تصوف اور تعلیمات صوفیاء (آخری حصہ)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کے زیر اہتمام عالمی صوفی کانفرنس سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا خصوصی خطاب

مرتب: محمد یوسف منہاجین

معاون:محمد خلیق عامر

گذشتہ ماہ مارچ 2016ء میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کی خصوصی دعوت پر عالمی صوفی کانفرنس میں خصوصی شرکت اور کلیدی خطاب کے لئے بھارت تشریف لے گئے۔ آپ نے کانفرنس میں دہشت گردی و انتہاء پسندی کے اسباب، اس ناسور کا حل اور صوفیاء کی تعلیمات کے حوالے سے علمی و فکری خطاب ارشاد فرمایا۔ اس خطاب کا پہلا حصہ مئی 2016ء کے شمارہ میں شائع ہوچکا ہے جس میں آپ نے دہشت گردی کے عوامل، ان کے تدارک اور لفظ ’’تصوف‘‘ اور ’’صوفی‘‘ کے مادہ ہائے اشتقاق اور معنوی تشبہ و صفاتی تتبع پر تفصیلی اظہار خیال فرمایا۔ اس علمی و فکری خطاب کا آخری حصہ نذرِ قارئین ہے:

لفظ ’’تصوف‘‘ اور ’’صوفی‘‘ قرآن مجید کی روشنی میں

لفظ ’’تصوف‘‘ اور ’’صوفی‘‘ کے مادہ ہائے اشتقاق اور معنوی تشبہ و صفاتی تتبع جاننے کے بعد آیئے اب قرآن مجید سے لفظِ تصوف کی اصل تلاش کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو کم علمی اور کتب کا عمیق مطالعہ نہ کرنے کے باعث سمجھتے ہیں کہ تصوف دین میں نہیں ہے یا صوفیاء کا طرز، اسلام میں نہیں ہے، وہ توجہ کریں اور جان لیں کہ تصوف کا مکمل مشرب اور اسوہ قرآن، سنتِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ، سنت انبیاء اور سنتِ اصحاب صفہ سے ہے۔

لفظ ’’صوفی‘‘ اور ’’تصوف‘‘ کی اصل قرآن مجید میں بھی ہے۔ لفظِ ’’تصوف‘‘ کا ایک مادہ اشتقاق الصَّف سے ہے جو صَفَا، صَفْوًا سے ہے۔ الصَّفْ قطار میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے کو کہتے ہیں۔ کسی کے لیے خالص ہوجانے کو صفوًا کہتے ہیں۔ منیٰ میں جانوروں کی قربانی کے حوالے سے قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰـهَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اﷲِ لَکُمْ فِيْهَا خَيْرٌ فَاذْکُرُوا اسْمَ اﷲِ عَلَيْهَا صَوَآفَّ.

’’اور قربانی کے بڑے جانوروں (یعنی اونٹ اور گائے وغیرہ) کو ہم نے تمہارے لیے اﷲ کی نشانیوں میں سے بنا دیا ہے ان میں تمہارے لیے بھلائی ہے پس تم (انہیں) قطار میں کھڑا کرکے (نیزہ مار کر نحر کے وقت) ان پر اﷲ کا نام لو‘‘

(الحج، 22: 36)

اس آیت مبارکہ کے مطابق نذر ہونے سے پہلے اللہ کے حضور ایک صف میں کھڑے ہو جانے والوں کو صَوَآفَّ کہتے ہیں۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری رحمۃ اللہ علیہ، امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ اور زید بن اسلم رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن کے اس لفظ صَوَآفَّ کو دوسری قرات میں صَوَافِيَ پڑھا جو صَافِيَہ کی جمع ہے۔ اسی سے ’’صوفی‘‘ مشتق ہے کہ صوفیاء وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی اللہ کے حضور نذر کر دیتے ہیں اور ان کے دل ایک صف میں جڑ کر مولا کے رُخ اور چہرے کے سامنے کھڑے رہتے ہیں۔ دن ہو یا رات، تھکن ہو یا راحت، کاروبار ہو یا ریاضت و مجاہدہ اُن کے دلوں پر کبھی غفلت نہیں آتی۔ جنہیں یہ حضوری مل جائے اور صفِ اول کی حاضری نصیب ہو جائے، ایسا دل رکھنے والوں کو صوفی اور ایسے طرزِ زندگی کو تصوف کہتے ہیں۔

  • لغت میں صَفَا کا ایک معنیٰ یہ ہے کہ جنگ میں فتح کی صورت میں ملنے والا وہ مال غنیمت جو بادشاہ تقسیم سے پہلے اپنے لیے چن لیتا ہے، اُس کو الصَّفِی کہتے ہیں، یہ صَفَا سے ہے۔ بادشاہ دوسروں کا حصہ نہیں مارتا، چونکہ بادشاہ ہونے کی حیثیت سے اس کا بھی حصہ ہوتا ہے لہذا وہ اپنا حصہ لیتا ہے، لیکن دوسروں سے پہلے لے لیتا ہے۔

ٍ پس اس معنی کی رو سے جو مال بادشاہ چن لے وہ الصَّفِی کہلاتا ہے اور دلوں کا جو حصہ کائنات کا بادشاہ اپنے لیے چن لے اُس کو صوفی کہتے ہیں۔ گویا جنہیں اللہ چُن لے وہ صوفی کہلاتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر صوفی چُنے ہوئے لوگ ہوتے ہیں اور جو صوفیاء کو نہیں مانتے وہ دھتکارے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ اللہ جسے چن لیتا ہے ان کے نام کے چرچے چہار دانگِ عالم میں ہوجاتے ہیں اور دنیا اُن میں سے کسی کو خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ، کسی کو محبوبِ الٰہی رحمۃ اللہ علیہ، کسی کو غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ، کسی کو شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ، کسی کو شیخ احمد الرفاعی رحمۃ اللہ علیہ اور کسی کو ابو الحسن شاذلی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جانتی اور پکارتی ہے۔ بات چُننے اور رد ہو جانے کی ہے۔ جو چُنے جاتے ہیں وہ صوفی ہو جاتے ہیں اور جو رد کر دیے جاتے ہیں وہ صوفیوں کے منکر کہلاتے ہیں۔

لفظ ’’تصوف‘‘ اور ’’صوفی‘‘ حدیث مبارکہ کی روشنی میں

قرآن مجید سے صوفی اور تصوف کی اصل اور اس کا مفہوم جاننے کے بعد آیئے اب حدیث مبارکہ سے اس کی اصل تلاش کرتے ہیں:

  • کسی غزوہ میں دو صحابی اکٹھے شہید ہوگئے۔ ایک صحابی کا نام عبد اﷲ بن عمرو بن حرام رحمۃ اللہ علیہ تھا اور دوسرے صحابی کا نام حضرت عمرو بن جموح رحمۃ اللہ علیہ تھا۔آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں دونوں کے جسد لائے گئے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

ادفنوهما فی قبر واحد، فإنهما کانا متصافيين فی الدنيا.

’’ان دونوں کو ایک ہی قبر میں اکٹھا دفن کر دو، دنیا میں یہ دونوں صوفی تھے‘‘۔

(ابن ابی شيبه، المصنف، 7: 367، رقم: 36757)

یعنی یہ دونوں اہل صفاء تھے۔ ان دونوں کا طرزِ عمل ایسا تھا کہ صوفی و صافی تھے۔ ان کے دلوں میں کدورت، رنجش اور غبار نہیں تھا۔ پس جن کے دلوں سے کدورت کا غبار نکل جائے اُس کو صوفی و صافی کہتے ہیں اور اسی طبقے کو صوفیاء کہتے ہیں۔ یہ لوگ کسی پر فتوے نہیں لگاتے۔ اُن کے دلوں میں چونکہ غبار نہیں ہے اس لیے انہیں فتوؤں کا بخار نہیں ہے۔ فتوؤں کا بخار اُنہی کو ہوتا ہے جن کے دل میں غبار ہوتا ہے۔ صوفیاء نہ غبار والے ہوتے ہیں اور نہ بخار والے ہوتے ہیں بلکہ وہ صرف پیار والے ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ تصوف پیار پھیلانے کا نام ہے۔۔۔ محبت عام کرنے کا نام ہے۔۔۔ تواضع، عاجزی اور انکساری عام کرنے کا نام ہے۔۔۔ تصوف گردن میں اکڑ نہیں لاتا بلکہ گردن کو نیچے کرتا ہے۔۔۔ تصوف بچاتا ہے، لڑاتا نہیں۔۔۔ تصوف ملاتا ہے، ڈراتا نہیں۔۔۔

آقا علیہ السلام نے اس حدیث مبارکہ میں متصافیین کا لفظ استعمال فرمایا۔ گویا اس حدیث میں تصوف کا لفظ زبانِ مصطفی a سے ادا ہوا۔ کیا اب بھی تصوف پر خارج از اسلام یا خارج از تعلیماتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کا اعتراض کیا جاسکتا ہے؟

  • ایک اور حدیث مبارکہ تصوف اور صوفی کا معنیٰ واضح کرتی ہے کہ صوفی کون ہوتے ہیں؟ حضرت ابو مالک الاشعری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

يا أيهاالناس اسمعوا واعلقوا واعلموا أن ﷲ عبادًا ليسوا بأنبياء ولا شهداء، يغبطهم الانبياء والشهداء علی مجالسهم وقربهم من اﷲ انعتهم لنا.

’’لوگو! میری بات سنو سمجھ اور جان لو! میری امت میں کچھ اللہ کے بندے ایسے بھی ہوں گے جو نہ تو نبی ہوں گے، نہ شہید ہوں گے مگر اللہ تعالیٰ انہیں اپنی مجلس اور قرب میں قیامت کے دن عرش کے اردگرد اس طرح قریب کر کے بٹھائے گا کہ انبیاء اور شہداء کو بھی ان پر رشک آئے گا‘‘۔

آقا علیہ السلام کی یہ بات سن کر ایک صحابی کھڑے ہو گئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! نبی اور شہید نہ ہونے کے باوجود اللہ کے قرب و حضور میں اس طرح بٹھائے جانے والے وہ لوگ کون ہوں گے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے حضور علیہ السلام نے فرمایا:

هم ناس من أفناء الناس ونوازع القبائل لم تصل بينهم أرحام متقاربة.

’’میری امت میں مختلف علاقوں، مختلف ملکوں، مختلف قبیلوں، مختلف معاشروں کے یہ لوگ وہ ہوں گے کہ ان کے درمیان کوئی خونی رشتہ نہیں ہوگا۔‘‘ مگر

تحابوا فی اﷲ وتصافوا.

’’وہ اللہ کی مخلوق سے آپس میں اللہ کے لیے محبت کریں گے اور اُن کے دل صوفی و صافی ہوں گے۔‘‘

یعنی ان کے دلوں میں کوئی کدورت نہیں ہوگی۔ یاد رکھیں! سارا تصوف دلوں کی کدورتوں کو ختم کر دینے کا نام ہے۔۔۔ تصوف دلوں کی رنجش مٹا دینے کا نام ہے۔۔۔ تصوف دلوں کی تنگ نظری کو وسعت میں بدل دینے کا نام ہے۔۔۔ تصوف تکبر کو مٹا کر تواضع لانے کا نام ہے۔۔۔ تصوف بخیلی، کنجوسی ختم کر کے سخاوت لانے کا نام ہے۔۔۔ تصوف نفرت مٹا کر محبت لانے کا نام ہے۔۔۔ تصوف تفرقے مٹا کر وحدت کرنے کا نام ہے۔۔۔ تصوف نفرت کا بخار مٹا کر محبت و پیار لانے کا نام ہے۔۔۔

پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمنے فرمایا:

يضع الله لهم يوم القيامة منابر من نور فيجلسهم عليها فيجعل وجوه هم نورا وثيابهم نورا يفزع الناس يوم القيامة ولا يفزعون.

اللہ انہیں قیامت کے دن نور کے منبروں پر بٹھائے گا۔ ان کے چہرے اور لباس منور ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب لوگ ڈر رہے ہوں گے، انہیں ڈر نہیں ہوگا۔

وهم أولياء اﷲ الذين لا خوف عليهم ولا هم يحزنون.

(نسائی، السنن، 6: 362، رقم: 11236)

’’یہی صوفیاء و اولیاء ہوں گے جنہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘

گویا صافی دل رکھنے والے اولیاء اللہ اور صوفی سب کے خیرخواہ ہوتے ہیں۔ ان کے دل صاف اور کشادہ ہوتے ہیں، ان کے دلوں میں فراخی، سخاوت، شفقت، رحمت اور وسعت ہوتی ہے۔

  • ایک اور حدیث میں بھی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی الفاظ استعمال فرمائے۔ ارشاد فرمایا:

متحابون بجلال اﷲ، وتصافوا فيه، وتزاوروا فيه، وتباذلوا فيه.

’’یہ وہ لوگ ہوں گے جو اللہ کی خاطر محبت عام کریں گے، ان میں صفائے قلب ہوگی، ایک دوسرے کی ملاقات اور زیارت کے لیے جائیں گے اور ایک دوسرے پر خرچ کریں گے، یعنی سخی ہوں گے۔‘‘

(هندی، کنزالعمال، 9: 8، رقم: 24703)

اس حدیث مبارکہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آج تک زیارت پر جانے کا سلسلہ کسی اور کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف ولیوں اور صوفیوں کے لیے ہی ہے۔ آج تک کسی نے نہیں سنا کہ کوئی کسی غیرِ صوفی کی زیارت کرنے جاتا ہے۔ کوئی بھی شخص غیرِ صوفی اور غیرِ ولی کی زیارت کے لیے نہیں جاتا۔ آقا علیہ السلام نے زیارت کے لئے جانے کو صوفیاء سے مختص فرمایا اور چودہ صدیوں سے آج تک یہی سلسلہ جاری و ساری ہے۔

  • حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا علیہ السلام نے ملک شام کے لئے فرمایا:

أتدری ما يقول اﷲ فی الشام؟ إن اﷲ يقول: يا شام! أنت صَفْوَتِيْ من بلادي.

’’جانتے ہو کہ اللہ نے شام کے بارے میں کیا کہا؟ (پھر آقا علیہ السلام نے خود جواب دیا:) بے شک اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: اے شام! تو میرے شہروں میں سے میرا منتخب شہر ہے۔‘‘

(هيثمی، مجمع الزوائد، 10: 58)

ملک شام کو آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صوفی، صافی منتخب شہر قرار دیا۔

  • عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

إني أختار لک الشام، فإنه خيرة المسلمين وصَفْوَة اﷲ من بلادهِ، يجتبی إليها صَفْوَتَهُ من خلقهِ.

گویا شہروں میں سے صَفْوَۃ سے مراد شام اور بندوں میں سے صَفْوَۃ سے مراد صوفیاء ہیں۔ جو اس ملک میں مقیم ہوں گے۔ صفوۃ سے مراد صوفی اس لئے کہ اسی ملک شام کے حوالے سے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اسی ملک سے چالیس ابدال ہوں گے۔

(طبرانی، المعجم الکبير، 18: 251، رقم: 627)

صوفیاء کے رُوحانی مراحل

تصوف مرحلہ در مرحلہ سفر کرنے کا نام ہے۔ اس سفر کو سلوک اور مسافر کو سالک کہتے ہیں۔ گویا صوفی سفر کرتا رہتا ہے، جامد نہیں رہتا۔ایک سالک/ صوفی درج ذیل روحانی مراحل سے گزرتا ہے:

  1. تَزْکِيَة:

پہلا مرحلہ تزکیہ ہے۔ یہ نفس کا سفر ہے۔ اس میں حیوانی خصلتیں، روحانی خصلتوں میں بدل جاتی ہیں۔ حیوانی خصلتوں کے نتیجہ میں قتل و غارت گری اور دہشت گردی جنم لیتی ہے لیکن جب تزکیہ نفس سے روحانی خصلت آجاتی ہے تو پیار، محبت اور برداشت کے رویے جنم لیتے ہیں۔ گویا سلوک و تصوف کے پہلے سفر کا آغاز بھی اَمن ہی سے ہوتا ہے۔

  1. تَصْفِيَة:

دوسرا مرحلہ تصفیہ ہے۔ تصفیہ دل کا سفر ہے۔ اس سفر میں دل صاف ہوجاتا ہے اور دنیا کے تمام اَفکار اور رنج و غم کے زنگار سے آزاد ہو جاتا ہے۔

  1. تَخْلِيَة:

تیسرا مرحلہ باطن کا سفر ہے، اس کو تخلیہ کہتے ہیں۔ تخلیہ میں بندہ اپنے باطن سے نہ صرف ہر غیر کو نکال دیتا ہے بلکہ ماسوی اﷲ کی خواہش سے بھی دل کو پاک کر لیتا ہے۔ یہ خلوت ہے۔ یہ مرحلہ دل کو خلوت کدہ بنا دیتا ہے اور انسان زبانِ حال سے پکار اٹھتاہے:

ہر تمنا دل سے رُخصت ہوگئی
اب تو آجا، اب تو خلوت ہوگئی

گویا دل کو محبوبِ حقیقی کا خلوت کدہ بنا دینا تخلیہ ہے۔

  1. تَحْلِيَة:

سلوک و تصوف کی راہ میں چوتھا مرحلہ تحلیہ ہے۔ اس مرحلہ میں سالک/ صوفی اپنے اِنسانی اَوصاف سے نکل جاتا ہے اور ربانی اَوصاف میں داخل ہو جاتا ہے۔ سالک جو جو صفات رب کی دیکھتا ہے، اس کی اپنی وہ صفت ہٹتی جاتی ہے اور رب کی صفت کا رنگ اس پر چڑھتا جاتا ہے۔ اس کو تحلیہ کہتے ہیں۔ یہ حِلیہ سے ہے۔ حِلیہ زیور کو بھی کہتے ہیں۔ جب زیور دلہن کو پہناتے ہیں تو اُس کا دلہن ہونا چمک اٹھتا ہے۔ اسی طرح جب رب کے اوصاف کا رنگ صوفی پر چڑھتا ہے تو اس کا باطن چمک اٹھتا ہے اور جس کا قلب صاف ہو جائے، چمک جائے، وہ ولی ہوتا ہے۔

رب جس طرح ہر ایک کی پرورش کرتا ہے، اس مرحلہ میں صوفی بھی اسی وصف کا فیض لیتے ہوئے ہر ایک کو پالتا ہے۔ رب جیسے ہر ایک کو دیتا ہے، اُسی طرح صوفی بھی لینے والا نہیں ہوتا بلکہ دینے والا ہوتا ہے۔ صوفی مانگتا نہیں بلکہ بانٹتا ہے۔ صوفی عطا کرنے والا، بے نیاز اور پیار و محبت کو بانٹنے والا ہوتا ہے۔ اس لئے کہ وہ تحلیہ کے ذریعے رب کے اوصاف میں رنگا جاتا ہے۔

  1. تَجْلِيَة:

ربانی اوصاف میں رنگنے کے بعد صوفی/ سالک پانچویں مرحلہ تجلیہ میں داخل ہوجاتا ہے۔ اس مرحلہ میں بندے کے قلب و باطن پر اَنوار و تجلیات کا ورود ہوتا ہے۔ بندہ فرشی ہوتا ہے مگر اَنوار و تجلیات کے ورود سے من اور باطن میں عرشی بن جاتا ہے۔ یعنی فرش پر رہ کر عرش پر رہتا ہے۔

  1. اَلتَّدَلِّی:

صوفی چھٹا مرحلہ اَلتَّدَلِّی میں داخل ہوتا ہے۔ یہ مقام عروج ہے۔ صوفی عروج پر جاتا ہے اور اِس مرحلے میں اسے اللہ کی قربتِ خاصہ نصیب ہو جاتی ہے۔ اس مقام پر صوفی کو دَنٰی فَتَدَلّٰی کا فیض ملتا ہے۔

  1. اَلتَّدَنِّی:

صوفی دَنٰی فَتَدَلّٰیکا فیض سمیٹنے کے بعد ساتویں مرحلہ اَلتَّدَنِّی میں داخل ہوتا ہے۔ بعض تَدَانِی بھی لکھتے ہیں۔ اس مقام پر اُس کی مقربیت کامل ہو جاتی ہے اور بارگاہ الٰہی میں اُس کی قربت کا سفر بھی تکمیل کو جا پہنچتا ہے۔ گویا اس مقام پر اسے قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰی کافیض ملتا ہے۔

  1. اَلتَّرَقِّی:

تدنی کے بعد صوفی الترقی کے مرحلہ میں داخل ہوتا ہے۔ اس مرحلہ میں ہر لمحہ اُس کا حال اور مقام بدلتا رہتا ہے۔ اس مرحلہ میں وہ ایک جگہ پر نہیں رہتا بلکہ قربِ الٰہی، عشقِ الٰہی، محبتِ الٰہی، اطاعتِ الٰہی اور معرفتِ الٰہی میں ہر لمحہ اُس کا مقام اور حال بدلتا ہے اور ترقی پذیر رہتا ہے۔ پھر اُس کو کوئی تھام نہیں سکتا۔ ہر لمحہ اُس کے تنقلِ اَحوال (بدلتے رہنا) کی وجہ سے اس عالم کو ترقی کہتے ہیں یعنی اب وہ ترقی کے راستے پر گامزن ہے۔

  1. اَلتَّلَقِّی:

اس روحانی سفر میں مراحل طے کرتے کرتے صوفی اپنے نویں مرحلہ اَلتَّلَقِّی میں داخل ہوتا ہے۔ جہاں وہ براہِ راست رب سے سنتا ہے اور اُس کی عطا، کشف اور اِلہامات لیتا ہے۔ نتیجتاً صوفی کی زبان سے حق بولتا ہے، اُس کے دل سے حق نکلتا ہے۔ وہ تلقی یعنی براہِ راست رب سے اخذ کرتا ہے۔

  1. اَلتَّوَلِّی:

اس مرحلہ سفر میں بندہ رب سے سب کچھ وصول کر کے اپنے آپ میں پلٹ آتا ہے۔ اس آخری مرحلہ کو اَلتَّوَلِّی کہتے ہیں۔ اس مرحلہ میں رب اُس کا متولی ہو جاتا ہے۔ رب اُس کے ہاتھ بن جاتا ہے جس سے وہ پکڑتا ہے۔۔۔ رب اُس کی زبان بن جاتا ہے جس سے وہ بولتا ہے۔۔۔ رب اُس کی آنکھ بن جاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے۔۔۔ رب اُس کے کان بن جاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے۔۔۔ رب اُس کا دل بن جاتا ہے جس سے وہ چاہتا ہے۔۔۔ الغرض وہ مکمل طور پر رب کی نگرانی میں آجاتا ہے۔

ان سارے مقامات میں کہیں ہمیں غیض و غضب نظر نہیں آیا۔ ان سارے دس اسفار میں کہیں غصہ، نفرت، سختی نہیں آئی بلکہ ہر وقت سفر سوئے جمال ہے۔ سفر بسوئے رحمت ہے، سفر بسوئے قربت ہے۔ یاد رکھ لیں جو مولیٰ کے قریب ہو جاتے ہیں اور جو اس کی قربت کا مزہ چکھ لیتے ہیں، قربت کے تالاب سے پی لیتے ہیں وہ اوروں کو بھی قریب کرتے ہیں۔ چونکہ خود قربت کا لطف لیتے ہیں سو ہر ایک کو قریب کرتے ہیں اور دوریاں مٹا دیتے ہیں۔جو لوگ خود جڑ جاتے ہیں وہ اللہ کی ساری مخلوق کو جوڑے رکھتے ہیں۔

روحانیت کے تین وسائط

اس سارے روحانی سفر میں تین وسائط tools استعمال ہوتے ہیں:

  1. شریعت
  2. طریقت
  3. حقیقت
  • شریعت: زندگی میں اِعتدال کا نام شریعت ہے۔
  • طریقت: اپنے نفس سے اِنفصال کا نام طریقت ہے۔
  • حقیقت: محبوب سے اِتصال کا نام حقیقت ہے۔

بالفاظِ دیگر:

  • شریعت: راہِ حق پر عمل پیرا ہونے کا نام ہے۔
  • طریقت: خود سے جدا ہو جانے کا نام ہے۔
  • حقیقت: واصلِ خدا ہو جانے کا نام ہے۔

صوفی جب درج بالا روحانی مراحل سے گزرتا ہے اور تین وسائطِ روحانیت کو اختیار کرتا ہے تو یہ سلوک و تصوف اَخلاق کو عمدگی دیتا ہے۔۔۔ حوصلوں کو بلندی دیتا ہے۔۔۔ ارادوں کو پختگی دیتا ہے۔۔۔ معاملات کو درستگی دیتا ہے۔۔۔ مایوسیوں کو ختم کرتا ہے۔۔۔ یقین اور اعتماد کو استحکام دیتا ہے۔۔۔ اَعمال کو طہارت دیتا ہے۔۔۔ اَحوال کو عظمت دیتا ہے۔۔۔ اور مقامات کو سکونت دیتا ہے۔

صوفیاء کا جداگانہ ’’قال، حال، عمل‘‘

تصوف جس میں بس جائے اُس کی زندگی کا حال بدل جاتا ہے۔ اُس کا مقال (بولنے کا انداز) بدل جاتا ہے۔ اُس کے برتاؤ کے طریقے بدل جاتے ہیں۔ صوفی کی بولی عام لوگوں کی بولیوں سے کتنی مختلف ہوجاتی ہے۔ آیئے تاریخ کے اوراق سے اسے سمجھتے ہیں:

جب چنگیز خان اور ہلاکو خان کی فوجیں بغداد کو تاخت و تاراج کررہی تھیں، قتل و غارت گری تھی، خون بہایا جارہا تھا، اُس وقت کی بات ہے کہ ایک خراسانی بزرگ جو سلسلہ عالیہ قادریہ سے نسبت رکھتے تھے، اشارہء غیبی کے تحت ہلاکو خان کے بیٹے تگودار خان کو دعوتِ اسلام دینے کے لیے تشریف لائے۔ وہ شکار سے واپس آ رہا تھا۔ اپنے محل کے دروازے پر ایک درویش کو دیکھ کر اس نے ازراہِ تمسخر پوچھا:

’’اے درویش، تمہاری داڑھی کے بال اچھے ہیں یا میرے کتے کی دم‘‘؟

اس بیہودہ سوال پر آپ قطعاً برہم نہ ہوئے۔ بڑے تحمل سے فرمایا:

’’اگر میں جانثاری اور وفاداری سے اپنے مالک کی خوشنودی حاصل کر لوں تو میر داڑھی کے بال اچھے ہیں، ورنہ کے کتے کی دم اچھی ہے جو آپ کی فرمانبرداری کرتا ہے اور آپ کے لیے شکار کی خدمت انجام دیتا ہے‘‘۔

تگودار خان اس غیرمتوقع جواب سے بہت متاثر ہوا اور آپ کو مہمان کی حیثیت سے ٹھہرایا اور آپ کی تبلیغ سے درپردہ اسلام قبول کر لیا۔

تگودار خان کا سوال انتہائی سخت تھا، اگر یہ سوال کسی خشک اور انتہا پسند ملّا سے کر دیں تو وہ تو سر پھوڑ دیتا، جھگڑا ہوتا اور شہید ہو جاتا۔ مگر صوفیاء کے رنگ ڈھنگ الگ ہوتے ہیں، ان کے بات کرنے کے طریقے اور فہم و مقام بدل جاتا ہے۔ صوفی جب بات کرتا ہے تو دلوں کی کایا پلٹ دیتا ہے۔ اس لیے کہ وہ سختی سے نہیں بلکہ نگاہ سے اور محبت و پیار کی زبان سے احوال بدلتا ہے اور یہی تصوف ہے۔

صوفی کس طرح حال بدلتا ہے؟

صوفی کس طرح حال بدلتا ہے؟ صوفی کا شعار اور روش کیا ہے جس سے پتہ چلے کہ صوفی کون ہے؟ صوفیاء کے امام ابو عبد الرحمن السلمی رحمۃ اللہ علیہ (امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ، حضور داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے دادا شیخ) اپنی کتاب الفتوۃ میں صوفیاء کی روشِ زندگی اور لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے کے حوالے سے فرماتے ہیں:

ابوبکر الحلبی نے روایت کیا کہ ہم حضرت شیخ معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ دریائے دجلہ کے کنارے بیٹھے تھے کہ اچانک وہاں سے کچھ نوجوان گزرے جو گانا بجانا کر رہے تھے، شراب پی رہے تھے، ناچ کود کر رہے تھے۔ حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کے مریدوں کو غصہ آگیا اور کہنے لگے کہ ’’حضرت! ہاتھ اٹھا کر ان ظالموں کے لیے بددعا کیجئے۔ یہ نوجوان آپ کے سامنے شراب پی رہے ہیں اور ناچ گانا کر رہے ہیں۔ انہیں ادب اور حیا نہیں۔ ان کے لیے بد دعا کیجئے‘‘۔ حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی:

إلٰهی وسيدی! أسئلک أن تفرحهم فی الآخرة کما فرحتهم فی الدنيا.

’’اے میرے مالک! ان کو آخرت میں بھی اسی طرح خوش رکھنا جس طرح دنیا میں خوش رکھا ہوا ہے‘‘۔

(السلمی، کتاب الفتوة: 60)

مریدوں نے جب یہ کلمات سنے تو ان کے دل بیٹھ گئے۔ انہوں نے کہا: حضور ہم نے بددعا کے لیے درخواست کی تھی کہ ان کا خاتمہ ہو جائے اور وہ برباد ہو جائیں لیکن آپ نے دعا دے دی۔ حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ مسکرا پڑے اور فرمایا: آخرت میں یہ اُسی صورت خوش ہوں گے جب دنیا میں اپنے ان احوال سے توبہ کرلیں گے اور اس کی جانب رجوع کریں گے۔ پس اگر اُس نے انہیں آخرت میں خوش رکھنے کا فیصلہ کر لیا تو انہیں دنیا میں توبہ کی توفیق دے گا اور ان کی توبہ ہو جائے گی۔

گویا صوفی ہر ایک کی توبہ، بخشش اور مغفرت کی فکر کرتا ہے۔ صوفی فنا کرنے کی بات نہیں کرتا بلکہ صوفی بقا دینے کی بات کرتا ہے۔

  • صوفی کا طرزِ عمل کیا ہوتا ہے؟ علامہ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ سلوۃ الاحزان میں بیان کرتے ہیں کہ صوفیاء کے امام اور امام اعظم کے ساتھی اور معاصر حضرت امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ دریائے دجلہ پر غسل کے لیے گئے۔ جمعہ کا دن تھا۔ کپڑے اتار کر رکھے اور غسل لینے لگے۔ اچانک ایک چور آیا اور آپ کے کپڑے لے اڑا۔ جب غسل کے بعد آپ نکلے تو کپڑے غائب تھے۔ پریشان بیٹھے ہی تھے کہ چور کپڑے لے کر واپس آگیا۔ اُس نے آپ کو کپڑے دیے اور کہا کہ میرا دایاں ہاتھ جس سے کپڑے چرائے تھے وہ فالج زدہ ہو گیا ہے۔ آپ نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی: میرے مولیٰ! جس طرح تو نے میرے کپڑے واپس فرما دیے ہیں اس طرح اس چور کے ہاتھ کی صحت بھی واپس کر دے۔ آپ کی دعا سے اس کا ہاتھ صحت مند ہوگیا۔

پس صوفی چوری کو نہیں دیکھتے بلکہ اُس کی پریشانی کو دیکھتے ہیں۔ یہ وہ انداز ہے جس انداز کے ذریعے صوفیاء مخلوقِ خدا کے ساتھ معاملات کرتے ہیں۔ ان کا بولنا، کرنا اور ہر معاملہ دوسرے لوگوں سے جدا ہوتا ہے۔

صوفیاء کا منفرد فہم و ادراک

صوفیاء کا نہ صرف قال، حال اور عمل منفرد ہوتا ہے بلکہ ان کا فہم و اِدراک بھی جدا ہوتا ہے۔ وہ حقائق و واقعات سے الگ معانی اخذ کرتے ہیں۔ ایسے معانی اخذ کرتے ہیں جو دوسرے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتے۔ صفائے قلب اور تطہیرِ باطن کے بعد اُن کے اَذہان و اَفہام، قلوب و اَفکار اور توجہات بدل جاتی ہیں۔ وہ ہر شے میں ذاتِ حق کو دیکھتے ہیں۔ اللہ کی بارگاہ سے جڑے رہتے ہیں، اُن کی توجہ رب کی طرف مرکوز رہتی ہے۔ وہ صرف رب کو تلاش کرتے ہیں اور ہر شے میں اُسی رب کو پاتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ ہمیشہ امن اور شانتی میں رہتے ہیں۔

یہ بات توجہ طلب ہے کہ غیر کا دھیان چونکہ دل میں غبار اور آلودگی لاتا ہے، لہذا وہ اس غبار کو ختم کرتے ہیں۔ اگر مولیٰ کا دھیان رہے اور غیر کا غبار نہ رہے تو اُس سے دل کو سکون اور قرار آتا ہے۔ سکون و قرار سے بندے میں سدھار آتا ہے۔ سدھار سے آسودگی آتی ہے۔ آسودگی ملے تو دل میں رب کا پیار آتا ہے۔ طبیعت میں آہنکار (تکبر و انانیت) نہیں رہتا بلکہ پیار اور اِنکسار آتا ہے۔ پھر شانتی آتی ہے۔ انسان کا وہار (behaviour) بدل جاتا ہے۔ بندے کا کردار بدل جاتا ہے اور اگر خدا سے تعلق اور پیار نہ ہو، دل خدا سے نہ جڑے تو پھر وِیوہار (سلوک، اَخلاق) اَہنکار (غرور اور تکبر) کے ذریعے بدل کر دُر وِیوہار (بد سلوک، بد اَخلاق) ہو جاتا ہے۔ اَہنکار (غرور اور تکبر) بندے کو دُر وِیوہار (بد سلوکی، بد اَخلاقی) دے دیتا ہے۔ تصوف آجائے تو بندہ نیک وِیوہار (حسنِ سلوک، خوش اَخلاقی) کا مالک ہوتا ہے۔ اگر تصوف نکل جائے تو بندہ دُر وِیوہار (بد سلوکی، بد اَخلاقی) کا مالک ہوتا ہے۔ یہ صوفی واد کا طریقہ ہے۔ صوفی واد پہ چلو گے تو پھر آتنک واد (دہشت گردی) ختم ہوگی۔ صوفی ازم اور روحانیت پر عمل پیرا ہونے سے ہی رویے بدلیں گے۔

  • صوفیاء ہر شے سے اپنے یار کی بات کو نکالتے ہیں۔ ہر آواز سے اپنے مولیٰ کو دیکھتے سنتے ہیں۔ امام ابن زروق المالکی نے لکھا کہ مولیٰ علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کے ہمراہ کچھ اور صحابہ تھے۔ آپ نے ناقوس (ایک ساز) کی آواز سنی، تو فرمایا:

أتدرون ما يقول؟

’’تمہیں معلوم ہے یہ آواز کیا کہہ رہی ہے‘‘؟

انہوں نے کہا: معلوم نہیں، کسی کو سمجھ نہیں آئی۔ مولیٰ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ کہہ رہا ہے:

سبحان اﷲ حقًا حقا، إن المولیٰ صمد يبقٰی.

’’اللہ پاک ہے، وہ حق ہے، بے شک مولیٰ بے نیاز اور ہمیشہ رہنے والا ہے‘‘۔

ہر کوئی اُس کو ساز سمجھ رہا ہے مگر مولیٰ علی کے کان اُس کو یار کی آواز سمجھ رہے ہیں۔ گویا تصوف و روحانیت میں ذہن، آواز، سننے اور بولنے کا رنگ ڈھنگ بدل جاتا ہے۔

  • حضرت شیخ ابوبکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ ایک چشمے کے پاس سے گزرے۔ وہاں ایک سقہ (پانی پلانے والا ساقی) پانی پلا رہا تھا۔ ایک بھیڑ اس کے پاس کھڑی تھی، اُس نے آواز دی کہ سارے پی چکے:

ما بقی إلا واحدٌ.

’’اب صرف ایک بچا ہے‘‘۔

وہ بات کسی اور کی کر رہا تھا کہ صرف ایک رہ گیا ہے جس نے پانی پینا ہے۔ حضرت ابو بکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے جب یہ جملہ سنا تو آپ کی چیخ نکل گئی، آپ وجد میں آگئے اور کہا:

هل کان إلّا واحد؟

’’اگر سوائے ایک کے کوئی نہیں بچا تو کیا اُس ایک کے سوا بھی کوئی تھا‘‘؟

گویا بات کہیں کی ہوتی ہے، صوفی اس بات کو اپنے یار کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ خیر کی بات سے محبت اور محبوبِ حقیقی کی بات نکالتا ہے۔

  • صوفیاء آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس سنت سے اپنے لئے راہِ عمل لیتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بکری ذبح کی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا سارا گوشت تقسیم کر دیا؟ میں نے عرض کی: آقا! صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سارا تقسیم کر دیا صرف ایک ران/دستی اپنے لئے بچائی ہے۔ آپ نے فرمایا: جو تقسیم کردیا گیا وہ بچ گیا اور جو رہ گیا ہے وہ باقی نہیں بچا‘‘۔

ہماری سوچ یہ ہے کہ ہمارے نزدیک جو دے دیا جائے وہ چلا جاتا ہے، جو بچا لیا جائے اُس کو کہتے ہیں کہ بچ گیا۔ صوفیاء کے ہاں یہ ہے کہ جو دے دیا جائے وہ بچ جاتا ہے اور جو رکھ لیا جائے وہ چلا جاتا ہے۔

پیغام

صوفی کا دل تنگ نہیں ہوتا بلکہ سمندروں سے زیادہ وسیع ہوتا ہے۔ صوفی بارش سے کہیں زیادہ سخی ہوتا ہے۔ ساری کائنات صوفی کے دل کی وسعت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس لیے کہ صوفی کا دل اتنا وسیع ہے کہ اس میں خدا سما جاتا ہے۔ آئیے اس طرزِ عمل کو اپنائیں۔ صوفیاء کی ان تعلیمات کو عام کریں۔ صوفیاء کی انہی تعلیمات کو عام کرنے سے ہمارے روّیے، نظریے اور برتاؤ بدلیں گے۔

صوفیاء کے اسی روّیے کو اپنانے سے peaceful coexistence آئے گی۔ ISIS کا مقابلہ ہوگا۔ داعش اس دور کے سب سے بڑے دہشت گرد اور خوارج ہیں۔ وہ مسلمانوں کی نسلوں کو امریکہ، یورپ، عرب، عجم میں متاثر کر رہے ہیں۔ آقا e نے ISIS کے بارے میں پندرہ سو سال پہلے بتا دیا تھا۔ کل کتب حدیث میں ہے اور شارحین ائمہ قسطلانی، ابن بطال، امام عسقلانی، عینی، قرطبی، قاضی عیاض ہر ایک محدث نے اسے بیان کیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد نبوی میں بیٹھ کر عراق کے صحرا کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: عراق کی طرف سے ایک شیطانی گروہ اٹھے گا:

إِذَا رَاَيْتُمُ الرَّايَاتِ السُّودَ، فَالْزَمُوا الْاَرْضَ فَلَا تُحَرِّکُوا اَيْدِيَکُمْ، وَلَا اَرْجُلَکُمْ. ثُمَّ يَظْهَرُ قَوْمٌ ضُعَفَاءُ لَا يُؤْبَهُ لَهُمْ، قُلُوبُهُمْ کَزُبَرِ الْـحَدِيدِ، هُمْ اَصْحَابُ الدَّوْلَةِ، لَا يَفُونَ بِعَهْدٍ وَلَا مِيثَاقٍ، يَدْعُونَ إِلَی الْـحَقِّ وَلَيْسُوا مِنْ اَهْلِهِ، اَسْمَـاؤُهُمُ الْکُنٰی، وَنِسْبَتُهُمُ الْقُرٰی، وَشُعُورُهُمْ مُرْخَاةٌ کَشُعُورِ النِّسَاءِ، حَتّٰی يَخْتَلِفُوا فِيمَا بَيْنَهُمْ، ثُمَّ يُؤْتِی اﷲُ الْـحَقَّ مَنْ يَشَاءُ.

(نعيم بن حماد المروزی، کتاب الفتن، 1: 210، رقم:573)

’’جب تم سیاہ جھنڈوں کو دیکھو (کہ ایک لشکر سیاہ رنگ کے جھنڈے اٹھائے ہوئے ہے They [ISIS Kharijites] would have black flags as their group identity) تو جہاں پر ہو وہیں ٹھہر جاؤ اور کوئی اقدام نہ کرو، اس کے بعد ایک دہشت گرد گروپ ظاہر ہوگا۔ جس کے افراد شروع میں کچھ کم ہوں گے یا کمزور نظر آئیں گے تاکہ کوئی ان پر توجہ نہ دے (یعنی اسے امن انسانیت کے لیے بڑا خطرہ نہیں سمجھیں گے، وہ اپنی پوری افرادی قوت کو شروع میں ایک دم ظاہر نہیں کریں گے۔ یہ ان کی عسکری حکمت عملی ہوگی پھر تدریجاً ان کی قوت بڑھتی جائے گی۔ لوگ آ آکر ملتے جائیں گے اور یوں ان کے لشکر کی تعداد خاصی بڑھ جائے گی)۔ ان کے دل لوہے کے بڑے بڑے ٹکڑوں کی طرح سخت ہوں گے (یعنی انتہائی بے رحم اور سفاک ہوں گے)۔ وہ اصحاب الدولہ کہلوائیں گے۔ (یعنی Islamic State کے دعوے دار ہوں گے۔ They would claim to be the founders of Islamic State. داعش کا معنی کیا ہے؟ دولة الإسلامية فی العراق والشام اس سے داعش بنا ہے۔) وہ کسی قول اور عہد و پیمان کے پابند نہیں ہوں گے، ظاہراً حق کی دعوت دیں گے لیکن حقیقت میں (اَہلِ حق) میں سے نہیں ہوں گے۔ ان کے نام، ان کی کنیت اور ان کی نسبت ان کے شہروں کی طرف ہوگی اور خواتین کی طرح ان کے بال لمبے لمبے اور گھنے ہوں گے یہاں تک کہ ان کے درمیان اختلاف پیدا ہو جائے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالی اہل حق میں سے جس کو چاہے گا ظاہر کرے گا‘‘۔

دوسری حدیث مبارکہ میں ہے کہ یہ لوگ شام میں داخل ہوں گے۔ شام پر قبضہ کریں گے۔ شام میں civil war کے ذریعے تقسیم کریں گے۔ عراق کو برباد کریں گے۔ حتیٰ کہ شام کے لوگ اپنا ملک چھوڑ کر مہاجر ہو جائیں گے۔

عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ اَبِی ذَرٍّ عَنِ النَّبِیِّ قَالَ: اَوَّلُ الْـخَرَابِ بِمِصْرَ وَالْعِرَاقِ، فَإِذَا بَلَغَ الْبِنَاءُ لِسَلْعٍ فَعَلَيْکَ يَا أَبَا ذَرٍّ بِالشَّامِ. قُلْتُ: وَإِنْ أَخْرَجُونِی مِنْهَا؟ قَالَ: انْسَقْ لَهُمْ أَيْنَ سَاقُوکَ.

’’حضرت قتادہ حضرت ابوذر سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے پہلی خرابی مصر اور عراق میں پیدا ہوگی پس جب یہ خرابی سلع (مدینہ میں موجود ایک چھوٹی پہاڑی) تک پہنچ جائے تو اے ابوذر شام چلے جانا۔ حضرت ابوذر نے عرض کیا کہ اگر انہوں نے مجھے شام سے بھی نکال دیا تو؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اُدھر چلے جانا جس طرح وہ تمہیں بھیجیں‘‘۔

(نعيم بن حماد المروزی، کتاب الفتن، 1: 248، رقم: 710)

ایک اور مقام پر فرمایا: پوری دنیا سے نوجوان، گرے ہوئے لوگ مفرور، ناسمجھ بچے عرب بھی اور غیر عرب بھی دوڑ کر اس داعش کے فتنہ میں شامل ہوں گے۔ حدیث مبارکہ کے الفاظ ہیں: مُرَّاقُ الْآفَاقِ۔

(نعيم بن حماد المروزی، کتاب الفتن، 1: 212، رقم: 570)

’’پوری دنیا سے بھاگ بھاگ کے نوجوان اس فتنے میں شامل ہوں گے‘‘۔ فرمایا: ’’یہ فتنہ ہر عرب غیر عرب کے گھر میں داخل ہو جائے گا۔ خوف و ہراس ہر سمت طاری ہو جائے گا۔ یہ فتنہ کفر کا فتنہ ہو گا‘‘۔

آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کی روشنی میں آج ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ ISIS کا فتنہ کفر ہے۔ اس کا اسلام، عالم اسلام اور امت مسلمہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے خلاف جنگ لڑنا اور اس کی جڑوں تک کو کاٹ دینا حکمِ محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور یہی اسلام کی تعلیمات ہیں۔ یہ عالمی فتنہ ہے۔ ریاستیں اور حکومتیں مل کر اِس عالمی فتنے کا خاتمہ کریں۔ اس پر مل جل کر ایک پالیسی اختیار کی جائے۔ تصوف کی تعلیمات کو عام کیا جائے۔ ذہن بدلنے کے لیے، دین کی اصل تعلیمات اور امن کا تصور سمجھایا اور پڑھایا جائے۔ اس فتنے کا خاتمہ پوری قوت کے ساتھ ایک ہو کر کیا جائے۔ یہ عالم انسانیت کی جنگ ہے، صرف اسلام کی نہیں۔ یہ تمام ممالک اور انسانی معاشروں کی جنگ ہے۔ اس دہشت گردی کے فتنے کو کچلنے کے لیے ہم سب طبقاتِ انسانیت کو ایک ہونا ہو گا۔

اللہ رب العزت ہمیں کامیابی و کامرانی عطا کرے اور لوگوں کے دل، روّیے، نظریے بدلنے اور صوفیاء و اولیاء کی تعلیمات کو عام کرنے کے لئے ہمیں اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق و ہمت عطا فرمائے۔