شفاقت علی شیخ

طبعی پہلوکی تجدید

ہمارا جسم قدرت کا بنایا ہوا انمول ترین شاہکار ہے جو مختلف ظاہری وباطنی اعضاء کا حسین و جمیل مرقع ہے۔ ایک طرف تو شخصیت کے دیگر تینوں پہلوئوں (ذہنی، قلبی اور روحانی) کا اظہار اس جسم کی وساطت سے ہے اور دوسری طرف دنیا کے تمام معاملات کو جسم اور اس کے اعضاء کے ذریعے ہی پایا تکمیل تک پہنچنا ہوتاہے۔ لہٰذا اس جسم کا صحت مند اور تندرستی کی حالت میں ہونابہت ضروری ہے۔ جسمانی صحت کی خرابی کی صورت میں کسی بھی کام کو خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل تک پہنچانا بہت مشکل ہوتاہے۔ دنیا بھر کے دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ جسمانی صحت ایک بہت بڑی نعمت ہے جس کی قدر کی جانی چاہیے اور اسے برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسلا م کے اندر بھی شخصیت کی قدروقیمت کے تعین میں جسمانی صحت کو خاصی اہمیت دی گئی ہے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

المومن القوی احب الی اﷲ من المومن الضعيف

’’طاقت ور مومن کمزور مومن کی نسبت اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے ‘‘۔

(مسلم، الصحيح، رقم:2664، 4/2052)

بنی اسرئیل کی فرمائش پر اُن کے نبی نے جہاد کیلئے طالوت کو اُن کا امیر مقررکیا تواُس کے تقرر کی وجہ سے بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَزَادَهُ بَسْطَةً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ

’’اللہ تعالیٰ نے اُسے علم اور جسم کے معاملے میں فراخی عطا فرمائی ہے ‘‘

(البقرة، 2: 247)

یہاں علم کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت کو قیادت کے اوصاف میں سے ایک وصف مانا گیا ہے۔ اسی طرح حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیوں نے اپنے والد سے حضرت موسیٰ کو کام پر رکھنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا :

اِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِيْنُo

’’بے شک جو بہتر ملازم تو رکھنا چاہے، وہ ہے جو طاقت ور اور دیانتدار ہو ‘‘

(القصص، 28: 26)

یہاں پھر دیانتداری کے ساتھ جسمانی صحت و طاقت کو ذمہ داری کی اہلیت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔

حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

نعمتان مغبون فيهما کثيرمن الناس الصحة و الفراغ

’’دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے متعلق لوگوں کی اکثریت خسارے میں رہتی ہے وہ ہیں صحت اور فراغت ‘‘۔

(بخاری، الصحيح، رقم: 6049، 5/2357)

معلوم ہوا جسمانی صحت کا ہونا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے جس کی قدر کرنی چاہیے۔ قدر کرنے سے مراد ایک طرف تو اس سے بھر پور فائدہ اُٹھانا ہے اور دوسری طرف حتیٰ الوسع اس کی حفاظت کرنا ہے۔ نیزیہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ لوگوں کی اکثریت عام طور پر ا س کی قدروقیمت میں لاپرواہی کا مظاہرہ کرتی ہے۔

جس طرح دنیا کی کسی بھی مشینری کو صحت مند حالت ( Working Condition)میں رکھنے کیلئے اُس کی ضروریات کا خیال رکھنا اور مناسب نگہداشت کرنا ضروری ہے اسی طرح ہمارے جسم کی مشینری کو بھی صحت مند اور توانا حالت میں رکھنے کیلئے حفظان صحت کے درج ذیل اُصولوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے:

  1. متوازن غذا
  2. ورزش
  3. مناسب نیند
  4. کام اور آرام میں توازن

ان چار اصولوں پر عمل درآمد سے ہی ہماری طبعی تجدید ممکن ہے۔ بصورت دیگر ہم کبھی بسیار خوری، کبھی مناسب خوراک نہ ملنے، کبھی سستی و کاہلی کی وجہ سے زیادہ نیند لینے، کبھی مصروفیات کے باعث ضرورت سے کم نیند لینے، کبھی ورزش نہ کرنے اور کبھی کام کی زیادتی کی وجہ سے اپنی جسمانی صلاحیتوں کو ختم کرتے رہیں گے اور زندگی کے دیگر معاملات کی انجام دہی میں مسائل کا شکار ہوجائیں گے۔

ذہنی پہلوکی تجدید

انسانی دماغ اللہ رب العزت کی شان تخلیق کا ایک انمول شاہکار ہے جس کا وزن اور سائز تو بہت کم ہے مگر اس کی وسعتیں لا محدود ہیں۔ آج کا دور کمپیوٹر کا دور ہے ہر گزرتے دن کے ساتھ وسیع سے وسیع رینج کے کمپیوٹر معرض وجود میں آ رہے ہیں۔ مگر سائنس اپنی تمام تر ترقیوں کے باوجود ابھی تک کوئی ایسا کمپیوٹر ایجاد نہیں کر سکی جو خالقِ کائنات کے بنائے ہوئے کمپیوٹر (انسانی ذہن)کا مقابلہ کر سکے۔ انسانی دماغ میں کھربوں کی تعداد میںخلیے(Cells )پائے جاتے ہیں جو بے حدوحساب معلومات کو اپنے اندر جمع کر سکتے ہیں۔ ایک طرف تو انسانی ذہن کی وسعتوں کی کوئی حد نہیں ہے اور دوسری طرف معلومات کی بھی کوئی حد نہیںہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں گود سے لے کر گور تک یعنی ساری زندگی ہی حصول علم میں مشغول رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔

سقراط کا قول ہے کہ’’ علم و حکمت اُس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک اُسے حاصل کرنے کی اتنی ہی شدید خواہش نہ ہو جتنی شدید دم گھٹنے کے ماحول یا پانی میں ڈوبے ہونے کے وقت سانس لینے کی خواہش ہوتی ہے ‘‘۔گویا علم و حکمت اور دانش بیٹھے بٹھائے آسانی سے حاصل نہیں ہوجاتی بلکہ اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اورقیمت کے اندر پہلی چیز اس کیلئے ایک سچی طلب اور آرزو کا ہونا ہے اور پھر اُس کے مطابق محنت کرنا ہے۔

اپنے رحجان اورمزاج کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنی پسند کے شعبے میں حتی الوسع علم کے آخری درجے (Ph.D وغیرہ) تک جانے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ علم صرف وہی نہیں ہے جو سکول و کالج سے حاصل ہوتا ہے بلکہ علم کے اور بھی بے شمار ذرائع ہیں اور یہ زندگی بھر کا عمل ہے سکول و کالج سے فراغت کے بعد تیزی سے بدلتی ہوئی اس دنیا میں اپنے علم کی تجدید کرتے رہنا چاہیے۔

علم کے حوالے سے اس بات کو جاننا بھی اہم ہے کہ اسلام نے علم کو ’’نافع‘‘ اور ’’غیر نافع‘‘ دو بڑی قسموں میں تقسیم کیا ہے۔

علم نافع وہ علم ہے جس کے ذریعے سے انسان اللہ تعالیٰ کی معرفت تک پہنچ جائے، زندگی کے اسرارورموز سے آگاہ ہو جائے اور اُس علم کے مثبت اثرات خود اس کی ذات اور کسی نہ کسی حد تک ماحول پر بھی دکھائی دیں اور جہاں ان میں سے کوئی چیز بھی نہ ہو وہ علم غیر نافع ہے، جس سے حضورعلیہ السلام نے پناہ مانگی ہے۔ گویا اسلام کے نزدیک علم وہی ہے جو انسان کو خدا تک پہنچا دے، زندگی کی راہوں کو روشن کر دے اور عمل کی جہتوں کو درست کر دے۔ بصورت دیگر وہ محض معلومات کا انبار ہے جو زندگی کو بوجھل بنا دینے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتا۔ اسلام جہاں بھی علم کی بات کرتا ہے اُس سے مراد علم نافع ہی ہوتا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ وہ قران و حدیث کا علم ہے یا سائنس اور ٹیکنالوجی وغیرہ کا۔ لہذا انسان کو ذہنی پہلو کی تجدید کرتے ہوئے اپنے علم میں مسلسل اضافہ کرتے رہنا چاہیے۔

علم میں اضافہ کے لیے بہت سارے ذرائع ہیں۔ جن میں سے چند نمایاں درج ذیل ہیں:

  1. مطالعہ کتب، اخبارات و جرائد
  2. حالات حاضرہ سے آگہی
  3. ٹی وی وانٹرنیٹ کا محتاط اور با مقصد استعمال
  4. اہل علم کی صحبت میں بیٹھنا
  5. غور و فکر اور تفکر و تدبر کی عادت کو اپنانا
  6. معلوماتی دورہ جات کرنا

مندرجہ بالا فہرست کوئی حتمی نہیں ہے۔ اس میں اور بھی کئی چیزوں کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ اپنے حالات کے مطابق حکمت اور دانشمندی سے کام لیتے ہوئے جو طریقے بھی مناسب لگیں اُن کے ذریعے اپنی شخصیت کے ذہنی پہلو کی تجدید کرتے رہنا چاہیے۔

قلبی پہلوکی تجدید

انسان کے سینے میں بائیں طرف گوشت کاایک لوتھڑا ہے جس کا طبی نقطہ نظر سے کام تو سارے جسم میں خون کو پمپ کرنا ہے مگر اسی دل کا ایک دوسرا اہم ترین کردار (Function ) یہ بھی ہے کہ یہ ہماری جذباتی زندگی کا مرکز و محور ہے۔ ہمارے جذبات جو زندگی کی گاڑی کیلئے ایندھن کا کام دیتے ہیں، وہ یہیں پر پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہر قسم کے اچھے اور بُرے جذبات مثلاً محبت، نفرت، غصہ، عداوت، انتقام، ایثار و قربانی وغیرہ یہیں دل میں پیدا ہوتے ہیں اور پھر دماغ میں پیدا ہونے والے خیالات پر بھی اثر اندا ز ہوتے ہیں۔ اسی لئے حضورصلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شخصیت کی اصلاح کا نکتہ آغاز دل کو قرار دیا ہے۔ ہمارے جذبات کا بہت گہرا تعلق ہماری سماجی اورمعاشرتی زندگی کے ساتھ ہے۔ جس طرح کے ہمارے دل میں جذبات ہوتے ہیں اُسی کے مطابق ہم دوسروں کے ساتھ برتائو کرتے ہیں۔ اور کامیاب زندگی کیلئے ہماری سماجی اور معاشرتی زندگی کا خوشگوار ہونا بہت ضروری ہے بالفاظ دیگر دوسرے لوگوں کے ساتھ ہمارے باہمی تعلقات کا خوشگوار ہونا کامیاب زندگی کے لوازمات میں سے ایک اہم تقاضا ہے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

التودد الی الناس نصف العقل

’’لوگوں کے ساتھ پیار و محبت سے رہنا آدھی عقل مندی ہے ‘‘

(ابن عساکر، تاريخ مدينة دمشق، 61/360)

لہٰذا کامیاب زندگی گزارنے کیلئے جہاں صحت مند جسم اور ترقی یافتہ ذہن کا ہونا ضروری ہے وہاں تربیت یافتہ دل کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ جب تک انسان اپنے جذبات پر قابو نہیں پائے گا اور اُن کی تہذیب و اصلاح نہیں کرے گا تب تک وہ علمی طور پر کتنے ہی بلند درجے پر کیوں نہ پہنچ جائے وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات کو برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ جذبات پر قابو نہ ہونے کی صورت میں ذرا ذرا سی بات پر اُس کے اندر غصہ کی آگ بھڑک اُٹھے گی جو جھگڑوں اوربحث و تکرار کا باعث بنے گی اور یوں زندگی کا مزاکِرکرا ہوتا چلا جائے گا۔ چنانچہ کامیاب اورخوشگوار زندگی کیلئے اس پہلو پر توجہ دینا بھی ضروری ہے اگر یہ پہلو نظر انداز ہو جائے تو پھر جسمانی اور ذہنی سطح پر انسان جتنی مرضی کامیابیاں حاصل کرتا چلا جائے وہ زندگی سے صحیح معنوں میں لطف اندوز نہیں ہو سکے گا۔

جس طرح کھیت کے اندر مطلوبہ فصل کے ساتھ ساتھ کچھ خود رو قسم کی جڑی بوٹیاں خود بخود اُگ آتی ہیں جوفصل کیلئے نقصان دہ ہوتی ہیں۔ کامیابی کا راز اس میں ہوتا ہے کہ اُن جڑی بوٹیوں کو ساتھ ساتھ تلف کر دیا جائے۔ یہی حال دل کی سر زمین کا بھی ہے۔ اس میں پسندیدہ اور اچھے اوصاف کے ساتھ ساتھ کچھ نا پسندیدہ اور بُرے اوصاف مثلا ً حسد، بغض، کینہ، نفرت، انتقام وغیرہ کی جڑی بوٹیاں خود بخود ہی اُگ آتی ہیں اور پروان چڑھتی چلی جاتی ہیں۔ اگردل کی سر زمین سے اِن گندے پودوں کو تلف نہ کیا جائے تو یہ ہماری شخصیت کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ ہمارے تعلقات کو بھی بہت متاثر کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں زندگی جہنم بن جاتی ہے۔ ہمارے لئے بہت ضروری ہے کہ غور فکر اور بعض دیگر مناسب تدابیر کے ذریعے ان ناپسندیدہ اوصاف سے دلوں کو پاک کریں۔

خوشگوار تعلقات کے چاراہم اُصول

دوسروں کے ساتھ خوشگوار تعلقات کے لئے مندرجہ ذیل چار اہم باتوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے:

محبت

ہم اپنے تمام متعلقین کو اُن کی خامیوں اور نقائص سمیت قبول کرتے ہوئے اُن کیساتھ غیرمشروط محبت کریں۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اُن کی اصلاح کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں۔ اس کا مطلب تو صرف یہ ہے کہ اُن کی خامیوں کی بناء پر اُن سے نفرت نہ کریں۔ محبت کے دائرے میں رہتے ہوئے جہاں تک ممکن ہو ان کی اصلاح کریں۔

عزت و احترام

ہمارے لئے بہت ضروری ہے کہ ہم دوسروں کا سماجی مرتبہ یا حیثیت یا اس قسم کی کوئی بھی چیز دیکھے بغیر محض انسان ہونے کے ناطے عزت و احترام کریں۔ معاشرے کے اندر انسانوں کی درجہ بندی اور اونچ نیچ کے جو پیمانے بنائے جاتے ہیں، اسلام اُن کو نہیں مانتا ہے۔ ہاں ایک پیمانہ ہے جس کا لحاظ اسلام بھی کرتا ہے اور وہ ہے تقویٰ۔اس کے علاوہ اسلام کا مطالبہ یہی ہے کہ ہر چھوٹے بڑے سے عزت و احترام والا سلوک کیا جائے۔ چنانچہ حضورصلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اکرموا اولادکم و احسنوا ادبهم

’’اپنی اولادوں کا اکرام کرو اور اُنہیں اچھے آداب سکھاؤ۔‘‘

(ابن ماجه، السنن، رقم:3671، 2/1211)

اگر کسی انسان کے اندر کردار کی کوئی خرابی یا بُرائی ہے تو اُسے اُس شخص کی ذات سے الگ کر کے دیکھا جائے اور اُس کا احترام محض انسان ہونے کی بناء پرکیا جائے۔ جس طرح ایک ڈاکٹر کسی سنجیدہ مرض میں مبتلا مریض کی بیماری سے تو نفرت کرتا ہے مگر بیمار سے نفرت کرنے کی بجائے ہمدردی کا اظہار کرتا ہے۔ اسی طرح ہمیں کسی اخلاقی برائی یا کمی میں مبتلا شخص کے ساتھ نفرت کی بجائے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اُسے اُس سے نجات دلانے کی کوشش کرنی چاہیے اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب ہمارے دل میں اُس کے لئے نفرت اور حقارت کی بجائے محبت اور عزت و احترام کے جذبات ہوں گے۔

بے لوث خدمت

خوشگوار تعلقات کے لئے تیسری ضروری چیز یہ ہے کہ ہمارے اندر دوسروں کی بے لوث خدمت کا جذبہ موجود ہونا چاہئے۔ اگر پہلی دو چیزیں پائی جا رہی ہوں تو تیسری پر عمل پیرا ہوناکچھ مشکل نہیں رہتا۔ اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ دوسروں کی مددکرتے وقت یہ نہیں دیکھناچاہیے کہ وہ کس مسلک، عقیدے، قوم، ذات، برادری یا ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔ نیز دوسروں کی خدمت اُن سے کسی بھی جوابی سلوک، صلے، بدلے یا ستائش کی نیت سے نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ کی رضا اور آخرت میں ثواب کے حصول کی نیت سے ہونی چاہیے۔

عفو ودرگذر

انسان خطا کا پتلا ہے اور قصداً یا سہواً غلطی اُس سے ہو ہی جاتی ہے۔ اگر ہم اپنے متعلقین کی ذرا ذرا سی غلطیوں پر گرفت کرنے لگیں اور ان پر ردعمل ظاہر کرنے لگیں تو زندگی کانٹوں کا بچھونا بن کر رہ جائے گی۔ اس لئے اسلام نے معاشرتی زندگی کو خوشگوار بنانے کیلئے عفوودرگذر کااُصول دیا ہے۔ لہذا خوشگوار تعلقات کو برقرار رکھنے کیلئے ہمیں حتیٰ الوسع دوسروں کی غلطیوں، لغزشوں، کوتاہیوں اورخامیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اُن کی طرف سے اپنے دل کو صاف رکھنا ہے۔تاکہ نفرت، کینہ اور انتقام کا زہر ہماری جذباتی زندگی کو تلخ یادوں کا گہوارہ نہ بنا دے۔

روحانی پہلو کی تجدید

جسم اس مادی دنیا کا بنا ہوا ہے لہذا اُس کی غذائیں بھی مادی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں لیکن روح عالم امر کی چیز ہے اس لئے اُسے ان غذائوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔روح کی غذائوں کا تعلق اللہ کی محبت، اُس کی یاد، اُس کے قرب، اُس کی اطاعت میں ہے۔ جسم اور جسم کے تقاضے دکھائی دیتے ہیں اور محسوس ہوتے ہیں۔ اس لئے انسان ان کی تکمیل کے لئے فورا ً متحرک ہو جاتا ہے۔ لیکن روح خود بھی مخفی ہے اور اُس بناء پر اُس کے تقاضے بھی مخفی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسا ن بالعموم روح کے تقاضوں کو فراموش کیے رکھتا ہے۔جس کی وجہ سے ا نسان کا جسم موٹا ہوتا چلا جاتا ہے مگر روح سکڑتی چلی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آخرت تو جو برباد ہونا ہوتی ہے وہ ہوتی ہی ہے دنیوی زندگی بھی تلخیوں، محرومیوں اور اُداسیوں کا مرقع بنتی چلی جاتی ہے۔

انسان اپنی شخصیت کے دیگرگوشوں پر جتنی بھی توجہ دے لے، جب تک روح کو نظر انداز کرے گا اُس کی زندگی میں ایک خلا باقی رہے گا۔ روح کی ویرانیوں کو دور کیے بغیر زندگی کے دامن کو حقیقی خوشیوں اور مسرتوں سے نہیں بھرا جاسکتا۔ لہٰذا ہمارے لئے بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی شخصیت کے اس اہم ترین حصے کی ضروریات کو بھی محسوس کریں اوراُنہیں پورا کرتے ہوئے اسکی بھی تجدید ساتھ ساتھ کرتے رہیں۔ اس مقصد کے لئے اسلام نے ایک مکمل اور جامع نظام دیا ہے جس میں ایمانیات بھی ہیں، عبادات بھی ہیں، معاملات بھی ہیں، اخلاقیات بھی ہیں۔ نیکی کا جو کام بھی ہم اللہ کا حکم سمجھ کر بجا لاتے ہیں وہ بذریعہ جسم ہی سر انجام پاتا ہے مگر اُس کا براہ راست خوشگوار اثر روح پر پڑتا ہے۔اس کے برعکس ہر وہ کا م جس سے اللہ اور اُس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا ہے اُسے گناہ کہتے ہیں۔ ایسا کوئی بھی کام کرنے سے روح پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ پھر اگر توبہ کر لی جائے تو روح اُس اثر سے آزاد ہو جاتی ہے ورنہ اُسی حالت میں رہتی ہے۔ اسی طرح اچھے بُرے کاموںکے اثرات روح پر پڑتے رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ موت آجاتی ہے اور موت کے وقت روح جس حالت میںیہاں سے جاتی ہے اُسی کے مطابق قبر اور حشر میں اُس کے ساتھ اچھا یا بُرا سلوک ہونا ہوتاہے۔

روح کا نمائندہ ضمیر کی صورت میں ہمارے اندر موجود ہوتا ہے۔ جب ہم برائی کرنے لگتے ہیں تو ضمیر احتجاج کرتا ہے۔ اگر ہم اکثر و بیشتر اُس کی بات مان کر رُک جائیں تو ضمیر کی آواز توانا ہوتی چلی جاتی ہے اور اُس کے لئے آئندہ ہمیں گناہوں سے روکنا آسان ہو جاتا ہے۔ لیکن جب کوئی شخص اکثر و بیشتر ضمیر کی آواز کو نظر انداز کر تا ہے تو رفتہ رفتہ یہ آواز مدہم ہوتی چلی جاتی ہے اور بالآخر تقریبا ً ختم ہو جاتی ہے۔ اور پھر اُس وقت اُس کی نظروں میں نیکی اور برائی کے درمیان تمیز تقریبا ً ختم ہو جاتی ہے۔ یہ صورت حال کسی بھی شخص کیلئے دنیا اور آخرت دونوں جگہوں پر ذلت ورُسوائی اور تباہی و بربادی کا سبب بن جاتی ہے۔ لہٰذا اگر ہم دنیااور آخرت دونوں کی سعادتیں اور بھلائیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے ضمیر کی آواز پر کان دھرنا ہو گا۔ اپنے آپ کو ہر اُس کام سے بچانا ہوگا جو روح کو نقصان پہنچانے والا ہے اور اُن کاموں کو کثرت سے بجا لانا ہوگا جو روح کی بالیدگی کا باعث بنتے ہیں۔

روح اگر زندہ اور تروتازہ ہو گئی، گناہوں کے میل کچیل سے پاک صاف ہو گئی تو دنیا سے آخرت تک کے سفر کے سارے مراحل آسان ہو تے چلے جائیں گے۔ روح کا اثر اس دنیا میں ہی نہیں بلکہ مرنے کے بعد بھی جسم کو گلنے سڑنے سے محفوظ رکھے گا۔ اور انسان کو مرنے کے بعد بھی مرنے نہیں دے گا۔ یہی ایک بندئہ مومن کی زندگی کا منتہائے کمال ہے کہ وہ زندگی میں اپنی شخصیت کو اس حد تک نکھار اور سنوار چکا ہو کہ جب اُس کا آخری وقت آئے تو اُس کے خالق اور مالک کی طرف سے اُسے یہ آواز سنائی دے:

يٰـاَيّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُo ارْجِعِيْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِيَةً مَّرْضِيّةًo فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰـدِيْo وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْo

’’اے اطمینان والی جان ! لوٹ آ اپنے رب کی طرف، اس حال میں کہ تو اُس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے۔ پس میرے خاص بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا‘‘۔

( الفجر، 89: 27. 30)