القرآن: قرآن مجید معرفتِ الہٰیہ کا ذریعہ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

خصوصی خطاب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
ناقل:محمد خلیق عامر

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

يَتْلُوْنَ اٰيٰتِ اﷲِ اٰنَآءَ الَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُوْنَ.

’’وہ رات کی ساعتوں میں اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور سربسجود رہتے ہیں‘‘۔

(آل عمران: 113)

قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ شغف اور اس کی رغبت دلوں میں پیدا کرنے کے چار درجات ہیں:

  1. قرآن مجید کو ترتیل کے ساتھ (ٹھہر ٹھر کر) ذوق اور شوق سے پڑھنا۔
  2. قرآن مجید کے معانی، مطالب، مفاہیم، مراد اور پیغام کو سمجھنا۔ یعنی ترجمہ اور تفسیر کے ذریعے یہ جاننا کہ جو ہم پڑھ رہے ہیں اور جو اس میں کہا گیا ہے، وہ پیغام کیا ہے؟ قرآن ہم سے کیا چاہتا ہے؟
  3. قرآن مجید کو سمجھنے کے بعد اپنی زندگی میں ڈھالنا یعنی اس کی تعلیمات کو عملی جامہ پہنانا۔
  4. قرآن مجید کی تعلیمات کو آگے پہنچانا تا کہ دوسرے لوگ بھی اس نعمت میں شریک ہوں اور وہ بھی اس نورِ ہدایت سے فیض یاب ہوں۔

حقیقتِ قرآن:

قرآن مجید کی حقیقت کیا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لئے یہ امر ذہن نشین رہے کہ حقیقتیں دو طرح کی ہیں:

  1. ایک حقیقت خالق ہے
  2. ایک حقیقت مخلوق ہے

خالق یعنی اللہ ایک ہے اور اس کے سوا باقی جو کچھ ہے وہ اُس کی مخلوق ہے۔ ہم سب حضور نبی اکرم a کی ذاتِ گرامی سمیت کل انبیائ، صحابہ، اہل بیت اطہار، اولیائ، صالحین جتنے بھی انسان ہیں ہم سب مخلوق ہیں۔ اس ساری روئے زمین پر ہمارے درمیان کوئی ایسی شے نہیں ہے جو ہم میں سے نہ ہو یعنی مخلوق کی جنس میں سے نہ ہو۔

دوسری طرف یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ کوئی ایسی حقیقت نہیں ہے جو اللہ اور ہمارے (مخلوق) درمیان مشترک ہو اور ہمارے لئے اللہ کی قربت کا ذریعہ بن سکے۔ سوائے قرآن مجید کے جو ہمارے پاس اللہ کی ایک نعمت ہے۔ قرآن مجید ایک ایسی واحد حقیقت ہے جو مخلوق نہیں ہے۔ قرآن اللہ کا کلام ہے، یہ نہ خالق ہے اور نہ مخلوق۔ یہ ہمارے اندر ہے، ہمارے ہاتھوں میں ہے، ہماری آنکھوں کے سامنے ہے مگر مخلوق میں سے نہیں ہے۔ گویا اللہ رب العزت نے ہمیں ایک ایسی چیز عطا کی ہے جو ہمارے درمیان موجود تو ہے لیکن مخلوق نہیں ہے۔

قرآن مجید صفاتِ الٰہیہ کا مظہر ہے:

قرآن مجید کے بارے میں عقیدہ یہ ہے کہ یہ نہ خالق ہے اور نہ مخلوق ہے بلکہ قرآن مجید غیر مخلوق ہے، اللہ کا کلام ہونے کی وجہ سے اس کی ایک صفت ہے۔ معتزلہ کا موقف یہ تھا کہ قرآن مخلوق ہے، اس پر وہ عقلی دلائل دیتے۔ انہوں نے خلافتِ عباسیہ کے سلاطین کو بھی اس موقف پر اپنا ہمنوا بنالیا تھا۔ اس دور میں امام احمد بن حنبل اور دیگر ائمہ کو محض اس وجہ سے کوڑے لگے اور سزائیں دی گئیں تھیں کہ وہ قرآن کو مخلوق نہیں مانتے تھے۔ قرآن مجید کی حقیقت یہ ہے کہ یہ غیر مخلوق ہے اور اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے کے ناطے اس کی صفت ہے۔ یاد رہے کہ صفت ذات کا عین بھی نہیں ہوتی اور ذات کا غیر بھی نہیں ہوتی اور یہی اصل عقیدہ ہے۔

بلا تشبیہ و بلا مثال اس مسئلہ کو اس طرح واضح کرتا ہوں کہ ہم جو لباس پہنتے ہیں، یہ لباس ہماری صفت نہیں ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ ہم ہر روز اپنے لباس کو بدلتے ہیں اور جو بدلا جائے وہ صفت نہیں ہے۔ پس لباس ہماری ضروریات میں شامل ہے، صفت نہیں ہیں۔ صفت کیا ہے؟ ہمارا رنگ، قد و قامت اور مزاج ہماری صفات ہیں کہ ہم اُس کو اتار کر پھینک نہیں سکتے۔ لہذا جو نہ اتارا جا سکے اور نہ بدلا جا سکے، وہ صفت ہے۔

صفت، ذات بھی نہیں ہے اور ذات سے جدا بھی نہیں ہے۔ یعنی ہمارے رنگ، اوصاف اور مزاج کو ہماری ذات بھی قرار نہیں دیا جاسکتا اور ذات سے الگ کوئی چیز بھی نہیں کہا جاسکتا۔ اس کو کہتے ہیں ’’لا عین ولا غیر‘‘کہ صفات نہ عینِ ذات ہیں اور نہ ذات کی غیر ہیں۔ نہ ذات ہیں اور نہ ذات سے جدا ہیں۔ ذات اور صفت لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔ اس طرح جڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ آپ اُن کو غیر کر کے بھی نہیں دیکھ سکتے۔ یہ ’’جوہر‘‘ اور ’’عرض‘‘ کا ایک تعلق ہوتا ہے۔ مثلاً:

اگر کوئی اپنے کسی مزاج کو اپنے سے الگ کرنا چاہے کہ دیکھے اُس کے مزاج کا الگ وجود کیا ہے؟ تو اسے کچھ نظر نہیں آئے گا۔ اس لئے کہ مزاج تو اُس کی شخصیت کے ساتھ تھا۔ غصیلی طبیعت والا چاہے کہ میں ’’غصہ‘‘ کو شخصیت سے الگ کر کے، اپنی ذات سے ہٹا کر دیکھنا چاہتا ہوں تو غصے کو وہ اپنے وجود اور ذات سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتا۔ ہاں جب بندہ غصے میں آئے گا تو وہ اس سے ظاہر ہوگا اور ظاہر تب ہی ہوگا اگر وہ اس کے وجود کے اندر ہوگا۔ پس صفت ایک ایسی چیز ہے جو ذات سے جدا نہیں ہو سکتی اور جدا کریں تو اُس کا وجود ہی نہیں۔ ذات اور صفت کا تعلق یہ ہے کہ صفت ذات کے ساتھ ہے، ذات میں ہے مگر یہ ذات نہیں ہے۔

اسی طرح کمزوری اور طاقت الگ الگ صفات ہیں۔ اگر ہم چاہیں کہ اس کو ذات سے الگ کر دیں اور دیکھیں کہ کسی شخص میں کمزوری اور طاقت کتنی ہے، کہاں ہے اور اس کا وجود کیا ہے؟ تو یہ سب ہم نہیں دیکھ سکتے۔ کمزوری اور طاقت کا جسم میں ہی پتہ چلے گا۔ بیماری و صحت ہے تو جسم کے ساتھ ہی ہے۔ اگر چاہیں کہ الگ کر کے صحت کو دیکھیں کہ صحت کیسی ہوتی ہے تو یہ کوئی ایسی چیز نہیں کہ ہم اس کو محسوس اشیاء کی طرح معلوم کر سکیں۔ معلوم ہوا صحت، جسم کی صفت ہے۔ اُس کے جوہر کے ساتھ ایک عرض ہے۔ جسم اور وجود ہے تو صفتِ صحت بھی ہے اور صفتِ بیماری بھی ہے، غصہ بھی ہے اور نرم مزاجی بھی ہے، خوش اخلاقی بھی ہے اور بداخلاقی بھی ہے۔ گویا صفات کی ایک طویل فہرست بناتے چلے جائیں تو تمام صفات اُس شخص کے وجود کے ساتھ ہیں، الگ سے ان کا کوئی وجود نہیں۔ نہ وہ وجود کا عین ہیں اور نہ وجود کا غیر ہیں۔

ان امثال سے صفت کا ذات کے ساتھ تعلق کا مفہوم جاننے کے بعد آیئے اب اصل مسئلہ کی طرف لوٹتے ہیں۔ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے اور کلام متکلم کی صفت ہوتا ہے۔ قرآن، اللہ کی صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آقا علیہ السلام کے وسیلہ سے قرآن مجیدعطا فرمایا۔ کوئی اپنی صفت کسی کو نہیں دیتا اور صفت اس وجود سے الگ بھی نظر نہیں آ سکتی۔ یہ واحد اللہ ہی کی شان ہے کہ اُس نے اپنی صفتِ کلام، قرآن کی صورت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے صدقے اور وسیلے سے ہمیں عطا کر دی۔

قرآن کا ذاتِ الٰہی سے اس قدر گہرا تعلق ہے کہ باہم اتنے جڑے ہوئے ہیں کہ انہیں جدا نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا اللہ کے کلام (قرآن) کو اللہ کی ذات کے ساتھ دیکھیں۔ اس قرآن میں گم ہونا گویا اللہ کی ذات میں گم ہونا ہے۔۔۔ اس سے جڑ جانا، اللہ سے جڑ جانا ہے۔۔۔ اس قرآن کو دل اور من میں اتار لیا تو گویا اللہ دل میں آگیا۔ اس لئے کہ اس کی صفتِ کلام نے اس سے جدا ہونا ہی نہیں ہے۔ گویا جہاں قرآن جائے گا، اللہ وہیں ہوگا۔ جس دل میں اللہ آ جائے گا، اُس دل میں رحمت آئے گی کیونکہ رحمت اللہ کی صفت ہے۔۔۔ جس دل میں اللہ آ جائے گا، وہ دل زندہ ہو جائے گا کیونکہ حیات اللہ کی صفت ہے۔۔۔ اللہ جس دل میں سما گیا وہاں تجلیاتِ الٰہیہ بھی آجائیں گی اور اللہ کی صفات کے انوار بھی آجائیں گے۔

اللہ نے اپنی ایک صفت اور کلام ہمیں عطا کیا ہے اور ہم کتنے نادان ہیں کہ اس سے اپنا رخ موڑے ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ ہماری محبت ہی نہیں۔ یہ ہمارے گھروں میں ہوتا ہے مگر ہمیں اس کے ساتھ شغف ہی نہیں ہے۔ نہ اس کو ہم پڑھتے ہیں، نہ اس کو سمجھتے ہیں، نہ اس پر عمل کرتے ہیں، نہ اس کے پیغام کو مانتے اور پہچانتے ہیں اور نہ ہی اسے آگے پہچانتے ہیں۔

افسوس! ہم اسے پہچانتے ہی نہیں کہ یہ ہے کیا؟ یاد رکھیں کہ یہ اللہ کی صفت ہے۔ اس کے ساتھ جڑنے کا مطلب اللہ سے جڑ جانا ہے۔ ہم اس کی برکتوں سے بالکل محروم ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس کو زندگیوں میں داخل کریں تا کہ ہمارے من اور ہمارے دل میں ’’اللہ‘‘ آ جائے۔ قرآن سے پیار کریں، اس سے پیار کرنے کا مطلب ’’اللہ‘‘ سے پیار کرنا ہے۔۔۔ قرآن مجید سے محبت کرنے کا مطلب ’’اللہ‘‘ سے محبت کرنا ہے۔۔۔ اس کے قریب ہو جانے کا مطلب ’’اللہ‘‘ کے قریب ہونا ہے۔۔۔ قرآن مجید کی معرفت کے حصول کا مطلب اللہ کی معرفت کا حصول ہے۔

سلف صالحین کی صحبت کا حصول:

آقا علیہ السلام کے دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ظاہری صحبت و قربت حاصل تھی۔ تابعین کو ظاہری طور پر صحابہ کی صحبت حاصل تھی۔ تبع تابعین کو تابعین کی صحبت حاصل تھی۔الغرض کئی اشخاص کو مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کی صحبت حاصل تھی اور کوئی حضرت امام زین العابدین، امام محمد الباقر، امام جعفر الصادق، سیدنا موسیٰ الکاظم، سیدنا غوث پاک، خواجہ اجمیر، حضور داتا گنج بخش علی ہجویری اور امام ابوالحسن شازلی رحمہم اللہ کی صحبتیں میسر تھیں۔ یہ چیز اسلاف کے معمولات میں شامل تھی کہ وہ صالحین، اولیاء اور بڑوں کی صحبت میں بیٹھتے۔ امام اعظم ابو حنیفہ اور حضور سیدنا غوث الاعظم کے زمانہ میں لوگ اُن کے شاگرد بنتے اور اُن کی صحبت میں بیٹھتے۔ اسی طرح کوئی امام مالک کی صحبت میں بیٹھتا، کوئی امام شافعی، امام احمد بن حنبل، حضرت جنید بغدادی، سری سقطی، بایزید بسطامی، حضرت ذوالنون مصری اور حضرت معروف کرخی رحمہم اللہ کی صحبت میں بیٹھتا اور فیض پاتا۔

سمجھانا یہ مقصود ہے کہ ہر زمانے میں صحبتیں تھیں۔ اب وہ اچھے لوگ چلے گئے اور ہمارے جیسے بے کار لوگ موجود ہیں۔ ہماری مثال کسی پھل کے چھلکے اور بھوسے کی سی ہے۔ یعنی ہم بھوسا رہ گئے، چھان رہ گیا جو کسی کام کا نہیں ہے۔ آج اگر کوئی چاہے کہ وہ داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں بیٹھے تو کیا وہ بیٹھ سکتا ہے؟ ہاں اس کا بھی ایک طریقہ ہے اور وہ اِن اسلاف و صالحین کی صحبت آج بھی حاصل کرسکتا ہے۔ کس طرح؟ آیئے اس کو سمجھتے ہیں۔

اس نسخہ کو میں نے ساری زندگی استعمال کیا اور وہ یہ کہ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت پانے کے لئے ان کی تصنیف ’’کشف المحجوب‘‘ کی صحبت اختیار کرنا ہو گی۔ آج کشف المحجوب میں جو جتنا ڈوبے گا، بار بار پڑھے گا، وہ اتنی ہی صحبتِ ہجویری رحمۃ اللہ علیہ سے فیض یاب ہوگا۔ اس مشق، مجاہدے، ریاضت کا کرنے والے کو ہی پتہ چلے گا کہ اسے صحبت ملی یا نہیں۔ سن سنا کر یہ پتہ نہیں چلتا۔

اسی طرح کوئی چاہے کہ وہ حضور سیدنا غوث الاعظم کی صحبت میں بیٹھے تو وہ ’’فتوح الغیب‘‘، ’’فیوضات ربانیہ‘‘ اور ’’غنیۃ الطالبین‘‘ کی صحبت میں بیٹھے۔

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں بیٹھنا چاہے تو ’’احیاء العلوم‘‘ کی صحبت میں بیٹھے۔

امام ابو طالب مکی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں بیٹھنا چاہے تو ’’قوت القلوب‘‘ کی صحبت اختیار کرے۔

امام ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت اختیار کرنا چاہے تو وہ ’’رسالہ قشیریہ‘‘ کی صحبت اختیار کرے۔

امام سُلمی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں بیٹھنا چاہے تو وہ ’’طبقاتِ سلمی‘‘ کی صحبت میں بیٹھے۔

امام شافعی کی صحبت میں بیٹھنا چاہے تو اُن کی ’’کتاب الام‘‘ کی صحبت میں بیٹھے۔

جو چاہے کہ اِن صلحاء کی صحبت میں بیٹھوں تو وہ ان کی کتب کو ایسے پڑھ ڈالے جس طر ح پڑھنے کا حق ہے۔ محض ورق گردانی اور عملی طور پر نہ اپنانے سے صحبت نہیں ملتی۔ محض ورق گردانی کرنا ایسا ہی ہے جس طرح کوئی کسی کو محض دیکھ کر گزر جائے۔ اس کتاب میں کھو جانا، اس کی تعلیمات کو عملی طور پر اپنانا ایسا ہے کہ جس طرح اس صاحبِ کتاب کی صحبت میں بیٹھے ہیں۔ پس صحبتِ کتاب کے ذریعے صاحبِ کتاب کی صحبت ملتی ہے۔

حضور  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی صحبت کا حصول کیونکر ممکن ہے؟

کوئی چاہے کہ آج حضور علیہ السلام کی صحبت میں بیٹھے تو اُس کے بہت سے طریقے ہیں۔ اُن میں سے ایک طریقہ و نسخہ یہ ہے کہ آقا علیہ السلام کی احادیث کی صحبت میں بیٹھیں۔ حضور کی سیرت طیبہ کی کتابیں پڑھیں۔ ابن ہشام، الروض الانف، طبقات ابن سعد، بخاری شریف، صحیح مسلم، سنن ابوداؤد، جامع ترمذی کو کھول لیں۔ علیٰ ہذا القیاس اس طرح کتب کا طویل سلسلہ ہے جن میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی حدیث اور آپ کی سیرت پاک کے شب و روز اور لمحہ لمحہ بیان ہوا ہے، ان کا مطالعہ ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی صحبت عطا کرتا ہے۔

ان کتب کے اندر ڈوبتے ڈوبتے قاری کی حالت ایسے ہو جائے گی جیسے وہ آقا علیہ السلام کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ آقا علیہ السلام منیٰ جا رہے ہیں، عرفات جا رہے ہیں، مزدلفہ جا رہے ہیں، مدینہ جا رہے ہیں تو ایک وقت آئے گا کہ اِن کتب سیرت و حدیث کا انہماک و ذوق سے مطالعہ کرنے والے محسوس کریں گے کہ وہ بھی پیچھے پیچھے ساتھ جا رہے ہیں۔ اس سے فنائیت کا مقام نصیب ہوتا ہے۔ صاحبِ کتاب کی کتاب میں کوئی ڈوب جائے اور ایسا ڈوبے کہ اُس کا رنگ اپنے فہم، اپنے قلب اور اپنے ذہن پر چڑھالے اور اُس کی کیفیات اپنے من میں اتار لے تو وہ کتاب اُسے صاحبِ کتاب کی صحبت میں پہنچا دے گی۔

یہ ایک حقیقت ہے جو میں نے بیان کر دی۔ اب جو جتنا چاہے، اس میں ڈوب کر اتنا پا لے۔ میں نے تو اس نسخہ کو کمال تاثیر و اثرات کا حامل پایا اور اپنے معمولات میں شامل کیا ہے۔ جیسے بندہ پانی پی کر پیاس بجھاتا ہے اور آزما لیتا ہے کہ پانی پینے سے پیاس بجھ جاتی ہے، اس طرح میں نے اس نسخہ کو آزمایا ہے کہ جو جتنا اِن کتب میں ڈوبتا ہے، اِتنا ہی وہ صاحبانِ کتب کی صحبت و قربت اور فیض کو پالیتا ہے۔ کتاب آقا علیہ السلام کی احادیث کی ہو یا اہل اللہ کی ہو، وہ کتاب، صاحبِ کتاب کی صحبت میں ضرور بالضرور پہنچاتی ہے بشرطیکہ ’’قاری‘‘ مطالعہ کا حق ادا کرنے والا ہو۔

تلاوتِ قرآن قربتِ الٰہیہ کا ذریعہ ہے:

آآقا علیہ السلام نے خود یہ اصول بیان فرمایا کہ تلاوتِ قرآن کرنے والا اور اللہ کا ذکر کرنے والا اللہ کی قربت سے ہمکنار ہوتا ہے۔ ارشاد فرمایا:

انا جليس عبدي حين يذکرني وانا معه اذا دعاني.

’’میں اپنے بندے سے اس وقت ہم مجلس ہوتا ہوں جبکہ وہ میرا ذکر کرتا ہے اور میں اس کے ساتھ ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے‘‘۔

یعنی وہ بندہ اللہ کی مجلس میں بیٹھ جاتا ہے، اللہ کی صحبت میں چلا جاتا ہے۔ پس جو قرآن میں ڈوب جاتا ہے تو قرآن چونکہ کلام ہی اُس کا ہے، لہذا قرآن قاری کو اللہ کی صحبت میں پہنچا دیتا ہے۔ یہ اللہ کی صحبت کا ذریعہ ہے۔ فرامینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  آقا علیہ السلام کی صحبت کا ذریعہ اور قرآن اللہ کی صحبت کا ذریعہ ہے۔ اس سے کتنا پیارو محبت والا تعلق اور عملی لگائو ہونا چاہیے، افسوس ہم نے اسے سمجھا ہی نہیں ہے۔

قرآن مجید میں تلاوتِ کتاب سے حاصل ہونے والی تاثیر اور اثرات کے حوالے سے جابجا ارشادات موجود ہیں۔

  • اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

لَيْسُوْا سَوَآءً مِنْ اَهْلِ الْکِتٰبِ اُمَّةٌ قَآئِمَةٌ.

یہ سب برابر نہیں ہیں، اہل کتاب میں سے کچھ لوگ حق پر (بھی) قائم ہیں۔

(آل عمران: 113)

اس آیت میں اہلِ کتاب کا ذکر کیا جارہا ہے اور بطورِ خاص یہود کا ذکر ہے اور اُن اہل کتاب کا ذکر ہے جو مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ اگر وہ مسلمان ہو گئے ہوتے تو قرآن میں انہیں اہل کتاب نہ کہا جاتا بلکہ مومنین کہا جاتا۔ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ اے مسلمانو! اہل کتاب میں سب ایک جیسے نہیں ہیں، اُن کو ایک جیسا نہ سمجھو۔ اُن اہل کتاب میں سے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو حق پر قائم ہیں۔ حق پر کیسے قائم ہیں؟اللہ تعالیٰ اُن کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمارہا ہے:

يَتْلُوْنَ اٰيٰتِ اﷲِ اٰنَآءَ الَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُوْنَ.

’’وہ رات کی ساعتوں میں اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور سربسجود رہتے ہیں‘‘

(آل عمران: 113)

لازمی بات ہے کہ وہ اہل کتاب قرآن کی تلاوت تو نہیں کرتے تھے۔ قرآن کی تلاوت تو اس وقت کرتے جب وہ مسلمان ہو گئے ہوتے اور اگر وہ مسلمان ہوگئے ہوتے تو تو اُن کو اہل کتاب نہ کہا جاتا بلکہ وہ تو ایمان والوں کے زمرے میں آ جاتے اور اہل ایمان ہو جاتے۔ صاف ظاہر ہے کہ جن آیتوں کی وہ تلاوت کرتے ہیں، اس سے مراد قرآن مجید کی آیات نہیں۔ اُن کے پاس تورات تھی۔ اگرچہ تحریف ہوگئی تھی مگر ’’الف‘‘ سے ’’ی‘‘ تک سارا کچھ تو نہیں بدلا تھا، کچھ آیات ابھی صحیح تھیں، کچھ میں کمی بیشی اور اضافات ہو گئے تھے۔ جتنا کچھ اللہ کا کلام صحیح تھا، وہ اس کی تلاوت کرتے۔ اللہ کو اُن کے اس عمل پر اتنی محبت آئی کہ فرمادیا: سارے اہل کتاب ایک جیسے نہیں بلکہ ابھی بھی کچھ ایسے ہیں جو میری آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں اور یہ حق پر ہیں۔ یہود اور اہل کتاب ہونے کے باوجود اللہ نے اِن لوگوں کی تعریف کی کیونکہ وہ اس کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں۔

رات کی ساعتوں میں تلاوتِ آیات کا ذکر کیوں فرمایا؟ اس لیے کہ جب رات کا اندھیرا چھا جاتا ہے تو ساری صحبتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ رات کے اندھیرے میں جس کی صحبت اپناؤ، بس اسی ایک کی صحبت رہ جاتی ہے، باقی صحبتیں خود بخود ختم ہو چکی ہوتی ہیں، سب صحبتوں کے دروازے بند ہو چکے ہوتے ہیں۔ فرمایا: رات کی ساعتوں میں میری آیات کی تلاوت کرتے ہیں یعنی اُس وقت میری صحبت میں آ جاتے ہیں اور میرے کلام کو پڑھتے ہیں۔

  • دوسرے مقام پر فرمایا:

وَاِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْيُنَهُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ.

’’اور (یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بعض سچے عیسائی) جب اس (قرآن) کو سنتے ہیں جو رسول کی طرف اتارا گیا ہے’’تو آپ ان کی آنکھوں کو اشک ریز دیکھتے ہیں۔ (یہ آنسوئوں کا چھلکنا) اس حق کے باعث (ہے) جس کی انہیں معرفت (نصیب) ہو گئی ہے‘‘۔

پہلی آیت میں یہود (اہل کتاب) کی بات تھی، یہاں نصاریٰ (عیسائیوں) کی بات ہے۔ یہ بھی وہ ہیں جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ میں نے یہ دو آیتیں اس لئے چنی کہ مسلمان ہو جانے کے بعد تو تعریف ہوتی ہی ہے کہ مومن قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ مگر اسلام قبول کرنے سے پہلے تو اہل کتاب اپنے مذہب پر تھے، اُن کی اپنی مذہبی کتب کی تلاوت کے عمل کو بھی اللہ پاک نے محبت کے ساتھ یاد کیا۔ کیونکہ یہ ان کا عمل اللہ کی صحبت میں بیٹھنے کا تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ اُن میں سے بعض سچے عیسائی جب اُس قرآن کو سنتے ہیں جو رسول پاک a کی طرف نازل کیا گیا تو قرآن کی سماعت سے انہیں معرفت نصیب ہو جاتی اور اُس حق تک پہنچ جاتے ہیں جو اس کے اندر بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کا سننا اُن کے دل کے تعلق کو اُس حق سے جوڑ دیتا ہے۔ پھر وہ کہہ اٹھتے ہیں:

رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِيْنَ.

(المائدة، 5: 83)

’’ہم (تیرے بھیجے ہوئے حق پر) ایمان لے آئے ہیں۔سو تو ہمیں (بھی حق کی) گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ لے‘‘۔

سنا پہلے تھا، آنکھیں پہلے چھلک گئی تھیں اور اُس کی تاثیر سے کہتے ہیں کہ ہم تیرے بھیجے ہوئے حق پر ایمان لے آئے ہیں سو تو ہمیں بھی حق کی گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ لے۔ اس گواہی دینے اور اسلام قبول کرنے سے قبل قرآن کو سن کر رو پڑنے کا اُن کا یہ عمل اور حال اللہ کو اس قدر پسند آیا اور اُن پر اس قدر محبت و پیار آیا کہ یہی محبت جو اللہ کے کلام کے ساتھ انہیں تھی، اس نے انہیں ایمان اور معرفت تک پہنچا دیا۔

مذکورہ آیات سے ثابت ہوا کہ اگر وہ لوگ جو ابھی مومن نہیں ہوئے تھے، اُن کا اپنی تورات میں اللہ کے کلام کو پڑھنا اور جو مومن نہیں ہوئے تھے اُن کا قرآن سن کر رو پڑنا اللہ کو اتنا محبوب تھا کہ وہ مومن ہو گئے اور وہ اللہ کی تعریف کے حقدار ہو گئے۔ نیز اسی ذریعے سے اُن کو اللہ کی قربت اور معرفت بھی نصیب ہو گئی۔ p> پس وہ لوگ جو مسلمان ہیں، مومن ہیں، اگر وہ قرآن مجید سے پیار کریں گے، محبت کے ساتھ پڑھیں گے، اس کے معانی کو سمجھیں گے، پہچانیں گے، اُس پر عمل کریں گے اور آگے پہنچائیں گے تو اللہ رب العزت کو ایسے بندوں کے ساتھ کتنا پیار ہوگا اور وہ اللہ کے کتنے محبوب ہو جائیں گے، اس کا اندازہ و شمار ہماری احاطہ عقل میں نہیں آسکتا۔

ققرآن کے ادب کا حکم بھی اسی وجہ سے ہے کہ یہ اللہ کی صفت ہونے کی وجہ سے ہمیں اللہ کی صحبت عطا کرتا ہے۔ اسی لئے حکم ہے کہ جب قرآن مجید پڑھا جا رہا ہو تو کوئی تسبیح، کلمہ، درود پاک اور استغفار نہ پڑھا جائے بلکہ قرآن مجید کو خاموشی کے ساتھ سنا جائے۔ حالت نماز میں بھی مقتدی کو پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس لئے کہ سب سے بلند چیز جو اس وقت پڑھی جا رہی ہے اُس کو سننے کا اجر ہر ذکر کے کرنے سے زیادہ ہے۔

آج ہمیں اپنی زندگیوں میں قرآن مجید کو اس طرح شامل کرنا ہوگا کہ مرتے دم تک یہی ہماری جائے پناہ رہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہر روز اس کے لیے کچھ وقت نکالیں، بڑی محبت رغبت کے ساتھ اس کو پڑھیں۔ اس کے معنیٰ و ترجمہ کو جانیں اور سمجھیں۔ تھوڑا پڑھیں لیکن سمجھ کر پڑھیں اور کوالٹی کا پڑھیں۔ اس سے پیار develop کریں اور تلاوت آیات کے وقت صرف یہ سمجھیں ہی نہیں بلکہ یقین کریں کہ اللہ کی صحبت میں بیٹھے ہیں۔