سلسلہ تعلیم و تربیت: ادارہ کی تشکیل۔۔۔ اہمیت و ضرورت

صاحبزادہ مسکین فیض الرحمان درانی

سلسلہ تعلیم و تربیت، حصہ: 3، جدید منتظمیت

ماخوذاز افادات شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

احکامِ الہٰیہ سے انحراف تباہی کا باعث ہے:

یہ امر ذہن نشین رہے کہ مخلوق کی تباہی اس وقت ہوتی ہے جب وہ خالق کے حکم سے سرتابی اور انحراف کرتی ہے۔ دنیا کے ادارتی نظام کو چلانے اور اُس کی ماحولیاتی حفاظت کی ذمہ داری بطور خلیفۃ اللہ انسان کی ہے۔ لیکن انسانی فکر کما حقہ اس چھوٹی سی دنیا کے حقائق کو بھی پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہے اور انسان اس کے نظام کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی منشاء کے مطابق نہیں چلا رہا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن حکیم میں بار بار انسان کو اس پر غوروفکر کرنے اور ظلم سے اجتناب کی طرف متوجہ کررہا ہے لیکن وُہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے پیغام سے بے توجہی برت رہے ہیں اپنے آپ اور دنیا میں رہنے والی مخلوقات پرظلم کیے جاتے ہیں اور دنیا کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں۔

ہماری یہ چھوٹی سی دنیا قدرت کے مختلف نظامہائے حیات کی ایسی آماجگاہ ہے کہ اس پر بسنے والی مخلوقات، اشیا، جمادات اور نباتات کی خلقت و ماہیت کے بھید آج تک انسانی عقل و دانش پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہے اوراپنی بے علمی کی وجہ سے زمین پر اُس کے شر و فساد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

کائنات عالم (cosmos) میں دنیائے ارضی (planet earth) کی تشکیل کے بعد اس پر مختلف ادوار میں نباّت ،حنّات اور جنّات کو آباد کیا گیا لیکن الوہی نظام کی خلاف ورزی اور ان کے باہمی شروفساد کی وجہ سے وُہ تباہ ہوتے چلے گئے اور آخر کار دنیا پر نظامِ ا لہٰیہ قائم کرنے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک کامل انسان (Homosapien) کی تخلیق فرمائی اور اس کو اپنا خلیفہ بنانے کا اعلان فرمایا اور دیگر مخلوقات کے مقابلے میں اُس کو علم،عقل،فہم،شعور،ارادہ اور اختیار کی قوتوں سے نوازا گیا۔

خلیفہ ہونے کے لیے ایک مکمل خلافت اور ادارہ کا وجود لازم ہوتا ہے خلافت الٰہیہ کے ادارتی نظام کو کامیابی سے چلانے کے لیے ایک ایسے نیک صالح اہل مومن ، قائد، راہ نما اور حکمران کی ضرورت ہوتی ہے جو منشائِ ایزدی سے اچھی طرح واقف ہو اور رضائے الہی کے حصول کے لیے ہر وقت جِدوجُہد کی تمنا سے سرشار ہو۔

خلیفہ کی معاونت کے لیے صادق و امین اہل حکام و عمّال اور ناظمین کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ قائدین، ناظمین اور حکّام و عمّال کی ذاتی اور انفرادی صلاح (goodness) اور فساد (disorder) خلافتِ الٰہیہ اور انسانی معاشرہ میں صلاح و فساد کا سبب اور خیر و شر کا باعث بنتی ہے۔ موجودہ زمانہ میں دنیا بھر میں جہاں بھی شر و فساد کے منابع ہیں، جہاں سے شرپھوٹتا، پھیلتا اور پھیلایا جاتا ہے، آپ غور سے ملاحظہ کریںکہ وہاں کی حکومتوں کا ادارتی نظام خلافتِ الٰہیہ کے بنیادی اصولوں سے انحراف پر قائم ہو تا ہے۔ وہاں خوف خدا، تقویٰ، پر ہیز گاری، اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونے اور جوابدہ ہونے کا تصور نہیں ہو تا۔ان ملکوں کی سیاست، معیشت، معاشرت اور اخلاقی اقدارایسی انسانی خواہشات کے وضع کردہ اصولوں اور قواعد و ضوابط کے تابع ہوتی ہیںکہ وہ عالم انسانیت کے لیے نہیں بلکہ ان کے اپنے قومی اور نسلی تفاخر اور ملکی مفادات کے لیے مختص ہوتی ہے۔ ایسا ادارتی نظام کائناتی اور آفاقی ادارتی نظام کے مطابق ’’عدل‘‘ پر مبنی نہیں ہوتا ہے بلکہ اِس کی بنیاد’’ خود غرضی اورناانصافی‘‘پر قائم ہوتی ہے۔

ریاستی ادارے: امانتِ الہٰیہ

ریاست میں قائم ہونے والے تمام تنظیمی،انتظامی اور ہر قسم کے ادارے چونکہ مخلوق خدا کی فلاح و بہبود اور حفاظت کے لیے ہوتے ہیں لہذا وہ سب اللہ تبارک وتعالیٰ کی امانت ہوتے ہیں۔ ریاست(state) اور حکومت (government) ملک میں قائم مختلف سیاسی، اقتصادی، معاشرتی، عمرانی، عدالتی اور عسکری اداروں کے مجموعہ کے مرکّب سے بنتے ہیں۔ ریاست کے سربراہ اور حکمران کی طرح ہر ادارے کا ایک سربراہ اور ادارتی نظام کو چلانے کے لیے حکام و عمّال کا ایک تنظیمی ڈھانچہ ہوتا ہے۔ عام دنیاوی ریاستوں اور اسلامی ریاستوں کے درمیان واضح فرق یہ ہوتا ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں اسلامی عقیدے اور قوانین کے مطابق سب ادارے اللہ تبارک وتعالیٰ کی امانت ہوتے ہیں۔جس کی کماحقہ‘ حفاظت کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہونا لازم ہے۔

اللہ تعالیٰ جل شانہ‘ نے ارشاد فرمایا :۔

’’اِنَّ اللّٰهَ يَأ مُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّ الْاٰمٰنٰتِ اِلٰیٓ اَهْلِهَا‘‘

’’بے شک اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ اپنی امانتیں اہل لوگوں کو سپرد کرو‘‘

(النساء: 58)

امانت اللہ کی بھی ہوتی ہے اور بندوں کی بھی۔کتاب اللہ، احکام شرعیہ، علم الہی کی فہم، ریاست اور ریاستی اداروں کی ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے مطابق پوری کرنا اور اللہ کی رضاکے مطابق اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنا سب’’امانت‘‘ ہیں۔

امانت کی حفاظت کے تقاضے:

امانت کی حفاظت کے لیے اہلیت اور عدل ضروری ہے اور درحقیقت امین و صادق افراد ہی عدل کر سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ریاست اور اُس کے مختلف اداروں کو بخوبی چلانے کے لیے ’’اہل افراد‘‘ کی پہچان بھی اپنے اس ارشاد کے تحت کرادی:

وَاِذا حَکَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلْo

’’اور جب تم (یعنی اہل لوگ) لوگوں کے معاملات اور امور ریاست میں فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو‘‘

(النسآء: 58)

اللہ تبارک وتعالیٰ کے واضح فرمان کی روشنی میں اسلامی ممالک میں حکمرانی کے لیے اپنے نمائندے منتخب کرنے والی عوام پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے واجب ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کی اطاعت کر کے اللہ کی مرضی کے مطابق حکومت چلانے کے لیے نیک،صالح،اہل اور امانتدار افراد کا انتخاب کریں تاکہ کائناتی اور آفاقی دنیائوں کی طرح ان کی دنیا اور ریاست کا نظام بھی الوہی نظام قدرت کی طرح توازن اور عدل پر قائم ہواور تباہی و بربادی سے محفوظ رہ سکے۔ قومی ادارے جب نا اہل اور بد دیانت افراد کے زیر تسلط ہو جاتے ہیں تو ادارے تباہ اور عوام تباہی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

سورۃ المائدہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے:

’’اے ایمان والو! اللہ کے لئے انصاف کی گواہی دینے کے لئے کھڑے ہوجایا کرو اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو اور انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے‘‘۔

عالمِ انسانیت کی بقا کا راز:

عالم انسانیت کی بقا دنیا میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے نظامِ فطرت اور قوانین کے مطابق رہنے میں مضمر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ البقرہ کی اڑتیسویں اورانتالیسویں آیہ کریمہ میں ہبوط آدم کے وقت ارشاد فرمایا:

’’تم سب(زمین) پر اتر جائو سو پھر اگر تم کو میری طرف سے ہدایت(قران و سنت کے احکامات و فرامین) پہنچے(تو اس کی پیروی کرنا پھر) جو میری ہدایت پر چلے گا(اس کے لیے جنت ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اس کوراحت اور سکون ہو گا اور آخرت میں بھی نجات ہو گی) یہ وہ لوگ ہوں گے کہ نہ تو ان کو کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا(اور قران اور سنت پر عمل کرنے سے انکار کیا) اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا(ان سے چشم پوشی کی) تو وہی دوزخی ہوں گے(اس دنیا میں بھی اپنے بغض، انتقام، نفرت ، حسد اور ہَوا و ہَوس کی آگ میں جلیں گے اور آخرت میں بھی آگ ان کا مقدر ہو گی) وہ اس (دوزخ) میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘

جنت میں شیطان کے ورغلانے اور فرمانِ ہبوط کے بعد حضرت آدم علیہ السلام نے رَو رَو کر کر اللہ تبارک وتعالیٰ کے حضور توبہ کی اور مغفرت طلب کی۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی التجا اور دُعا سنی،آپ کی توبہ قبول فرمائی لیکن جنت میں اس وقت ان کو واپس نہ بھیجا۔ حکم الہی تھا’’ اِھْبِطُوْا‘‘ نیچے اتر جانے، زمین میں بسنے ، دنیا میں رہنے اور آزمائش سے گزرنے کا۔ حضرت آدم علیہ السلام ، بی بی حوّا سلام اللہ علیہا اور شیطان تینوں کو زمین پر اترنے کا حکم ہوا۔ تاہم اللہ سبحانہ‘ وتعالیٰ نے یہ احسان فرمایا کہ اعلان فرمادیا کہ جو لوگ زمین پر رہ کر اللہ اور اس کے رسولوں کی اطاعت کریں گے، دنیا کا قیام ان کے لیے مُضِر نہ ہو گا بلکہ مفید ہو گا۔ وہ اپنے نیک اعمال سے اس دنیا میں اللہ کی اطاعت کر کے کھوئی ہوئی جنت دوبارہ پا جائیں گے۔دنیا کی آزمائش میں کامیاب ہونے کے بعد ان کا رب ان سے راضی ہو گا۔ البتہ جو لوگ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے احکامات اور فرامین ماننے سے انکار کریں گے اور قران و سنت کے احکام کے مطابق زندگی نہیں گزاریںگے ان کے لیے آخرت میں جہنم مقدّر ہو گی۔

ہبوط آدم کے بعد دنیا جب تک انبیاء، رُسُل، پیغمبروں اور مصلحین کی تعلیمات کی پیروی کرتی رہی، اللہ تعالیٰ کے احکامات کی روشنی میں انسان زندگی گزارتے رہے، بنی نوع انسان ایک دوسرے کے ساتھ باہمی اخوّت،بھائی چارے اور رواداری سے زندگی بسرکرتے رہے، اس وقت تک ہر طرف امن، چین، سکون اور سلامتی کا دوردورہ رہا۔ لیکن جیسے جیسے انسانی آبادیاں بڑھنے لگیں،ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے خاندان قبیلوں اور قبیلے اقوام کی شکل اختیار کرنے لگے، شیطان اور اُس کا خاندان بھی بڑھنے لگا اور وُہ اپنے مقصدِ حیات کی تکمیل کے لیے بنی نوع انسان کے قلب و ذہن میں طرح طرح کے وساوس، اندیشے، انفرادی تحفظ کے خدشات، مستقبل کا خوف اور خطرات ڈالتا رہا۔

نتیجتاً کمزور عقیدے کے لوگ متاثر ہو کر نفس کا شکار ہوتے گئے اور پیغمبرانہ تعلیم وتربیت سے ملنے والی اُن ہدایات کو فراموش کرنے لگے کہ جن کا تعلق انسانوں کے باہمی تعلقات، خیر خواہی اور حقوق کی حفاظت سے تھا۔ان کے آپس میں مخاصمت، حسد، بغض، کینہ اور انتقام پیدا ہونے لگا۔ دنیاوی خواہشات اور ترغیبات پورا کرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور برتری کی دوڑ شروع ہو گئی۔ شیطان کا مقصد پورا ہوتا گیا اور اس کے پیروکاروں کی تعدادمیں اضافہ ہونے لگا۔

دنیا کی موجودہ حالت:

الوہی ہدایات پر عمل پیرا نہ ہونے کی وجہ سے آج پوری عالم انسانیت اور خاص کر عالم اسلام سخت پریشانی کی حالت میں ہے۔ آج پوری دنیا سخت ترین مصائب و آلام اور الجھنوں کی شکار ہے اور بددیانت لوگوں کی وجہ سے دنیاوی اور نفسیاتی مسائل کی آماجگاہ بنی ہُوئی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا غیر ترقی یافتہ ہر کہیں مسائل کا ایک انبار ہے ۔جدید دور کے ترقی یافتہ ممالک کے آمرین نے دنیا کے پسماندہ اقوام اور خاص کر اسلامی ممالک میں ظلم و ستم کا بازار گرم کیا ہُوا ہے۔لاکھوں افراد بے گناہ قتل اور کروڑوں بچے،جوان ،بوڑھے مرد و خواتین ظلم و ستم کا شکار ہو رہے ہیں۔ فطرت کی طاقتوں پر انسان کی حکومت تعمیر و ترقی اور تہذیبِ انسانی کے فروغ کی بجائے محض تخریب کاری کا ذریعہ بن گئی ہے۔

انسانی فلاح و بہبود کے اداروں کو ظالم حکمران اور حکام ذاتی مفادات کی خاطر تباہ کر رہے ہیں۔ترقی یافتہ اقوام اور ممالک اپنی بالا دستی کے لیے روا رکھنے والے اپنے ظلم و ستم سے نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو کر ذہنی سکون ،قلبی اطمینان اورروحانی خوشیوں سے محروم ہیں اورکم ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک میں چین اور سکون اس واسطے میسر نہیں ہے کہ ان کی اندرونی سیاسی، معاشی اور معاشرتی خرابیاں،اندرونی بگاڑ، لڑائیاں، باہمی جھگڑے اور فسادات کی آگ ہے کہ جس میں مختلف طبقے، جماعتیں اور فرقے جل رہے ہیں۔ سب باہم دست و گریبان ہیں اور آپس میں کٹ مر رہے ہیں۔ ان کا حال تباہ اور مستقبل سخت مخدوش ہے۔

عوامِ پاکستان پر چھائے خوف کے سائے:

نظریہ کائنات کی بنیاد پر وطن عزیز پاکستان کو حاصل کرنے اور ایک اسلامی ریاست کی تشکیل، تعمیر اور ترقی کے لیے تحریک پاکستان کے وقت لاکھوں مسلمانوں نے بے مثال جانی اور مالی قربانیاں پیش کیں لیکن بد قسمتی سے ملک کا عنان اقتدار جن نا اہل، ان پڑھ اور غاصب حکمرانوں کے ہاتھ آیا، وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات اور شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یکسر بیگانہ اور دنیاوی خواہشات کی پیروی کرنے والے وہ افراد ہیں کہ جن کی ذہنی حالت اور عملی زندگی بین الاقوامی آمرین اور جبّارین سے مختلف نہیں ہے۔ یہ بھی ان ہی شیطانی قوتوں کے پجاری ہیں اور پوری طرح ان کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ غیر ملکی آمرین اپنے قومی مفادات کے لیے دنیا کے پسماندہ اقوام کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں اور ہمارے حکمران اپنے ذاتی مفادات کے لیے اپنے ملک کے مظلوم عوام کے لیے خونخوار درندے بن گئے ہیں۔ ایسے درندے جو اپنی عوام کوچیر پھاڑ رہے ہیں۔

بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کی طرح آج ایک بار پھر نوع انسانی کفراور ظلم کے اندھیروں میں ڈوب چکی ہے۔ ہر شخص دائمی خوف اور غم میں ڈوبا ہوا ہے۔ ہر طرف جہالت، بھوک اور افلاس ہے۔ کئی طرح کے خوف انسانی ذہن سے چمٹ گئے ہیں۔ ظالم انسانوں کا خوف، بے رحم حکمرانوں و عمّال کا خوف، دھونس، دھمکی، دولت اور طاقت کے ذریعے حکومت اور ملکی اداروں پر قبضہ کرنے والے آمرین کا خوف، اسمبلیوں میں ناجائز طریقوں سے پہنچنے والے غاصب اور نا اہل اراکین کا خوف، ناانصافی کا خوف، ریاستی غنڈہ گردی کا خوف، چادر اور چار دیواری کی تقدیس لٹنے کا خوف، قتل و غارتگری اور ناحق موت کا خوف، چوری، ڈکیتی اور دہشت گردی کا خوف، ہر جانب خوف ہی خوف ،غم ہی غم اور کرب وبلا کادور دورہ ہے۔

خوف انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے، بیروزگاری، مہنگائی، غربت، اشیا خورد و نوش ،گیس اور بجلی کی نایابی نے انسانی زندگی کو ایک مستقل عذاب بنا دیا ہے۔ ایک غریب لاچار اور مفلس شخص کہ جس کے بچے رات کو بھوکے سو جاتے ہیں اور صبح ان کے پاس ناشتے کا کوئی بندو بست نہ ہو۔کیا وہ صبح ہونے کے خوف سے رات کو اپنی نیند پور ی کر سکتا ہے؟ یہی خوف و غم معاشرے اور انسان کے جذبات میں بے راہر وی پیدا کرنے کا موجب بن جاتا ہے۔ اسی سے معاشرے میں جرائم جنم لیتے ہیںاور معاشرہ کے جزوی بگاڑ بڑھتے بڑھتے کلّی بگاڑ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

نااہل حکمرانوں اور حکام کے ہاتھوںقومی اداروں کی تباہی اور زبوں حالی کی وجہ سے وطن عزیز پاکستان میں بے چاری عوام کی حالت زاریہ ہے کہ بچے ماں کی گود میں، گھر اور مدرسے میں، سکول اور کالج میںاور ہر جگہ خوف کے سایوں تلے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بازاروں، ہسپتالوں، تھانہ، کچہریوں، عدالت جس جگہ اورجہاں دیکھیںعوام ہر جگہ افلاس،بھوک،جہالت، خوف، دہشت اور غم کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ملک پر قابض حکمرانوں، امراء، روساء اور حکومت کے مقتدراور بااثر افراد کے بچے ملک عزیز کے سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور نہ ہی ان کا علاج معالجہ مقامی ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔ لہذاان کو قدرے سکون ہے۔ حکمران طبقہ اپنی موت سے بے فکر ہے کیونکہ انہوں نے مقامی ڈاکٹروں اور ہسپتالوںسے علاج کرانا ہوتا ہے اور نہ ہی اپنے ملک میں بنی دوائی استعمال کرنی ہوتی ہے۔ ان کو یقین ہوتا ہے کہ بھوک کی طرح وُہ موت سے بھی محفوظ ہیں۔ ان کی دانست میں ہر طرح کی سماوی اور دنیاوی تباہی اور بربادی صرف عوام کے لیے ہے۔

برق گرتی ہے تو بے چارے ’’غریبوں‘‘ پر!

وطن عزیز میں یہ برق جو عوام پر مسلسل گر رہی ہے، آسمانی بجلی نہیں ہے بلکہ یہ عوام کے اپنے ہاتھوںبنی وہ بجلی ہے کہ جو انہوں نے اپنی اعلیٰ ترین امانت (ووٹ)اللہ تعالیٰ کے فرمان سے انحراف کرتے ہوئے ظالم، غاصب، نا اہل سرمایہ داروں کو منتخب کرنے کے لیے استعمال کی اور ان کو اپنے اُوپرمسلط کر کے ان کی نااہلی،بد دیانتی،خیانت اور بے انصافیوں کی بجلی خود اپنے اوپر گرانے کا اہتمام کیا ہے۔

زمانہ جاہلیت کے آثار:

وطن عزیز میں آج جس دور سے ہم گزر رہے ہیں، یہ اُس دور جاہلیت سے قطعاً مختلف نہیں ہے کہ جس کو ہم قران مجید میں اساطیر الاولین کی شکل میں پڑھتے ہیں لیکن ان سے عبرت حاصل نہیں کر پا رہے۔ آج سے ہزاروں سال قبل بھی مختلف ادوار میں لوگ اللہ کے بھیجے ہوئے انبیاء، رسل اور پیغمبروں کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر اللہ کے مخالف’’شیطانی گروہ‘‘ میں شامل ہو جاتے تھے۔ پیغمبروں اور صالحین کو قتل کرتے تھے اور شیطان کے پجاری حکمرانوں کو مسندِ اقتدار پر بٹھا کران کے ہاتھوں ظلم و ستم کا بازار گرم کراتے تھے۔ اس طرح دنیا ظلم و استبداد کے عذاب میں مبتلا ہو جاتی تھی، وحشت و بربریت کا دور دورہ ہو جاتا تھا۔۔۔ بہیمانہ حکومتیںطاقتور ہو جاتی تھیں۔۔۔ عدل و انصاف کی شمعیں بجھ جاتی تھیں۔۔۔ دنیا ظلم و جہالت کے اندھیرے میں ڈوب جاتی تھی۔۔۔ انسانیت زخموں سے چور چور ہو جاتی تھی۔

بے گناہ لوگ بغیر کسی وجہ کے ریاستی اہلکاروں کے ہاتھوں قتل ہوتے رہتے تھے۔۔۔ ظالم حکمران اور ان کے حکومتی غنڈوں(اس وقت کی پولیس) کے خونین ہاتھ اطاعت گزاروں اور اللہ کے نیک بندوں کی گردنوں پر ہوتے تھے۔۔۔ تلوار، نیزوں، بھالوں اور تیروں سے بے گناہوں کے سینے چھلنی کر دئیے جاتے تھے۔۔۔ بے ضمیر حکمرانوں، حکاّم و عمّال کی زندگی کا مقصد نفس پرستی، بو الہوسی اور رشوت خوری کے سوا کچھ نہ ہوتا تھا۔۔۔ نسل انسانی شدائد، مصائب، ابتلا اور عذاب میں گرفتارہو جاتی تھی۔۔۔ انسانی عقل و فکر مفلوج ہو جاتی تھی۔۔۔ جسم پابند سلاسل ہو جاتے تھے۔۔۔ ذہنیت غاصبانہ اور حکمرانوں کے ساتھ عقیدت غلامانہ ہو جاتی تھی۔

المختصر یہ کہ حالات بعینہ ایسے تھے جیسے ہمارے ہاں آج ہیں۔ آج بھی برسر اقتداد حکمران طبقہ ، ان کی پارٹی کے اراکین اور اسمبلی میں ان کے نمائندوں نے جھوٹے خدائوں کا رُوپ دھار رکھا ہے اور ’’اَرْبَاباً مِنْ دُوْنِ اللّٰه‘‘ بنے بیٹھے ہیں۔۔۔ تھانہ کچہری اور عدالت ان کے گھر کی لونڈی ہے۔۔۔ مظلوم اور بے بس عوام ان کے وحشیانہ دست ستم میں جکڑی ہوئی ہے۔۔۔ نہتے اور بے گناہوں پر پولیس سر عام گولیاں برساتی ہے۔۔۔ عام شہری بے حس اور بے بس ہے۔۔۔ ان کے ساتھ ظلم پر ظلم ہو رہا ہے۔۔۔ ہر طرح کا ستم ان پر ڈھایا جا رہا ہے۔

افسوس! ان حالات میں ظلم سہنے کے باوجود عوام خاموش ہے۔ ان کا ذہن مفلوج اورسُن ہو چکاہے۔ وہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں، سہہ رہے ہیں لیکن ان کی جانب سے کوئی آواز اور صدائے احتجاج بلند نہیں ہو رہی ہے۔ عوام کی اس بے حسی کی وجہ کیا ہے؟ یہ سوچنے کی بات ہے۔ایک وجہ جو صاف نظر آتی ہے، وہ یہ ہے کہ عوام نے اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے محبوب پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور اطاعت کو فراموش کردیا ہے۔ انہوں نے آسمانی ہدایت اور شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات سننے کے لیے اپنے کان بند کر لیے ہیں۔ انہوں نے احکامات الٰہی دیکھنے کے لیے اپنی آنکھیں موندھ لی ہیں ۔عوام کی ایک غالب اکثریت ’’صُمُم بُکْمٌ عُمْیٌ‘‘ کے مصداق بہرے، گونگے اور اندھے ہو گئے ہیں۔وُہ اپنے اوپر بار بار ان ہی ظالم اور نا اہل حکمرانوں کو مسلط کرتے ہیں جو ہر وقت ان کو ہی روندھ رہے ہیں۔

اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے کہ

’’اِنَّ اللّٰهَ يَا مُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّ الْاَمٰنٰتِ اِلٰی اَهْلِهَا‘‘

’’بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم (ہر قسم کی) امانتیں ان لوگوں کے سپرد کر دو جو ان کے اہل اور حقدار ہیں‘‘۔

لیکن ہم لوگ ان ظالم غاصب، لٹیرے اور بد دیانت وڈیروں، جاگیرداروں ، کارخانہ داروں اور سرمایہ داروں کی ہر قسم کی گھناؤنی حرکات کو سننے، دیکھنے اور سہنے کے باوجود اپنی اعلیٰ ترین امانت اور بنیادی انسانی حق رائے دہی؛ حکم الہی کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ووٹ کے ذریعے ان نا اہلوں کے سپرد کر دیتے ہیں۔

بعد ازاں ہم عوام ہی حزب الشیطان اور شیطانی گروہ کے نمائندہ وڈیروں، جاگیرداروں، چوہدریوں اور بدنام زمانہ غنڈوں، لٹیروں، حکومتی پارٹیوں کے لیڈروں کے دَر پر اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے حاضر رہتے ہیں۔ ان غاصبوں کے سامنے گڑ گڑا کر اپنی عرضیاں پیش کرتے ہیں اور جائز و ناجائز کاموں کے لیے سیسہ نوائی اور جبین سائی کرتے ہیں۔ دوسری طرف عوام میں سے ہی ظالم حکمرانوں کے سیاسی کارندے، ان کے مشیر اور وزراء کذب بیانی کرتے ہوئے جلسے جلوسوں اور میڈیا پر اپنے آقائوں کی تعریفوں کے پُل باندھتے اور عوام الناس کو دھوکا دیتے ہیں۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ ظالموں کی جھوٹی تعریف کرنا درحقیقت ظلم ڈھانے اور ظالموں کے ہاتھ مضبوط کرنے میں ان کا ساتھ دینا ہے۔