اداریہ: نیشنل ایکشن پلان پر حکومتی بدنیتی بےنقاب

سول ہسپتال کوئٹہ میں خودکش دھماکے پر گذشتہ ماہ جاری ہونے والی سپریم کورٹ کے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ نے دہشت گردی کے خلاف حکومت کی نام نہاد جنگ کا پول کھول کر رکھ دیا اور نیشنل ایکشن پلان کے کماحقہ نفاذ سے متعلق حکومتی بدنیتی کو عیاں کردیا۔ اس رپورٹ میں اس بات کا برملا اظہار کیا گیا کہ

’’نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں ہو رہا۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیں نیشنل ایکشن پلان پر عملدر آمد میں ناکام ہوگئیں۔ وفاقی وزیر داخلہ نیکٹا کے فیصلوں کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔ جنداللہ کو دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے کے باوجود کالعدم قرار نہیں دیا گیا۔ وفاقی وزیر داخلہ کا کالعدم تنظیم کے اسلام آباد میں جلسے کو حرج نہ سمجھنا ملکی قوانین کی توہین ہے۔ وزارت داخلہ کے حکام عوام کے بجائے اپنے وزیر کی خدمت میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کو جامع بنایا جائے۔ حکومت نفرت انگیز تقاریر اور وال چاکنگ پر پابندی یقینی بنائے۔ تمام مدارس، ان کی انتظامیہ، اساتذہ اور طلبہ کے کوائف جمع کئے جائیں۔ مغربی سرحد کی موثر نگرانی اور آنے جانے والوں کا ریکارڈ رکھا جائے‘‘۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل جوڈیشل کمیشن نے 56 نکاتی فائنڈنگز،81 نکاتی تجاویز اور کنکلوڈنگ ریمارکس میں انہی حقائق کا اظہار کیا جن پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری عرصہ دراز سے عوام الناس سمیت ہر طبقہ زندگی اور مقتدر طبقات کو آگاہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ مگر افسوس کسی ادارے نے اس بات کی حساسیت کو مدنظر نہ رکھا اور حکمرانوں کو مادر پدری آزادی دے رکھی ہے۔ رپورٹ کے یہ الفاظ بھی قابل غور ہیں:

’’وزارت داخلہ کے پاس کلیئر لیڈر شپ اور ڈائریکشن نظر نہیں آتی۔ نیشنل سیکورٹی انٹرنل پالیسی پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ کالعدم تنظیموں پر پابندی میں زیادہ تاخیر لگائی جاتی ہے جبکہ بعض کالعدم تنظیموں پر اب بھی پابندی نہیں ہے۔ وزارت داخلہ کی جانب سے اب تک نیکٹا کی ایگزیکٹیو کمیٹی کا تین برس میں صرف ایک اجلاس ہوسکا ہے جبکہ نیکٹا کے ایگزیکٹیو کمیٹی کے فیصلوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ وزیر داخلہ نے کالعدم تنظیم کے سربراہ سے ملاقات کی ہے۔ وفاقی وزارت داخلہ کا یہ عمل سنگدلی پر مبنی ہے کہ حملے ہورہے تھے، مذمت ہورہی تھی مگر ان جماعتوں پر پابندی نہیں لگ رہی تھی۔ وزیر داخلہ نے فورتھ شیڈول میں شامل افراد کے شناختی کارڈ منسوخ کرنے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا ہے۔ مغربی بارڈر سے افراد اور اسلحہ کی نقل و حرکت آزادانہ ہے۔ مدارس کی مانیٹرنگ کے لئے کوئی ادارہ نہیں۔ نیکٹا ایکٹ پر عمل درآمد کو ممکن نہیں بنایا جاسکا ہے۔ نیکٹا واضح طور پر ناکام ہے‘‘۔

سپریم کورٹ نے تو صرف وزیر داخلہ کا دہشت گرد جماعتوں کے ساتھ تعلق کا اظہار کیا ہے جبکہ شیخ الاسلام موجودہ حکمرانوں کو ہی سیکورٹی رسک قرار دے چکے ہیں کہ یہ حکمران دہشت گردوں کے معاون ہیں، ان کے ہوتے ہوئے ملکی سلامتی خطرے میں ہے۔ ان کی ملوں اور فیکٹریوں سے دشمن ملک کے جاسوس پکڑے گئے۔ پانامہ سمیت کرپشن کی درجنوں داستانیں زبان زدِ عام ہیں مگر افسوس! کچھ ملکی و قومی اداروں پر ان حکمرانوں کے زر خرید سربراہ مسلط ہیں، اسی بناء پر وہ حکمرانوں کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہیں اور کچھ ذمہ دار ملکی و قومی ادارے لمبی تان کے سوئے ہوئے ہیں۔

سانحہ ماڈل ٹائون پر جسٹس باقر علی نجفی کی رپورٹ کو آج تک شائع نہ کرنے والے ان حکمرانوں نے اس مذکورہ رپورٹ کو بھی دبانے کی کوشش کی اور ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے کمیشن سے رپورٹ کو خفیہ رکھنے کی استدعا کی۔ چیف جسٹس نے اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ

’’ہم کوئی بھی چیز خفیہ نہیں رکھ سکتے۔ سانحہ کوئٹہ پر وزیراعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزرائے داخلہ نے غلط بیانی کی۔ وزارت داخلہ میں قیادت کا فقدان اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں کنفیوژن ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وزارت داخلہ کو اپنے کردار کا علم ہی نہیں۔ نیشنل ایکشن پلان بامقصد یا سٹرکچر پر مبنی کوئی منصوبہ نہیں ہے، اسی وجہ سے اس کے اہداف کو مانیٹر کیا گیا اور نہ ہی ان پر عملدرآمد ہوا۔ اس کو ایک مناسب منصوبہ بنانا چاہئے جس کے واضح اہداف ہوں۔ جامع مانیٹرنگ ہو اور اس پر مختلف اوقات میں نظرثانی ہو‘‘۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اس قسم کے عدالتی کمیشن کی رپورٹ عوام کے سامنے آئی ہے۔ کمیشن کی یہ رپورٹ بالخصوص وزارت داخلہ اور بالعموم وفاقی حکومت اور بلوچستان حکومت کے خلاف چارج شیٹ ہے۔ بادی النظر میں دیکھا جائے تو یہ رپورٹ وزیراعظم کے خلاف بھی ہے جن کی رہنمائی میں وزارت داخلہ امور سرانجام دیتی ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ جس طرح سرل لیکس کا معاملہ وزیراعظم کی منظوری و رضا کے بغیر نہیں ہوسکتا، اسی طرح نیشنل ایکشن پلان کو متنازعہ بنانا اور اس کی تمام شقوں پر کماحقہ عمل نہ کرنا بھی وزیراعظم کی ہدایات کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لئے کہ یہ حکمران ضربِ عضب کے نتائج کو بے اثر و بے ثمر بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ ضربِ عضب کے نتائج اس وقت اثرات مرتب کرسکتے ہیں جب حکمران بھی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ لیکن یہ اپنی ذمہ داریوں اور منصبی تقاضوں کی بجا آوری کیوں کریں گے؟ یہ تو خود نہ صرف سیاسی و معاشی دہشت گرد ہیں بلکہ اپنے اقتدار کو محفوظ بنانے کے لئے مسلح دہشت گردی کو تحفظ دینے والے بھی ہیں۔ اقبال نے کہا تھا:

سلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو

گویا سلطانیٔ جمہور کی آمد اس بات سے مشروط ہے کہ ہم نقوشِ کہن کو کب اور کیسے مٹاتے ہیں؟ ہم جب تک نقوشِ کہن کو مٹاڈالنے کا فریضہ ادا نہیں کر پاتے تب تک جمہور کی حکمرانی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اِن نقوشِ کہن میں سے ملکی مقدر پر مسلط موجودہ حکمران خاندان بھی ہے جس نے ہر ادارے کو خرید رکھا ہے اورملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنا بیٹھا ہے۔ جمہورکی حکمرانی کے لئے جن نقوشِ کہن کو مٹا ڈالنا ہوگا وہ معاشی ظلم اور سیاسی غلامی بھی ہے۔ یہی وہ نقوشِ کہن اور پرانی نشانیاں ہیں جن کے اقتدار کو ختم اور جنہیں ملک قوم کے مقدر سے کھلواڑ کی سزاد یئے بغیر پاکستان میں سچی جمہوریت کا خواب تعبیر اور تکمیل سے محروم رہے گا۔

آج پاکستان میں جو ادارہ بچ گیا ہے وہ صرف کرپشن کا ادارہ ہے۔ ملک میں جمہوریت کے نام پر غلامی کی تاریک رات چھائی ہوئی ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حکمرانوں کی سیاسی اور معاشی دہشت گردی کے نتائج سے خبردار کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ پاکستان کرپشن کنگڈم بننے جا رہا ہے۔ ادارے چوبارے بن چکے۔ پارلیمنٹ سمیت ادارے ڈلیور کر رہے ہیں اور نہ آئین کو کام نہ کرنے دیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں ساری اپوزیشن مل کر لائحہ عمل بنائے تب ہی کرپشن اور لا قانونیت سے نجات ممکن ہے۔ اگر عوام موجودہ فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام کے خلاف احتجاج کیلئے نہ نکلے تو کوئی بھی ادارہ کرپٹ عناصر کا احتساب نہیں کر سکے گا۔