گھریلو ملازمین پر تشدد ۔ ایک معاشرتی المیہ

محمد احمد طاہر

وہ شخص ہماری امت میں سے نہیں جو چھوٹے بچوں پر شفقت نہ کرے (حدیث)

پاکستانی معاشرے کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ معاشرہ کئی طبقات میں بٹ چکا ہے۔ Haves (امیر لوگ) اور Haves Not (غریب لوگ) کے درمیان ایک واضح لائن لگ چکی ہے۔ امراء اور متمول گھرانوں کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں جینے کا حق صرف ہمیں ہے۔ غرباء اور ناکس و محتاج لوگ جینے کا حق نہیں رکھتے۔ یہ امراء اپنے مال اور طاقت کے نشے میں اتنے دھت ہیں کہ اپنے گھروں میں رکھے ملازمین پر بے جا رعب جھاڑتے ہیں اور ناجائز سختی کرنا تو اپنا حق تصور کرتے ہیں۔ ان ظالموں پر شیطان اس قدر حاوی ہوچکا ہے کہ گھروں میں کام کرنے والے چھوٹے بچوں اور بچیوں پر بھی تشدد کرتے ہیں۔ آئے روز اخبارات کی شہ سرخیوں میں اور Tv چینلز کے ذریعے ایسے کئی واقعات نشر ہوتے ہیں۔

تشدد کے یہ دلخراش واقعات ہر پاکستانی کے سر کو شرم سے جھکا دیتے ہیں۔ غریب لوگ بے چارے اپنی معاشی مجبوری کی بناء پر اپنے چھوٹے بچوں کو ان امراء کے گھروں میں ملازم رکھواتے ہیں جبکہ یہ بدبخت اور بدطینت لوگ ان کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان بچوں کا استحصال کرتے ہیں۔

بچے انسانی معاشرے کا ایک اہم جزو ہیں۔ دیگر افرادِ معاشرہ کی طرح ان کا بھی ایک اخلاقی مقام اور معاشرتی درجہ ہے۔ بہت سے امور ایسے ہیں جن میں بچوںکو تحفظ درکار ہوتا ہے۔ ریاست، آئین اور قانون جس طرح ہر انسان کے بنیادی حقوق کی پاسداری کرتے ہیں، اسی طرح بچوں کو بھی ان کے حقوق کی ادائیگی و حفاظت کی ضمانت دیتے ہیں۔

اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے بچے کی زندگی کو قانونی حق عطا کیا ہے۔ بچے کی زندگی کا آغاز مرحلۂ ’’جنین‘‘ سے ہوتا ہے۔ اسلام نے اس مرحلے سے بچے کے لئے زندگی کے حق کو قانونی حیثیت عطا کی ہے۔ استقرارِ حمل کے چار ماہ بعد رحمِ مادر میں موجود بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ اس وقت حمل ضائع کرنا رحمِ مادر میں بچہ کو قتل کرنا ہے۔ یہ قتل، قتلِ انسانی کے مترادف ہے اور گناہ کبیرہ ہے۔ جو دین رحمِ مادر میں موجود بچے کے حقوق متعین کرتا ہے، وہ دین بچے کی پیدائش کے بعد تو بدرجہ اولیٰ اس کے حقوق کا ضامن ہوگا۔

دینِ اسلام بچوں کے حقوق کا محافظ

آیئے! بچوں کے حقوق کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کا مطالعہ کریں تاکہ ہم میں سے ہر شخص اسلام کے دامنِ امن و رحمت کی وسعت کو جان سکے اور گھریلو ملازمین پر ہونے والے تشدد کے اس خاص رویہ کا سدِّباب ممکن ہوسکے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں:

’’میرے پاس ایک عورت آئی جس کے ساتھ اس کی دو بچیاں تھیں، وہ مجھ سے کچھ مانگتی تھی۔ اس وقت میرے پاس ایک کھجور کے سوا کچھ نہ تھا۔ میں نے اس کو وہی دے دی۔ اس نے (ماں نے) کھجور دونوں بیٹیوں میں تقسیم کردی اور پھر اٹھ کر چلی گئی۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو میں نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ بُلَی مِنْ هٰذِهِ الْبنات شيئًا، فاحسن اليهن، کن له سترًا مِنَ النَّار.

’’جو کوئی بیٹیوں کے ذریعے آزمایا گیا اور اس نے ان سے اچھا سلوک کیا تو یہ اس کے لئے دوزخ سے حجاب بن جاتی ہیں‘‘۔

(صحيح البخاری، کتاب الادب، رقم: 5649)

  • دین اسلام تو ہر بڑے سے ادب اور چھوٹے سے شفقت سے پیش آنے کا حکم دیتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَم صَغِيْرَنَا وَيعرف حَقَّ کبيرنَا.

(حاکم، المستدرک، رقم: 209)

’’وہ شخص ہماری امت میں سے نہیں (یعنی اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے) جو ہماری امت میں چھوٹے بچوں پر رحمت و شفقت نہ کرے اور بڑے لوگوں کے حقِ ادب کو نہ پہچانے (یعنی ان کا ادب و احترام بجا نہ لائے)‘‘۔

اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی نے اپنی مایہ ناز تصنیف ’’اسلام میں محبت اور عدم تشدد‘‘ میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ

’’غور کریں کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لَيْسَ مِنَّا کے ذریعے کتنی سخت تنبیہ فرمائی ہے کہ چھوٹوں پر رحمت و شفقت اور بڑوں کی تعظیم و تکریم نہ کرنے والے شخص کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ درحقیقت آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس فرمان کے ذریعے امت کو نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاق کی ایسی تعلیم دی ہے جو تمام انسانی اقدار کی جامع ہے۔

کفار کے بچوں سے بھی سختی کی ممانعت

اسلام دینِ رحمت اور دین عفو و درگزر ہے۔ دین اسلام نے جہاں زندگی کے ہر گوشے کی مکمل ہدایات دی ہیں وہاں جنگ لڑنے کے اصول و ضوابط بھی بڑے واشگاف الفاظ میں عطا فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دورانِ جنگ جو اصول و ضوابط دیئے ہیں، ان میں بڑے واضح الفاظ میں بچوں کے قتل کی ممانعت کے احکامات آئے ہیں۔

حضرت امام مسلم اپنی الصحیح میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے ایک خط کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے تحریر فرمایا:

وان رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم لم يکن يقتل الصبيان فلا تقتل الصبيان.

(صحيح مسلم، کتاب الجهاد والسير، رقم: 1812)

’’بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (یعنی عہد نبوی کی مسلم فوج) دشمنوں کے بچوں کو قتل نہیں کرتے تھے۔ سو تم بھی بچوں کو قتل نہ کرنا‘‘۔

اس سلسلے میں دوسری روایت ملاحظہ فرمائیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بڑے سخت کلمات کے ذریعے صحابہ کرام کو غیر مسلموں کے بچے قتل کرنے سے منع فرمایا اور ان کلمات کو تاکیداً دہرایا۔ حضرت اسود بن سریع رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:

’’ہم ایک غزوہ میں شریک تھے (ہم لڑتے رہے یہاں تک) کہ ہمیں غلبہ حاصل ہوگیا اور ہم نے مشرکوں سے قتال کیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگوں نے بعض بچوں کو بھی قتل کر ڈالا۔ یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ جن کے قتل کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے بچوں تک کو قتل کر ڈالا؟ خبردار! بچوں کو ہرگز قتل نہ کرو، خبردار! بچوں کو ہرگز قتل نہ کرو‘‘۔

(نسائی، السنن الکبریٰ، کتاب السير، رقم:8616)

عرض کیا گیا: یارسول اللہ!(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا وہ مشرکوں کے بچے نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے بہترین لوگ بھی مشرکوں کے بچے نہیں تھے؟

مندرجہ بالا تصریحات سے یہ بات خوب واضح ہوجاتی ہے کہ دین اسلام بلا امتیاز رنگ و نسل اور دین و مذہب ہر بچے کی زندگی کی حفاظت پر زور دیتا ہے۔

کم عمر ملازمین پر تشدد کی ممانعت

بعض اوقات ہم یہ شکوہ کرتے ہیں کہ ہمارے ملازمین ہمارا نقصان کرتے ہیں یا یہ ملازمین سلیقہ مند نہیں ہیں یا وہ وفا شعار نہیں، اس صورت حال میں ہمیں انہیں آزاد کردینا چاہئے یا انہیں ملازمت سے برخاست کردینا چاہئے۔ تاہم یہ کسی صورت بھی جائز نہیں کہ انہیں ان کے معمولی جرائم کی پاداش میں غیر معمولی سزا دیں۔ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ابو علی سوید بن مقرن رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:

’’ایک لونڈی کے سوا ہمارا کوئی غلام نہ تھا۔ ہم میں سے سب سے چھوٹے نے اس کو ایک طمانچہ مار دیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اس لونڈی کو آزاد کردیں‘‘۔

یعنی محض ایک تھپڑ مارنے پر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناراضگی کا اظہار فرمایا اور اس سنگین جرم کے ارتکاب کی تلافی کی یہ صورت عطا فرمائی کہ اس لونڈی کو آزاد کردیا جائے جبکہ ہم نجانے کس کس طرح کے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے ہیں حالانکہ یہ ہمارے زرخرید غلام/نوکر بھی نہیں ہوتے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’جس نے اپنے غلام کو ایسے جرم کی سزا دی جس کا اس نے ارتکاب نہیں کیا یا اسے طمانچہ مارا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ اسے آزاد کردے‘‘۔

ملازمین کو مارنے کی سزا دوزخ کا عذاب

ہمارا معاشرہ اس قدر بگاڑ کا شکار ہوچکا ہے کہ ہر بڑا اور وڈیرہ معمولی معمولی کوتاہیوں پر اپنے گھریلو ملازمین پر بہت زیادہ تشدد کرتے ہیں۔ ان ظالموں نے اپنی نجی جیلیں اور قید خانے قائم کررکھے ہیں جہاں پر ان معصوم، غریب اور بے کس لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ ان ظالموں اور جابروں کو خبر نہیں کہ وہ ایسا کرکے اپنے اوپر دوزخ کی آگ واجب کررہے ہیں۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ ایک ایسی طاقت بھی ہے جو ہم پر سب سے بڑھ کر اختیار و طاقت رکھتی ہے اور اس سے ہمارا کوئی بھی عمل مخفی نہیں ہے۔

حضرت ابو مسعود البدری رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں اپنے غلام کو کوڑے سے مار رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے دیکھ لیا اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:

اعلم ابا مسعود! ان الله اقدر عليک منک علی هذا الغلام.

’’اے ابو مسعود! تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جتنی قدرت تمہیں اس غلام پر حاصل ہے، اس سے زیادہ تمہارے اوپر اللہ تعالیٰ قدرت والا ہے‘‘۔

حضرت ابا مسعود کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہیبت سے کوڑا میرے ہاتھ سے گر پڑا۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ غلام خدا کے لئے آزاد ہے۔ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’اگر تم ایسا نہ کرتے تو تمہیں آگ جلاتی یا فرمایا: تمہیں آگ چھولیتی‘‘۔

ایک اور مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

ان الله يعذب الذين يعذبون الناس في الدنيا.

’’اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتے ہیں‘‘۔ (صحیح مسلم)

مندرجہ بالا احادیث سے واضح ہوا کہ اپنے ماتحتوں پر ناجائز یا حد سے زیادہ تشدد اور ظلم دوزخ کے عذاب کا باعث بنتا ہے۔ اگر ان سے کوئی معمولی جرم سرزد ہو یا معمولی کوتاہی ہو تو اس سلسلے میں قرآن حکیم ہماری رہنمائی کرتے ہوئے مومن کی پہچان بتاتا ہے کہ

وَالْکَاظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ.

(آل عمران: 134)

’’اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں‘‘۔

اسی قرآنی حکم کے تحت انہیں معاف کردیں یا انہیں نوکری سے برخاست کردیں یا قانون کے حوالے کردیں مگر از خود ہمیں منصف بن کر سزا دینے کا کوئی اختیار نہیں۔