پانامہ لیکس کے بعد اب سرل لیکس مگر نتیجہ کیا نکلے گا۔۔۔؟

عین الحق بغدادی

پہلے وکی لیکس، پھر پانامہ لیکس اور اب سرل لیکس۔ پہلی دو لیکس کا تعلق پاکستا ن کے علاوہ دیگر ممالک سے بھی ہے مگر سرل لیکس کا تعلق صرف پاکستان کی قومی سلامتی سے ہے۔ سرل لیکس کیا ہے؟ ذمہ دار کون ہے؟ اس حوالے سے ہمارے حکمرانوں کا رویہ کیا ہے؟ آیئے اس کا جائزہ لیتے ہیں:

نیشنل سیکورٹی کونسل کے اجلاس نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور اس طرح کے اجلاس کی کارروائی ہمیشہ صیغہ راز میں رکھی جاتی ہے۔ 10 اکتوبر 2016ء کو ہونے والی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس کی کارروائی خلاف معمول اچانک ڈان نیوز کے اسسٹنٹ ایڈیٹر سرل المیڈا نے شائع کر کے ملکی سیاست اور قومی سلامتی اور حکمرانوں کے رویے بارے کئی سوالات پید اکردیئے۔ اجلاس کی حقیقی کارروائی کا منظر عام پر آنا شاید اس قدر بہت بڑے بھونچال کا سبب نہ بنتا مگر اجلاس کی کارروائی کے برعکس رپورٹ نے قومی سلامتی کے محافظ اداروں اور قومی سلامتی بارے ان حکمرانوں کی سوچ و نظریہ کی عکاسی کردی۔ ڈان نیوز میں شائع ہونے والی اس خبر میں دانستہ طور پر بدنیتی کی بناء پر قومی سلامتی کے محافظ ادارے فوج کی طرف ایسی غلط باتیں منسوب کی گئیں جو مملکتِ پاکستان کے دشمن ممالک کی سوچ کی عکاسی کرتی ہیں۔ ایسی باتوں کا فوج سے صدور ہونا ناممکنات میں سے ہے۔

قومی سلامتی کے متعلق اس خصوصی اجلاس کی کارروائی کے منظر عام پر آنے کے بعد وزیر اعظم ہائو س کو اس خبر کی فوری تردید کر دینی چاہیے تھی۔ مگر نہ جانے کیا ہوا، اس کی فوری تردید نہ کی گئی اور جب یہ خبر قومی و بین الاقوامی سطح پر خوب زیر بحث آچکی تو اس وقت اس کی تردید جاری کی گئی۔ لیکن اس وقت تک پانی سر سے گذر چکا تھا۔

بقیہ قومی ادارے تو حکومتی مشینری بن ہی چکے ہیں مگر اب حکومت فوج کو بھی ان اوچھے اور غلط پروپیگنڈے کے ذریعے بدنام کرنے اور آنکھیں دکھانے کی مذموم کوشش کر رہی ہے ۔ اگر قارئین اپنے حافظے پر زور ڈالیں تو انہیں یا د آجائے گا کہ پچھلی جمہوری حکومت کے وقت سے ایک مہم شروع ہوئی تھی اور موجودہ حکومت اس مہم کو سر کرنا چاہتی ہے، وہ مہم یہ تھی کہ آئی ایس آئی کو آرمی کے بجائے حکومت وقت کے سامنے جوابدہ ہونا چاہئے۔یہاں سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ اب یہ حکمران بدمعاشی میں اتنے مضبوط ہوچکے ہیں کہ داخلی بدمعاشی کے بعد قومی سلامتی کے اس حساس ادارے پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے بین الاقوامی آقائوں کو خوش کر سکیں۔

ڈان اخبار کے صحافی سرل المیڈا کو باقاعدہ خبر ذمہ دار افراد کی طرف سے فیڈ کی گئی۔ اس لئے کہ کوئی پیشہ ور صحافی اتنی اہم اور قومی سلامتی سے متعلق ایسی حساس خبر بغیر کسی ذریعہ کے شائع کر ہی نہیں سکتا۔

سابقہ وزیر اطلاعات پرویز رشید کو وزارت سے ہٹانے کی جو سرکاری وجہ بتائی گئی وہ بھی اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ سرل المیڈا کو جان بوجھ کر ایسی خبر فیڈ کی گئی جس کا سرے سے وجود ہی نہ تھا۔ پرویز رشید کو وزارت سے ہٹانے کا سبب یہ بتایا گیا کہ ’’سرل المیڈا نے ان کو بتایا تھا کہ اس کے پاس اس اجلا س سے متعلق کوئی خبر ہے اور وہ اسے شائع کرنا چاہتا ہے تو پرویز رشید نے اس کو منع نہیں کیا۔‘‘ پرویز رشید کس طرح منع کرسکتا تھا؟ جبکہ یہ خبر اس کے مالکوں کی طرف سے ہی پلانٹڈ تھی۔ لہذا وہ اپنے مالکوں کا کہنا مانتا یا قومی سلامتی کے تحفظ میں اپنی جان گھلاتا۔

قارئین! سوال یہ ہے کہ خبر کس نے لیک کی ؟ یقینا سرل المیڈا تو اس اجلاس میں تھا ہی نہیں۔ فوجی افسران میں سے بھی کسی نے یہ خبر فیڈ نہیں کی بلکہ وہ تو اس پر تشویش میں مبتلا ہیں اور اس کی تحقیق چاہتے ہیں۔ تو پھر وہ کون ہے ۔۔۔۔۔؟ فرض کر لیتے ہیں کہ سرل المیڈا کو یہ خبر ایوان وزیراعظم میں موجود سرکاری ذرائع سے ملی ہوگی اور وہ ذرائع یقینا وفاقی وزیر اطلاعات کے آشیر باد سے ہی ایسا کرسکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کون نہیں جانتا کہ یہ وزارت اور اس کے متعلقہ شعبہ جات کس کے زیر تحت امور سرانجام دیتے ہیں؟

محترم قارئین! یہ تمام کڑیاں وزیراعظم اور ان کے خاندان کے افراد ہی کو ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔ اگر یہ حرکت وفاقی وزیر اطلاعات نے کی ہے تو اسے شامل تفتیش کیوں نہیں کیا جارہا؟ یا اس ایشو کو ایک ماہ سے لٹکایا کیوں گیا؟ اور جب تحقیقاتی کمیٹی بنی بھی تو اس کا سربراہ بھی سلطنت شریفیہ کا ملاز م بنا۔ ایسا کیوں ہوا؟ یہ تمام حقائق واضح کرتے ہیں کہ سلطنت شریفیہ اگر اپنے مفادات کے لئے کسی کا خون کرسکتی ہے تو وہ قومی سلامتی پر بھی کوئی ضرب لگانے سے باز نہیں آسکتی۔ اگر پرویز رشید ذمہ دار ہوتے تو اس وقت تک ان کو سزا دے کر معاملے کا حل نکل چکا ہوتا۔ مگر کیونکہ اس خبر کی فیڈنگ میں خاندان کے کچھ لوگ شامل ہیں، اس لیے ان کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

سرل لیکس تحقیقاتی کمیشن؟

اس خبر کے شائع ہونے کے بعد عسکری ادارے کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا گیا اور ساتھ ہی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔ مگر ایک ماہ تک اس حساس معاملے کو درج ذیل بنیادی وجوہات کی بناء پر نظر انداز کیا جاتا رہا۔

  1. حکومت کا عسکری اداروں کو آنکھیں دکھانا۔
  2. کسی ’’عقل مند‘‘ نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ نومبر تک اس ایشو کو لٹکائے رکھو۔ نومبر کے بعد معاملات کنٹرول میں ہوں گے تو ایشو ختم ہو جائے گا۔

مگر اس دوران پانامہ لیکس پر پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کر دیا اور چیئرمین PAT قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے بھی اعلان کر دیا کہ میں کسی بھی وقت پاکستان آسکتا ہوں۔ اس صورت حال میں چار و ناچار سلطنت شریفیہ کو سرل لیکس کی تحقیقات بارے تین رکنی وفد آرمی چیف کی منت سماجت کے لیے بھیجنا پڑا تاکہ اس حوالے سے فوج کے غضب سے بچ سکیں۔ اس ملاقات کے بعد حکمرانوں نے پرویز رشید کو فوری قربانی کا بکرا بنانے اور تحقیقاتی کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا۔

تحقیقاتی کمیشن بنانے کا فیصلہ نہ چاہتے ہوئے بھی حکمرانوں کو کرنا پڑا لیکن تحقیقاتی کمیشن بناتے ہوئے پھر چالاکی و ہوشیاری دکھاگئے۔ پورے ایک ماہ کے بعد سرل لیکس تحقیقاتی کمیٹی بنی اور اس کا سربراہ ہائی کورٹ کے (ریٹائرڈ) جج جسٹس عامر رضا کو بنایا گیا۔ جسٹس (ر) عامر رضا نون لیگ کے اتنے منظور نظر ہیں کہ 2013ء میں نون لیگ کی طرف سے ان کا نام نگران وزیر اعلی پنجاب کے طور پر سامنے آیا تھا۔ مگر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے وہ نگران نہ بن سکے اور پھر ان کی جگہ نجم سیٹھی نگران وزیر اعلی بنے۔اس سے بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جس شحص کے مقابلے میںنجم سیٹھی پر اتفاق رائے ہوگیا، وہ خود کتنا متنازع اور نون لیگ کا کتنا خیر خواہ ہوگا؟ ایک خبر یہ بھی ہے کہ ان کی بیٹی شریف میڈیکل کمپلیکس میں اعلیٰ عہدہ پر فائز ہیں۔ ایسے شخص کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی اپنے مالکوں کے خلاف کیا خاک تحقیقات کرے گی۔

یہ تو اتنے ’’ایماندار‘‘ اور ’’عادل‘‘ حکمران ہیں کہ ماڈل ٹائون میں دن دیہاڑے میڈیا کی موجودگی میںگولیاں مار کر لوگوں کو شہید کر نے والوں کو آج تک نہ صرف گرفتار ہی نہیں کیا گیا بلکہ عہدوں سے نوازا گیا اور کئی کو ملک سے باہر بھیج دیا۔ اگر اتنے اہم اور واضح شواہد والے سانحہ پر کچھ نہ ہوا تو ان لیکس کا کیا ہو گا؟ تاریخ پاکستان میں مختلف سانحات پر بننے والے کمیشنز یا کمیٹیوں میں سے آج تک کسی ایک کا نتیجہ بھی نہیں نکلا۔ کمیشن بنانے کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ کمیشن رپورٹ حکومت وقت کو پیش کرتا ہے ۔ اگر رپورٹ حکومت کے حق میں ہو تو شائع ہو جاتی ہے ورنہ دبا دی جاتی ہے اور ایک نیا کمیشن بنا دیا جاتا ہے ۔بالکل ایسے ہی جیسے سانحہ ماڈل ٹائون کی تحقیقاتی رپورٹ کے ساتھ ہوا۔ جسٹس باقر علی نجفی کی Findigs حکومت کے خلاف تھی لہذا ان کی رپورٹ کو غائب کر دیا گیا اور ایک دوسرا کمیشن بنایا گیا جو ان کی مرضی کا تھا۔ اس نے رپورٹ حکومت کے حق میں لکھی تو فورا شائع کر دی گئی۔

چیئرمین پاکستان عوامی تحریک قائد انقلاب ڈاکٹرمحمد طاہر القادری ہمیشہ ملکی معاملات کو باریک بینی اور دور اندیشی سے دیکھتے ہیں۔ سرل لیکس کمیشن پر گفتگو کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ

’’سرل لیکس کی انکوائری ریٹائرڈ جج سے کروانا قومی سلامتی کے ساتھ سنگین مذاق ہے ۔یہ کمیشن بھی حکومت کو کلین چٹ دینے کے لیے بنایا گیا ہے ۔اس کمیشن پر سلامتی کے اداروں کو نوٹس لینا چاہیے۔کیونکہ اس خبر سے متعلق 19کروڑ عوام بھی تشویش میں مبتلا ہیں اور کہتے ہیں کہ جہاں حاضر سروس ججز کی انکوائری رپورٹس کو ہوا میں اچھالنے کے واقعات عام ہوں وہاں ریٹائرڈ ججوں کی کیا جرأت کہ حکومت کی مرضی کے بر عکس کوئی فیصلہ دے سکیں۔ اس واقعہ میں وزیر اعظم براہ راست ملوث ہیں اور اسے سر د خانے میں ڈالنے کے لیے ریٹائرڈ جج پر مشتمل کمیشن بنایا گیا ہے۔ یہ ایشو کیونکہ قومی سلامتی کے متعلق ہے اس لیے اس کی تحقیقات آئی ایس آئی ، ایم آئی اور آئی بی پر مشتمل ادارے کریں۔ اور اس کی سربراہی آئی ایس آئی کو کرنی چاہیے‘‘۔

قائد انقلاب مزید کہتے ہیں کہ

’’حیرت ہے ایک ایسے واقعہ پر ایک ماہ سے کھیل کھیلا جا رہا ہے جس کے متعلق پاکستان کی سلامتی کا سب سے بڑاادارہ فوج اور کورکمانڈرز اپنے تحفظات اور تشویش کے بارے وزیر اعظم کو آگاہ کر چکے ہیں۔پھر بھی تحقیقاتی کمیٹی بنانے میں ایک ماہ تاخیر اور وزیر اطلاعات کو شامل تفتیش نہ کرنا اور اپنی مرضی کا سربراہ بنانا قومی سلامتی کے اداروں کے لیے کھلا پیغام ہے کہ حکومت اس مسئلے پر کسی بڑے عہدے دار کے خلاف کاروائی نہیں کرنا چاہتی‘‘۔

اس پورے معاملہ کے حقائق کو واضح کرتے ہوئے قائد انقلاب کہتے ہیں کہ

’’سب جانتے ہیں کہ یہ پلانٹڈ سٹوری وزیر اعظم ہائوس میں تیار کی گئی ہے، وہیں سے وائرل کی گئی اور پوری دنیا میں اس کی تشہیر و ابلاغ کا بندوبست بھی کیا گیا تاکہ غیر ملکی آقائوں کو خوش کر سکیں۔ اگر سلامتی پر حملے کے اس واقعہ کو نظر انداز کیا گیا توپھر قوم مزید سانحات کی تیار ی کر لے کیونکہ حکمران اس وقت قومی سلامتی سے کھیل رہے ہیں‘‘۔

پانامہ لیکس ایشو

پانامہ لیکس ثابت شدہ انکشافات ہیں مگر چونکہ پاکستان میں احتساب کاایسا نظام نہیں ہے جو کسی طاقتور کو گرفت میں لے سکے۔ یہی وجہ ہے کہ7ماہ سے پانامہ لیکس ایشو پر حکمران خاندان اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لئے قومی مفادات سے کھیل رہا ہے۔ پاکستان میں جب بھی کسی طاقتور کا جرم عیاں ہوتا ہے تو اسے کمیشنوں ، کمیٹیوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے ۔قوم کو یاد ہوگا کہ 2005ء میں کراچی سٹاک مارکیٹ میں ملکی تاریخ کا بہت بڑا مالیاتی سکینڈل آیا تھا۔ لاکھوں کھاتہ داروں اور شیئر ہولڈروں کے کھربوں روپے بڑے بروکرز نے اینٹھ لیے تھے۔پھر ایک عدالتی کمیشن بنا۔ کمیشن نے تحقیقات کے لیے لاکھوں ڈالرز معاوضہ ادا کر کے ایک غیر ملکی فرانزک فرم کی خدمات بھی حاصل کیں۔مگر آج تک ان غریب شیئرز ہولڈرز کو پیسے ملے نہ بروکروںپر کوئی ہاتھ ڈالا جاسکا۔ہاتھ کیا ڈالنا تھا، ذمہ داروں کی نشاندہی بھی نہ ہوسکی۔

اس طرح بھاری قرضے لیکر ہڑپ کرنے والوں کے خلاف 2012ء میں عدالتی کمیشن بنا ، کمیشن نے 6ماہ لگا کر 5ہزار دستاویزات تیار کیں کہ کس نے کتنا قرضہ معاف کروایا، تمام تفصیلات اس تحقیقات کا حصہ بنیں۔مگر آج تک اس کی رپورٹ منظر عام پر نہ آسکی کیونکہ لٹنے والوں سے لوٹنے والے زیادہ طاقتور ہیں۔

پانامہ لیکس کی تحقیقات

پاکستان میں پانامہ لیکس تحقیقات کے حوالے سے چیئرمین پاکستان عوامی تحریک قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ابتداء ہی میں بڑی تفصیلی گفتگو کی تھی (جو قارئین انہی صفحات پر گذشتہ مہینوں میں ملاحظہ کرچکے ہیں) بقول قائد انقلاب پاکستان میں کوئی ایسا قانون ہی نہیں ہے جس کے تحت پانامہ لیکس کی تحقیقات کی جاسکیں۔نواز شریف نے ٹیلی وژن پر اور پارلیمنٹ میں اپنے آپ کو احتساب کے لیے اس وجہ سے پیش کیا تھا کہ قانونی ماہرین انہیں بتا چکے تھے کہ اس کے لیے الگ قانون سازی کی ضرورت ہے جو پارلیمنٹ نے کرنی ہے۔ اس لیے یہ تحقیقات کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگی۔ اگر وزیر اعظم اپنے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کر بھی دیں تب بھی حکومت یہ دور پورا کر سکتی ہے ۔ رواں ماہ چیف جسٹس نے ریٹائرہونا ہے، ان کے بعد نیا چیف جسٹس آئے گا تو ممکن ہے نیا کمیشن بن جائے کیونکہ بنچ بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔

اگر کمیشن بن بھی جائے تب بھی جوڈیشل انکوائیری کی حیثیت ایک رائے سے زیادہ کچھ نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کیس میں قرار دیا جا چکا ہے کہ جوڈیشل انکوائری رپورٹ کو شہادت کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔ یہ جوڈیشل انکوائری انتظامیہ یعنی حکومت کو رہنمائی فراہم کرتا ہے تاکہ حکومت اپنے لیے درست راستے کا تعین کر سکے۔ اس رپورٹ کی بنیا د پر کسی شخص کو سزا نہیں دی جاسکتی ۔اس طرح رپورٹ میں کسی شخص کے خلاف دی گئی سفارشات پر عمل کرنابھی ضروری نہیں۔

یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر قائد انقلاب نے پانامہ معاملے پر ’’اناللہ وانا الیہ راجعون‘‘ پڑھا تھا کہ اس ایشو پر کمیشن کا بننا گویا اس ایشو کی موت اور اس معاملہ کو دفن کرنا ہے۔ بقول قائد انقلاب سات ماہ تک پارلیمنٹ نے بھی عوام کو دھوکا دیا ورنہ وہ اس عرصے میں اس ایشو پر قانون سازی کر سکتے تھے۔پانامہ ایشو کو سپریم کورٹ کے حوالے کرنے کے بعد اب یہ ایشو دفن ہو چکا ہے۔اب یہ کھیل عوام دیر تک دیکھے گی۔

اس صورت حال میں اب حکمران جماعت کے لیے کوئی ایسا ایشو نہیں بچ گیا جو ان کے راستے کی بڑی رکارٹ ہو سوائے سانحہ ماڈل ٹائون کے شہداء کے قصاص کے۔ اُن 14 شہداء کا خون ہرگز رائیگاں نہیں جائے گا اور یہ خون ان حکمرانوں کو کبھی معاف نہیں کیا جائے گا بلکہ یہی خون ان شاء اللہ ان حکمرانوں کو بہالے جائے گا۔ تحریک قصاص ان شاء اللہ سلطنت شریفیہ کے اقتدار کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔