القرآن: درجہ صالحین میں شمولیت کی شرائط

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین معاون: محمد شعیب بزمی

محاسبہ نفس سے ہی روحانی ترقی کا سفر شروع ہوتا ہے۔ امراض نفس سے باخبر ہوئے بغیر علاج ناممکن ہے۔ محاسبہ و مجاہدہ نفس ہی وہ راستہ ہے جہاں سے طریقت کے دروازے کھلتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا.

(العنکبوت:69)

’’اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (اور مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں اپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں‘‘۔

حضور غوث الاعظم نے حضرت سلطان ابراہیم بن ادھم کا ایک قول غنیۃ الطالبین میں نقل فرمایا ہے کہ جب تک آدمی چھ دشوار منزلوں اور گھاٹیوں کو عبور نہیں کرلیتا، اس وقت تک اس کا نام صالحین کے درجے میں نہیں لکھا جاتا۔ وہ نہ تو صالحین کا رتبہ پاسکتا ہے اور نہ اس کا شمار نیکو کاروں میں ہوسکتا ہے۔

آیئے! مجاہدہ نفس کی راہ میں آنے والی ان چھ دشوار منزلوں اور گھاٹیوں کے بارے میں آگہی حاصل کرتے ہیں تاکہ روحانی منازل کے حصول کا راستہ سالک کے لئے آسان ہوسکے۔

1۔ عیش و آرام کی خواہش سے دستبرداری

مرتبہ صالحین میں شمولیت کے راستے کی پہلی منزل/ گھاٹی یہ ہے کہ انسان اپنے اوپر عیش اور طلبِ نعمت کا دروازہ بند کردے۔ انسان کے دل میں عیش و آرام کی جو طلب اور خواہش پیدا ہوتی ہے اس سے انسان کو راحت ملتی ہے، جب تک انسان اس خواہش تک کا بھی دروازہ اپنے اوپر بند نہ کرلے اور اپنے اوپر سختی کا دروازہ نہ کھول لے اس وقت تک وہ صالحین میں شمار نہیں ہوسکتا۔

سختی کا دروازہ کھولنے کا مطلب یہ ہے کہ سختی اس کے اوپر آسان ہوجائے۔ پس سختی کو طبیعت پر طلب کرنے اور آرام کو طبیعت پر طلب کرنے سے گریز کرنے سے ہی وہ صالحین کے درجہ تک پہنچنے کی پہلی منزل کو عبور کرسکے گا۔

افسوس! ہم نے ولایت، روحانیت، اللہ کا قرب اور اللہ کی بارگاہ میں بلند رتبہ و درجہ اور تصوف کو کسی اور چیز ہی کا نام دے رکھا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک آدمی اتنے ہزار مرتبہ فلاں تسبیح کرے، خاص قسم کی شکل حلیہ اور ہیئت بنالے، وہ روحانیت، ولایت، تصوف اور سلوک کے اونچے درجہ پر فائز ہے۔ نہیں! ایسا ہرگز نہیں ہے۔ صالحین جس مجاہدے کو صالحیت اور نیکی کی بنیاد بناتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اس کا نفس ایسی اصلاح پالے، اس کی ایسی تربیت ہو، اس میں ایسی تبدیلی آئے کہ وہ راحت، آرام اور عیش طلبی کو پسند نہ کرے بلکہ سختی، تنگی اور پریشانی و مشکل میں خوشی محسوس کرے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی آسانی کے لئے نفس کو بدنام کرتے ہیں۔

2۔ عزت طلبی کی خواہش کا خاتمہ

مرتبہ صالحین میں شمولیت کے لئے دوسری جس گھاٹی کو عبور کرنا ہے وہ یہ ہے کہ بندہ اپنے لئے عزت طلبی کا دروازہ بند کردے اور ذلت کا دروازہ کھول لے۔

مراد یہ ہے کہ ہر بندہ یہ چاہتا ہے کہ جب وہ آئے تو اس لئے کہ عزت ہو، جب عزت نہیں ہوتی تو وہ ناراض ہوجاتا ہے۔ اس لئے کہ نفس یہ چاہتا ہے کہ مجھے لوگ کھڑے ہوکر ملیں، ہاتھ چومیں کہ فلاں بزرگ، فلاں اعلیٰ درجے اور رتبے کی حامل ہستی، فلاں لیڈر، فلاں عالم اور پیر صاحب آگئے ہیں۔ اگر اس کا نفس یہ چاہے کہ لوگ میرے لئے کھڑے ہوجائیں، میری عزت کریں، مجھے نمایاں جگہ پر بٹھائیں اور میرا اچھے طریقے سے استقبال کریں تو یہ عزت طلبی ہے۔ اگر عزت طلبی کی یہ خواہش اندر موجود ہے تو وہ بندہ سمجھ لے کہ اس کے اوپر صالحیت کا دروازہ کھلنا تو درکنار اس کے کھلنے امکانات بھی بند ہیں۔ لوگ از خود عزت کریں، اس کے نفس میں طلب نہ ہو تو یہ جائز ہے۔ یعنی لوگ خود کسی کی بزرگی، تقویٰ، صالحیت، نیکی، پرہیزگاری، اللہ کی بارگاہ میں اس کی مقبولیت و محبوبیت اور رعب و دبدبہ کی وجہ سے از خود اس کی عزت اور احترام میں کھڑے ہوجائیں تو یہ جائز ہے۔ اس کا اپنا دل اور نفس اس عزت و احترام اور پروٹوکول کی خواہش نہ کرے۔ نیز لوگوں کے کھڑے ہونے سے اپنے اندر خوشی محسوس نہ کرے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ صالحیت کے راستے کی جانب کامیابی سے گامزن ہے۔

اگر لوگ کسی کے احترام اور عزت میں کھڑے نہ ہوئے اور اس پر وہ بندہ ناراض ہوجائے، اس مجلس سے خوش نہ ہو، کسی نہ کسی موقع پر اس سے ناراضگی کا اظہار بھی کردے تو وہ بندہ یہ جان لے کہ صالحیت کا دروازہ اس پر بند ہے۔ حضورسیدنا غوث الاعظم ایک مرتبہ مجلس میں آئے تو کوئی شخص بھی آپ کے احترام میں کھڑا نہ ہوا۔ آپ پوری مجلس سے گزر کر سٹیج پر تشریف لے گئے اور وعظ فرمانا شروع کردیا۔ کسی نے بعد میں آپ سے پوچھا یہ کیا ماجرا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ لوگوں کے اس طرح کے سارے اعمال و حرکات تک بھی ہمارے تکوین اور اختیار میں دے دیئے گئے ہیں۔ جب ہم اس امر کی طرف توجہ نہیں کرتے کسی اور طرف دھیان میں ہوتے ہیں تو لوگ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آج میں نے ادھر توجہ کی اور دل سے چاہا کہ کھڑے نہ ہوں تو کوئی ایک شخص بھی کھڑا نہیں ہوا۔ جب وہ کھڑے ہوتے ہیں تو سمجھو کہ ہم نے اس امر کی طرف دھیان ہی نہیں کیا کہ کھڑے ہوں یا نہ ہوں، ادھر ہماری توجہ ہی نہیں ہے۔

اہل اللہ ان امور کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے کہ کوئی عزت کررہا ہے کہ نہیں۔۔۔ کوئی ہاتھ چوم رہا ہے کہ نہیں۔۔۔ کوئی اونچی جگہ پر بٹھا رہا ہے کہ نہیں۔۔۔ ان کے لئے بوریا اور تخت برابر ہوجاتا ہے۔۔۔ ان کے لئے اعلیٰ اور ادنیٰ سواری برابر ہوجاتی ہے۔۔۔ ان کے لئے محل اور کٹیا برابر ہوجاتی ہیں۔۔۔ کیونکہ ان کا نفس عزت کا طالب نہیں ہوتا بلکہ اس کے برعکس وہ نفس کو پامال کرنے کے لئے عزت طلبی کا دروازہ اپنے اوپر بند کرلیتے ہیں۔ وہ ہر وقت اس تلاش میں رہتے ہیں کہ چلو کوئی ایسا عمل ان سے ہوجائے، جس سے ان کی عزت اور ناموس کا شیشہ ٹوٹے تاکہ ان کے نفس کا علاج ہو، نفس کنٹرول میں رہے اور اکڑنے نہ پائے۔ لہذا وہ ذلت کو اپنے نفس کا علاج سمجھتے ہیں۔

حضرت بایزید بسطامی کے بارے میں منقول ہے کہ وہ جس راستے سے گزرتے تھے، اس راستے میں باددشاہ وقت کا دربار آتا تھا۔ جب آپ گزرتے تو ہر روز بادشاہ اور اس کے درباری آپ کے احترام میں کھڑے ہوجاتے، آپ کو سلام کرتے، آپ بادشاہ اور اس کے درباریوں کا جواب دے کر گزر جاتے۔ ایک روز آپ گزرے، بادشاہ اور درباری حسب معمول آپ کے استقبال میں کھڑے ہوگئے تو آپ نے ان کی طرف منہ کرکے تھوک دیا۔ بادشاہ اور درباریوں نے آپ کو برا بھلا کہنا شروع کردیا کہ یہ کیسا ولی ہے کہ اس کا اخلاق ہی نہیں ہے کہ ان لوگوں کی طرف منہ کرکے تھوک دیا جو اس کی عزت کررہے ہیں۔ وہ لوگ جو چند لمحات قبل آپ کی عزت کررہے تھے، وہ آپ کو ملامت کرنے لگے۔ بعد ازاں آپ کے مریدین نے آپ سے پوچھا حضرت یہ آج کیا معاملہ ہوا؟ بادشاہ روز آپ کے استقبال کے لئے کھڑا ہوتا تھا، آپ نے کبھی ایسا نہ کیا، آج ایسا کیوں کیا؟ آپ نے جواب دیا کہ وہ میری عزت و احترام میں روز کھڑا ہوتا تھا، میرے نفس نے کبھی اس اہتمام کی پرواہ ہی نہ کی اور اس طرف کبھی دھیان ہی نہیں کیا کہ میرے ساتھ بادشاہ اور اس کے درباری کیا سلوک کررہے ہیں۔ اس لئے کہ اللہ والوں کا دل اور نفس اس حال میں مصروف ہوتے ہیں کہ ہر وقت وہ اللہ کے ساتھ شامل رہتے ہیں۔ اللہ کے ذکر، بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دھیان آخرت اور مالائے اعلیٰ کی طرف ان کی توجہ رہتی ہے۔ ان کا دھیان، نفس، قلب، سوچ، عقل، مالائے اعلیٰ کی طرف مصروف رہتے ہیں۔ لہذا یہاں ان کے ساتھ کوئی کیا سلوک کررہا ہے ان کی طرف ان کا دھیان نہیں ہوتا۔ فرمایا کہ روز یہ کھڑے ہوتے تھے تو میری نفس نے کبھی پرواہ ہی نہ کی کون کھڑا ہوا ہے اور کون نہیں۔ میں نے کبھی ادھر دھیان ہی نہیں دیا، لہذا ان کے کھڑے ہونے پر کبھی مجھ پر اثر نہیں ہوا۔ آج جب کھڑے ہوئے تو میرے نفس نے اثر لیا اور اس عزت و احترام کی جانب متوجہ ہوا کہ میری یہ شان اور یہ رتبہ ہے کہ بادشاہ وقت اور کل وزراء بھی میری تعظیم میں ہر روز کھڑے ہوتے ہیں۔ میں نے جب نفس کو ان کے کھڑے ہونے کا اثر لیتے دیکھا تو میں نے اسی وقت اپنے نفس کا علاج کرنا چاہا اور ان کی طرف منہ کرکے تھوک دیا۔ یعنی ایسا عمل کیا جس عمل کو وہ لوگ ناپسند کریں اور مجھے برا بھلا کہیں۔ میرا مقصود نفس کا علاج تھا۔ میں نے یہ عمل ان کی خاطر نہیں بلکہ اپنے نفس کی خاطر کیا۔

صالحین، اہل اللہ بعض اعمال ایسے کرتے ہیں کہ جو لوگوں کی نگاہ میں پسندیدہ نہیں ہوتے، لوگ اس کو گوارہ نہیں کرتے، لوگ اس سے ناراض ہوتے ہیں، ناپسند کرتے ہیں اور رد عمل دیتے ہیں۔ لوگوں کا یہ ردعمل نفس کے علاج میں کارگر ہوتا ہے۔ نفس کے علاج کے عمل کو ولایت کے آخری درجے پر بھی اولیاء اللہ نظر انداز نہیں کرتے۔ ذلت کے دروازے سے مراد یہ نہیں کہ ان کی بے عزتی دنیا میں ہوتی ہے، نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نفس کے علاج کے طور پر اس دروازے کو کھلا رکھتے ہیں اور کبھی ایسا واقعہ ہوجائے جو ان کی طبیعت پر ناگوار ہو اور وہ سمجھیں کہ ہماری شان اور ہمارے مرتبے کے لائق اور شایان شان نہیں تو وہ اس واقعہ کو اللہ کی نعمت سمجھتے ہیں کہ یہ نفس کا علاج ہوا ہے۔ اس سے بجائے ناراض ہونے کے وہ اپنے نفس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔

3۔ حقیقی بیداری

صالحیت کے راستے میں تیسری گھاٹی یہ ہے کہ سالک نیند کا دروازہ اپنے اوپر بند کرلے اور حقیقی بیداری کا دروازہ کھول لے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کلیتاً نیند ختم کرلے بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ نیند کے طالب نہیں رہتے۔ جب نیند کا غلبہ ہوتا ہے تب ہی وہ سوتے ہیں۔ بیداری کا دروازہ کھولنے سے مراد بیداری سے محبت کرنا ہے۔ بعد ازاں جب وہ صالحین ترقی پاکر مقربین اور عارفین ہوجاتے ہیں تو پھر نیند میں بھی ان کے لئے بیداری کا ایک دروازہ کھل جاتا ہے اور حالت نیند میں بھی پر مالائے اعلیٰ اور انوار و فیوضات الہٰیہ سے مستنیر ہوتے رہتے ہیں۔ وہ نیند میں بھی مشاہدات کرتے ہیں جو بیداری میں نہیں ہوتے۔ ان کی نیند اوروں کی نیند سے مختلف ہوجاتی ہے۔ انہیں آقا علیہ السلام کی اُس نیند کا فیض اور حصہ مل جاتا ہے جس کے بارے آقا علیہ السلام نے فرمایا:

انی لست مثلکم انی ابيت يطعمنی ربی ويسقينی.

(صحيح بخاری، کتاب الاعتصام، 6:2661)

’’میں تمہاری مثل نہیں ہوں، میں اپنے رب کے ہاں رات گزارتا ہوں، وہ مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے‘‘۔

یعنی میری نیند کا وقت اور لمحے بھی اللہ کے حضور گزرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مجھے کھلاتا اورپلاتا ہے یعنی انوار اور تجلیات الہٰیہ کی خیرات دیتا ہے۔ اسرار و رموز سے مالائے اعلیٰ کی خوراک کھلائی جاتی ہے۔ آقا علیہ السلام نے حضرت عائشہ سے فرمایا:

ياعائشة! ان عينی تنامان ولا ينام قلبی.

(صحيح بخاری، کتاب الجمعه، 1:385)

’’اے عائشہ! میری آنکھیں تو سوتی ہیں لیکن میرا دل بیدار رہتا ہے‘‘۔

آقا علیہ السلام کو پھر بیداری کا یہ مقام عطا کیا گیا کہ جب نیند سے بھی اٹھتے تو بغیر وضو سے بھی آپ کی نماز جائز تھی چونکہ آپ کی نیند غفلت نہیں ہوتی تھی بلکہ بیداری تھی۔ اس لئے کہ وضو نیند سے نہیں ٹوٹتا بلکہ غفلت سے ٹوٹتا ہے۔

یہ بات توجہ طلب ہے کہ اصلاً نیند وضو کو نہیں توڑتی بلکہ غفلت وضو کو توڑتی ہے۔ چونکہ ہماری نیند غفلت کا سبب بنتی ہے لہذا ناقص وضو غفلت ہے نہ کہ نیند۔ یعنی نیند خود وضو توڑنے کا سبب نہیں بلکہ نیند غفلت لانے کا سبب ہے اور غفلت وضو توڑنے کا سبب بنتی ہے۔ عام مسلمان بھی اگر بیٹھے بیٹھے اسی حالت میں سوجائے کہ اس کے پہلو بائیں یا دائیں جھک نہ جائیں، نشست سے اٹھ نہ جائے، زمین سے الگ نہ ہوجائے، سیدھے بیٹھے ہوں اور اس بیٹھنے کی حالت میں اونگھ اور نیند بھی آجائے تو وضو نہیں ٹوٹتا۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ جو ایک لمحے کی نیند تھی وہ غفلت کا سبب نہیں بن سکی۔ اگر جسم پر غفلت آتی، جسم دائیں یا بائیں ڈھلک جاتا، جسم سیدھا نہ رہتا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ نیند ایسی تھی جو جسم میں غفلت لانے کا باعث بنی لہذا وضو ٹوٹ گیا۔

آقا علیہ السلام کی نیند تو ہوتی مگر وہ باعث غفلت نہ ہوتی کیونکہ نیند میں بیداری رہتی تھی۔ اس لئے سلوک اور روحانیت میں بیداری کا برعکس یا متضاد نیند نہیں ہے بلکہ غفلت ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ’’جو دم غافل سو دم کافر‘‘ غافل سے مراد یاد کا ترک ہوجانا ہے۔ آدمی اگر جاگتے ہوئے بھی یاد الہٰی ترک کردے، فکر آخرت ترک کردے، آخرت کا دھیان، اللہ کی یاد، اللہ کی اطاعت اور آقا علیہ السلام کی اتباع کو ترک کردے تو یہ بھی غفلت ہوگئی، بیداری نہ رہی۔

اللہ رب العزت نے ایسے ہی غافل بندے کی اطاعت و پیروی سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَه عَنْ ذِکْرِنَا.

(الکهف:28)

’’اور تو اس شخص کی اطاعت (بھی) نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے‘‘۔

دلوں پر غفلت کا طاری ہوجانا نیند ہے اور دل اللہ کی یاد میں بیدار ہوجائے تو وہ حقیقی بیداری ہے۔ پس انسان اگر ذکر سے غافل ہے، اس کا دھیان اللہ، اللہ کی اطاعت اور یاد سے ہٹ گیا، آخرت سے بے فکر اور بے خوف ہوگیا، آقا علیہ السلام کی اتباع، اللہ کی محبت سے اس کا دل عاری ہوگیا تو وہ جاگتے ہوئے بھی غفلت اور نیند میں ہے۔ ایسے جاگنے والے جاگ کر بھی نیند میں رہتے ہیں۔ دوسری طرف جو لوگ اس گھاٹی کو عبور کرلیتے ہیں تو ان کی نیند بھی عبادت ہوتی ہے۔ عالم باعمل اور صالح عالم کی نیند بھی عبادت ہوتی ہے کیونکہ اس کی نیند جسم کی ضرورت کی کفالت کررہی ہے، غفلت نہیں لارہی۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سالک ایسی نیند کا دروازہ بند کرے جو غفلت ہے اور اس بیداری کا دروازہ کھول لے جو نیند میں بھی رہے۔

4۔ آرام طلبی سے اجتناب

صالحیت کی طرف سفر کے دوران چوتھی منزل/ گھاٹی یہ ہے کہ سالک آرام کا دروازہ اپنے اوپر بند کردے اور تکلیف کا دروازہ کھول دے۔ ہم سہل پسند ہوگئے ہیں۔ شارٹ کٹ تلاش کرتے ہیں، گائیڈ تلاش کرتے ہیں جبکہ صالحیت اور روحانیت کے حصول کے لئے طویل مدت لگتی ہے۔ ریاضت، محنت اور مجاہدوں کی کیفیتیں احوال، نوعیت بدلتی رہتی ہیں مگر ہر ایک کو مجاہدہ سے گزرنا ہے۔ کوئی شخص نہیں ہے جو مجاہدہ سے نہ گزرا ہو۔ حتی کہ انبیاء میں سے بھی کوئی ایسا نہیں جو مجاہدہ سے نہ گزرا ہو۔

ایک مجاہدہ طریقِ نبوت پر تھا جو انبیاء کو نصیب ہوا۔ ہر پیغمبر پر مجاہدات گزرے، ہر پیغمبر کی ہجرت مجاہدہ تھی۔۔۔ ہر پیغمبر کا باطل قوتوں سے ٹکراؤ مجاہدہ تھا۔۔۔ ہر پیغمبر کو جہاد میں حصہ لینا پڑا۔۔۔ ہر پیغمبر پر مشکلات آئیں۔۔۔ یہ سب ان کے لئے مجاہدہ تھا۔ حضرت ابراہیم عراق کی سرزمین بابل میں پیدا ہوئے۔ وہاں سے نکلے دمشق آکر آباد ہوئے، وہاں سے فلسطین آئے۔ اسی اثناء میں اولاد کی خاطر مکہ کی وادی میں آپہنچے۔ کعبہ تعمیر کیا، پھر واپس پلٹ کے حلب میں کچھ عرصہ قیام کیا۔ یہ جو شہر در شہر، قریہ در قریہ، ہجرتیں رہیں یہ ان کے مجاہدات تھے۔ حضرت ابراہیم کا دوسرا مجاہدہ نمرود سے ٹکر لینا تھا۔۔۔ آگ میں گرائے گئے۔۔۔ اسماعیل کی قربانی کے لئے تیار ہوگئے۔۔۔ یہ بھی حضرت ابراہیم کے مجاہدات تھے۔

موسیٰ علیہ السلام نے ہجرت کی۔۔۔ مصر سے نکلے مدین گئے۔۔۔ 12 برس مدین کی مشقت جھیلی۔۔۔ وہاں سے وادی سینا عبور کرتے ہوئے پھر مصر پہنچے۔۔۔ فرعون سے ٹکر لی۔۔۔ ملک مصر کو چھوڑا۔۔۔ دریائے نیل کو عبور کرکے وادی سینا پہنچے۔۔۔ پھر سالہا سال وہاں پر قیام ہوا۔۔۔ پھر طور سینا پر جانا، اُن کے آنے سے قبل امت کا پھر بگڑ جانا اور راہ حق کو چھوڑ کر دوبارہ شرک میں مبتلا ہوجانا، یہ وہ تمام مشکلات تھیں جو حضرت موسیٰ کے مجاہدات اور ریاضتیں تھیں۔

اس طرح حضرت یوسف کا بچپن میں والدین سے بچھڑ جانا۔۔۔ کنویں میں گرا دیا جانا۔۔۔ مصر کے بازاروں میں بیچا جانا۔۔۔ ان پر تہمت کا لگنا۔۔۔ جیل میں جانا۔۔۔ یہ ان کے مجاہدات تھے۔ یہ مجاہدات طریق نبوت کے مجاہدات تھے اور وہ اس پر صبر کرتے پھر بالآخر فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا۔ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا کے مصداق آسانیاں اُن کا مقدر بنیں۔ مجاہدہ کے بعد مشاہدہ ہوتا ہے۔ ہر تنگی کے بعد فتح اور کشادگی ہوتی ہے۔ ان مجاہدات کی وجہ سے نتیجہ یہ ہوا کہ پھر وہ اس جگہ بادشاہ بنے۔

اسی طرح حضرت عیسیٰ، حضرت یحییٰ، حضرت زکریا، حضرت سلیمان، حضرت لوط، حضرت ہود، حضرت شعیب، حضرت صالح علیہم السلام کے مجاہدات ہیں۔ جس طرح کے کام اللہ ان کے سپرد کرتا ہے اسی طرح کا اللہ ان کو مجاہدہ عطا کرتا ہے مگر مجاہدہ سے مبراء کوئی نہیں۔ پیغمبروں کے مجاہدات، اولیاء کے مجاہدوں سے اعلیٰ تھے۔

ایک مجاہدہ طریقِ ولایت پر ہوتا ہے۔ طریق ولایت میں کسی کا 40 سال عشاء کے وضو سے فجر پڑھنا۔۔۔ کسی کا 40 سال تک رات کو مصلے پر ایک قدم پر کھڑے ہوکر قرآن مجید کا ختم کرنا۔۔۔ کسی کا 40 برس روزہ رکھنا۔۔۔ کسی کا جنگلوں میں پتے کھانا۔۔۔ روکھی سوکھی تھوڑی روٹی کھانا مجاہدہ ہوتا ہے۔ یہ مجاہدات خالص طریق ولایت پر ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ آرام کا دروازہ بند کردیں اور تکلیف کا دروازہ کھول دیں۔ جو تکلیف کی وادی سے نہیں گزرا، اسے آرام نہیں ملتا۔ ہم آرام پہلے چاہتے ہیں اور تکلیف کو قریب نہیں آنے دینا چاہتے۔ جو لوگ چاہتے ہیں کہ انہیں دنیا میں آرام ملے، ان کو چاہئے کہ وہ تکلیف اپنائیں۔ آرام کا ملنا نہ منع ہے، نہ ناجائز اور نہ ناممکن ہے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا:

اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا .

(الم نشرح:6)

’’یقینا (اس) دشواری کے ساتھ آسانی (بھی) ہے‘‘۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

وَوَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغْنٰی.

(الضحیٰ:8)

’’اور اس نے آپ کو (وصالِ حق کا) حاجت مند پایا تو اس نے (اپنی لذتِ دید سے نواز کر ہمیشہ کے لیے ہر طلب سے) بے نیاز کر دیا‘‘۔

ہر تنگی اور مشقت کے بعد خوشحالی ہے، یہ اللہ پاک کا فیصلہ ہے۔ مگر خرابی کہاں ہے؟ خرابی یہ کہ انسان تنگی کے دروازے سے گزرے بغیر خوشحالی چاہتا ہے۔ انسان تنگی مشقت، محنت اور تکلیف میں پڑے بغیر آرام چاہتا ہے اور یہیں سے خرابی جنم لیتی ہے۔ جو تکلیف کی چکی میں نہیں پسا اسے نہ دائمی آرام ملا، نہ فتح ملی اور نہ اس کو بلند مقام ملا۔جب سے طریقت، تصوف سلوک، روحانیت اور ولایت پیشہ بن گیا ہے تب سے تباہی آگئی ہے اور تعلیم و تربیت ختم ہوگئی۔ پیشہ ور لوگوں کا مریدین، متعلقین اور راہ حق کے مسافروں کو تعلیم و تربیت دینے کی بجائے پوری توجہ و نظر Concentration چند رسومات تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ جس طرح عیسائی لوگوں نے کفارہ کا عقیدہ اپنا رکھا ہے۔ ان کے مطابق حضرت عیسیٰ کے پھانسی چڑھ جانے (معاذ اللہ) سے قیامت تک ان کی ماننے والی امت بخشی گئی۔ وہ پھانسی چڑھ کر سب کو نجات دے گئے، اب ان کی امت کے ذمے کوئی مشقت و محنت نہیں ہے۔ افسوس ہمارے ہاں بھی نام نہاد صوفیوں نے اس طرح کے راستے نکال لئے ہیں کہ پیر صاحب کو نذرانہ دے دیا۔۔۔ پیر صاحب کی خدمت کردی۔۔۔ تو سب ہی اچھا ہے اور یہی کچھ کافی ہے۔ ان چیزوں کا کوئی تعلق تصوف و سلوک اور روحانیت سے نہیں۔

شیخ تربیت کے لئے ہوتے ہیں۔۔۔ انگلی پکڑ کر چلانے کیلئے ہوتے ہیں۔۔۔ راستہ بتانے، دکھانے اور منزل تک پہنچانے کے لئے ہوتے ہیں۔ جو شیخ اور مرشد لوگوں کو تعلیم اور ہدایت نہیں دیتا۔۔۔ سبق نہیں دیتا۔۔۔ سمجھاتا و سکھاتا نہیں ہے۔۔۔ راہ دکھاتا نہیں ہے۔۔۔ وہ نہ شیخ ہے اور نہ مرشد ہے بلکہ پیری مریدی اس کا پیشہ اور کاروبار ہے۔ جب سے دین پیشے میں بدل گیا، دین کی تبلیغ کرنے والے علمائ، خطباء اور واعظوں نے دین کی تبلیغ کو پیشہ اور ذریعہ معاش بنالیا، اللہ کی مخلوق کی رشد و ہدایت اور انہیں روحانیت کی راہ بتانے والوں نے اس طریقت کو پیشہ بنالیا تو پھر یہ راہبری نہ رہی بلکہ راہزنی ہوگئی۔

منہاج القرآن سے وابستہ، اس مصطفوی مشن میں شریک رفقائ، کارکنان اور وابستگان سن لیں! منہاج القرآن حضور سیدنا غوث الاعظم کا مشن ہے۔ یہ مشن رفقاء و کارکنان کا مرشد ہے۔ یہاں سے حسنِ اخلاق کا سبق سیکھا کریں اور جو راہنمائی آپ کو ملے اس پر عمل کیا کریں تاکہ لوگ عام افراد اور آپ میں واضح فرق دیکھ سکیں کہ اس مشن سے سیراب ہونے والے کیسے اعلیٰ کردار کے حامل ہیں۔ آپ میں اور باقیوں میں گفتار، سیرت و کردار اور اخلاق کے حوالے سے فرق نظر آئے۔ میری گفتگو سننا، کتابیں پڑھنا اور پھر یہ سب سن، پڑھ کر بھول جانا ہے تو پھر اس سنگت و محبت کا فائدہ نہیں ہے، اس طرح خود بھی شرمسار ہوں گے اور مجھے بھی شرمسار کریں گے۔

5۔ دنیا طلبی کی حرص کا خاتمہ

صالحیت کی طرف پانچویں منزل/ گھاٹی یہ ہے کہ سالک اپنے اوپر دولت کا دروازہ بند کرلے اور فکر آخرت کا دروازہ کھول دے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پیسے اپنے اوپر حرام کرلے۔ نہیں، بلکہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس کا دل اللہ کے لئے دنیا سے مستغنیٰ ہوجائے اور وہ دنیا کا طالب نہ رہے۔ جس کا توکل اللہ پر ہوجائے اس کو فقیر کہتے ہیں۔ جس کا دل دنیا سے زاہد ہوجائے اور دنیا کے حرص، لالچ، محبت اور طلب سے بے نیاز ہوجائے اور دنیاوی معاملات ایمانداری اور دیانتداری سے انجام دے، وہ فقیر ہے یعنی دنیا طلبی سے اس کا دل پاک ہوگیا۔ افسوس ہمارا ذہن ہر وقت سودو زیاں کے چکر میں لگا رہتا ہے۔۔۔ گنتی کرتے رہتے ہیں کہ کتنا نفع آگیا۔۔۔ کتنے پیسے آگئے اور کتنے کم ہیں۔۔۔ زیادہ کمانے کے لئے اور کیا کریں۔۔۔ دولت کی ایسی حرص ہے کہ جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔ اندازہ کریں کہ نوجوان 25,20 سال کی عمر میں دولت کمانا شروع کردیتا ہے، کماتے کماتے کوئی پچاس کی عمر میں پہنچ گیا اور کوئی 55، 60 برس کی عمر میں پہنچ گیا۔ 30 برس گزر گئے، دولت کمائی جارہی ہے، دولت کماتے کماتے اچانک ملک الموت دروازہ کھٹکھٹائے گا، بلاوا آئے گا اور انسان چلا جائے گا۔ اس وقت پوچھا جائے گا کہ بندے جب سے تو نے ہوش سنبھالا تیرے ماں باپ نے تجھے کہا کہ نوکری، دکانداری، کاروبار، تجارت کر، تب سے تو مال کمانے پر لگا اور آج بلاوے کے دن تک بھی تو کاروبار میں تھا، مال ہی کمارہا تھا۔ بتا! مال ہی کمایا یا مآل بھی کمایا۔ مآل آخرت کو کہتے ہیں۔ افسوس ہماری ساری زندگی دولت اور دنیا کمانے پر ہی گزر گئی، آخرت کی کمائی کب ہوگی۔۔۔؟ ہم آخرت کے لئے منصوبہ بناتے ہیں کہ بچے بڑے ہوجائیں، کاروبار وہ سنبھال لیں گے تو ہم اس دین داری کی طرف آجائیں گے۔ پہلے ساری زندگی اس وعدے پر رہے۔ جب ترقی ہوگئی، سب کو Establish کرلیا، ہر ایک کے لئے الگ الگ کاروبار بنالئے، پہلے سے کئی گنا زیادہ دولت اور دنیا میں مشغولیت بڑھ گئی تو اب اولاد اور ان کی اولاد کی دنیاوی حوالے سے فکر کھائے جارہی ہے۔ اے بندے سوچ! اسی دنیا کی کمائی کرتے کرتے تیرا بڑھاپا آپہنچا۔۔۔ سر کے بال سفید ہوگئے۔۔۔ بڑھاپے کا شعلہ تیرے سر سے نکل آیا۔ جس دن سکت ہی نہ رہی کہ تو راتوں کو اٹھ سکے، روسکے اور رب کو مناسکے تو پھر رب کو کیا جواب دے گا۔ اسی لئے فرمایا کہ دولت طلبی کا دروازہ بند کر اور مولا طلبی کا دروازہ کھول تاکہ صالحیت کی منازل طے کرسکے۔

6۔ امید کا خاتمہ

صالحیت کی طرف گامزن ہوتے ہوئے آخری منزل/ گھاٹی یہ ہے کہ امید کا دروازہ بند کر اور موت کی تیاری کا دروازہ کھول دے۔ ہماری ساری زندگی امیدوں میں گھری ہوئی ہے۔ یہ ہوجائے تو پھر یہ بھی کرلیں گے۔۔۔ جب ان شاء اللہ یہ کرلیں گے توپھر آگے منصوبہ بنائیں گے۔۔۔ ہماری ساری زندگی امیدوں پر چلتی رہتی ہے۔ یاد رکھیں کہ امید، موت کی تیاری کی دشمن ہے۔ امید ہمیں دھوکہ دیتی ہے اور ذہن میں یہ خیال بٹھاتی ہے کہ ابھی بڑا وقت پڑا ہے، ان شاء اللہ وہ وقت بھی آجائے گا جب آخرت کے لئے بھی کچھ کرلیں گے۔ اے نادان سُن! کیا موت پوچھ کر آتی ہے۔۔۔؟ لازمی تو نہیں کہ تو طبعی موت مرے، طویل عمر پائے، طویل علالت کے بعد موت آئے۔ موت تو ناگہانی بھی آجاتی ہے، حادثاتی بھی آجاتی ہے۔ امید انسان کی بہت بڑی دشمن ہے۔ یہ اللہ سے غافل کرتی ہے۔ امید، انسان کو عمر کی درازی کا خیال دلاتی ہے اور غافل کرتی ہے کہ ابھی وقت ہے، فرصت ہے۔

موت اور آخرت کی تیاری کے لئے ابھی سے آغاز کرنا ہوگا۔ جن مسافروں نے لمبا سفر کرنا ہو اور جنہیں سفر کی طوالت نظر آرہی ہو، وہ نہ کبھی غفلت کی نیند سوتے ہیں اور نہ امید کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ ان کو نیند ہی نہیں آتی۔ وہ صبح سویرے سفر کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے سفر پر چل پڑتے ہیں۔

مجاہدہ کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے مجاہدہ کے لئے ان چھ گھاٹیوں اور وادیوں سے گزریں تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں صالحیت کی شاہراہ پر گامزن کرے اور ان کا نام صالحین کے زمرے میں لکھ دے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صالحین کے زمرے میں لکھے۔ اللہ پاک اس مرکز کو آباد رکھے۔ جملہ قائدین اور مشن کے کارکنوں کو سلامت رکھے۔ یہاں آنے والے لوگ اس مرکز سے فیض مصطفوی اور فیض محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیالے بھر بھر کے پیتے رہیں۔ یہ مرکز میخانہ سیدنا غوث الاعظم ہے، یہاں سے محبت کے جام بھر بھر کے پیتے رہیں اور اپنی آخرت کی تیاری کے لئے سامان لیتے رہیں۔ منہاج القرآن سے وابستہ ہر رفیق و کارکن اپنے اندر روحانی استعداد پیدا کرے، غفلت دور کرے اور مجاہدہ نفس کے ساتھ تیاری کرے۔ اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

اظہار تعزیت

گذشتہ ماہ محترم علامہ نذیر احمد (سفیر یورپ) کے والد محترم، محترم غلام مرتضی علوی (مرکزی ناظم تربیت) کی ساس، محترم یعقوب عابد (MD ایم ای ایس) کی ہمشیرہ، محترم امیر حسنین (ڈسپیچ آفس مرکز) کی پھوپھی، محترم غلام مصطفی (نظامت ممبر شپ) کی نانی، محترم حافظ مبشر سعید (منہاجین سیشن2000ء)کی والدہ، محترم شہادت علی (کلرک کالج آف شریعہ) کے بھائی، محترم شاہد رضا (لائبریرین شریعہ کالج) کے نانا، محترم طالب حسین سواگی (سٹوڈنٹ شریعہ کالج)کے والد، محترم قاری محمد وقاص باروی (سٹوڈنٹ شریعہ کالج) کی والدہ، محترم حاجی ظفر اقبال ککرالی (فرانس) کی والدہ، محترم محمد اشفاق پلاں گراں (کوٹلہ) کی والدہ، محترم راجہ محمد فیاض القادری (خیر کتو) کے بڑے بھائی، محترم محسن حنیف لنگڑیال (کوٹلہ اربعلی) کا بھتیجا، محترمہ آمنہ خاتون (کھپرو سانگھڑ، سندھ) کی والدہ اور محترم فوجی مشتاق احمد قائم خانی کی ساس، محترم عاصم علی قادری (صدرMSM فاروق آباد) کی ہمشیرہ، محترم حاجی انور علوی (صدر کینٹ ٹاؤن) کے والد محمد فاروق انور علوی، محترم محمد حسین نظامی (عارف والا)، محترم بلال رضا قادری (لاہور کینٹ) کے والد محترم محمد حسین، محترم پروفیسر سجاد حسین (اٹک) کی ساس، محترم صغیر احمد قادری (حسن ابدال) کی والدہ، محترم رانا محمد اعظم (صدر تحریک شورکوٹ)، محترم رفاقت محمود جنجوعہ (جہلم) کے والد، محترم میاں شاہجہان گھنیلہ شریف بالا کوٹ کا بھانجا اور میاں غلام مصطفی انقلابی کے بھائی میاں محمد رفیق، محترم مختار علی معصومی (رحیم یار خان) کے بھائی محمد ارشاد، محترم محمد طارق خان (چکوال) اور محترم محمد یونس جوئیہ ککی (شورکوٹ) کے والد صوفی غلام محمد قضائے الہٰی سے وفات پاگئے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کی بخشش و مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل اور اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین