الفقہ: روزہ کی فرضیت و فضیلت

مفتی عبدالقیوم خاں ہزاروی

قرآنِ حکیم میں روزہ کی فرضیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

ٰياَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo

’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ‘‘

(البقرة، 2: 183)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِ يْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَ لَه مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِه.

(بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، 1: 22، رقم: 38)

’’جس نے بحا لتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ اَمْثَالِها اِلَی سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ اِلَی مَا شَاءَاللّٰهُ، يَقُوْلُ اللّٰهُ تَعَالَی: اِلَّا الصَّوْمُ فَاِنَّهُ لِی، وَاَنَا اَجْزِی بهِ.

( ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، 2: 305، رقم: 1638)

’’آدم کے بیٹے کا نیک عمل دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک آگے جتنا اللہ چاہے بڑھایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: روزہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔‘‘

مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ اعمال صالحہ کا ثواب صدقِ نیت اور اخلاص کی وجہ سے دس گنا سے بڑھ کر سات سو گنا تک بلکہ بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے لیکن روزہ کا ثواب بے حد و حساب ہے۔ یہ کسی ناپ تول اور حساب کتاب کا محتاج نہیں، اس کی مقدار اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

روزے کی فضیلت کے اسباب:

روزے کی اس قدر فضیلت کے درج ذیل اسباب ہیں:

  • پہلا سبب:روزہ لوگوں سے پوشیدہ ہوتا ہے اسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا جبکہ دوسری عبادتوں کا یہ حال نہیں ہے کیونکہ ان کا حال لوگوں کو معلوم ہو سکتا ہے۔ اس لحاظ سے روزہ خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہے۔
  • دوسرا سبب:روزے میں نفس کشی، مشقت اور جسم کو صبر و برداشت کی بھٹی سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس میں بھوک، پیاس اور دیگر خواہشاتِ نفسانی پر صبر کرنا پڑتا ہے جبکہ دوسری عبادتوں میں اس قدر مشقت اور نفس کشی نہیں ہے۔
  • تیسرا سبب: روزہ میں ریاکاری کا عمل دخل نہیں ہوتا جبکہ دوسری ظاہری عبادات مثلاً نماز، حج، زکوٰۃ وغیرہ میں ریاکاری کا شائبہ ہو سکتا ہے۔
  • چوتھا سبب:کھانے پینے سے استغناء اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے۔ روزہ دار اگرچہ اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے متشابہ تو نہیں ہو سکتا لیکن وہ ایک لحاظ سے اپنے اندر یہ خلق پیدا کر کے مقرب الٰہی بن جاتا ہے۔
  • پانچواں سبب:روزہ کے ثواب کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں جبکہ باقی عبادات کے ثواب کو رب تعالیٰ نے مخلوق پر ظاہر کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف منسوب کیا کہ اس کی جزاء میں ہوں۔
  • چھٹاسبب:روزہ کی اضافت اللہ کی طرف شرف اور عظمت کے لئے ہے جیسا کہ بیت اللہ کی اضافت محض تعظیم و شرف کے باعث ہے ورنہ سارے گھر اللہ کے ہیں۔
  • ساتواں سبب: روزہ دار اپنے اندر ملائکہ کی صفات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اس لئے وہ اللہ کو محبوب ہے۔

رمضان المبارک کے ماہ سعید میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولاتِ عبادت و ریاضت اور مجاہدہ میں عام دنوں کی نسبت بہت اضافہ ہو جاتا تھا۔ اس مہینے اللہ تعالیٰ کی خشیت اور محبت اپنے عروج پر ہوتی ہے اور اسی شوق اور محبت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راتوں کا قیام بھی بڑھا دیتے۔ رمضان المبارک میں درج ذیل معمولات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا حصہ ہوتے تھے۔

1۔ کثرتِ عبادت و ریاضت

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے :

کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی الله عليه وآله وسلم اذَا دَخَلَ رَمَضَانَ تَغيّر لَوْنُهُ وَ کَثُرَتْ صَلَا تُهُ، وابْتَهَلَ فِی الدُّعَائِ، وَاَشْفَقَ مِنْهُ.

(بيهقی، شعب الايمان، 3: 310، رقم: 3625)

’’جب ماہ رمضان شروع ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ مبارک متغیر ہو جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمازوں میں اضافہ ہوجاتا، اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کرتے اور اس کا خوف طاری رکھتے۔‘‘

2۔ قیام اللیل

رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راتیں تواتر و کثرت کے ساتھ نماز میں کھڑے رہنے، تسبیح و تہلیل اور ذکر الٰہی میں محویت سے عبارت ہیں۔ نماز کی اجتماعی صورت جو ہمیں تراویح میں دکھائی دیتی ہے اسی معمول کا حصہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک میں قیام کرنے کی فضیلت کے بارے میں فرمایا :

’’جس نے ایمان و احتساب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور راتوں کو قیام کیا وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جس دن وہ بطن مادر سے پیدا ہوتے وقت (گناہوں سے) پاک تھا۔‘‘

(نسائی، السنن، کتاب الصيام، باب ذکر اختلاف يحيي بن ابي کثير والنضر بن شيبان فيه، 4: 158، رقم: 2208-2210)

3۔ کثرت صدقات و خيرات

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ صدقات و خیرات کثرت کے ساتھ کیا کرتے۔ سخاوت کا یہ عالم تھا کہ کبھی کوئی سوالی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در سے خالی واپس نہ جاتا رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سخاوت اور صدقات و خیرات میں کثرت سال کے باقی گیارہ مہینوں کی نسبت اور زیادہ بڑھ جاتی۔ اس ماہ صدقہ و خیرات میں اتنی کثرت ہو جاتی کہ ہوا کے تیز جھونکے بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکتے۔ حضرت عبد اللہ بن عباسk سے مروی ہے :

فَاِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ کَانَ (رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی الله عليه وآله وسلم) اَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيْحِ الْمُرْسَلَةِ.

(بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، 2: 672، رقم: 1803)

’’جب حضرت جبریل امین آجاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھلائی کرنے میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔‘‘

حضرت جبریل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغامِ محبت لے کر آتے تھے۔ رمضان المبارک میں چونکہ وہ عام دنوں کی نسبت کثرت سے آتے تھے اس لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے آنے کی خوشی میں صدقہ و خیرات بھی کثرت سے کرتے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث پاک سے کئی فوائد اخذ ہوتے ہیں مثلاً

  • آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جود و سخا کا بیان
  • رمضان المبارک میں کثرت سے صدقہ و خیرات کے پسندیدہ عمل ہونے کا بیان
  • نیک بندوں کی ملاقات پر جود و سخا اور خیرات کی زیادتی کا بیان

( نووی، شرح صحيح مسلم، 15: 69)

4۔ اعتکاف

رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعتکاف کرنے کا معمول تھا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے :

اَنَّ النَّبِيَ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الاَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّی تَوَفَّاهُ اللّٰهُ، ثُمَّ اعْتَکَفَ اَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ.

(بخاری، الصحيح، کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف فی العشر الا واخر والاعتکاف فی المساجد کلها، 2: 713، رقم: 1922)

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری دس دن اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا ہے۔‘‘

روزہ نہ صرف روح کی غذا ہے بلکہ اس کے پس پردہ بے شمار دینی و دنیاوی حکمتیں اور ایسے رموز کار فرما ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ روزہ دار کو عطا کرتا ہے۔ اس لحاظ سے روزہ کی درج ذیل حکمتیں ہیں:

5۔ تقویٰ

روزے کا مقصد انسانی سیرت کے اندر تقویٰ کا جوہر پیدا کر کے اس کے قلب و باطن کو روحانیت و نورانیت سے جلاء دینا ہے۔ روزے سے حاصل کردہ تقویٰ کو اگر بطریق احسن بروئے کار لایا جائے تو انسان کی باطنی کائنات میں ایسا ہمہ گیر انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے جس سے اس کی زندگی کے شب و روز یکسر بدل کر رہ جائیں۔

تقویٰ بادی النظر میں انسان کو حرام چیزوں سے اجتناب کی تعلیم دیتا ہے، لیکن اگر بنظرِ غائر قرآن و سنت کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ روزے کی بدولت حاصل شدہ تقویٰ حرام چیزوں سے تو درکنار ان حلال و طیب چیزوں کے قریب بھی بحالتِ روزہ پھٹکنے نہیں دیتا‘ جن سے مستفید ہونا عام زندگی میں بالکل جائز ہے۔ ہر سال ایک ماہ کے اس ضبط نفس کی لازمی تربیتی مشق (Refresher Course) کا اہتمام، اس مقصد کے حصول کے لئے ہے کہ انسان کے قلب و باطن میں سال کے باقی گیارہ مہینوں میں حرام و حلال کا فرق و امتیاز روا رکھنے کا جذبہ اس درجہ فروغ پا جائے کہ اس کی باقی زندگی ان ہی خطوط پر استوار ہو جائے۔ وہ ہر معاملے میں حکمِ خداوندی کے آگے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے حرام چیزوں کے شائبہ سے بھی بچ جائے۔

6۔ تربیتِ صبر و شکر

صبر کا تقاضا ہے کہ انسان کسی نعمت سے محرومی پر اپنی زبان کو شکوہ اور آہ و بکا سے آلودہ کئے بغیر خاموشی سے برداشت کرے۔ روزہ انسان کو تقویٰ کے اس مقامِ صبر سے بھی بلند تر مقامِ شکر پر فائز دیکھنے کا متمنی ہے۔ وہ اس کے اندر یہ جوہر پیدا کرنا چاہتا ہے کہ نعمت کے چھن جانے پر اور ہر قسم کی مصیبت، ابتلا اور آزمائش کا سامنا کرتے وقت اس کی طبیعت میں ملال اور پیشانی پر شکن کے آثار پیدا نہ ہونے پائیں‘ بلکہ وہ ہر تنگی و ترشی کا بہرحال خندہ پیشانی سے مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا رہے۔

7۔ جذبہ ایثار

بحالتِ روزہ انسان بھوک اور پیاس کے کرب سے گزرتا ہے تو لامحالہ اس کے دل میں ایثار‘ اور قربانی کا جذبہ تقویت پکڑتا ہے اور وہ عملاً اس کیفیت سے گزر کر جس کا سامنا انسانی معاشرہ کے مفلوک الحال اور نانِ شبینہ سے محروم لوگ کرتے ہیں، کرب و تکلیف کے احساس سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ فی الحقیقت روزے کے ذریعے اللہ رب العزت اپنے آسودہ حال بندوں کو ان شکستہ اور بے سر و سامان لوگوں کی زبوں حالی سے کماحقہ آگاہ کرنا چاہتے ہیں، جو اپنے تن و جان کا رشتہ بمشکل برقرار رکھے ہوئے ہیں، تاکہ ان کے دل میں دکھی اور مضطرب انسانیت کی خدمت کا جذبہ فروغ پائے اور ایک ایسا اسلامی معاشرہ وجود میں آ سکے، جس کی اساس باہمی محبت و مروت‘ انسان دوستی اور دردمندی و غمخواری کی لافانی قدروں پر ہو۔ اس احساس کا بیدار ہو جانا روزے کی روح کا لازمی تقاضا ہے اور اس کا فقدان اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ روزے میں روح نام کی کوئی چیز باقی نہیں بقول علامہ اقبال :

روح چوں رفت از صلوٰۃ و از صیام
فرد ناہموار، ملت بے امام

’’جب نماز و روزہ سے روح نکل جاتی ہے تو فرد نالائق و ناشائستہ اور قوم بے امام ہو جاتی ہے۔‘‘

8۔ تزکیہ نفس

روزہ انسان کے نفس اور قلب و باطن کو ہر قسم کی آلودگی اور کثافت سے پاک و صاف کر دیتا ہے۔ انسانی جسم مادے سے مرکب ہے، جسے اپنی بقا کے لئے غذا اور دیگر مادی لوازمات فراہم کرنا پڑتے ہیں، جبکہ روح ایک لطیف چیز ہے، جس کی بالیدگی اور نشوونما مادی ضروریات اور دنیاوی لذات ترک کر دینے میں مضمر ہے۔ جسم اور روح کے تقاضے ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ روزہ جسم کو کھانے پینے اور بعض دیگر اْمور سے دور رکھ کر مادی قوتوں کو لگام دیتا ہے‘ جس سے روح لطیف تر اور قوی تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ جوں جوں روزے کی بدولت بندہ خواہشاتِ نفسانی کے چنگل سے رستگاری حاصل کرتا ہے، اس کی روح غالب و توانا اور جسم مغلوب و نحیف ہو جاتا ہے۔ روح اور جسم کا تعلق پرندے اور قفس کا سا ہے، جیسے ہی قفسِ جسم کا کوئی گوشہ وا ہوتا ہے، روح کا پرندہ مائل بہ پرواز ہو کر، موقع پاتے ہی جسم کی بندشوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔

مسلسل روزے کے عمل اور مجاہدے سے تزکیہ نفس کا عمل تیز تر ہونے لگتا ہے، جس کی وجہ سے روح کثافتوں سے پاک ہو کر پہلے سے کہیں لطیف تر اور قوی تر ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض کاملین و عرفاء کی روحانی طاقت کائنات کی بے کرانیوں اور پہنائیوں پر حاوی ہو جاتی ہے۔

9۔ رضائے خداوندی کا حصول

روزے کا منتہاے مقصود یہی ہے کہ وہ بندے کو تمام روحانی مدارج طے کرانے کے بعد مقام رضا پر فائز دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ مقام رضا کیا ہے جو روزے کے توسط سے انسان کو نصیب ہو جاتا ہے؟ اس پر غور کریں تو اس کی اہمیت کا احساس اجاگر ہوتا ہے۔ رب کا اپنے بندے سے راضی ہو جانا اتنی بڑی نعمت ہے کہ اس کے مقابلے میں باقی سب نعمتیں ہیچ دکھائی دیتی ہیں۔ روزہ وہ منفرد عمل ہے جس کے اجر و جزا کا معاملہ رب اور بندے کے درمیان چھوڑ دیا گیا کہ اس کی رضا حد و حساب کے تعین سے ماوراء ہے۔