شہداءانقلاب کی عظمت کو سلام

جلیل احمد ہاشمی

قوم و ملت کی بقا کی خاطر نذرانہ جان اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور پیش کرنے والے شہداء وہ سپوت ہیں جنہوں نے اپنا آج آنے والی نسلوں کی حفاظت کے لیے قربان کر دیا اور اپنے خونِ جگر سے چمن کی آب یاری کی۔ انہوں نے جرات و جواں مردی کی ایسی اَن منٹ داستانیں رقم کیں جس پر قوم کا ہر بچہ رشک کرسکتا ہے۔ اپنی راحت و آرام اور زندگانی کی جملہ خواہشوں سے کنارہ کشی کرتے ہوئے اپنے ہم وطنوں کے بہتر اور روشن مستقبل کے لیے انقلاب کی عظیم عمارت کا جھومر بننے کی بجائے اس کی بنیادوں میں ہی خود کو گم کرنا پسند کر لیا۔ یہ وہ ایثار کوش اور وفا شعار ہیں جن کے بغیر کبھی بھی انقلاب کی عمارت تعمیر نہیں ہوسکتی۔ گم نامی میں اپنی جاں جانِ آفریں کے سپرد کرتے ہوئے اللہ کے حضور صرف ایک آرزو ان کے لبوں پر رہتی ہے:

پھلا پھولا رہے یا رب! چمن میری اُمیدوں کا جگر کا خوں دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں

17 جون 2014ء وہ خون آشام دن تھا جب حکومت کی طرف سے مامور کردہ وطن کے نام نہاد محافظین کی آڑ میں دہشت گرد پنجاب پولیس نے تحریک منہاج القرآن کے نہتے کارکنان پر اپنے خوف وجبر اور ظلم وستم کی دھاک بٹھانے کے شوق میں اندھا دھند سیدھا فائر کھول دیا۔ نتیجتاً 14 سپوتوں نے اپنی جانیں قربان کر کے انقلاب کی ایسی بنیاد فراہم کی جسے کبھی زوال نہیں آسکتا۔ ان کی شہادت صدیوں کا سفر دنوں میں طے کرنے کی نوید انقلاب لے کر نمودار ہوگئی۔

ریاستی دہشت گردی کے اس الم ناک سانحہ میں شہید ہونے والوں کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے جو انقلاب کے خواب سجائے اپنے قائد کے استقبال کی تیاریاں کر رہے تھے۔ تمام شہید خواتین و حضرات کا تعلق مڈل کلاس اور نچلے طبقے سے ہے۔ سب کے سب پاکستان سے محبت کا دم بھرنے والے، دین کا درد رکھنے والے، تنظیمی نظم و ضبط کے پابند اور محنت و اخلاص سے روزگار اور تعلیم کے ساتھ ساتھ انقلاب کے مشن کو وقت دینے والے لوگ تھے۔ آئیے اِن کے تذکرے سے ملک و قوم اور دین اسلام کے ساتھ اپنی محبت کے جذبہ کو مزید حدت فراہم کریں۔ ان شہدا کا فرداً فرداً ذکر کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ بظاہر انہوں نے گمنامی میں اپنی جان دی لیکن انقلاب کی کامیابی کی ایسی بنیاد فراہم کر دی جس پر پاکستان کے کامیاب اور روشن مستقبل کا انحصار ہے۔

1-2۔ تنزیلہ امجد شہیدہ اور شازیہ مرتضیٰ شہیدہ

ضلع گجرات کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا یہ ایمان دار، محب وطن، مظلوم عوام کا ہمدرد، احکام الٰہی پر کاربند اور وطن عزیز کی سرحدوں کی خاطرجان دینے والا گھرانہ بھی ظلم، بربریت اور ریاستی دہشت گردی کا شکار ہوگیا۔ داعیانِ امن و محبت، دہشت گردی کے خاتمے کا دم بھرنے والے حکمران اور بنتِ حوا کی پاسبان پولیس نے اپنے ہی ملک کی غریب، مفلوک الحال اور نہتی بیٹیوں کو ماڈل ٹاؤن لاہور جیسے پوش علاقے میں سر عام گولیاں مار کر شہید کر دیا۔

تنزیلہ امجد اور شازیہ مرتضیٰ ایک باعزت، شریف اور مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہ خاندان پابندِ صوم و صلوٰۃ اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اَحکام پر عمل کرنے کے ساتھ دین کی ترویج و اِشاعت کے لیے عملاً بھی کوشاں تھا۔ محافلِ ذکر و فکر اور درود بر آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے گجرے پیش کرنا ان کا روزانہ کا معمول تھا۔ ان کی زندگی کا مقصد حضرت خدیجہ و عائشہ اور سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھن کے سیرت و کردار کو اپنانا اور مسلمان عورتوں کو اس کا درس دینا تھا۔ نمازِ فجر سے شروع ہونے والے معاملاتِ خانہ داری، بچوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ اسلام اور منہاج القرآن کے پیغامِ انقلاب کو ہر گھر میں پہنچانا اپنا اولین فریضہ سمجھتی تھیں۔ نند اور بھاوج کا رشتہ ہوتے ہوئے آپس میں سگی بہنوں سے بھی زیادہ محبت رکھتی تھیں۔

شہیدہ کے والدکہتے ہیں کہ میرے اندر 1977ء سے حب الوطنی کا جذبہ اپنی آب و تاب سے جاگزیں ہوا۔ میں ملک کی حالت زار کے متعلق پریشان رہتا تھا۔ مجھے علماء کرام سے بھی بہت محبت تھی اور میں ہر دم کسی مرد مجاہد کی تلاش میں سرگرداں رہتا کہ کوئی تو ہو جو اس ملک کا مقدربدلنے کے لیے ہماری آواز سنے۔ میں نے 1986ء میں قائد انقلاب ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کا خطاب سنا جس سے میں مسحور ہو کر رہ گیا۔ ان کی تقریر سے میرا ایمان اور جذبہ حب الوطنی مزید تقویت پاگیا۔ پھر میں آپ کے خطابات سنتا چلا گیا اور مجھ پر محبت اور شوق کا عنصر غالب ہوتا چلا گیا۔ اسی کی وجہ سے میرا خاندان قائد انقلاب ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ منسلک ہوا اور ہم نے رات دن ایک کر کے دین اسلام کی ترویج اور اس ملک و قوم میں خوش حالی لانے کی عملی کاوشیں جاری رکھیں۔ ہمارا تمام خاندان ملک میں تبدیلی کے لیے بے چین ہے اور میری دونوں شہید بیٹیاں یہ پیغام ہر گھر میں پہنچانے کے لیے ہر وقت مصروف رہتی تھیں۔

شہیدہ کی والدہ عالم درد و سوز میں ہے کہ میری بیٹی اور بہو نیک، صالح اور خوش مزاج خواتین تھیں۔ تنزیلہ امجد اور شازیہ مرتضیٰ نے کبھی گرمی کی حدت یا سردی کی شدت کی پروا نہیں کی اور سات آٹھ سو گھرانوں میں جا کر انقلاب کی دعوت دی۔ مگر ان ظالم حکمرانوں نے ہمارے ہنستے بستے گھر کو اجاڑ دیا، میری آنکھوں کے سامنے ایک کے بعد دوسری بیٹی شہید ہوگئی۔ میں چلاتی رہی مگر میری فریاد سننے والا کوئی نہیں تھا۔ حکمران ہماری جوان بیٹیوں کو شہید کر کے ہمیں پیسے کا لالچ دے رہے ہیں، یہ ہمیں لاکھوں کا خون بہا دینے کی پیشکش کر رہے ہیں۔ میں کہتی ہوں کہ تم اپنا ایک بچہ مارنے دو، میں تمہیں اِس سے بڑھ کر خون بہا دوں گی۔ کسی کو کیا خبر کہ جس گھر کی مائیں چلی جائیں وہاں دنیا کتنی ویران ہو جاتی ہے۔ جو بچے اپنی ماں کی پلک جھپکنے تک کی جدائی برداشت نہیں کرتے تھے، انہیں ان یزیدوں نے تمام عمر کے لیے بے سہارا کر دیا۔ مگر ہم نے حوصلہ نہیں ہارا، ہم اس ملک میں تبدیلی کے لیے اپنی بیٹیوں کے خواب کو شرمندہ تعبیر کریں گے اور ان کے خون کا قصاص آئین و قانون کے تحت ان حکمرانوں کو تختہ دار پر لٹکا کر لیں گے۔

تنزیلہ اور شازیہ کے بھائیوں کا کہنا ہے کہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہماری پولیس کبھی ہماری عورتوں پر بھی گولیاں چلائے گی کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی قانون کے محافظوں کی طرف سے اس بے دردی سے مرد و زن پر سیدھی گولیاں نہیں چلائی گئی تھیں لیکن موجودہ حکومت نے درندگی میں چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بھی مات دے دی ہے۔ اس پولیس گردی کا مقصدہمارے حوصلے پست کرنا تھا تاکہ قائد انقلاب کی آمد سے قبل سینکڑوں لاشیں گرا دی جائیں جس سے ان کی کمر ٹوٹ جائے اور یہ انقلاب کی بات نہ کریں۔ پہلے ہم ڈرتے تھے کہ کوئی نقصان نہ ہو جائے مگراب ہم ان حکمرانوں کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ ہمارے خاندان میں ملک اور اپنے قائد کی خاطر مر مٹنے کا جذبہ پہلے سے زیادہ بڑھ چکاہے، ہم انقلاب کے ذریعے ان سے اپنے خون کا قصاص لے کر دم لیں گے۔

شہیدہ کے معصوم بچے گریہ زاری کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہماری ماں ہمیں دین اسلام کی باتیں بتاتی تھی، آقا علیہ السلام اور اہل بیت کی باتیں اور ان پر آنے والی تکالیف کے قصے سناتی تھیں۔ قائد انقلاب کے آئینی و قانونی انقلاب اور تبدیلی کے طریقہ کار کو سمجھاتی تھی، ہم ٹی وی میں لوگوں پر ہونے والے ظلم کو دیکھتے تھے اور دعا کرتے تھے کہ یا اللہ اس ملک کی تقدیر کو بدل دے۔ پھر ہم کام مزید تیز کرنے کا سوچتے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ بھی ظلم کے خلاف نہ اٹھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ میری ماما کہا کرتی تھی کہ تم نے بڑے ہو کر اینکر بننا ہے تاکہ غریب لوگوں کی آواز سب تک پہنچا سکو۔ میں ان شاء اللہ ان کے خواب کو پورا کروں گی، وہ مجھے ہمیشہ نیکی کرنے کا کہتی تھی، دین اسلام اور پاکستان کی خاطر جان دے دینے کا کہتی تھیں۔

شہیدہ کی دوسری بیٹی بِسمہ پیغام دیتی ہوئی کہتی ہے کہ میں اپنی تمام باجیوں سے یہی کہوں گی کہ آپ ہر گز پیچھے نہ ہٹیں، روز روز مرنے سے ایک دن کا مرنا بہتر ہے۔ اگر آج ہم نہ اٹھے تو پھر کسی فرشتے نے آکر ہماری مدد نہیں کرنی۔

صاحبزادی عائشہ کہتی ہیں کہ میری امی ہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ میں اپنے ایک بیٹے اور بیٹی کو فوج میں بھیجوں گی تاکہ ملک و قوم کی خدمت کر سکیں۔ میں ان شاء اللہ ان کا یہ خواب پورا کروں گی اور اس ملک کی خاطر اپنی جان دے دوں گی۔

شہیدہ تنزیلہ کی بہن کہتی ہے کہ ہم دونوں بہنوں کی شادی ایک ہی گھر میں ہوئی ہے، شازیہ میری بھابھی تھی، ہم اپنی یوسی میں گیارہ ورکر خواتین تھیں۔ باجی تنزیلہ ناظمہ اور باجی شازیہ نائب ناظمہ تھی۔ اِن دونوں باجیوں کی مشن پر اِستقامت اور شب و روز صرف مشن کے بارے میں ہی سوچتے رہنا، مجھے ان پر رشک اور فخر کرنے کی طرف آمادہ کرتا تھا۔ میں اپنی باجیوں کے نقشِ قدم پر چلوں گی۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ اِنقلاب آئے گا، غریب کا مقدر بدلے گا اور پاکستان بھر میں خوش حالی کا دور دورہ ہوگا۔

ہر پرنم آنکھ حکمرانوں سے یہ سوال کر رہی ہے کہ آخر ان خواتین کا قصور کیا تھا؟ صرف یہی کہ وہ اس ملک کو کرپشن، دہشت گردی، مہنگائی اور ظلم سے پاک دیکھنا چاہتی تھیں، اس ملک کا مقدر بدلنے کے لیے قائد انقلاب کا ساتھ دینا چاہتی تھیں، تصورِ اِقبال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس قوم کا شعور بیدار کر رہی تھیں۔ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے دلوں میں دین اسلام اور وطن پاکستان کی محبت پروان چڑھا رہی تھیں۔ ہم اپنی بہنوں کا خون رائیگاں نہیں جانے دیں گے اور انقلاب لانے کے لیے بھرپور جد و جہد کرتے رہیں گے۔

3۔ رضوان خان شہید

چکوال کا 22 سالہ نوجوان پاکستان کے ہر نوجوان کی طرح اپنے سنہرے مستقبل کا خواب آنکھوں میں بسائے ظلم و بربریت کا شکار ہوگیا۔ رضوان خان ولد خان محمد حافظ قرآن تھا اور ہمہ وقت اپنی زبان کو تلاوتِ کلام مجید سے تر رکھتا تھا۔ اس کے کلاس فیلوز بتاتے ہیں کہ وہ انتہائی سادہ مزاج، تہجد گزار، نیک و متقی اور پرہیزگار نوجوان تھا۔ پڑھائی میں بہت دل چسپی لیتا تھا، ہر وقت مطالعہ میں مگن رہتا۔ کلاس روم میں 92% سے بھی زیادہ ریکارڈ حاضری ہوتی تھی۔ اسٹڈی پیریڈ میں باقاعدگی سے حاضر رہتا تھا۔ کالج کے ڈسپلن اور انتظامی امور کا بہت پابند تھا۔ اساتذہ کا خدمت گار تھا اور ایمانی جذبے کے تحت اس کے لیے ہمہ وقت مستعد رہتا۔ ہر ایک سے خوش اخلاقی سے پیش آتا، ہر ایک کا خیال رکھتا، ہر ایک کے کام آتا اور ہر ایک کی مدد کرتا تھا۔ دوسروں کے دکھ درد میں ہاتھ بٹاتا تھا۔ کبھی کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کیا اور نہ ہی کسی کو کوئی دکھ یا تکلیف پہنچانے کی کوشش کی تھی۔

رضوان خان خود بھی بہت شوق سے پڑھتا تھا اور اپنے روم میٹس اور کلاس فیلوز کو بھی پڑھاتا تھا۔ اسے مطالعہ کا بہت شوق تھا۔ نصابی کتب کے علاوہ دیگر کتب کا بھی مطالعہ کیا کرتا تھا۔ اکثر اوقات تصوف کی کتب کے مطالعہ میں مستغرق نظر آتا۔ رضوان کے استاد محمد حامد الازہری اس کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے اور رندھی ہوئی آواز میں کہنے لگے کہ گزشتہ چھ ماہ سے رضوان میں نفلی عبادات اور وظائف و اَذکار کی رغبت بہت بڑھ گئی تھی۔ ساری ساری رات مطالعہ اور عبادت میں مشغول رہتا۔ ہاسٹل کی چھت پر ایک مخصوص جگہ پر عبادت و قراء ت کرتا تھا۔ پوری پوری رات مصلے پر بیٹھ کر گزار دیتا تھا۔

قائد انقلاب سے والہانہ محبت کرتا تھا۔ اُس نے 23 جون کو اپنے محبوب قائد کی آمد پر استقبال کے لیے خصوصی سوٹ سلوایا تھا کیونکہ اُسے یقین تھا کہ پاکستان کا مقدر بدلے گا اور یہ وہ پاکستان بنے گا جس کا خواب بانیانِ پاکستان نے دیکھا تھا۔ رضوان کو ملک و ملت سے محبت کا جذبہ اپنے گھرانے سے ملا تھا۔ چکوال میں منہاج القرآن اسلامک سنٹر سے رضوان نے قرآن مجید حفظ کیا تھا۔ وہاں اس میں ملک و قوم کا درد اور وطن عزیز کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ اس کے غریب والدین نے بمشکل گزر بسر کرکے اپنے لخت جگر کو اعلی تعلیم کے لیے لاہور بھیجا تاکہ رضوان اپنے ان خوابوں کو عملی جامہ پہنا سکے جو وہ بچپن سے دیکھتا رہا ہے۔

رضوان منہاج یونیورسٹی لاہور میں بی ایس ٹو کا طالب علم تھا۔ اس کے کلاس فیلوز بتاتے ہیں کہ وہ اکثر ہمارے ساتھ پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا کرتا تھا۔ وہ متفکر رہتا تھا کہ کبھی تو پاکستان اور غریب عوام کا مقدر بھی بدلے گا۔ اس حوالے سے گھنٹوں بحث مباحثہ جاری رہتا۔ پھر اس کی آنکھوں میں ایک خاص چمک اور امید کی رمق ابھر آتی اور وہ دوستوں سے مخاطب ہوکر کہتا کہ ہاں! صرف میرے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری ہی پاکستان کو خوش حالی دلا سکتے ہیں اور وہی اس قوم کا مقدر بدل سکتے ہیں۔ میرے قائد ہی واحد رہنما ہیں جو مایوسیوں کی دلدل میں گھرے نوجوانوں کو مایوسی کے اندھیروں سے باہر نکال سکتے ہیں۔

رضوان کی زندگی کا فقط ایک ہی مقصد تھا کہ قوم کی تقدیر سنوارنے کے لیے کچھ کر جاؤں۔ اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ 17 جون 2014ء کو ریاستی دہشت گردوں نے ملک و ملت کے اِس عظیم سپوت کو انتہائی بے دردی سے سیدھی گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا اور ملک کو ایک عظیم فرزند سے محروم کردیا۔

رضوان اپنے دوستوں اور کلاس فیلوز کے لیے ایک سوچ اور فکر کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کے دوست اس کی پیروی کرتے تھے اور ان کا اب بھی یہ عزم ہے کہ رضوان شہید کے راستے پر چلیں گے اور پاکستان کی تقدیر بدل کر اسے قائد کا حقیقی پاکستان بنا کر دم لیں گے۔ بلاشبہ رضوان شہید نے اپنے خون سے سفرِ انقلاب کی پُر آشوب راہ میں ایک ایسا چراغ روشن کر کے رکھ دیا ہے جو منزل کے حصول تک راہ روانِ اِنقلاب کی راہنمائی کرتا رہے گا۔

4۔ خاور نوید رانجھا شہید

سرگودھا کے ایک دور اُفتادہ پسماندہ گاؤں سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان بھی حافظ قرآن تھا۔ ہمہ وقت تلاوتِ کلام مجید سے اپنی زبان تر رکھنے والے قوم کے اِس سپوت نے قراء ت کا کورس بھی کیا ہوا تھا۔ نہایت خوش الحان تھا۔ جب تلاوت کرتا تو سامعین یوں محسوس کرتے جیسے وقت تھم گیا ہے، دریا کی موجوں میں ٹھہراؤ آگیا ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے قرآن خود ان سے ہم کلام ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ بہت اچھا نعت خواں بھی تھا۔ چلتے پھرتے نعت خوانی کیا کرتا تھا۔ اُس کی آواز سن کر دور سے معلوم ہو جاتا تھا کہ خاور آگیا ہے۔

خاور نوید ولد فضل اَحمد کے اساتذہ بتاتے ہیں کہ وہ پڑھائی میں بہت اچھا تھا کیونکہ اس کے والد بھی ریٹائرڈ اسکول ٹیچر ہیں، جنہوں نے خود اپنے فرزند پر بہت توجہ دی تھی۔ اسے علم سے محبت تھی اور وہ کبھی کلاس سے غیر حاضر نہیں رہا۔ شہید خاور کے والد نے بتایا کہ میں نے اپنے بیٹے کو اُس مدرسے میں پڑھایا تھا جہاں باقاعدہ فیس ادا کی جاتی تھی تاکہ میرے بیٹے پر زکوٰۃ کی رقم خرچ نہ ہو۔ شہید خاور کے والد صاحب کی شبانہ روز محنت کا ہی اثر تھا کہ وہ ہر وقت پڑھائی میں مشغول رہتا۔ اکثر اُسے رات کے اندھیروں میں مسجد میں محو مطالعہ دیکھا جاتا تھا۔

اپنے دیگر ہم عمر نوجوانوں کی طرح خاور نے بھی بہت سے خواب آنکھوں میں بسائے ہوئے تھے۔ وہ سوچتا تھا کہ میرے وطن کا مقدر بدلے گا، میرے پسماندہ گاؤں میں بھی خوش حالی آئے گی، میرے گاؤں میں بھی ترقی کا دور دورہ ہوگا۔ مفت علاج معالجہ اور تعلیم کی سہولیات میسر ہوں گی۔ نوجوان مثبت سمت میں ترقی کے سفر پر گام زن ہوں گے۔ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی، کسی کی حق تلفی نہیں ہوگی۔ ہر بھوکا کھانا کھائے گا، ہر بچہ پڑھنے جائے گا، ہر ایک کو اُس کا حق اُس کے گھر کی دہلیز پر ملے گا۔ پاکستان کا شمار بھی ترقی یافتہ ممالک میں ہوگا اور ایک وقت آئے گا جب پاکستان اقوام عالم کا رہبر و رہنما بنے گا۔

شہید خاور کے یہی خواب تھے جن کی تعبیر کے لیے وہ اَن تھک محنت اور جد و جہد کیا کرتا تھا۔ وہ تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے ہر پروگرام اور ریلی میں شریک ہوتا تھا۔ ان کے والد صاحب نے اپنا سینہ تان کر کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میرا بیٹا ہر پروگرام میں سب سے آگے ہوتا تھا، تمام کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ 17 جون کو بھی یہی ہوا، خاور پیچھے نہیں ہٹا اور پولیس کی جانب سے آنے والی سیدھی گولیوں کا نشانہ بن کر جامِ شہادت نوش کرگیا۔

اپنے انقلابی خیالات کی ترویج کے لیے خاور نے نقابت اور خطابت کا فن بھی باقاعدہ سیکھا۔ وہ بلا کا خطیب اور شعلہ بیان مقرر تھا۔ مجمع کو اپنی گرفت میں رکھتا اور ان میں اپنی انقلابی فکر اس طرح منتقل کرتا کہ مجلس کے اختتام پر ہر نوجوان کے وہی جذبات ہوتے جو خاور شہید کے ہوتے۔ خاور کی زندگی کا یہ پہلو بھی بہت اہم تھا کہ وہ ہر وقت خوش رہتا تھا اور دوسروں کو بھی خوش رکھتا تھا۔ بہت ہنس مکھ تھا۔ ہر ایک سے دوستی رکھنے والا اور بہت ملن سار تھا۔ کبھی کسی نے اسے پریشان نہیں دیکھا۔

شہید خاور ایک محنتی طالب علم تھا جو پڑھ لکھ کر ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتا تھا، لیکن ظالم و جابر حکمرانوں نے اسے اس کا موقع نہ دیا جس سے قوم ایک مخلص، محنتی اور جفاکش فرزند سے محروم ہوگئی۔ اگرچہ آج شہید خاور ہم میں نہیں اور اسے ہم سے جدا کردیا گیا ہے۔ لیکن ہم عہد کرتے ہیں کہ وطن عزیز میں حقیقی تبدیلی کے جو خواب اُس نے اپنی آنکھوں میں سجا رکھے تھے، دنیا کو اس کی عملی تعبیر بہت جلد دکھا کر دم لیں گے۔

5۔ عاصم حسین شہید

عاصم حسین شہید لاہور کے نواحی گاؤں مناواں کا رہائشی تھا۔ پانچ بھائیوں میں اس کا چوتھا نمبر تھا۔ وہ بی ٹیک کا طالب علم تھا، مگر نامساعد گھریلو حالات اور کشیدہ معاشی صورت حال کے باعث ملازمت بھی کررہا تھا اور اپنے غریب والد کا ہاتھ بٹاتا تھا۔ وہ نہایت لائق طالب علم تھا، ہمیشہ اپنی کلاس میں پہلی پوزیشن لیتا رہا۔ دیگر ہم عمر نوجوانوں کی طرح اس نے بھی بڑے حسین خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے تھے جن کی عملی تعبیر کے لیے وہ دن رات جد و جہد کرتا تھا۔ وہ ہر وقت وطن عزیز اور پاکستانی نوجوان کے لیے فکر مند رہتا تھا۔ وہ یہ سوچ کر اندر ہی اندر کڑھتا تھا کہ میرے وطن کے پڑھے لکھے نوجوانوں کا مقدر کب بدلے گا۔ عوام کی بے حسی پر عاصم شہید کو ہر وقت پریشانی لاحق رہتی تھی۔ وہ کہتا تھا کہ ہم قربانی دے کر جب اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے تو پھر ہماری قوم اٹھے گی۔

وہ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے اَفکار کے مطابق نوجوانوں کے شعور کی بیداری کی جد و جہد میں مشغول رہتا۔ روزگار کے معاملات سے فارغ ہو کر جب گھر واپس لوٹتا تو پڑھنے لکھنے کے خواہش مند دوست احباب کو لکھنا پڑھناسکھاتا۔ انہیں آدابِ زندگی اور معاشرے کے اندر رہنے کا ڈھنگ سکھاتا۔ اس نے ایک لائبریری بھی قائم کر رکھی تھی تاکہ عوام میں شعورِعلم و آگہی پیدا ہو، وہ کتابوں اور سی ڈیزکے ذریعے عامۃ الناس تک شعور کی بیداری کا پیغام پہنچاتا تھا۔ تعلیم بالغاں میں اس کے پاس بیس پچیس اَفراد کا گروپ تھا، جنہیں وہ تعلیم دیتا اور دینِ اسلام کی باتیں سمجھاتا اور صبر اور عزم و استقلال کی تلقین کیا کرتا تھا۔

ایک انقلابی کارکن کی حیثیت سے دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ اس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے رفقاء کار بتاتے ہیں کہ وہ عظیم انقلابی تھے، ان کا دھیان ہر وقت انقلاب کی طرف رہتا تھا۔ وہ اپنا سب کچھ انقلاب کے لیے وقف کر چکے تھے۔ وہ ہمیشہ اپنے ساتھ کام کرنے وا لوں سے یہی کہتا کہ میں انقلاب کے لیے ہوں؛ یہ میری بائیک، میرا موبائل اور میری جان، میرا سب کچھ انقلاب کے لیے وقف ہے۔

عاصم حسین شہید کے قریبی دوست افضل اور محمد اعظم چشتی نے بتایا کہ عاصم ہمارا بہت اچھا دوست تھا۔ شہادت والے دن اس نے دوستوں کو گھرمیں آکر بتایا کہ قائد محترم کے گھر پر پولیس والوں نے حملہ کر دیا ہے اور ہم بارہ چودہ دوستوں کو عاصم بھائی ساتھ لے کر گئے۔ جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ پولیس کی بھاری نفری جدید ترین اسلحہ کے ساتھ وہاں موجود تھی۔ وہ وقفے وقفے سے نہتے اور پرامن لوگوں پر حملہ کررہے تھے۔ کبھی فائرنگ کرتے تو کبھی آنسو گیس کے شیل پھینکتے اور کبھی معصوم لوگوں اور خواتین پر لاٹھی چارج کرتے۔ آخری مرتبہ جب پولیس نے گیارہ ساڑھے بجے کے قریب حملہ کیا تو اس وقت انہوں نے بے دریغ سیدھی گولیاں چلائیں۔ اس موقع پر وہ اپنے دوستوں سمیت سب کو پیچھے کررہے تھے، ایک پولیس والے نے سیدھی فائرنگ کی توگولی ان کی گردن میں جا لگی۔ ہم انہیں اٹھا کر دوڑے مگر بے سود۔ آپ شہید ہوگئے۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہمارے اپنے محافظ ہمارے خون کے پیاسے بن گئے ہیں۔ وہ جس نے ہمیں لکھنا پڑھنا سکھایا، ہمیں انسانیت کے اصول سکھائے اور ہمارے اندر حب الوطنی کا جذبہ پیدا کیا آج دوسروں کی جان بچاتے بچاتے خود درندگی کا نشانہ بن گیا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:

عزت کسی شخص کی محفوظ نہیں ہے اب تو اپنے ہی نگہبانوں سے ڈر لگتا ہے

ڈنکے کی چوٹ پر ظالم کو برا کہتا ہوں مجھے سولی سے نہ زندانوں سے ڈر لگتا ہے

افضل نے مزید بتایا کہ ہم نے خود دیکھا ہے کہ ایک پولیس والا بائیک پر وردیاں لے کر آیا ہے اور اپنے ساتھ موجود عام کپڑوں میں ملبوس بعض افراد کو وہ وردیاں پہنائی ہیں۔ سارے دوست متفکر بھی تھے کہ یہ پولیس والا وردیاں کیوں لے کر آیا ہے، پھر ان کو اسلحہ بھی دیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ہمارے اوپر فائرنگ کی۔ ان کے سرپرستی کرنے والا ڈی آئی جی انہیں شاباش دے رہا تھا۔ وہ ہماری طرف دیکھ کر بہت گندی گالیاں بھی نکال رہے تھے کہ اب ہم آپ کو نہیں چھوڑیں گے۔

لڑنا تو بہت دور کی بات ہے، عاصم نے کبھی کسی کو گالی بھی نہیں دی۔ اگر کوئی بدتمیزی بھی کرتاتو اس کے ساتھ پیار سے پیش آتے کہ بھائی ابھی چلے جاؤ آپ غصے میں ہو، جب غصہ ختم ہوگا تو پھر پتہ چلے گا کہ آپ نے ہی غلط کام کیا ہے۔ عاصم شہید قوم اور ملک لیے سچا جذبہ رکھنے والا نو جوان تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ میں پاکستان کے مظلوم عوام کے حقوق کے لیے لڑتا رہوں اور شہیدہوجائوں۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کی خواہش پوری کردی۔

عاصم شہید کے ایک اور دوست نے بتایا کہ میںنے اپنی زندگی میں ان جیسا صالح نوجوان نہیں دیکھا۔ اس لیے میں کہتا تھا کہ اگر کسی نے نوجوان ولی کو دیکھنا ہے تو وہ عاصم بھائی کو دیکھے۔ وہ صاحب علم، باعمل اور باادب نیک نوجوان تھا۔ اس کے اندر خدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا، وہ انسانیت کا قدر دان اور دوستوں کا دوست تھا، اگرکوئی شخص اس سے ایک دفعہ مل لیتا تھاتو یہ سمجھتا تھا کہ شاید اس کے ساتھ میرا صدیوںپرانا تعلق ہے۔ اس کی زندگی میںدنیا داری کی کوئی شے نہیں تھی۔ خداجانے وہ پیدائشی ولی تھا یا اس کو اس مشن پر قربان ہونے کے لیے ہی بھیجا گیا تھا۔ بہرحال اس جیسا انسان دنیا میں بہت کم ملتا ہے۔ وہ ہمیشہ پرامن رہا اور ہر وہ عمل بجا لاتا جس سے اللہ اوراس کا رسول ا راضی ہو۔ شہادت کے بعد عاصم اپنے چند دوستوں کو خواب میں ملے۔ ایک دوست نے کہا کہ آپ تو شہید ہوگئے تھے؟ عاصم نے جواب دیا کہ جب تک انقلاب نہیں آتا میں آپ کے ساتھ ہوں۔

6۔ محمد عمر صدیق شہید

بیس سالہ نوجوان محمد عمر صدیق شہید اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ محمد عمر صدیق شہید کے والدین بتاتے ہیں کہ وہ بہت لائق اورذہین تھا۔ ہر امتحان میں فرسٹ آتا تھا۔اس نے چھ ماہ پہلے سول انجینئرنگ کے کورس DAE میں ٹاپ کیا تھا۔ مزید تعلیم کے لیے پنجاب یونی ورسٹی میں داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کر رہا تھا۔ وہ والدین کا بہت فرمانبردار تھا۔ قائد اعظم اس کے آئیڈیل تھے اور علامہ اقبال سے بہت محبت رکھتا تھا۔ وہ وطن عزیز کی خاطر جان کی قربانی کے لیے ہر وقت تیار رہتا اور مصطفوی اِنقلاب کی خاطر جوانیاں لٹانے کے خواب دیکھتا تھا۔ قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا دیوانہ تھا اور ان سے والہانہ محبت کرتا تھا۔ مشن کے ہرپروگرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ وطن سے محبت اور دین کی خدمت کا جذبہ اس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھر ہوا تھا۔ وہ تمام اُمورِ خیر کی بجاآوری سعادت سمجھتا تھا، جیسے اعتکاف بیٹھنا، محافل میں شرکت، اذان دینا وغیرہ۔ اللہ تعالی نے اسے لحنِ داؤدی سے نوازا تھا اور وہ بہت ہی پیار ی نعتیں پڑھتا تھا۔

خدمتِ خلق کا جذبہ اس کے اندر ودیعت تھا۔ ہر کسی کے کام آنا اس کا محبوب ترین مشغلہ تھا۔ دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہونا، ان کی ضروریات میں ہاتھ بٹانا اور دوسروں کی تکالیف دور کرنا اس کے لیے سب سے بڑی سعادت تھی۔

عمر بہت نیکو کار، پرہیزگار اور دین سے محبت کرنے والا نوجوان تھا۔ وہ ہر وقت دین کی باتیں کیا کرتا تھا۔ محلے میں کبھی کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کیا۔ اپنی بہنوں کابہت خیال رکھتا تھا۔ ان کی ہر فرمائش پوری کرتا تھا۔ وہ بڑا باہمت نوجوان تھا۔ اس کے دل میں پسی ہوئی عوام کو ان کا حق دلانے کا عزم تھا۔

سترہ جون کو ہونے والی ریاستی دہشت گردی کے موقع پر وہ دفاعی لائن میں سب سے آگے تھا۔ پولیس جب لاٹھی چارج اور شیلنگ کرتی تو وہ دوسروں کو پانی پلاتا تھا۔ عمر کی شہادت اُن بہنوں پر اِحسان ہے کہ جن کی عزتوں کی خاطر اور جن کے بہتر مستقبل کی خاطر عمر نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ اُن ماؤں پر احسان ہے جن کے بیٹوں کے بہتر مستقبل کے لیے عمر نے شہادت کا درجہ پایا۔ عمر صدیق کا پورا گھرانہ منہاج القرآن سے وابستہ ہے۔ وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو ایک سچا عاشق رسول سمجھتے ہیں کیونکہ وہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی باتیں کرتے اور لوگوں کو دولتِ دین سے بہرہ یاب کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے عمر صدیق کے والد ہمیشہ اپنے بچوں کو بڑے شوق سے تحریکی پروگراموں میں بھیجتے تھے۔

شہید محمد عمر صدیق کے دوست حسن الیاس نے بتایا کہ محمد عمر صدیق کے ساتھ میرا بچپن بہت اچھا گزرا، ہم اکٹھے پڑھتے رہے۔ محمد عمر صدیق کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو شب و روز معاشرے کی بہتری اور بھلائی کے لیے کوشاں رہے اور اِنقلابی تبدیلی لانے کی خاطر اپنی زندگی تک قربان کردی۔ عمر کی شہادت میں ہمارے لیے یہ پیغام ہے کہ:

ہمیں ظالم سے کہنا ہے، لہو تو اپنا گہنا ہے ہمیں اب چپ نہیں رہنا، ستم کوئی نہیں سہنا

تم اپنا جبر دکھلاؤ، ہمارے حوصلے دیکھو چٹانوں سے کڑے ہیں جو، وہ سارے ولولے دیکھو

7۔ صفدر حسین شہید

صفدر حسین ولد علی محمد 1963ء میں شیخوپورہ میں پیدا ہوئے۔ اِبتدائی تعلیم اور قرآن حکیم ناظرہ کی تعلیم وہیں حاصل کی۔ وہ نہایت ذہین تھے اور بچپن سے ہی تعلیم حاصل کرنے کا شدید شغف رکھتے تھے، مگر حالات کی ستم ظریفی نے اَوائل عمری میں ہی کسبِ معاش اور خاندان کا بارِ گراں اٹھانے پر مجبور کردیا تھا۔ انہوں نے شبانہ روز محنتِ شاقہ کے بعد سبزی منڈی میں اپنی دوکان بنا لی جس سے اچھا گزر اوقات ہونے لگا۔ مگر ملکی معیشت کی بگڑتی صورتِ حال کی وجہ سے یہ کاروبار زیادہ عرصہ نہ چل سکا اور بالآخر بند ہوگیا۔ تاہم عزم و ہمت کے پیکر مردانِ خدا ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہتے ہیں۔ حکیم الامت نے کیا خوب کہا تھا:

گر کھو گیا اِک نشیمن تو کیا غم مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں

صفدر حسین بچپن سے ہی جرآت مند اور تسلیم و رضا کے پیکر تھے۔ اللہ تعالیٰ کی عطا پر ہمیشہ سجدہ شکر بجا لاتے اور دوسروں کو بھی اللہ تعالیٰ کی عطا پر راضی رہنے کی تلقین کرتے تھے۔ ان کا یہ پختہ عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے رِزق انسان کے مقدر میں لکھ دیا ہے جسے مناسب تگ و دو کے بعد ہی حاصل کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

کاروباری لین دین کے دوران ایک دفعہ منہاج القرآن کے ایک ورکر نے انہیں قائد انقلاب کا ایک خطاب سننے کے لیے دیا۔ انہوں نے یہ کہ کر انکار کردیا کہ میں مولویوں کو نہیں سنتا؛ لیکن وہ کارکن آڈیو کیسٹ دے کر چلا گیا۔ پھر جب ایک دن فرصت پا کر وہ کیسٹ سنی تو لگاتار پانچ مرتبہ سن لی۔ اس کے بعد وہ کیسٹ لے کر اُس ورکر کے پاس آگئے اور کہا کہ یہ شخص کوئی روایتی مولوی نہیں بلکہ جو باتیں یہ بتلا رہے ہیں وہ صرف کوئی محب وطن اورانتہائی عالم فاضل شخصیت ہی کہ سکتی ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ ایسے شخص کا کارکن بن کر اس کا ساتھ دینا چاہیے اور یوں منہاج القرآن سے وابستگی اختیار کرلی۔ یوں وہ اَوائل دور میں ہی تحریک منہاج القرآن کے کارکنان میں شامل ہوگئے۔ شیخوپورہ میں تحریک کا پیغام بھرپور طریقے سے پھیلانے میں ان کا کردار انتہائی اہم تھا۔ وہ شیخوپورہ میں تحریک منہاج القرآن کے ناظم تربیت بھی رہے اور شیخوپورہ میں اکثر کارکنان انہی کی کاوشوں سے تحریک میں شامل ہوئے۔ آپ اکثر قائد انقلاب ڈاکٹر طاہرالقادری کے خطابات سنتے۔ ہمہ وقت پیار، امن، محبت اور سلامتی کا درس دیتے۔ کسی پریشان حال کی پریشانی آپ سے برداشت نہ ہوتی۔ ہمیشہ غمزدوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے کے متمنی رہتے اور معاشی تنگ دستی کے باوجود غریبوں کی مدد کرتے تھے، چاہے اس کے لیے اُدھار ہی کیوں نہ اُٹھانا پڑے۔

کاروباری خسارے کے بعد صفدر حسین شہید نے ایک ماہر استاد کے پاس حکمت سیکھنا شروع کی اور تھوڑے ہی عرصے میں اس میں کمال مہارت حاصل کرلی۔ ان کے استاد کا کہنا ہے صفدر حسین انتہائی ذہین تھے اور مجھے استاد کہہ کر پکارتے تھے مگر مجھے انہیں شاگرد کہتے ہوئے حیاء آتی کیونکہ وہ مجھ سے زیادہ خوبیوں کے مالک تھے۔ مرض شناسی اور معاملہ فہمی میں وہ مجھ سے کہیں آگے تھے، کتب کا بغور مطالعہ کیا کرتے تھے اور صوفیاء کے اَحوالِ حیات پڑھنا اور ان کے مطابق زندگی گزارنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔

صفدر حسین شہید ہمہ وقت وطن عزیز سے غربت کے خاتمے اور خوش حالی لانے کے لیے فکر مند رہتے اور قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو اس قوم کا حقیقی قائد تصور کرتے تھے۔ اس ملک کا مقدر بدلنے اور غریبوں کے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے قائد انقلاب کی فکر کا پرچار کرتے اور تحریک کی خدمت کے لیے ہر وقت مگن رہتے۔

شہید کے بڑے بیٹے کا کہنا تھا کہ وہ دو بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ بچپن ہی سے ان کے والد نے انہیں دین اور وطن کی محبت کا درس دیا۔ اُن کی پڑھائی میں ہر قسم کی معاونت کی۔ کسی بھی مضمون میں اگر کوئی مسئلہ ہوتا تو اَحسن طریقے سے اُس کی وضاحت کرتے اور بچے اس پر حیران ہوتے کہ انہوں نے باقاعدہ اسکول میں زیاہ عرصہ نہیں پڑھا لیکن اس کے باوجود پڑھائی میں بہت مدد کرتے تھے۔ اگر گھر میں کوئی معاشی پریشانی ہوتی تو اس پر صبر کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کا شکر بجا لانے اور اس کی رضا میں راضی رہنے کی تلقین کرتے۔ اگر کسی معاملے میں ان کی اہلیہ پریشان ہوتیں تو اکثر انہیں کہتے تھے کہ صبر اور حوصلے سے کا م لیا کریں، کل کی کیا خبر! اگر میں چلا گیا تو بچوں کو تمہی نے سہارا دینا ہے اور ان کی تربیت کرنی ہے۔

شہادت سے چند روز قبل چھوٹے بیٹے نے خواہش ظاہر کی کہ وہ قائد انقلاب سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔ وہ کہنے لگے کہ اِس بار ضرور ملوائوں گا۔ اُن کی شہادت کے بعد جب یہ بات بیٹے نے قائد انقلاب کو بتائی تو انہوں نے کہا: آئو! میرے گلے لگ کر ملو۔ یوں بعد اَز شہادت اپنا کیا ہوا وعدہ پورا کر دکھایا۔

سانحہ کے روز آپ نے حسبِ معمول رات کو آرام کیا۔ صبح جب خبر ملی کہ پولیس نے ادارہ اور قائد انقلاب کے گھر کا محاصرہ کر رکھا ہے اور عدالتی حکم پر حفاظتی نقطہ نظر سے لگائی گئی رکاوٹیں ہٹانے کی آڑ میں اپنے ناپاک عزائم پورا کرنا چاہتی ہے تو فوراً دیگر کارکنان سے مشاورت کرکے صبح سات بجے مرکزی سیکرٹریٹ پہنچ گئے۔ سب سے پہلے گوشہ درود میں حاضری دی اور پھر ’القادریہ‘ چلے گئے۔ آپ کے ایک ساتھی نے بتایا کہ آپ مسلسل تمام کارکنان کو اپنے قائد کے فرامین کی تلقین کرتے اور پرامن رہنے کا درس دیتے رہے۔ آخری وقت میں جب پولیس نے سر عام کارکنان پر فائرنک شروع کر دی تو آپ اس وقت وہیں موجود تھے اور ایک گولی آپ کے چہرے اور سر کے آر پار ہوگئی۔ یوں وطن کی محبت میں اپنی زندگی وقف کردینے والے نے غریبوں کے چہروں پر مسکراہٹ لانے کے لیے راہِ انقلاب میں اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔

جفا کی تیغ سے گردن وفا شعاروں کی کٹی ہے بر سرِ میداں مگر جھکی تو نہیں

8۔ شہباز علی مصطفوی شہید

شہباز علی مصطفوی شہید 1994ء میں مریدکے میں پیدا ہوا۔ اُس کے والد اظہر حسین ایک قریبی فیکٹری میں مشین آپریٹر کی ملازمت کرتے ہیں۔ اس کے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ تمام بہن بھائیوں کا باہمی پیار قابلِ رشک ہے۔ شہباز شہید نے اپنا بچپن تعلیم اور محنت مزدوری میں صرف کیا۔ مڈل کلاس تک تعلیم مریدکے میں ہی حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے والد کے کندھوں سے بوجھ ہلکا کرنے کی خاطرخراد کا کام شروع کر دیا جو گزشتہ 6 سال سے جاری تھا۔ گزشتہ برس جب اُس نے محسوس کیا کہ اب وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا ہے تو حصولِ علم کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور تیاری کر کے حال ہی میں نویں جماعت کا امتحان دیا تھا۔

اتنی کم عمری میں شہباز میں سوچ کی پختگی قابلِ رشک تھی۔ اپنے والدین کے نہایت فرماں بردار اور لاڈلے شہباز مصطفوی کی طبیعت نہایت ہنس مکھ اور ہمہ وقت خوش و خرم رہنے والی تھی۔ اپنے بہن بھائیوں سے ہمیشہ نرم مزاجی سے پیش آتا، اگر کسی وجہ سے بھائی غصہ کرتے تو انہیں حوصلہ رکھنے اور شیطانی وساوس سے پاک رہنے کی تلقین کرتا حتیٰ کہ والد گرامی بھی جب حالات سے پریشان ہو جاتے تو ان کی بھی دل جوئی کیا کرتا۔

شہباز شہید کو تحریک منہاج القرآن میں شمولیت اختیار کیے ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے۔ ہوا یوں کہ اکیڈمی جاتے ہوئے راستے میں اسے قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے مختلف موضوعات پر خطابات سننے کا موقع ملا۔ ان خطابات میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت و اِطاعت پر مبنی روح پرور حلاوت اور عوامی مسائل پر حقیقت پسندانہ تجزیات نے اُس کے دل و دماغ میں ایک ہلچل پیدا کر دی اور اُس نے اِس مردِ حق کا دست و بازو بن کر اِنقلابی جد و جہد میں شرکت کا فیصلہ کر لیا۔ اتنی کم عمر میں بظاہر کسی ظاہری سنگت کے بغیر ایسا فیصلہ کر لینا ایک غیر معمولی امر لگتا ہے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب اس کے سفر شہادت کا اُلوہی بندوبست تھا۔

17 جون 2014ء بروز منگل صبح چھ بجے جب اُسے مرکزی سیکرٹریٹ اور قائد انقلاب کے گھر پر پولیس کے حملہ کی خبر ملی تو وہ فوراً مرکز پہنچ گیا۔ مرکزی قیادت کی ہدایت پر ’القادریہ‘ کی حفاظت پر مامور دیگر افراد کے ہمراہ اپنی ذمہ داری نبھا رہا تھا کہ درندہ صفت پنجاب پولیس کی دہشت گردانہ فائرنگ شروع ہو گئی اور ایک گولی سیدھی محمد شہباز کی گردن میں پیوست ہوگئی۔ شدید زخمی حالت میں جناح ہسپتال لایا گیا جہاں مسلسل آٹھ دن تک زیر علاج رہا۔ 23 جون کو جب شیخ الاسلام کینیڈا سے سیدھے جناح ہسپتال کارکنان کی عیادت کے لیے پہنچے تو سب سے پہلے محمد شہباز کے پاس اس کے بیڈ نمبر بیس پر پہنچے اور اسے بوسہ دیا اور اس کی صحت و سلامتی کی دعا کی۔ اُسی دن زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی اور وہ خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ گویا محمد شہباز اپنے قائد سے ملاقات کا منتظر تھا۔ اس کی اپنے قائد سے پہلی ملاقات ہی آخری ٹھہری۔ یہ اس حقیقت کا اظہار ہے کہ جس محبت اور عقیدت کی بنیاد اِخلاص پر قائم ہوتی ہے، وہ ظاہری ملاقات کی محتاج نہیں ہوتی۔

محمد شہباز نے بن دیکھے محض تقاریر سن کر اپنے قائد سے کامل اِخلاص پر مبنی ایسی محبت اختیار کی کہ جس پر ہزاروں کارکنوں کی پر خلوص محبتیں فخر کر سکتی ہیں۔ اُسی روز سہ پہر 3 بجے مرکزی سیکرٹیریٹ میں صفہ ہال کی چھت پر قائد انقلاب کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔ پھر شہباز کے جسد خاکی کو اس کے آبائی علاقہ مریدکے کے محلہ بلال پارک میںلایا گیا اور وہاں سے قبرستان تک ہزاروں لوگوں نے اس کی چارپائی کو کندھا دیا۔ جنازے پر جگہ جگہ پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔ اس عاشق صادق جیسا جنازہ مریدکے کی تاریخ میں پہلے کسی نے کبھی نہیں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ تاقیامت اس پر رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین

چھوڑ جاتے جو نہ ہم نقشِ پا اپنے کوئی ہوتا نہ تیری راہ گزر سے آگاہ

9۔ محمد اقبال شہید

محمد اقبال شہید 1968ء میں نارووال میں پیدا ہوئے اور یہیں ساتویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں اہل خانہ سمیت لاہور منتقل ہوگئے۔ چونکہ ان کا گھر اور زمین سیلابی علاقے میں تھے، اس لیے اکثر سیلابی تباہیوں کے نقصانات سے دوچار ہونا پڑتا۔ زمانہ طفلی میں آپ نے ایک شخص کو مسجد میں محراب بناتے دیکھا تو دل میں حسرت جاگی کہ کیوں نہ خانہ خدا کی آرائش و زیبائش کو ہی اپنا پیشہ و مقصد بنا لیا جائے۔

لاہور میں آکر آپ کے کندھوں پر ذمہ داری بھی بڑھ گئی اور آپ نے ایک ماہر محراب ساز کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا اور کچھ ہی عرصہ میں انتہائی مہارت حاصل کر لی۔ اسی دوران آپ نے شادی کی۔ آپ کے پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ اپنے اہل خانہ کی پرورش کے ساتھ بھائی اور اپنی بہن کے گھر کا تمام خرچ ادا کرتے تھے، اور اپنے ساتھ کام کرنے والے مزدوروں اور مزید پانچ گھرانوں کی کفالت بھی کرتے تھے۔ آپ نے ہمیشہ غریب کی دل جوئی کی۔ بے آسرا و نادار لوگوں کی خدمت میں پیش پیش رہتے تھے۔ دکھی انسانیت کے لیے ہمیشہ متفکر رہتے۔ فراخ دلی آپ کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک تھی۔

تحریک منہاج القرآن میں شامل ہونے کا واقعہ کچھ اس طرح سے ہے کہ 1983ء میں حسبِ معمول آپ سائیکل پر سوار اپنے کام پر جا رہے تھے تو اتفاق مسجد کے قریب سے ان کا گزر ہوا۔ ان دنوں قائد انقلاب ڈاکٹرطاہرالقادری اتفاق مسجد میں خطبہ جمعہ دیا کرتے تھے۔ آپ ان کے خطاب سے بہت متاثر ہوئے اور اس کے بعد ہر نمازِ جمعہ اتفاق مسجد میں ادا کرنے لگ گئے۔ یوں آپ کا دل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت میں پختہ تر ہوتا چلا گیا۔ آپ نے اسی وقت تحریک بھی جوائن کر لی۔ آپ کا رکنیت نمبر 187 تھا۔ مشن کے ہر پروگرام اور جلسہ میں شامل ہوتے۔ لیکن جب تنظیمی مجالس میں شرکت کے لیے آپ کو بلایا جاتا تو کہتے کہ جب جان دینے کی باری آئے گی تو مجھے بلا لینا۔

آپ کے چھوٹے بیٹے کہتے ہیں کہ ابو جان جب کام سے واپس گھر آتے تو روزانہ ہمیں کچھ وقت ضرور دیتے تھے۔ ہمیں دین کی باتیں بتاتے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت سے آگاہ کرتے۔ ہمیں رہنے سہنے کے طریقے بتاتے اور ہمیشہ کہتے کہ دین کے لیے اپنا مال اور جان دینے سے کبھی نہیں گھبرانا چاہیے۔ آپ کاہمیشہ معمول تھا کہ رات کو سوتے وقت باوضو ہو کر سورۃ یٰس پڑھ کر سوتے۔ نرم مزاج اس قدر تھے کہ اگر آدھی رات کو بھی کسی نے دروازہ پر دستک دے کر کوئی چیز یا مدد مانگی تو اسی وقت اس کی مدد کرتے تھے۔

اس عظیم سانحہ کے روزپولیس کی بربریت کا سن کر انہیں یوں لگا جیسے انہیں فرض نے پکارا ہے۔ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر مرکز کی طرف دوڑے اور قائد کی تحریک کے دفاع میں ڈٹ گئے اور اس وقت تک ڈٹے رہے جب تک اپنی جان قائد کے لیے قربان نہ کر دی۔ آپ مرکز کے سامنے ہی جمے رہے۔ جب پولیس نے مرکزی سیکرٹریٹ پر فائرنگ کی تو ایک گولی آپ کے کندھے اور ایک گولی گردن میں آلگی جس سے آپ موقع پر ہی شہید ہوگئے۔

بڑا ہے درد کا رشتہ، یہ دل غریب سہی تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے!

10۔ غلام رسول شہید

غلام رسول شہید 1958ء میں شکر گڑھ کے نواحی علاقے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے میٹرک تک تعلیم گورنمنٹ ہائی اسکول شکر گڑھ سے حاصل کی۔ 1974ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ نے پاکستان ائیر فورس میں بطور ائیر مین شمولیت اختیار کر لی۔ پاک وطن کی محبت آپ کی رگ و پے میں رچی بسی تھی۔ حریت پسندی کے حامل لازوال ملی جذبے سے ہمہ وقت سرشار رہتے۔ یہی جذبہ انہیں پاکستان ائیر فورس میں لے آیا۔ وطن کی حفاظت کا جذبہ انہیں ہر وقت آمادۂ کار رکھتا۔ چنانچہ عمومی سوچ کے برعکس انہوں نے عظیم مشن کے حصول کی خاطر اپنی سروسز پاکستان ائیر فورس کو مہیا کیں۔

آپ نے ائیر فورس کے مختلف شعبوں میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھا۔ چنانچہ 1982ء میں یونی ورسٹی آف بلوچستان کوئٹہ سے گریجویشن کا امتحان پاس کیا۔ علاوہ ازیں مختلف ٹیکنیکل اور الیکٹرانک ڈپلومہ بھی حاصل کیے۔ آپ کو R صلی اللہ علیہ والہ وسلم dio صلی اللہ علیہ والہ وسلم nd Electronics Equipment میں بھی خاص مہارت حاصل تھی۔ اپنی جوانی کے اٹھارہ سال ملک کے فضائی دفاع میں بھرپور انداز میں بسر کیے اور نومبر 1993ء میں بطور سینئر چیف ٹیکنیشن (نان کمشنر آفیسر) ریٹائر منٹ حاصل کی۔

آپ حساس دل کے مالک تھے۔ ملکی حالات پر اکثر پریشان ہو جاتے اور خود غرض حکمرانوں سے نجات کے متمنی رہتے۔ ملکی حالات پر ان کی نظر بڑی گہری تھی کہ کس طرح پاکستان کے مسائل حل ہوسکتے ہیں؟ یہاں کیسے انصاف کا بول بالا ہو سکتا ہے؟ وہ کیا طریقہ کار ہے جس سے غریبوں کے چولہے جل سکیں اور انہیں بھی دو وقت کی روٹی میسر آسکے۔ اس سلسلے میں وہ اپنے حصے کا چراغ جلا کر معاشرے سے اندھیروں کو دور کرنے میں عمر بھر کوشاں رہتے۔

پشاور میں ائیر فورس کی ملازمت کے دوران ایک بار انہیں قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطاب سننے کا موقع ملا۔ اگرچہ وہ مختلف علماء و مشائخ کے خطابات پہلے سے ہی سنتے رہے تھے لیکن ان کی باتیں دل میں اتر گئیں اور جان لیا کہ یہ ایسا مردِ قلندر ہے جس کی رفاقت میں جان بھی چلی جائے تو کوئی پرواہ نہیں۔ چنانچہ ریٹائرمنٹ کے بعد تحریک منہاج القرآن میں شمولیت اختیار کر کے قائد کی انقلابی جد و جہد میں تن من دھن سے حصہ لینا شروع کر دیا۔ آپ قائد انقلاب کو سچا عاشق رسول سمجھتے تھے اور آپ کی قیادت میں انفرادی و اجتماعی اصلاح کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ قائد کی محبت میں یہ خود عشق رسولA کے رنگ میں رنگے جا چکے تھے۔ ہر وقت محبت رسولA ان کے دل میں موجزن رہتی اور یہی دردِ محبت وہ دوسروں کے دلوں میں ڈالنے میں کوشاں رہتے۔

موجودہ دور میں دین کے تمام تقاضے پورے کرنے کے لیے منہاج القرآن کی وسعت، ہمہ گیریت اور جامع حکمت عملی کو ناگزیر جانتے تھے اور خواہش رکھتے کہ خدا کرے کسی طرح تمام جماعتیں ایسے ہی رویے کو اپنا لیں تاکہ معاشرے میں امن قائم ہوسکے۔ آپ کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ابو جان ہمیشہ ہمیں حسن سلوک اور اخلاقیات سکھاتے تھے، حلال کمانے اور غریبوں کی خدمت کا درس دیتے تھے۔ ہر تاریخی اور مذہبی واقعہ کے بارے میں مکمل تاریخ اور جامع معلومات رکھتے تھے۔ ڈور ٹو ڈور انقلابی مہم میں آپ صبح و شام لگے رہتے اور یقین رکھتے تھے کہ اس ملک کا مقدر ضرور بدلے گا۔

شہادت سے قبل شب قائد تحریک سے اپنی محبت کے اظہار میں اپنے اہل خانہ سے کہاکہ میں نے اپنے دل میں عہد کر رکھا ہے کہ مشن پر جب بھی کڑا وقت آیا تو پیٹھ نہیں پھیروں گا بلکہ انقلاب کے لیے اپنے سینے پر گولیاں کھائوں گا۔ انہوں نے یہ بات اگلی صبح ہی سچ ثابت کر دکھائی۔ 17 جون کو انہوں نے ریاستی دہشت گردی کے سامنے عَلم حق بلند کیے رکھا اور صبح انقلاب کے لیے اپنی جسم و جان کا نذرانہ سینے اور گردن پر تین گولیاں کھا کر ادا کر دیا۔ اپنے خون کو مشن کی خاطر خاک پر بہا کر انقلاب کی ایسی عظیم بنیاد رکھ دی جس کو کبھی زوال نہیں آسکتا۔ خدا ایسے پاک طینت عاشقوں پر ہمیشہ اپنی رحمتیں نازل فرماتا رہے۔ آمین

بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را