الفقہ: آپ کے فقہی مسائل

مفتی عبدالقیوم خاں ہزاروی

سوال :کیا دینی امور (اذان، نماز، جنازہ، نکاح وغیرہ) پر اجرت لینا یا دینا جائز ہے؟ نیز کیا نعت خوانوں کو روپے پیسے دینا جائز ہے؟ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں وضاحت درکار ہے۔

جواب: یاد رکھیں کہ دینی امور سرانجام دینے والے افراد جو معاوضہ وصول کرتے ہیں، یہ معاوضہ وہ دینی کاموں کے عوض وصول نہیں کرتے بلکہ اپنی پابندئ وقت کا لیتے ہیں۔ اگر وہ یہی وقت کسی دوسری فیلڈ میں روزی کمانے کے لئے لگائیں تو روزی کما سکتے ہیں۔ اگر دینی کاموں میں مصروف افراد بھی دیگر افراد کی طرح دنیوی کاروبار میں مصروف ہوجائیں تو مذہبی امور کی انجام دہی مسئلہ بن جائے گی۔ نہ وقت پر اذان، نہ نماز، نہ مسجد کی صفائی، نہ کھولنے اوربند کرنے اور دیگر اشیاء کی حفاظت ہو سکے گی۔ اب جو شخص ان تمام امور کو پابندی سے ادا کرے گا وہ اکثر معاش کمانے کے لئے معقول بندوبست نہیں کر سکتا حالانکہ اس پر اپنا، اپنے والدین، بیوی بچے اور دیگر زیر کفالت افراد کا نان و نفقہ اور ضروریات زندگی مہیا کرنا بھی فرض ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوئے، فرمانے لگے، میری قوم کو معلوم ہے کہ میرا کاروبار، میرے اہل وعیال کا خرچہ بخوبی پورا کرتا ہے اور اب میں مسلمانوں کے معاملات میں مصروف ہو گیا ہوں، اب ابوبکر کے اہل و عیال اس مال (بیت المال) سے کھائیں گے اور وہ مسلمانوں کے امور نمٹائیں گے۔

(صحيح، بخاری، ص :278، ج :1)

پس آج بھی دینی فرائض انجام دینے والے مسلمانوں کے دینی امور نمٹا رہے ہیں اور اس وقت کا حق الخدمت لے رہے ہیں۔ علامہ شامی فرماتے ہیں۔

ان المتقدمين منعوا اخذا الاجرا علی الطاعات، وافتی المتاخرون بجواز علی التعلام والامامة. کان مذهب المتاخرين هو المفتی به.

’’متقدمین علماء نے عبادات پر اجرت لینے کو منع کیا، اور متاخرین علماء نے تعلیم وامامت پر اجرت جائز ہونے کا فتوی دیا ہے اور فتوی متاخرین کے مذہب پر دیا جاتا ہے‘‘۔

(رد المختار، شامی، ص :417، ج: 4)

نعت خوانوں کی مالی خدمت کرنے کے حوالے سے مسئلہ یہ ہے کہ صحابہ کرام بھی آپ صلیٰ اللہ علیہ آلہ وسلم کی نعت بیان کرتے تھے اور بے شمار صحابہ کرام نعت خواں تھے جن میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ نعت خوانوں کو انعام واکرام سے نوازنا خود حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی سنت مبارکہ ہے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ آلہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو نعت پڑھنے کے دوران اپنی چادر مبارک بطور تحفہ دی تھی۔ لہذا شرعاً نعت خوانوں کو روپے پیسے کی صورت میں انعامات دینا جائز ہے۔ اسی طرح قراء اور خطباء حضرات کو بھی انعام واکرام سے نوازنا شرعاً جائز ہے، اس لئے کہ یہ روپے اور پیسے ان کو اس وقت کے معاوضے کے طور پر دیئے جاتے ہیں جو وقت وہ صرف کرتے ہیں۔ اگر وہ اتنا وقت دوسرے معاملات میں لگاتے تو وہاں سے بھی پیسہ کما سکتے تھے۔

لہذا ان کی ضرورت کے مطابق پیسہ دینا جائز ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان حضرات میں سے بعض نے اس نیک کام کو بھی پیشہ بنا لیا ہے اور اس کے ذریعے لوگوں کو لوٹ رہے ہیں۔ دوسری طرف عوام بھی برابر کی شریک ہے۔ بعض حضرات جو روپے پیسے کا مطالبہ نہیں کرتے عوام ان کے ساتھ ناروا سلوک کرتی ہے، یہاں تک کہ ان کی بنیادی ضرورتوں کو بھی پورا نہیں کیا جاتا۔ اس معاملے کا بہترین حل یہی ہے کہ دونوں طرف سے افراط و تفریط ختم کی جائے۔ ان حضرات کے جائز مطالبات اور ضروریات کو بھی پورا کیا جائے اور ان کو چاہیے کہ یہ عوام الناس سے ناجائز مطالبات بھی نہ کریں۔

سوال: فیس بک اور اس جیسی دیگر ویب سائٹس (جہاں غیر اخلاقی مواد پایا جاتا ہے) کے ذریعے مرد اور عورتیں باہمی غیر ضروری بات چیت میں ملوث دکھائی دیتے ہیں۔ محرم و غیر محرم کی تصاویر کی اشاعت معمول ہے۔ہر طرح کا میوزک اور ویڈیوزعام ہیں۔ ہر خاص و عام دین کا ماہر بن کر دینی امور پر رائے زنی کرتا ہے۔ کیا ان صورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک مسلمان کا فیس بک استعمال کرنا جائز ہے؟

جواب: موجودہ دور انتہائی سریع ترقی کا ہے۔ آج جو اَمر انسان کے خیال میں بھی نہیں ہوتا، کل وہ حقیقت کا روپ دھار چکا ہوتا ہے۔ آج جو ایجاد حیطہ ادراک میں بھی نہیں ہوتی، کل وہ مارکیٹ میں عام صارف کی پہنچ میں ہوتی ہے۔ اس سے جہاں بہت سی سہولیات مہیا ہوتی ہیں، وہیں ان ایجادات کے منفی استعمالات کے بہت بھیانک نتائج بھی سامنے آتے ہیں۔

فیس بک اور اس جیسے دیگر سوشل میڈیا بھی اسی طرح کی اختراعات میں سے ہیں جہاں ہر طرح کے لوگ آزادانہ تبادلہ خیالات کرتے ہیں۔ فیس بک ویب سائٹ دراصل امریکہ کی ہارورڈ یونی ورسٹی کے طلبہ نے اپنے لیے بنائی تھی کہ وہ ایک دوسرے کی سرگرمیوں اور دلچسپیوں سے باخبر بھی رہیں اور رابطہ میں بھی رہیں، لیکن آج اس ویب سائٹ نے اپنی نوعیت کی دیگر تمام ویب سائٹس کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور نمبر ایک پوزیشن حاصل کر چکی ہے۔

جب لاؤڈ اسپیکر ایجاد ہوا تھا تو اس وقت کے علماء نے اس کے حرام ہونے کا فتوی دیا اور آج وہی علماء اس کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ اپنا مثبت اور بامقصد پیغام دوسروں تک پہنچانے کے لیے فیس بک ایسے ذرائع کا استعمال مستحسن ہے، لیکن ایک بندہ مسلمان کے لیے اس استعمال کو شرعی حدود و قیود کا پابند ہونا چاہیے۔ نیکی اور بدی کے فروغ کے اجر و سزا کے حوالے سے یہ حدیث مبارکہ ملحوظ رہے کہ حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا:

’’جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا، پھر اس پر عمل کیا گیا تو اس کے لیے اپنا ثواب بھی ہے اور اسے عمل کرنے والوں کے برابر ثواب بھی ملے گا؛ جب کہ ان کے ثواب میں کوئی کمی (بھی) نہ ہوگی۔ اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا، پھر وہ طریقہ اپنایا گیا تو اس کے لیے اپنا گناہ بھی ہے اور ان لوگوں کے گناہ میں بھی شریک جو اس پر عمل پیرا ہوئے اور ان کے گناہوں میں بھی کچھ کمی نہ ہوگی‘‘۔

(جامع ترمذی، 5 / 43، رقم : 2675)

ہمیں ان ذرائع کا مثبت استعمال کرنا چاہیے کہ جس سے اپنا اور دوسروں کا بھلا ہو، نہ کہ اپنی عاقبت بھی برباد ہو اور دوسروں کی آخرت بھی تباہ ہو۔ کسی بھی شے کا استعمال اسے اچھا یا برا بناتا ہے، فی نفسہ وہ اچھی یا بری نہیں ہوتی۔ اگر اچھے لوگ سوشل میڈیا کا استعمال ترک کردیں گے تو برے لوگ تو بھرپور طریقے سے استعمال کر رہے ہیں، وہ تو اسے نہیں چھوڑیں گے۔ لہٰذا کوشش یہ کریں کہ اپنی مثبت اور درست شرکت کے ذریعے لوگوں کو شعور دیں اور انہیں نیک راستے پر چلانے کی کوشش کریں۔ یہ خیال ترک کر دیں کہ ان ویب سائٹس پر تو لوگ اتنے غیر شرعی امور میں ملوث ہوتے ہیں، یا ان ویب سائٹس پر تو غیر اخلاقی مواد پایا جاتا ہے، اس لیے ان ویب سائٹس کو مسلم ممالک میں بند کرا دیا جائے۔ نہیں! اس سے تو اسلام کے ایک دقیانوسی مذہب ہونے کا تاثر ملے گا کہ اسلام دورِ حاضر کی ایجادات کے ساتھ چلنے کے قابل نہیں ہے۔

جہاں تک سوشل ویب سائٹس پر غیر اخلاقی مواد کی موجودگی کا تعلق ہے تو آپ ایسے مواد کو نہ دیکھیں اور کوشش کریں کہ اس طرح کے مواد پر آپ کی نظر ہی نہ پڑے۔ دراصل یہی تو بندہ مومن کا امتحان ہے کہ وہ خود کو گناہ میں ملوث ہونے سے ہر صورت بچاتا ہے۔ ان حالات میں ایک مسلمان کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ خود بھی گناہ سے محفوظ رہے اور دوسروں کو بھی دور رکھنے کی کوشش کرے۔ صوفیاء کرام اسی لیے تو فرماتے ہیں کہ دنیا میں رہو لیکن دنیا کو دل میں جگہ نہ دو۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مورخہ 8 اپریل 2012ء کو تحریک منہاج القرآن کے تحت منعقد ہونے والے عالم گیر ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جب قومیں حق سچ کا ساتھ چھوڑ دیتی ہیں تو ان پر عذاب الٰہی نازل ہوتا ہے۔ آج پاکستانی قوم پر اسی لیے مختلف آفتیں نازل ہوتی رہتی ہیں کہ ہم نے ہر طرح کے ظلم و زیادتی کو قبول کر لیا ہوا ہے۔ سنن ابی داود میں مروی ہے کہ حضرت قیس بن ابی حازم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو منبر پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: اے لوگو سنو! میں نے خود اپنے کانوں سے آق صلیٰ اللہ علیہ آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

اِنَّ النَّاسَ اِذَا رَاَوْا الظَّالِمَ فَلَمْ يَاخُذُوا عَلَی يَدَيْهِ، اَوْشَکَ اَنْ يَعُمَّهُمُ اللّٰهُ بِعِقَابٍ.

شیخ الاسلام اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ جس معاشرے میں ظلم، گناہ، نا انصافی، جبر و بربریت اور خیانت و کرپشن عام ہونے لگے لیکن لوگ ظالموں کو ظلم سے روکنے کے لئے، بد دیانت اور کرپٹ لوگوں کو کرپشن سے روکنے کے لئے نہ اٹھیں، ان کا شعور بیدار نہ ہو اور وہ حالات بدلنے کے لئے اپنا فریضہ سر انجام نہ دیں تو اللہ تعالی پھر ایسی قوم کو اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے لے گا اور اس میں نیک و بد کا فرق نہیں رہے گا۔

آپ خود سوچیے کہ کیا اس حدیث مبارکہ کا اطلاق ہمارے حالات اور معاشرے پر نہیں ہو رہا؟

اس کا ایک ہی علاج ہے کہ تحریک منہاج القرآن کے ساتھ وابستہ ہوکر قوم کا شعور بیدار کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور ہر فرد آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے اس پیغام کو آگے پہنچائے اور یوں اس گروہ میں شامل ہوجائیں جس کے بارے میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ قیامت تک میری امت میں ایک طبقہ ایسا رہے گا جو حق کو غالب کرنے کی جد و جہد کرتا رہے گا اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے پیغام کو عام کرنے اور اس حکم کی انجام دہی کے لئے حق کے شعور کو بیدار کرنے کی کوشش کرتا رہے گا۔

باقی رہا یہ سوال کہ سوشل میڈیا سائٹس پر ہر خاص و عام دین پر کھل کر بات کرتا ہے، چاہے اسے علم ہو یا نہ ہو۔ اس کا حل یہ ہے کہ لوگوں کو یہ احساس دلائیں کہ ہمیں دین کے بارے میں صاحبانِ علمِ دین سے ہی دریافت کرنا چاہیے، جیسا کہ قرآن حکیم نے خود فرمایا ہے:

فَسْئَلُوْا اَهْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ.

’’سو تم اہل ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہو‘‘۔

(النحل، 16 : 43)

یہاں ضمنا یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ فیس بک تو یہودیوں نے بنائی ہے، لہٰذا ہمیں استعمال نہیں کرنی چاہیے۔ آپ کس کس شے کا استعمال ترک کریں گے؟ آج تو ہر شے ہی یہود و نصاری کی ایجاد کردہ ہے۔ آپ کا کمپیوٹر جس پر آپ کام کرتے ہیں، آپ کا موبائل فون جس سے کال کرتے یا پیغام بھیجتے ہیں، آپ کا انٹرنیٹ کنیکشن جس کے ذریعے ای میل بھیجتے ہیں۔ لہٰذا کس کس شے کو ترک کریں گے۔ یہود و نصاری کی ایجادات کو ترک کرنا مسئلہ کا حل نہیں بلکہ یہ حقیقت سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان ایجادات کو مثبت و بامقصد طریق سے بھرپور استعمال کرتے ہوئے اپنی صلاحیت میں اضافہ کریں اور قابلیت پیدا کریں۔ کنارہ کشی کرکے الگ تھلگ ہوکر رہنے کی بجائے میدان عمل میں اتریں۔ احیائے اسلام، تجدید دین اور اصلاح احوال کے عظیم مشن کے حصول کے لئے تحریک منہاج القرآن کا ساتھ دیں اور اپنا دینی فریضہ ادا کریں۔