ملک کو درپیش سنگین مسائل اور حکومتی ایوانوں کا رویہ

نوراللہ صدیقی

دہشت گردی کے ناسور نے سیاست، معیشت، مذہب قومی سلامتی سمیت زندگی کے ہر شعبہ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔جہاں تک سیاست کے متاثر ہونے کا سوال ہے تو یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ دہشت گردی کی کھل کر مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے لیے مناسب حفاظتی اقدامات کے بغیر آزادانہ نقل و حمل اور معمولات زندگی کی انجام دہی ممکن نہیں رہی جس کی وجہ سے سیاسی و جمہوری عمل پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ 2008 ء اور 2013 ء کے عام انتخابات میں بعض جماعتیں اور ان کی قیادت دہشت گرد حملوں کے خوف سے انتخابی مہم تک نہ چلا سکیں جس کا فائدہ مخصوص سوچ کے حامل امیدواروں اور جماعتوں نے اٹھایا۔ ایسے ماحول میں ہونے والے انتخابات کو ہرگز ہرگز غیر جانبدارانہ اور فیئر اینڈ فری قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسی طرح دہشتگردی کے واقعات کے باعث ملکی معیشت کا بھٹہ بھی تقریباً بیٹھ چکا ہے۔

معیشت کی زبوں حالی

ہر سال 5 ارب ڈالر کے لگ بھگ قومی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اس وقت ملک قرضوں کے سہارے چل رہا ہے۔ حکومت معیشت کے استحکام کے لیے جعلی سروے شائع کروا رہی ہے جس کا بھانڈا سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن کی رپورٹ میں پھوٹ چکا ہے کہ سٹاک مارکیٹ کی تیزی مصنوعی اور چند جواریوں کی منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے۔ دہشتگردی کے واقعات کے باعث غیر ملکی سرمایہ کار اور سرمایہ کاری برائے نام رہ گئی ہے۔

دہشتگردی اور حکمرانوں کی سنجیدگی

خوف اور دہشت کا یہ عالم ہے کہ فوج، رینجرز، ملکی ایجنسیوں اور پولیس نے تمام توانائیاں صرف کر کے پی ایس ایل کا ایک میچ منعقد کروایا اور اس پر حکومتی صفوں میں جشن کا سماں ہے۔،یہ جشن اندرونی خوف اور کمزوری کو نمایاں کرنے کے لیے کافی ہے۔ دہشتگردوں نے ہم سے کیا چھینا؟ یہ جاننے کیلئے و زارت داخلہ کی طرف سے سینیٹ میں پیش کی جانے والی رپورٹ کا مطالعہ ضروری ہے:

رپورٹ میں حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ دہشت گردی کا جن 60 ہزار انسانی جانیں نگل چکا ہے جبکہ میڈیا کے آزاد ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ تعداد 1 لاکھ سے زائد ہے۔ سوال وہی ہے کہ ملک حالت جنگ میں ہے، کیا اس بحران کی نزاکت اور سنگینی کو حکمران بھی محسوس کررہے ہیں؟ حکمرانوں کی سنجیدگی کا اندازہ ان کے بیانات سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے ہوتا ہے گا مگر افسوس اس ضمن میں حکومتی دعوؤں کے برعکس زمینی حقائق انتہائی تلخ ہیں۔ اِن حالات اور حقائق کی روشنی میں قائد عوامی تحریک ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے اس Narrative سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی کہ موجودہ حکمرانوں اور کالعدم تنظیمات اور گروپس میں ایک مفاہمت ہے اور اس مفاہمت کا فائدہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ دہشتگرد گروپوں کو بھی پہنچ رہا ہے۔

قائد عوامی تحریک کا استدلال ہے کہ پنجاب میں درجنوں ایسے قومی و صوبائی حلقے ہیں جہاں مذہب کے لبادے میں انتہا پسندی کو تحفظ اور راستہ دینے والے ووٹرز کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ یہ ووٹرز دہشتگردوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے امیدواروں کی جیت میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں اور پھر برسراقتدار آنے کے بعد یہ حکمران ان کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن اور انتہائی اقدام سے گریزاں رہتے ہیں۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس کی چشم کشا رپورٹ

پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی جاری ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 107 مذہبی تنظیموں کے ہیڈ کوارٹر ہیں۔ صرف صوبائی دارالحکومت لاہور میں 71 ہیڈ کوارٹر ہیں۔PIPS کی اسی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پنجاب میں پنجابی طالبان کے 23 گروپ مصروفِ عمل ہیں۔

دہشتگردی کی جنگ اور فیصلوں میں عدم تسلسل

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پنجاب میں آپریشن نہیں ہونے دیا گیا۔ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف جنہوں نے شہرہ آفاق قومی ایکشن پلان اور آپریشن ضرب عضب کی داغ بیل ڈالی اور دہشتگردوں کی کمر ٹیڑھی کرنے میں کافی حد تک کامیاب بھی رہے مگر ان کے رخصت ہوتے ہی دہشتگردوں کو کمر سیدھی کرنے کا موقع مل گیا۔ اب ان کی کمر پر کاری وار کرنے کے لیے آپریشن ردالفساد لانچ کر دیا گیا ہے، جو جاری ہے۔ بہرحال جنرل راحیل شریف کے دور میں ہر دن یہی سنتے رہے کہ پنجاب میں رینجرز آپریشن کی منظوری کیلئے سمری وزیراعلیٰ پنجاب کی میز پر پڑی ہے اور منظوری کے بعد کسی لمحے پنجاب میں آپریشن کا آغاز ہو جائے گا مگر ایسا نہ ہو سکا۔

قائد تحریک ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا یہ کہنا زمینی حقائق کے عین مطابق ہے کہ جب تک ام الفساد پنجاب میں آپریشن نہیں ہوگا، اس وقت تک آپریشن ضرب عضب ہو یا آپریشن ردالفساد مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہونگے۔ اس ضمن میں کچھ عوامل اور اقدامات ایسے ہیں جو فوری عملدرآمد کے منتظر تھے مگر عمل نہ ہوسکا۔ مثلاً:

  1. ملک حالت جنگ میں ہے ،دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے فوجی عدالتیں ناگزیر ہیں۔ انہیں فوری توسیع دینے کے بجائے متنازع بنا دیا گیا۔
  2. قومی ایکشن پلان پر عمل ہونا چاہیے تھا جو نہیں ہوا۔ اس حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کمیشن کی رپورٹ موجود ہے۔ اس میں ایکشن پلان کو ناکام بنانے والوں کے نام اور پتے درج ہیں مگر آج کے دن تک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کمیشن کی رپورٹ پر عمل نہیں ہوا۔
  3. نیوز لیکس کے ذریعے قومی سلامتی کے ادارے اور قومی سلامتی پر براہ راست حملہ کیا گیا، یہ حملہ وزیراعظم ہاؤس کے اندر سے ہوا، اس کے ذ مہ دار کون لوگ ہیں؟ تاحال اس انکوائری کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی۔ 9 مارچ 2017ء کو کور کمانڈر کانفرنس میں نیوز لیکس کا معاملہ زیر بحث آیا لیکن تاحال رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی۔ کیا رپورٹ آنے میں اتنی تاخیر ہونی چاہیے تھی؟ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے واضح کر دیا ہے کہ نیوز لیکس کی رپورٹ پر عملدرآمد وزیراعظم کی صوابدید پر ہے۔
  4. اسی طرح کلبھوشن کے خلاف عالمی سطح پر کارروائی کے لیے منظم سفارتی مہم کی ضرورت تھی جو نظر نہیں آئی۔
  5. سربراہ عوامی تحریک ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے حکمران خاندان کی شوگر ملوں میں خصوصی اجازت ناموں پر بھارتی انجینئرز اور ٹیکنیکل عملہ کی نشاندہی کی اور ثبوت بھی دئیے مگر اس پر بھی کارروائی اور حکومت کی وضاحت سامنے نہیں آئی۔

جب تک قومی سلامتی کے اس طرح کے انتہائی سنجیدہ و توجہ طلب امور تماشا بنے رہیں گے، دشمن اپنا کھیل کھیلتا رہے گا۔

حساس اضلاع کی جیومیپنگ اور قومی سلامتی

ایک اہم سوال قومی سلامتی کے محافظ جملہ اداروں اور پارلیمنٹ سے ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا جیو میپنگ غربت سروے کا ٹھیکہ غیر ملکی کمپنیوں کو دیا گیا ہے، یہ کمپنیاں سی پیک سے ملحقہ اضلاع کے گھر گھر کا سروے کررہی ہیں ، یعنی ہر گھر کا کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ اور ڈیٹا غیر ملکی کمپنیوں کے حوالے ہورہا ہے اور ابتدائی طور پر اس پائلٹ پراجیکٹ کا آغاز ان 16 اضلاع سے کیا جارہا ہے جو سی پیک راہداری منصوبے سے ملحقہ ہیں۔ اس جیو میپنگ سروے کے لیے سیٹلائٹ اور کمپیوٹرائزڈ ٹیبلٹ کا سہارا لیا جارہا ہے۔ سروے کے لیے غیر ملکی ڈونرز ادارے فنڈنگ اور معاونت کررہے ہیں اور اس سروے کے تحت ملک کے ہر گھر کی سیٹلائٹ میپنگ ہورہی ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ بی آئی ایس پی غیر ملکی کنسلٹنٹ، مشاورتی فرمز اور این جی اوز کی خدمات حاصل کررہی ہے۔ اس سروے میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے گھر بھی شامل ہیں۔

محب وطن دانشوروں اور آنکھیں کھلی رکھنے والے صحافیوں کالم نویسوں کو ڈر ہے یہ ڈیٹا دشمن ملکوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے اور سیٹلائٹ نقشوں کے حامل اس ڈیٹا کو ڈرون حملوں کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال قومی سلامتی کے اداروں کو قومی سلامتی کے حامل فیصلوں پر نگاہ رکھنی چاہیے۔ محب وطن عوام میں حکومتی رویے اور فیصلوں پر تشویش ہے۔یہاں قائد تحریک ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا کہا ہوا جملہ نقل کرنا بے محل نہ ہو گا کہ ’’موجودہ حکمرانوں کے ہوتے ہوئے اس ملک کی سلامتی کو انصاف نہیں مل رہا کسی اور کو کیا ملے گا؟‘‘

دہشتگردی سے نجات کیسے ممکن ہے؟

دہشت گردی سے نجات کے لئے درج ذیل اقدامات ناگزیر ہیں۔ شیخ الاسلام وقتاً فوقتاً عوام اور مقتدر اداروں کی توجہ اِن اقدامات کی طرف دلواتے رہتے ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہوئے بغیر دہشت گردی سے نجات ممکن نہیں:

  1. قومی ایکشن پلان کی متفقہ قومی دستاویز کی ہر شق پر عمل کیا جائے۔
  2. قومی ایکشن پلان کے خلاف مجرمانہ کردار ادا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
  3. دہشت گردی کی تعریف کے حوالے سے پارلیمنٹ قرارداد منظور کرے۔تعریف کے تعین کے ضمن میں مکہ ڈیکلریشن سے استفادہ کیا جائے جس پر 56 اسلامی ممالک نے دستخط کیے۔اس ضمن میں سربراہ عوامی تحریک کی طرف سے انسداد دہشتگردی اور فتنہ خوارج کے نام سے ایک مبسوط فتویٰ بھی جاری کیا گیا ہے اس سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
  4. کالعدم تنظیموں اور دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے سیاسی ہاتھ توڑے جائیں۔
  5. فوجی عدالتوں کو توسیع اور پنجاب میں ایسا فوجی آپریشن کیا جائے جس کا ریموٹ کنٹرول سول حکومت کے ہاتھ میں نہ ہو۔
  6. سانحہ ماڈل ٹاؤن، سانحہ بلدیہ جیسے کیسز پر جلد اور فوری فیصلے کیے جائیں اور ذمہ داروں کو لٹکایا جائے۔
  7. عدالتی، ادارہ جاتی اصلاحات سمیت انتخابی اصلاحات، گڈگورننس، کرپشن کے خاتمے، قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور آئین کے آرٹیکل 62اور 63 کے مطابق امیدواروں کی سکروٹنی یقینی بنائی جائے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس تازہ ترین صورت حال

10 مارچ 2017ء کو آئی جی پنجاب لاہور ہائیکورٹ سے اے ٹی سی کی طرف سے طلب کیے جانے کے آرڈر پر معطلی کے احکامات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس سے قبل شریف برادران کو اے ٹی سی کی طرف سے طلب نہ کیے جانے کے حوالے سے قانونی ریلیف ملا۔ اس کے فوری بعد گلو بٹ کو باعزت رہائی کی صورت میں ریلیف ملا اور اب آئی جی پنجاب کو اے ٹی سی میں حاضری سے استثنیٰ کے حوالے سے عبوری ریلیف ملا ہے۔آئی جی کو ملنے والے عبوری ریلیف کی قابل ذکر بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں پراسیکیوشن ملزم کے بجائے مظلوم کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے مگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں پراسیکیوشن ملزم آئی جی کے ساتھ کھڑی ہوئی اور اس نے آئی جی کی اپیل کو چیلنج نہیں کیا جو انصاف کے خون کے مترادف ہے۔

سربراہ عوامی تحریک ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا یہ صائب سوال ہے کہ 14 شہداء اور 100 زخمیوں کے ورثاء کو ریلیف بشکل قصاص کب ملے گا ؟آئی جی کو ریلیف ملنے کے حوالے سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس کے مدعی اور شہداء کے ورثاء کو کسی قسم کا کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا ۔ ریلیف دینے کے بعد نوٹس دیا گیا حالانکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کوئی روٹین کا کیس نہیں ہے بلکہ یہ 14 بے گناہ انسانی جانوں کی شہادت کا کیس ہے۔ اس پر متاثرہ فریق یعنی شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء اور مدعی کو سنا جانا چاہیے تھا۔ہمارے عدالتی نظام کا یہ ایک تکلیف دہ پہلو ہے کہ یہاں پر ملزم کے قانونی حقوق ہیں اور وہ انہیں ملتے بھی ہیں مگر متاثرہ فریق انصاف کے حصول کیلئے نسل در نسل دربدر رہتا ہے جیسا کہ 28 ماہ گزر جانے کے بعد بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کو تاحال انصاف نہیں ملا۔

عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن گزشتہ 2 سال سے مطالبہ کررہی ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے واقعہ کو سمجھنے کیلئے جسٹس باقر علی نجفی کمیشن کی رپورٹ کا منظر عام پر آنا ضروری ہے اگر ہماری عدلیہ کے معزز ججز جسٹس باقر علی نجفی کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لائے جانے کا حکم دے دیں تو اس کیس کو سمجھنے اور حل کرنے میں بھرپور مدد مل سکتی ہے۔

اس ضمن میں ذمہ داران سے ہماری اپیل ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے کیس کو روٹین کے کیس طور پر نہ دیکھا جائے۔ یہ ملکی تاریخ کا انتہائی اہم اور ریاستی دہشت گردی کا ایک بدترین واقعہ ہے۔ اس میں ٹرائل اور دیگر امور میں انتہائی باریک بینی کے ساتھ قانونی تقاضوں کو پورا ہونا چاہیے اور متاثرہ فریق کی تسلی ہونی چاہیے۔ تاحال ایف آئی آر کے اندراج سے لے تفتیش اور ٹرائل تک شہداء کے ورثاء کو لاتعداد سوالات اور بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔

سربراہ عوامی تحریک ڈاکٹر طاہر القادری نے آئی جی کو ریلیف دئیے جانے پر ایک انتہائی اہم سوال کیا ہے کہ 17 جون 2014 ء کے دن آئی جی پنجاب اپنے دفترمیں موجود تھے جبکہ ماڈل ٹاؤن میں ان کی فورس خون کی ہولی کھیل رہی تھی۔ 100 لوگوں کو گولیاں مارنے کے فیصلے سے اگر آئی جی لاعلم تھے تو کیا یہ فیصلہ کانسٹیبلوں اور حوالداروں نے کیا؟

یہ سوال بھی توجہ طلب ہے کہ سانحہ سے ایک گھنٹہ قبل آئی جی اپنے دفتر میں تھے انہوں نے پولیس کو فوری ہٹنے کا حکم کیوں نہ دیا؟ اور اس سارے سانحہ سے لاتعلق کیوں رہے؟ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کو اس بات کا مکمل یقین ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن منصوبہ بندی کے ساتھ وقوع پذیر ہوا اور اس کی پلاننگ شریف برادران نے کی جبکہ عملدرآمد میں آئی جی سمیت وفاقی وزراء اور پولیس افسران شامل تھے ۔انسداد دہشتگردی کی عدالت نے پولیس افسران کی حد تک تو طلبی کے نوٹس کر دئیے، تاہم شریف برادران اور وزراء کی طلبی کیلئے عوامی تحریک کے وکلاء اپیل میں جائینگے۔ وکلاء کی طرف اپیل تیار کر لی گئی ہے، درج بالا تحریر کی اشاعت تک ہائیکورٹ سے رجوع کیا جا چکا ہوگا۔ بہرحال یہ14 بے گناہ انسانی جانوں کا خون ہے جو کسی صورت رائیگاں نہیں جائیگااور انصاف ہو کر رہے گا۔