مسلمانی کیا ہے اور مسلمان کون؟

احسان حسن ساحر

مسلمانی کیا ہے اور مسلمان کون؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جسے سن کر ہر انسان حیران ہوجاتا ہے۔ اہل دانش اور صاحب علم بتاتے ہیں کہ مسلمانی اور مسلمان میں بڑا فرق ہے۔ ایک شخص نے کلمہ پڑھا اور اسلام قبول کرلیا مگر اس میں مسلمانی اس وقت آئے گی جب اس کے اعمال و افعال صالح اور اچھے ہوں گے۔ اگر اس کی روزمرہ کی زندگی کے معمولات، اس کا لین دین، اس کا کاروبار اور اس کی ملازمت اسلامی قوانین کے عین مطابق نہیں تو وہ اسلام قبول کرنے کے باوجود بھی فریب کاری، بددیانتی اور کذب بیانی سے کام لیتا ہے۔ وہ مسلمان تو ضرور ہے مگر مسلمانی کے اوصاف اور مسلمانی کا جوہرِ کامل ابھی اس میں پیدا نہیں ہوا۔ وہ مسلمان ہونے کے باوجود احکامِ ربانی کا پیروکار نہیں بلکہ صرف نام کا مسلمان ہے۔

اہل یورپ اور مشرقِ بعید کے لوگ ہر چند کلمہ گو نہیں مگر اخلاق و کردار اور کاروبارِ حیات میں وہ ہم سے کہیں بہترہیں۔ بظاہر وہ مسلمان نہیں مگر ’’مسلمانی‘‘ کے بیشتر اوصاف و کمالات ان میں پائے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں مسلمان تو بکثرت دکھائی دیتے ہیں مگر مسلمانی کا نام و نشان نہیں ملتا۔

  • مسلمانی کیا ہے؟ مسلمانی نام ہے عدل و انصاف کا کہ ایک مسلمان حکمران رعایا کے ہر ادنیٰ و اعلیٰ شہری کو بلا رشوت و سفارش عدل فراہم کرنے کا پابند ہوتا ہے۔
  • مسلمانی حقوق کی ادائیگی کا نام ہے کہ ایک صالح مسلمان ہر حالت میں حقوق کی پاسداری کرتا ہے۔ وہ اپنا حق چھوڑتا نہیں اور دوسرے کے حق پر غاصبانہ قبضہ نہیں کرتا۔
  • مسلمانی معاشرہ کے ہر فرد کی تعلیم و تربیت، اس کے علاج معالجہ اور روزگار کے بندوبست کا نام ہے۔
  • مسلمانی یہ ہے کہ معاشرہ میں مساوات قائم کی جائے اور ریاست کے ہر غریب اور امیر کو یکساں حقوق فراہم کئے جائیں۔
  • مسلمانی اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ ریاست کے بے روزگار، محتاجوں اور مستحق طالب علموں کے وظائف کا اہتمام کیا جائے اور ان کو زندگی کی تمام سہولتیں بہم پہنچائی جائیں۔
  • مسلمانی کمزوروں کو طاقت فراہم کرنے کا نام ہے۔ اس میں ضعیفوں اور ناداروں کو طاقتور اور سرمایہ داروں پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔
  • مسلمانی ہر شہری کو ذاتی رائے کے برملا اظہار کا حق عطا کرتی ہے۔ مسلمان معاشرہ میں ایک عام آدمی حکمران وقت اور خلیفہ المسلمین سے بلا خوف یہ پوچھ سکتا ہے کہ مال غنیمت کے مال میں سے آپ نے اپنا یہ لباس کیسے بنوایا؟ جبکہ اس کپڑے سے آپ کا لباس نہ بن سکتا تھا۔
  • مسلمانی یہ ہے کہ سائل کو معقول جواب دے کر مطمئن کردیا جائے، یہ نہیں کہ اس پر کوئی دفعہ لگاکر اسے گرفتار کروادیا جائے۔
  • مسلمانی یہ ہے کہ حکمران پر سوال کرنے پر کسی کو مورد الزام ٹھہرا کر اس پر کوئی فرد جرم عائد نہ کی جائے کہ بھرے مجمع سے اسے کسی خفیہ ایجنسی کے اہلکار اٹھاکر لے جائیں اور اس جرات مندانہ سوال پر وہ پولیس کے جبرو تشدد کا نشانہ بنے۔
  • مسلمانی یہ ہے کہ ہر شہری کو بولنے لکھنے اور ارباب اقتدار سے اختلاف کرنے کی مکمل آزادی ہو کیونکہ رعیت کے ہر فرد کا یہ بنیادی حق ہے۔
  • مسلمانی قدرتی ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کا نام ہے۔ مسلمانی کا پابند مسلمان درختوں، پارکوں پودوں اور پھولوں کی حفاظت کرتا ہے اور وہ ان خوبصورت تفریحی مقامات میں جوس کے خالی پیکٹ، سگریٹ کی خالی ڈبیاں، آموں، کیلوں اور تربوز کے چھلکے نہیں پھینکتا۔ ان باغوں میں لہلہاتے ہوئے پودوں، گملوں اور کیاریوں کو نقصان نہیں پہنچاتا اور سڑکوں پر چلتے ہوئے پان کی سرخ پیک نہیں پھینکتا۔
  • مسلمانی سراسر دیانت داری کا نام ہے۔ وہ کسی کو کم ماپنے اور تولنے نہیں دیتی اور نہ اس میں پورے دام لے کر دوسرے کو کم جنس دی جاتی ہے۔
  • مسلمانی یہ ہے کہ ایک نمبر اشیاء ظاہر کرکے دو نمبر اشیاء فروخت نہ کی جائیں۔
  • مسلمانی مضرِ صحت میڈیسن اور جعلی ادویہ فروخت کرنے کی قطعی اجازت نہیں دیتی۔ ایک سچی مسلمانی رکھنے والا مسلمان مرچوں میں سرخ برادہ، ہلدی میں پیلا رنگ اور دودھ میں کیمیکلز اور چھپڑوں کا پانی نہیں ملاتا۔
  • مسلمانی ریاست کے حقوق و قوانین کے احترام کا نام ہے۔ سرکار کی طرف سے ہر جائز ٹیکس ادا کرنے کا نام ہے تاکہ ریاست کی معیشت مضبوط ہو۔
  • مسلمانی وعدوں کی پاسداری اور رشوت نہ لینے کا نام ہے۔
  • مسلمانی کو اپنانے والے مسلمانوں کے گھروں کے کچن، صحن، کمرے، باتھ روم اور اردگرد کا ماحول گندگی اور آلودگی سے پاک ہوتا ہے۔
  • مسلمانی انسانوں کے علاوہ جانوروں سے بھی محبت و پیار کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کا نام ہے۔ وہ اونٹ، گھوڑے، گدھے اور کتے بلیوںکی رسی ڈھیلی رکھنے کی تلقین کرتی ہے۔ اپنے علاج کے علاوہ ان بے زبانوں کے علاج کے لئے جدید شفاخانے بنانے کا حکم دیتی ہے۔
  • مسلمانی کا پابند مسلمان ان محنت کش جانوروں پر اتنا ہی بوجھ ڈالتا ہے جتنا وہ آسانی سے اٹھاسکیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا بھی یہی اصول ہے کہ:

لاَ تُکَلَّفُ نَفْسٌ اِلاَّ وُسْعَهَا.

(البقره، 233)

’’کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے‘‘۔

وہ جانوروں ان پرتشدد بھی نہیں کرتا اور ان کی روٹی پانی کا خیال رکھتا ہے۔ مسلمانی یہ ہے کہ محض اپنی لذت شنائی کے لئے ننھے منے پرندوں کو اپنی شارٹ گنوں کا نشانہ بناکر ان کی جان نہ لی جائے۔

  • مسلمانی علم دوستی کا نام ہے۔ مسلم ممالک میں اعلیٰ درجہ کی درسگاہ اور جدید طرز کے کتب خانے ہوتے ہیں۔
  • مسلمانی شاہراہوں پر سفر کے دوران ٹریفک قوانین اور ٹریفک سگنل کی پابندی کا نام ہے۔
  • مسلمانی یہ ہے کہ سوئی گیس اور بجلی چوری نہ کی جائے۔ ایک سچا مسلمان کبھی چوری کی گیس پر کھانا پکاتا ہے اور نہ چوری کی بجلی سے روشن بلب کی روشنی میں قرآن کی تلاوت کرتا ہے۔ مسلمانی یہ نہیں کہ محافل میلاد اور دیگر دینی مجالس میں غیر قانونی بجلی لیکر استعمال کی جائے۔
  • مسلمانی اس امر کی بھی اجازت نہیں دیتی کہ سرکاری اسٹامپ پیپرز پر جعلی انگوٹھے لگاکر دوسروں کی جائیدادوں پر ناجائز قبضہ کیا جائے۔ دین اسلام تو ہمیں یہاں تک خبردار کرتا ہے کہ جس نے کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کیا تو روز حساب زمین کے اسی ٹکڑے کو اس کے گلے کا طوق بناکر اسے عذاب میں مبتلا کردیا جائے گا۔ اس منظر کو دیکھنے والے کہہ اٹھیں گے کہ یہ ہے وہ غاصب جس نے فلاں کی زمین ہڑپ کرلی تھی۔
  • مسلمانی یہ نہیں کہ معصوم بچے بچیوں کو اپنی جنسی ہوس کی بھینٹ چڑھا کر بعد ازاں قتل بھی کردیا جائے۔
  • مسلمانی یہ نہیں کہ لڑکیوں کی شادی قرآن سے کردی جائے۔
  • مسلمانی بیماروں کی عیادت، ضعیفوں کی خدمت، بے سہاروں کی مدد کرنے کا نام ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تو کسی ناگہانی حادثہ میں زخمی یا ہلاک ہونے والوں کی جیب سے رقم تک نکال لی جاتی ہے۔ ان کی گھڑیاں موبائل اور دیگر سامان اڑالیا جاتا ہے۔ مساجد عبادت گاہیں ہیں، مسلمانی یہ ہے کہ وہاں صرف عبادت کی جائے مگر یہاں تو نمازیوں کے جوتے اور مسجد کی ٹونٹیاں اور پنکھے تک اتار لئے جاتے ہیں۔

قرونِ اولیٰ میں فروغِ اسلام کیونکر ممکن ہوا؟

تاریخ اسلام کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں نے خلافتِ راشدہ اور اس سے کچھ عرصہ بعد تک کس طرح ترقی کی منازل طے کیں۔ اس لئے کہ حضور نبی اکرمA، صحابہ کرام، تابعین، اتبع التابعین، ائمہ و اسلاف کی تربیت سے کائنات کے اسرار و رموز اور دنیا کے سربستہ راز ان پر عیاں ہونے لگے۔ اسی مسلمانی کے جواہر نے ان کو وہ یادگار کمال اور عروج بخشا جو تاریخ اسلام کا ایک سنہرا باب بن گیا۔ کشور اسلامیہ کا ارضی رقبہ ایک روایت کے مطابق چودہ اور دوسری روایت کے مطابق بائیس لاکھ مربع میل تک پھیل گیا تھا۔ اسی مسلمانی کے جوہر نے ان کو صحرائوں کا مسافر اور سمندروں کا ماہر تیراک بنادیا بقول علامہ اقبال:

دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑادیئے گھوڑے ہم نے

عروج و کمال اور مسلمانی کی اس عظیم انقلاب آفریں داستان کی شہادت تاریخ کا حرف حرف دیتا ہے۔ جب تک ان مردان حق میں مسلمانی کا کیمیائی عنصر موجزن رہا وہ علم، حلم، اخلاق، انسانیت اور آدمیت کا احترام اور عدل وانصاف کا بول بالا کرتے رہے۔ ان کے عروج کا شمس نصف النہار پر بڑی آب و تاب سے چمکتا دمکتا رہا مگر جونہی ان کی مسلمانی کا وہی جوہر زنگ آلود ہوکر کمزور ہونے لگا، انہوں نے اسلامی اور ربانی قوانین و احکام سے روگردانی کا عمل شروع کیا تو ان کا یہ جاہ و جلال، رعب و دبدبہ اور ہیبت عروج کی بلند چوٹیوں سے پھسلتا ہوا گمنام گھاٹیوں میں گم ہونے لگا۔ آج دنیا بھر کی مسلم امہ مسلمانی کے اسی زوال کی منہ بولتی داستان ہے۔

اس وقت دنیا میں تقریباً ایک ارب پچاس کروڑ کی کثیر تعداد رکھنے اور دنیا کے دو تہائی وسائل کے مالک ہونے کے باوجود امت مسلمہ اقوام عالم میں رسوا اور بے یارومددگار ہوکر رہ گئی ہے۔ کشمیر، افغانستان، عراق، فلسطین، برما اسی الم انگیز اساطیر کے عنوانات ہیں۔ مسلم امہ کو ان ممالک میں جتنا جانی و مالی نقصان پہنچایا گیا، اسی کمزور مسلمانی کا ہی نتیجہ ہے۔ دنیا میں باسٹھ ممالک اسلامیہ میں کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جو خودکفیل کہلائے۔

اس کے برعکس اسلام قبول نہ کرنے کے باوجود اہل یورپ کے علاوہ چین، کوریا، تائیوان، سنگاپور اور مشرق بعید کے دیگر ممالک نے ’’مسلمانی‘‘ اپناکر اسلامی قوانین کو ترجیحی درجہ دیا اور عہد رفتہ کے مسلمانوں کے کھوئے ہوئے عروج پر اپنا تسلط اور قبضہ جمالیا۔ ہم کلمہ گو مسلمان تو ضرور ہیں مگر مسلمانوں کے عظیم جوہر ’’مسلمانی‘‘ سے خالی ہیں جبکہ اہل مغرب اور اہل مشرق کلمہ گو تو نہیں مگر جوہر مسلمانی سے ہم سے کہیں آگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ دیگر اقوام کے دست نگر ہیں۔

ہم کیسے ترقی کرسکتے ہیں۔۔۔؟ ارتقائی سمتیں اور ترقی کے تمام راستے تو ہم نے خود بند کردیئے ہیں۔ جب تک ہم اپنی عملی زندگی میں ’’مسلمانی‘‘ کو اختیار نہیں کریں گے، اسلامی منشور کے مطابق اپنی زندگیوں کا چارٹر مرتب نہیں کریں گے تو ذلت اور دہشت گردی کے طوفان بے گناہوں کو موت سے ہمکنار کرتے رہیں گے۔ اسلام تک رسائی کیسے کی جائے؟ اس کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ مسلمانی کو عملاً اختیار کیا جائے۔

آج سے چودہ سو سال پہلے ہم نے یہی طریقہ اختیار کیا تھا مگر چند صدیوں بعد اس طریقہ کو چھوڑ دیا۔ اس کے برعکس اہل مغرب نے اس طریقہ کو اختیار کیا۔علم جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ مومن کی گمشدہ میراث ہے، آج یہی میراث کس کے قبضہ میں ہے۔۔۔؟ ہاورڈ، آکسفورڈ، کیمرج، ہائیڈل برگ کی جامعات (یونیورسٹیاں) کن کے پاس ہیں۔۔۔؟ سرطان (کینسر) شوگر، فشار خون (بلڈپریشر)، ہیپاٹائٹس اور دیگر مہلک امراض کی خالص دوائیاں کون تیار کررہا ہے۔۔۔؟ مسلمان یا غیر مسلم۔۔۔؟ ہم ملکی مصنوعات پر ہر لحاظ سے غیر ملکی مصنوعات کو کیوں ترجیح دیتے ہیں۔۔۔؟ تین سو کی پاکستانی چیز کی بجائے بارہ سو کی جاپانی چیز کیوں خریدتے ہیں۔۔۔؟ اس لئے کہ ان اقوام نے ہم سے ہماری میراث چھین کر اسے اپنی زندگیوں میں شامل کرکے ان چیزوں کے معیار کو بلند کیا۔

علم، تکنیک، تجارت، اخلاق، انسانی اقدار، وقت کی قدر، وعدے کی پاسداری، ہر طرح کی مصنوعات میں کھرا پن غرض ہر شعبہ زندگی میں وہ ہم سے آگے ہیں۔ کاش آج بھی مسلمانوں میںیہ احساس پیدا ہوجائے کہ اپنی گمشدہ میراث کو واپس لینے کی کوشش کریں۔ مسلمانوں میں ’’مسلمانی‘‘ کا خالص جوہر پیدا ہوجائے تو وہ صرف نام کے ہی نہیں بلکہ کام کے بھی مسلمان بن جائیں۔