حرفِ آرزو اِک گُل کے روبرو

منیر احمد ملک

زیر نظر تحریر محترم منیر احمد ملک (مظفر گڑھ) کی مرتب کردہ ’’سیرت ِ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘کی 9 مدوّن قلمی جلدوں میں سے ایک جلد ’’نازاں ہے جس پہ حُسن، وہ حُسنِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے‘‘ کے پیش لفظ سے ایک انتخاب ہے۔

ہرخوبصورت جذبہ دلکش بننے کیلئے اظہار کا متقاضی ہوتا ہے وہ جذبہ رفاقت کا ہو یا پیار اور محبت کا ۔۔۔لیکن جب تک جذبہ دل سے نہ ابھرے لبِ اظہار تک آہی نہیں سکتا ۔۔۔ خیال کو پیکرِ محسوس میں ڈھالنا ، تصور کو گرفت میں لے کر صفحہ قرطاس پہ اس کی تصویر اتارنا ۔۔۔ جذبے کی نارسائی کو اظہار کی زینت بنانا۔۔۔ اور حسنِ تخیل کو حقیقت کا پیرہن پہنانا کوئی آسان کام نہیں۔

ان صبرآزمالمحوں میں ہر مدحت نگار اذنِ با ر یابی کے ساتھ ساتھ عرضِ تمنا کیلئے بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہِ التفات کا طلب گارہوتا ہے۔ جب اس کے دل کے حرا میں نفس ِجبرا ئیل اترتا ہے تو وہ عجزو انکسار اور عقیدت ومحبت کے جذبات سے سرشار ہو کر حرفِ ثنا کی تخلیق کرتا ہے۔ تکریم و تحریم کے حسین امتزاج ،حرفوں کے خوبصورت استعمال اور لفظوں کے حسنِ ارتباط کے ساتھ اپنی عقیدت کا ساراخراج ممدوحِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کر کے وہ نہ صرف روح کیلئے کیف و سرور کاساماں پاتا ہے بلکہ اپنی بخشش کی نویدِ جا نفز ابھی۔۔۔۔

جہاں تک حقیقتِ حال کا تعلق ہے ایک مداحِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ میں وہ ممدوح جسکے سامنے دل جھکتے اور روح دوزانو ہو جاتی ہے، جہاںفکرجنت نشاں ، خیال فردوس بداماں اور انداز بہار آفریں ہوجاتا ہے۔ شکستگی کے اعتراف کے ساتھ قلم اپنی تمامتر رعنائیوں، فکر اپنی جملہ رفعتوں اور اپنی ساری فصاحتوں کے باوجود اُس ذات والا صفات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور مدح وثنا کا خراج کما حقہ پیش نہیں کر سکتے ۔۔۔۔ اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مصدرِ قرآں بھی ہیں اور محسنِ انساں بھی، سارا قرآن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توصیف کا دیوان ہے۔

جب اس قدر رفیع المرتبت محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور باریابی ہو تو مداح کا قلم کیوں نہ کانپ کانپ جائے ۔۔۔۔ راہوارِ تخیل کادم پرواز سے پہلے ہی کیوں نہ ٹوٹ ٹوٹ جائے۔۔۔ شانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آبگینہ اتنا نازک ہے کہ سوء ادب کا ادنی سا شائبہ بھی راندۂ درگاہ کردینے کیلئے کافی ہے۔ اسی لئے تو مدحت نگار بار بار زبان وقلم کو کوثر وتسنیم سے دھوکرمُشکبار کرتا ہے۔ بار ہا اپنے الفاظ کی ثقالت کو تقدس کی کسوٹی پہ جانچتا ہے اور انہیں لطافت کی سُندر تامیں سموکر مالک ِکوثر و تسینم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضو ر پیش کرنے کی سعی کرتا ہے۔ اس بار گاہِ ناز میں کوئی شعر وسخن اپنے فکروفن پہ ناز نہیں کرتا بلکہ آرزئووں اور تمنائوں کی کہکشاں میں ُندرتِ خیال کاحُسن اور عجزِ عقیدت کے موتی سجاتا ہے۔

روح و بدن کے قالب میں ڈھلتے ہی ازل سے میرے دل کی یہ آرزو رہی کہ میں بو ستانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بکھرے ہوئے ان پھولوں کو سلکِ مروارید میں پروتا جو محبوبِ کبریا کے نام لیوائوں نے اپنی عقیدت کی خوشبو سے معطر کرکے عالمِ رنگ وبومیں کھلائے ہیں ۔۔۔۔۔ محبت کے ان شہ پاروں کوحُسنِ ترتیب کی لڑی میں سمو تاجواُس ذاتِ قُدسی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چاہنے والوں نے قرطاس وقلم کی زینت بنائے ہیں۔ چاہت کے جو ئباروں میں گنگناتے ہوئے ان نغموں اور مشکبو جذبوں کو کہکشاں رنگ گجرے میں سجاتا جواُلفت شعاروں نے سرِ لوحِ عقیدت رقم کئے ہیں۔

میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام وقت کی سرحدوں سے بہت بلند ہے۔ پانچوں وقت اذانوں میں مسجدوں کے فلک بوس میناروں سے شب و روز محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسیں نام کی منادی ہوتی ہے۔ صدیاں بیت گئیں مگر اس آواز کا سحر آج بھی گردشِ لیل ونہار کو اپنی گرفت میں لیئے ہوئے ہے ۔۔۔۔ یہ دل آر ا نام تسکین ِ قلب وجاں ہی نہیں بلکہ وہ مینارہِ نور بھی ہے جس کی روشنی میں بھولی بھٹکی انسانیت آج بھی منز ل کا نشاں پاتی نظر آتی ہے۔

جہاں تک محبوبِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جمالِ جہاں آرا کاتعلق ہے، اس حُسنِ تصور کی پاسداری کیلئے میں نے سینے میں دھڑکتے ہوئے دلوں کے بطن سے جگر ہائے لَخت لَخت جمع کئے ہیں۔ ڈوبے ہوئے مہر ومہ کی چھنتی ہوئی روشنی میں عقیدتِ مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چمکتے ہوئے کو اکب کو چُنا ہے۔ بیتی ساعتوں کی ڈولتی چاندنی میں ارادتِ مرتضے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زرتار کرنوں سے ریشم و کمخواب بُنا ہے۔ محبت ِرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے اطلسی پردوں میں جھروکے سے جھانکتے ہوئے چاند کی طرح سینہ قرطاس پہ ہشت پہلو میں جلوہ گر ہے۔

ماتھا ہے جیسے چاند کی کشتی پہ آفتاب
اَبرو ہیں جیسے جھیل پہ سوئی ہوئی ہو رات

اُس موہنے سے مُکھ پہ آنکھیں خدا دراز
اُس کے لباں ہیں مُشک سے لکھے ہوئے گلاب

یا ایھا المزمل! سورج بھی ماند ہیں
یا ایھا المدثر! کملی میں چاند ہیں

میرے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاحُسن بلا شبہ نظروں کو خیرہ کردینے والی روشنی ہے۔ اللہ کسی کو توفیق دے تودیکھے کہ روشنی لفظوں میں کیسے گوندھی جاتی ہے، چاند آنکھوں میں کیسے اُتار ے جاتے ہیں اور جان اُن پہ کیسے واری جاتی ہے:

گہر و ہ لفظ کتنے محترم ہیں
جو کام آجائیں آقا کی ثنا میں

میری یہ کاوشِ بے ہنر بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چلنے کی مقدوربھر سعی ہے۔ محبت کا یہ صحیفہ قافلہ سالارِ عشق سید نا صدیق ِاکبرؓ کے دردِ فراق اور سوزِ عشق کی بِرہا کہانی کا رنگ لئے ہوئے ہے۔ اس حدیثِ شوق میں سوچ، رُت کی یاد کے آہو ہیں، پلکوں پہ چمکتے جگنو ہیں، لفظوں میں مہکتی خوشبو ہے۔ اِس میں ہجر کے گیت ہیں، عقیدت کے آنسو ہیں، جدائی کی کسک ہے، ملن کی تڑپ ہے اور ہجروفراق میں سلگتے دلوں کی محبت بھری داستاںہے۔ محبت بھی وہ جو پھول کی طرح مُنز ہ اور چاند کی طرح روشن ہے۔ خالقِ کائنات نے جسے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں ترتیب دیا۔ ا س میں دلِ صدپارۂ من کے ٹکڑے ہیں جن کے ذرے ذرے کو میں حُسنِ عقیدت کی پلکوں سے چُنتا اور لوح ِدل پہ رقم کرتا رہا۔ اس داستانِ محبت کاہر لفظ زباں پہ بارگاہِ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پہنچنے کی تٹرپ اور ان کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حاضری کی تمنا لئے ہوئے ہے۔ مہر و وفا کے اس لالہ زار میں کھِلے ہوئے ہر پھول کی خوشبو روحِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مُشک بو ہے۔ جس کے عکاس انوار المصطفے ہمدمی کی یہ دلآرا الفاظ ہیں:

احساس میں مہکی ہوئی خوشبو، تری باتیں
الفاظ میں اُترا ہوا جادو، تری باتیں

تُو حُسن مرے دن کے اجالوں کی دھنک کا
راتوں کو چمکتے ہوئے جگنو، تری باتیں

تُو ہی تو دلاسا ہے مرا شامِ الم میں
بہنے نہیں دیتی مرے آنسو تری باتیں

اُڑ جائے اگر نیند غمِ دہر سے میری
سہلا کے سُلا دیتی ہیں گیسو تری باتیں

چلتا ہوں تو دامن بھی چمک اٹھتا ہے میرا
پھیلی ہیں گُہر بن کے ہر اک سو تری باتیں

سنتا ہوں جو بہتے ہوئے جھرنوں کا ترنم
محسوس ہوا کرتا ہے بس تُو تری باتیں

سرمایہ ہیں انوارؔ کی اِس عمرِ رواں کا
جاناں تری آنکھیں، ترے اَبرو، تری باتیں

میرا یہ سرمایہء نقدجاں محبوبِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں گُندھے گجرے کے پھول ہیں۔ میرا کام تو بس ان کی تز ئین وآرائش تھا، ان تابدار مو تیوں کو ایک لڑی میںپرونا تھا اور دل آویز حر فوں کولفظوں کی مالا میں سمونا تھا :

فکر کے گلشن سے چُن کے لایا ہوں
یہ چند پھول نذرانہ قبول ہوجائیں

اس حدیثِ دل میں سب کچھ ہے لیکن وہ سب کچھ نہیںجو ہونا چاہیے کیونکہ دامنِ قرطاس میں اتنی وسعت کہاں کہ محبوب ِداور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی خوشبوئے دل آرا کو اپنے دامن میں سمیٹ سکے۔ گُنگ جذبوں اور بنجر سوچوں کے حصار میں میرے لبِ اظہار پہ عجزِبیاں کی اِس ثروت کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔

استعاروں میں محبت ہو نہیں سکتی بیاں
آپ ساکوئی نہیں، بس آپ ساکوئی نہیں

پھر بھی مَیں نے بنتِ نیل کی سی سعی کی ہے کہ اہلِ دل کے دل میں شایدکُچھ جگہ پالے ۔

یہ عقیدت بھی عجیب شے ہے کہ اکثر
مفلس کو بنا دیتی ہے یوسف کا خریدار

حُسنِ یوسف کے پر ستارو ں میں ایک خوش بخت پیرِزال کا ذکر ملتا ہے جو سوت کی ایک اَٹی لے کر بازار ِمصر میں جانکلی تھی۔ وہ خوب جانتی تھی کہ ُاس کا راس المال اس کی بے مائیگی کا اشتہار ہے لیکن اس کی جرأتِ رندانہ نے اس کے نام کو عشاق کے جر یدہ کی پیشانی کا جھومر بنادیا۔ وہاں معاملہ منصبِ نبوت کے لاتعداد حاملین میں سے صرف ایک نبی کا تھا، اسکے مقابلے میں ہماری عقیدت کا مرجع ، ہمارے ایمان کا منبع ،ہمارے وجدان کا منتہا، ہمارے احساس کا ملجا اور ہمارے شعور کا مدعا وہ ذات پاک ہے جو خاتم المرسلیں،رحمت للعالمیں، محسنِ انسانیت ،سرورِ کائنات اور محبوبِ کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امتیازی صفات سے متصف ہے۔ اِس دُرِیتیم کی سیرتِ طیبہ کے بے شمار پہلوئوں کو اجاگر کرنے والے ان گنت اہلِ قلم روزِ اول سے ہی مصرو فِ کار ہیں اور ’’ہر گُلے رارنگ وبوئے دیگر است‘‘ کی تفسیر رقم ہوتی جارہی ہے۔ اصحابِ فکر و نظر اپنی بساط اور ظرف کے مطابق قافلہ در قافلہ زمان ومکان کی حدود قیود سے بے نیاز پروانہ وار اِس آخری شمع رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ ِنازمیں ہدیۂ نیاز پیش کرنے کیلئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں کوشاں رہتے ہیں اور یہ سلسلہ ابد تک یونہی چلتا رہے گا لیکن اُس خیرالبشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصافِ حمیدہ بیان ہو سکے ہیں نہ ہو سکیں گے۔

ذوق ِسلیم کی تشنگی آج بھی وہی ہے جو صدیوں پہلے تھی۔ اظہارِ بیاں کا عجز اور فکر ِرساکی نار سائی روز بروز نمایاں ہوتی جارہی ہے اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ خود خالقِ کون ومکاں اور اسکے مقربین ملائکہ ہمارے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح وثنا میں رطب اللساں رہتے ہوں اور اہل ایماں کے نام فرمان جاری ہو چکا ہو کہ وہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درودوسلام بھیجتے رہیں۔ ان حالات میں ہمارا عزمِ مدحت نگاری سوائے خیالِ خام کے اور کیا ہوسکتا ہے جہاں لعل وگہر کے خزانے لُٹانے والوں کی ختم نہ ہونے والی قطاریں لگی ہوئی ہوں وہاں ہماری سوت کی اَٹی کی کیا حیثیت ہے لیکن پھر بھی اس جسارت کے پیچھے اظہارِ عقیدت کا جذبہ کا رفرما ہے، شاید بارگاہ ِرسالت پنا ہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں با رپا جائے ۔

اس صحیفہء تو صیف وثنا کو رقم کرنے میں میرے قلم کا حسن ِ نگارش اور میری زباں کا لطفِ سخن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی نظرِ کرم کا صدقہ ہے اور یہ امر باعثِ کبروناز نہیں بلکہ سرمایہء عجزو نیاز ہے۔ اس ارمغانِ عقیدت کی ریشمی رِدا میں شیریں بیاں سعدی کی اس خو بصورت سوچ کے موتی جڑے ہیں:

مِنت مَنِہ کہ خدمتِ سلطاں ہمی کُنی
منت اَزاُو پِندار کہ بخدمت گزاشت

’’ تُو احسان نہ لگا کہ شنہشاہ کی خدمت میں مسلسل لگا ہواہے بلکہ یہ تو اُن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ا حسان ہے کہ تجھ جیسے بیکس وبے مایہ کو اپنی خدمت میں لگا رکھا ہے‘‘۔

دل میں ایک خلش تھی کہ میری راہگذارِ حیات پہ کو ئی ایسا نقشِ جمال ہو جو رہتی دنیا تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے میری نسبتِ عقیدت کا مُشکبو حوالہ ہو۔ پس اس مقام پہ یہ گُلا ب حرف میری ثروت کا سرمایہ ہیں:

میرا نام زینت ِ داستاں، میں حضور کے حُسن کا مدح خواں
میں ا ُنہی کی بزم کا ہوں نشاں، میں دیار ِ یار کی با ت ہوں

کاش میری یہ کاوشِ نا تمام دلو ں میں آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُس والہا نہ محبت کے ٹوٹے ہوئے تارکو پھر سے جوڑ دے جو ہر صاحبِ ایماں کا سرمایہء دل وجاں ہے ۔۔۔ شاید میری نوکِ قلم سے ٹپکا ہوا کوئی لفظ محبت کی آنکھ کا آنسو بن کر عقیدت کے چہرے کا وضو ثابت ہو۔۔۔ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پھول کیلئے ارادت کی شبنم کا نموبن جائے۔۔۔ محبت کے خالی صدف کا کوئی موتی بن جائے ۔۔۔ دلوں کے اجڑے ہوئے چمن میں بادسحر گا ہی کا نم ثابت ہو ۔۔۔ قلب کے لق ودق صحرا میں حُبِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صدا بن جائے۔ پس عطرِ سخن یہ کہ اپنے حرفِ نارسا سے اگر میں کسی ویرانہء دل میںعشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک پھول بھی کِھلا سکا تو بس بات بن گئی ۔۔۔ میری بخشش کا سامان ہوگیا ۔۔۔ میں نے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ردائے رحمت میں جگہ پالی ۔۔۔ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سایہء عاطفت میں پناہ مل گئی، مُجھے اور کیا چاہیئے، ایسی قسمت کی یاوری پہ دو جہاں صدقے:

اس سوچ میں ڈوبا ہوں ندامت میں گڑا ہوں
ہر چند گنا ہگار و سیاہ کار بڑا ہوں

گٹھٹری تھی گناہوں کی کہیں گر گئی سرسے
دربارِ رسالت میں تہی دست کھڑا ہوں

محبت ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روحِ ایماں بھی ہے اور تسکینِ قلب وجاں بھی۔۔۔ یہ آبروئے ملت بھی ہے اور وقارِ زندگی بھی۔

جس نام کے صدقے میں ملی دولتِ کونین
وہ نام تو ہر وقت مرے وردِ زباں ہے

ہے گرمئی بازارِ محبت ترے دم تک
اے عشقِ نبی تو عظمت ِآدم کا نشاں ہے

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اک ثنا گر کے الفاظ میں ’’ایمان کی عمارت خواہ کتنی ہی بلند وبالا کیوں نہ ہو اگر بنیادوں میں حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمیزش نہیں تو کچھ بھی نہیں ۔۔۔ وہ تمام بلندی پستی کا اک ڈھیر ہے اور اس ڈھیر پہ کھڑے ہو کر خوشنودیٔ خُدا کا ایک ذرہ بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا‘‘۔

صرف تو حید کا شیطاں بھی ہے قائل یوں تو
شرطِ ایماں ہے محمدکی غلامی، یہ نہ بھول

اُس سے نسبت نہ ہو گر تو محاسن بھی گناہ
وہ شفاعت پہ ہو مائل تو جرائم بھی قبول