الفقہ: آپ کے فقہی مسائل

مفتی عبدالقیوم خاں ہزاروی

سوال: اللہ تعالیٰ رمضان المبارک میں امتِ محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کن تحائف سے نوازتا ہے؟

جواب: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ تحفے ملے ہیں جو اس سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے:

اَمَّا وَاحِدَةٌ فَاِنَّهُ اِذَا کَانَ اَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ نَظَرَ اللّٰهُ تَعالی عزوجل اِلَيْهِمْ وَمَنْ نَظَرَ اللّٰهُ اِلَيْهِ لَمْ يُعَذِّبْهُ اَبَدًا.

’’پہلا یہ کہ جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف نظر التفات فرماتا ہے اور جس پر اللہ کی نظر پڑجائے اسے کبھی عذاب نہیں دے گا۔ ‘‘

وَاَمَّا الثَّانِيَةُ فَاِنَّ خُلُوْفَ اَفْوَاهِهِمْ حِيْنَ يُمْسُوْنَ اَطيَْبُ عِنْدَ اللّٰهِ مِنْ رِيْحِ الْمِسْکِ.

’’دوسرا یہ کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ اچھی لگتی ہے۔‘‘

وَاَمَّا الثَّالِثَةُ فَاِنَّ الْمَلاَئِکَةَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ فِی کُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ.

’’تیسرا یہ کہ فرشتے ہر دن اور رات ان کے لئے بخشش کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ ‘‘

وَاَمَّا الرَّابِعَةُ فَاِنَّ اللّٰهَ عزوجل يَاْمُرُ جَنَّةُ فَيَقُوْلُ لَهَا : اسْتَعِدِّی وَتَزَيَنِی لِعِبَادِی اَوْشَکُوْااَنْ يَسْتَرِيْحُوْا مِنْ تَعَبِ الدُّنْيَا اِلَی دَارِی وَکَرَامَتِی.

’’چوتھا یہ کہ اللہ عزوجل اپنی جنت کو حکم دیتے ہوئے کہتا ہے : میرے بندوں کے لئے تیاری کر لے اور مزین ہو جا، قریب ہے کہ وہ دنیا کی تھکاوٹ سے میرے گھر اور میرے دارِ رحمت میں پہنچ کر آرام حاصل کریں۔‘‘

وَاَمَّا الْخَامِسَةُ فَاِنَّهُ اِذَا کَانَ آخِرُ لَيْلَةٍ غُفِرَ لَهُمْ جَمِيْعًا.

’’پانچواں یہ کہ جب (رمضان کی) آخری رات ہوتی ہے ان سب کو بخش دیا جاتا ہے۔ ‘‘

فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : اَهِيَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ فَقَالَ : لَا، اَلَمْ تَرَ اِلَی الْعُمَّالِ يَعْمَلُوْنَ فَاِذَا فَرَغُوْا مِنْ اَعْمَالِهِمْ وُفُّوْا اَجُوْرَهُمْ.

’’ایک صحابی نے عرض کیا : کیا یہ شبِ قدر کو ہوتا ہے؟ آپصلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ جب مزدور کام سے فارغ ہو جاتے ہیں تب انہیں مزدوری دی جاتی ہے‘‘۔

  1. ( بيهقی، شعب الايمان، 3 :303، رقم :3603)
  2. (منذری، الترغيب والترهيب، 2 :56، رقم : 1477)

سوال: رمضان المبارک امت مسلمہ کے لیے کیا پیغام لے کر آتا ہے؟

جواب: رمضان المبارک امت مسلمہ کے لئے یہ پیغام لاتا ہے کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں، ایک دوسرے کے لئے رحمت و شفقت کا پیکر بن جائیں۔ دوسروں کی ضرورتوں کا بھی اس طرح احساس کریں جس طرح اپنی ضرورتوں کو محسوس کرتے ہیں۔ افسوس کہ کئی صاحب ثروت ایسے ہیں جو روزہ ٹھنڈے دفاتر، ایئرکنڈیشنڈ گھروں اور گاڑیوں میں گزار کر شام کو انواع و اقسام کے کھانوں، رنگا رنگ پھلوں اور نوع بنوع مشروبات سے چنے ہوئے دسترخوان پر بیٹھتے وقت باہر گلیوں اور سڑکوں میں بیٹھے ہوئے غریب و مفلس روزہ دار مسلمان بھائیوں کی ضرورتوں کا احساس بھی نہیں کرتے۔ عین ممکن ہے کہ ہمارے پڑوس میں کوئی خالی پیٹ پانی کے گھونٹ سے روزہ رکھ رہا ہو اور شام کو افطاری کے وقت کھانے کے لئے کسی کے ہاتھوں کی طرف دیکھ رہا ہو۔ لہٰذا رمضان المبارک ہمیں اپنے نادار، مفلس، فاقہ کش، تنگ دست مسلمان بھائی کی ضرورتوں کا خیال رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ماہ رمضان ہمیں ریاکاری، غیبت، عیب جوئی، مکر و فریب، بغض و حسد اور جھوٹ جیسے بے شمار معاشرتی و روحانی امراض سے بچانے کی تربیت بھی کرتا ہے۔

سوال: کیا روزہ کے اثرات ہر شخص پر یکساں ہوتے ہیں؟

جواب: روزہ کے اثرات ہر شخص پر روحانی اور جسمانی طور پر یکساں نہیں ہوتے۔ روزے کی فضیلت اور برکت اپنی جگہ مسلّم لیکن اس کی رحمتیں اور برکتیں ہر شخص کے حصے میں برابر آجائیں، ممکن نہیں۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’کتنے روزہ دار ایسے ہیں جن کو اپنے روزوں سے بھوک پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا اور کتنے راتوں کو نماز پڑھنے والے ہیں جن کو نمازوں سے رت جگے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘

( ابن خزيمة، الصحيح، 3 : 242، رقم : 1997)

جس نے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے احکامات، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر چلتے ہوئے اپنی بندگی کو وفاداری بشرط استواری کے ساتھ نبھایا اور خود احتسابی سے غافل ہوئے بغیر روزہ رکھے ایسے شخص کے لئے خوشخبری ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’جس شخص نے حالتِ ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور جو رمضان میں ایمان کی حالت اور ثواب کی نیت سے قیام کرتا ہے تو اس کے (بھی) سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور جو لیلۃ القدر میں ایمان کی حالت اور ثواب کی نیت سے قیام کرے اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘

( بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل ليلة القدر، 2 :709، رقم :1910)

اسی طرح جسمانی طور پر بھی روزہ کے اثرات ہر شخص پر مختلف ہوتے ہیں مثلاً ایک شخص ایئر کنڈیشنڈ آفس میں کام کرتا ہے تو دوسرا شخص شدید گرمی اور چلچلاتی دھوپ میں محنت مزدوری کرتا ہے۔ دونوں کے کام کی نوعیت کے اعتبار سے انسانی جسم میں پانی، نمکیات وغیرہ کی کمی اور نقاہت کی کیفیت مختلف ہو گی۔ اسی اعتبار سے روزہ دار کو ان کے صبر و برداشت اور رضائے الٰہی کی کیفیات کے مطابق انہیں اجر و ثواب سے نوازا جائے گا۔

سوال: روزہ کی حفاظت کیسے ممکن ہے؟

جواب: اگر روزہ کو احکام و آداب کی مکمل رعایت کے ساتھ پورا کیا جائے تو بلاشبہ گناہوں سے محفوظ رہنا آسان ہو جاتا ہے۔ البتہ اگر کسی نے روزہ کے لوازم کا خیال نہ کیا اور گناہوں میں مشغول رہتے ہوئے روزہ کی نیت کی، کھانے پینے، خواہش نفسانی سے باز رہا لیکن حرام کمانے اور غیبت کرنے سے باز نہ آیا تو اس سے فرض تو ادا ہوجائیگا، مگر روزہ کے برکات و ثمرات سے محرومی رہے گی۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمصلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ مَا لَمْ يخْرِقْهِ.

’’روزہ ڈھال ہے جب تک کوئی اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔‘‘

(نسائی، السنن، 1: 167، رقم: 2233)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمصلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ لَّمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِه، فَلَيْسَ للّٰهِ حَاجَةٌ فِی اَنْ يَدَعَ طَعَامَه وَ شَرَابَه.

’’جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹی بات اور غلط کام نہ چھوڑے تو اللہ کو کچھ حاجت نہیں کہ وہ (گناہوں کو چھوڑے بغیر) محض کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘

( بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب من لم يدع قول الزور و العمل به فی الصوم، 2: 673، الرقم: 1804)

کھانا پینا اور جنسی تعلقات چھوڑنے ہی سے روزہ کامل نہیں ہوتابلکہ روزہ کی حالت میں فواحش، منکرات اور ہر طرح کے گناہوں سے بچنا بھی ضروری ہے لہٰذا مندرجہ بالا احادیث سے ثابت ہوا :

  1. روزہ دار روزہ رکھ کر جھوٹ، غیبت، چغلی اور بدکلامی سے پرہیز کرے۔
  2. آنکھ کو مذموم و مکروہ اور ہر اس چیز سے بچائے جو یادِ الٰہی سے غافل کرتی ہو۔
  3.  کان کو ہر ناجائز آواز سننے سے بچائے۔ اگر کسی مجلس میں غیبت ہوتی ہو تو انہیں منع کرے ورنہ وہاں سے اْٹھ جائے۔ حدیث میں ہے کہ غیبت کرنے والا اور سننے والا دونوں گناہ میں شریک ہیں۔
  4. بوقت افطار اتنا نہ کھائے کہ پیٹ تن جائے۔
  5. افطار کے بعد دل خوف اور امید کے درمیان رہے۔ کیا معلوم کہ اسکا روزہ قبول ہوا یا نہیں لیکن اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔

پس اعضاء کو گناہوں سے بچانا ہی درحقیقت روزہ کی حفاظت ہے۔

سوال: کیا سحری کھائے بغیر روزہ رکھ سکتے ہیں؟

جواب:سحری کھانا سنت رسولصلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ کیونکہ آپصلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سحری کھانے کا حکم فرمایا اور اس کے فضائل وبرکات اور اہمیت بھی بیان فرمائی۔ آپصلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

تسحروا فان فی السحور برکة.

’’سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے‘‘۔

(بخاری، الصحيح، 2: 678، رقم: 1823)

  • حضرت عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

فصل ما بين صيامنا وصيام اهل الکتاب اکلة السحر.

’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزے میں صرف سحری کھانے کا فرق ہے‘‘۔

(مسلم، الصحيح، 2: 770، رقم: 1096)

  • حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے سحری کھانے کے لیے بلایا تو فرمایا:

هلم الی الغداء المبارک.

’’آؤ صبح کا کھانا کھا لو جو بڑی برکت والا ہوتا ہے‘‘۔

(احمد بن حنبل، المسند، 4: 126، رقم: 17183)

مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے سحری کھانے کی ضرورت واہمیت اور سنت ہونا ثابت ہے۔ لہذا جو سحری نہیں کھائے گا وہ خلافِ سنت عمل کرے گا۔ ہاں اگر کسی وجہ سے سحری نہ کھا سکے اور سحری کا وقت گزر جائے تو نیت کر لے، کچھ کھائے پیئے بغیر بھی روزہ ہو جائے گا۔

سوال: کیا کوئی شخص صرف روزے کے وقت کے طویل ہونے اور موسم کے گرم ہونے کی وجہ سے سال کے کسی اور مہینے میں روزے رکھ سکتا ہے؟

جواب: اگر کوئی شخص اتنا کمزور ہو کہ رمضان شریف میں روزے نہیں رکھ سکتا تو صحت یاب ہونے پر قضاء اس پر واجب ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَامٍ اُخَر.

’’پس اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کر لے‘‘۔

(البقرة، 2: 182)

قرآن مجید نے یہ رعایت اس طرح دی ہے کہ کوئی شخص بیمار ہو گیا یا حالت سفر میں ہے، تو اگر وہ روزہ نہیں رکھ سکتا تو رمضان کے بعد پھر ان روزوں کی قضاء کرلیں تو اس پر گناہ نہیں۔ اس صورت میں فدیہ نہیں دے سکتا۔

اگر کوئی شیخِ فانی ہو یعنی عمر کے لحاظ سے اتنا بوڑھا ہو جائے کہ آئندہ بھی روزے رکھنے کا امکان نہ ہو اور صحت مند ہو جانے کی امید بھی باقی نہ ہو۔ یا کوئی شخص اگرچہ کم عمر ہے مگر کوئی ایسی بیماری لاحق ہو گئی کہ اس کا کوئی علاج ممکن نہ ہو تو ایسے لوگ زندگی میں ہر روزے کے بدلے دو کلو گندم، آٹا یا اس کی قیمت کسی غریب، مسکین کو دے دیں۔ اس کو فدیہ کہتے ہیں۔

کسی شخص کا موسم کی شدت محسوس کرتے ہوئے ماہ رمضان کے بجائے کسی اور مہینے میں روزے رکھنا جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی ڈاکٹر کسی شخص کو کسی خاص علت کی بناء پر روزے مؤخر کرنے کو کہے تو (بصورت قضاء) ایسا کرنا جائز ہوگا۔