اداریہ: ملّتِ اِسلامیہ کے منصبِ اُمتِ وسط کے اِحیاء کا سفر

ملّتِ اِسلامیہ کو اللہ تعالی نے امت وسط کا منصب عطا کیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ انسانیت اس وقت ہی تباہی سے دو چار ہوئی جب اس نے دین، دنیا، سیاست اور زندگی کے دوسرے میدانوں میں اعتدال کی راہ کو ترک کیا۔ اعتدال کی راہ کو ترک کرتے ہی یہ قوم افراط و تفریط کے ایسے فتنوں کا شکار ہوئی کہ انجامِ کار تباہی اور بربادی اسکا مقدر بن گیا۔ اگر ہم پچھلی صدی کے نصف آخر پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں بالعموم اس طرح کے رویے ملت اسلامیہ میں پنپتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مذہبی، سیاسی اور سماجی سطح پر افراط و تفریط نے ملت اسلامیہ کو جہاں معاصر چیلنجوں کا سامنا اور مقابلہ کرنے کی صلاحیت و استعداد سے محروم کیا، درونِ خانہ طرح طرح کی مخاصمتوں، تنازعات اور داخلی انتشار کا شکار بھی کر دیا۔

آج سے 35 سال قبل 17 اکتوبر 1980ء سے شروع ہونے والے تحریک منہاج القرآن دراصل اس مرض کے ازالے کے لئے وقت کی پکار پر لبیک کے مترادف تھی۔ اگر پچھلی صدی کے نصف آخر میں بپا کی جانے والی احیائی، تحریکی اور دینی کاوشوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ افراط و تفریط کے انہی رجحانات کے تحت ہی ان کاوشوں سے مثبت نتائج کے برعکس معاشرے میں تفریق و تقسیم کا عمل مزید آگے بڑھا اور نتیجہ ہے کہ آج ہم دہشت گردی کے ایک ایسے آتش فشاں پر بیٹھے ہیں جس کا آج سے چند دہائیاں قبل تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ تحریک منہاج القرآن نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی مدبرانہ اور بابصیرت قیادت میں جو سفر شروع کیا تھا وہ معاشرے میں اعتدال پر مبنی رویوں کو پیدا کرنے کا باعث بھی بنا اور معاشرے میں شدت پسندانہ رجحانات کے خاتمے اور اصلاح کے لئے بھی ایک راہ عمل قرار پایا۔

تحریک منہاج القرآن نے اپنے قیام کے روزِ اَوّل سے معاشرے کے ہر طبقے اور ہر شعبہ زندگی میں ان رویوں کے فروغ کو اپنی ترجیح بنایا جو معاشرے کو صحت مندانہ، تعمیری اور قومی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے ضروری ہیں۔ تحریک منہاج القرآن ایک دینی، تجدیدی، احیائی اور روحانی تحریک ہے۔ اپنے اس کردار کے سبب سے تحریک نے دینی میدانوں میں افہام و تفہیم، وسعتِ نظری، اتحاد بین المسالک، بین المذاہب ہم آہنگی و رواداری کے فروغ اور انتہا پسندی و دہشت گردی کے سد باب کے لئے قابلِ رشک نظائر قائم کیں۔ تحریک منہاج القرآن کا ہر قدم آگ میں جلنے والے معاشرے کو پھر سے امن و آشتی اور باہمی برداشت و رواداری کے رویے سے آشنا کرنے کی طرف ایک نمایاں اور مؤثر پیش رفت ثابت ہوا۔ اس سلسلہ میں حال ہی میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے انتہاء پسندی و دہشت گردی کے سد باب کے لئے امن نصاب دیا ہے جو نہ صرف امت مسلمہ بلکہ پوری انسانیت کی خدمت ہے۔ یہ نصاب نئی نسل کیلئے علم و آگاہی کا ذریعہ ہے۔ تمام تر خلفشار، مسائل اور سماجی ناہمواریوں کے باوجود شیخ الاسلام نے آئندہ نسلوں کیلئے اپنے تحقیقی کام میں خلل نہیں آنے دیا۔ یہی نہیں بلکہ سیاسی اور سماجی و معاشرتی میادین میں بھی تحریک منہاج القرآن کی کاوشیں اس ہدف کے حصول کے لئے ہیں کہ معاشرے کو عدم برداشت اور شدت پسندی کے رویوں سے نجات دلا کر اعتدال اور روا داری کی روش سے آشنا کیا جائے۔

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی، معاشی اور معاشرتی سطح پر عدل و انصاف موجود نہیں جس بناء پر عدم برداشت کے رویے فروغ پارہے ہیں۔ عدل و انصاف ہر ایک کیلئے یکساں ہو تو لاتعداد سماجی برائیوں سے قوم کی جان چھوٹ سکتی ہے۔ طبقاتی نظام تعلیم، طبقاتی نظام عدل اور نے قوم کو کرپشن اور محرومی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام نے اپنی جدوجہد میں بنیادی حقوق کی بحالی کو بھی اول دن سے شامل رکھا اور پرامن انقلابی جدوجہد کے ذریعے بیداری شعور کی بھرپور مہم چلائی۔ اس سلسلہ میں آپ کی فکر کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اگر آج بھی ظالم فرسودہ سیاسی نظام کو مصطفوی انقلاب سے بدل دیا جائے تو عوام کی محرومی اور مایوسی ختم ہو جائے گی۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی اس لیے ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے دین کی زریں اقدار کو فراموش کر دیا ہے جبکہ انسانی حقوق اور دین اسلام لازم و ملزوم ہیں۔ اس ملک کے مقتدر طبقہ کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اسلامی اقدار کی خوبی ہے کہ یہ افراد کی خواہشات کے مطابق بدلتی نہیں بلکہ اسلامی معاشرے کو ہر لمحہ بھٹکنے سے بچا لیتی ہیں۔ جب تک سیاسی معاشی دہشتگردوں کو کیفرکردار تک نہیں پہنچایا جائیگا ملک سے ناانصافی، انتہا پسندی اور ہر طرح کے استحصال کا خاتمہ نا ممکن ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری آج انسانیت کے سامنے اسلام کو دین رحمت اور تعلیمات امن کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ آپ اسلام کے روشن چہرے پر پڑ جانے والی گرد کو صاف کرنے اور اپنے فکر و عمل اور شبانہ روز جدوجہد کے ذریعے پوری دنیا میں ہر اہم فورم پر اسلام کے دفاع کے لئے فکر ی و نظریاتی اور علمی و عملی محاذوں پر مصروف جدوجہد ہیں۔ شیخ الاسلام اپنی احیائی و تجدیدی، روحانی و اصلاحی، اداراتی و رفاہی، تعلیمی و تحقیقی اور تصنیفی و تبلیغی خدمات کے ذریعے دنیا بھر میں اسلام کے پیغام و محبت و امن کو فروغ دے رہے ہیں۔ آپ نے اپنی سینکڑوں تصانیف، ہزاروں خطبات، تلامذہ اور وابستگان کے ذریعے اسلام کی حقیقی تعلیمات کو جس باوقار انداز سے دنیا میں پھیلایا ہے اس کی دورِ حاضر میں نظیر ملنا محال ہے۔

آج ملت اسلامیہ کو جن چیلنجوں کا سامنا ہے اس کا تقاضہ ہے کہ ہم دلائل و براہین اور پوری قوت سے اسلام کو پُر امن بقائے باہمی کے مؤثر ترین اسلوب حیات کے طور پر پیش کریں کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج اسلام کی سب سے بڑی خدمت دشمنان اسلام کے خلاف عسکری جدوجہد نہیں بلکہ اسلام کے خلاف جاری منفی پراپیگنڈے کا علمی اور عملی سطح پر تدارک ہے۔ شیخ الاسلام نے ایسے گھمبیر اور آزمائش سے پُر ماحول میں امن اور رواداری کے پیغام کو عام کرنے کی سعی فرمائی ہے۔ آپ نے دہشت گردی کے خلاف جو علمی و فکری خدمات سرانجام دی ہیں اس کی بازگشت دنیا بھر میں محسوس کی گئی۔ دنیا کے ہر بڑے فورم پر اسے موضوعِ بحث بنایا جارہا ہے اور اس طرح آج کے راست فکر اور فہم سلیم رکھنے والے افراد کے سامنے اسلام کا وہ چہرہ نمایاں ہوا جو اسلام کا اصل چہرہ ہے یعنی تکریم انسانیت کی ضمانت دینے والا دین اور نظام زندگی۔

حقیقت یہ ہے کہ آج انسانیت کی بقائ، دنیا کا امن اور اس کرہ ارضی کا مستقبل صرف اس امر میں مضمر ہے کہ اقوام عالم راہ اعتدال پر گامزن ہوں اور قدرت نے یہ منصب اُمتِ وسط یعنی ملت اسلامیہ کو سونپا ہے کہ وہ خود بھی افراط و تفریط سے ماوراء ہو اور دنیا کو بھی ان قباحتوں سے پاک کریں۔ شیخ الاسلام کی رہنمائی اور قیادت میں تحریک منہاج القرآن کا سارا سفر خواہ وہ علمی و فکری ہو یا سیاسی و رفاہی عالم اسلام اور بقیہ دنیا کو بالعموم اور پاکستان کو بالخصوص اسی پیغام سے آشنا کرنے کا سفر ہے جس کے علاوہ ہمارے پاس بقا کا کوئی اور راستہ موجود نہیں!