بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے معاشی حقوق

ڈاکٹر علی اکبر الازہری

بچے کی پرورش والدین کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور اس پرورش پر اس کی ساری زندگی کی اچھائی اور برائی کا دارومدار ہے اس لئے اس ذمہ داری کے سلسلے میں والدین کو غفلت اور لاپرواہی سے اجتناب کرنا چاہئے۔ بچے کی ابتدائی عمر کا زیادہ تر حصہ ماں سے وابستہ ہوتا ہے اور پرورش کی زیادہ ذمہ داری ماں پر ہی عائد ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ماں کی تربیت کا اثر بچے کی پوری زندگی پر نمایاں نظر آتا ہے۔ اسی خوبی اور وصف کے پیش نظر حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کی عورتوں کے متعلق ارشاد فرمایا:

خَيْرُ نِسَآءٍ رَکبنَ الْاِبِلَ صَالِحُ نِسَآءِ قُرَيْشٍ اَحْنَهُ عَلٰی وَلَدٍ فِيْ صِغَرِهِ وَاَرعَهُ عَلٰی زَوْجٍ فِی ذَاتِ يَدِهِ.

’’بہترین عورتیں جو اونٹوں پر سوار ہوتی ہیں قریش کی نیک عورتیں ہیں۔ یہ تمام عورتوں سے اپنی اولاد پر زیادہ شفیق ہیں اور اپنے پاس موجود خاوندوں کے مالوں کی بہت حفاظت کرتی ہیں‘‘۔

(مشکوٰة المصابيح، جلد دوم، کتاب النکاح، ص64)

بچے کی پرورش کی ذمہ داری کا صرف یہ مطلب نہیں کہ ماں باپ اس کی جسمانی پرورش و نمو کا سامان میسر کریں بلکہ اس کی جسمانی نشوونما کے ساتھ ساتھ اس کے ذہن، اخلاق و کردار اور اس کی تعلیم و تادیب کا بھی مناسب بندوبست کریں۔ اگر والدین نے بچے کی جسمانی پرورش اور صحت و تندرستی کی دیکھ بھال تو کی لیکن اس کے باطن پر کوئی توجہ نہ دی تو انہوں نے معاشرہ میں صلاح کی بجائے فساد کا دائمی و ابدی بیج بودیا کیونکہ ایسا بچہ جوان ہونے پر اپنے خاندان اور معاشرے کے لئے دینی و اخلاقی لحاظ سے مفید ہونے کی بجائے مضر ثابت ہوگا۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کی اسی اہمیت کے پیش نظر قرآن مجید نے عام مسلمانوں کو یہ حکم دیا:

يٰايَهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَهْلِيْکُمْ نَارًا.

’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ ‘‘۔

(التحريم:6)

قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ میں تعلیم و تربیت کی ذمہ داری کو نہایت جامع انداز میں بیان کردیا گیا ہے۔ آگ سے بچانے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے بچوں کو ایسی تعلیم و تربیت دینی چاہئے جو ان کی دنیاوی و اخروی کامیابی کی ضامن ہو۔ اگر ایسا نہیں تو پھر ہر شخص سے روز قیامت اس ذمہ داری کے متعلق باز پرس کی جائے گی کیونکہ حدیث نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق گھر کے سربراہ سے لے کر ریاست کے سربراہ تک کو اپنے دائرہ اختیار کے اندر مسئولیت اور نگہبانی کا ملتزم ٹھہرایا گیا ہے۔ اولاد کی تعلیم و تربیت کے ضمن میں اسلام کا یہ حکم ہے کہ ان کو پاکیزہ تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کرنا والدین کے تمام عطیات سے بہتر عطیہ ہے۔

اولاد کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے باپ کی ذمہ داری پر توجہ دلواتے ہوئے آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَانَحَلَ وَالِدٌ وَلَدَهُ مِنْ نحْلٍ اَفْضَلَ مِنْ اَدَبٍ حَسَنٍ.

’’کسی باپ نے اپنے بیٹے کو اچھی تعلیم و تربیت سے بہتر عطیہ نہیں دیا‘‘۔

(ايضاً باب الشفقة والرحمة علی الخلق، ص449)

آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

مَنْ وُلِدَ لَهُ وَلَدٌ فَلْيُحْسِنِ اسْمَهُ وَاَدبَهُ.

’’جس کا کوئی لڑکا پیدا ہوا تو اس کا اچھا نام رکھنا چاہئے اور اچھی طرح ادب سکھانا چاہئے‘‘۔

(ايضاً، باب الولی فی النکاح واستيذان المراة، ص73)

قرآن و حدیث کے ان احکام سے واضح ہوجاتا ہے کہ اولاد کی پرورش اور تعلیم و تربیت والدین کا اولین فریضہ ہے اگر والدین نے اس فریضہ کی ادائیگی میں غفلت برتی تو ان سے ضرور مواخذہ ہوگا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اولاد طبعاً والدین کی محتاج ہوتی ہے اور اسی احتیاج کی بنا پر والدین ان سے محبت و شفقت کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اولاد سے محبت و شفقت کا یہ جذبہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت ایسی کی جائے جو قانون فطرت کے عین مطابق ہو۔

اولاد کے معاشی حقوق

ایک فرد کو اپنی انفرادی معیشت سے اپنی اولاد پر کس قدر خرچ کرنا ضروری ہے یا پھر خود اولاد اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے مشقت کا بوجھ اٹھائے؟ ان سوالوں کا مختصر اور جامع جواب اسلام نے حسن سلوک کی ایک عام اور جامع اصطلاح میں نہایت خوبصورتی سے سمودیا ہے۔ حسن سلوک کی اس جامع اصطلاح کا اطلاق معاشرے کے ہر اس فرد پر ہوسکتا ہے جو کسی نہ کسی لحاظ سے دوسرے افراد کی توجہ اور مدد کا مستحق نظر آئے۔ اولاد کے متعلق والدین کا حسن سلوک ایک ایسا رویہ جس سے اولاد کی شخصیت کی تذلیل و تحقیر نہ ہو۔ اولاد کے ساتھ نرمی اور محبت و شفقت کا سلوک اسے ذمہ دار بنادیتا ہے۔ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بے شمار ارشادات سے پتہ چلتا ہے کہ اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور ان پر مہربان ہونا کامل ایمان کی نشانی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور سرور کونین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ مِنْ اَکْمَلِ الْمُوْمِنِيْنَ يْمَانًا اَحْسَنُهُمْ خُلْقًا وَالطَفُهُمْ بِاَهْلِهِ.

’’مومنوں میں سے کامل ایمان والا وہ شخص ہے جو اخلاق میں اچھا اور اپنے اہل و عیال پر مہربان ہے‘‘

(جامع ترمذی، ج2، ابواب الايمان، ص219)

اہل و عیال کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور ان پر مہربان ہونے کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ان سے بات چیت میں نرمی اور ملاطفت کو ملحوظ رکھا جائے بلکہ ان پر استطاعت کے مطابق خرچ کرنا بھی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهِ ط وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقْ مِمَّآ اٰتٰهُ اﷲُط لَا يُکَلِّفُ اﷲُ نَفْسًا اِلَّا مَآ اٰتٰهَاط سَيَجْعَلُ اﷲُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا.

’’صاحبِ وسعت کو اپنی وسعت (کے لحاظ) سے خرچ کرنا چاہیے، اور جس شخص پر اُس کا رِزق تنگ کردیا گیا ہو تو وہ اُسی (روزی) میں سے (بطورِ نفقہ) خرچ کرے جو اُسے اللہ نے عطا فرمائی ہے۔ اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جتنا کہ اُس نے اسے عطا فرما رکھا ہے، اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشائش پیدا فرما دے گا‘‘۔

(الطلاق:7)

قرآن مجید کے علاوہ بے شمار احادیث نبویہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی اہل و عیال پر خرچ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ حضرت جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اِذَا اَعْطَی اللّٰهُ اَحَدَکُمْ خَيْرًا فَلْيَبْدَاُ بِنَفْسِهِ وَهْلِ بَيْتِهِ.

’’جب تم میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ مال دے تو پہلے اپنے اوپر اور اپنے گھر والوں پر خرچ کرے‘‘۔

(مشکوٰة المصابيح، جلد دوم، باب النفقات وحق المملوک، ص605)

آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک موقع پر نہایت خوبصورت انداز میں اولاد اور گھر والوں پر خرچ کرنے کے حوالے سے ارشاد فرمایا:

اذا انفق المسلم نفقه علی اهله وهو يحتسبها کانت صدقة.

’’جب مسلمان اپنی بیوی بچوں پر کار ثواب سمجھ کر خرچ کرتا ہے تو وہ اس کے لئے صدقہ ہوجاتا ہے‘‘۔

(صحيح بخاری شريف، ج3، کتاب لانفقات، ص165)

حتی کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انفاق فی سبیل اللہ کے مقابلہ میں اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے کو اجرو ثواب کے لحاظ سے زیادہ افضل قرار دیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

دينار انفقته فی سبيل الله ودينار انفقته فی رقبه ودينار تصدقت به علی مسکين ودينار انفقته علی اهلک اعظمها اجرا الذي انفقته علی اهلک.

’’ایک دینار وہ ہے جس کو تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ ایک دینار وہ ہے جس کو تو گردن آزاد کرانے میں خرچ کرتا ہے۔ ایک دینار وہ ہے جس کو تو مسکین پر صدقہ کرتا ہے اور ایک دینار وہ ہے جس کوتو اپنے گھر والوں پر خرچ کرتا ہے۔ اجرو ثواب کے لحاظ سے اپنے گھر والوں پر خرچ کیا گیا دینار بڑا ہے‘‘۔

(صحيح مسلم مع شرح نووی، ج3، کتاب الزکوٰة، ص32)

قرآن و حدیث کے ان نصوص سے یہ بات خوب ذہن نشین ہوجاتی ہے کہ ایک فرد کو جب اللہ تعالیٰ رزق و دولت عطا فرمائے تو سب سے پہلے اسے اپنے اور اپنے گھر والوں کی ضروریات پر خرچ کرے اور ایسا کرنے پر وہ اجرو ثواب کا بھی مستحق ٹھہرے گا۔

اسلام میں والدین کا اولین فریضہ اولاد کی پرورش اور تربیت ہے۔ ان کو دینی و شرعی علوم سے اس طرح مزین کرنا کہ وہ سچے اور صالح مسلمان، اعلیٰ اخلاق و کردار کے حامل اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار اور ملک و ملت کے وفادار و معمار بن سکیں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے والدین کو اپنی تمام جسمانی قوتوں اور ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا نہایت ضروری ہے۔ یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہوسکتا ہے جب بچوں کو حصول معیشت کی کاوشوں اور محنت و اجرت کے بندھنوں سے الگ رکھا جائے۔ والدین کو اپنی کسب معاش کی عظیم ذمہ داری سے بخوبی آگاہی ہو۔ اولاد کی صحیح جسمانی پرورش اور درست تعلیم و تربیت کے کامیاب مرحلے کے بعد ان کو اپنے ذوق و شوق اور اپنی پسند کے مطابق معقول پیشے کو اختیار کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ والد کی ذمہ داری میں اس کا ہاتھ بٹاسکیں اور ضعیف العمری کے دنوں میں اپنے والدین کا سہارا بن سکیں۔

معاشرے کی ذمہ داریاں

ہر معاشرے کے اندر انسانوں کے درمیان معاشی تفاوت کا پایا جانا ایک فطری امر ہے اس تفاوت کو خود خالق کائنات نے اپنی چند مصلحتوں اور حکمتوں کی بناء پر قائم رکھا ہے لیکن حق معیشت و اسباب معیشت سے فائدہ اٹھانے میں سب افراد کو برابرکا حق حاصل ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

وَهُوَ الَّذِيْ جَعَلَکُمْ خَلٰئِفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَبْلُوَکُمْ فِيْ مَآ اٰتٰـکُمْ.

’’اور وہی ہے جس نے تم کو زمین میں نائب بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض پر درجات میں بلند کیا تاکہ وہ ان (چیزوں) میں تمہیں آزمائے جو اس نے تمہیں (امانتاً) عطا کر رکھی ہیں۔ بے شک آپ کا رب (عذاب کے حقداروں کو) جلد سزا دینے والا ہے ‘‘۔

(الانعام: 165)

قرآن مجید کی ان آیات میں معیشت میں تفاوت درجات اور اس کی مصلحتوں کو بیان کیا گیا ہے۔ تفاوت درجات کی ایک واضح مصلحت تو یہ نظر آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک صاحب دولت کی آزمائش کرکے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس انفرادی دولت پر جو اجتماعی حقوق عائد ہوتے ہیں انہیں وہ ادا کرتا ہے یا نہیں کیونکہ اسلام انفرادی ضروریات کے ساتھ ساتھ اجتماعی حاجات کی تکمیل پر بھی زور دیتا ہے۔

اسلام انسانوں کے درمیان امیری اور غریبی کے اس فرق کو تسلیم کرتا ہے لیکن پہاڑ اور رائی میں جو فرق و امتیاز ہے، اسلام اس امتیاز کو قبول نہیں کرتا۔ یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ تمام انسان جسمانی و ذہنی لحاظ سے برابر نہیں، نتیجتاً سعی معیشت کا اختلاف بھی ناگزیر ہے۔ نیز معیشت میں تفاوت درجات اس لئے قائم کی گئی ہے تاکہ انسان کو اس کے عمل و تصرف میں آزمایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں کچھ ایسے لوگ ضرور پائے جاتے ہیں جو مختلف وجوہات کے سبب حق معیشت سے محروم ہوتے ہیں۔ معاشرے میں سایہ پدری سے محروم ہوجانے والے چھوٹے یتیم بچوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ ایسے افراد کی بھی کوئی کمی نہیں ہوتی جو اپنے جسمانی و ذہنی اعضاء کی ناکامی و ناکارگی کی بنا پر کسب معاش سے قاصر ہوتے ہیں اور ان کے کم سن بچوں کو معاشی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ ایسی بیوہ عورتیں بھی زیادہ تعداد میں ملتی ہیں جن کا سہارا کم عمر بچوں کے سوا کوئی نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ کچھ ایسے اسباب و حالات بھی ہوتے ہیں جن کی بناء پر معاشرے میں بچوں کے ذریعے معاش کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس طرح معاشرے میں ایسے بچوں کی تعداد خاصی کافی ہوجاتی ہے جو چائیلڈ لیبر کا شکار ہوکر نہ تو صحیح پرورش پاسکتے ہیں اور نہ ہی تعلیم و تربیت حاصل کرسکتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملک و قوم ان کی صلاحیتوں سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھاسکتا۔ ان کی صلاحیتوں اور قابلیتوں سے استفادہ اس صورت میں ممکن ہے جب معاشرہ اپنی ذمہ داریاں سچے اسلامی جذبے سے ادا کرے۔

چائیلڈ لیبر کا خاتمہ

اسلام جس معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے اس میں ہر فرد دوسرے فرد کا سہارا ہے اس معاشرے کا ہر فرد ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں رہ سکتا۔ اس معاشرے میں ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا حق قرار دیا گیا ہے اور تمام مسلمانوں کو قریب ترین رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی میں ترجیح کا درس دیا گیا ہے۔ اسی طرح قریب ترین رشتہ داروں کو نوازنے کا دائرہ پھیل کر پورے معاشرے کو سیراب کرتا جائے گا۔ یوں اسلام میں قرابت داری اور صلہ رحمی کا انتظام چائیلڈ لیبر کو ختم کرنے میں مدد ومعاون ہوسکتا ہے۔

اسلامی معاشرے سے چائیلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے قریب ترین رشتہ داروں کو نوازنے اور ان کی مالی معاونت کرنے کے بے شمار احکامات قرآن مجید اور حدیث نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موجود ہیں۔ قرآن حکیم میں ایک مقام پر حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب فرماکر یوں ارشاد ہوا:

يَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَط قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ وَالْيَتٰمٰی وَالْمَسٰکِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ط وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اﷲَ بِهِ عَلِيْمٌ.

’’آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اﷲ کی راہ میں) کیا خرچ کریں؟ فرما دیں جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے)، مگر اس کے حقدار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں، اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو بے شک اﷲ اسے خوب جاننے والا ہے‘‘۔

حدیث نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی قرابت داری اور صلہ رحمی کا حکم دیا گیا ہے جس سے قرابت داروں کی کفالت کرکے چائیلڈ لیبر سے نجات مل سکتی ہے۔ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہایت حکیمانہ انداز میں صلہ رحمی کا حکم فرماکر بے سہارا اور مفلوک الحال بچوں کو لیبر کی مشقت سے بچانے کی قابل عمل صورت نکالی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

من احب ان يبسط له فی رزقه وينساله فی اثره فليصل رحمه.

’’جو شخص چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں کشادگی کی جائے اور اس کی اجل میں تاخیر کی جائے اسے چاہئے کہ صلہ رحمی کرے‘‘۔

(صحيح بخاری شريف، ج3، کتاب الاداب، ص357)

اسلام میں صلہ رحمی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ صدقات میں قرابت داروں کو اوروں کی نسبت فوقیت دینے پر دوہرا ثواب عطا کرتا ہے تاکہ لوگ اپنے نادار رشتہ داروں کی مالی معاونت کرنے میں شریک ہوکر ان کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے قابل بنادیں۔ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

الصَّدَقَةُ عَلَی الْمِسْکِيْنَ صَدَقَةٌ وَهِيَ عَلٰی ذِی الرَّحْمِ ثِنتَانِ صَدَقَةٌ وَصِلَةٌ.

’’مسکین کو صدقہ دینا تو صرف صدقہ ہے اور رشتہ دار کو دینے میں دو باتیں ہیں صدقہ اور صلہ رحمی‘‘۔

(جامع ترمذی، ج1، باب ماجاء فی الصدقة علی ذی القرابة، ص339)

اسلام نے شفقت پدری سے محروم بچوں کے لئے پورے معاشرے کو ان کی نگہداشت اور پرورش و تربیت کا ذمہ دار ٹھہراکر چائیلڈ لیبر کو ختم کرنے کی قابل فخر مثال قائم کی ہے۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ بن سعد روایت کرتے ہیں کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

انا وکافل اليتيم فی الجنة هکذا وقال باصبعية السبابة والوسطی.

’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سبابہ اور درمیانی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے نزدیکی بتائی‘‘۔

(صحيح بخاری، ج3، کتاب الاداب، ص362)

قرآن مجید میں قرابت داروں اور یتامی کے بعد مساکین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن حکیم کی اس تربیت سے پتہ چلتا ہے کہ قرابت داروں اور یتامی کے حقوق کے بعد مسکین کے حق کی ادائیگی اولین اہمیت کی حامل ہے۔ اسلام نے معاشرے کے اس کمزور اور ضعیف طبقے کی مالی اعانت کرکے چائیلڈ لیبر کی بیخ کنی کو یقینی بنایا ہے۔ اسلام تمام مسلمانوں کو رشتہ اخوت میں منسلک کرکے اتحاد و یکجہتی کو پروان چڑھا کر ایک ایسا معاشرہ قائم کرتا ہے جس کا ہر ایک فرد دوسرے فرد کی مالی مدد کرکے اس کا سہارا بن سکتا ہو۔

مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پر یہ ذمہ داری عائد کردی گئی ہے کہ دوسرے مسلمانوں کی ضروریات و حاجات کو پورا کریں۔ معاشرے کا کوئی مسلمان بھائی برے حالات کا شکار ہوکر اس حالت تک پہنچ جائے کہ وہ اپنے بچوں کی صحیح پرورش اور تربیت سے بھی قاصر ہو اور اس کی کم عمر اولاد کو معاشی جدوجہد کرنا ضروری ہوجائے تو اس کی اتنی مالی اعانت کی جائے جس سے اس کے بچوں کا مستقبل سنور جائے اور دوسری ضروریات زندگی بھی پوری ہوجائیں کیونکہ یہی شیوہ مومن ہے جس کی وضاحت اس حدیث نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہے کہ

وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ لَا يُوْمِنُ عَبْدً حَتَّی يُحِبُّ لِاَخِيْهِ مَيُحِبُّ لِنَفْسِهِ.

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس وقت تک کوئی آدمی مسلمان کامل ایماندار نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے لئے وہ چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے کرتا ہے‘‘۔

(مشکوٰة المصابيح، جلد دوم، باب الشفقة والرحمة علی الخلق، ص447)

یہ حدیث مبارکہ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ معاشرے کا ایک صاحب ثروت کبھی بھی اپنی اولاد کو چائیلڈ لیبر کے عمل میں شریک کرنا گوارہ نہیں کرتا تو پھر عامۃالمسلمین کے کم سن بچوں کی مشقت (لیبر) پر اسے رنجیدہ ہونا لازمی امر ہے۔ اسے صرف رنجیدگی پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ مالی کفالت کرکے چائیلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے کوشاں رہنا چاہئے کیونکہ بچے قوم کا سرمایہ اور مستقبل کے محافظ و امین ہوتے ہیں۔ اسی لئے حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ يَرْحَمْ صَغِيْرَنَا وَلَمْ يُوَقِّرْ کَبِيْرَنَا.

’’وہ ہم میں سے نہیں جس نے ہمارے چھوٹے پر رحم نہیں کیا اور بڑوں کی تعظیم نہ کی‘‘

(الادب المفرد، ص123)

اس پوری تفصیل سے واضح ہوجاتا ہے کہ معاشرے کو چائیلڈ لیبر سے محفوظ رکھنے کے لئے ہمیں بحیثیت مجموعی مومنانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ معاشرے کی ابتدائی سطح سے قرابت داری اور صلہ رحمی کا انتظام کرکے مالی کفالت کا دائرہ عامۃ المسلمین تک پھیلانا ہوگا۔ ملکی و قومی سطح پر آبادی کے بیشتر حصے کو مفلسی و ناداری سے بچاکر بچوں پر مشقت جیسی بیماری کا خاتمہ کرکے روشن مستقبل کی نوید سنانا ممکن نظر آئے گا۔

بچوں پر مشقت اور حکومت کی ذمہ داری

اسلامی معاشرے سے بچوں پر مشقت کے خاتمے کے لئے اسلامی تعلیمات کے مطابق والدین کا اپنے فرائض اور ذمہ داریوںسے عہدہ برآ ہونے اور معاشرے میں قرابت داری اور صلہ رحمی کے کفالتی نظام کو فروغ دینے سے ہی چائیلڈ لیبر کو ختم کرنا ممکن ہوسکے گا۔ ہمارے ہاں بچوں پر مشقت کے خاتمے کے سلسلے میں وعظ و تلقین، ہمدردانہ اپیلوں اور ترغیب و ترہیب سے کام لیا جاتا ہے۔ جبکہ اسلام معاشرے سے بچوں پر مشقت کے خاتمے کے لئے وعظ و نصیحت اور ترغیب و تلقین پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ حکومت اور قانون کا دبائو بھی استعمال کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ مستقل اور پائیدار نظام تشکیل پائے۔

معاشرے کے اہل حاجت افراد کی حاجت برآری اور ان کی معاشی ضروریات کو پورا کرنا اسلامی حکومت کے فرائض میں سرفہرست ہے۔ اس مقصد کے لئے حکومت معاشرے کے اندر پائی جانے والی ناہمواری اور عدم توازن کو دور کرنے کے اقدامات کرنے کی پابند ہے تاکہ محروم افراد کی ضروریات کی تکمیل کرکے معاشرے کو چائیلڈ لیبر سے پاک صاف کیا جاسکے۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصحاب امر کے لئے یہ بنیادی اصول واضح فرمادیا کہ وہ محروم افراد کی ضروریات سے غافل نہیں رہ سکتے۔

حضرت عمرو رضی اللہ عنہ بن مرہ سے روایت ہے انہوں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ

مَنْ وَلَهُ اللّٰهُ شَيْئًا مِنْ اَمْرِ الْمُسْلِمِيْنَ فَاحتَجَبَ دُوْنَ حَاجَتِهِمْ وَخَلَّتِهِمْ وَفَقْرِهِمْ احْتَجَبَ اللّٰهُ دُوْنَ حَاجَتِهِ وَخَلَّتِهِ وَفَقْرِهِ فَجَعَلَ مُعَاوِيَةُ رَجُلًا عَلٰی حَوَائِجِ النَّاسِ.

’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے کسی امر کا والی بنادیا پھر وہ ان کی ضروریات و حاجت اور محتاجی کے وقت پردہ میں رہا اللہ تعالیٰ اس کی ضروریات، حاجت اور محتاجی کے وقت پردے میں رہے گا (یہ سُن کر) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی ضروریات کیلئے ایک آدمی مقرر کردیا‘‘۔

(مشکوٰة المصابيح، جلد دوم، باب ماعلی الولاة من التيسير ص196)

ایک اور مقام پر حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ وُلِّيَ مِنْ اَمْرِالنَّاسِ شَيْئًا ثُمَّ اغَلَقَ بَاَبَهُ دُوْنَ الْمُسْلِمِيْنَ اَوِالمَظْلُوْمِ اَوْ ذِی الْحَاجَةِ اَغْلَقَ اللّٰهُ دُوْنَهُ اَبْوَابَ رَحْمَتِهِ عِنْدَ حَاجَتِهِ وَفَقْرِهِ اَفْقَرَ مَيَکُوْنُ عَلَيْهِ.

’’جو شخص لوگوں کے امور میں سے کسی امر کا والی بنے پھر مسلمانوں پر اپنا دروازہ بند کرلے یا کسی مظلوم یا صاحب حاجت کے لئے دروازہ بند کرلے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے دروازے اس کی ضروریات اور حاجت کے لئے بند کرلے گا جبکہ وہ اس کا بہت محتاج ہوگا‘‘۔

(ايضاً، کتاب الامارة واقضاء، ص189)

حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر صاحب امر حاجت مند افراد کی حاجات پوری کرنے کا بندوبست نہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ کی سخت ناراضگی کا مستحق ٹھہرے گا۔ عوام کی ضروریات زندگی کی تکمیل کا انتظام فی الحقیقت اس خیر خواہی کے اندر شامل ہے جو صاحب امر پر ضروری قرار دی گئی ہے۔ جو حاکم عوام کے ساتھ پوری خیر خواہی نہ برتے اس کا اخروی انجام بہت برا ہوگا ایسے حکمرانوں کے لئے حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد یوں ہے:

مَامِنْ عَبْدٍ يَسْتَرْ عِيْهِ اللّٰهُ رَعِيَةً فَلَمْ يَحُطْهَا بِنَصِيْحَةٍ اِلَّالَمْ يَجِدْرَائِحَةَ الْجَنَّةِ.

’’کوئی بندہ ایسا نہیں جس کو اللہ تعالیٰ رعیت پر نگہبان کردے پھر وہ خیر خواہی کے ساتھ ان کی نگہبانی نہ کرے مگر جنت کی بو نہ پائے گا‘‘۔

(ايضاً، کتاب الامارة والقضاء، ص188)

حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد مبارکہ سے صاف ظاہر ہے کہ عوام اور رعیت کے ساتھ خیر خواہی کا اولین تقاضا یہ ہے کہ جن ضروریات کی عدم تکمیل سے ان کی جانیں ضائع ہوجانے کا خدشہ ہو ان کو پورا کرنے کا بندوبست کیا جائے۔ شریعت نے اسلامی حکومت کو اپنے عوام کا نگہبان قرار دیا ہے۔ نگہبانی کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ محروم افراد کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کا بندوبست کیا جائے۔ اسلامی حکومت کے سربراہ کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی حدود و مملکت سے فقرو مسکنت کی جڑیں کاٹ کر عوام کی فارغ البالی کا اہتمام کرے۔

آج سے چودہ سو سال قبل جبکہ غیر مسلم اقوام میں ان اصلاحی قوانین کا شعور بھی نہ تھا اسلام نے ہر گوشہ زندگی کے لئے ایسے اصلاحی پہلو اجاگر کردیئے کہ دنیا آج بھی اس طرح کی اصلاحات نہیں کرسکتی۔ اسی ضمن میں بچوں سے مشقت کرانے کا معاملہ بھی آتا ہے۔ کسب معاش کی اس عملی دوڑ دھوپ میں کم عمر بچوں کو شریک کئے بغیر گھر کے دوسرے بالغ افراد بالخصوص صاحب خانہ اپنی اس بنیادی ذمہ داری سے آگاہ ہوں۔ کیونکہ اسلامی نکتہ نگاہ سے یہ بات قطعاً جائز اور روا نہیں کہ چھوٹے بچوں کو کسی جسمانی یا ذہنی اذیت و مصیبت میں مبتلا کردیا جائے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

للمملوک طعامه وکسوته بالمعروف ولا يکلف من العمل الا يطيق.

’’مملوک کے لئے کھانا اور پہننا بہتر طور پر مہیا کیا جائے اور اس سے اتنا ہی کام لیا جائے جو اس کی طاقت کے مطابق ہو‘‘۔

(موطا امام مالک، کتاب الاستيذان، ص812)

ان عمر بن الخطاب کان يذهب الی العوالی کل يوم سبت فاذا وجد عبدا فی عمل لا يطيقه وضع عنه منه.

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب ہر ہفتے کے دن اردگرد کے دیہات میں جاتے اور کسی غلام کو اگر اس کی طاقت سے زیادہ کام کرتا دیکھتے تو کم کردیا کرتے‘‘۔

(موطا امام مالک، کتاب الاستيذان، ص812)

ان دونوں نصوص سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کسی کی جسمانی طاقت سے زیادہ کام لینا شرعاً ممنوع ہے اس لئے بچوں سے مشقت کرانا کسی صورت جائز نہیں ہوسکتا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

ولا تکلفوا الصغير الکسب.

’’اور چھوٹے بچوں کو کسب معاش کی تکلیف نہ دو‘‘۔

(موطا امام مالک، کتاب الاستيذان، ص812)

اسلام کے ان واضح احکامات کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کرنا بہت سہل اور آسان ہے کہ کم عمر بچوں سے کسب معاش کی تکلیف کو دور کیا جائے اور والدین، معاشرہ اور حکومت کا اپنی اپنی سطح پر بچوں پر مشقت (چائیلڈ لیبر) کے مکمل خاتمے کے لئے عملی کردار ادا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔