سانحہ ماڈل ٹاؤن: احتجاجی ریلی (لاہور)

سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے قائم کردہ جسٹس باقر علی نجفی کمیشن کی رپورٹ کو شائع نہ کرنے کے خلاف 27 جنوری 2017ء کو احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ احتجاجی ریلی کا آغاز ایوان اقبال سے لاہور پریس کلب تک ہوا۔ ریلی سے اپوزیشن لیڈر پنجاب اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنما میاں محمود الرشید، سیکرٹری جنرل پاکستان عوامی تحریک خرم نواز گنڈا پور، اے پی ایم ایل کی رہنماء فاطمہ عاطف ملہی، مرکزی سیکرٹری جنرل جے یو پی نیازی ڈاکٹر امجد علی چشتی، رہنماء مجلس وحدت المسلمین سید حسن کاظمی، سیکرٹری جنرل مینارٹی الائنس ریورنڈ ڈاکٹر سموئیل، بشارت جسپال، ساجد بھٹی، جواد حامد، مظہر علوی، زارا ملک، علامہ میر آصف اکبر، حافظ غلام فرید نے اور P صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمT کے مرکزی قائدین نے خصوصی شرکت کی۔

محترم میاں محمود الرشید نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کی تاریخ کا افسوسناک سانحہ ہے جس میں ریاست نے اپنے شہریوں کو قتل کیا، اگر شریف برادران سانحہ میں ملوث نہیں تو پھر جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کو شائع کیوں نہیں کیا جا رہا؟

محترم خرم نواز گنڈا پور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے قصاص سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے احتجاجی ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ جنہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی منصوبہ بندی کی انہیں طلب کیا جائے۔ اگر پولیس بیریئر ہٹانے آئی تھی تومیری رہائش گاہ اور بیڈ رومز کے اندر کیوں گولیاں ماری گئیں، وہاں پر کونسے بیریئر تھے؟ پولیس والے منہاج القرآن کے اندر کیوں گھسے، وہاں کونسے بیریئر تھے؟ خدانخواستہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کو انصاف نہ ملا تو پھر حکمران پانامہ لیکس جیسے سینکڑوں کیسز ڈکار لئے بغیر ہضم کر جائیں گے اور ہر گھر سے تنزیلہ امجد اور شازیہ مرتضیٰ شہید ہونگی اور کسی کو انصاف نہیں ملے گا۔

پہلی جے آئی ٹی کی رپورٹ میں بھی پولیس کی ایف آئی آر کو غلط قرار دیا گیا اور ممبرز نے اختلافی نوٹ دئیے کہ بلانے کے باوجود اہم ملزم نہیں آئے اور سانحہ میں استعمال ہونے والے اسلحہ کا معائنہ نہیں کرایا گیا۔ قاتل حکمران بے گناہوں کو قتل کرنے کے بعد اب انصاف کا قتل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم پر امن لوگ ہیں، صبر سے کام لے رہے ہیں اور عدلیہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’حقائق کے بر خلاف فیصلہ دینے والا، حقوق تلف کرنے والا اور ظالم اور مظلوم کے درمیان فرق نہ کر سکنے والا قاضی جہنم میں جائے گا ‘‘ اور بلا خوف و خطر انصاف کرنے والا قاضی جنت میں جائے گا۔

میں نے اور میرے کارکنوں نے ظالم نظام کو چیلنج کیا تھا جس پر حکمران میری آمد سے خوفزدہ تھے، جسکی وجہ سے ماڈل ٹاؤن میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن ریاستی دہشتگردی کا بد ترین واقعہ ہے، اس میں وفاقی اور صوبائی حکمران ملوث ہیں، جب دیکھوں گا انصاف کا کوئی راستہ نہیں بچا تو پھر فیصلہ کن راؤنڈ کا اعلان ہو گا۔ اگر شہدا کے ورثاء انصاف کیلئے باہر نکل آئے تو قاتل حکمرانوں کیلئے چلنا پھرنا مشکل ہو جائے گا۔ انتظار کر رہے ہیں کہ عدلیہ کمزور اور طاقتوروں کے درمیان کیا فیصلہ کرتی ہے۔ خدانخواستہ قاتل بچ گئے تو یہ انصاف، آئین، قانون اور انسانیت کا خون ہو گا۔