القرآن: شانِ رحمۃ للعالمین (حصہ اول)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محمد خلیق عامر

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ.

’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر‘‘۔

(الأنبياء، 21: 107)

آقا علیہ السلام کو اللہ رب العزت نے دو شانوں کا جامع بنایا ہے:

  1. شانِ بدء نبوت (نبوت کی ابتداء) یعنی نبوت کی ابتدا کرنے والے بھی حضور علیہ السلام ہیں۔
  2. شانِ ختم رسالت یعنی نبوت کا اختتام کرنے والے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔

گویا آقا علیہ السلام تاجدارِ بدء نبوت بھی ہیں اور تاجدارِ ختم رسالت بھی ہیں۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاجداری شانِ بدء نبوت پر انشراحِ صدر ہو تو عقیدئہ صحیحہ ثابت ہو جاتا ہے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاجداری ختم رسالت پر عقیدہ صحیح ہو تو عقیدئہ باطلہ کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔ کتنی خوبصورت بات ہے کہ حضور علیہ السلام کی شانِ ختم نبوت و رسالت کو اللہ تعالیٰ نے عنوان ’’رحمۃ للعالمین‘‘ کا دیا۔

لفظ رَحْمَةً کے معنوی اطلاقات

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ لفظ رَحْمَةً کا معنوی اطلاق چار طریقے سے ہو سکتا ہے:

  1. لفظ  رَحْمَةً منصوب کے طور پہ واقع ہوا ہے اور مفعول لہ ہے۔ اس لحاظ سے اس کا معنیٰ یہ بنتا ہے کہ ’’ہم نے اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو تمام جہانوں کے لیے اپنی رحمت کا واحد ذریعہ اور وسیلہ بنا کر بھیجا‘‘۔ لِأَجَلِ الرَّحْمَةْ یعنی آپ کو اس لیے بھیجا ہے کہ کائناتوں، عالموں اور دنیاؤں میں جس کو بھی میری رحمت ملے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ اور ذریعہ سے ملے۔

صحیح بخاری اور مسلم کی متفق علیہ حدیث اس معنی کی تائید کرتی ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

إنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاﷲُ يُعْطِيْ.

(صحيح بخاری، باب من يردالله به خيرا يفقه فی الدين)

’’بے شک عطا اللہ کرتا ہے مگر تقسیم صرف میں کرتا ہوں‘‘۔

إنَّمَا کلمہ حصر ہے۔ إنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ کا مطلب یہ ہے کہ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ عطا اللہ کرتا ہے مگر تقسیم صرف میں کرنے والا ہوں۔ آگے جس کسی کو بھی مزید رحمت کا حصہ ملتا ہے، خزانہ علم و معرفت کا حصہ ملتا ہے، اللہ کی عطا ملتی ہے وہ حضور علیہ السلام کی تقسیم سے ملتی ہے۔ ہر کوئی اسی میں سے حصہ پاتا ہے۔

  1. لفظ رَحْمَةً کا ایک معنیٰ یوں بھی ہو سکتا ہے کہ رَحْمَةً حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ اس کا معنیٰ ہم یہ لیتے ہیں کہ یہ بھی حذفِ مضاف کے طور پہ آیا ہے۔

یعنی اصل عبارت یہ تھی:

وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ أيْ ذا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ.

’’اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساری کائنات کے لیے صاحبِ رحمت بنا کر بھیجا‘‘۔

پہلے معنیٰ میں تھا کہ ’’آپ کو اللہ نے اپنی رحمت کا واحد وسیلہ اور ذریعہ بنا کر بھیجا، جبکہ دوسرا معنیٰ یہ بنتا ہے کہ ’’اللہ نے آپ کو صاحبِ رحمت بنا کے بھیجا‘‘۔

  1. لفظ رَحْمَةً کا تیسرا معنیٰ یہ ہے کہ یہ رَحْمَاً کے معنیٰ میں ہے یعنی ’’آپ کو سارے جہانوں پر رحمت فرمانے والا بنا کر بھیجا ہے‘‘۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب پر رحم فرمانے والے ہیں۔
  2. لفظِ رَحْمَةً کا چوتھا معنیٰ یہ ہے کہ اگر منصوب حال پر واقع ہو تو اُس میں مبالغہ واقع ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہے کہ ’’اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کو ہی رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘۔

یعنی اگر کوئی جاننا چاہے کہ اللہ کی رحمت کیا ہے؟ کہاں ہے؟ تو وہ جان لے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود ہی اللہ کی رحمت ہے۔

وجودِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی اللہ کی رحمت ہے

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ کُلَّ شَيْئٍ.

(الأعراف، 156)

’’اور میری رحمت ہر چیز پر وسعت رکھتی ہے‘‘۔

اللہ دنیا و آخرت میں رحمت فرمانے والا ہے۔ اگر کوئی جاننا، دیکھنا اور سمجھنا چاہے کہ اللہ کی رحمت کیا ہے؟ Embodiment of  Allah's mercy کیا ہے؟ فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود ہی اللہ کی کل رحمت ہے۔ یعنی اللہ کی رحمت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود کے سوا ہے ہی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ رب العزت کی ساری رحمت کی embodiment اور شکل و صورت ہیں۔ جب ’’وجود‘‘ کہا تو گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم، روح، قلب اطہر، عقل و دماغ، نفس اطہر، جسم مبارک، اعصاب، گوشت، ہڈیاں مبارک، خون، موئے مبارک، کپڑے، نعلین، حرکات و سکنات، کلام حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سکوت بھی رحمت ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کسی سے خفا ہونا بھی رحمت ہے۔۔۔ کسی سے راضی ہونا بھی رحمت ہے۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظاہری زندگی میں رہنا بھی رحمت ہے۔۔۔ وصال فرما جانا بھی رحمت ہے۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکہ و مدینہ کی گلیوں میں چلنا پھرنا بھی رحمت ہے۔۔۔ گنبد خضریٰ کے نیچے آرام فرمانا بھی رحمت ہے۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آنا بھی رحمت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جانا بھی رحمت ہے۔۔۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جا کر یہاں رہنا بھی رحمت ہے۔۔۔ کائنات میں ہونا بھی رحمت ہے اور قیامت کے دن بھی رحمت ہے۔۔۔ قبر میں ایمان والوں کو دکھائی دینا بھی رحمت ہے۔۔۔ اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ نے بنایا ہی رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ ہے یعنی آپ کے وجود کو ہی رحمت بنا دیا ہے۔ نفسِ رحمت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔

شانِ رحمت کے ساتھ ولادت و بعثت

مذکورہ آیت کریمہ میں رَحْمَةً کے چوتھا معنیٰ کہ ’’آقا علیہ السلام نفسِ رحمت ہیں‘‘۔ اس پر ہم اپنی بات مزید جاری رکھیں گے۔ اس معنیٰ کی تائید ہمیں قرآن اور آقا علیہ السلام کے ارشادات سے میسر آتی ہے۔ آیئے اس حوالے سے آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ کا مطالعہ کرتے ہیں:

  • حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا: يا أيها الناس أنما انا رحمة مهداة۔

(حاکم، المستدرک، 1:91، رقم: 100)

’’میں اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی رحمت ہوں جس کو اس نے مخلوق کو تحفے کے طور پر دیا ہے۔ میں مخلوق کے لئے اللہ تعالیٰ کا خاص تحفہ ہوں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں‘‘۔

اس حدیث مبارکہ میں ’انما‘ کلمہ حصر بیان ہوا ہے۔ علم بلاغت، علم معانی، علم بیان، علم بدیع کو جاننے والے علماء جانتے ہیں کہ حصر کی قسمیں ہیں:

  1. کبھی حصر موصوف کا صفت پہ ہوتا ہے۔
  2. کبھی صفت کا موصوف پہ ہوتا ہے۔

اس کو سادہ طریقے سے یوں سمجھ لیں کہ آقا علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا:

يا أيها الناس أنا رحمة مهداة بلکہ فرمایا:

إنما أنا رحمة مهداة.

یہاں حصر موصوف کا صفت پر بھی ہے اور صفت کا موصوف پر بھی ہے۔ اس لحاظ سے اس حدیث مبارکہ کے دو معنی ہوئے:

  1. ایک معنی یہ ہو اکہ اے لوگو! اگر مجھے جاننا چاہتے ہو کہ میں کون ہوں؟ اگر میری معرفت چاہتے ہو کہ میں کیا ہوں؟ تو سنو! ’’میں شانِ رحمت کے ساتھ ہی مبعوث ہوا ہوں۔ میری ولادت ہی شان رحمت کے ساتھ ہوئی ہے‘‘۔

اس حدیث مبارکہ کا وہی اسلوب ہے جو اسلوب قرآن مجید کی آیت مبارکہ وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْن کا ہے۔ اس لئے کہ جب مَآ نفی کے بعد اِلَّا آئے تو یہی معنیٰ ہو جاتا ہے۔ یہ ایک لفظ کی شکل میں ہے وہ ایک جملے کی شکل میں ہے لیکن معنیٰ ایک ہی ہے۔

اس حدیث مبارکہ میں گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم اگر جاننا چاہتے ہو کہ میں کیا ہوں اور میری حقیقت کیا ہے تو سنو میری حقیقت اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اللہ کی رحمت میں ہی ہوں۔

’انما‘ نہ لگتا تو معنیٰ ہوتا ’وہ رحمت میں ہوں، ’انما‘ سے اب معنیٰ یہ ہو گیا کہ ’رحمت میں ہی ہوں، یعنی رحمت کا وجود کہیں تلاش کرنے لگو تو جان لو کہ وہ سراپا رحمت میں ہی ہوں، جس میں جس قدر بھی رحمت کا عکس پاؤ گے، وہ فیض اُس کو مجھ ہی سے ملا ہے۔

لفظ مہداۃ، ہدیہ سے ہے۔ اس لفظ کے استعمال سے آقا علیہ السلام نے واضح فرمادیا کہ میں سراپا رحمت ہوں، اللہ کی رحمت میں ہی ہوں اور یہ رحمت میں نے محنت، مجاہدہ، ریاضت کے ساتھ حاصل نہیں کی۔ عبادت اور اخلاق حسنہ کو بڑھا بڑھا کر میں اس مرتبے پر نہیں پہنچا کہ میں سراپا رحمتِ حق بن گیا۔ نہیں، اس طرح نہیں بلکہ مہداۃ، میری ولادت ہی اس شانِ رحمت کے ساتھ ہوئی ہے۔ میں آیا ہی اسی شان رحمت کے ساتھ ہوں۔ یہ  acquired Status نہیں بلکہ gifted ہے۔ رب نے بنایا ہی مجھے ایسے ہے۔ پس مہداۃ کا معنیٰ یہ ہے کہ میں نے یہ مقام  achieve نہیں کیا بلکہ مجھے بنایا ہی اسی طرح گیا ہے۔

  1. حصر کے دوسرے زاویے سے اس حدیث مبارکہ کا معنی دیکھیں تو سوال بنتا ہے کہ اللہ رحمن و رحیم ہے تو اُس کی رحمت کیا ہے؟ فرمایا: اُس کی رحمت کو دیکھنا چاہتے ہو تو مجھے دیکھو، اُس کی رحمت میں ہی ہوں۔ اس بیان کے بعد آقا علیہ السلام کے سوا کسی کے لئے کسی اور جگہ سے رحمت حاصل کرنے کی جگہ نہیں بچی۔ جس کو بھی رحمت ملی، ملتی ہے یا ملے گی وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی ہے۔

جان اور ایمان رحمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سبب ہیں

رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نفسِ رحمت ہیں، اس معنی کی تائید ہمیں قرآن مجید سے بھی حاصل ہوتی ہے۔ ارشاد فرمایا:

اَلنَّبِيُ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ.

(الأحزاب، 33: 6)

’’یہ نبیِ (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حقدار ہیں‘‘۔

اس آیت مبارکہ میں نہ حضور علیہ السلام کے دین کا ذکر ہے اور نہ تعلیمات و افکار کا۔ وہ سب رحمت ہی رحمت ہیں مگر یہاں اس آیت کا موضوع حضور علیہ السلام کی ذاتِ اقدس ہے۔ اس لئے کہ فرمایا: ’’اَلنَّبِيُ‘‘ نبی کی ذات جن کا نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے یہ مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حقدار ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے قریب ہونے کے حوالے سے جب اپنا ذکر کیا کہ میں بھی قریب ہوں تو فرمایا:

وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ.

(ق، 50: 16)

’’اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں‘‘۔

شہ رگ خون کی بڑی نالی کو کہتے ہیں۔ جسم کا ایک حصہ ہے جس میں خون دل سے جاتا ہے اور پورے جسم میں پھیلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے قریب ہونے کو شہ رگ کی قربت کے موازنہ سے بیان فرمایا لیکن جب محبوب کا ذکر کیا تو یہ نہیں فرمایا کہ شہ رگ سے قریب ہے، بلکہ فرمایا: میرا محبوب تمہاری جانوں سے بھی قریب ہے۔ اس لئے کہ شہ رگ کا پھر بھی تھوڑا سا فاصلہ ہوتا ہے۔ یہ ہیں پیار و محبت کے انداز جو چھپائے نہیں جاتے۔

اب میں جو بات بیان کرنے لگا ہوں میری اس بات پر فتویٰ کوئی نہ لگائے، سودا پسند آئے تو لے جائیں، نہیں تو چھوڑ جائیں۔ ہمارے پاس بڑے گاہک ہیں کسی اور کو بیچ دیں گے اور اگر کوئی فتویٰ لگا بھی دے تو ہم اس سے متاثر نہیں ہوں گے۔ شہ رگ کٹ جائے تو مرنے میں کچھ دیر لگتی ہے۔ جب ہم جانور ذبح کرتے ہیں تو اس کی شہ رگ کاٹتے ہیں، شہ رگ کٹ بھی جائے تو اس کو مرنے میں پھر بھی وقت لگتا ہے۔ بکرا تڑپـتا تڑپتا ٹھنڈا ہوتا ہے۔ یہ شہ رگ کا کٹنا ہے۔ دوسری طرف جان ہے۔ کبھی ایسا بھی سنا کہ جان نکلے تو بندہ اُس کے بعد ایک سیکنڈ بھی زندہ رہے یا تڑپے؟ جان نکل جائے تو بندہ ختم ہو جاتا ہے۔ شہ رگ کٹے تو بندہ مرنے میں کچھ وقت لیتا ہے۔ جان نکل جائے تو مرنے میں کچھ وقت نہیں لگتا، اس لئے کہ جان نکلنے کا نام ہی مرنا ہے۔ جان نکل گئی تو مر گیا۔ شہ رگ کٹ گئی تو مرنے میں کچھ وقت لگا۔ فرمایا: ہم تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ کتنا قریب ہیں؟ آگے ذکر نہیں کیا، وہ چھوڑ دیا اور جب محبوب کا ذکر کیا تو فرمایا: میرا محبوب تمہاری جانوں سے بھی زیادہ قریب ہے۔

مطلب یہ ہوا کہ جس طرح جان نکل جائے تو تم زندہ نہیں رہتے، زندہ رہنے کا امکان ہی نہیں رہتا، اس طرح میرے محبوب سے دور ہو گئے یا اُن کی رحمت سے محروم ہو گئے تو ساری کائنات ہی زندہ نہیں رہے گی۔ اس لئے کہ ساری کائنات میں زندگی کا ہونا بھی میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سبب سے ہے۔۔۔ مومن کے ایمان کی زندگی میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے ہے۔۔۔ جس طرح جان نکلے تو وقت نہیں لگتا اسی طرح میرا محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہاری جانوں سے بھی زیادہ قریب ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ گویا جان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اردگرد ہی گھومتی ہے اور ایمان آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اردگرد ہی گھومتا ہے۔

حضور کی رحمت، قربت اور عنایت کے بغیر نہ جان ہے اور نہ مومن کا ایمان ہے۔ یہ قربت و رحمت النَّبِيُ کی ذات کی شان ہے۔ لوگ تو ایسے ہی مناظروں میں الجھے رہتے ہیں۔ یہاں، وہاں چنیں، چناں کا تذکرہ ہی نہیں بلکہ واضح اندازمیں فرمادیا کہ نبی تمہاری جانوں سے زیادہ قریب بھی ہیں، محبوب بھی ہیں اور عزیز بھی ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مومن کے ساتھ ہیں!

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

أَنَا أَوْلَی بِکُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ.

(مسلم، الصحيح، کتاب الجمعة، بَابُ التَّغْلِيظِ فِي تَرْکِ الْجُمُعَةِ، 2: 592، رقم: 867)

’’میں ہر مومن کی جان سے زیادہ قریب ہوں‘‘۔

ایک اور مقام پر آقا علیہ السلام نے فرمایا:

مَا مِنْ مُؤْمِنٍ إِلَّا وَأَنَا أَوْلَی بِهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ.

(صحيح بخاری، بَابُ الصَّلَاةِ عَلَی مَنْ تَرَکَ دَيْنًا، 2: 845، رقم: 2269)

’’کوئی مومن نہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے مگر یہ کہ میں دنیا اور آخرت میں اس کے زیادہ قریب تر ہوں‘‘۔

آیت مبارکہ میں مِنْ اَنْفُسِهِمْ فرمایا اور پہلی حدیث میں مِنْ نَفْسِهِ فرمایا جبکہ اب لفظ أنْفُسْ نہیں بلکہ فرمایا:

أَنَا أَوْلَی بِهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ.

دنیا میں بھی میں اُس مومن کے قریب تر ہوں اور آخرت میں بھی قریب تر ہوں۔ یعنی جس کے قریب میں نہیں ہوں وہ مومن ہو ہی نہیں ہو سکتا۔

یہاں سے عقیدہ کی ایک فرع واضح ہو گئی کہ بعض لوگ پوچھنا چاہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہاں ہیں اور کہاں نہیں ہیں؟ اور کتنا قریب ہیں کتنا نہیں ہیں؟ سن لیں! جو مومن ہیں اور جہاں بھی ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کے ساتھ ہیں اور جو مومن نہیں، وہ بے شک جتنا بھی سمجھ لے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں ہیں اور یہاں نہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے قریب ہیں ہی نہیں۔ اُس کا حق ہے وہ جو چاہے کہتا پھرے، اُس کے لیے کھلی چھٹی ہے۔ اس لئے کہ جو مومن ہے وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں ہیں اور وہاں نہیں یا وہاں ہیں اور یہاں نہیں۔ آقا علیہ السلام نے وہاں یہاں کے فرق کو ختم کر دیا۔ فرمادیا:

أَنَا أَوْلَی بِهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ.

یہاں بھی میں ساتھ ہوں اور آخرت میں بھی ساتھ ہوں۔ یہ رحمۃ للعالمین کا مطلب اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا اظہار ہے۔

رحمت اور عذاب ایک جگہ اکٹھے نہیں ہوسکتے

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نفسِ رحمت ہیں۔ آیئے اس کی ایک اور تائید قرآن مجید سے حاصل کرتے ہیں۔ قرآن مجید نے ایک بڑی نفیس بات فرمائی۔ قرآن کی ہر بات نفیس ہے مگر قرآن مجید کا یہ نکتہ سمجھنے والا ہے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَمَا کَانَ اﷲُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ وَمَا کَانَ اﷲُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ.

(الأنفال، 8: 33)

’’اور (درحقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ کی یہ شان نہیں کہ ان پر عذاب فرمائے درآنحالیکہ (اے حبیبِ مکرّم!) آپ بھی ان میں (موجود) ہوں، اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا ہے کہ وہ (اس سے) مغفرت طلب کر رہے ہوں‘‘۔

اللہ رب العزت نے فرمایا: لوگو! دو صورتیں ایسی ہیں اُن دو میں سے کوئی ایک چیز ہو جائے تو میرا عذاب وہاں نہیں ہوتا، عذاب اٹھ جاتا ہے۔ اور یہ یاد رکھ لیں کہ اگر رحمت ہو تو وہاں عذاب نہیں ہو گا۔ عذاب ہو تو وہاں رحمت نہیں ہو گی۔ دو میں سے ایک شے ہو سکتی ہے۔ اگر اللہ نے فیصلہ کر لیا کہ یہاں عذاب ہو گا تو اس کا مطلب ہے وہاں رحمت اٹھ گئی۔ اگر رحمت آ گئی تو عذاب اٹھ جائے گا۔ عذاب اور رحمت اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ اس مفہوم کو سمجھ لینے کے بعد اب آیت کریمہ کی طرف توجہ کریں۔ فرمایا:

وَمَا کَانَ اﷲُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ.

یعنی اللہ تعالیٰ کی یہ شان اور طریقہ ہی نہیں ہے، اسے زیب ہی نہیں دیتا، اس کا یہ منشا ہی نہیں ہے کہ جن لوگوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہوں اور وہاں اللہ کا عذاب بھی آئے۔ اس لئے کہ عذاب رحمت کا متضاد ہے۔ رحمت ہو گی تو عذاب اٹھ جائے گا اور اگر عذاب آئے گا تو رحمت اٹھا لی جائے گی۔ عذاب کے بالمقابل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کا ذکر کر کے اللہ رب العزت نے اعلان فرما دیا: میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میری رحمت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان میں موجود ہوں تو میں (اللہ) عذاب نہیں کرتا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کفار و مشرکین کیلئے بھی رحمت

اسی آیت میں اگلا جملہ فرمایا:

وَمَا کَانَ اﷲُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ.

’’اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا ہے کہ وہ (اس سے) مغفرت طلب کر رہے ہوں‘‘۔

صحیح بخاری کتاب التفسیر میں اس آیت کا شان نزول مذکور ہے کہ کفار و مشرکین مکہ بالخصوص ابوجہل نے یہ کہا کہ اے اللہ! اگر تیرے رسول جو بات کہتے ہیں سچ ہے اور ہم جھوٹے ہیں تو ہم پر پتھروں کی بارش فرما، آسمان سے عذاب نازل کر یا کوئی دردناک عذاب اتار دے۔ ابوجہل کے اس کہنے کے جواب میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔

(صحيح بخاری، کتاب التفسير، سوره الانفال)

یعنی میرا محبوب تمہارے اندر نہ ہوتا تو تمہیں خبر لگ جاتی۔ میری یہ شان نہیں ہے، میری رحمت اور میری محبت کی غیرت گوارہ نہیں کرتی کہ میرا محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو سراپا رحمت ہے وہ بھی تم میں رہے اور وہاں عذاب بھی اتاروں۔ لہذا پہلی امتوں پر انبیاء کے ہوتے ہوئے جو عذاب اترتے تھے کہ پـتھروں کی بارش ہوتی، چہرے مسخ ہوجاتے، اس عذاب کو محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر اللہ نے موخر کر دیا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمۃ للعالمین ہیں۔ لہذا اس جہت سے کفار و مشرکین کے لیے بھی رحمت ہو گئے کہ فوری عذاب جو اترتے تھے آقا علیہ السلام کی وجہ سے اُن منکرین سے وہ بھی موخر کر دیئے گئے۔

وجودِ مصطفی کی برکت ہر عبادت سے بلند ہے

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دو چیزیں بتائیں جن کی وجہ سے اللہ عذاب اٹھا لیتا ہے:

  1. استغفار
  2. آقا علیہ السلام کا وجودِ مبارک

استغفار ہے اللہ سے معافی مانگنا اور وَاَنْتَ فِيْهِمْ ۔ کا معنی ہے آقا سے جڑ جانا یا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا موجود ہونا یا حضور علیہ السلام کا وجودِ اقدس۔ اللہ رب العزت سے معافی مانگیں تب بھی وہ عذاب اٹھا لیتا ہے، آقا علیہ السلام موجود ہوں تب بھی وہ عذاب اٹھا لیتا ہے۔ یہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت ہے۔ عقل، ہماری سوچیں اور مادیت زدہ عقیدے تو کہتے ہیں کہ آیت مبارکہ میں وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ کے حصے کو پہلے لایا جاتا کہ جو مجھ سے معافی مانگیں، استغفار کریں، میں ان سے عذاب اٹھالیتا ہوں۔ اس لئے کہ استغفار مانگنا اللہ کی عبادت اور اس کا ذکر ہے۔ آیت کا دوسرا حصہ جس میں فرمایا کہ جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہوں اُن سے بھی عذاب اٹھا لیتا ہوں، اس حصہ آیت کو بعد میں بیان کیا جاتا۔

اللہ نے یہ ترتیب نہیں رکھی بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود کے باعث جو عذاب اٹھتا ہے اُس کا ذکر پہلے کیا اور اپنی بارگاہ میں استغفار کرنے والوں سے عذاب کے اٹھنے کا ذکر بعد میں کیا۔ یوں نہیں فرمایا کہ جو مجھ سے استغفار مانگتے، اُن سے عذاب اٹھا لیتا ہوں اور جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہوں اُن سے بھی عذاب اٹھا لیتا ہوں۔ بلکہ فرمایا: محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ جہاں موجود ہوں وہاں سے عذاب اٹھا لیتا ہوں اور جو مجھ سے معافی مانگے اُن سے بھی عذاب اٹھا لیتا ہوں۔

آیت میں استغفار کو بعد میں رکھا اور وجودِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلے رکھا۔ معلوم ہوا آقا علیہ السلام کے وجود کی برکت ہر عبادت ہر عمل، استغفار اور رکوع و سجود سے بلند ہے۔ ہر عمل و عبادت جس سے اللہ کی رحمت ملتی اور عذاب اٹھتا ہے اس سے کہیں مقدم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود نماز سے بھی مقدم ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک صحابی نماز پڑھ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی کام کے لیے ضرورت پڑی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں آواز دے کر بلایا۔ ایک روایت یوں بھی ہے کہ آقا علیہ السلام ان کے پاس سے گزرے (یعنی دیکھا کہ نماز پڑھ رہا ہے) اور پھر اس کو دوران نماز آواز دی۔ انہوں نے جواب نہ دیا اور نماز سے فارغ ہوکر حاضر ہوئے۔ پوچھا: کیا کر رہے تھے، فوری لبیک نہیں کہا؟ عرض کیا: نماز پڑھ رہا تھا، فارغ ہوتے ہی حاضر ہو گیا ہوں۔ فرمایا: تم نے اللہ کا حکم نہیں سنا کہ اللہ اور اُس کا رسول جب بلائیں جواب دیا کرو۔ ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلانے پر لبیک کہنا نماز سے بھی مقدم ہے۔ (جاری ہے)