔

پیداوار اور پیداواری صلاحیت میں توازن کا مسئلہ کسی خاص شعبے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ ایک ہمہ گیر اُصول ہے جس کا تعلق ہر شعبہ حیات سے ہے۔ مثلاًایک فیکٹری کا مالک جو کچھ تیار کرتا ہے وہ پیداوار ہے اور جس مشینری کے ذریعے تیار کرتا ہے وہ پیداواری صلاحیت ہے۔ اگر وہ پیدا وار کی ایک خاص مقدار مستقل بنیادوں پر حاصل کرنا چاہتا ہے تو اُس کے لئے اس کے بغیر چارہ ہی نہیں ہے کہ وہ مشینری کی کارکردگی کو برقرار رکھنے کیلئے اُسے دانشمندانہ طور پر استعمال میں لائے۔ مناسب وقفوںسے اُسے آرام دے۔اُس کی صفائی و ستھرائی اور تعمیرو مرمت (Maintenance) کے تمام تر تقاضے ساتھ ساتھ پورے کرتا ر ہے۔ اسی طرح ایک کار کا مالک اپنی کار سے سفر ی سہولیات کی صورت میں جو پیداوار حاصل کرنا چاہتا ہے تو اُس کے لئے اُسے پیداواری صلاحیت یعنی کار کی حفاظت کرنا ہو گی۔ اُس کے کام اور آرام کے وقفوں میں توازن قائم رکھنا ہو گا۔ حسب ضرورت اس میں پٹرول ڈلوانا ہو گا۔ مناسب وقفوں کے بعد اس کی صفائی ستھرائی اور تیل بدلی(Changing the Engine Oil) نیز اُس کی شکست و ریخت کو ساتھ ہی ساتھ درست کرنا ہو گا۔ صرف اسی صورت میں کار اُس کے مطلوبہ مقاصد کو عرصہ دراز تک بطریق احسن پورا کر سکتی ہے۔

پھر یہ اُصول صرف مادی چیزوں تک محدود نہیں ہے بلکہ انسانی تعلقات اور رشتوں ناطوں میں بھی اس توازن کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ دوسروںسے تعلقات کے ضمن میں اُن کی طرف سے حسبٍ ضرورت جو مدداور تعاون ہمیں ملتا ہے وہ پیداوار ہے جبکہ باہمی تعلقات کا خوشگوار ہونا اور اعتمادکے اعلیٰ درجے کا برقرار ہونا پیداواری صلاحیت ہے۔ اگر ایک شخص اپنی تمام تر توجہ تعلقات سے مفادات اور ثمرات کو سمیٹنے پر مرکوز کر دے اور اس بات کی پرواہ نہ کرے کہ اُس کے طرز عمل سے دوسرے کس طرح متاثر ہو رہے ہیں تو بہت جلد وہ وقت آجائے گا جب اُن کی نظروں میں اس کی تصویر ایک لالچی، خودغرض اور مفاد پرست شخص کی سی بن جائے گی۔ تعلقات سرد مہری کا شکار ہو جائیں گے۔ پیداواری صلاحیت کے متاثر ہونے کے بعد پیداوار کے مطلوبہ درجہ کا حصو ل بھی نا ممکن ہو جائے گا۔

دنیا میں کسی بھی قسم کے اثاثہ سے بھر پور اور متواتر فائدہ اُٹھانے کیلئے اصل اثاثہ کی حفاظت کرنا بہت ضروری ہے اور دنیا کے اندر بے شمار قسم کے اثاثہ جات پائے جاتے ہیں لیکن ان تمام اثاثہ جات میں سے سب سے قیمتی اور انمول اثاثہ ہے:

’’انسان کی اپنی ذات ‘‘

جتنی بھی ترقیاں، کامیابیاں اور کامرانیاں انسان دنیا میںحاصل کرتا ہے اور جس جس معاملے میںجو جو کارہائے نمایاں سر انجام دیتا ہے اور جتنے بھی معرکے سر کرتا ہے اُن سب کا دارومدار اُس کی اپنی ذات پر ہی ہوتا ہے۔ لہذاخارجی دنیا میںکسی بھی قسم کے نتائج حاصل کرنے کیلئے اُس کے اپنے وجود کا اعلیٰ ترین حالت میں ہونا یعنی ’’صلاحیتوں کی تجدید‘‘ بہت ضروری اور اولین شرط ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ مختلف مقاصد کے حصول کیلئے جدوجہد کرنے کے ساتھ ساتھ وقتا ً فوقتا ً مسلسل اور متواتر بنیادوں پر اپنی صلاحیتوں، توانائیوں اور استعداد کی تجدید(Renewel) کرتے رہنا تاکہ وہ بہترین حالت میں رہیں اور بہترین کا رکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔ بصورت دیگر غفلت اور عدم تو جہی کے ارتکاب کی صورت میں وہ شکست و ریخت کا شکار ہو کر پژ مردہ ہو جائیں گی۔ نتیجتاًمطلوبہ مقاصد کا حصول نا ممکن ہو جائے گا۔

اگر ہمارا اپنا وجود ہی خزاں رسیدہ درخت کی طرح مرجھایا ہوا ہو گا اور ہماری صلاحیتیںہی تھکی ماندی ہوں گی تو پھر ہمارے اندر وہ جوش و خروش، وہ جذبہ و جنوں اوروہ عزمِ مصمم پیدا ہی نہیں ہو گا جو آگے بڑھ کر طوفانوں کا رُخ موڑ دیا کرتا ہے، پہاڑوں کاجگر پاش کر دیا کرتا ہے اور ستاروں پر کمندیں ڈالا کرتا ہے۔ لہذا اگر ہم دین، دنیا اور آخرت کے اندر کامیابیاں اور کامرانیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوںکی باقاعدگی کے ساتھ تجدید کرتے رہیں اور اپنی حیات نو کیلئے ضروری اقدامات کرتے رہیں۔

بیشتر لوگ اپنے بیرونی معاملات کو سلجھانے، مسائل کو حل کرنے اور ترقی کے سفر میں آگے بڑھنے کے شوق میںذہنی و جسمانی طور پر اتنا مصروف ہوجاتے ہیں کہ اپنی ذات کیلئے اُن کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔ چنانچہ صلاحیتوں کی تجدید کے حوالے سے مسلسل غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، کیونکہ اس کا فوری طور پراثر مرتب ہوتاہوا دکھائی نہیں دیتا۔ غفلت اور لاپرواہی کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ کچھ عرصہ کے بعد قدرت کا قانون مکافاتِ عمل حرکت میں آنا شروع ہو جاتا ہے۔ کوتاہیوں، غفلتوں اور بد اعتدالیوں کے اثرات آہستہ آہستہ اندر جمع ہو تے چلے جاتے ہیں اور انسان کو اند ر سے کھوکھلا کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس کی صلاحیتیں دیمک زدہ اور زنگ آلودہ ہوتی چلی جاتی ہیں۔ پھر وہ وقت آتا ہے جب بہت کچھ کرنے کو دل کرتا ہے لیکن نہ تو اُس کو کرنے کیلئے جذبہ، جوش و خروش ہوتا ہے اور نہ ہی عملی طور پر طاقت اور قوت ہوتی ہے۔ انسان بے شمار حسرتوں، ارمانوں اور خواہشوں کو لئے ہوئے خزاں رسیدہ پتے کی طرح شاخ حیات سے گرتا ہے اور منوں مٹی تلے دفن ہو جاتا ہے۔

گویا پیداواری صلاحیت کو نظر انداز کرنے سے پیداوار کو حاصل کرنے کے تمام خواب اور منصوبے ادھورے رہ جاتے ہیں اور انسان نا تمام حسرتوں کو لئے ہوئے دنیا سے کوچ کر جاتا ہے۔

تجدید کے چار پہلو

صلاحیتوں کی تجدید کے حوالے سے ہمارے لئے یہ جاننااہم ہے کہ ہماری شخصیت کے مرکزی حصے کون کون سے ہیں، جن سے شخصیت معرض وجود میں آتی ہے۔ زندگی کی وہ کون کون سی جہتیں (Dimensions) ہیں، جو ہماری شخصیت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل چار پہلوئوں (Aspects) کو ملحوظ خاطر رکھنا بہت ضروری ہے:

(i) طبعی پہلو

اس سے مراد ہمارا جسم ہے جو مختلف اعضاء مثلا ً ہاتھ، پؤں، آنکھ، کان، زبان وغیرہ پر مشتمل ہے۔ دنیا کے ساتھ ہمارے سارے رابطے اس جسم کے ذریعے سے ہیں۔ جو کام بھی ہم سر انجام دیتے ہیں، اُن کے اندر جسم اور اس کے اعضاء کا کردار بنیادی نوعیت کا ہوتا ہے۔ لہذا جسم کو شخصیت کی بنیادی اکائی(Basic unit) قرار دے دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

(ii) ذہنی پہلو

انسان کے سر میں اللہ رب العزت نے دماغ کی صورت میں ایک حیرت انگیز آلہ رکھ دیا ہے جو سارے جسم سے بذریعہ اعصاب اطلاعات وصول کرتا ہے اور اُنہیں ہدایات دیتا ہے۔ تمام جسمانی سرگرمیوں(Activities) کا دارمدار خیالات پر ہے اور خیالات کا تانا بانا یہیں پر بُنا جاتا ہے۔ عقل کا تعلق اسی حصے سے ہے۔

(iii) قلبی پہلو

انسان کے سینے میں اللہ رب العزت نے ایک دھڑکتا ہو ا دل بھی رکھا ہوا ہے جو ہر قسم کے جذبات کا مرکوز و محور ہے۔ محبت، خلوص، ایثار و قربانی اور عزت و تکریم کے تمام اچھے جذبات بھی یہیں پرپیدا ہوتے ہیں، جبکہ نفرت، کدورت، حسد، حرص اور بغض و عداوت جیسے منفی جذبات بھی یہیںپر پیدا ہوتے ہیں۔ ا س حصے کا تعلق ہمارے سماجی تعلقات سے ہے۔ دماغ کو اگر علم کا برتن کہہ لیاجائے تو دل کو عشق و محبت کا برتن قرار دیا جا سکتا ہے۔

(iv) روحانی پہلو

یہ ہماری شخصیت کا باطنی پہلو ہے جو اگرچہ دکھائی نہیں دیتا مگر ہماری شخصیت کا اصل مرکز و محوریہی ہے چونکہ یہ ہماری اصلیت اور حقیقت ہے اور حقیقت ہمیشہ ہی نگاہوں سے اوجھل ہوتی ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کسی بھی پھل کے اندر ذائقہ اصل مقصود ہوتا ہے مگر دنیا کا کوئی بھی سائنسدان ایسا نہیںہے جو کسی انتہائی حساس خوردبین (Microscop)کے ذریعے دکھا سکے کہ ذائقہ کہاں موجود ہے؟جس طرح ذائقہ دکھائی نہ دینے کے باوجود پھل کے اندر موجود ہے اسی طرح روح دکھائی نہ دینے کے باوجود جسم کے اندر ایک زندہ و جاوید حقیقت کے طور پر موجود ہے۔

مندرجہ بالا چاروں پہلوئوں کے مجموعے سے شخصیت تشکیل پاتی ہے ان میں سے کسی ایک کوبھی غیر اہم یا کم اہم سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح ایک دائرے کے اندر ہر نقطہ اپنی جگہ اہم ہوتا ہے اسی طرح شخصیت کے اجزائے ترکیبی میں یہ چاروںپہلو اپنی اپنی جگہ بہت اہم ہیں اور یہ چاروں مل کر ہی شخصیت کے دائرے کو مکمل کرتے ہیں۔

صلاحیتوں کی تجدید کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے وجود کے ان چاروں حصوںکو کبھی کبھار نہیں بلکہ ہمیشہ اپنی بہترین حالت میں رکھنے کی کوشش کریں اور اُنہیں دانشمندانہ اور متوازن طریقے سے استعمال میں لائیں۔ زندگی میں اگر واقعی ہم اپنے لئے کوئی اہم اور طاقتور کام کرسکتے ہیں تو وہ یہی ہے کہ ہم اپنے اُوپر کام کریں۔ کیونکہ ہم خودہی وہ ہتھیار ہیںکہ جس کے ذریعے ہم زندگی سے نبٹتے ہیں اور اس میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ ہم اپنی کارکردگی کے خود ذمہ دار ہیں اور اپنی کارکردگی میں پُر اثر ہونے کیلئے بہت ضروری ہے کہ ہم چاروں حوالوں سے صلاحیتوں کی تجدید کیلئے وقت نکالنے کی اہمیت کو سمجھیں۔ صلاحیتوں کی تجدید پر صرف ہونیوالا وقت ہماری وہ زبردست سرمایہ کاری ہے جو ہم اپنے آپ کو بہترین حالت میں رکھنے کے لئے کر سکتے ہیں۔ جب ہم جسمانی، ذہنی، قلبی اور روحانی طور پر بہترین حالت میں ہوں گے تو ہماری کارکردگی بھی بہترین ہو گی اورہم اپنے جملہ فرائض اور ذمہ داریوں کو بطریق احسن سر انجام دے سکیں گے۔ جس کے نتیجے میں ہمارا خدا بھی ہم سے راضی ہو گا، لوگ بھی ہم سے خوش ہوں گے اور خودہم بھی اپنی نگاہوں میں مطمئن اور مسرور ہوں گے۔ یہی کامیاب زندگی کی سب سے بڑی کلید ہے۔

تجدید میں توازن

تجدید کے حوالے سے خاص طور پر یاد رکھنے والی انتہائی اہم بات یہ ہے کہ تجدید کے عمل میں چاروں پہلوؤں کو شامل کرنا چاہیے اور ان میں توازن بھی رکھنا چاہیے۔ وجہ یہ ہے کہ شخصیت کے یہ چاروں پہلواپنی جداگانہ اور منفرد حیثیت کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ زبردست طریقے سے باہمی طور پر جڑے ہوئے بھی ہیں اور ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جب ہم کسی ایک کی بہتری کے حوالے سے کوئی قدم اُٹھاتے ہیں تو وہ اس کو براہ راست متاثر کرنے کے علاوہ بالواسطہ طور پر دوسروںپر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ دوسری طرف کسی ایک کو نظر انداز کرنے کے منفی اثرات دوسروں پر بھی پڑتے ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ کار کا ایک پہیہ ٹیڑھا ہوجائے تو چاروں کی حرکت میں فرق آ جاتا ہے، حالانکہ خرابی صرف ایک میں ہے۔ اسی طرح جب ہمارا جسم تھکا ہوا ہوتا ہے تو دماغ پرا گندہ، دل بوجھل اور رُوح پژمردہ سی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جب جسم ترو تازہ حالت میں ہوتا ہے تو بقیہ تینوں بھی مطمئن اور پر سکون محسوس ہو رہے ہوتے ہیں۔ لہذا تجدید کے کام کو زیادہ پُر اثر اور بار آور بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم چاروں پہلووں کی عقلمندی کے ساتھ متوازن انداز میں تجدید کرتے رہیں۔

بہت سارے لوگ تجدیدکے معاملے میں یہ سنگین غلطی کرتے ہیں کہ زندگی کے کسی ایک یا دو رُخوںپرتمام تر توجہ مرکوزکر دیتے ہیں اور باقی پہلوؤں کو نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں۔ مثلا ً بعض لوگ بہت سارا وقت اپنا جسم بنانے پرصرف کردیتے ہیںمگر ذہنی حالت کو بہتربنانے کی طرف توجہ نہیں دیتے جس کے نتیجہ میں وہ ذہنی صلاحیتوں کے معاملے میں بانجھ رہ جاتے ہیں۔ اس کی مثال پہلوانوں میں بکثرت دیکھی جاسکتی ہے۔

بعض لوگ ذہنی صلاحیتوں کو جلا دینے کے لیے بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں مگر سماجی حوالے سے کوئی اہم کردار ادا نہیں کر پاتے کیو نکہ اُنہوں نے اپنے جذبات کی تر بیت اور سماجی تعلقات کے حوالے سے کوئی خاص جدوجہدنہیں کی ہوتی لہذا اس پہلو میں کمزور رہ جاتے ہیں۔ اس کی مثال وہ تمام نام نہاد قسم کے دانشور ہیں جو بزعم خویش خود کو بہت بڑا دانشور سمجھ لیتے ہیں اور دوسروں کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ یہ لوگ جذبات کی نزاکتوں اور لطافتوں سے نآشنا ہوتے ہیں چنانچہ دوسروں کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنا اور اُن میں گھل مل کر رہنا اُن کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔

اسی طرح بعض لوگ روح کو ہی سب کچھ سمجھ کر ماحول اور معاشرے سے منقطع (Cut off)ہو کر اُسے بنانے، سنوارنے اور نکھارنے میں لگ جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے جسم کئی قسم کی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ ذہنی ترقی کا سفر بھی خاطر خواہ جاری نہیں رہتا اور دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی گرم جوشی والے تعلقات برقرار نہیں رہتے۔

یہ ساری صورتیں افراط و تفریط اور عدمِ توازن کی ہیں جو زندگی کے اندر کئی قسم کی نا ہمواریاں، کجیاں، کمیاں اور خامیاں پیدا کر دیتی ہیں، جن کے نتیجے میں زندگی محرومیوں، مایوسیوں، ناکامیوں اور نامرادیوں کا مرقع بن کر رہ جاتی ہے، لہذا اپنی صلاحیتوں سے بھر پور کام لینے اور ایک مکمل اور فعال زندگی بسر کرنے کیلئے زندگی کے چاروں حصوں میں توازن قائم رکھنا بہت ضروری ہے۔

ہمارے دین کے اندر اعتدال، توازن اور میانہ روی کی روش کو اپنانے کی بہت زیادہ تلقین کی گئی ہے بلکہ اس صفت کو اُمت مسلمہ کا بنیادی وصف قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا:

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا

’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا ‘‘

(البقرة، 2: 143)

حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

خير الامور اوسطها

’’کاموں میں اعتدال والی روش بہتر ہے۔‘‘

(ابن ابی شيبة، المصنف، رقم: 28: 35، 7/179)

اسی طرح انگریزی زبان کا ایک قول ہے:

ـExcess of every thing is bad"‘‘

اور اُردو میں اسی محاورے کاترجمہ یوں کیا جاتاہے۔

’’افراط سے پیا جائے تو آب حیات بھی زہر بن جاتا ہے‘‘

زندگی کا سارا حسن ہی توازن میں ہے۔ اعتدال و توازن جس بھی معاملے میں آجائیں اُس میں خوبصورتی اور بہتری پیدا ہو جاتی ہے۔اس کے برعکس افراط و تفریط جہاں بھی ہوں وہاں معاملات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ مشرق و مغرب کے سارے ہی دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ ہر معاملے میں توازن کی روش ہی اپنانی چاہیے۔ لیکن بہت کم خوش نصیب ہیں جو زندگی کے مختلف شعبوں میں توازن کو عملی طور پر برقرار رکھ پاتے ہیں۔ ورنہ اکثر و بیشتر زندگیاں کہیں نہ کہیں عدم توازن کا شکار ہوتی ہیں حتیٰ کہ بعض بہت سارے ایسے لوگ جو کسی نہ کسی فن کے حوالے سے شہرت کی بلندیوں پر فائز ہوتے ہیں، اُن کی اندرونی زندگیوں میں جھانکنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ زندگی کے بعض شعبوں مثلا ًعائلی اور خاندانی زندگی وغیرہ جیسے شعبوں میں کتنے ناکام ہیں۔ اُس کی وجہ ہی یہ ہوتی ہے کہ اُنہوں نے ز ندگی کے ایک/ دو پہلوؤں پر اتنی زیادہ توجہ دی ہوتی ہے کہ دوسرے پہلو نظر انداز ہو جاتے ہیں اور اُس کے نتیجے میں زندگی عدم توازن کا شکار ہو جاتی ہے اور یوں بعض محاذوں پر کامیاب ہو جانے کے باوجود زندگی کو مجموعی طور پر کامیاب کہنا مشکل ہوتا ہے۔

تاریخ انسانی کے اندر جو لوگ حقیقی معنوں میں کامیاب و کامران دکھائی دیتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو اپنی شخصیت کے تمام حصوں کو متوازن انداز میں استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ اُن میں سر فہرست انبیاء کرام علیہم السلام کی شخصیات ہیں جو زندگی گزارنے کے قوانین وحی کی صورت میں براہ راست ذاتِ خداوندی سے لیتے ہیں۔ چنانچہ اُن کی زندگیاں افراط و تفریط اور ہر قسم کی بے اعتدالیوں سے پاک ہوتی ہیں اور ہر چیز اپنے مقام پر دکھائی دیتی ہے۔ پھر اس گروہِ انبیاء میں سے بھی نکتہ کمال جسے پوری انسانیت کیلئے انتہائی مثالی نمونہ (Roll Model)قرار دیا جا سکتا ہے۔ وہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے۔

حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمکی ذات مبارکہ صرف کمال کے معیارپر پوری ہی نہیں اُترتی بلکہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات خود کمال کا معیار ہے۔ چنانچہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے اندر مذکورہ بالا تمام شعبوں میں کمال کا توازن دکھائی دیتا ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جسمانی زندگی کا یہ حال تھا کہ تریسٹھ سال کی عمرمبارک میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک دو مرتبہ بخار کے علاوہ اور کوئی مرض بھی نہ آیا۔ یہی حال آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت مبارکہ کے ذہنی، قلبی اور روحانی پہلوئوں کا تھا کہ وہ سب کے سب حد درجہ توازن کے ساتھ اپنی بہترین حالت میں موجود تھے اور فطری انداز میں ترقی اور ارتقاء کی منزلیں طے کر رہے تھے۔ قرآن مجید نے اس پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے فرمایا:

وَ لَـلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی

’’اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلی سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہے۔‘‘

الضحیٰ: 4

لہٰذا آج اگرکوئی کسی بھی حوالے سے کمال پانا چاہتا ہے تو اُسے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت و سیرت کے اندر جھانک کر دیکھنا ہو گا اور اپنی زندگی کی راہوں کوروشن اورمنور کرنے اور اپنی جسمانی، ذہنی، قلبی، اور روحانی صلاحیتوں کی متوازن تجدید کیلئے بارگاہ نبوت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روشنی کی خیرات حاصل کرنا ہو گی۔

متوازن تجدید کے اُصول

سطور بالا سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ دین، دنیااورآخرت کی جملہ سعادتوں اور بھلائیوں کے حصول اور زندگی کے دامن کو حقیقی، خوشیوں، راحتوں، مسرتوں، کامیابیوں اور کامرانیوں سے بھرنے کیلئے ہماری شخصیت کے چاروں پہلوئوں کی متوازن انداز میں تجدیدہوتے رہنا بہت ضروری ہے۔ نیز یہ کوئی ایک یا دو دن کا کام نہیں ہے بلکہ دوسرے تمام مشاغل حیات کے ساتھ ساتھ اس عمل کو زندگی بھر جاری رہنا ہے اور اس اہم ترین کام کو نظر انداز کرنے کی صورت میں ہم زندگی کے بازار سے نہ تو پوری قیمت وصول کرسکتے ہیں اور نہ ہی دنیا کی سٹیج پر اپنا کردار بھر پور، فعال اور موثر انداز میں ادا کر سکتے ہیں۔ لہذا ہمارے لئے بے حد ضروری ہے کہ زندگی کی مصروفیات کے ہجوم میں سے اس کام کیلئے باقاعدگی سے وقت نکالتے رہیں اور اُسے دانشمندانہ انداز میںبجا لاتے رہیں۔

چاروں پہلوئوں کی متوازن تجدید کس طرح ممکن ہے۔ اس کے لئے چند اہم اُصولوں کو جاننا اور ان پر عمل پیرا ہونا از حد ضروری ہے۔ یہ اصول اس مضمون کے اگلے حصہ میں ان شاء اللہ آئندہ ماہ بیان کئے جائیں گے۔ (جاری ہے)