القرآن: سفرِ معراج، طورِ سینا اور حقیقتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

خصوصی خطاب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون:محمد خلیق عامر

معراج کی رات آقا علیہ السلام کی حیات طیبہ میں سب سے بڑی مسرت وفرحت کی رات ہے۔ اس لئے کہ 63 برس کی زندگی میں اس رات سے بڑھ کر کوئی ایسی رات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں نہیں آئی ہوگی جس میں آپ سب سے بڑھ کر خوش ہوئے ہوں گے۔ مسرت و فرحت کے اس کمال و انتہا پر ہونے کا سبب کوئی معمولی نہیں بلکہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِس رات بلا حجاب اپنے محبوبِ حقیقی کا دیدار کیا۔ جس رات اللہ رب العزت کا بے حجابانہ دیدار اور اس کی نوازشات و انعامات کی انتہا ہوئے، اُس سے بڑھ کر بھلا کون سی رات یا لمحہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بے انتہاء خوشی و مسرت کا باعث ہوسکتا ہے۔

ایک مومن کی غرض آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی خوشی اور مسرت و فرحت سے ہے۔ لہذا ہماری خوشیوں کی معراج بھی معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رات ہے کہ عاشق لوگ ثواب کی کثرت کو نہیں دیکھتے بلکہ محبوب کی مسرت وفرحت کو دیکھتے ہیں۔ زاہدوں اور عابدوں کا کام ثواب کو طلب کرنا ہے اور عاشقوں کا کام محبوب کی خوشیوں کو تکنا ہے۔

حضور علیہ السلام کی شخصیتِ مقدسہ کے تین گوشے ہیں:

  1. بشریت
  2. نورانیت
  3. حقیقت
  • آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشریت وجسمانیت اور ناسوتی وجود کا ظہور ہمارے لیے کیا گیا۔ اس لئے کہ بشر کسی بشری پیکر سے ہی ہدایت، رہنمائی اور اسوہ لے سکتا ہے، کیونکہ فیض دینے والے اور فیض لینے والے میں ایک مناسبت کا ہونا ضروری ہے۔ لہذا ہم سے مناسبت پیدا کرنے کے لیے آقا علیہ السلام کو بطور سیدالبشر ظاہر کیا گیا تاکہ ہمارے ساتھ مناسبت قائم ہو اور ہم اس بشریت کے رشتے سے اُس منبعِ نور سے فیض لے سکیں۔
  • اسی طرح آقا علیہ السلامصر ف عالم بشریت کے نبی نہیں ہیں اور نہ ہی نبوت ورسالت کا فیض صرف بشر کے لیے ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن اورملائکہ کے بھی نبی ہیں۔ ملائکہ اور عالم انوار کی بھی ضرورت تھی کہ وہ بھی حضور علیہ السلامسے فیض لیں۔اگر آقا علیہ السلام کے وجود اقدس کو محض پیکر بشری بنایا ہوتااور اس کے علاوہ آپ کی شخصیت میں اور کوئی گوشہ موجود نہ ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت ورسالت صرف عالمِ بشریت کے لیے محدود رہ جاتی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض بھی صرف انسانوں تک محدود رہ جاتا۔ اس صورت میں نہ جن فیض لے سکتے، نہ ملائکہ فیض لے سکتے اور نہ عالم انوار فیض پا سکتا۔

ملائکہ تو بشر نہیں ہیں، وہ تو سراپا نور ہیں۔ جس طرح ہمیں بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیض درکار ہے، اسی طرح ملائکہ کو بھی فیضِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درکار ہے۔ سو ان کے لیے شخصیت کی دوسری جہت بنائی اور وہ ہے نورانیت اور روحانیت۔ یعنی ان کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کے نورانی گوشہ کو اجاگر کیا۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سید الانوار بھی ہوئے اور سید البشر بھی ہوئے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور و بشر دونوں کے سردار ہیں۔

  • حضور علیہ السلامکی شخصیت کا ایک گوشہ بشری ، ناسوتی، جسمانی ہے اور دوسرا گوشہ ملکوتی و نورانی ہے۔ یہ دونوں گوشے عالم خلق (مخلوق) کے لئے ہیں۔ حضور علیہ السلامکی شخصیت کا تیسرا گوشہ مظہریت اور حقیقت ہے۔

یہ امر ذہن نشین رہے کہ نہ بشریت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی حقیقت ہے اور نہ نورانیت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقت ہے بلکہ بشریت ہمارے لیے ہے اور نورانیت ملائکہ اور عالم انوار کے لیے ہے۔ سوال یہ ہے کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے کون سا گوشہ ہے۔ یاد رکھیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے لیے جو گوشہ ہے وہ ’’حقیقت و مظہریت‘‘ ہے۔ اس لیے کہ نہ بشر فیوضاتِ الہٰی کو براہ راست پا سکتا ہے اور نہ ملائکہ اور نور براہ راست فیوضاتِ الہٰی حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر نور، فیوضات الہٰی پاسکتا تو جبرائیل امین سدرۃ المنتھیٰ پر نہ رک جاتے بلکہ وہ بھی ساتھ آگے تک چلتے۔ ان کا آگے نہ جانا اس امر کو ثابت کرتا ہے کہ محض نور بھی فیوضاتِ الہٰیہ کو براہِ راست حاصل نہیں کرسکتا۔ آگے تنہا آقا علیہ السلامکے جانے کا ذکر ملتاہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کا گوشہ حقیقت و مظہریت اس لئے ہے کہ اللہ رب العزت کی بارگاہ سے وصول اور حاصل کرنے کے لیے ایک ایسا گوشہ چاہیے تھا،جس کی کوئی مناسبت بارگاہِ الوہیت کے ساتھ ہو۔ حضور علیہ السلام کی ذات میں الوہیت نہ ہو، مگر الوہیت کے ساتھ ایک مناسبت ہو اور اس مناسبت کی وجہ سے اُدھر (اللہ) سے وصول کریں اور اِدھر (مخلوق میں) تقسیم کریں۔ پس اللہ رب العزت سے انوار و فیوضات وصول کرنے والا شخصیت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گوشہ حقیقت و مظہریتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے۔

سفرِ معراج کے مراحل

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج کامل معراج تب بنتی ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس اور شخصیت کے مذکورہ تمام گوشوں کی بھی معراج ہو۔ لہذا اللہ رب العزت نے معراج کی رات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کے تینوں گوشوں کو معراج عطا فرمانے کے لئے اس سفر کے بھی تین مرحلے مقرر فرمائے:

  1. مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک
  2. مسجدِ اقصیٰ سے سدرۃ المنتہٰی تک
  3. سدرۃ المنتہٰی سے لامکاں تک

اکثر علماء اس سفر کے پہلے حصے ’’مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ‘‘ کو ’’اسریٰ‘‘ کہتے ہیں اور مسجدِ اقصیٰ سے سدرۃ المنتہیٰ تک کے حصۂ سفر کو ’’معراج‘‘ کہتے ہیں۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: سدرۃ المنتہیٰ سے قاب قوسین او ادنیٰ تک کے تیسرے حصے کا نام ’’اعراج‘‘ ہے اور یہ حقیقتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سفر ہے۔

مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر کی تفصیلات اکثر ہم سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں اور اس سفر کو اللہ رب العزت نے سورۃ بنی اسرائیل کی ابتداء میں سبحن الذی اسریٰ بعبدہ کے الفاظ کے ساتھ بیان کیا۔ احادیث مبارکہ سے اس حصہ کی تفصیلات ملتی ہیںکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سفر کیسے طے کیا۔۔۔؟ راستے میں کہاں کہاں پڑائو کیا۔۔۔ اس سفر کے دوران کیا کیا واقعات پیش آئے اور مسجد اقصیٰ میں انبیاء کی امامت کس طرح فرمائی۔۔۔؟ (تفصیلی مطالعہ کے لئے ماہنامہ منہاج القرآن جون 2011ء کا شمارہ اور شیخ الاسلام کی تصنیف ’’فلسفۂ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔)

زیرِ نظر صفحات پر ہم سفرِ معراج کے دوسرے مرحلہ یعنی مسجدِ اقصیٰ سے سدرۃ المنتہٰی تک کے سفر کا قرآن حکیم کی آیاتِ مبارکہ کی روشنی میں مطالعہ کریں گے۔

مسجدِ اقصیٰ سے سدرۃ المنتہٰی تک کا سفر

جس طرح مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کے سفر کی ایک داستان، ایک راستہ اور مختلف واقعات ہیں، اسی طرح اس سفر کے دوسرے مرحلہ مسجد اقصیٰ سے سدرۃ المنتہٰی تک کے سفر کا بھی ایک روٹ اور راستہ ہے۔ مسجدِ اقصیٰ سے سدرۃ المنتہیٰ تک کے سفر کے دوران سبع سماوات، البیت المعمور اور دیگر عجائبات کا مشاہدہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہوئے سدرۃ المنتہٰی تک پہنچے۔ انہی مشاہدات کے متعلق اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰ يٰتِ رَبِّهِ الْکُبْرٰیo

بے شک انہوں نے (معراج کی شب) اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں۔

(النجم، 53: 18)

ربط بین الآیات والسَّور

قرآن مجید میں تین جگہ واقعہ معراج کا ذکر ملتا ہے۔ واقعہ معراج کے پہلے مرحلہ کا بیان سورۃ بنی اسرائیل میں سبحن الذی اسرٰی بعبدہ کے الفاظ کے ساتھ ہے۔ سورۃ الطور میں اس سفر کے دوسرے مرحلہ ’’مسجدِ اقصیٰ سے سدرۃ المنتہٰی‘‘ تک کا بیان ہے اور واقعہ معراج کا مفصل ذکر سورۃ النجم میں آیا ہے۔

سورۃ بنی اسرائیل میں مذکور واقعہ معراج اور اس کے معاً بعد آنے والی آیتِ مبارکہ کے درمیان ایک معنوی ربط ہے، اسی طرح سورۃ الطور اور سورۃ النجم کے مابین بھی ابتداء اور انتہا دونوں اعتبار سے ایک ربط ہے۔ ایک قاعدہ یاد رکھیں، میں ہمیشہ اس پر غور کرتا ہوں اور کبھی اس عمل کو ترک نہیں کرتا اور وہ یہ کہ قرآن مجید کی آیات اور سورتوں کے مابین ایک معنوی ربط بھی پایا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی ترتیب نزولی کچھ اور ہے اور ترتیبِ کتابی کچھ اور ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیات اور سورتیں تو حالات کے مطابق اترتی رہیں۔ بعد ازاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک نئی ترتیب (توقیفی) اللہ رب العزت نے وحی کے ذریعے بتائی اور آقا علیہ السلام نے اس ترتیب کے مطابق قرآن کو مرتب کیا۔ کیا یہ ترتیبِ توقیفی بلا مقصد ہے یا اس میں بھی کوئی حکمت اور معنوی ربط کا لحاظ رکھا گیا ہے؟

اللہ رب العزت کا کوئی بھی حکم یا امر بلامقصد نہیں۔ قرآن کی آیات اور سور کے مابین ایک معنوی ربط بھی موجود ہے۔ یہی معنوی ربط ہمیں واقعہ معراج کے ضمن میں بیان کردہ آیات اور سورتوں کے مابین بھی نظر آتا ہے۔ آیئے اس معنوی ربط پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

معراج پر جانے کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ بنی اسرائیل میں کیا۔ ارشاد فرمایا:

سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِهِ...انه هوالسميع البصير.

اس آیت کے معًا بعد موسیٰ علیہ السلام کا بیان ہے۔ فرمایا:

وَاِذْ اٰتَيْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ...

(بنی إسرائيل، 17: 2)

اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب (تورات) عطا کی۔

یہ دونوں آیتیں سورۃ بنی اسرائیل میں متصل ہیں۔ قرآن مجید کی 114 سورتیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے کسی اور سورت میں معراج کا ذکر نہیں کیا بلکہ بنی اسرائیل کو چنا حالانکہ بنی اسرائیل سے تو براہ راست معراج مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکا کوئی تعلق نہیں ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جب معراج ہوئی تو اس وقت تو بنی اسرائیل یعنی یہود سے میل ملاقات اور رابطہ بھی شروع نہیں ہوا تھا۔ ان سے واسطہ و رابطہ تو مدینہ ہجرت کے بعد شروع ہوا۔ یہود مکہ میں نہ تھے بلکہ مدینہ میں تھے۔ بنی اسرائیل سے واسطہ مدینہ میں ہوا جبکہ معراج مکہ میں ہوئی، جہاں بنی اسرائیل رہتے نہ تھے۔ اس کے باوجود سورۃ بنی اسرائیل میں معراج کی آیت آئی، کیوں؟ اس کو لانے کا مقصد کیا ہے؟

وجہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے موسیٰ علیہ السلام کو ایک معراج ہو چکا تھا، اُس معراج موسیٰ علیہ السلام کو اِس معراج مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر سے جوڑا گیا اور ’’طور‘‘ کو ’’قاب قوسین‘‘ سے جوڑا گیا۔ اس لیے سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِهِ فرماکر فوراً فرمایا: وَاِذْ اٰتَيْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ اور جب ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو کتاب عطا کی۔

معراجِ موسیٰ علیہ السلام اور معراجِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فرق

اس موقع پر معراجِ موسیٰ علیہ السلام اور معراجِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مابین فرق کا ذکر خالی از فائدہ نہ ہوگا۔ آیئے ان کو جانتے ہیں:

  1. حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے تورات مقامِ طور پر عطا کی، جہاں اﷲ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے بلاواسطہ گفتگو بھی فرمائی اور یہ گفتگو جبرائیل امین علیہ السلام کے واسطہ کے بغیر براہِ راست ہوئی۔ عمر بھر موسیٰ علیہ السلام پر جو وحی ہوتی رہی، وہ بذریعہ جبرائیل امین ہوتی رہی لیکن جب حضرت موسیٰ علیہ السلام طور پر پہنچے تو واسطۂ جبرائیل کو درمیان سے ہٹا دیا گیا اور وہاں براہِ راست کلام فرمایا اور تورات عطا کی۔

معراجِ موسیٰ علیہ السلام اور معراجِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پہلا فرق یہ ہے کہ معراجِ موسیٰ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جبرائیل امین کے واسطے کے بغیر براہِ راست کلام کیا مگر یہ براہِ راست کلام اور بلا واسطہ وحی حجاب اور پردے کے پیچھے سے کی جبکہ معراجِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت اللہ تعالیٰ نے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہ صرف براہِ راست کلام کیا بلکہ بلا حجاب اپنا دیدار بھی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا فرمایا۔

  1. موسیٰ علیہ السلام نے چالیس راتیں ’’طور‘‘ پر گزاریں۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی معراجِ تھی اور اس معراج کے لیے موسیٰ علیہ السلام کو خود ’’طور‘‘ پر جانا پڑا۔ ارشاد فرمایا:

وَلَمَّا جَآءَ مُوْسٰی لِمِيْقَاتِنَا.

(الأعراف، 7: 143)

’’اور جب موسیٰ ( علیہ السلام) ہمارے (مقرر کردہ) وقت پر حاضر ہوا‘‘۔

ہم نے ملاقات کی وقت اور جگہ مقرر کر دی تھی۔ موسیٰ علیہ السلام مقرر کی ہوئی جگہ پر اور مقرر کیے ہوئے وقت پر خود آ گئے۔ جب معراجِ موسیٰ کی باری آئی تو موسیٰ علیہ السلامکو بلایا اور موسیٰ آ گئے لیکن جب معراج مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باری آئی تو فرمایا:

سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِهِ

(بنی اسرائيل: 1)

مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے نہیں، میں خود لے کر گیا ہوں۔

  1. اسی طرح طور پر موسیٰ علیہ السلام نے طلبِ دیدار کیا۔ جواب لَنْ تَرٰنِیْ ملا اور معراج مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ساری رات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیدار طلب نہیں کیا بلکہ رب کائنات نے اپنا دیدار کروانے کے لئے خود نقاب و حجابات اٹھا دیئے۔ اس لیے کہ جب کوئی اپنے لیے طلب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ رَبِّ اَرِنِیْ تو اس کا مطلب ہے کہ اسے ابھی فنائیت تام نہیں ہوئی، اپنے لیے طلب کر رہا ہے۔ مانگنے کا مطلب ہے کہ ابھی اسے ہوش ہے کہ ’’میں‘‘ ’’میں‘‘ ہوں اور ’’وہ‘‘ ’’وہ‘‘ ہے، اسی لیے کہتا ہے کہ ’’اے رب! مجھے تو اپنا آپ دکھا‘‘۔ اور جب کوئی یہ سوال نہیں کرتا تو اس کا مطلب ہے کہ اسے اُس کی رضا میں فنائے تام حاصل ہے۔ یعنی اپنا دھیان بھی جب فنا ہو جائے تو پھر پردہ اٹھا دیا جاتا ہے۔

سورۃ الطور اور سورۃ النجم کا باہمی تعلق

جس طرح سورۃ بنی اسرائیل کی پہلی دو آیات میں معنوی ربط ہے کہ ایک میں معراجِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہے اور دوسری میں معراجِ موسیٰ علیہ السلام کی طرف اشارہ ہے، اسی طرح سورۃ الطور اور سورۃ النجم میں بھی معنوی ربط ہے۔ دونوں سورتوں کی ابتدا میں بھی ربط ہے اور آخر کا بھی ربط ہے۔ ابتدا اور انتہا دونوں مربوط ہیں۔ پہلے دونوں سورتوں کے انتہاء کا ربط دیکھتے ہیں۔ سورۃ الطور کی آخری آیت میں فرمایا:

وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْيُنِنَا وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ حِيْنَ تَقُوْمُo

(الطور، 52: 48)

اور (اے حبیبِ مکرّم! اِن کی باتوں سے غمزدہ نہ ہوں) آپ اپنے رب کے حکم کی خاطر صبر جاری رکھئے بے شک آپ (ہر وقت) ہماری آنکھوں کے سامنے (رہتے) ہیں اور آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجیے جب بھی آپ کھڑے ہوں۔

حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی یکے بعد دیگرے وفات کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ دفاع کرنے والا ظاہر میں کوئی نہ رہا۔ حملے تھے، گالیاں تھیں، تہمتیں تھیں، الزامات تھے، تکالیف تھیں، مصائب تھے، مشکلات تھیں، حملوں کی ایک بارش تھی، پتھروں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زخمی کیا گیا، تیر برسائے گئے، لہو لہان کیا گیا۔ پہلے جب کبھی ایسی کیفیت ہوتی اور آقا علیہ السلام دکھی دل کے ساتھ گھر آتے تو غم کو دور کرنے کے لیے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا موجود ہوتیں۔ کبھی دفاع کے لیے حضرت ابی طالب آجاتے۔ اب یہ دونوں دنیا میں نہ رہے تھے۔ مصائب و مشکلات اور مظالم کی انتہا تھی، اُس وقت دلجوئی کی ضرورت تھی کہ کوئی اپنا ہو جو حوصلہ دے، ساتھ دے، حوصلہ افزائی کرے اور مظالم کی انتہا کے مقابلے میں دلجوئی کی بھی انتہا ہو جائے۔ ان حالات میں جب مظالم انتہا کو پہنچ گئے تو خدا کی محبت، شفقت و دلجوئی بھی انتہا پر جا پہنچی۔ فرمایا:

وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْيُنِنَا.

اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! صبر جاری رکھئے، اگر ان سب نے آنکھیں پھیر لی ہیں تو کیا ہوا، ہم تو ہر وقت تم ہی کو تکتے رہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر وقت ہماری آنکھوں میں رہتے ہیں اور یہ نگاہ، نگاہِ حفاظت بھی ہے اور نگاہِ محبت بھی ہے۔ پھر فرمایا:

وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ حِيْنَ تَقُوْمُo وَمِنَ الَّيْلِ فَسَبِّحْهُ.

(الطور، 52: 48،49)

’’اور آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجیے جب بھی آپ کھڑے ہوں۔ اور رات کے اوقات میں بھی اس کی تسبیح کیجیے‘‘۔

اب سورۃ الطور کا آخری لفظ سننے والا ہے۔ارشاد فرمایا:

وَاِدْبَارَ النُّجُوْمِo

یعنی میرے محبوب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! رات کے پچھلے پہر بھی تسبیح کریں، جب ستارے چھپ جاتے ہیں۔

ادھر آیت اِدْبَارَ النُّجُوْمِ کے الفاظ پر ختم ہوئی تو ساتھ ہی ’’سورۃ النجم‘‘ کی پہلی آیت شروع ہوئی، ارشاد فرمایا:

وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰیo

(النجم، 53: 1)

’’قسم ہے روشن ستارے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب وہ (چشم زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترے۔‘‘

یعنی ایک طرف یہ رات کے ستارے ہیں جو پچھلے پہر چھپ جاتے ہیں اور دوسری طرف ’’النجم‘‘ ایسا ستارہ ہے جو کبھی چھپتا ہی نہیں۔ ایک طرف دنیا کے ستارے ہیں جو رات بھر چمک و دمک کے بعد پچھلے پہر چھپ جاتے ہیں۔ مگر لوگو! میرے ستارے کو دیکھو کہ وہ چمک اٹھا ہے اور ایسا چمکا ہے کہ یہ کبھی نہ چھُپے گا۔ اب اسی کا ستارہ قیامت تک اور بعد از قیامت چمکے گا۔

سورۃ الطور کا آخر اور سورۃ النجم کی ابتداء کے درمیان یہ معنوی ربط ہے کہ سب ستارے چھُپنے والے تھے مگر وجودِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں رب کا ستارہ ایسا ستارہ ہے جو چھُپتا ہی نہیں ہے۔

سورۃ الطور اور النجم کی ابتدائی آیات کا ربط

جس طرح سورۃ النجم کی ابتدائی 18 آیات میں واقعہ معراج تفصیل سے ذکر ہے، اسی طرح سورۃ الطور کی ابتدائی آیات میں بھی واقعہ معراج ہی کو بیان کیا گیا ہے اور اس امر کا اظہار اِس سورۃ کی آیات کے معنوی ربط سے ہوتا ہے۔ مسجد اقصیٰ سے سدرۃ المنتہیٰ کے سفر کے روٹ کا بیان سورۃ الطور کی ابتدائی آیات میں بیان ہوا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَالطُّوْرِo وَکِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍo فِیْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍo وَّالْبَيْتِ الْمَعْمُوْرِo وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوْعِo وَالْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِo

(الطور، 52: 1-6)

(کوہِ) طُور کی قَسمo اور لکھی ہوئی کتاب کی قَسمo (جو) کھلے صحیفہ میں (ہے)o اور (فرشتوں سے) آباد گھر (یعنی آسمانی کعبہ) کی قَسمo اور اونچی چھت (یعنی بلند آسمان یا عرشِ معلّٰی) کی قَسمo اور اُبلتے ہوئے سمندر کی قَسمo

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے درج ذیل پانچ چیزوں کی قسمیں کھائی ہیں:

  1. وَالطُّوْرِ سے مراد وجودِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
  2. کِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ سے مراد قرآن، کتاب مصطفی ہے۔
  3. وَّالْبَيْتِ الْمَعْمُوْرِ سے مراد فرشتوں کا کعبہ ہے جو آسمانی دنیا پر ہے۔ حدیثِ معراج میں آتا ہے کہ حضور علیہ السلام جب ساتویں آسمان پر پہنچے تو وہاں بیت المعمور تھا اور ابراہیم علیہ السلام اس کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ طور معراجِ موسیٰ علیہ السلام کا مقام تھا اور بیت المعمور معراجِ ابراہیم علیہ السلام کا مقام تھا۔
  4. وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوْعِ سے مراد عرشِ معلی ہے۔
  5. وَالْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ کے بارے حدیث میں آتا ہے جسے حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:

هو بحر تحت العرش.

وہ عرش کے نیچے نور کا سمندر ہے۔

گویا اللہ رب العزت نے ان پانچ قسموں کے ذریعے معراج کے دوسرے سفر کے مراحل بیان کر دئیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المعمور اور سقف مرفوع سے ہوتے ہوئے البحر المسجور تک جا پہنچے۔

قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰی.

اس مرحلہ معراج کو عبور کرنے کے بعد فوق السدرۃ وہ مقام تھا جس کے بارے سورۃ النجم میں ارشاد فرمایا:

ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰیo فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰیo

(النجم، 53: 8-9)

پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیاo پھر (جلوۂِ حق اور حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہوگیا)۔

بعض ائمہ تفسیر کہتے ہیں کہ دو کمانوں سے مراد ایک ہی کمان ہے اور یہ تمثیل ہے کہ عرب قبائل جب آپس میں اتحاد کرتے تو وہ دو کمانوں کو اکٹھا جوڑ لیتے اور دو کمانوں سے ایک تیر نکال کر پھینکتے تا کہ دنیا کو پتہ چل جائے کہ اب ہم دو نہیں رہے بلکہ ایک ہو گئے ہیں۔ مراد یہ کہ ایک سے لڑائی اب دوسرے سے بھی لڑائی متصور ہوگی۔ ایک کا دوست اب دوسرے کا بھی دوست ہو گا۔

اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو محمد تھا۔۔۔ خدا تو خدا تھا۔۔۔ خالق تو خالق تھا۔۔۔ مخلوق تو مخلوق تھی۔۔۔ محبوب تو محبوب تھا۔۔۔ اور عبد تو عبدِ مقرب تھا۔۔۔ مگر اب یہ دونوں دو کمانوں کی طرح متحد ہوئے اور ایک تیرِ محبت چلا اور دنیا کو بتا دیا کہ دیکھنے میں تو یہ دو ذاتیں ہیں۔ یہ غیریت اس لئے ہے کہ خالق و مخلوق کا فرق رہے۔ عبد و معبود کا فرق رہے، بندے اور خدا کا فرق رہے۔ مگر سن لو!

آج کے بعد جو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نہیں وہ خدا کا نہیں جو اِس (رسول) کی اطاعت وہ اُس (اللہ) کی اطاعت۔۔۔ جو اس (رسول) کی محبت وہ اُس (اللہ) کی محبت۔۔۔ جو اس (رسول) کی قربت وہ اُس (اللہ) کی قربت۔۔۔ جو اس (رسول) کی حرمت وہ اُس (اللہ) کی حرمت۔۔۔ جو اس (رسول) کی بیعت کرے گا، اُس نے خدا کی بیعت کر لی۔۔۔ اور جو مصطفی سے پھر گیا وہ خدا سے پھر گیا۔

قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰی کا یہی پیغام تھا جو امت تک واقعہ معراج کے ذریعے پہنچایا گیا۔ یہ آقا علیہ السلام کی معراج کا تیسرا حصہ تھا جس میں آقا علیہ السلام کو بلا حجاب دیدار ہوا۔ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی کی شان آپ کو عطا کر دی گئی اور جلوئہ حق بلا حجاب عطا کیا گیا۔۔۔ یہ وہ مقام تھا کہ جب جلوئہ حق سامنے تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُسے بلا حجاب تک رہے تھے۔

امت کے لئے اللہ اور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تحفہ

اللہ رب العزت کی بارگاہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرض کیا کہ مولا!

التحياتُ للّٰه والصلٰوة والطيبات.

کہ میں اپنی بندگی اور نیازمندی تیری بارگاہ میں لایا ہوں۔ اللہ نے جواب دیا:

السلام عليک أيها النبي ورحمة اﷲ وبرکاته!

باقی مومنین پر اللہ جنت میں سلام کرے گا مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے شبِ معراج سلام کہا۔ ابن ماجہ میں حدیث آتی ہے کہ جنتی جنت میں اچانک آواز سنیں گے:

السلام عليکم يا أهل الجنة.

’’اے اہل جنت تم پر سلام ہو‘‘۔

جنت والے چونک اٹھیں گے کہ کون سلام کر رہا ہے؟ کہا جائے گا کہ تمہارا رب تمہارے اوپر سلام بھیج رہا ہے۔ یہ قرآن مجید کے اس فرمان کی تفسیر ہے جس میں اللہ رب العزت نے فرمایا:

سَلٰمٌ قف قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِيْمٍ.

(يٰسن، 36: 58)

’’(تم پر) سلام ہو، (یہ) ربِّ رحیم کی طرف سے فرمایا جائے گا‘‘۔

جب رب سلام بھیجے گا تو پردہ ہٹ چکا ہوگا اور:

فينظر إليهم وينظرون إليه.

رب کے عاشق اُس کو دیکھ رہے ہوں گے اور وہ اپنے عاشقوں کو دیکھ رہا ہوگا۔ اِن دیکھنے والوں اور دکھائی دینے والے کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ ہو گا۔ وہ مقام جو عاشقوں اور مومنوں کو جنت میں ملے گا کہ اللہ ان کو سلام کرے گا اور وہ اللہ کا دیدار کریں گے، وہ مقام اللہ تعالیٰ نے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شبِ معراج عطا کر دیا۔

جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام اور سلامتی کا تحفہ دیا گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرض کیا:

السلام علينا وعلٰی عباد اﷲ الصالحين.

مولیٰ! آیا تو تنہا ہوں مگر تحفہ تنہا نہیں لیتا، امت کو بھی اس سلام میں شریک کرتا ہوں۔

پس شبِ معراج اللہ کا تحفہ امت کے لیے نماز ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تحفہ امت کے لیے سلام ہے۔ لہٰذا نماز بھی پڑھا کریں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھی پڑھا کریں۔ زندگی ہمیشہ سلامتی کے ساتھ گزاریں۔ شب معراج کا تحفہ یہی ہے کہ پوری انسانیت کے لیے سراپا امن بن جائیں۔ جتنی سلامتی بڑھتی جائے گی اور پیکرِ سلامتی بنتے جائیں گے، اتنا ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قرب نصیب ہوتا چلا جائے گا۔