تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام 25 واں سالانہ شہر اعتکاف 2016ء

تزکیہ نفس، فہم دین، اصلاح احوال، توبہ اور آنسوؤں کی بستی

’’تقویٰ، حسنِ خلق اور ادب‘‘ پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے علمی، فکری اور اصلاحی خطابات

رپورٹ: محمد یوسف منہاجین

معاون: محمد شعیب بزمی

ماہ رمضان المبارک کی پر نور ساعتوں میں تجدید و احیائے اسلام کی عالمی تحریک، تحریک منہاج القرآن کو حرمین شریفین کے بعد دنیا کے سب سے بڑے اجتماعی اعتکاف کے انعقاد کی سعادت حاصل ہے۔ یہ شہر اعتکاف حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی قربت اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کی سرپرستی میں معتکفین کے لئے تعلیم و تربیت کا سامان اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتا ہے۔ تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام اجتماعی اعتکاف میں دس دن منظم انداز میں پرکیف تلاوت، ذکر و اذکار، نعت خوانی، درس و تدریس کے حلقہ جات، نوافل اور اجتماعی و انفرادی وظائف کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ شہر اعتکاف میں ہر سطح کے تحریکی کارکنان اور عوام الناس کی کثیر تعداد شریک ہوتی ہے۔ جن کی فکری و نظریاتی، اخلاقی و روحانی اور تنظیمی و انتظامی تربیت کا بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ وہ مزید بہتر انداز میں دین اسلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو تیار کرسکیں۔ امسال بھی 26 جون 2016ء سے تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام 25 واں سالانہ اجتماعی اعتکاف کا انعقاد کیا گیا جس میں اندرون و بیرون ملک سے ہزاروں خواتین و حضرات نے شرکت کی۔ شہر اعتکاف میں مختلف مواقع پر زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیا ت، مشائخ عظام، علماء کرام، وکلاء اور صحافی حضرات بھی خصوصی شرکت کرتے رہے۔

تحریک منہاج القرآن کی جملہ نظامتوں اور فورمز پر مبنی 50 سے زائد انتظامی کمیٹیوں نے ناظم اعلیٰ و سربراہ شہر اعتکاف محترم خرم نواز گنڈا پور، محترم احمد نواز انجم (نائب ناظم اعلیٰ)، محترم جی ایم ملک (ناظم امور خارجہ)، ناظم اجتماعات و سیکرٹری شہر اعتکاف محترم جواد حامد اور مرکزی کمیٹی کے دیگر معزز ارکان کی نگرانی میں شہر اعتکاف کے انتظامی امور میں اہم کردار ادا کیا۔ ان تمام امور کی سرپرستی اور نگرانی براہ راست محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے فرمائی جن کی براہ راست راہنمائی جملہ ذمہ داران کو حاصل رہی۔ شدید گرمی اور سخت موسم کے باوجود معتکفین نے بھرپور مذہبی جوش و خروش سے اس شہر اعتکاف میں شرکت کی۔ تحریک کی جملہ نظامتوں، فورمز، منہاج القرآن یوتھ لیگ، مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ، منہاج القرآن علماء کونسل، منہاج القرآن ویمن لیگ، پاکستان عوامی تحریک اور جملہ شعبہ جات نے اپنی ذمہ داریوں کو احسن طور پر سرانجام دیا۔ اس 25 ویں سالانہ شہر اعتکاف کی تفصیلی رپورٹ نذرِ قارئین ہے:

معتکفین کے معمولات

معتکفین نے شہر اعتکاف میں درج ذیل معمولات میں انفرادی و اجتماعی حیثیت سے شرکت کی:

  1. انفرادی معمولات: شہر اعتکاف میں شریک معتکفین کی علمی و روحانی تربیت اور اصلاح احوال کے لئے باقاعدہ ایک نظام کی شکل میں انفرادی معمولات کو بھی منظم کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں معتکفین تہجد، انفرادی و اجتماعی وظائف و تسبیحات، نماز اشراق، نماز چاشت، نماز اوابین، دیگر نوافل اور حلقہ ہائے درود کے ذریعے اپنے باطن کو منور کرنے اور اعتکاف کی برکات کے حصول میں کمر بستہ نظر آتے ہیں۔
  2. تربیتی حلقہ جات کا انعقاد: شہر اعتکاف میں باقاعدہ تربیتی حلقہ جات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ نظامت تربیت نے معتکفین کی علمی و فکری تربیت کے لئے قرآن مجید، منتخب احادیث، عبادات و عقائد، اخلاق حسنہ اور فقہی مسائل پر مشتمل باقاعدہ اسلامی تربیتی نصاب مرتب کیا ہے۔ ان تربیتی حلقہ جات میں نظامت دعوت کے ناظمین، منہاجینز اور کالج آف شریعہ (منہاج یونیورسٹی) کے طلبہ نے اس تربیتی نصاب کے مطابق معتکفین کی علمی و فکری تربیت کی۔
  3. فقہی مسائل کی نشست: تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام منعقدہ اس شہر اعتکاف میں ہر روز باقاعدہ فقہی مسائل کی تفہیم کے لئے نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں مفتی اعظم منہاج القرآن محترم المقام مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی نے معتکفین کے فقہی سوالات کے جوابات مرحمت فرمائے۔
  4. علمی، فکری اور تنظیمی نشستوں کا انعقاد: معتکفین کی علمی و فکری آبیاری اور فہم دین بھی تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام منعقدہ اس اجتماعی اعتکاف کا اہم خاصہ ہے۔ امسال بھی معتکفین کی علمی و فکری اور ذہنی استعداد کو مزید اجاگر کرنے کے لئے شہر اعتکاف میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے معمول کے خطابات کے علاوہ بھی علمی و فکری نشستوں میں اظہار خیال فرمایا۔ علاوہ ازیں محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری اور تحریک کی اعلیٰ قیادت نے بھی مختلف حوالوں سے فکری، نظریاتی اور تربیتی امور پر اظہار خیال کیا۔ اس سلسلہ میں:
  • شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے منہاجینز، MSM، P صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمT، منہاج القرآن ویمن لیگ، منہاج ایجوکیشن سوسائٹی، جنوبی پنجاب، شمالی و سنٹرل پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے معتکفین سے الگ الگ نشستیں کیں اور اظہار خیال فرمایا۔
  • منہاج القرآن یوتھ لیگ کے زیر اہتام اعتکاف میں شریک نوجوانوں کے لئے منعقدہ علمی و فکری نشستوں سے محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، محترم خرم نواز گنڈا پور، محترم احمد نواز انجم، محترم تنویر احمد خان، محترم سردار شاکر مزاری، محترم ساجد محمود بھٹی، محترم مظہر محمود علوی، محترم قاسم منصور اور دیگر مرکزی قائدین نے اظہار خیال کیا۔
  • مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے زیر اہتمام طلبہ کی علمی و فکری آبیاری کے لئے منعقدہ نشستوں سے محترم چوھدری عرفان یوسف، محترم تنویر احمد خان، محترم ابراہیم سیاوش، محترم ملک سعید عالم، محترم رانا تجمل حسین، محترم ہارون ثانی اور دیگر نے اظہار خیال کیا۔
  1. خطابات شیخ الاسلام: معتکفین کے لئے شیخ الاسلام کے خطابات اس اعتکاف کا ماحصل ہوتے ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے علمی، روحانی، تربیتی، تنظیمی امور میں رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ امسال شیخ الاسلام نے معتکفین کی علمی و روحانی آبیاری کے لئے ’’حسنِ اخلاق‘‘ کے موضوع پر مبنی درج ذیل عنوانات پر اظہار خیال فرمایا:
  • علوم نبوت کے امین سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم
  • توفیق الہٰی، تقویٰ اور حسن خلق
  • اخوت، رفاقت اور حسن خلق
  • تعلق مع اللہ کی حقیقت اور حسن خلق
  • ہمارا مشرب وصل ہے، فصل نہیں (حسن رفاقت اور حسن خلق)
  • تعلق باللہ اور معرفتِ الہٰیہ
  • حسنِ ادب اور حسنِ خلق
  • اخلاق کیسے سنواریں؟

بعد از نمازِ تراویح معمولات شہرِ اعتکاف

شہر اعتکاف کے روزانہ معمولات میں سب سے زیادہ اہمیت کے حامل شیخ الاسلام کے علمی و فکری خطابات تھے۔ روزانہ بعد از نماز تراویح ہونے والے پروگرامز اور شیخ الاسلام کے خطابات کا خلاصہ ذیل میں نذرِ قارئین کیا جارہا ہے:

  1. 20 رمضان المبارک 1437ھ/ 26 جون 2016ء (اتوار)

نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور ناظم اعلیٰ و سربراہ شہر اعتکاف محترم خرم نواز گنڈا پور نے معتکفین کو خوش آمدید کہا۔ اس موقع پر محترم ناظم اعلیٰ نے معتکفین کو اعتکاف کے معمولات کے شیڈول سے آگاہ کرتے ہوئے اعتکاف کے نظم و نسق کی مزید بہتری کے لئے ہدایات جاری کیں۔

نماز عشاء و نماز تراویح کے بعد 25 ویں سالانہ شہر اعتکاف کی پہلی طاق رات کی محفل کا آغاز تلاوت قرآن حکیم اور نعت رسول مقبول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، چیئرمین سپریم کونسل محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، صدر تحریک منہاج القرآن محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، شیخ الاسلام کے چھوٹے پوتے صاحبزادہ احمد مصطفی العربی، امیر تحریک محترم صاحبزادہ فیض الرحمن درانی، ناظم اعلیٰ محترم خرم نواز گنڈا پور، نائب ناظم اعلیٰ محترم احمدنواز انجم، ناظم امورِ خارجہ محترم جی ایم ملک اور جملہ مرکزی قائدین سٹیج پر تشریف فرما تھے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے باقاعدہ خطاب سے قبل اعتکاف کے اعلیٰ انتظامات پر سربراہ شہر اعتکاف محترم خرم نواز گنڈا پور، سیکرٹری اعتکاف محترم جواد حامد اور ان کی نگرانی میں قائم اعتکاف کی 50 سے زائد جملہ کمیٹیوں کے سربراہان، ممبران، مرکزی قائدین، سربراہان فورمز کو خصوصی مبارکباد دیتے ہوئے ڈھیروں دعاؤں سے نوازا۔ محفل نعت کے بعد شیخ الاسلام نے شہر اعتکاف سے اپنا پہلا خطاب ارشاد فرمایا:

خطاب شیخ الاسلام (موضوع: علوم نبوت کے امین سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم)

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآئَنَا وَاَبْنَآئَکُمْ وَنِسَآئَناَ وَنِسَآئَکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ قف ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اﷲِ عَلَی الْکٰذِبِيْنَ.

’’آپ فرما دیں کہ آجاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں، پھر ہم مباہلہ (یعنی گڑگڑا کر دعا) کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اﷲ کی لعنت بھیجتے ہیں ‘‘

(آل عمران: 61)

آج یعنی 21 رمضان المبارک کی رات سیدنا مولا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کرم اللہ وجہہ الکریم کی شہادت کی رات ہے۔ لہذا آج ہم ان کے مقام و مرتبہ کا تذکرہ کریں گے۔

اس آیت کریمہ میں مباہلہ کے لئے نجران سے مسیحی علماء کے وفد کی آمد کا تذکرہ ہے۔ اس آیت کے نزول پر حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا:

اللهم هولآء اهل بيتی

’’یا اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں‘‘

حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انفسنا کے تحت اپنے آپ کو اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو آگے کیا۔ نساء نا کے تحت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو آگے کیا اور ابناء نا کے تحت حسنین کریمین کو آگے کیا۔ پس انفسنا میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو اپنے ساتھ شامل کرکے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کو عظمت عطا کردی اور ان کے مقام و مرتبہ کو امت کے لئے واضح فرمادیا۔

مسیحی وفد صحابہ اور اہل بیت کی عظمت کو رد کرنے نہیں آئے تھے بلکہ نبوت و رسالت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رد کرنے آئے تھے، اسلام کی حقانیت کو چیلنج کرنے آئے تھے۔ چاہئے یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیتا کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اکیلے ان سے مباہلہ کریں۔ کیا آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُن پر بدعا کرنا کم تھا کہ جس کی کمی کو دور کرنے کے لئے باقی نفوس کو بھی اکٹھا کرنے کا حکم دیا؟ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تو کسی کو ساتھ ملانے کی حاجت نہ تھی، پھر بقیہ نفوس کو ساتھ لے جانے کا حکم کیوں دیا گیا؟ قرآن نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تنہا جانے کا حکم نہیں دیا بلکہ انفسنا کے تحت ایک ایسے نفس کو اپنے ساتھ لے جانے کا حکم دیا جس میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق و کردار کی جھلک نظر آئے۔ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں میں سے بھی ان کو ساتھ لے جانے کا حکم ہوا جن میں صورت و سیرت ہر اعتبار سے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جھلک نظر آئے۔ پس ذات محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مظہر اتم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں اس لئے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود اور نسل کا تسلسل حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے آگے قائم ہونا تھا، لہذا ان نفوس کو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ساتھ شامل کیا اور حکمِ الہٰی کی عملی تفسیر پیش کردی۔۔۔

ہمارے ملک میں خارجیت اور خارجی فکر نے ایک طرف ہماری نسلوں کے سیاسی نظریہ، تصور جہاد، تصور شہادت، تصورِ اعتدال کو تبدیل کیا ہے تو دوسری طرف عقیدہ پر بھی یہ فکر اثر انداز ہوئی ہے۔ اس انتہا پسندی کی وجہ سے فرقہ واریت بڑھی۔ تمام مسالک میں جہاں اختلافات ہیں وہاں ان کے اندر قربتوں کی حدیں بھی ہیں، یعنی اختلاف کے باوجود قربتیں بھی ہیں۔ جن قربتوں کو بڑھانے کی تحریک منہاج القرآن نے ہمیشہ کوشش کی۔ خارجی فکر نے ان قربتوں کو مٹاکر فاصلے اور نفرت بڑھادی جس کی وجہ سے تمام مسالک ایک دوسرے کو کافر سمجھنے لگ گئے۔

محبتِ اہل بیت وہ نقطہ تھی جہاں تمام مسالک آپس میں ملتے تھے۔ اہل سنت تمام خلفاء راشدین کو مانتے ہیں جبکہ اہل تشیع حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو مانتے ہیں۔ گویا ان دونوں کے درمیان اتفاق حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم پر ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی محبت و خلافت تمام مسالک میں مشترک ہے۔ خوارج نے انتہا پسندی کی دراڑ ڈال کر اس مشترک نقطہ کو بھی خراب کردیا۔ ان کے مطابق جو اہل بیت کی بات کرے اس کو شیعہ قرار دے دیا گیا حالانکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت ایمان کی علامت میں سے ہے۔

حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمنے فرمایا کہ سوائے مومن کے علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے محبت کوئی نہیں کرتا اور سوائے منافق کے علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے بغض کوئی نہیں کرتا۔ ۔

  • حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شان میں بہت سی احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے شیخ الاسلام نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے مقام علم پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

انا مدينة العلم وعلی بابها.

’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں‘‘

دوسری روایت میں ہے کہ

’’جس نے علم کے شہر میں آنا ہو وہ اس دروازے سے آئے‘‘

آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے علم کی خیرات کے حصول کا اصل طریقہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو بنایا کہ Proper chanel حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں۔ کوئی ولی اس وقت تک ولایت نہیں پاسکتا جب تک وہ بابِ علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے داخل نہ ہو۔

دوسری روایت میں ہے کہ اس شخص نے جھوٹ بولا جو یہ گمان کرے کہ وہ باب العلم (حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم) کے بغیر میرے علم کے شہر میں داخل ہوسکے گا۔

اللہ تعالیٰ نے علمِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے 10 حصے کئے اور اس میں سے 9 حصے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو عطا کئے، بقیہ 1 حصہ کو سب (امت) میں تقسیم کیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو حضور نے حبر ہذہ الامۃ اور ترجمان القرآن قرار دیا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ یہ تمام جو میں بیان کرتا ہوں یہ وہ ہے جو میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے سنا اور اُن سے اکتساب کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سلونی سلونی کی شان حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو حاصل تھی۔ صحابہ کرام میں سے کسی کی یہ شان نہ تھی کہ وہ اس طرح کہنے کی جسارت کرسکے کہ مجھ سے جو چاہو سوال کرو، میں تمہیں اس کا جواب دوں گا۔

الغرض اللہ تعالیٰ نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجلی عینی، تجلی علمی، تجلی خفی کا آئینہ و عکاس حضرت علی کو بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے سب سے زیادہ علمِ نبوی کو روایت کیا ہے۔ کتب میں موجود ہے کہ کس صحابی نے کتنی تعداد میں احادیث روایات کیں، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے 5374 احادیث روایات کیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر 2326 احادیث روایت کیں۔ حضرت انس 2286 احادیث روایت کیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 2210 احادیث روایت کیں۔ حضرت عبداللہ ابن عباس 1660 احادیث روایت کیں، حضرت جابر بن عبداللہ نے 1540 احادیث روایت کیں اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے بارے میں کتب میں یہ درج ہے کہ ان سے 3684 احادیث مروی ہیں۔

اس حوالے سے ایک انتہائی اہم بات آپ کو بتانا چاہتا ہوں اور یہ بات 12 صدیوں کے ذخیرہ علم میں بیان نہیں کی گئی اور وہ بات یہ ہے کہ تمام کتب حدیث کو کھنگالنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ حضرت علی کی مرویات کی تعداد 3684 نہیں۔ محققین نے اس کی صحیح تحقیق نہیں کی، اس سلسلہ میں مطالعہ و تحقیق کی مزید ضرورت تھی۔ آپ کرم اللہ وجہہ الکریم کی مرویات کی تعداد میری تحقیق کے مطابق 12 ہزار سے زائد ہیں۔ پوری صحاح ستہ میں جتنی روایات موجود ہیں، تنہا حضرت علی سے اتنی تعداد میں روایات مروی ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کے 9 حصے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو حاصل تھے۔ میں نے الحمدللہ تعالیٰ سالوں کی محنت سے ان تمام مرویات کو اکٹھا کرلیا ہے۔ ان شاء اللہ بہت جلد انہیں کتابی شکل میں شائع کردیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے فیوض سے مالا مال کرے اور ان کی محبت سے ہمارے دلوں کو منور کرے۔

  1. 21 رمضان المبارک 1437ھ/ 27 جون 2016ء (سوموار)

نماز عشاء اور نمازِ تراویح کے بعد تلاوت قرآن مجید اور نعتِ رسول مقبول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اعتکاف کی دوسری رات کی محفل کا آغاز ہوا۔ معتکفین کے علاوہ بھی کثیر تعداد میں لوگ شیخ الاسلام کے ملفوظات عالیہ کو سماعت کرنے اور اس روحانی بستی شہر اعتکاف سے اکتسابِ فیض حاصل کرنے کے لئے اعتکاف گاہ میں موجود تھے۔ شہر اعتکاف میں دن بھر انفرادی معمولات وعبادات کے ساتھ ساتھ اجتماعی طور پر تعلیم و تربیت کے حلقے جاری رہتے ہیں مگر شہر اعتکاف کی راتیں درحقیقت پورے اعتکاف کا ماحصل ہوتی ہیں جہاں معتکفین کی علمی، فکری اور روحانی تربیت کا سامان شیخ الاسلام کے خطابات کی صورت میں بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے۔ محفل نعت کے بعد شیخ الاسلام نے شہر اعتکاف سے اپنا دوسرا خطاب ارشاد فرمایا:

خطاب شیخ الاسلام (موضوع: توفیق الہٰی، تقویٰ اور حسن خلق)

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ.

(القلم: 4)

’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)‘‘۔

اس آیت میں درج ذیل چیزیں قابل غور ہیں:

  1. صیغہ خطاب میں بات کی جارہی ہے اور اس اسلوب میں بیان محبت سے زیادہ بیانِ حقیقت ہوتا ہے کیونکہ شان تربیت کا تقاضا یہی ہے۔
  2. چھوٹا اگر بڑے کو کہے کہ آپ کا خلق عظیم ہے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے مگر اگر بڑا اپنے سے چھوٹے کو کہے کہ آپ کا خلق عظیم ہے تو یہ بات بہت بڑی ہے۔
  3. خلق عظیم کا مطلب ہے کہ محبوب آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت بڑے ہیں۔

زندگی کا ہر گوشہ/ فعل/ عادت/ شخصیت و طبیعت اور عمل و فعل کا ہر پہلو اخلاق ہے۔ اخلاق، نماز سے زیادہ وسیع اصطلاح ہے۔ اخلاق سے خارج کوئی چیز نہیں۔ ہر چیز اخلاق میں موجود ہے اچھے اخلاق بھی ہوتے اور برے اخلاق بھی ہوتے ہیں۔ جب کہا جائے کہ آپ کا خلق عظیم ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ میں کوئی کمی/ کجی/ نقص ہے ہی نہیں۔ جس بھی حوالے سے دیکھیں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم عظیم ہی عظیم ہیں۔

اللہ اپنے حبیب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرمارہا ہے کہ آپ کی عادات/ طور طریقے/ اٹھنا بیٹھنا/ چلنا پھرنا/برتاؤ کرنا ہر چیز عظیم ہے۔ وہ ذات جو خود عظیم اور پاک ہے وہ یہ فرمارہا ہے کہ انک لعلی خلق عظیم۔ پورے قرآن میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کے سوا اللہ نے کسی کو عظیم نہیں کہا۔ یاد رکھیں کہ جس کا اخلاق سنور گیا وہ عظیم ہوگیا مگر افسوس کہ ہم اس پر توجہ نہیں کرتے۔

  • جملہ معتکفین و معتکفات یاد رکھ لیں کہ کوئی از خود اس شہر اعتکاف میں نہیں آیا۔ صرف وہی آیا/ آئی ہے جسے اللہ نے بلایا ہے۔ یہ یقین کرلیں کہ جس کو اللہ نے چنا اور جس کا ارادہ کیا اسی کو اس مجلس میں بھیجا ہے چنانچہ ہر ایک یہاں اللہ کی توفیق سے آیا ہے۔ اللہ نے آپ کا یہاں آنا کیوں مقدر کیا؟ یاد رکھیں اللہ کا چاہنا کسی مقصد کے تحت ہوتا ہے، بلا مقصد نہیں ہوتا۔اعتکاف کا سب سے بڑا مقصد یہاں آنا اور سنور کر جانا ہے۔ اگر سنور/ بدل کر نہیں جاتے تو اللہ کے امر اور بندے کی کاوش میں فرق آتا ہے۔ اگر کوئی سنور/ بدل کر نہیں جاتا تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ کی توفیق سے فیض نہیں لیا۔ ممکن ہے کہ توفیق الہٰی اس بندے سے منہ پھیر لے۔ اگر بدل/ سنور جائیں تو اللہ کی توفیق اس کے ساتھ جڑ جاتی ہے۔ پھر توفیق محافظ/ معاون/ مددگار ہوجاتی ہے اور مولیٰ کو کہتی ہے کہ اس بندے کو اور عطا کر۔

حضرت بایزید بسطامی فرماتے ہیں کہ میں شروع شروع میں تین چیزیں سوچا کرتا تھا کہ

  1. میں اللہ سے محبت کرتا ہوں۔
  2. میں اللہ کو طلب کرتا ہوں/ چاہتا ہوں۔
  3. میں اللہ کا ذکر کرتا ہوں۔

فرماتے ہیں کہ وقت آیا، پردے اٹھتے گئے اور یہ حقیقت مجھ پر آشکار ہوتی گئی کہ ان تینوں سوچوں میں میری غلطی تھی۔ میں نے دل کی آنکھوں سے دیکھا کہ پہلے اس نے مجھ سے محبت کی، اس کی محبت کی کرن نے مجھ میں محبت پیدا کردی اور اس کی محبت کی توفیق سے میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ اس نے مجھے پہلے چاہا، اس کی چاہت کے فیض سے میں بھی اس کو چاہنے لگا۔ اس نے پہلے میرا ذکر کیا، اس کی یاد سے میرا دل اس کو یاد کرنے کے قابل ہوا۔

اگر اللہ کا امر پہلے نہ ہو تو بندہ کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ جب اور جسے وہ چاہتا گیا وہ یہاں آتا گیا۔ لہذا سب اس کے حضور شکر گزار ہوں، سجدہ شکر بجا لائیں کہ اس نے بلالیا اور اس کے بلانے پر آگئے۔ سوال یہ ہے کہ رب نے بلایا اور اس نے اپنا دروازہ آپ کے لئے کھلا رکھا تو کیا خالی ہاتھ لٹانے کے لئے آپ کو بلایا؟ کیا کوئی سخی ایسا کرتا ہے کہ بلائے اور کچھ عطا نہ کرے؟ پس اس نے کچھ نہ کچھ دینے کے لئے بلایا ہے، وہ کیا دے گا؟ یہ اس پر چھوڑ دیں۔ اس لئے کہ سب سے بہترین طلب وہ ہے جو دینے والے پر چھوڑ دی جائے۔ وہ پوچھتا ہے کیامانگتے ہو؟ جواب دیا جائے کہ مولیٰ جو تو چاہے۔

حضرت داؤد علیہ السلام نے اللہ کو ایک دن عرض کیا: یارب انی اطلبک۔ اے اللہ میں تجھے طلب کرتا ہوں۔

اللہ نے فرمایا: اے داؤد تو پہلے قدم پر ہی مجھ سے جدا ہوگیا۔ عرض کیا: میں نے تو تجھے طلب کیا ہے؟ جدا کیسے ہوا؟ فرمایا: لانک جعلت طلب منک الیتو نے اپنی طلب کا رخ اپنی طرف سے میری طرف کیا۔ ولو جعلتہ منی الیک۔ اگر طلب کو بھی اپنی نہ رکھتا بلکہ میری بنادیتا تب تو مجھے پالیتا۔ پس اللہ تعالیٰ انبیاء کی شان کے مطابق ان کی تربیت بھی کرتا ہے، یہ اسی کی ایک مثال ہے۔

گویا طلب بھی وہ اعلیٰ ہے جو اپنی طلب بھی اس پر چھوڑ دے، یہی طلب حسین ہوتی ہے۔ پس یہاں جو آیا ہے اللہ کی طرف سے آیا ہے اور اللہ کی طرف آیا ہے۔ اس لئے اللہ کا مہمان ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ اس کی بارگاہ سے کچھ ایسا لے کر جائیں کہ جہاں رہیں اس کی طرف سے رہیں اور اس کی طرف رہیں۔ اس سے جدا نہ ہوں، اس سے جڑے رہیں۔

اس کی ابتداء و انتہاء، اخلاق کو بدلنے میں ہیں۔ ’’میں‘‘ کا ذکر اگر اللہ کو طلب کرنے کے بارے میں بھی آگیا تو اللہ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی بھی تربیت فرمادی۔ اس لئے کہ ’’میں‘‘ جدائی کرتی ہے اور ’’اُس‘‘ تک رسائی نہیں ہونے دیتی۔ ہمارے حالات کا دوزخ ہی یہ ہے کہ ہماری زندگی ’’میں‘‘ پر ہی گزر گئی، اسی لئے روحانی سفر طے نہیں ہوتا۔ اخلاق اس وقت تک سنور نہیں سکتا جب تک ’’میں‘‘ کو نہ نکالا جائے۔

کوئی قاری/ نعت خوان/ مقرر/ عالم ہے تو ساری زندگی اس زعم سے نہیں نکلتا کہ ’’میں‘‘ تو اس اعلیٰ مقام پر ہوں۔ ہماری زندگی ’’میں‘‘ سے شروع ہوتی ہے اور ’’میں‘‘ ’’میں‘‘ کرتی ختم ہوجاتی ہے۔ افسوس! ’’میں‘‘ سے ناداں نکلتا تو ’’اُس‘‘ کی بھی خبر ہوتی۔ پس اسی وجہ سے ہم روحانی اعتبار سے وہیں کھڑے رہتے ہیں، روحانی ترقی نہیں ہوتی۔ اجرو ثواب تو وہ دیتا ہے، کسی کا عمل ضائع نہیں کرتا مگر روحانی منازل طے نہیں ہوتیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اکثر مايدخل الجنة التقویٰ وحسن الخلق.

وہ اعمال جو سب سے زیادہ جنت میں داخل کرائیں گے۔ تقویٰ اور حسن خلق ہے۔

تقویٰ سے مراد عمل و ارادہ اور سوچ میں بھی برائی سے بچنا ہے۔ ’’میں‘‘ حسن اخلاق اور تقویٰ کی جڑ کاٹ دیتی ہے۔ ہمیشہ یہ سوچ رکھا کریں کہ یہ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے مجھ سے یہ نوکری لی، اس کا شکر گزار ہوں، یہ سوچ تواضع لاتی ہے۔ دوسرے کی ’’میں‘‘ کی طرف دھیان نہ دیں بلکہ اپنی ’’میں‘‘ کی طرف متوجہ رہیں۔ ’’میں‘‘ توقع پیدا کرتی ہے کہ میرے ساتھ اس طرح کا سلوک ہونا چاہئے۔ یہی سوچ و توقع خرابی ہے۔ اوروں کے دلوں کے حال معلوم نہ کیا کریں، یہ بھی اخلاق ہے۔ دوسرے کے دل میں کیا خیال آتا ہے، اس کا اندازہ لگا کر رد عمل نہ دیں۔

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اتق الله حيث ماکنتم

’’اللہ سے ہمیشہ ڈر/ تقویٰ اختیار کر جہاں بھی ہے‘‘۔

تقویٰ کبھی ظاہری اعمال سے پیدا نہیں ہوتا۔ تقویٰ کا محل/ جگہ جہاں سے تقویٰ تشکیل پاتا ہے وہ جگہ دل ہے۔ اگر دل کا حال نہ بدلے تو تقویٰ نصیب نہیں ہوتا۔ ہم رزق حلال کھانے کو تقویٰ سمجھتے ہیں، حرام سے پرہیز کرنا از خود تقویٰ نہیں، مناہی سے بچنا از خود تقویٰ نہیں، اوامر بجا لانا از خود تقویٰ نہیں بلکہ یہ اعمال و افعال ہیں۔ تقویٰ ان اعمال کے پیچھے قلب کی کیفیت ہے۔ حرام کھانا کیوں چھوڑا؟ اس کیوں کا جواب تقویٰ ہے۔ وہ سب جس کی وجہ سے حرام چھوڑا اسے تقویٰ کہتے ہیں۔

تقویٰ، حسن خلق کے بغیر نہیں ملتا اور حسن خلق، تقویٰ کے بغیر نہیں ملتا۔ ان دونوں کا محل دل ہے۔ تقویٰ اور حسن خلق مل جائیں تو اس کو ولایت کہتے ہیں۔ ولی کی کوئی شکل و صورت لباس/ قد/ رنگ اور عبادت کی تعداد مقرر نہیں بلکہ ولی وہ ہے جس کے دل میں اللہ بس جائے اور ’’میں‘‘ نکل جائے۔ تقویٰ و حسن خلق کا دل میں سما جانا ولایت ہے۔

اللہ ہم سب کو دلوں کی سلامتی، سخاوت نفس، دلوں کی وسعت اور حسن خلق سے نوازے۔

  1. 22 رمضان المبارک 1437ھ/ 28 جون 2016ء (منگل)

شہر اعتکاف میں رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی دوسری طاق رات کی محفل کا آغاز نمازِ عشاء و نمازِ تراویح کے بعد تلاوت قرآن حکیم اور نعت رسول مقبول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوا۔ معتکفین نہایت محبت، عقیدت اور روحانی جذبات کے ساتھ محفل میں موجود تھے۔ محترم امجد بلالی، شہزاد برادران، محترم علامہ محب اللہ اظہر، محترم محمد افضل نوشاہی، محترم ظہیر احمد بلالی اور منہاج نعت کونسل نے نہایت ہی خوبصورت انداز میں نعتیہ کلام پیش کئے۔ محفل اپنے آغاز سے ہی اپنے عروج پر تھی۔ شہر اعتکاف کی فضا میں یہ نعتیہ کلام گونج رہا تھا اور ہر شخص ایک عجب روحانی کیف و مستی میں ڈوبا ہوا تھا:

یہ آرزو نہیں کہ قائم یہ سر رہے
میری دعا تو یہ ہے کہ تیرا سنگِ در رہے

فرقت کی سختیاں مجھے منظور ہیں مگر
اتنا ضرور ہو کہ تجھے بھی خبر رہے

محفل نعت کے بعد شیخ الاسلام نے شہر اعتکاف سے اپنا تیسرا خطاب ارشاد فرمایا:

خطاب شیخ الاسلام (موضوع:اخوت، رفاقت اور حسن خلق)

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ

’’بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)‘‘۔

(القلم: 4)

اس آیت مبارکہ میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب و اخلاق کا ذکر اللہ نے کیاہے۔ رب اپنی مخلوق میں سے کسی کی صفت کو عظیم کہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمکے اخلاق کے علاوہ ایسا کسی اور جگہ نہیں ہوا۔ اللہ جس شے کو عظیم کہے اس کا سادہ مطلب تو ذہن نشین ہوجانا چاہئے کہ مخلوق کا مخلوق کو عظیم کہنا کوئی بڑ امعنی نہیں رکھتا، اس لئے کہ یہ ادب و احترام کی وجہ سے ہوتا ہے۔ عظیم کا معنی اس وقت بڑا ہوتا ہے جب اللہ اپنی مخلوق میں سے کسی کو عظیم کہے۔ اس لئے کہ اللہ کا کسی کو عظیم کہنا، مخلوق کے ایک دوسرے کو عظیم کہنے سے کئی بلند ہے۔

حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اخلاق عالیہ کی وجہ سے عظیم ہوئے، لہذا اگر ہم عظیم ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں اخلاق محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنانا ہوگا۔ اللہ اور اس کے رسول بھی چاہتے ہیں کہ ہمارے اندر اخلاق عالیہ کا رنگ نظر آئے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربت و وفا نصیب ہو، محمدی رنگ اپنے اوپر چڑھانا چاہتے ہیں تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کو اپنانا ہوگا کہ مومنین کی مثال باہمی محبت و مودت میں ایک جسم کی مانند ہے۔ اگر جسم کے کسی ایک عضو میں تکلیف ہو تو سارا جسم اس تکلیف میں بے خوابی اور بخار کے ساتھ شریک ہوتا ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کا ایسا احساس پیدا کریں جو اس حدیث میں بیان ہوا۔اگر یہ تعلق پیدا ہوگا تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک رشتہ پیدا ہوگا۔ منہاج القرآن کے رفقاء ایک خاندان کی طرح ہیں، اس دائرہ سے تمام رفقاء اس تعلق کو شروع کریں۔ اگر دوسرے کا درد، غم محسوس کریں گے تو خیر بڑھتی جائے گی۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مومنین باہم ایک دیوار کی مانند ہیں، جس طرح دیوار کی اینٹیں ایک دوسرے کو مضبوط کرتی ہیں اسی طرح مومن بھی اپنے دوسرے مومن بھائی کی مضبوطی و استحکام کا باعث بنتا ہے۔

افسوس! پاکستان میں درندگی، لاتعلقی، بیگانگی کا ماحول ہے۔ 17جون کو جو کچھ ہوا اور اس طرح کے تمام مناظر نہ ایمان ہیں اور نہ انسانیت۔ مرتے ہوئے کا حال ہی نہیں پوچھا جاتا کہ کہیں مجھ پر کوئی مصیبت نہ آجائے۔ اگر منہاج القرآن میں آنے کے بعد بھی ہم نے ایک دوسرے کو مضبوط نہیں کرنا بلکہ بیگانہ رہنا ہے تو اس رفاقت کا کوئی فائدہ نہیں۔ میں نے مشن اس لئے شروع کیا تھا کہ بیگانگی ختم اور یگانگت پیدا ہو۔ اگر بیگانہ ہی رہنا ہے تو پھر تحریک کی رفاقت کا کوئی کا فائدہ نہیں۔ رفاقت کا مطلب ایک دوسرے کے ساتھ اخوت، محبت و مودت ہے۔ ایمان کا طریق یہ ہے کہ

لايومن احدکم حتی يحب لاخيه مايحب لنفسه.

تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن ہو ہی نہیں سکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے بھی وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔

اس فرمان سے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احساسات کو کس حد تک ایک دوسرے سے متعلق کردیا ہے۔ ہم کس طرح کے مسلمان ہیں کہ نعرے تو لگاتے ہیں مگر افسوس ہماری Feelings میں دوسرے شخص کا وجود ہی نہیں۔ فتح مکہ کے دن حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان فرمایا:

ياايها الناس افشو السلام واطعموا الطعام.

ہر ایک کے لیے سلامتی پھیلاؤ اور کھانا کھلاؤ۔

فتح مکہ کے بعد اسلام نافذ ہونا ہے، اسلامی ریاست بننی ہے۔ پہلے دن حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو بیان جاری فرمایا وہ یہ ہے کہ ہر ایک کے لئے سلامتی پھیلاؤ۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرماکر ہر تنگ نظری، انتہا پسندی و دہشت گردی کے امکان کو ختم کردیا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان بغیر کسی مذہب کی تفریق کے تھا۔ امت کے بھوکوں کو کھانا کھلانا عبادت ہے، یہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ہے اور ہمارا دین ہے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صلہ رحمی کا حکم دیا کہ خونی رشتوں کو جوڑو، سلامتی پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی عبادت کا ذکر مخلوق سے بھلائی والے کاموں کا ذکر کرنے کے بعد کیا اور اس اسلوب کو اپناکر دین کی ترتیب امت کو عطا فرمادی۔

کسی دوسرے کے عمل کو دیکھتے ہوئے اپنے عمل کا تعین نہ کریں۔ یہ نہ دیکھیں کہ اس نے میرے ساتھ کیا کیا تھا بلکہ اس کے عمل کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کے ساتھ بھلائی کریں۔ دوسرے کا عمل آپ کو کنٹرول نہ کرے۔ اس نے اچھائی کی تو آپ نے بھی اچھائی کی، اس نے برائی کی تو آپ نے بھی برائی کی، یہ تو اس کے عمل کا Reflection ہوگیا، ہمارا اپنا عمل کہاں گیا؟ دوسروں کے عمل کو اپنی ذات پر کنٹرول نہ کردو۔ اس کے عمل کا ہم نے جواب نہیں دینا بلکہ ہم سے ہمارے عمل کا جواب مانگا جائے گا۔ لہذا اپنے مزاج میں وسعت لائیں، اپنے اخلاق اور طرز عمل کو درست کریں۔

اخوت و رفاقت کے حقوق میں سے ہے کہ دکھ سکھ سانجھا ہوجائے۔ جینے مرنے کے احساسات ایک ہوجائیں۔ صحابہ میں اخوت کا رشتہ ایسا تھا کہ اس میں تکلفات نہ تھے۔ افسوس ہمارے دل مردہ ہوگئے ہیں، Feelings ختم ہوگئی ہیں۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ جذبات/ اخلاق ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم روکھا سوکھا دین نہیں دینا چاہتے بلکہ چاشنی دینا چاہتے ہیں۔ ایک دوسرے سے ملو، محبت کرو۔ ایک دوسرے پر خرچ کرو۔ اس روش کو اپنانے سے اللہ کی محبت نصیب ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اللہ اپنے عرش کے دائیں بائیں کرسیوں پر بٹھائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ حال عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے احوال و اخلاق اس طرح کرے کہ ان پر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق و احوال کا رنگ چڑھ جائے۔

  1. 23 رمضان المبارک 1437ھ/ 29 جون 2016ء (بدھ)

شہر اعتکاف میں معتکفین کی علمی و فکری تربیت کے لئے علمی و فکری نشستوں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے آج معتکفین سے اظہار خیال کیا:

خطاب محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری

تاریخ میں ایسی ہستیاں تو ملتی ہیں جو کم وقت کے لئے تبدیلی پید اکرتے ہیں مگر بہت کم ایسی ہستیاں ملتی ہیں جن کا دیا ہوا نظام مستقبل میں کامیاب رہا ہو۔ اصل مربی وہ ہوتا ہے جن کا نقش ایسے ثبت ہوجائے کہ وہ سامنے نہ بھی ہو تب بھی اس کا دیا ہوا نظام ختم نہ ہو۔ اپنی فکر کو ایک نظام بناکر دینا یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ الکہف میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ذوالقرنین کی قیادت و انتظام کی مثال بیان فرمائی جس سے واضح ہوتا ہے کہ لیڈر وہ ہے جو خود تنہا نہیں ہوتا بلکہ ہزاروں لوگوں کو لیڈر بنا جاتا ہے، ان لوگوں کو قائدانہ صلاحیت دے کر جاتا ہے۔ اس واقعہ میں تین اقوام کا ذکر ہوا ہے جن کے حالات ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ ایک ہستی نے تین مختلف قوموں کا مختلف طریقوں سے کس طرح مقابلہ کیا۔

  1. پہلی قوم کا ذکر کیا کہ جہاں سورج غروب ہورہا تھا آپ اس طرف گئے تو وہاں موجود قوم کو دیکھا جو سرکشی میں تھی۔ ان میں خود غرضی سرایت کرچکی تھی، نہ انسانیت تھی نہ حمیت تھی۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے ہاں سورج پہلے ہی غروب ہوچکا تھا۔ اس کا مطلب مربی وہاں بھیجا جاتا ہے جہاں اس قوم میں امانت و دیانت، حسن کردار اور تقویٰ و طہارت موجود نہ ہو۔ وہاں حضرت ذوالقرنین کو 2 آپشن دے دیئے:

فرمایا کہ اگر چاہیں تو ان کا مواخذہ کریں اور انہیں اللہ رب العزت کے عذاب کا مستحق بنادیں۔ دوسری آپشن یہ ہے کہ اگر چاہیں تو حسن سلوک کا پیکر بن کر ان کی تربیت کردیں، ان شخصیت کو نکھار دیں، یہ اس لئے ظلم پر چلے گئے کہ ان کو سیدھی راہ پر چلانے والا کوئی نہ تھا۔ سیدنا ذوالقرنین نے فیصلہ کرلیا کہ ان کی تربیت کی جائے۔ نظام العمل اور دستور دینے کے بعد کسی نے پھر بھی ظلم کیا تو پھر اسے نہ صرف یہاں بلکہ خدا بھی عذاب دے گا۔

وہاں حضرت ذوالقرنین نے ان کی قیادت کی ان کو قوم بنایا، ان کی تربیت کی اور اس کے بعد اگلے سفر پر روانہ ہوگئے۔ گویا قائد مرض کو صرف دیکھتا نہیں بلکہ علاج بھی کرتا ہے، شفا یاب کرتا ہے اور دوسروں کو بھی طبیب بناتا ہے۔ شیخ الاسلام اور منہاج القرآن بھی اسی سنت پر عمل پیرا ہیں کہ قوم کے خود غرضانہ اعمال پر مرض کی تشخیص بھی کی جارہی ہے اور اس کا علاج بھی کیا جارہا ہے۔

  1. حضرت ذوالقرنین رضی اللہ عنہ دوسری قوم کی طرف گئے ۔ ان کے تن بدن پر کوئی لباس نہ تھا۔ نہ سر چھپانے کے لئے کوئی جگہ تھی۔ آپ نے اُن کے ہاں قیام کیا اور ان کو جرات دی، ان کا لوٹا ہوا مال واپس لے کر ان کو آزاد کرایا۔ پھر وہاں سے اگلے سفر پر روانہ ہوگئے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ قائد وہ ہوتا ہے جو رکتا نہیں بلکہ سفر پر رہتا ہے۔ ایک قوم کی تشخیص و علاج کے بعد دوسری قوم کے مرض کی تشخیص و علاج کے لئے چل پڑتا ہے۔

  1. تیسری قوم کی طرف گئے، یہ قوم مسیحا کی تلاش میں ضرور تھی مگر سمجھ بوجھ نہ تھی۔ ان کی اندر جرات و حمیت نہ تھی۔ جب حضرت ذوالقرنین وہاں پہنچے تو اس قوم نے کہا کہ یاجوج ماجوج نے فساد پھیلا رکھا ہے۔ اس قوم میں لیڈر کے بغیر ان کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ تھی۔ انہوں نے کہا کہ اے قائد آپ دیوار بنادیں، ہم اسباب پیدا کردیں گے۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ اے قوم میں تمہاری مدد کو آیا ہوں، مال پیسے کے لئے نہیں آیا۔ جو خدا نے مجھے عزت دی ہے، وہ تمہارے مال پیسے سے بہت زیادہ ہے۔مجھے صرف تمہارا قوت بازو چاہئے، مجھے وہ جرات چاہئے جو ہر قسم کے حالات میں میرا ساتھ دے۔ تم قوت بازو دو میں تمہیں دیوار بناکر دوں گا۔ قوم نے ساتھ دیا اور اسی طرح یاجوج ماجوج کے آگے دیوار کھڑی کردی گئی۔

پس قائد کی قوتِ ارادی کے ساتھ قوم شامل ہوجائے تو پھر دنیا میں کوئی چیز مشکل نہیں رہتی اور انقلاب آکر رہتا ہے۔ منہاج القرآن کے کارکنان اپنے قائد کی قوت ارادی اور قائدانہ صلاحیتوں پر اعتماد کے ساتھ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس لئے ان شاء اللہ فتح و کامیابی ہمارا مقدر ٹھہرے گی۔

شہر اعتکاف میں دن کے انفرادی و اجتماعی معمولات کی اہمیت اپنی جگہ بجا مگر شہر اعتکاف میں گزرنے والی ہر رات معتکفین کے لئے روحانی لذت و مستی کی الگ داستان لئے ہوئے ہے۔ آج شہر اعتکاف میں چوتھی رات ہے۔ معتکفین افطاری اور دیگر معمولات سے جلد فارغ ہونے کے بعد زیادہ سے زیادہ فیض سمیٹنے کے لئے مسجد میں اگلی صفوں میں بیٹھنے کے لئے کاوشیں کرتے نظر آرہے تھے۔ نماز عشاء و تراویح کے بعد حسب معمول محفل کا آغاز تلاوت و نعت رسول مقبول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوا۔ منہاج القرآن کے گلشن نعت سے وابستہ محترم محمد افضل نوشاہی، محترم امجد بلالی، محترم ظہیر احمد بلالی، محترم شہزاد برادران، منہاج نعت کونسل اور دیگر نعت خوان بغیر کسی مالی منفعت و مفاد کے لالچ کے محض اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کے حصول کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے حکم پر ہر رات بہت خوب محفل سجا رہے تھے۔ آج بھی شہر اعتکاف میں گونجنے والے اس کلام نے ہر خاص و عام کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا:

تیری نگاہ ناز نے سب کو مدہوش کردیا
اب کیا کرے گا جہاں تجھے دیکھنے کے بعد

جلوہ کسی کا ہو یا منظر کوئی بھی ہو
ہے دیکھنا حرام تجھے دیکھنے کے بعد

بس ایک یہی ہے آرزو تیرے فقیر کی
ہو زندگی تمام، تجھے دیکھنے کے بعد

محفل نعت کا رنگ اور سماں جداگانہ تھا۔ ہر کوئی حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں ڈوب کر محفل میں شریک تھا۔ اس محفل کا رنگ اس وقت مزید اپنے عروج پر پہنچ گیا جب دنیائے نعت کا عظیم نام محترم الحاج اختر حسین قریشی شہر اعتکاف میں تشریف لائے اور شیخ الاسلام کی خواہش پر اس نعتیہ کلام کو خوبصورت تضمین کے ساتھ پیش کیا اور محفل کو چار چاند لگادیئے:

جب حسن تھا ان کا جلوہ نما، انوار کا عالم کیا ہوگا
ہر کوئی فدا ہے بن دیکھے، دیدار کا عالم کیا ہوگا

چاہیں تو اشاروں سے اپنے کایہ ہی پلٹ دیں دنیا کی
یہ شان ہے خدمت گاروں کی، سرکار کا عالم کیا ہوگا

اس خوبصورت اور باوقار محفل کے بعد شیخ الاسلام نے شہر اعتکاف میں اپنا چوتھا خصوصی خطاب ارشاد فرمایا:

خطاب شیخ الاسلام (موضوع: تعلق مع اللہ کی حقیقت اور حسن خلق)

اگر ہمارے اخلاق سنور جائیں تو روحانی ترقی کے تمام راستے کھل جائیں، ورنہ محنتوں میں کوئی کمی نہیں۔ یہ دروازہ کھل جائے تو بندے میں ملکوتی، جبروتی، لاہوتی صفات پیدا ہوجائیں۔ ہے یہی بندہ مگر پھر اس کے اندر نئے سے نئے جہاں آباد ہونے لگتے ہیں۔ غوث الاعظم رضی اللہ عنہ/ خواجہ معین الدین رحمۃ اللہ علیہ/خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ/ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ/ حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں تو انسان مگر ان کے اندر کئی کئی جہاں آباد تھے۔ اللہ کی پہچان آسان مگر ولی کی پہچان مشکل ہے۔ اللہ کی صفات ظاہر بھی ہیں اور مخفی بھی ہیں۔ لہذا ظاہری شان/ صفات کی وجہ سے اس کی پہچان کا راستہ مل جاتا ہے جبکہ ولی کی پہچان ناممکن ہے اس لئے کہ اس کی ظاہری علامت ہی نہیں۔ ولایت امرِ ظاہری ہے ہی نہیں بلکہ امرِ باطنی کا نام ہے۔ ولی کے لئے کوئی شرائط لباس، شرائط طعام، شرائط قیام نہیں، جو لباس شریعت کے تحت ہے وہ اس کا لباس ہے۔ اسی طرح کھانا پینا بھی اس کا کوئی الگ نہیں۔ جو بھی کھائے گا حلال کھائے گا، مشتبہ نہیں کھائے گا۔ کم کھائے گا، بھوک رکھ کر کھائے گا۔ ولی ہر وہ کام کرے گا جس کو شریعت نے جائز قرار دیا ہے۔ پس تقویٰ اور حسن خلق کا کمال درجہ پر اجتماع ولایت ہے۔

حسن خلق اپنے کمال پر اس وقت ہوتا ہے جب ’’میں‘‘ کی نفی ہوجائے۔ اگر ’’میں‘‘ قائم رہے تو معرفت کا دروازہ نہیں کھلتا۔ ’’میں‘‘ کے اندھیرے کی وجہ سے اخلاق، ناسوتی، بشری اور حیوانی رہتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ اندر تبدیلی لائیں۔ اندر تبدیلی کیسے؟ دل کو اللہ کی حلاوت سے ایسے معمور کرلیں کہ اللہ کے سواء کسی کا دھیان نہ رہے۔ بندے پر یہ حالت غالب آجائے کہ وہ اللہ کے ساتھ مشغول رہے۔ کیسے مشغول رہے؟ جس طرح بندہ اردگرد کی آوازوں کی وجہ سے کسی کے ساتھ یکسوئی سے بات کر اور سن نہیں سکتا۔ اسی طرح دنیاوی مصروفیات/ مسائل بندہ کو مشغول کرتے ہیں اور اس کو اللہ کے ساتھ یکسوئی پیدا نہیں ہونے دیتے۔ یہ خیالات بندہ کو اللہ کے ساتھ مشغول نہیں ہونے دیتے۔ لہذا دل صرف اللہ کے ساتھ مشغول رہے، دنیا کو باہر رکھیں، دنیا کے سود وزیاں کو دل میں داخل نہ ہونے دیں۔

ذہن کا تمام الجھاؤ دل میں داخل ہوجاتا ہے۔ شغل چھوڑنے کا حکم نہیں بلکہ دل کے مشغول ہونے کو روکا جارہا ہے۔ اللہ کے ساتھ دل میں مشغول ہونے سے اس کی محبت میں لذت ملتی ہے۔ جب اسے محبت میں لذت ملتی ہے تو پردے اٹھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ جب تک بندے کو اللہ کی محبت میں لذت نہیں ملتی، بندہ غیر محرم رہتا ہے۔ پردے رہتے ہیں۔ جب لذت ملتی ہے تو بندہ محرم بن جاتا ہے۔

ایک شخص حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس حاضر ہوا پوچھا کہ ای شئی اقرب الی اللہ۔ کون سی شے اللہ کے بہت قریب ہے اور بندہ کو اللہ کے قریب کردیتی ہے تاکہ اس شے کو اپنایا جائے اور بندہ اللہ کے قریب ہوجائے؟ آپ یہ سن کر رونے لگ گئے اور فرمایا: اللہ کی قربت عطا کرنے والی حالت یہ ہے کہ تیرے دل کا حال یہ ہوجائے کہ تو خدا کے سوا کچھ چاہتا ہی نہ ہو۔

حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میری خواہش کی انتہاء و مراد فقط یہ ہے کہ میرے دل کا میلان جھکاؤ/ رغبت اللہ کی طرف اس طرح ہوجائے کہ سوائے اللہ کے میرے دل کو کچھ دکھائی نہ دے۔ دل جدھر دیکھے اسے اللہ دکھائی دے۔ اگر یہ مراد مل جائے تو مجھے کسی کی پرواہ نہیں۔

حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا فرماتی ہیں: میرے الہٰی میری خواہش، تمنا، مراد یہ ہے کہ دنیا میں تو یاد رہے اور تیری یاد کے سواء کوئی یاد میرے دل میں نہ رہے اور آخرت میں صرف تیرا دیدار رہے۔

ان تمام اقوال کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ دل کو اللہ کے لئے خلوت گاہ بنالیں۔ خلوت گاہ کیسے بنے؟ بہت ساری ذمہ داریاں ہیں عائلی، معاشرتی، تنظیمی گھریلو ذمہ داریاں ہیں، ان کے ہوتے ہوئے دل اس طرح خلوت گاہ بنے کہ کسی کی بات سے دل دکھی نہ ہو، کسی سے حوصلہ افزائی ہو یا نہ ہو، پس اللہ کی یاد دل میں رہے۔

ہم سب کچھ کرتے ہیں مگر روحانی ترقی نہیں ملتی، تالہ لگا ہے، اس تالہ کو کھولنا ہے توappriciation صرف اللہ سے طلب کرنا ہوگی۔ تحریک منہاج القرآن کے رفقاء کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے شاباش ان شاء اللہ مل کر رہنی ہے۔ قبر کی پہلی رات میں ہی کام ہوجائے گا جب آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمائیں گے کہ مجھ سے پوچھو کہ یہ کون ہے جس نے ساری زندگی تجدید دین اور احیائے اسلام کا علم اٹھائے رکھا اور دین کی خدمت کرتا رہا۔

یاد رکھیں کہ عشق اجر و اجرت سے تعلق نہیں رکھتا، وہ صرف محبوب سے متعلق رہتا ہے۔ محبوب جو بھی ادا رکھے وہ پریشان نہیں ہوتا۔appriciate کرنا اچھی بات، کوئی کردے تو اس کا اخلاق، اگر کوئی نہ کرے تو اس کی بشری کمزوری سمجھ کر نظر انداز کردیں۔ جو اللہ اور اس کے رسول کا سچا طالب ہوجائے تو اس کو پھر کسی اور شے کا دھیان ہی نہیں رہتا۔ اسے کسی حوصلہ افزائی کی ضرورت نہیں رہتی۔ ہمیں اس دھیان سے اپنی کاوشوں کو پاکیزہ کرنا ہے۔

  • اس موقع پر آپ کو اس جانب بھی متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ رفقاء ذاتی طور پر بھی اس مشن کی دعوت میں مصروف ہوں۔ رفاقت کا حق صرف یہ نہیں کہ رفاقت کی فیس دیتے رہیں بلکہ ہر رفیق اپنے طور پر داعی بنے۔ دعوت صرف تنظیمات کی ذمہ داری نہیں اور نہ تحریکی ہنگامی سرگرمیاں کلی دعوت ہیں۔ دعوت وہ ہے جس کا سلسلہ ہمیشہ تسلسل کے ساتھ رہے۔ ہر رفیق داعی بنے، صرف فارم رفاقت فل کرنے سے رفاقت کا حق ادا نہ ہوگا۔ حق تب ادا ہوگا جب ذاتی زندگیوں میں مشن داخل ہوجائے۔ رفیق بننا سنت نہیں بلکہ داعی بننا سنت ہے۔ رفیق اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ آپ داعی بنیں۔
  1. 24 رمضان المبارک 1437ھ/ 30 جون 2016ء (جمعرات)

آج شہر اعتکاف میں رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی تیسری طاق رات ہے۔ حسب معمول آج بھی محفل نعت کا بطور خاص اہتمام کیا گیا تھا۔ نماز عشاء اور نماز تراویح کے بعد سٹیج پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ساتھ محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، محترم صاحبزادہ حماد مصطفی المدنی، محترم صاحبزادہ احمد مصطفی العربی، جملہ مرکزی قائدین اور اندرون و بیرون ملک سے تشریف لائے ہوئے سینئر تحریکی ساتھی تشریف فرما تھے۔ محفل کا آغاز محترم قاری نور احمد چشتی نے تلاوت قرآن مجید اور محترم ارشاد اعظم چشتی نے نعت رسول مقبول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا۔ آج کی محفل میں Q-TV کے معروف اینکر محترم صاحبزادہ تسلیم احمد صابری نے اپنے مخصوص اور منفرد انداز میں نقابت کے فرائض سرانجام دیئے۔

شیخ الاسلام کے چھوٹے پوتے محترم صاحبزادہ احمد مصطفی العربی نے نہایت ہی خوبصورت اور معصوم آواز میں ’’یاحبیب سلام علیک یا نبی سلام علیک‘‘ کے ذریعے آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ہدیہ عقیدت پیش کیا۔ بعد ازاں محترم صاحبزادہ حماد مصطفی المدنی نے پنجابی عارفانہ کلام پیش کیا جس نے محفل پر ایک خاص روحانی کیفیت طاری کردی۔

جان تو بھاویں نہ جان وے، ویڑے آوڑ میرے
تیرے جیا مینوں اور نہ کوئی، ڈھونڈاں بیلا جنگل روہی
ڈھونڈاں میں سارا جہاں وے، ویڑے آوڑ میرے

اس موقع پر محترم صاحبزادہ تسلیم احمد صابری نے خواجہ غلام فرید کا کلام ’’آمیڈے ڈھولا کراں رو رو زاری‘‘ کی گونج میں تحت اللفظ خواجہ غلام فرید ہی کا کلام ’’میڈا دین وی توں ایماں وی توں‘‘ پڑھا تو فرطِ جذبات سے تمام معتکفین جھوم اٹھے۔ محفل میں ساہیوال سے تشریف لائے ہوئے محترم احمد علی حاکم اور محترم سرور حسین نقشبندی نے نعت رسول مقبول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شان اہل بیت میں مختلف کلام پیش کئے اور خوب داد سمیٹی۔

بعد ازاں محترم صاحبزادہ حماد مصطفی نے محترم محمد افضل نوشاہی اور منہاج نعت کونسل کے ساتھ مل کر عربی کلام ’’یانورالعین‘‘ پیش کیا۔ اس موقع پر محترم محمد افضل نوشاہی اور منہاج نعت کونسل نے شیخ الاسلام کی خواہش پر ان کا پسندیدہ نعتیہ کلام پیش کیا۔ شہر اعتکاف میں تیسری طاق رات اپنے عروج کی طرف گامزن تھی اور محفل کا رنگ بھی جداگانہ تھا۔ فضا میں یہ نغمات بکھر رہے تھے:

میں برا ہوں یا بھلا ہوں میری لاج کو نبھانا
تیرے نام سے ہے ہے آقا مجھے جانتا زمانہ

مجھے اس کا غم نہیں ہے کہ بدل گیا زمانہ
میری زندگی ہے تم سے کہیں تم بدل نہ جانا

چوکھٹ پہ آگیا ہوں سرکار آج سن لو
میری دکھ بھری کہانی میرا دکھ بھرا افسانہ

تیرے نام سے ظہوری مجھے جانتی ہے دنیا
تیرا ہوگیا ہوں جب سے میرا ہوگیا زمانہ

اظہار خیال شیخ الاسلام

محفل نعت پورے ذوق و شوق اور روحانی کیفیات کے ساتھ سحری کے وقت تک جاری رہنے کے سبب شیخ الاسلام نے ’’اخلاق‘‘ کے موضوع پر اپنا معمول کا خطاب نہ فرمایا بلکہ محفل کی مناسبت سے درج ذیل چند کلمات ارشاد فرمائے:

حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور کہا کہ دور سے آیا ہوں، سنا ہے کہ آپ کے پاس اسم اعظم ہے، مجھے بھی دے دیں۔ آپ نے فرمایا: اسم اعظم صرف یہ ہے کہ دل کو خلوت گاہ بنالو اور اس میں محبوبِ حقیقی کو بٹھالو۔ سوائے محبوب کے اس دل کے حجرے میں کوئی نہ بسے۔ اگر دل کی خلوت میں مولیٰ بس جائے تو جو نام لو وہی اسم اعظم ہے۔ جو نام پکارو وہی اسم اعظم ہے۔ دل کا اللہ کے لئے خالص ہوجانا اسم اعظم ہے۔ دل کی خلوت گاہ میں مولیٰ جلوہ گر ہوجائے تو کائنات کی ہر شے سے بندہ بے نیاز ہوجاتا ہے۔ دلوں/ روحوں کا وصال جب اللہ کے ساتھ ہوجائے تو ان دلوں کو وہ لذت ملتی ہے کہ کائنات کی کوئی شے ان کے لئے توجہ طلب نہیں رہتی۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: باری تعالیٰ بعض لوگ تجھے پاکر پھر جاتے ہیں، بدل جاتے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟ فرمایا: جس نے مجھے حقیقت میں پالیا ہے، وہ کبھی نہیں پھرا۔ پھرتے وہ ہیں جو رستے سے مڑ جاتے ہیں۔ جنہوں نے میری قربتوں کی نسبت نہیں دیکھی وہ مڑجاتے ہیں۔ جو مجھ سے مل جاتا ہے وہ پھرتا اور مڑتا نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے احوال قلبی کو بدلنے اور اسے اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔

  1. 25 رمضان المبارک 1437ھ/ 1 جولائی 2016ء (جمعۃ المبارک)

آج جمعۃ الوداع ہے۔ معتکفین اپنے انفرادی معمولات کے بعد نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے مسجد میں جوق در جوق داخل ہورہے ہیں۔ ذکر اور صلاۃ و سلام کی آوازیں ماحول کو معطر و منور کئے ہوئے ہیں۔ جمعۃ الوداع کا خطاب محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے ارشاد فرمایا:

خطاب محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ. صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّآلِّيْنَ.

’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے اِنعام فرمایا۔ ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کا‘‘۔

(فاتحه: 5-7)

مفسرین نے اس آیت کریمہ کی تفسیر ایک اور آیت سے کی ہے:

وَمَنْ يُّطِعِ اﷲَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰئِکَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اﷲُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ج وَحَسُنَ اُولٰئِکَ رَفِيْقًا.

’’اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں‘‘۔

(النساء: 69)

اس آیت میں انعام یافتہ لوگوں کی وضاحت کردی کہ وہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں۔ اس آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ سیدھا راستہ میرا راستہ ہے بلکہ فرمایا کہ سیدھا راستہ وہ ہے جس پر میرے انعام یافتہ لوگ چلا کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے ہدایت کا راستہ انعام یافتہ لوگوں کی صحبت بتایا ہے۔ اس میں انسان کے عقائد کے درست ہونے کی ضمانت رکھی ہے۔ قرآن مجید آج جیسے ہے کل بھی اسی طرح ہوگا۔ جن کو صحبت میسر نہیں ان کو گمراہی دے دیتا ہے اور جن کو صحبت میسر آجائے ان کو نجات مل جاتی ہے۔ امام حاکم نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے لوگو میں تم میں 2 چیزیں چھوڑے جارہا ہوں اگر تم ان کی اتباع کرو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔

  1. کتاب اللہ
  2. اہل بیت

حدیث مبارکہ میں پہلے قرآن کا پھر صحبت کا ذکر ہے۔ بتانا یہ مقصود تھا کہ بعد کے زمانے والے قرآن میں اپنی طرف سے تشریح کریں گے اور گمراہ ہوجائیں گے، لہذا اہل بیت کی صحبت میسر رہے گی تو قرآن بھی فائدہ دے گا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ آپ کی آل (عترت) کون ہے؟ آپ نے فرمایا میری عترت (اہل تقویٰ) ہیں۔ اس سے مراد میری امت کے متقین ہیں اور متقین سے مراد اولیاء و صالحین ہیں۔

گویا حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں اہل بیت اور اولیاء و صالحین کو تھامے رکھنے کا حکم فرمایا کہ جب تک تم ان کو تھامے رکھو گے کامیاب رہو گے ورنہ گمراہ ہوجاؤ گے۔

مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم اہل بیت اور متقین، صدیق اور ہر ولی کے مولا ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ میری امت میں جتنے ولی آئیں گے ان کی صحبتیں تمہیں گمراہی سے بچائیں گی۔ قرآن مجید تو ہر کسی کے پاس موجود ہے جس کو دیکھیں اس نے قرآن و حدیث تھاما ہوا ہے اور من پسند معانی نکالے جارہے ہیں۔ صرف ایک چیز کی کمی ہے اور وہ صحبت صالحین ہے۔ بغیر صحبت کے کوئی دعویٰ بھی نہیں کرسکتا کہ اس کو صحیح راستہ مل سکتا ہے۔ آج قرآن بھی ہے مساجد، مدارس اور علماء بھی ہیں مگر ایمان کی حفاظت نہیں، اس لئے کہ ایمان کی حفاظت اولیاء اللہ کی صحبت میں ہے۔ اسی صحبت اور اسی ایمان کی حفاظت کی خاطر اور قرآن کا درست مفہوم سمجھنے کی خاطر صحبت صالحین ضروری ہے۔

قرآن نے یہی اصول دیا کہ نیک لوگوں کی صحبت میں ایمان کی حفاظت کی ضمانت ہے۔ بدقسمتی سے بحثیت مسلمان ہم نے وہ صراط مستقیم چھوڑ دیا ہے ، جس پر ان لوگوں کی سنگت ملتی ہے۔ جن بندوں پر اللہ تعالی نے اپنا انعام فرمایا ہے، ہم ان لوگوں کی سنگت و صحبت چھوڑ کر صراط مستقیم سے ہٹ گئے۔ جس کی وجہ سے آج عالم اسلام مجموعی پسماندگی کا شکار ہے۔ قرآن اور ایمان اسی کو فائدہ دیں گے، جس نے انعام یافتہ بندوں کی نسبت سے قرآن سے تعلق قائم کیا۔ ہم آج سے پختہ ارادہ کر لیں کہ اس اعتکاف سے خود کو بدل کر جانا ہے۔ یہاں سے عزم لے کر جانا ہے اور گھر جا کر باعمل زندگی گزارانی ہے۔

نماز جمعہ کے ادائیگی کے بعد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خصوصی دعا کی، اس موقع پر ملکی امن و سلامتی اور عالم اسلام کی خوشحال کے لیے دعائیں بھی کی گئیں۔

آج نماز تراویح کی پہلی چار رکعت کی امامت کے فرائض محترم صاحبزادہ حماد مصطفی نے ادا کئے اور نہایت خوبصورت آواز میں قرات و تجوید کے تمام اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے عمدہ قرات کی۔ نماز تراویح کے بعد حسب معمول محفل کا آغاز ہوا۔ آج شہر اعتکاف میں چھٹی رات ہے۔ شہر اعتکاف کے مصروف ترین شیڈول اور انفرادی و اجتماعی سرگرمیوں کے باوجود معتکفین کسی قسم کی تھکاوٹ و اکتاہٹ کا شکار نہیں بلکہ جوں جوں رمضان المبارک کے ایام اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہے ہیں توں توں معتکفین یکسوئی، انہماک اور لگن سے انفرادی و اجتماعی عبادات میں مصروف نظر آرہے ہیں۔ آج کی محفل میں فیصل آباد سے آئے ہوئے نعت خواں محترم اویس رضا قادری کموکا نے شیخ الاسلام کی خواہش پر درج ذیل کلام پیش کیا اور خوب داد سمیٹی:

میں تو خود اُن کے در کا گدا ہوں، اپنے آقا کو میں نذر کیا دوں
اب تو آنکھوں میں بھی کچھ نہیں ہے، ورنہ قدموں میں آنکھیں بچھادوں

آنے والی ہے اُن کی سواری، پھول نعتوں کے گھر گھر سجادوں
میرے گھر میں اندھیرا بہت ہے اپنی پلکوں میں شمعیں جلادوں

اس موقع پر نائب ناظم اعلیٰ تحریک (جنوبی پنجاب و سندھ) محترم سردار شاکر خان مزاری نے شخصیت سازی میں تربیت کے کردار کے موضوع پر اظہار خیال کیا۔

محفل نعت کے بعد شیخ الاسلام نے شہر اعتکاف سے اپنا پانچواں خطاب ارشاد فرمایا:

خطاب شیخ الاسلام (موضوع: ہمارا مشرب وصل ہے، فصل نہیں (حسن رفاقت اور حسن خلق)

ایمان، سیرت اور سنت طیبہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کا کمال اخلاق حسنہ میں ہے۔ ابوادریس الخولانی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ مجھے حدیث سنائیں جو آپ نے خود حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہو۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے سنا کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَجَبَتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَحَابِّيْنَ فِيَّ، وَالْمُتَجَالِسِيْنَ فِيَّ، وَالْمُتَزَاوِرِيْنَ فِيَّ، وَالْمُتَبَاذِلِيْنَ فِيَّ.

’’میری خاطر محبت کرنے والوں، میری خاطر (میری) محافل سجانے والوں، میری خاطر ایک دوسرے سے ملنے والوں اور میری خاطر خرچ کرنے والوں کے لئے میری محبت واجب ہو گئی ہے۔‘‘

(اخرجه مالک فی الموطأ، 2/ 953، الرقم: 171)

ہر آیت و حدیث میں نور ہی نور ہے۔ مگر بہت ساری آیات و احادیث ایسی ہیں کہ وہ ساری زندگی کے اخلاق سنوارنے کے لئے کافی ہے اور یہ مذکورہ حدیث بھی انہی احادیث میں سے ہے۔ جس کا دل اپنے دوستوں/ بھائیوں کو دیکھ کر خوش ہو اور ان سے اللہ کی محبت کا تعلق ہے تو اللہ بھی اس کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ آپس میں اللہ کے لئے محبت کرنے میں رقابت نہیں ہوتی۔ منہاج القرآن والے فصل والے لوگ نہیں بلکہ وصل والے لوگ ہیں۔ اگر یہ اصل سمجھ میں آجائے کہ ہم وصل والے لوگ ہیں، جڑنے اور جوڑنے والے لوگ ہیں تو پھر کبھی اپنوں اور غیروں سے فصل نہ کریں۔ ہمارے مشرب میں فصل حرام ہے۔

میرا مشرب/ طبیعت/ مزاج وصل ہے۔ آؤ اس مزاج و ذوق کا پیالہ مل کر پیتے ہیں۔ کسی نے اگر میری عداوت کی وجہ سے مجھ پر گولی چلائی یا گالی دی، میرے دل میں ان کے لئے کبھی نفرت نہیں۔ یہ اس اللہ کا کرم اور احسان ہے۔ ہمار مشرب محبت، جوڑنا اور ملانا ہے۔ شراب وصل کا پیالہ پی لو۔ آپ کو راز بتاتا ہوں۔ لکھی پڑھی چیز راز نہیں ہوتی اس لئے کہ نجانے کتنے لوگوں سے ہوتی ہوئی ہم تک پہنچی ہے۔ اس لئے راز وہ ہے جو الہام ہو بندے پر بیتی ہو۔ وہ راز یہ ہے کہ جس کا دل وصل والا ہو، اس کو وصال نصیب ہوتا ہے۔ جو اللہ کے بندوں سے وصل رکھے، اللہ اس سے وصل رکھتا ہے۔

رفاقت کی اصل بھی وصل ہے۔ معیت کے ذریعے حسنِ رفاقت ملتا ہے۔ حسنِ رفاقت کا راز بھی وصل میں ملتا ہے۔ کہلائے رفیق اور دل میں فصل ہو، وصل نہ ہو تو وہ رفیق نہیں بلکہ فریق ہے۔ اگر فریق ہے تو فصل والا ہے اور اگر رفیق ہے تو وصل والا ہے۔

رفاقت لینا کیوں ضروری ہے؟

رفاقت سے اولیاء، کاملین، مقربین، صادقین اور انبیاء و مرسلین سے وصل ہوتا ہے۔ رفاقت راہ وصل ہے۔ ہماری تحریک و مشن بھی یہ ہے کہ پورے معاشرے میں بھی وصل کا ماحول ہو، فصل کا ماحول نہ ہو۔ مذکورہ حدیث میں اللہ نے وصل کے طریقے اور راز بتائے ہیں۔ ہم اللہ سے محبت کرنے میں مارے مارے پھرتے ہیں مگر یہاں تو اللہ نے خوشخبری سنادی کہ میں نے لوگوں سے محبت کرنا اپنے اوپر واجب کرلیا ہے۔ حالانکہ اس پر کوئی شے واجب نہیں، وہ مالک و بے نیاز ہے۔ وہ بندے جن سے محبت کرنا اللہ نے اپنے اوپر واجب کرلیا ہے وہ یہ ہیں:

  1. میری وجہ سے آپس میں محبت کرتے ہیں۔ دونوں کا محبوب ایک ہے اس لئے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ دنیاوی محبت میں اگر دو کا محبوب ایک ہو تو رقابت اور لڑائی ہے۔ جبکہ اللہ سے محبت میں اگر دو ہوں تو آپس میں محبت کرتے ہیں۔ یہ محبت کرنے والے جب مل بیٹھتے ہیں تو پھر محبوب ہی کی بات کرتے اور سنتے ہیں۔

حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ بیٹھتے تھے۔ پوچھا کہ آپ اس فقیر کے پاس کیا لینے جاتے ہیں حالانکہ لوگ آپ کے پاس شریعت پوچھنے آتے ہیں؟ فرمایا میں شریعت کو جانتا ہوں اور وہ شریعت والے کو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔

  1. وہ لوگ بھی اللہ کے محبوب بن جاتے ہیں جو اللہ کی وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ اخلاق کے طریقے بتائے جارہے ہیں کہ ایک دوسرے پر خرچ کیا کرو۔ یاد رکھیں کہ محبت خریدی نہیں جاتی۔ ضمیر پیسے سے خریدے جاسکتے ہیں، فتوے، بندے، زبان، بیان خریدے جاسکتے ہیں۔ حتی کہ جسم، عزت خرید سکتے ہیں مگر محبت خرید نہیں سکتے۔ محبت کے انداز ہی نرالے ہوتے ہیں، اس میں بے ساختگی ہوتی ہے، اس میں بناوٹ ہوتی ہی نہیں۔
  2. اللہ کے محبوب وہ ہوتے ہیں جو اللہ کی وجہ سے ایک دوسرے سے صدق دل سے دوستی کرتے ہیں۔ تنگ دلی، بغض، تعصب نکال کر دوستی کرتے ہیں۔ لوگ محب بننے کو ترستے ہیں جبکہ اللہ ان طریقوں کے ذریعے اپنا محبوب بنارہا ہے۔
  3. اللہ کی محبت کی وجہ سے ایک دوسرے کی زیارت کرنے جانے والے بھی اللہ کے محبوب ہوتے ہیں۔ اولیاء اس کے حقیقی پیکر ہوتے ہیں۔ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس دنیا میں کوئی شے ایسی نہیں رہ گئی جس سے لذت ملے سوائے دوستوں سے ملاقات کرنے کے۔ یہ لوگ اللہ کی محبت میں ایک مجلس میں آپس میں جڑ کر بیٹھتے ہیں۔ محبت کا رشتہ فاصلوں کو مٹادیتا ہے اور دور دور رہنے والوں کو قریب کرتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ اس دنیا میں دوستوں کا وجود ایک دوسرے کے لئے دین میں مدد ونصرت ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کے دین کی مدد کرتے ہیں۔ دوستی غموں کو مٹادیتی ہے۔ دوست دوست سے ملے اور غم کم نہ ہوں تو اس دوستی پر سوالیہ نشان ہے۔ دنیا میں بہت زیادہ غم ہیں، لہذا آپس میں مل کر غم بانٹا کریں، دلجوئی، حوصلہ افزائی کیا کریں تاکہ دوسروں کا غم کم ہو۔ دوسروں کی ضرورت و حاجت کو پورا کرنے والا اعلیٰ اخلاق پر ہوتا ہے۔ پس فاصلے مٹاکر وصل لانے والوں سے بھی اللہ محبت کرتا ہے۔

رفقاء، رفاقت کو صحیح کریں۔ رفاقت کی روح زندہ کریں۔ جو رفیق نہیں وہ رفاقت لیں، اس لئے کہ رفاقت سے وصل ملتا ہے۔ رفاقت سے وصل کے راز نصیب ہوتے ہیں۔ اس رفاقت سے اللہ، رسول، اولیاء، والدین، بہن بھائیوں، معاشرہ اور پڑوسیوں سے وصل کے آداب جاننے کا موقع ملتا ہے اور ظرف میں وسعت و سخاوت پیدا ہوتی ہے۔

  1. 26 رمضان المبارک 1437ھ/ 2 جولائی 2016ء (ہفتہ)

شہر اعتکاف میں انفرادی و اجتماعی معمولات کے ذریعے معتکفین اپنا اپنا نصیب سمیٹ رہے ہیں۔ آج اللہ کے لئے گوشہ نشین ہونے والوں کا اس شہر اعتکاف میں چھٹا دن ہے۔ ان کا ذوق و شوق اور روحانی لذت و سرور اپنے عروج پر ہے۔ ایک طرف انہیں حضور قدوۃ الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا روحانی فیض حاصل ہورہا ہے اور دوسری طرف علمی وفکری مجالس ان کے ایمان، یقین، استقامت، روحانیت اور اخلاق میں اضافہ کا باعث ہورہی ہے۔ آج کی رات رمضان المبارک کی ستائیسویں رات ہے جو لیلۃ القدر کے نام سے جانی جاتی ہے۔ تحریک منہاج القرآن کے زیر انتظام ہر سال اس موقع پر عالمی روحانی اجتماع منعقد ہوتا ہے جس میں معتکفین کے علاوہ ملک بھر سے لاکھوں عوام شرکت کرتی ہے۔

عالمی روحانی اجتماع (لیلۃ القدر)

تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف میں رمضان المبارک کی 27 ویں شب عالمی روحانی اجتماع منعقد ہوا اس عالمی روحانی اجتماع کی صدارت جگر گوشہ قدوۃ الاولیاء حضرت پیر السید محمود محی الدین القادری الگیلانی مدظلہ العالی نے فرمائی۔ روحانی اجتماع میں شہر اعتکاف کے ہزاروں معتکفین و معتکفات سمیت لاکھوں عشاقان مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مرد و خواتین نے شرکت کی۔ پروگرام کی تمام کارروائی www.Minhaj.tv، فیس بک اور دیگر نجی ٹی وی چینلز کے ذریعے براہ راست نشر کی گئی۔ عالمی روحانی اجتماع میں دنیا بھر کے علاوہ انڈیا کے 200 سے زائد مقامات سے لوگوں نے اجتماعات کی صورت منہاج TV کے ذریعے شرکت کی۔

عالمی روحانی اجتماع کی کارروائی کا آغاز نماز عشاء نماز تراویح اور باجماعت صلوۃ التسبیح کے بعد تلاوت قرآن مجید سے ہوا۔ جس کے بعد محترم صاحبزادہ احمد مصطفی العربی نے نہایت خوبصورت انداز میں قصیدہ بردہ شریف پڑھا۔ محترم صاحبزادہ حماد مصطفی المدنی نے محمد افضل نوشاہی اور ہمنواؤں کے ساتھ عربی نعت "یانور العین" پڑھی جس پر شرکاء نے جھوم جھوم کر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ بعد ازاں محمد افضل نوشاہی، منہاج نعت کونسل، ظہیر بلالی، امجد بلالی اور شہزاد برادران نے اجتماعی ذکر کیا۔ اس موقع پر "پکارو شاہ جیلاں کو پکارو" منقبت بھی بارگاہ غوث الاعظم میں پیش کی گئی۔ محفل کے دوران بارش کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا تھا مگر تمام شرکاء بارش کے اندر بھی نہایت ذوق و شوق سے بیٹھے رہے اور محفل سے روحانی کیف و سرور حاصل کرتے رہے۔

عالمی روحانی اجتماع میں ناظم اعلیٰ محترم خرم نواز گنڈا پور نے صاحب صدارت حضرت پیر صاحب کو خوش آمدید کہا اور اُن کی آمد پر اُن کا شکریہ ادا کیا۔ پروگرام کے انتظام و انصرام میں خصوصی دلچسپی لینے پر محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کا بھی شکریہ ادا کیا۔ نیز اس عالمی مرکز پر تشریف لانے والے جملہ شرکاء کو خوش آمدید کہا۔

اعتکاف پر آنے والی نئی تصانیف

اس موقع پر محترم مفتی ارشاد حسین سعیدی نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی اعتکاف کے موقع پر نئی شائع ہونے والی درج ذیل کتب کا تعارف پیش کیا:

  1. فضیلتِ روایتِ حدیث اور مقامِ اِسناد: تَرْغِيْبُ الْعِبَاد فِي فَضْلِ رِوَايَةِ الْحَدِيْثِ وَمَکَانَةِ الْإِسْنَاد
  2. اَربعین: ایمان بالنبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم: اَلْقَوْلُ الصَّفِيّ فِي فَضْلِ الْإِيْمَانِ بِالنَّبِیّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم
  3. اَربعین: حقیقتِ ایمان: محبتِ اِلٰہی اور محبتِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم: تَنْوِيْرُ الْإِيْمَان فِي مَحَبَّةِ النَّبِیِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم الْمُرْتَفَعِ الشَّان
  4. اَربعین: عقیدہ ختمِ نبوت: مُنْتَهَی السُّبُل فِي کَوْنِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم خَاتَمِ الْاَنْبِيَاءِ وَالرُّسُل
  5. اَربعین: اَشیاء خور و نوش کی تخلیق اور ان میں اِضافے کے معجزات: اَلْفَضْلُ التَّمَام فِي مُعْجِزَةِ تَخْلِيْقِ الْمَاءِ وَتَکْثِيْرِ الطَّعَام
  6. اَربعین: فضیلت و آدابِ ذِکر اِلٰہی: کَاشِفُ الْاَحْزَان بِمَا رُوِيَ فِي فَضِيْلَةِ ذِکْرِ الرَّحْمَان
  7. اَربعین: روایتِ حدیث میں اِسناد کی اَہمیت: اَلْإِرْشَاد فِي مَکَانَةِ الْإِسْنَاد
  8. اَربعین: روایت و فہمِ حدیث کی فضیلت: اَلْقَوْلُ الْحَثِيْث فِي فَضْلِ الرِّوَايَةِ وَفِقْهِ الْحَدِيْث
  9. اَربعین: علمِ حدیث کے لیے سفر کرنے کی فضیلت: التَّحْدِيْث فِي الرِّحْلَةِ لِطَلَبِ الْحَدِيْث
  10. کاروانِ اِنقلاب (23 دسمبر 2012ء تا 23 اکتوبر 2014ء) (مصنف: سبط جمال پٹیالوی)
  • کتب کے تعارف کے اس موقع پر شیخ الاسلام نے ان کتب کی اہمیت و افادیت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:

صرف احادیث پر 200 کے قریب کتب چھپ چکی ہیں۔ پچھلی 2 صدیوں میں اتنا بڑا کام کسی نے نہیں کیا۔ لہذا کارکنان و رفقاء علم سے محبت اور پڑھنے سے محبت پیدا کریں۔ علم کے بارے میں اتنا مواد آپ کے پاس ہے کہ آپ کو ہر موضوع پر کتات یہاں سے مل جائے گی۔ یہ حضور علیہ السلام کی خیرات ہے۔

ہم اہل سنت و اہل تصوف ہیں۔ پہلے دور میں بڑے بڑے محدث اہل تصوف تھے۔ وہ مجتہد و محدث بھی تھے اور صوفی بھی تھے۔ پچھلے دو تین سو سال سے علماء کا ایک طبقہ ایسا آیا جنہوں نے تصوف کو بدعت قرار دیا اور اہل تصوف کو طعنہ دیا گیا کہ حدیث ان کے پاس ہے ہی نہیں، یہ صرف اولیاء کے اقوال بیان کرتے ہیں، اپنے حلقات کرتے ہیں، ذکر و اذکار کرتے ہیں، ان کے پاس قرآن و حدیث کا علم نہیں ہے۔ حدیث اور تصوف پر منہاج القرآن نے عظیم کام کرکے ان کے طعنہ کا جواب دے دیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ کا سر بلند ہو اور ہر شخص ان کتب کا مطالعہ کرے اور اپنی ذاتی لائبریری قائم کرے، اس لئے کہ منہاج القرآن، تحریکِ علم بھی ہے۔

خطاب شیخ الاسلام (موضوع: تعلق باللہ اور معرفتِ الہٰیہ)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عالمی روحانی اجتماع کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَمَنْ يَّعْْتَصِمْ بِاﷲِ فَقَدْ هُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ.

(آل عمران: 101)

جس شخص نے اللہ کا دامن تھام لیا وہ سیدھی راہ پا گیا، جو بندہ اللہ سے محبت کر لے، اللہ اسکو چاہنے لگتا ہے اور اس سے محبت کر لیتا ہے۔ جب بندہ اللہ کا ارادہ کر لے تو وہ مرید بن جاتا ہے، اور اللہ جن کا ارادہ کر لے وہ مراد بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگ بہت خوش نصیب ہیں، جن کا ارادہ خود اللہ فرما لیتا ہے۔ جب بندہ اللہ کی طرف سے مراد ہو جاتا ہے تو ساری دنیا اس بندے سے محبت کرنے لگتی ہے۔

آج ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری ہر طلب دنیا کے لیے ہوتی ہے، ہم تسبیحات اور عبادت بھی دنیا کے دکھاوے کے لیے کرتے ہیں۔ اللہ کی طلب اور یاد میں خود کو خالص بنا لو، تو زندگی کے مزے اور لطف ہی کچھ اور ہوں گے۔ کیونکہ اگر بندہ اپنی چاہت خالص کر لے اور اللہ کو محبت کی آرزو سے طلب کرے تو وہ شخص اللہ کا وصال پا لے گا۔

آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے مجھے صدق دل سے طلب کیا اس نے مجھے پالیا۔ جس نے میرے سوا کسی اور چیز کی طلب کی، وہ کچھ پائے یا نہ پائے مجھے نہیں پائے گا۔ جس نے مجھے توبہ کی آرزو کے ساتھ طلب کیا اس نے مجھے مغفرت کے ساتھ پالیا۔ جس نے مجھے توکل کے ساتھ طلب کیا، اس کی کوئی حاجت نہ رہے گی اور جس نے میری محبت کے ساتھ مجھے طلب کیا، اس نے میرا وصال پالیا۔

حضرت عبداللہ بن زید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ایک روز سفر میں جارہا تھا وہاں اللہ والا ملا۔ میں نے اس عارف کو سلام کیا اور اس سے کہا: اے عارف میں تم سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بات مختصر کرنا دن گزرے جارہے ہیں، سانسوں کی گنتی ہورہی ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا تقویٰ کی جڑ، کمال یا راز کیا ہے؟ جواب دیا:ـ اللہ کے ساتھ صبر کے ساتھ رہنا پوچھا: صبر کا راز کیا ہے؟ ہر حال میں اللہ پر توکل رکھنا۔۔۔ پوچھا: توکل کا راز کیا ہے؟ ہر طرف سے دھیان کو کاٹ کر ہر طرف سے اللہ کی طرف ہو۔

پوچھا: دنیا میں سب سے لذیذ شے کیا ہے۔۔۔؟ انہوں نے کہا اللہ کے ذکر سے انس رکھنا۔۔۔ پوچھا: سب سے زیادہ قریب شے کیا ہے۔ جو آسانی سے ملے؟ اللہ سے ملنا۔۔۔ پوچھا: دل کے لئے تکلیف دینے والی شے کیا ہے؟ کہا: اللہ سے اور اس کی طلب سے جدا رہنا۔۔۔ پوچھا: سب سے زیادہ سرور اور خوشی کس چیز میں ہے؟ کہا: ہر حال میں اللہ کے ساتھ خوش رہے۔۔۔ پوچھا: سلامتی والا دل کیا ہے؟ کہا: وہ ہے جس دل میں اللہ کے سوا کوئی نہ ہو۔۔۔ پوچھا: آپ کھاتے کہاں سے ہیں؟ کہا: اللہ کے خزانوں سے۔۔۔ پوچھا: آپ کو پسند کیا ہے؟ کہا: جو فیصلہ اللہ کردے۔

حضرت یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ درست دل کی علامت کیا ہے۔۔۔؟ فرمایا جو دنیا کے غموں سے پاک ہے وہ درست دل ہے۔۔۔ پوچھا: اس دل کی خوراک کیا ہے؟ کہا: مولا کا ذکر ہے۔۔۔ پوچھا: صدق و ارادہ کیا ہے؟ کہا: اپنی عادت کو چھوڑ دو۔۔۔ پوچھا: شوق کیا ہے؟ فرمایا: جو کچھ دنیا میں ہے اسے نہ دیکھنا۔ پوچھا: مودت کیا ہے؟ کہا: اللہ سے موافقت رکھنا۔۔۔ پوچھا: غریب/ انوکھا شخص کون ہے؟ کہا: جسے مولا کی محبت نہیں ہے وہ غریب ہے۔۔۔ پوچھا: افضل اعمال کیا ہے؟ کہا: ہر حال میں مولا کا ذکر کرنا۔۔۔ پوچھا: وفا کیا ہے؟ صدق و صفا کا نام ہے۔۔۔ شریف/ عزت والا کون ہے؟ کہا: جو رب کریم کے ساتھ محبت کرے وہی شریف ہے۔۔۔ دنیا کیا ہے؟ جو شے اللہ سے دور کردے۔۔۔ عبادت کیا ہے؟ ہر وہ عمل جو مولا کے قریب کرے وہ عبادت ہے۔

حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یارب دل چاہتا ہے کہ تجھ سے ملوں، تجھ سے ملاقات کروں، وصال کیسے ہو؟ جواب دیا: یہ جو نفس ہے اس سے ’’میں‘‘ نکال دے میرا وصال نصیب ہوگا۔

حضرت ذوالنون رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک سفر میں ہم نے ایک جواں کو دیکھا، چھوٹے بچے اس نوجوان کو پتھر مار رہے تھے۔ انہوں نے بچوں سے پوچھا اس جوان کو کیوں مارتے ہو۔ بچے کہنے لگے پاگل ہے، یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اللہ کو دیکھتا ہے۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ تم دعویٰ کرتے ہو کہ تم اللہ کو دیکھتے ہو تو اس نے کہا ایک لمحہ بھی اس کا جلوہ حسن نگاہوں میں نہ رہے تو میں مرجاؤں۔ حضرت ذوالنون رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کیا تم پاگل ہو؟ اس نے کہا: زمین والوں کے لئے پاگل مگر آسمان والوں کے لئے نہیں، پوچھا تیرا مولا کے ساتھ تعلق کیا ہے؟ کہا: جس دن سے اسے پہچان لیا ہے اس دن سے کسی کی پرواہ نہیں۔اس کے حکم کو ٹالا نہیں، اس کی چاہت سے منہ موڑا نہیں، اس لئے مولا نے مجھے لوگوں سے دور کرنے کے لئے پاگل کردیا۔

اس حال کو پانے کی کوشش کریں ضروری نہیں کہ دریا ملے، قطرہ ہی مل جائے تو مقدر بدل جاتا ہے۔ اگر جام نہ ملے تو اس کی بوہی مل جائے تو وہ بھی کفایت کرجاتی ہے۔ دل دنیا اور غیر کی محبت سے خالی ہوجائے تو نور آجائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس رات کی برکت سے ہمارے دلوں کو بدل دے۔

خطاب کے بعد شیخ الاسلام نے رقت آمیز دعا کروائی، جس میں ہر آنکھ اشکبار اور ہر طرف آہیں اور سسکیاں تھیں اور اس روحانی وجدانی ماحول میں عالمی روحانی محفل اپنے اختتام کوپہنچی

  1. 27 رمضان المبارک 1437ھ/ 3 جولائی 2016ء (اتوار)

حسب معمول نماز عشاء و تراویح کے بعد رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی آٹھویں رات کے پروگرام کا آغاز ہوا۔ پروگرام کے آغاز میں رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں گوشہ درود میں گوشہ نشین ہونے والے احباب نے شیخ الاسلام سے مصافحہ کیا اور اپنی اسناد وصول کیں۔ محترم علامہ غلام مرتضیٰ علوی (ناظم تربیت) نے شرکاء کو آگاہ کیا کہ گوشہ درود میں ماہ مئی و جون 2016ء میں 2 ارب 86 لاکھ 16 ہزار 700 مرتبہ درود پاک کا نذرانہ پیش کیا گیا۔ اب تک گوشہ درود کے زیر اہتمام کل 1 کھرب 20 ارب 5 کروڑ 75 لاکھ 26 ہزار مرتبہ درود پاک حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں پیش کیا جاچکا ہے۔

اس موقع پر انہوں نے تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام بچوں کی تربیت کے حوالے سے منعقدہ ماہانہ کڈز فیسٹیول کی تفصیلات سے بھی شرکاء کو آگاہ کیا کہ تحریک کے زیر اہتمام کس طرح بچوں کی علمی، فکری، اخلاقی، روحانی تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے اور کس طرح بچوں کے مزاج کے پیش نظر کارٹونز، کہانیوں اور کلپس کے ذریعے دین اسلام کی ابتدائی تعلیمات اور بنیادی اقدار بچوں میں جاگزیں کرائے جاتے ہیں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے معمول کے خطاب سے قبل شرکاء اعتکاف کو درج ذیل امور کی جانب متوجہ کیا اور انہیں ان امور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی تاکید فرمائی:

  1. اس روئے زمین پر گوشہ درود کی صورت میں حاصل سعادت صرف تحریک منہاج القرآن کا نصیب ہے۔ مدینہ طیبہ کے علاوہ روئے زمین پر ایسا کوئی مقام نہیں جہاں باقاعدہ اہتمام و انتظام کے ساتھ 24 گھنٹے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں درود پاک پڑھا جائے۔ لہذا تمام لوگ سال میں جس طرح دس دن اعتکاف کے لئے مختص کرتے ہیں، اسی طرح سال میں 10 دن گوشہ درود کے لئے بھی مختص کریں اور اپنی رجسٹریشن کروائیں۔
  2. شریعہ کالج (COSIS) اور منہاج گرلز کالج تعلیم و تربیت کے بہترین ادارے ہیں۔ یہاں علم، اخلاق اور روحانیت کی باقاعدہ تربیت کا اہتمام ہوتا ہے۔ ظاہرو باطن اور دنیا و آخرت میں فلاح کے لئے اپنے اور اپنے اعزاء و اقارب کے بچوں اور بچیوں کو یہاں ضرور بالضرور داخلہ دلوائیں، یہاں تعلیم و تربیت کا اعلیٰ ماحول ہے جو کہ دیگر تعلیمی اداروں میں دستیاب نہیں ہے۔

محفل نعت سے فراغت کے بعد شیخ الاسلام نے شہر اعتکاف میں اپنا ساتواں خطاب ارشاد فرمایا:

خطاب شیخ الاسلام (موضوع: حسنِ ادب اور حسنِ خلق)

ادب کیا ہے؟ حسن معاملہ کا نام ادب ہے۔ یعنی دوسروں سے برتاؤ معاملہ کو بطریق احسن نبھانا حسن ادب ہے۔ اگر معاملہ اللہ کے ساتھ ہو تو عبادت ہے۔ اگر ادب اعلیٰ ہوجائے تو حسن ادب کہلاتا ہے۔ ہمارے ہاں ادب صرف Respect تک محدود ہے۔ یہ ادب ہے مگر یہ ادب کے مضمون کا ایک حصہ ہے۔ دوسرے کا حق ادا کرنا ادب کہلاتا ہے۔ خواہ وہ حقوق اللہ میں ہو یا حقوق العباد۔ اللہ، حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صحابہ کرام، اکابر اولیاء و صلحاء کے حقوق کو بطریق احسن بجالانا ان کا ادب کہلاتا ہے۔ اسی طرح چھوٹوں کا بھی ادب ہے۔ رشتہ داروں، پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنا بھی ادب کا حصہ ہے۔ اچھے طریقے سے بیٹھنا، مصافحہ کرنا، سلام کرنا، سلام کا جواب دینا، آنے والے کی ضرورت پوری کرنا ادب ہے۔ تیمار داری، جنازہ میں شرکت اور بیوی بچوں سے حسن سلوک بھی ادب ہے۔ اساتذہ کی عزت کرنا بھی ادب ہے اور جانوروں کو اذیت نہ دینا بھی ادب ہے۔

احادیث کی کم و بیش تمام کتب میں کتاب الادب، باب الادب یا ابواب الادب موجود ہیں۔ جن میں ان تمام مضامینِ ادب کو جمع کیا گیا ہے۔ امام بخاری نے الادب المفرد کے نام سے جامع کتاب لکھی۔ یاد رکھیں! ساری زندگی بسر کرنے کا سلیقہ ادب کہلاتا ہے۔ اگر ادب سنور جائے تو اخلاق سنور جاتے ہیں۔ ادب سارا دین ہے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے اللہ نے میری شان کے لائق ادب سکھایا اور میرے ادب کو سنوارا۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد امام القاسم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں 20 سال امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں رہا اور ان سے پڑھا۔ مجھے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے 18 سال ادب پڑھایا اور سکھایا۔ آخری 2 سال صرف علم پڑھایا۔ اب پچھتاوا ہے کہ کاش آخری دو سال بھی علم کے بجائے ادب پر لگائے ہوتے۔

معلوم ہوا کہ علم سے ادب نہیں آتا لیکن اگر ادب سنور جائے تو علم آجاتا ہے۔ ادب دین کا نام ہے اور بے ادبی بے دینی کا نام ہے۔ پہلے زمانے میں اولیاء فرماتے تھے کہ ادب آٹے کی طرح ہو اور علم نمک کی طرح ہو پھر علم فائدہ مند/ نافع ہے۔دشمن کا نام بھی لیں تو بدتہذیبی سے نہ لیں۔ اپنا نقطہ نظر تہذیب سے بیان کریں یہ بھی ادب ہے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور صحابہ کرام نے کبھی ابولہب و ابوجہل کو بھی گالی نہ دی، بدتہذیبی سے بات نہ کی۔ بدتہذیبی دین اسلام کا حصہ نہیں۔ لہذا اہل علم، مشائخ، اساتذہ، قائدین، رہنماؤں کو اپنی مثال پیش کرنی چاہئے تاکہ ان کی سیرت و کردار سے رہنمائی لیتے ہوئے نئی نسلیں اپنی زندگی کو سنوار سکیں۔ ادب ظاہر و باطن کی تہذیب/ ستھرا کرتا ہے۔ یاد رکھیں کہ ظاہر کے سنورنے سے باطن پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

امام عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کسی بزرگ/ والدین/ بڑوں کی خدمت کرنے سے بھی بڑی بات اس خدمت کا ادب جاننا ہے۔ ادبِ خدمت کا رتبہ، نفسِ خدمت سے بڑا ہے کہ خدمت کرنی کیسی ہے؟ ادب کیسے کرنا ہے؟ حق ادا کیسے کرنا ہے؟ ادب اگر آجائے تو انسان کا زاویہ نگاہ بدل جاتا ہے۔ ہمارا طرز عمل یہ ہے کہ ہمیں کسی کی برائی/ گناہ معلوم ہوجائے تو ہم اس کو بے عزت کرنے/ نکلوانے کے درپے ہوجاتے ہیں۔ اگر گناہ نہ بھی کیا ہو تو تہمت لگانے اور گناہ کو اچھالتے ہیں جبکہ اولیاء کا طرز عمل یہ ہے کہ دوستوں کے لئے مغفرت و بخشش کرتے ہیں۔

حضرت ابوالقاسم اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوبکر الوراع رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ کس کی صحبت میں بیٹھا کروں؟ فرمایا اس کے پاس بیٹھو جو شخص تجھ سے نیکی کرے تو بھول جائے، نہ تجھے یاد دلائے نہ خود یاد رکھے۔ اس کی صحبت میں کبھی نہ بیٹھو جو تیری برائی کو یاد رکھے۔ برائی کو وہ اس لئے یاد رکھتا ہے تاکہ تجھے بے عزت و شرمندہ کرے۔

حضرت یحییٰ بن معاذ رازی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ دوستی کس سے کریں؟ فرمایا: وہ دوست نہیں ہے کہ جب تم سے اس کے حق میں غلطی ہوجائے تو وہ تم سے معذرت طلب کرے۔ دوست وہ ہے جس کو تمہاری معذرت کی کبھی حاجت نہ ہو۔ معذرت کروانے کا مطلب دوسرے کو شرمندہ کرنا ہے۔ فرمایا: اس سے بھی دوستی/ صحبت نہ رکھو کہ جب تمہیں حاجت ہو تو تمہیں اس سے سوال کرنا پڑے بلکہ وہ تیرے چہرہ/ حالات دیکھ کر خود معلوم کرلے اور تیری حاجت پوری کردے۔

ہماری زندگی بہت مختلف ہے، اللہ، رسول، اولیاء و صوفیاء کی تعلیمات و بندگی سے ہمارا کوئی سروکار نہیں۔ ہم صرف نعرے لگاتے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ معاملہ، برتاؤ کو بدلنا ہوگا۔ یہ معیار جو اولیاء و صوفیاء نے ہمیں قرآن و سنت کی روشنی میں دیا، اس کو اپنانا ہوگا۔

حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ مرد کون ہیں؟ فرمایا جو ذاتی معاملہ میں بدلہ لینے کی طاقت رکھے مگر معاف کردے۔ اللہ اس سے یہ سلوک کرے گا کہ اس بندے نے طاقت کے باوجود معاف کردیا، لہذا میں بھی اس کے گناہوں کے باوجود اس کو معاف کردیتا ہوں۔

حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے لوگوں کے عیب دیکھے، وہ اپنے عیب دیکھنے سے اندھا رہے گا اور جس نے اپنے عیب دیکھنے شروع کردیئے وہ دوسروں کے عیب دیکھنے سے نابینا ہوجائے گا۔ اپنے عیب دیکھتے رہیں گے تو اصلاح کا موقع ملتا رہے گا:

نہ تھی اپنے گناہوں پر جو نظر
رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر

پڑی اپنے گناہوں پر جو نظر
تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا

  1. 28 رمضان المبارک 1437ھ/ 4 جولائی 2016ء (سوموار)

آج ماہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی آخری طاق رات ہے۔ نماز عشاء و نماز تراویح کے بعد شیخ الاسلام تحریک کی جملہ مرکزی قیادت کے ساتھ سٹیج پر موجود ہیں۔ آج بھی نماز تراویح کی آخری چار رکعت کی امامت محترم صاحبزادہ حماد مصطفی المدنی نے کروائی اور نماز عشاء کی دو رکعت نماز نفل کی امامت محترم صاحبزادہ احمد مصطفی العربی نے کروائی۔ آج کی محفل نماز تراویح کے دوران ختم قرآن مجید کی محفل کے نام سے موسوم کی گئی۔

آج کے پروگرام میں 17 جون اور انقلاب مارچ کے دوران شہید ہونے والے شہداء کے ورثاء بطور مہمان خصوصی سٹیج پر تشریف فرما تھے۔ علاوہ ازیں اس انقلابی جدوجہد کے دوران زخمی اور قیدی ہونے والے احباب بھی بطور خاص اگلی نشستوں پر تشریف فرما تھے۔ شیخ الاسلام نے شہداء کے لواحقین سے خصوصی ملاقات کی اور انہیں دعاؤں سے نوازا۔

پروگرام میں نماز تراویح کے دوران قرآن مجید سنانے کی سعادت حاصل کرنے والے قراء، جامع مسجد منہاج القرآن ماڈل ٹاؤن اور جامع مسجد المنہاج بغداد ٹاؤن کے ائمہ، خطباء، موذنین، خادمین کو محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، محترم صاحبزادہ حماد مصطفی المدنی اور محترم صاحبزادہ احمد مصطفی العربی نے پھولوں کے ہار پہنائے اور تحائف دیئے۔ شیخ الاسلام نے ان تمام احباب سے مصافحہ کیا اور دعاؤں سے نوازا۔

پروگرام میں مفتی اعظم منہاج القرآن محترم المقام مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی مدظلہ کو بھی ان کی بے مثال علمی و فکری خدمات پر تحائف سے نوازا گیا۔ اس موقع پر محترم صاحبزادہ حماد مصطفی المدنی اور محترم صاحبزادہ احمد مصطفی العربی کو بھی اعتکاف کے دوران خوبصورت قرات پر شیخ الاسلام نے پھولوں کے ہار پہنائے۔

خصوصی گفتگو شیخ الاسلام

ختم قرآن کے اس پروگرام میں شیخ الاسلام نے اپنے معمول کے خطاب سے قبل درج ذیل امور پر تربیتی حوالے سے خصوصی گفتگو کی:

  1. مطالعہ اور علم کے کلچر کا فروغ: شیخ الاسلام نے مطالعہ کی اہمیت اور علم کے کلچر کے فروغ پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ میں دوران تعلیم اپنی بنیادی ضروریات میں سے بھی کچھ نہ کچھ رقم ضرور بچاتا اور اس رقم کو کتب کی خریداری پر صرف کرتا۔ میں سائیکل پر سفر کرلیتا اور کرائے کی مد میں بچائی گئی رقم سے اپنے غریب کلاس فیلوز کی مدد کرتا اور کتب خریدتا۔ بعض اوقات ایک دو ٹائم فاقہ برداشت کرلیتا اور اس بچائی گئی رقم سے بھی کتابیں خرید لیتا۔ لہذا آپ بھی اپنے اندر علم کے کلچر کو زندہ کریں، مطالعہ کرنا اپنی عادت بنائیں۔ زندگی علم کے بغیر بیکار ہے۔ عمل بھی علم کے بغیر حسین نہیں بنتا۔ میں نے جو امت کی خدمت کے لئے سینکڑوں کتب لکھی ہیں، میں ان سے ایک روپے کی بھی رائیلٹی نہیں لیتا بلکہ وہ تمام رقم بھی دین کے فروغ کے لئے وقف ہے۔ یہ کتب آپ کے لئے ہیں لہذا ان کتب کو خریدیں، ہر شخص اپنی ذاتی لائبریری بنائے۔ میرے خطابات کی DVD's, CDs خریدیں اور سنیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر شخص مطالعہ کا شغف رکھے اور کتب کو اپنی زندگی کا زیور بنائے۔
  2. اولاد کی تربیت: دوران اعتکاف محترم صاحبزادہ حماد مصطفی المدنی اور محترم صاحبزادہ احمد مصطفی العربی کی اعلیٰ پائے کی تربیت نے معتکفین کو حیران کردیا۔ معتکفین نے اولاد کی تربیت کے حوالے سے شیخ الاسلام سے رہنمائی کی گزارش کی۔ اس سلسلے میں آپ نے ارشاد فرمایا:

میرے یہ دونوں پوتے الحمدللہ دینی و دنیاوی دونوں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ بیرون ملک رہنے کے باوجود ان کی دینی تعلیم بھی بھرپور طریقے سے جاری ہے۔ ان کا باقاعدہ ٹائم ٹیبل ہے جس کے مطابق یہ اپنی دینی و دنیاوی دونوں تعلیموں کو یکساں وقت دیتے ہیں۔ شریعہ مضامین، تجوید و قرات کی تعلیم اور روحانی ماحول انہیں گھر میں بہم میسر رہتا ہے۔ گھر کے تمام افراد ان کی امامت میں فرض و نفل نماز کی ادائیگی کرتے ہیں۔

بتانا مقصود یہ ہے کہ بچوں کی تربیت اس طرح کریں کہ ان کے اندر دین کا شغف پیدا ہو۔ اس سلسلہ میں چھوٹی عمر سے ہی ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعد ازاں جب عمر زیادہ ہوجائے تو عادات پختہ ہوجاتی ہیں۔ آپ میں سے ہر ایک کا بچہ دین، ملک اور اس مشن کا مستقبل ہے۔ جس طرح ہم لوگ ان کی خوراک، لباس اور حاجاتِ ضروریہ کا دھیان رکھتے ہیں اسی طرح ان کے اخلاق، عبادات اور روحانیت پر بھی توجہ اور محنت کی ضرورت ہے۔

  1. ضرب امن مہم: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس موقع پر تحریک منہاج القرآن کی طرف سے آغاز کردہ ضرب امن مہم کو کامیاب بنانے کے لئے ہدایات دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ

مسلح دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمہ کے لئے جس طرح پاک فوج ضرب عضب کررہی ہے اسی طرح تحریک منہاج القرآن بھی دہشت گردی و انتہاء پسندی کی فکری بیخ کنی کے لئے ضرب امن کے ذریعے اپنا کردار ادا کررہی ہے۔ قیام امن کے لئے تحریک نے فکری، نظریاتی، اعتقادی اور علمی اعتبار سے اس مہم کا آغاز کیا ہے۔ لہذا تمام کارکنان و رفقاء ضرب امن مہم کا حصہ بنیں اور اسے فروغ دیں۔ تمام رفقاء و کارکنان کے اندر چار چیزیں ہونی چاہئیں:

  1. علم
  2. امن
  3. اخلاق
  4. عشقِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

ان چاروں چیزوں کا نام اسلام اور پاکستان ہے۔

یہ امر ذہن نشین رہے کہ ہم ان چاروں چیزوں کے ساتھ ساتھ شہداء کے ورثاء کے لئے انصاف اور قصاص کے مطالبے پر بھی قائم ہیں اور انصاف و قصاص ان شاء اللہ لے کر رہیں گے۔ 17جون کی شہادتوں اور دھرنوں کے بعد حکمران خاندان کے نمایاں افراد نے مجھ سے ملاقات کی اور معافی کی درخواست کی مگر میں نے ان کی اس درخواست کو یہ کہہ کر یکسر مسترد کردیا کہ اگر میرے بیٹے شہید ہوئے ہوتے تو مجھے معاف کرنے کا اختیار حاصل تھا اور میں معاف کرنے کے بارے میں بھی سوچتا مگر یہ میرے کارکنان شہید ہوئے ہیں۔ جن کے لواحقین نے مجھ پر اعتماد کیا اور حکومت کی کروڑوں روپوں کی آفر کو ٹھکرادیا۔ لہذا میں کبھی شہیدوں کے خون کو بیچنے اور ان کے لواحقین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ لہذا اس سلسلہ میں تمہاری معافی کی درخواست کو قطعاً قبول نہیں کرتا۔ ظالم و متکبر حکمرانوں کے لئے معافی کی کوئی گنجائش نہیں۔

شہداء کے لواحقین مبارکباد کے مستحق ہیں کہ جس ملک میں ہر روز خون بکتا ہے، وہاں یہ انصاف اور قصاص کے مطالبے کو لئے عدل و انصاف کی آبیاری کے لئے استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کی اس قربانی کو قبول فرمائے۔

شیخ الاسلام کی اس تربیتی گفتگو کے بعد محترم محمد افضل نوشاہی اور منہاج نعت کونسل کے احباب نے نعت رسول مقبول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پیش کی۔ جس کے بعد شیخ الاسلام نے اعتکاف کے دوران اخلاق کے موضوع پر ہونے والے سلسلہ وار خطابات کا آٹھواں اور آخری خطاب ارشاد فرمایا۔

خطاب شیخ الاسلام (موضوع: اخلاق کیسے سنواریں؟)

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

يُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ کَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ.

’’ یہ لوگ اُن سے محبت کرتے ہیں جو اِن کی طرف ہجرت کر کے آئے ہیں۔ اور یہ اپنے سینوں میں اُس (مال) کی نسبت کوئی طلب (یا تنگی) نہیں پاتے جو اُن (مہاجرین) کو دیا جاتا ہے اور اپنی جانوں پر انہیں ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود اِنہیں شدید حاجت ہی ہو‘‘۔

(الحشر: 9)

اس آیت میں مہاجرین و انصار دونوں کا ذکر کیا مگر انصار کی بطور خاص فضیلت بیان کی جنہوں نے مہاجرین کو اپنے وسائل میں شریک کیا اور اپنے وسائل ان کے سکھ چین پر خرچ کئے اور ان سے ان کی اجنبیت کو ختم کیا۔ ان کی تعریف کرکے اللہ رب العزت نے درحقیقت ہمیں اس کردار کی طرف متوجہ کیا ہے۔ انصار کو معلوم تھا کہ یہ مہاجرین 3 دن کے مہمان نہیں بلکہ مستقل سکونت اختیار کررہے ہیں۔ اس کے باوجود ان سے اس قدر محبت کا اظہار اور وسعت ہمیں اس کردار کو اپنانے کی دعوت دینا ہے۔ ہمارے ہاں کوئی ایک دن کچھ لمحات کے لئے بھی مہمان آجائے تو ہم تیوری چڑھا لیتے ہیں۔

انصار کی اس قربانی و ایثار پر اللہ نے فرمایا کہ انصار آنے والوں کو اپنی جانوں پر بھی ترجیح دیتے ہیں۔ یعنی یہ نہیں کرتے کہ پہلے خود کھائیں اور جو بچ جائے وہ انہیں دے دیں بلکہ طرز عمل یہ تھا کہ پہلے ان کی ضرورت پوری کرتے اور پھر جو بچ جاتا اس کو اپنے استعمال میں لاتے۔ نہ بچتا تو فاقہ کرتے۔ ان کے اس طرز عمل پر اللہ نے ان سے اپنی محبت کا اظہار خیال کیا۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ نے انصار کی دو خوبیاں بیان کیں:

  1. وسعت قلب
  2. اپنی جانوں پر بھی ترجیح دینے کا عمل

حضرت سہل بن عبداللہ تستری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عدل دوستوں کے لئے نہیں ہوتا۔ عدل دشمنوں کے لئے ہوتا ہے۔ عدل دوستوں کے لئے بے وفائی ہے۔ عدل سے مراد ہے کہ جس کا جو حصہ ہے اس کو وہ دینا اور دوسرے کو اس کا حصہ دینا۔ دوستوں کے ساتھ کرم، وفا، احسان ہوتا ہے کہ اپنا حصہ / پسند/ راحت/ خوشی/ مسرت بھی دوستوں کو دے دیتے ہیں۔ افسوس ہم کہاں ہیں؟ ہمارے ہاں دوستوں، رشتہ داروں کے لئے احسان تو دور کی بات، عدل تک نہیں ہے۔ ہم مرتبہ حرص، عناد، عداوت پر ہیں۔ ہم تو دوست احباب کے ساتھ تعلق بھی مقابلہ کا رکھتے ہیں۔ ہم نے ہر شے کو رسم بنادیا۔

حضرت ابوالقاسم نصر آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں نے حضرت ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ سے سنا کہ وہ فرمارہے تھے کہ اللہ والوں کا طریقہ یہ ہے کہ جس بندہ پر اللہ کا فضل ہوجائے۔ اللہ والا اس بندے سے حسد نہیں کرتا۔ کسی شخص کا گناہ دیکھ لے تو اس گناہ کی وجہ سے اس پر طعنہ زنی نہیں کرتے، بدنام نہیں کرتے بلکہ پردہ ڈالتے ہیں۔ اس لئے کہ ڈرتے ہیں کہ کہیں ایسی آزمائش مجھ پر نہ آجائے۔ ان کے حق میں اللہ جو فیصلہ فرمادے اس کو اللہ کا فیصلہ سمجھتے ہوئے قبول کرتے ہیں۔

حسد کا مطلب ہے کہ ہمیں اللہ کا امر/ فیصلہ پسند نہیں آیا۔ اس لئے کہ دینے والا اللہ ہے، ہم اللہ کی تقسیم پر اعتراض کررہے ہیں۔ حسد ایک طرح کا کفر ہے، اس لئے کہ اللہ کے امر کا انکار ہے۔ اللہ والے کسی کی کسی نعمت پر حسد نہیں کرتے بلکہ خوش ہوتے ہیں۔

حضرت ابوبکر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم سے پہلے اللہ سے محبت کرنے والے لوگ اور سلوک و تصوف کی راہ پر چلنے والے لوگ دوستوں کی تعریف کرتے تھے اور اپنی مذمت کرتے تھے۔ اب زمانہ اتنا بدل گیا ہے کہ اب لوگ دوسروںکو برا اور خود کو اچھا کہتے ہیں۔ فرمایا: اگلے وقت میں لوگ عزت و مرتبہ اور راحت کے لئے دوسروں کو منتخب کرتے اور تکلیف و مشکل اپنے لئے رکھتے۔ اب زمانہ ایسا ہے کہ راحت اپنے لئے اور تکلیف و مشکل دوسرے کے لئے رکھتے ہیں۔

ہمیں غصہ، تنگی اپنی طبیعتوں سے نکالنا ہوگا اور فراخی، نرمی لانی ہوگی۔ حسد سے اپنی جان کو عذاب میں ڈالنا ہے۔ اس کا حل اللہ کی عطا پر خوش ہونا ہے۔

حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ مخلوق پر شفقت کے حوالے سے اللہ والوں کا حال کیا ہے؟ جسے ہم اپنائیں۔ فرمایا: مخلوق سے شفقت اس طرح کرو کہ جو وہ مانگیں، اپنی ذات کی ضرورت کے باوجود ان کو دے دو۔ جس امر کی ان پر طاقت نہ ہو وہ بوجھ ان پر نہ ڈالو۔ جو وہ سمجھ نہ سکیں، وہ بات ان سے نہ کرو۔

مزید فرمایا: میرا حال یہ ہے کہ اگر میرے دوست کے چہرے پر مکھی بھی بیٹھ جائے تو اس کی تکلیف مجھے ہوتی ہے۔ یہ حریص علیکم کا عکس ہے، اس لئے کہ اولیاء اللہ دراصل نبی کی سیرت کا عکس ہوتے ہیں۔

فرمایا: مخلوق کا عذر خود تلاش کرو، اس کی صفائی کے انتظار میں نہ رہو بلکہ اس کو شرمساری سے بچاؤ۔ جو صفائی اس نے دینی تھی، وہ عذر خود بخود تمہاری سمجھ میں آجائے۔ اگر یہ رویہ پیدا ہوجائے تو یہ ولایت ہے۔

حضر ت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ والا وہ ہے جو ہر ایک سے وفا کرے، ہر ایک سے سخاوت کرے۔ ہر ایک کو عطا کرے۔

یہ امر ذہن نشین رہے کہ جابر، قاتل و ظالم، ڈاکو کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا اصل جہاد ہے اس کے لئے کوئی معافی نہیں۔

اللہ رب العزت ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ اس کردار کو ہمارا حال بنائے اور ہمارے بگڑے حال سنور جائیں۔ ہمارے اندر اخلاق، اعمال، روحانیت آجائے۔

  1. 29 رمضان المبارک 1437ھ/ 5 جولائی 2016ء (منگل)

آج رمضان المبارک کا آخری دن ہے۔ اس آخری دن معتکفین دن بھر ذکر و اذکار، درود و سلام، گریہ و زاری، مناجات، مراقبہ میں مصروف عمل رہے۔ اس کے علاوہ تربیتی حلقہ جات، فقہی مسائل اور علمی فکری نشستوں کا انعقاد بھی کیا گیا۔ شہر اعتکاف آخری مکمل دن گریہ و زاری اور رقت آمیز مناظر کی تصویر پیش کرتا رہا۔ بعد نماز مغرب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تمام معتکفین سے روایۃ الحدیث المسلسل بالمصافحہ بیان کی۔

اس حدیث کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے فرمایا کہ ان کو اس روایت کی مصافحہ اور سماعت کے ساتھ اجازت شیخ حسین بن احمد عسیران سے ملی جو کہ انہوں نے جمادی الاول 1425ہجری کو لبنان کے شہر بیروت سے حاصل کی۔ شیخ حسین بن احمد عسیران نے یہ روایت مصافحہ کے ساتھ الشیخ محمد بن العربی بن محمد المہدی العزوزی الحسنی سے اور انہوں نے مصافحہ کے ساتھ الشیخ محمد مصطفی المشہور بماء العینین الشننقیطی سے اور انہوں نے مصافحہ کے ساتھ الشیخ محمد الکحیل سے اور انہوں نے مصافحہ کے ساتھ جن صحابی القاضی شمہورش سے یہ روایت حاصل کی۔

روایت کے مطابق آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مصافحہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جس شخص نے مجھ سے مصافحہ کیا اور پھر اس سے مصافحہ کیا جس نے مجھ سے مصافحہ کیا۔ اس طرح چار لوگوں تک جس نے اس طرح مصافحہ کیا وہ جنت میں جائے گا۔ ابن الطیب کی سند میں اس طرح سات لوگوں تک مصافحہ کرنے کی روایت ہے۔

یہ حدیث مسلسل بالمصافحہ پانچویں مصافحہ کے ساتھ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے پاس پہنچی۔ آج 14صدیاں گذر جانے کے بعد پانچویں نمبر تک آنے کی وجہ جن صحابی حضرت القاضی شمہورش ہیں جن کی عمر تقریباً ایک ہزار سال تھی۔ یہ شہر اعتکاف میں آنے والے معتکفین کے لئے خصوصی تحفہ بھی ہے اور یہ وہ حدیث مبارکہ ہے جس کے اندر وجوب شفاعت محمدی کا بیش بہا خزانہ پنہاں ہے۔

شوال المکرم کا چاند نظر آنے کے اعلان کے بعد شیخ الاسلام نے تمام معتکفین کو علم، امن، حسن اخلاق اور عشق مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے معاشرے میں تبدیلی کی نصیحت کی کہ یہاں سے جائیں تو دوسرے لوگ آپ میں تبدیلی محسوس کریں۔ آخر میں قبولیت کی گھڑیوں میں شیخ الاسلام نے رقت انگیز دعا کرائی۔ اس دعا کے دوران دامن طلب کو پھیلائے ہر شخص ندامت کے آنسو بہاکر بخشش و مغفرت طلب کررہا تھا۔ یوں بارگاہ ایزدی میں آہوں، سسکیوں اور گریہ و زاری کے ساتھ یہ 25 واں سالانہ شہرِ اعتکاف اپنے اختتام کو پہنچا۔

متفرق امور

  1. دوران اعتکاف منعقد ہونے والی محافل میں نقابت کے فرائض نظامت دعوت کے احباب میں سے محترم علامہ اعجاز احمد ملک، محترم علامہ ارشاد حسین سعیدی، محترم علامہ ظہیر احمد نقشبندی، محترم علامہ غلام مرتضیٰ علوی، محترم علامہ غضنفر حسنین نے سرانجام دیئے۔
  2. دوران اعتکاف محافل میں تلاوت قرآن حکیم کی سعادت محترم قاری عثمان قادری، محترم قاری محمد اسماعیل، محترم قاری عبدالخالق قمر اور تحفیظ القرآن انسٹی ٹیوٹ کے دیگر حفاظ نے حاصل کی۔
  3. شیخ الاسلام نے دوران اعتکاف تحریک کی مجموعی سرگرمیوں اور مشن کے فروغ پر محترم امیر تحریک، محترم ناظم اعلیٰ، نائب ناظمین اعلیٰ، سنٹرل ایڈوائزری کونسل (CEC) کے ممبران، سربراہان فورمز و شعبہ جات، ناظمین، نائب ناظمین اور ان کی ٹیم کو فرداً فرداً مبارکباد دی اور دعاؤں سے نوازا۔
  4. دوران اعتکاف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے منہاج TV اور منہاج IT بیورو کی سوشل میڈیا ٹیم کو مبارکباد سے نوازا جن کی کاوشوں کی بدولت شہر اعتکاف کی جملہ سرگرمیاں، معمولات اور خطابات انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا میں براہ راست نشر کئے جارہے تھے۔
  5. شیخ الاسلام نے منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا کے جملہ احباب محترم ناد علی اور یوتھ لیگ کے محترم کوثر صاحب اور ان کی پوری ٹیم کو بھی مبارکباد سے نوازا جن کی کاوشوں سے انڈیا بھر کے 913مقامات پر منہاج TV کے ذریعے شہر اعتکاف کی کارروائی براہ راست دکھانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔
  6. دوران اعتکاف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری خواتین معتکفات کے کیمپ میں بھی دو مرتبہ تشریف لے گئے۔ جہاں آپ نے ان کی اصلاح پر مبنی خصوصی گفتگو فرمائی۔ اس موقع پر آپ نے ہزارہا معتکفات کی حوصلہ افزائی فرمائی، انہیں اعتکاف میں آنے پر مبارکباد دی۔ آپ نے منہاج القرآن ویمن لیگ کی صدر محترمہ فرح ناز اور ان کی پوری ٹیم، گرلز کالج کی پرنسپل محترمہ ڈاکٹر ثمر فاطمہ، کالج کی اساتذہ و طالبات کو اعتکاف کے اعلیٰ انتظامات پر مبارکباد دی اور دعاؤں سے نوازا۔
  7. شیخ الاسلام نے بلوچستان، KPK، سندھ، کراچی اور بیرون ملک سے تشریف لانے والے معزز معتکفین کو خصوصی مبارکباد دی جو کہ اتنے دور دراز سے مالی و جسمانی قربانی دیتے ہوئے اعتکاف کے لئے تشریف لائے۔
  8. شیخ الاسلام نے منہاج یورپین کونسل اور بیرون ملک تنظیمات کو تحریک کی جملہ سرگرمیوں اور اعتکاف کے انتظامات میں معاونت پر مبارکباد دی اور دعاؤں سے نوازا۔
  9. دوران اعتکاف شیخ الاسلام کے خطابات کے موقع پر پورے ملک سے صوبہ، ڈویژن، ضلع وائز سینئر ترین تحریکی ساتھیوں اور ذمہ داران کو سٹیج پر بطور مہمان بٹھایا جاتا رہا۔
  10. منہاج القرآن علماء کونسل کی خصوصی دعوت پر علماء کرام کے متعدد وفود نے شہر اعتکاف میں خصوصی شرکت کی اور شیخ الاسلام کے خطابات سماعت کئے۔ شیخ الاسلام نے ان سے باقاعدہ مصافحہ کیا اور انہیں شہر اعتکاف آنے پر خوش آمدید کہا۔
  11. شیخ الاسلام نے المنہاج السوی کا سندھی زبان میں ترجمہ کرنے پر تحریک منہاج القرآن سندھ اور تحریک منہاج القرآن کراچی کے جملہ ذمہ داران اور ترجمہ کرنے والے احباب کو بطور خاص مبارکباد دی۔
  12. شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے محترم خرم نواز گنڈا پور کو مشن کا عظیم اثاثہ و سرمایہ قرار دیتے ہوئے اعتکاف اور جملہ سرگرمیوں کے اعلیٰ انتظامات پر مبارکباد دی جبکہ ناظم اجتماعات و سیکرٹری اعتکاف محترم جواد حامد کو اعتکاف اور جملہ سرگرمیوں کے اعلیٰ انتظامات و انصرام پر ’’شیر منہاج‘‘ کا خطاب دیتے ہوئے ان کے لئے گولڈ میڈل کا اعلان کیا۔
  13. دوران اعتکاف شیخ الاسلام نے تحریک سے تعلق رکھنے والے احباب جملہ مرحومین، کارکنان و رفقاء کے اعزاء و اقارب اور بالخصوص شہدائِ انقلاب، پاک فوج کے شہداء، معروف قوال محترم امجد صابری و عالمی شہرت یافتہ باکسر محترم محمد علی کلے کے لئے خصوصی دعائے مغفرت فرمائی۔ یاد رہے کہ محترم محمد علی کلے منہاج القرآن کے باقاعدہ رفیق تھے اور انہوں نے شکاگو میں دو روزہ کانفرنس بھی منعقد کروائی تھی جس میں شیخ الاسلام کو خصوصی خطاب کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔