الفقہ: آپ کے فقہی مسائل

مفتی عبدالقیوم خاں ہزاروی

عدالتی نکاح کی شرعی حیثیت، عظ و تبلیغ کا معاوضہ لینا

سوال: عدالتی نکاح (Court Marriage) کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ یہ ایک زمینی حقیقت ہے کہ عدالتی شادیوں نے سماج میں نکاح اور خاندان کی حیثیت کو کم کیا ہے، عدالت سے بیاہ کر لائی جانے والے عورت سماج میں وہ عزت حاصل نہیں کر پاتی جو اسے ملنی چاہیے۔ مسلمان سماج عدالتی نکاح کو نکاح ماننے سے ہی انکاری ہے۔ کیا ان وجوہات کی بنا پر عدالتی نکاح پر پابندی لگنی چاہیے؟

جواب: بالغ لڑکا، لڑکی اپنی پسند اور مرضی سے دستور کے مطابق نکاح کر سکتے ہیں۔ یہ حق ان کو قرآن وحدیث اور تقریباً ہر ملکی قانون نے دیا ہے مگرہمارے سماج نے نہ دیا یہی وجہ کورٹ میرج میں اضافے کا سبب بھی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ.

اپنی پسند کی عورتوں سے نکاح کرو۔

النساء، 4: 3

یہ پسند دو طرفہ ہو گی، لڑکے کی طرف سے بھی اور لڑکی کی طرف سے بھی، کسی پر اس کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ ٹھونسا نہیں جا سکتا۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ایک اور مقام پر شادی کا مقصد بیان فرمایا:

وَمِنْ اٰيٰـتِهِٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَکُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَکَّرُوْنَo

اور یہ (بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی، بے شک اس (نظامِ تخلیق) میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔

الروم، 30: 21

اس ضمن میں چند احادیث درج ذیل ہیں:

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنهما قَالَ، قَالَ: رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا خَطَبَ أَحَدُکُمْ الْمَرْأَةَ فَإِنْ اسْتَطَاعَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَی مَا يَدْعُوهُ إِلَی نِکَاحِهَا فَلْيَفْعَلْ. قَالَ فَخَطَبْتُ جَارِيَةً فَکُنْتُ أَتَخَبَّأُ لَهَا حَتَّی رَأَيْتُ مِنْهَا مَا دَعَانِي إِلَی نِکَاحِهَا فَتَزَوَّجْتُهَا.

حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو پیغام نکاح دے اگر اس کی ان خوبیوں کو دیکھ سکتا ہو جو اسے نکاح پر مائل کریں، تو ضرور ایسا کرے۔ حضرت جابر کا بیان ہے کہ میں نے ایک لڑکی کو پیغام دیا اور چھپ کر اسے دیکھ لیا یہاں تک کہ میں نے اس کی وہ خوبی بھی دیکھی جس نے مجھے نکاح کی جانب راغب کیا لہٰذا میں نے اس کے ساتھ نکاح کر لیا۔

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 3: 334، رقم: 14626، مصر: مؤسسة قرطبة
  2. أبو داؤد، السنن، 2: 228، رقم: 2082، بيروت: دار الفکر
  3. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 2: 179، رقم: 2696، بيروت: دار الکتب العلمية

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ أَرَادَ أَنْ يَتَزَوَّجَ امْرَأَةً فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا فَإِنَّهُ أَحْرَی أَنْ يُؤْدَمَ بَيْنَکُمَا فَفَعَلَ فَتَزَوَّجَهَا فَذَکَرَ مِنْ مُوَافَقَتِهَا.

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ایک عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جائو اسے دیکھ لو کیونکہ اس سے شاید اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر اس سے نکاح کر لیا، بعد میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس نے اپنی بیوی کی موافقت اور عمدہ تعلق کا ذکر کیا۔

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 246، رقم: 18179
  2. نسائی، السنن الکبری، 3: 272، رقم: 1865، بيروت: دار الکتب العلمية
  3. ابن ماجه، السنن، 1: 599، رقم: 1865، بيروت: دار الفکر

عَنْ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رضی الله عنه حَدَّثَهُمْ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ لَا تُنْکَحُ الْأَيِّمُ حَتَّی تُسْتَأْمَرَ وَلَا تُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتَّی تُسْتَأْذَنَ قَالُوا يَا رَسُولَ اﷲِ وَکَيْفَ إِذْنُهَا قَالَ أَنْ تَسْکُتَ.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیوہ کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری لڑکی کا نکاح بھی اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ لوگوں نے عرض کی: یاسول اﷲ! کنواری کی اجازت کیسے معلو م ہوتی ہے؟ فرمایا: اگر پوچھنے پر وہ خاموش ہوجائے تو یہ بھی اجازت ہے۔

  1. بخاري، الصحيح، 5: 974، رقم: 4843، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، 2: 1036، رقم: 1419، بيروت، لبنان: داراحياء التراث العربي

فقہائے کرام فرماتے ہیں:

ينعقد نکاح الحرة العاقلة البالغة برضاها وان لم يعقد عليها ولی بکرا کانت أو ثيبا... ولا يجوز للولی اجبار البکر البالغة علی النکاح.

آزاد، عقل مند بالغ لڑکی کا نکاح اس کی رضا مندی سے ہو جاتا ہے، خواہ اس کا ولی نہ کرے، کنواری ہو یا ثیبہ۔۔۔ ولی کو اس بات کی اجازت نہیں کہ کنواری بالغ لڑکی کو نکاح پر مجبور کرے۔

مرغيناني، الهداية شرح البداية، 1: 196، المکتبة الاسلامية

ولی یعنی باپ یا دادا کے کیے ہوئے نکاح کے بارے میں بیان کرتے ہیں:

واذا أدرکت بالحيض لا بأس بأن تختار نفسها مع رؤية الدم.

اگر لڑکی حیض کے ذریعے بالغ ہوئی تو خون دیکھتے ہی اسے اختیار حاصل ہو گیا خواہ بچپن کے نکاح کو برقرار رکھے یا رد کر دے۔

الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندية، 1: 286، بيروت: دار الفکر

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ عاقل وبالغ لڑکا اور لڑکی بدستور اپنی پسند اور مرضی سے بعوض حق مہر اور دو مسلمان عاقل وبالغ گواہوں کی موجودگی میں جہاں چاہیں نکاح کر سکتے ہیں۔ لہٰذا لڑکا اور لڑکی اپنی مرضی سے عدالتی نکاح کریں تو شرعی طور پر نکاح جائز ودرست ہو گا۔

دورِ حاضر میں مسلمانوں کی، اسلامی تعلیمات سے دوری جہاں معاشرے میں دیگر خرابیوں کا باعث بن رہی ہے ان میں ایک خرابی یہ بھی سر فہرست ہے کہ اکثر والدین بچوں کی پسند وناپسند کو نظرانداز کر کے اپنی مرضی اور پسند کے رشتے طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اکثر لڑکے لڑکیاں والدین کو بتائے بغیر اپنی پسند اور مرضی کے مطابق عدالتی نکاح کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ پھر دوسری طرف والدین اپنی مرضی کے خلاف کی گئی شادی کو قبول کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتے حالانکہ جس جوڑے نے آپس میں مل جل کر رہنا ہے اگر وہ رضامند ہوں تو ان کو زندگی گزارنے کا حق دینا چاہیے جبکہ قرآن وحدیث میں بھی پسند کی شادی کرنے کا حکم ہے۔ لیکن لاعلمی وجہالت کی وجہ سے معاشرے میں لڑکی اور لڑکے کی آپس میں پسند کی شادی کو عجیب سمجھا جاتا ہے اگر وہ بذریعہ عدالت نکاح کرلیں تو مزید نفرت کی نگاح سے دیکھتے ہیں۔

عدالت میں نکاح کرنا بنیادی طور پر کوئی بری بات نہیں ہے۔ اصل خرابی کی جڑ والدین کا لڑکے اور لڑکی کی پسند وناپسند کو نظر انداز کرنا ہے۔ اکثر والدین مال ودولت اور جائیداد کے لالچ میں شرعی کفو کا خیال نہیں رکھتے بغیر سوچے سمجھے بچوں کی زندگی کا سودا کر دیتے ہیں۔ اُن کا یہ فیصلہ بعد میں ناخوشگوار زندگی کا باعث بنتا ہے۔ اگر کوئی جوڑا اپنی پسند اور رضامندی سے بذریعہ عدالت نکاح کر کے جائز وحلال تعلقات قائم کرتا ہے تو اُس کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق ملنا چاہیے۔ اگر یہ راستہ بھی بند کر دیا جائے تو اس کا مطلب ہے ہم اُن کو غلط کاری پر مجبور کرنے جا رہے ہیں۔ لہٰذا ہمیں اپنی سوچیں اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے تاکہ شادی بیاہ کے معاملات میں بھی والدین اور بچے اپنی اپنی حدود میں رہ کر اچھا فیصلہ کر سکیں اور طے پانے والا رشتہ دنیا وآخرت میں راحت وسکون کا باعث بنے۔ جبکہ عدالتی نکاح پر پابندی لگانا اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔

سوال: کیا تقریر، وعظ یا تبلیغ کا معاوضہ لینا جائز ہے؟

جواب: دعوت و ارشاد اور تقریر و تبلیغ پیغمبرانہ ذمہ داری ہے۔ خدا تعالیٰ کے پیغمبر علیھم السلام اپنی قوم کو وعظ و تبلیغ کرتے تو فرماتے:

َمَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلاَّ عَلَى اللّهِ.

میں نے تم سے کوئی معاوضہ تو نہیں مانگا، میرا اجر تو صرف اللہ (کے ذمۂ کرم) پر ہے۔

يُوْنـُس، 10: 72

سورہ یاسین میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندے کی گفتگو کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ:

وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَى قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ. اتَّبِعُوا مَن لاَّ يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُم مُّهْتَدُونَ.

اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا، اس نے کہا: اے میری قوم! تم پیغمبروں کی پیروی کرو۔ ایسے لوگوں کی پیروی کرو جو تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتے اور وہ ہدایت یافتہ ہیں۔

يٰس، 36: 20-21

گویا پیغمبرانہ طرزِ عمل یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کی ذمہ داری کی ادائیگی کے عوض لوگوں سے کسی قسم کا معاوضہ اور بدلہ نہ مانگا جائے اور تقریری و تبلیغ کے لیے لوگوں سے کسی قسم کے بدلے یا فائدے کا سوال نہ کیا جائے۔ بلکہ یہ ذمہ داری خدا کے پیغمبروں‌ کی طرح محض خدا کی رضا، جذبہ اصلاح‌ اور خدمتِ دین سمجھ کر ادا کی جائے اور اس کا اجر خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے۔

علماء، خطباء، مقررین، مدرسین، آئمہ اور مؤذن جو عوض، اجرت یا معاوضہ لیتے ہیں وہ (معاذاللہ) دین کی خرید و فروخت نہیں ہے، بلکہ پابندئ وقت کا ’حق الخدمت‘ ہے۔ یہ تمام خدمات بلاشبہ اللہ کی رضا کے لیے ہونی چاہئیں، لیکن سلسلہ خدمات کو جاری رکھنے کے لیے بوقتِ ضرورت مناسب وظیفہ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ دورِ حاضر میں یہ ایک ضرورت بھی ہے، اگر درمیان سے اسے اٹھا دیا جائے تو دینی فرائض کی ترویج اور نشر و اشاعت کا سلسلہ رک جائے گا، کیونکہ ہر شخص تقویٰ اور خشیت الٰہی کے پیغمبرانہ معیار پر نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص صاحبِ مال و صاحب استطاعت ہے تو اسے یہ خدمات فی سبیل اللہ ادا کرنی چاہئیں۔ علامہ شامی فرماتے ہیں:

ان المتقدمين منعوا أخذا الأجره علی الطاعات، وأفتی المتأخرون بجوازه علی التعليم والامامة... کان مذهب المتاخرين هو المفتی به.

متقدمین علماء نے عبادات پر اجرت لینے کو منع کیا، اور متاخرین علماء نے تعلیم وامامت پر اجرت جائز ہونے کا فتوی دیا ہے۔۔۔ اور فتوی متاخرین کے مذہب پر دیا جاتا ہے۔

ابن عابدين شامي، رد المحتار، 4 : 417، بيروت: دار الفكر

چونکہ مسلمانوں کی رفاہ کے لیے کام کرنے اور زکوٰۃ اور ٹیکس وصول کرنے والے شخص کو مالدار ہونے کے باوجود ان اموال سے استفادہ کرنا جائز ہے، اس لیے مقررین، مبلغین اور داعی حضرات کے بقدر ضرورت تنخواہ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن دینی خدمت سرانجام دینے والوں کے ہاں اصل استغناء، لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے سے گریز کرنا اور ان سے کسی بھی قسم کی امید وابستہ کرنے سے احتراز کرنا بہتر ہے۔