فقہی اختلاف کے حدود و آداب

مفتی مطیع الرحمن مضطر رضوی

اللہ کے پیارے نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بالذات علمائے مجتہدین کو اور بالطبع دوسرے علماء کو اپنا جانشین و وارث قرار دیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

اَلْعُلَمَاء وَرَثَةُ الْاَنْبِيَآء

’’علماء انبیاء کے وارث ہیں‘‘۔

(سنن ابی دائود، کتاب العلم، 1: 317، الرقم: 3641)

ان وارثانِ انبیاء اور حاملینِ علمی نبوی نے اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات و فرمودات میں غوروفکر کرکے درج زیل پانچ مقاصدِ شرع کا تعین کیا ہے:

  1. ایمان کی حفاظت
  2. جان کی حفاظت
  3. نسب کی حفاظت
  4. عقل کی حفاظت
  5. مال کی حفاظت

حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

مَنْ يُرِدِ اللّٰهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِی الدِّيْن.

’’ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے‘‘۔

(صحیح بخاری، کتاب العلم، 1: 39، الرقم: 71 )

یہاں فقہ سے مراد انہی پانچ مقاصد کا حصول ہے۔

مجتہدین عظام نے اپنے اپنے دور میں اپنے اپنے طور سے فقہ کی تعریف کی ہے، لیکن سب کا عطر مجموعہ اور نچوڑ جو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے ہمارے سامنے پیش کیا ہے، وہ یہ ہے:

فقہ مقصدِ شرع کے ادراک کا نام ہے

(فتاویٰ رضوية)

الفاظ بہت کم ہیں، مگر جتنی بھی تعریفیں اس سلسلے میں کی گئیں ہیں سب کو جامع ہیں۔ آگے فرماتے ہیں:

’’مِنْ‘‘  کا ترجمہ ’’سے‘‘ اور ’’ا ِلٰی‘‘ کا ترجمہ ’’تک‘‘ جاننے کا نام فقہ نہیں ہے۔

(فتاویٰ رضوية)

یعنی جیسے قرآن میں مِنْ آیا ہے، اِلٰی آیا ہے، فِیْ آیا ہے، ان کا ترجمہ جاننے کا نام فقہ نہیں ہے۔ بلکہ فقہ مقصدِ شرع کے ادراک کا نام ہے۔ شریعت ہم سے کیا مطالبہ کرتی ہے؟ کیا چاہتی ہے؟ یہ جاننا ضروری ہے۔

مثال کے طور پر زکوٰۃ و صدقات کے مصارف قرآن کریم میں آٹھ بیان کئے گئے ہیں۔ رسول کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں آٹھوں مصارف کو زکوٰۃ دی گئی مگر چونکہ فقہ نام ہے مقصد شرع کے ادراک کا تو صحابہ کرام نے غوروفکر کیا کہ آٹھوں مصارف میں سے ہر ایک میں زکوٰۃ کا مقصدِ شرع کیا ہے؟ اور ہر ایک میں اس کا مقصد شرع آج بھی پایا جاتا ہے یا نہیں؟ صحابہ کرام نے سمجھا کہ غیر مسلموں کو تالیف قلب کے لئے زکوٰۃ دینے کا جو مقصد تھا آج وہ مقصد باقی نہیں رہا تو انہوں نے اجماع کرلیا کہ آج زکوٰۃ کا آٹھواں مصرف مولفۃ القلوب نہیں رہا۔ اب صرف سات ہی مصارف پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جائے گی۔ اب اس کے بعد اگر کوئی شخص مولفۃ القلوب کو زکوٰۃ دیتا ہے تو اس کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔

دوسری طرف نصِ قرآنی بظاہر صاف ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صراحت کے ساتھ فرمایا کہ مولفۃ القلوب کو زکوۃ دی جائے گی لیکن صحابہ نے اجماع کرلیا کہ مولفۃ القلوب کو زکوٰۃ نہیں دی جائے گی، اس لئے کہ صحابہ جانتے اور سمجھتے تھے کہ مولفۃ القلوب کو زکوٰۃ دینے سے مقصود کیا ہے؟ جب تک وہ مقصد باقی رہا، ان کو زکوٰۃ دی گئی اور جب وہ مقصد باقی نہیں رہا تو مولفۃ القلوب کو زکوٰۃ دینا بند کردیا گیا۔

بالفرض اگر آج کئی مصار ف ایسے ہوں جن سے مقصدِ شرع کی تکمیل نہیں ہوتی ہے یا مقصدِ شرع کی تکمیل میں اس کی ضرورت نہیں پڑتی ہے تو سات سے چھ، چار یا تین بھی کیا جاسکتا ہے، یہ بالفرض کہہ رہا ہوں، اگرچہ واقعہ میں ایسا اب تک نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ فقہ درحقیقت مقصدِ شرع کے ادراک اور اس کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کا نام ہے۔

تجزیہ و تحلیل کی اہمیت

آج ہم بس کتابیں پڑھ لیتے ہیں، اصولوں کا انطباق نہیں کرتے، جس کی وجہ سے اختلافات بڑھ رہے ہیں۔ ہمارے متقدمین فقہا نے نصوص شرعیہ میں تجزیہ و تحلیل سے ان پانچ مقاصدِ دین، ’’ایمان، جان، عقل، نسب اور مال کی حفاظت‘‘ کو بیان کیا۔ اس کی توضیح یہ ہے کہ:

  1. ایمان کی خاطر جان بھی جاسکتی ہے، جان کی خاطر ایمان نہیں دیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں اضطراری حالت میں کلمہ کفر ادا کرنے کو جائز قرار دیا گیا ہے کہ جان بچالو، اس لئے کہ کلمہ کفر کا بول دینا اور ہے، کفر کا ارتکاب کرنا اور ہے۔ ایمان و کفر کا تعلق دل سے ہے، اگر دل مطمئن ہے تو اضطراری حالت میں کلمہ کفر کا بول دینا جائز قرار دیا جائے گا۔ پس ایمان کا درجہ پہلا ہے اور جان کا درجہ دوسرا ہے۔
  2. آپ جہاد کی مشروعیت دیکھیں، ایمان ہی کی خاطر جہاد کی مشروعیت ہوئی ہے۔ جہاد میں جانیں جاتی ہیں، جانیں لی جاتی ہیں، کیوں؟ اس لئے کہ ایمان کی حفاظت مقصود ہوتی ہے۔ پس جان کا نمبر دوسرا ہے اور ایمان کا نمبر پہلا ہے۔
  3. عقل کی حفاظت تیسرے نمبر پر ہے، کیوں؟ اس کو جاننے کے لئے یہ سمجھنا ہوگا کہ عقل سے مقصود کیا ہے؟ عقل سے مقصود یہ ہے کہ اگر آدمی کے پاس عقل نہ ہو تو وہ دنیا میں کچھ بھی کر گزر سکتا ہے۔ فتنے پھیلا سکتا ہے، کسی کا مال غصب کرسکتا ہے، لوٹ سکتا ہے، کچھ بھی کرسکتا ہے، تو اگر عقل سلامت رہتی ہے تو بہت سارے مفاسد سے بچا جاسکتا ہے اور بہت سے مصالح کا حصول ہوسکتا ہے۔
  4. اس کے بعد نسب کا درجہ ہے۔ نسب کی حفاظت شریعت کا مقصود کیوں ہے؟ اس لئے کہ اگر نسب محفوظ نہ ہو تو جو بچہ پیدا ہوگا اس کی کفالت و پرورش کون کرے گا؟ اسے تعلیم کون دے گا؟ سچا پکا مسلمان کون بنائے گا؟ اسی لئے نسب کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے اور یہ مقصودِ شرع ہے۔
  5. اس کے بعد درجہ ہے مال کی حفاظت کا، کیونکہ جان کی حفاظت میں من جملہ مال کی ضرورت ہے۔

گویا فقہائے کرام نے اپنی تلاش و جستجو کے بعد یہ پانچ مقاصد کو ترتیب وار متعین فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ فقہ سے مقصود ان پانچ مقاصد کا حصول ہے۔ جو شخص ان پانچ مقاصد کے حصول کے طریقے کا ادراک کرلے گا وہی فقیہ ہوگا۔ فقہ یہ نہیں ہے کہ ہم نے ’’بہار شریعت‘‘ سے ایک مسئلہ یاد کرلیا اور ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ سے ایک مسئلہ یاد کرلیا اور فقیہ و مفتی بن گئے۔

معاملہ یہ ہے کہ فقہ کا جو مقصد ہے، جب تک اس مقصد تک پہنچا نہیں جائے گا اور اس مقصد کے مطابق عمل نہیں کیا جائے گا اس وقت تک ہم فقیہ نہیں کہلائے جاسکتے۔

فقہ، تصوف اور کلام

فقہ نام ہے مقصد شرع کے ادراک کا اور فقہ کے ساتھ عمل بھی ہو تو وہ تصوف ہے۔ اسی لئے آپ متقدمین کے یہاں دیکھیں، جیسے امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے جو فقہ کی تعریف کی ہے، اس میں علم فقہ کے ساتھ علم کلام بھی داخل ہے اور علم تصوف بھی داخل ہے۔ گویا امام اعظم کے نزدیک مذکورہ تینوں علوم کے مجموعے کا نام فقہ ہے۔ فقیہ بھی اس زمانے میں وہی ہوتے تھے جو علم کلام، علم تصوف اور علم فقہ سے کماحقہ واقف ہوں اور نہ صرف واقف بلکہ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی زبان میں اس پر عامل بھی ہوں۔ گویا کوئی شخص اس وقت تک فقیہ نہیں ہوسکتا تھا، جب تک کہ وہ متکلم نہ ہو، اسی طرح وہ بھی فقیہ نہیں ہوسکتا تھا جو صوفی نہ ہو، مگر چونکہ اس زمانے میں نہ وہ قوت ارادی رہی اور نہ بلند حوصلہ رہا تو جیسے دنیاوی علوم میں ترقی ہوئی اور تخصص کے دور کا آغاز ہوا، ایسے ہی ہمارے بزرگوں نے دینی علوم میں تقسیم اور درجہ بندی شروع کردی۔ فقہ کا ایک حصہ ’’علم کلام‘‘ سے موسوم کیا گیا، ایک حصہ ’’علم تصوف‘‘ کے نام سے جانا گیا، اب اس تقسیم کے بعد جو ’’فقہ‘‘ بچا وہ فرعی و عملی احکام کو ان کے دلائل کے ساتھ جاننا ہے۔

فقہی اختلاف کے اسباب

یقینا امت محمدیہ بلکہ انسان مختلف الطبع پیدا ہوا ہے۔ اللہ نے بنی نوع آدم کو مختلف طبائع والا بنایا ہے، اسی لئے ہماری سوچ کچھ اور آپ کی سوچ کچھ اور ہے۔ آپ کی عقل کچھ کہہ رہی ہے جبکہ ہماری عقل کچھ کہہ رہی ہے۔ جب ہمارا علم آپ کے علم سے مختلف ہے تو اختلاف ہونا ناگزیر ہے۔ اختلاف تو ہوگا اور اس اختلاف کو اللہ کے نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رحمت قرار دیا ہے، فرمایا:

اختلاف امتی رحمة

میری امت کا اختلاف رحمت ہے

(کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال، 10: 136، الرقم: 28686)

اس سلسلے میں سب سے معتبر کتاب ہمارے علماء کے لئے بھی اور ہمارے طلبہ کے لئے بھی حضرت امام شعرانی کی کتاب ’’میزان الشریعۃ الکبریٰ‘‘ ہے۔ اس کتاب کو آدمی پڑھ لے تو فکر میں بھی وسعت پیدا ہوگی اور ذہن کو بھی مضبوطی ملے گی۔ اختلاف جھگڑے کا نام نہیں بلکہ عین دین ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ اختلاف ہو، اس لئے کہ اگر اختلاف نہ ہو تو بسا اوقات دین پر عمل کرنا ناممکن ہوجائے۔ وہ اسلام جو قیامت تک ایک آفاقی اور متحرک مذہب ہے، اس کی بنیاد ہی اختلاف پر ہے۔ ائمہ مجتہدین کے زمانے سے پہلے صحابہ کرام کا اختلاف اس کی واضح دلیل ہے۔

اختلاف کن مسائل میں ہوتا ہے؟

ظاہر بات ہے کہ اختلاف اسی مسئلے میں ہوگا جو قرآن میں محکم اور مفسر نہیں، کیونکہ ظاہر میں اختلاف ہوسکتا ہے، محکم اور مفسر میں اختلاف نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح حدیث متواتر میں اختلاف نہیں، مشہور میں اختلاف ہوسکتا ہے بلکہ سچی بات یہ ہے کہ تواتر میں بھی اس حیثیت سے اختلاف ہوسکتا ہے کہ وہ تواتر ہے کہ نہیں۔ مثلاً کسی قوم کے نزدیک کوئی بات تواتراً ثابت ہو اور دوسرے کے نزدیک تواتراً ثابت نہ ہو۔ حاصل یہ ہے کہ حدیث متواتر، محکم اور مفسر میں اختلاف نہیں ہوتا۔ ظاہر میں اور نص میں اختلاف ہوسکتا ہے۔ ان سب کی مثالیں بھی آپ کے سامنے ہیں۔

اصول الشاشی میں پہلی مثال لفظ ’’قروء‘‘ کی آئی ہے۔ اس کا معنی امام اعظم کے نزدیک ’’حیض‘‘ ہے اور امام شافعی کے نزدیک ’’طہر‘‘ ہے۔ یہ سب کومعلوم ہے کہ کوئی حیض، طہر نہیں ہوسکتا اور کوئی طہر، حیض نہیں ہوسکتا، دونوں کے مابین تباین اور تضاد ہے۔ اس کے باوجود دو اماموں نے یہ دو متضاد معنی بیان کئے ہیں۔ ہر ایک کے پاس اپنے اپنے دلائل ہیں، ان دو میں سے کسی کو کوئی مردود نہیں کہتا۔ اسی اختلاف کو اللہ کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رحمت قرار دیا ہے۔

فقہی اختلاف رحمت ہے!

اب آپ اس اختلاف کی حکمت دیکھئے:

ایک مسئلہ ہمارے پاس آتا ہے کہ بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو پندرہ سال، اٹھارہ سال کی عمر تک یا ایک بچہ پیدا ہونے تک حیض آیا پھر اس کو کسی بیماری کی وجہ سے حیض آنا بند ہوگیا۔ اب اگر شوہر طلاق دے دے تو اسے عدت گزارنی ہے اور وہ عورت عدت گزار کر دوسری شادی کرنا چاہتی ہے کیونکہ عدت تین حیض تھی اور حیض اس کو آہی نہیں رہے تو کیا اب وہ زندگی بھر شادی نہیں کرسکتی؟ آپ غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اگر فقہی اختلاف نہ ہوتو بسا اوقات دین پر عمل کرنا ممکن ہی نہیں رہ جائے گا اور دین اصلاح کے بجائے فساد کا ذریعہ بن جائے گا، اسی لئے میرے آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اِخْتِلَافُ اُمَّتِیْ رَحْمَة

آدابِ اختلاف

ان ہی اختلافات کی مثال دیتے ہوئے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ جب کسی مسئلے میں دو صحابی کے درمیان اختلاف ہوجاتا اور وہ آپس میں مباحثے کے لئے بیٹھتے اور اپنے اپنے دلائل پیش کرتے تو دیکھنے والا دیکھتا تو سمجھتا کہ اب زندگی میں ان دونوں کے درمیان کبھی کوئی ملاپ نہیں ہوگا، زندگی میں ان دونوں کے درمیان کبھی سلام و کلام نہیں ہوگا۔ وہ اپنے اپنے دلائل پیش کرتے، ان میں کسی ایک کی بات دوسرے کو سمجھ میں آجاتی تو قبول کرلیتا، اگر سمجھ میں نہ آتی تو دونوں اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہتے لیکن مجلس سے اٹھنے کے بعد ان دونوں کا انداز یہ ہوتا تھا کہ دیکھنے والا یہ سمجھتا کہ زندگی میں ان دونوں میں کبھی اختلاف ہوا ہی نہیں۔

اختلاف کے آداب میں سے یہ ایک ضروری ادب ہے کہ جب اختلاف ہو اور بحث کے میدان میں آیا جائے تو جانبین اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہیں، جب تک دوسرے کی بات ذہن قبول نہ کرلے، اس سے متفق نہ ہو، لیکن جیسے ہی اس مجلس سے اٹھے تو ایسا محسوس ہوکہ ان دونوں میں کبھی کوئی بات ہوئی ہی نہیں ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کا احترام پہلے کی طرح کریں۔ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کے اختلافات اور طریقہ اختلاف سے سبق لینا چاہئے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کے بعد تابعین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کو لیجئے، خود ائمہ مجتہدین کو دیکھئے، فقہ کی کوئی کتاب نہیں ملے گی جس میں ایک دوسرے کا رد نہ کیا جارہا ہو اور خاص کر ’ہدایہ‘ تو اسی لئے ہی لکھی گئی ہے تاکہ امام شافعی کی دلیل کو رد کیا جائے، امام مالک کی دلیل کو ناقص قرار دیا جائے، حنابلہ کی دلیل میں کمزوری دکھا کر احناف کی دلیل کو ثابت کیا جائے۔ مخالف کی دلیل کو کمزور قرار دے کر اپنے امام کی دلیل کو مضبوط قرار دینے کے ہی مقصد سے یہ کتابیں لکھی گئیں اوریہ مقصد ان کا غلط نہیں تھا۔ ان کا مقصود یہ تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ غیر مقلدیت وجود میں آجائے، اس لئے جو جس امام کی پیروی کررہا ہے، اس امام کی دلیل اس کو سب سے زیادہ مضبوط معلوم ہو تاکہ وہ اسی پر قائم رہے۔ لیکن مقلد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی بھی حال میں وہ اپنے امام کا مسلک نہ چھوڑے۔

تبدیلی فتویٰ کی ایک مثال

فتاویٰ رضویہ کتاب الحج میں ہے کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے سامنے یہ مسئلہ آیا کہ اس زمانے میں جو قافلے مکہ سے مدینہ اور مدینہ سے مکہ چلتے تھے، ان کا امیر حنبلی یا شافعی ہوتا تھا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حالت سفر میں عصر کی نماز، ظہر کے وقت میں اور مغرب کی نماز، عشاء کے وقت میں پڑھی جاسکتی ہے۔ یہ ادا ہی کہلائے گی، قضا نہیں کہلائے گی۔ احناف کے نزدیک عصر کی نماز، ظہر کے وقت میں نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ سبب یعنی وقت نہیں پایا گیا۔ پس اگر سبب نہیں ہے تو مسبب یعنی نماز کا وجود کہاں سے ہوگا؟ اور مغرب کی نماز دانستہ طور پر قضا کردینا ناجائز و حرام ہے اور عشاء کے وقت میں ادا کی گئی مغرب کی نماز قضا کہلائے گی اور بغیر عذر کے ایسا کرنا درست نہیں ہے۔

قافلہ، امام شافعی کے مذہب کے مطابق ظہر کی نماز کے وقت عصر ادا کرکے روانہ ہوجاتا تھا۔ احناف اپنے مذہب کے مطابق ظہر ہی کے وقت عصر کی نماز ادا نہیں کرتے تھے۔ پورا قافلہ پچاس افراد پر مشتمل ہوتا تھا۔ ان میں احناف کسی قافلے میں پانچ، کسی قافلے میں دس اور کسی قافلے میں پندرہ ہوتے تھے۔ گویا قافلے میں غلبہ انہی لوگوں کا ہوتا تھا۔ قافلہ اپنے معمول کے مطابق چلتا رہتا، کہیں رکتا نہیں۔ قافلہ جب بھی رکتا، اپنے منزل پر ہی رکتا۔ چاہے عصر کا وقت ہوجائے یا مغرب کا وقت ہوجائے۔ ظہر کے وقت ہی میں عصر ادا کرکے روانہ ہوتے اور مغرب کی نماز اپنے وقت پر ادا نہیں کرتے بلکہ عشاء کے وقت منزل تک پہنچ کر مغرب و عشاء کی نماز ایک ساتھ ادا کرتے۔ اس صورت میں وہاں احناف کیا کریں؟

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اس قافلہ میں موجود احناف عصر کی نماز، ظہر کے وقت ہی میں ادا کرلیں اور مغرب کی نماز، عشاء کے وقت میں ادا کریں۔ اب آپ دیکھئے کہ اعلیٰ حضرت ایک طرف تو یہ لکھتے ہیں کہ جب تک وقت نہ ہو نماز ہوگی ہی نہیں اور دوسری طرف یہ فرمارہے ہیں کہ شافعی کی طرح حنفی بھی عصر کی نماز، ظہر کے وقت ہی میں ادا کرلیں۔

معاملہ کیا تھا؟ یہ بات آپ پر اس وقت واضح ہوگی جب آپ یہ سمجھیں کہ فقہ مقصدِ شرع کے ادراک کا نام ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر مقاصدِ شرع کو سامنے رکھ کر حکم سنایا ہے۔ نماز سے شریعت کا مقصد اللہ کی عبادت ہے۔ وقت اصل مقصود نہیں ہے، اصل مقصود ہے اللہ کی عبادت اور اللہ کی بندگی۔ اللہ کی بندگی جو اصل مقصود ہے، اگر ہم عصر کے وقت نہیں کرسکتے تو ظہر کے وقت ہی کرلیں گے۔ مغرب کی نماز اس کے وقت میں ادا نہیں کرسکتے تو عشاء کے وقت میں ہی ادا کرلیں گے۔ اگر قافلہ چھوڑ کر کوئی نماز ادا کرنے لگے تو جان چلی جائے گی، بعض حالات میں مال چلا جائے گا، اسی لئے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ایسا فتویٰ دیا۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فتاویٰ رضویہ میں اس فتویٰ کے ذریعے ہمارے سامنے یہ واضح فرمادیا کہ مفتی کے لئے مقصدِ شرع کا ادراک بہت ضروری ہے لیکن ہمارے مفتیان کرام اس طرح کے فتوے پڑھتے ہیں اور پھر بغیر سوچے سمجھے نقل کرتے چلے جاتے ہیں۔ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ حکم مکہ اور مدینہ والوں کے لئے خاص ہے، جیسے عرفہ اور مزدلفہ کے لئے حکم خاص ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے، اس لئے کہ عرفہ اور مزدلفہ کے حکم کی تخصیص اللہ کے نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی لیکن جب تک اللہ کے نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ اور مدینے میں رہے تو مدینہ اور مکہ والوں کے لئے یہ تخفیف و تخصیص نہیں فرمائی۔ صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی کے فتاویٰ ’’فتاویٰ امجدیہ‘‘ میں ہے کہ آپ سے پوچھا گیا کہ حضرت یہ حکم مکہ و مدینہ والوں کے لئے خاص ہے یا آج بھی ایسا ہوسکتا ہے اور کہیں بھی ہوسکتا ہے؟ صدر الشریعہ فرماتے ہیں: وہی حالات ہوں تو کہیں بھی اور آج بھی ہوسکتا ہے۔

حق کو تسلیم کرنا چاہئے

آپ کے ذہن میں ایک سوال ہوگا کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ حق آنے کے بات بھی ہم میں سے بعض افراد قبول حق کے بجائے حق سے فرار کی راہ ڈھونڈتے ہیں؟ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ دانستہ ہم کوئی مسئلہ بتاچکے ہوتے ہیں، کوئی رائے قائم کرچکے ہوتے ہیں، اب اس کو نبھانے کے لئے، اس کو سچ ثابت کرنے کے لئے جھوٹی سچی تعبیر میں الجھ جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر اتفاقاً ہماری زبان سے کوئی بات نکل گئی اور وہ واقعہ کے مطابق نہیں ہے، شریعت کے مطابق نہیں ہے تو ہمیں تسلیم کرلینے میں عار کیوں محسوس ہوتا ہے؟ ہم جو تسلیم کررہے ہیں، وہ ہماری اپنی بات نہیں ہے، وہ تو اللہ و رسول کی بات ہے۔ مثلاً آپ سے ہمیں کوئی اختلاف ہوا، آپ کی بات مضبوط دلیل سے ثابت ہوگئی، اب اگر ہم اس کو تسلیم نہ کریں تو ہم آپ کی بات سے انکار نہیں کررہے ہیں بلکہ ہم تو شریعت کی بات کا انکار کررہے ہیں اور اگر ہم آپ کی بات مان لیتے ہیں تو گویا شریعت ہی کی بات مانتے ہیں اور شریعت کے سامنے سر جھکانا ہی چاہئے اور ہمیں ہمہ وقت شریعت کا پابند ہونا چاہئے۔ یہ ہمارے ایمان کی علامت ہے۔ ہمارے لئے راہ نجات اور باعث سعادت ہے کہ شریعت کے سامنے اپنا سر جھکائے رکھیں۔

تقلیدِ امام اور احترامِ ائمہ

یہ ایک مستقل بحث ہے کہ ہم پر تقلید کیوں واجب ہے؟ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ تقلید ہم پر واجب ہے۔ ہم امام اعظم کے مسلک کو اپنے حق میں اپنانا واجب سمجھتے ہیں مگر اس کے معنی یہ نہیں کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اگر عدت کے لئے ’طہر‘ کو شمار کرنے کے لئے کہا ہے اور امام اعظم نے ’’حیض‘‘ کو عدت قرار دیا ہے تو ہم اپنے مذہب کو حق سمجھیں اور طہر کو عدت قرار دینا باطل سمجھیں۔ ایسا نہیں ہے، وہ باطل نہیں ہے، اگر باطل ہوتا تو رحمت کیسے ہوتا؟ وہ بھی حق پر ہیں، ہم بھی حق پر ہیں۔ مگر ہمارے لئے یہ حق ہے، ان کے لئے وہ حق ہے۔

ہاں، ایک ہی شخص کے حق میں ایک چیز جائز بھی ہو اور ناجائز بھی ہو، یہ نہیں ہوسکتا۔ حنفی کے حق میں ایک چیز جائز ہے اور وہی چیز شافعی کے حق میں فرض ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ شخص مذہب امام اعظم کو ہی صحیح قرار دے رہا ہے اور امام شافعی کو غلط کہہ رہا ہے۔ ہاں! جہاں ضرورت پڑ جائے اور مقصود شرع کے مطابق مذہب شافعی ہی موافق ہو تو وہاں امام اعظم کے مسلک کے بجائے امام شافعی ہی کے مسلک کے مطابق فتویٰ دینا صحیح اور جائز ہوگا جیسا کہ وہاں عصر کی نماز یہ کہہ کر ترک کردینا کہ امام اعظم کے مسلک کے مطابق عصر کی نماز ہوگی ہی نہیں، کیونکہ وقت جو سبب ہے وہ پایا ہی نہیں گیا، لہذا ہم عصر کی نماز ادا نہیں کریں گے، یہ حماقت ہے۔ اس وقت امام شافعی کے مسلک پر عمل کرلینا ہی مقصدِ شریعت کا ادراک ہے۔ اسی لئے اعلیٰ حضرت فافضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی کا حکم دیا ہے جو اپنے زمانے کے بہت بڑے فقیہ تھے۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے ان کے خلفاء کا اختلاف

اختلافات کے حدود و آداب اجمالاً آپ کے سامنے آگئے۔ اب آیئے میں بہت نیچے آجائوں، وہاں آجائوں جہاں کسی کے لئے مجال دم زن نہ ہو۔ حضرت صدرالشریعہ رحمۃ اللہ علیہ مصنف ’’بہار شریعت‘‘ کے پیر و مرشد اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ہیں اور وہ ان کے خلیفہ بھی ہیں۔ اسی طرح حضرت صدرالافاضل رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا برہان الحق جبل پوری بھی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے مرید و خلیفہ تھے، مذکورہ تینوں حضرات کی ایک ایک مثال آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔

1۔ عورتوں کی زیارتِ قبور کا مسئلہ

حدیث پاک کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور فزورھا اس سلسلے میں فقہائے متقدمین کے درمیان اختلافات ہیں۔ بعض لوگوں نے اس کو مطلق رکھا ہے۔ مردوں اور عورتوں کے لئے اجازت ہے۔ بعض لوگوں نے فرمایا: نہیں، صرف مردوں کے لئے اجازت ہے، عورتوں کے لئے اجازت نہیں۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا موقف یہ ہے کہ عورتوں کا مزاروں پر جانا حرام ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا مسلک اس طرح ظاہر کیا ہے: حرام، حرام حرام، یہ نہ پوچھ کہ جانے میں کیا ثواب ہے، یہ پوچھ کہ جب وہ مزار کی زیارت کے ارادے سے گھر سے قدم نکالتی ہے تو اسی وقت سے اللہ اور اس کے رسول اور اس کے فرشتے کی لعنت شروع ہوتی ہے، جب تک کہ واپس پھر اپنے گھر میں قدم نہ رکھے۔

حضرت برہان ملت مولانا برہان الحق جبل پوری نے ایک بہت مفصل فتویٰ رسالے کی شکل میں لکھا کہ ’’عورتوں کا مزاروں پر جانا جائز ہے‘‘ اور اس رسالے کو اصلاح کے لئے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پیش کیا۔ میں نے وہ رسالہ تو نہیں دیکھا لیکن اعلیٰ حضرت کی تحریر دیکھی جس میں اس کا تذکرہ ہے۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں کہ برہان میاں نے عورتوں کے مزارات پر جانے کے تعلق سے جو اپنا رسالہ لکھا اور مجھے اصلاح کے لئے بھیجا، ایک مدت تک تو موقع مل ہی نہیں سکا کہ دیکھتا، بعد میں دیکھا، جہاں استدلال میں کوئی کمی تھی، اس کی تصحیح کردی۔

عورتوں کے مزارات پر جانے کو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ جو خود حرام لکھتے اور سمجھتے ہیں، اس کے خلاف لکھنے والے کی اصلاح و تصحیح فرمائی اور اضافہ و تکمیل اور تصدیق بھی فرمائی، مگر اس کے بعد اپنا مسلک ظاہر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مگر بحال زمانہ میں اسے ناجائز و حرام سمجھتا ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فی نفسہ جائز تھا۔ مگر اس زمانہ میں مقصد شرع کے خلاف ہورہا تھا، اس لئے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ناجائز قرار دیا لیکن چونکہ فی نفسہ جائز تھا، اسی لئے ڈانٹنے اور توبہ کرانے کے بجائے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اس رسالہ کی تکمیل فرمائی۔ حالانکہ مولانا برہان الحق، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے مرید و شاگرد تھے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ چاہتے تو انہیں ڈانٹ سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

2۔ قنوت نازلہ کب پڑھی جائے؟

حضرت صدرالافاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ کو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے کتنی عقیدت تھی، اس کو میں نے خود مفتی اعظم مولانا مصطفی رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی زبان سے سنا اور کچھ لوگوں نے لکھا بھی ہے کہ انہوں نے جب فتاویٰ رضویہ (جلد اول) کا مطالعہ کیا تو بریلی آئے اور اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ حضور! میں ایک طرف ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ دیکھ رہا ہوں اور ایک طرف ’’شامی‘‘، تو ایسا لگتا ہے کہ ’’شامی‘‘ کسی طفل مکتب کی لکھی ہوئی ہے اور فتاویٰ رضویہ ایک حکیم عالم کی لکھی ہوئی ہے۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: مولانا! ایسا نہیں ہے۔ اس فقیر نے بائیس مرتبہ ’’شامی‘‘ کا بالاستیعاب مطالعہ کیا ہے تب آج یہ حال ہے۔

اس طرح کی بات اگر آج کسی کے بارے میں کہہ دی جائے تو سننے والے بہت خوش ہوں گے کہ اس نے ’’شامی‘‘ سے مجھ کو بڑھادیا۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا موقف یہ ہے کہ اگر کوئی حادثہ فاجعہ ہو تو فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھی جائے گی۔ جب کہ یہ امام شافعی کا مسلک ہے۔ ہمارے یہاں ہمیشہ کے لئے نہیں ہے، صرف حادثہ فاجعہ ہو تو صحیح اور جائز ہے لیکن کب پڑھی جائے؟ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: رکوع سے پہلے جیسے وتر میں پڑھی جاتی ہے، ویسے ہی پڑھی جائے گی۔ مگر صدرالافاضل رحمۃ اللہ علیہ نے رکوع کے بعد پڑھنے کا فتویٰ دیا ہے۔ اب بتایئے کس کو آپ برا کہیں گے؟ کس سے توبہ کا مطالبہ کریں گے؟ اعلیٰ حضرت سے یا صدرالافاضل سے؟ جیسے آداب یہاں ملحوظ رکھے جائیں گے، وہی آداب آئندہ بھی اور آج بھی ملحوظ رہنا چاہئے۔

3۔ دعائے قنوت کی جگہ سورہ فاتحہ

صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب کے مطالعے سے دو مسئلے ایسے نکلے جہاں صدرالشریعہ نے اعلیٰ حضرت سے اختلاف کیا۔ ایک مسئلے میں اختلاف تو بڑا دلچسپ ہے۔ اعلیٰ حضرت سے سوال ہوا کہ کسی کو دعا قنوت یاد نہ ہو اور وتر میں دعائے قنوت پڑھنا واجب ہے، اس کی جگہ اس نے کوئی اور دعا نہیں پڑھی، سورہ فاتحہ پڑھ لی تو واجب ادا ہوا یا نہیں؟ اگر واجب ادا ہوگیا تو نماز ہوگئی اور اگر نہیں ہوا تو نماز لوٹانی چاہئے۔ اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ واجب ادا ہوگیا، نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں۔ فتاویٰ امجدیہ میں اس مسئلے کے بارے میں صدرالشریعہ سے سوال ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ واجب ادا نہیں ہوا، نماز لوٹانی ہوگی۔ مگر ہمارے علما نہ تو صدر الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ کو برا بھلا کہتے ہیں اور نہ ہی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو برا بھلا کہتے ہیں۔

4۔ نماز چاشت کے لئے تیمم؟

جب حضرت صدرالشریعہ رحمۃ اللہ علیہ نے بہار شریعت لکھی تو اس کے ابتدائی حصے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میںپیش کئے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی اصلاح فرمائی اور بہار شریعت لکھنے پر صدرالشریعہ کو دعائیں دیں اور القاب سے نوازا۔ صدرالشریعہ کے بقول جہاں کہیں بھی صدرالشریعہ سے مفتیٰ بہ قول نقل کرنے میں چوک ہوئی، وہاں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اسے قلم زد فرمایا اور جو مفتیٰ بہ قول تھا اس کی طرف رہنمائی فرمائی۔

اسی بہار شریعت میں چاشت کی نماز، چاند گرہن کی نماز یا اس طرح کی دوسری نمازوں کے بارے میں مذکور ہے کہ اگر کسی کو یہ لگے کہ وہ جب تک وضو بنائے گا تب تک ان کا وقت ختم ہوجائے گا اور مکروہ وقت شروع ہوجائے گا، ایسے شخص کو چاہئے کہ تیمم کرکے نماز پڑھ لے، کیونکہ چاشت کی نماز، سورج گرہن کی نماز اور چاند گرہن کی نماز فوت ہوجائے گی۔ اس لئے اس کے حق میں یہ تیمم کے لئے عذر ہے، اسے چاہئے کہ تیمم کرکے ان نمازوںکو ادا کرلے۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ جنہوں نے بہار شریعت (تیسرا حصہ) ملاحظہ فرمایا اور صدرالشریعہ کی تعریف و توصیف کرکے اس پر تقریظ بھی لکھی لیکن وہ خود فتاویٰ رضویہ میں اس سے پہلے لکھ چکے ہیں کہ ان نمازوں کے لئے تیمم کرنا جائز نہیں ہے۔ خود تو ناجائز لکھ رہے ہیں، صدر الشریعہ کے جائز کہنے پر ان کی تصدیق بھی فرمارہے ہیں۔ اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟ کیونکہ اعلیٰ حضرت جانتے تھے کہ یہ فقہی فروعی مسئلہ ہے، اس میں جواز کی بھی گنجائش ہے اور عدم جواز کی بھی گنجائش ہے۔ ہمارے نزدیک قرائن کے اعتبار سے عدم جواز کو ترجیح حاصل ہورہی ہے، اسی لئے ہم نے عدم جواز کا حکم دیا ہے۔ صدر الشریعہ کا موقف بھی صحیح ہے کیونکہ ان کے نزدیک قرائن کی روشنی میں جواز کا پہلو راجح ہے۔

آج فقہی اختلاف پر ناراضگی کیوں؟

میرے بھائی! اگر صدرالشریعہ اعلیٰ حضرت سے اختلاف کریں تو جائز ہے، کیونکہ مسئلہ فروعی ہے، جس میں اختلاف جائز ہے۔ اس اختلاف کی وجہ سے کسی کو برا بھلا نہیں کہا جائے گا، کسی کو جاہل نہیں کہا جائے گا، کسی کو گمراہ نہیں کہا جائے گا تو آج اگر کوئی آپ سے اختلاف کرے تو آپ اس کے پیچھے کیوں پڑجاتے ہیں کہ توبہ کرو؟ تمہاری اقتدا میں نماز نہیں ہوگی، ایسا نہیں، ویسا نہیں۔ کیا فروعی مسائل میں اختلاف کا دروازہ بند ہوگیا ہے؟ یہ نبوت تو نہیں ہے کہ نبوت کا دروازہ بند ہوگیا ہے۔ اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہوا ہے، ہاں! واقعہ یہ ہے کہ اجتہاد کی جو شرائط ہیں، وہ شرائط نہیں پائی جارہی ہیں، اسی لئے کوئی مجتہد مطلق نہیں ہوپارہا ہے۔ یہ نہیں کہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ہونا تو شرعاً ممکن ہے، میرے بھائی! جب اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہوا ہے تو تحقیق کا دروازہ کیوں بند کردیتے ہو؟

معلوم ہوا کہ فقہی فروعی مسائل میں اختلاف کی آزادی ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شاگردوں سے فرمایا تھا جب تک میری بات تمہاری سمجھ میں نہ آجائے اور جب تک تمہیں ان کی دلیل معلوم نہ ہوجائے، دل مطمئن نہ ہوجائے اس وقت تک میرے فتوے پر نہیں بلکہ اپنے اجتہاد پر عمل کرو۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ جانیں کہ شریعت کا کسی مسئلے میں مقصد کیا ہے؟ جب تک مقصد نہیں جانیں گے، اس وقت تک اختلاف کی حقیقت واضح نہیں ہوگی اور اس وقت تک اختلاف کرنا روا بھی نہیں ہوگا۔ اختلاف روا جب ہی ہوگا جب مقصد آپ کے سامنے ہو کہ شریعت ہم سے کیا چاہ رہی ہے اور ہمارے اختلاف سے اس مقصد کی تکمیل ہورہی ہے یا مقصد کی تکمیل نہیں ہورہی ہے؟ تکمیل ہورہی ہے تو اختلاف رحمت ہے اور اگر تکمیل نہیں ہورہی ہے تو اختلاف ناروا ہے۔ جو ہم رتبہ نہیں ہیں، ان کے لئے اپنے سے بڑے رتبہ والے کی اتباع لازم ہے، لیکن جو ہم رتبہ ہیں، ان کا آپس میں اختلاف کرنا جائز ہے، اختلاف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، مگر یہ اختلاف اس طرح ہونا چاہئے جس کا ذکر اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے نقل فرمایا کہ جب دو صحابہ بحث کرتے تھے تو لگتا تھا کہ دونوں جانی دشمن ہیں، کبھی ایک دوسرے سے نہیں ملیں گے لیکن جب ملتے تھے تو لگتا تھا کہ کبھی ان دونوں میں کوئی اختلاف ہوا ہی نہیں ہے اور نہ آئندہ ہوگا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ان ہی بزرگان دین کی روش پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین