فروغِ اعتدال و توازن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ڈاکٹر رحیق احمد عباسی

اسلام دین فطرت ہے کیونکہ یہ اعتدال و توازن کا دین ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں امت مسلمہ کا تعارف بطور معتدل امت ان الفاظ میں کروایا:

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا.

’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا۔ ‘‘

(البقرة: 143)

قرآن مجید نے دیگر متعدد مقامات پر بھی مختلف امور میں اعتدال اپنانے کی تعلیمات دی مثلاً خرچ کرنے کے معاملے میں اعتدال کی راہ اپنانے کا حکم ان الفاظ میں دیا:

وَلاَ تَجْعَلْ يَدَکَ مَغْلُوْلَةً اِلٰی عُنُقِکَ وَلَا تَبْسُطْهَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا.

’’اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھا ہوا رکھو (کہ کسی کو کچھ نہ دو) اور نہ ہی اسے سارا کا سارا کھول دو (کہ سب کچھ ہی دے ڈالو) کہ پھر تمہیں خود ملامت زدہ (اور) تھکا ہارا بن کر بیٹھنا پڑے۔ ‘‘

(بنی اسرائيل: 29)

اسی طرح ادائیگی نماز اور دیگر عبادات کے دوران بھی درمیانی آواز اپنانے کا حکم دیتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِکَ سَبِيْـلًا.

’’اور نہ اپنی نماز (میں قرات) بلند آواز سے کریں اور نہ بالکل آہستہ پڑھیں اور دونوں کے درمیان (معتدل) راستہ اختیار فرمائیں‘‘۔

(بنی اسرائيل: 110)

اسلام نے زندگی کے ہر گوشے میں اعتدال و توازن کی تعلیم دی ہے اور ایک ابدی ضابطہ عطا فرمایا کہ

خَيْرُالْاُمُوْرِ اَوْسَاطُهَا.

(المسند، ابو يعلیٰ، 10: 501، الرقم:6115)

دین اسلام نے جہاں زندگی کے ہر گوشے میں اعتدال کی راہ اپنانے کی تعلیم دی ہے وہاں مذہبی امور میں بھی اسی راہ کی تجویز و تاکید کی گئی ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

سَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَاعْلَمُوا اَنْ لَنْ یُدْخِلَ اَحَدَکُمْ عَمَلُهُ الْجَنَّةَ.

’’سیدھی راہ پر چلو اور (اپنے اعمال میں) میانہ روی اختیار کرو اور یہ ذہن نشین کرلو کہ تم میں سے کسی کا عمل اسے جنت میں داخل نہیں کرسکتا۔ ‘‘

(صحيح بخاری، کتاب الرقاق، باب القصد والمداومة علی العمل، 5/2373، الرقم:6099)

اسی طرح حضرت جابر بن سمرہ سے مروی ہے کہ

کُنْتُ اُصَلِّيْ مَعَ النَّبِی صلیٰ الله عليه وآله وسلم الصَّلَوات فَکَانَتْ صَلَاتُهُ قصدًا وَ خُطْبَتُهُ قصدًا.

’’میں حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں نمازیں ادا کرتا رہا۔ آپ کی نماز بھی معتدل اور خطبہ بھی معتدل ہوا کرتا‘‘۔

(صحيح مسلم، باب تخفيف الصلاة والخطبه، 2: 591، الرقم: 866)

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص فرماتے ہیں کہ کسی نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا کہ میں ہر دن روزہ رکھتا اور ہر رات قیام کرتا ہوں۔ اس پر حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم ایسا کرتے ہو؟ میرے اقرار پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم ایسا کرتے رہو گے تو تمہاری آنکھوں میں گڑھے پڑ جائیں گے اور تمہارا جسم بے جان ہوجائے گا۔ (یعنی حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا کرنے سے روک دیا)۔ پھر حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہر ماہ تین دن روزے رکھ لیا کرو (کیونکہ نیک عمل کا صلہ دس گنا ملتا ہے) لہذا ایک ماہ میں تین دن روزہ رکھنے کا اجر پورا سال روزہ رکھنے کے برابر ہے۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں اس سے زیادہ روزے رکھ سکتا ہوں۔ جس پر حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

فصم صوم داؤد عليه السلام کان يصوم يوما ويفطر يوما.

’’داؤد علیہ السلام والے روزے رکھ لیا کرو جو ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن نہیں رکھتے تھے‘‘۔

(صحيح بخاری، 2: 698، رقم:1878)

دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو نے مزید روزے رکھنے کی اجازت طلب کی تو حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کہہ کر منع فرمادیا کہ اس سے بہتر اور کچھ نہیں ہے۔

الغرض اسلام نے مذہبی امور اور عبادات سمیت زندگی کے ہر پہلو میں راہ اعتدال اپنانے کا حکم دیا ہے۔

اعتدال و توازن پر مبنی ایک مضبوط آواز

بدقسمتی سے آج امتِ مسلمہ اجتماعی طور پر راہ اعتدال کو ترک کرچکی ہے اور زندگی کے ہر معاملہ و گوشے میں افراط و تفریط کا شکار ہوچکی ہے۔ اس تناظر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے دور حاضر میں کارہائے تجدید میں سے ایک اہم پہلو بے اعتدالی و افراط و تفریط کا شکار امت مسلمہ کو ایک مرتبہ پھر توازن اور اعتدال کی طرف لانا ہے۔

زیرِ نظر تحریر میں ہم چند مثالوں کے ذریعے معاشرے کے اجتماعی رویوں اور آج سے دو دہائیاں قبل کا ماحول سامنے رکھیں گے اور پھر اس معاملے پر شیخ الاسلام کے موقف و نقطہ نظر اور اعتدال و توازن کے قیام میں ان کے اقدامات کے اثرات کا جائزہ لیں گے۔

تنگ نظر مذہبی رجحانات کا تدارک

اگر دین اور مذہب کے حوالے سے ہم اپنے رویوں کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آئے گی کہ ہم اس حوالے سے افراط کا شکار ہوچکے ہیں۔ ایک طرف مذہبی انتہائیت (Religious Extremism) یا انتہائی مذہبیت (Extreme Religiousity)نظر آئے گی اور دوسری طرف انتہائی بے دینی یا مادیت نظر آئے گی۔ مذہبی اداروں کا محدود تعلیمی نظام، جدید علوم سے عدم آگہی اور قدامت پسندانہ سوچ نے مذہب سے متعلق طبقات میں مذہبی انتہائیت پیدا کردی ہے۔ ایسے لوگوں کو جو کچھ اہل مدرسہ کے ہاں نظر آئے وہی اسلام اور جو کچھ ان کے ہاں نہ ملے غیر اسلامی قرار پاتا ہے۔

اس فکر نے ترقی، سائنس، ٹیکنالوجی اور دیگر جدید علوم کو غیر اسلامی قرار دے کر اسلامی علوم کو صرف 5سو سالہ قدیم درس نظامی تک محدود کردیا ہے۔ لہذا یہ مذہبی ذہن بقول اقبال ’’آئین نو سے ڈرنا اور طرزِ کہن پہ اڑنا‘‘۔ کی روش لے کر ہر نئی چیز کو غیر اسلامی قرار دیتا ہے۔

  • بہت پرانی بات نہیں، چند سال قبل تک ہم نے ایسی مساجد دیکھیں جہاں لاؤڈ سپیکر پر نماز باجماعت کو ناجائز سمجھا جاتا تھا۔ فوٹو کھینچوانے کو حرام قرار دیا جاتا تھا۔ 90ء کی دہائی میں جب منہاج القرآن یوتھ لیگ کے نوجوان شیخ الاسلام کے خطابات کی ویڈیو دکھانے کا اہتمام کرتے تو ویڈیو بنانے اور دیکھنے کو حرام قرار دینے والوں کی کمی نہ تھی۔
  • شلوار قمیض اور تہہ بند کے علاوہ لباس پہن کر کوئی مسجد میں آجائے تو اہل مسجد اس کو گھور گھور کر دیکھا کرتے۔ اگرچہ اہل مذہب کے ہاں چیدہ چیدہ ان جیسے امور کے نظائر آج بھی ملتے ہیں۔ ان حالات میں شیخ الاسلام کے طرز عمل اور طریقہ کار نے بتدریج اہل مذہب کو اعتدال کی طرف مائل کیا ہے۔ ویڈیو کو حرام قرار دینے والے تو اتنے آگے نکل گئے کہ TV چینل تک قائم کررہے ہیں۔
  • شیخ الاسلام نے پہلے دن سے ہی اپنی دعوت و تحریک کی بنیاد اعتدال پر رکھی۔ اسلامی اور غیر اسلامی علوم کی قدامت پرستانہ تقسیم کی سوچ کو چیلنج کیا اور حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ’’الحکمۃ ضالۃ المومن‘‘ ’’علم مومن کی گم گشتہ میراث ہے‘‘ کا اطلاق صرف علوم مذہبیہ پر کرنے کے بجائے جملہ علوم و فنون پر کیا۔ آپ نے جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن میں ابتدا سے ہی مروجہ نصاب درس نظامی کے علاوہ جدید علوم کو بھی شامل کیا۔ کمپیوٹرز کا استعمال شاید پاکستان میں صرف مذہبی ہی نہیں بلکہ سماجی و فلاحی تنظیمات میں سے بھی سب سے پہلے منہاج القرآن میں شروع ہوا۔ پاکستان کی سب سے پہلی ویب سائٹ بھی منہاج القرآن کی ہی متعارف ہوئی اور علی ھذا القیاس سائنس اور ٹیکنالوجی کو امور دینیہ کے لئے استعمال کرنے میں پہل شیخ الاسلام نے ہی کی اور رفتہ رفتہ دیگر مذہبی طبقات نے بھی اس کو اپنانا شروع کردیا۔
  • ہم بچپن میں جب کسی مذہبی اجتماع میں جاتے تو واعظ صاحب اردو میں تقریر سے قبل تقریباً آدھا گھنٹہ عربی خطبہ پڑھتے، جس کی سامعین میں سے کسی کو بھی سمجھ نہ آتی۔ شیخ الاسلام نے ابتداء ہی سے خطاب کے آغاز میں عربی خطبہ کو دو تین جملوں تک محدود رکھا اور آج کل تقریباً تمام خطباء و واعظین اسی طریق کو اپنارہے ہیں۔

اصلاح معاشرہ کیلئے خواتین کے کردار کی حوصلہ افزائی

خواتین کے معاملے میں بھی ہمارا معاشرہ انتہاؤں کا شکار نظر آتا ہے۔ ایک طرف الٹرا ماڈرن خواتین جن کے لباس و اطوار اسلام ہی نہیں بلکہ مشرقی اقدار سے بھی آزاد ہوچکے ہیں تو دوسری طرف اہل مذہب چادر و چار دیواری کی خود ساختہ اور رسوم و رواج پر مبنی تعبیر کے ذریعے خواتین کے ساتھ قیدیوں کی طرح سلوک کرتے ہیں۔ 1980ء میں جب منہاج القرآن کی بنیاد رکھی گئی تو پاکستان میں کسی مذہبی اجتماع و جلسہ میں خواتین کی شرکت کا کوئی تصور تک نہیں کرسکتا تھا۔ تنظیمی اور تحریکی امور میں خواتین کا عملی کردار بے دینی کی علامت سمجھا جاتا تھا اور صرف سیکولر طبقات میں پایا جاتا تھا۔

جب شیخ الاسلام نے اوائل میں خواتین کے اجتماعات سے خطاب کیا تو بہت سے فتوؤں کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ نے خواتین کو اصل اسلامی تعلیمات کے مطابق گھر سے نکل کر دینی و ملی امور میں شرکت کا اتنا ہی ذمہ دار ٹھہرایا جتنی ذمہ داری مردوں کی ہے۔ پاکستان میں کسی مذہبی یا دینی جماعت کا سب سے پہلے ویمن ونگ بھی منہاج القرآن کا ہی قائم ہوا۔ پروگراموں، دروس، ملی و سیاسی اجتماعات میں خواتین کو شرکت کا مکمل موقع دینے کے سلسلہ کا آغاز منہاج القرآن نے کیا اور اب تقریباً ہر مذہبی جماعت کے ویمن ونگ قائم ہوچکے ہیں۔

غیر مسلموں سے تعلقات میں راہِ اعتدال

غیر مسلموں سے تعلقات کے حوالے سے بھی ہم افراط و تفریط کے شکار تھے۔ کچھ ماڈرن طبقات پاکستان اور بیرون ملک غیر مسلموں کے ساتھ اختلاط میں تمام حدود کو پھلانگتے نظر آتے ہیں تودوسری طرف یہ طرز عمل بھی دیکھا گیا کہ اگر کوئی غیر مسلم کسی برتن کو ہاتھ لگالے تو اس میں کھانا پینا ہی ناجائز قرار دیتے ہیں۔ غیر مسلم سے میل جول پر قرآنی لفظ ’’ولایت‘‘ کا اطلاق کرکے اس کو حرام قرار دینے والوں کی آج بھی کوئی کمی نہیں۔

ایسے میں اپنے مذہب اور عقیدے پر سمجھوتہ کئے بغیر غیر مسلموں سے میل جول، ان کی مذہبی رسومات میں شرکت اور ان کو اپنے ہاں بلانے کا سلسلہ سب سے پہلے منہاج القرآن نے شروع کیا۔ پاکستان میں اہل اسلام کے ہاں سب سے پہلی کرسمس کی تقریب منہاج القرآن کے ہاں ہی ہوئی۔ ابتدا میں تو اس پر بھی کفر و الحاد کے فتوے لگائے گئے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ہر کوئی اس طرز عمل کو اپناتا گیا اور اب یہ تقریبا تمام مسالک کے علماء کا معمول بن چکا ہے۔

اسی طرح دیار غیر میں آباد مسلمانوں کے لئے بھی غیر اسلامی معاشرے میں کھوجانے (Assimilation) اور مکمل طور پر الگ تھلگ رہنے (Isolation)کی انتہاؤں میں Integeration کے درمیانی راستہ کا پرچار بھی سب سے پہلے شیخ الاسلام نے ہی کیا جو کہ اب غیر مسلم معاشروں میں مقیم مسلمانوں کا اجتماعی طرز عمل بن چکا ہے۔

فرقہ واریت کی بیخ کنی

فرقہ واریت کے ماحول نے مسالک میں تقسیم کا ایسا ماحول پیدا کردیا تھا کہ اہل سنت کے ہاں اہل بیت سلام اللہ علیہم اجمعین کا ذکر مفقود ہوچکا تھا اور اہل تشیع کے ہاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذکر کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ ہم نے اصحاب رسول اور اہل بیت اطہار کو اہل سنت اور اہل تشیع میں تقسیم کردیا تھا۔ اہل سنت پر خارجیت کا اثر بڑھتا جارہا تھا جبکہ اہل تشیع پر رافضیت غالب آتی جارہی تھی۔ ایسے میں شیخ الاسلام نے نہ صرف اہل سنت کے ہاں ذکرِ اہلِ بیت اور ذکرِ علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا آغاز کیا بلکہ اہل سنت کے ذخائرِ احادیث کو کھنگال کر ان میں سے درة البيضاء في مناقب فاطمة الزهراء سلام الله عليها، سيف الجلي علیٰ منکر ولايت علی، مرج البحرين في مناقب الحسنين جیسی کتابیں مرتب کرکے ایک طرف اہل سنت کا یہ پیغام دیا کہ اہل بیت اطہار سے محبت اور تعلق تقاضائے اسلام ہے نہ کہ شیعیت اور دوسری طرف اہل تشیع کو بھی یہ پیغام دیا کہ اصل اہل سنت کے ہاں اہل بیت اطہار کی محبت ہی معیار ایمان ہے۔ اس طرح شیخ الاسلام نے تفریق کے ماحول میں برداشت اور بقائے باہمی کی سوچ کو رائج کیا۔

  • شیخ الاسلام اہل سنت سے تعلق رکھنے والے شاید پہلے نامور عالم دین تھے جنہوں نے اہل تشیع کی امام بارگاہوں میں خطاب کیا۔ اس کا اثر یہاں تک ہوا کہ گذشتہ سال تبلیغی جماعت کے نامور مبلغ محترم مولانا طارق جمیل کی ایک امام بارگاہ میں شان اہل بیت بیان کرنے کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر ریلیز کی گئی۔
  • اہل سنت کا لبادہ اوڑھے اگر کسی نے خارجیت کے اثر کے تحت شان حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم پر کوئی علمی حملہ کیا تو اس کے دفاع میں شیخ الاسلام نے ہی ’’دفاع شانِ علی کرم اللہ وجہہ الکریم‘‘ کے عنوان سے 9 گھنٹے کا طویل خطاب کیا۔
  • بعض تبرائیوں نے شانِ صحابہ میں TV پر آکر گستاخانہ زبان استعمال کی تو ’’دفاع شان شیخین‘‘ پر 35 گھنٹے سے زائد 23 موضوعات پر خطابات بھی آپ ہی نے ارشاد فرمائے۔
  • جس طرح اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان صحابہ اور اہل بیت کی تقسیم کردی گئی تھی، اسی طرح اہل سنت اور اہل حدیث و اہل دیوبند کے درمیان اللہ اور رسول کی تقسیم بھی واضح دیکھی جاتی تھی۔ ایک طرف وہابیت کی تحریک کے ذریعے اسلام کو توحید کے نام پر نسبتِ رسالتِ محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عشق و غلامی رسالتِ مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آزاد کرانے کی تحریک کا اثر اہل حدیث اور دیوبند مکتبہ فکر کے ہاں صاف نظر آنے لگا تھا تو دوسری طرف محبت الہٰی، ذکر الہٰی، حقیقت توحید کے مضامین اہل سنت کے ہاں مفقود ہوتے جارہے تھے۔ ربط رسالت کے ذریعے تعلق باللہ کی فکر کو متعارف کرواتے ہوئے شیخ الاسلام نے ان دوریوں کو ختم کرنے پر بہت توانائی صرف کی۔ آپ نے نہ صرف نسبتِ رسالت اور غلامی رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پرچار کیا بلکہ ساتھ ساتھ تعلق باللہ، معرفت توحید باری تعالیٰ، تعلیمات تصوف کے احیائ، محافل ذکر، اجتماعی اعتکاف، شب بیداریوں اور روحانی اجتماعات کے ذریعے تقویٰ، اخلاص و للہیت کے حصول پر بھی برابر توانائی صرف کی۔

آپ کی اس جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ اہل سنت کے ہاں تعلق باللہ کا رجحان پھر سے زندہ ہونے لگا۔ دوسرے طبقات جو عشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عجمی تصور گردانتے تھے انہوں نے بھی عشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعرے لگانے شروع کردیئے۔ اس سال جماعت اسلامی کے محترم امیر یہ کہتے نظر آئے کہ مسلمان کو میلاد النبی بارہ ربیع الاول کے ساتھ ساتھ ہر دن منانا چاہئے۔ اسی طرح تبلیغی جماعت کے مبلغ محترم مولانا طارق جمیل نے میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر اپنے خصوصی پیغام کی ویڈیو جاری کی جس میں انہوں نے میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر روایتی تذکرہ میلاد (مولود) بھی اپنے انداز میں پڑھا۔

تصوف اور تعلیمات صوفیاء

تصوف و روحانیت کے ساتھ بھی معاملہ کچھ اسی طرح سے ہوگیا تھا کہ ایک طرف بقول اقبال ’’زاغوں کے تصرف میں عقابوں کا نشیمن‘‘ آنے کی وجہ سے اصل تصوف گدی نشینی، رسوم و رواج، میلوں اور بدعات میں گم ہوتا جارہا تھا تو دوسری طرف تصوف کا صریح انکار کرتے ہوئے اس کو عجمی پودا اور ایک نشہ سے عبارت کیا جانے لگا تھا۔ شیخ الاسلام نے دروس تصوف کے ذریعے تصوف کی اہمیت اور حقیقت کو واضح کیا اور بتایا کہ تصوف اسلام کا حسن ہے اور ایمان کا کمال اسی سے عبارت ہے۔

دوسری طرف شیخ الاسلام نے ’’تصوف اور تعلیمات صوفیاء‘‘ جیسے خطابات کی سیریز کے ذریعے تصوف کے نام پر کاروبار، رسوم و رواج کی بدعات اور غیر اسلامی تصورات کا رد کرکے صوفیاء کرام کی احسان، اخلاص، تقویٰ، طہارت، للہیت کی تعلیمات کا بیان کرتے ہوئے واضح کیا کہ اصل تصوف کیا ہے؟ آپ نے سالانہ اعتکاف اور گوشہ درود کے ذریعے حقیقی خانقاہی نظام کے احیاء میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

اجتہاد و تقلید کی واضحیت

اجتہاد و تقلید کے معاملے میں بھی امت انتہاؤں کو چھورہی تھی۔ ایک طرف تقلید کا ایک ایسا جامد تصور تھا جس میں ائمہ فقہ کو نعوذ باللہ مقام رسالت پر فائز کرتے ہوئے قرآن و حدیث سے استدلال کو ایک مقلد کے لئے ناجائز تصور کیا جانے لگا تو دوسری طرف اس جامد تصورِ تقلید کے ردعمل میں عدمِ تقلید کا طرز عمل تھا۔ ان حالات میں شیخ الاسلام نے اپنی تصنیف ’’فلسفہ اجتہاد‘‘ اور سلسلہ خطابات ’’فقہ، اجتہاد اور تقلید‘‘ کے ذریعے اجتہاد اور تقلید کے حقیقی تصورات کو واضح کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح کسی امام کے مقلد رہتے ہوئے بھی اہل علم اجتہاد کرسکتے ہیں اور اجتہاد کا تسلسل کس طرح اسلام کی بقاء کے لئے اہم ہے؟

تصورِ اعلائے اسلام اور غلبہ دین حق

اعلائے اسلام اور غلبہ دین حق ایک بنیادی اسلامی تصور ہے۔ اسلام کا معاشرے میں بطورِ نظام نفاذ اہم ترین دینی تقاضا ہے لیکن اس معاملے میں بھی امت حد درجہ انتہاؤں میں تقسیم تھی۔ ایک طرف نفاذ اسلام کا وہ مذہبی نظریہ جو جدید دہشت گردی تک پہنچ گیا تو دوسری طرف اس فریضہ سے بے گانہ تصورِ مذہب جو صرف رسمی عبادات اور وعظ و تبلیغ سے عبارت ہے، جس کے خالقین یا بانیوں سے مخاطب ہوکر اقبال نے کہا تھا کہ

ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
نادان یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد اقامت دین کے لئے قائم کی گئی جملہ تحریکیں کسی نہ کسی صورت میں جلد یا بدیر انتہا پسندی و دہشت گردی میں ملوث ہوگئیں یا دہشت گردوں کی ممدومعاون بن گئیں یا کم از کم دلی حمایتی تو ضرور بن گئیں۔ ان حالات میں صرف منہاج القرآن ہی ہے جو دہشت گردی اور انتہا پسندی کی ہر شکل سے نہ صرف محفوظ رہی بلکہ اس کی ہر شکل کے خلاف فکری، نظریاتی اور عملی جدوجہد میں بھی مصروف عمل ہونے کے ساتھ ساتھ ترویج و اقامت دین کی جدوجہد بھی کرتی رہی۔ یہ تمام صرف شیخ الاسلام کی ہمہ گیر فکر، ہمہ جہت شخصیت اور معتدل روی پر مبنی لائحہ عمل کی وجہ سے ممکن ہوا۔

  • اقامت دین کی جدوجہد کا ایک باب تصور سیاست بھی ہے۔ اس میں بھی امت کو میانہ روی کی تعلیم اور عمل کہیں سے نہ ملا۔ ایک طرف سیکولر افکار و نظریات ہیں جن میں تصور سیاست و ریاست میں مذہب و دین کا عمل دخل کا کلیتاً انکار اور دوسری طرف مذہبی جماعتوں کا طرزِ سیاست، جس میں امامت و امارات صرف علماء کا حق ہی سمجھا جانے لگا۔ ایسے میں پاپائیت اور ملائیت سے مکمل آزاد حقیقی اسلامی تصور سیاست کو صرف اور صرف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نہ صرف پیش کیا بلکہ اس تصورِ سیاست کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایسی عظیم جدوجہد بھی کی جس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں کوئی سیاسی یا مذہبی جماعت پیش کرنے سے قاصر ہے۔ (تصور سیاست پر راقم کا مضمون ’’دین اسلام میں تصورِ سیاست و ریاست‘‘ مجلہ منہاج القرآن مارچ2015ء میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے)

دہشت گردی کے خلاف مضبوط فکری اقدام

دہشت گردی کا ناسور خارجی افکار کی عملی شکل ہے۔ ان دہشت گردوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے، وہ تکبیر اور توحید کا نعرہ لگاتے ہیں، ان دہشت گردوں سے سیاست کے عالمی کھلاڑیوں اور مقامی سٹریٹیجک ماہرین نے متعدد محاذوں پر بہت کام بھی لیا۔ لہذا دہشت گردوں کے اس خارجی ٹولے کے بارے میں عامۃ الناس میں ہی نہیں بلکہ موثر اداروں اور رائے عامہ بنانے والے دانشوروں میں بھی ہمدردی پائی جاتی تھی۔ ایک مذہبی طبقہ تو اول دن سے ان کا حامی اور مددگار بھی رہا۔

ایسے حالات میں جس دینی شخصیت نے کبھی میانہ روی کا دامن نہیں چھوڑا اور دہشت گردی کی ہر شکل کی پہلے دن سے مخالف رہی وہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہی ہیں۔ آپ نے ہمیشہ اسلام کے اعتدال، میانہ روی اور امن و محبت پر مبنی پیغام کو ہی عام کیا۔ کل تک جو دہشت گردوں کو شہید کہتے تھے اور ان کی نماز جنازہ پڑھتے تھے آج وہ بھی دہشت گردوں کے خلاف جنگ کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔

درج بالا چند نظائر دراصل شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی فروغِ اعتدال اور ترویجِ توازن میں کی گئی کاوشوں کے بیان میں ایک کتاب کے پیش لفظ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ نے اسلام کو درپیش افراط و تفریط کی ہر شکل کے مقابلے میں اعتدال و توازن پر مبنی افکار و نظریات کو نہ صرف اپنی مضبوط علمی و تحقیقی طاقت سے بھرپور انداز میں پیش کیا بلکہ اپنی تحریک کی عملی جدوجہد کے ذریعے دنیا بھر میں اعتدال و توازن پر مبنی حقیقی اسلامی عمل و کردار کی ترویج بھی کی۔ افکارو نظریات اور عمل و کردار دونوں پر مشتمل جدوجہد بھی آپ کی شخصیت اور تعلیمات کے معتدل ہونے کا ایک واضح ثبوت ہے۔ آپ کے ان کارہائے تجدید اور عظیم کاوشوں پر آنے والی نسلیں بھی آپ کی صدیوں احسان مند رہیں گی۔