محسنِ تحریکِ منہاج القرآن حضرت فرید ملت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ

سبط جمال پٹیالوی

16 شوال المکرم، یوم وصال کی مناسبت سے خصوصی تحریر

جھنگ کی دھرتی اپنی مٹھاس، زرخیزی، مردم خیزی اور منفرد تاریخ کے حوالے سے ہر دور میں اپنی مثال آپ رہی ہے۔ ہر زمانے میں محبت، اخوت اور شادمانیوں کے نغمات یہاں کی فضائوں میں رس گھولتے رہے ہیں۔ ایک طرف یہاں کے اہلِ علم و حکمت اپنے افکار و نظریات سے نئی دنیائیں تسخیر کرتے رہے اور دوسری جانب اس خطۂ ارضی کے سوہنے گھبرو زورِ بازو سے ہر کھیل میں اپنا سکہ جماتے رہے ہیں۔ یہاں کے اہلِ ہنر اپنے شہ پاروں سے اہلِ نظر کو خیرہ کرتے اور کسان زمین کا سینہ کھود کر اس میں سے سونے سے بیش قدر فصلیں اگاتے رہے ہیں۔ جھنگ کی دھرتی کے سینے پر بہنے والے دریائے چناب اور دریائے جہلم تابناک ماضی کے گواہ ہیں۔

یہاں کے سپوتوں نے جہاں زندگی کے دیگر شعبوں میں نام کمایا ہے، وہیں تصوف اور سلوک کی کائنات کے شہ سوار بھی یہاں آسودۂ خاک ہیں۔ حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ  اس دھرتی کے روحانی سلطان ہیں۔ اس عظیم شخصیت کی نسبت نے اس سرزمین کو دنیا بھر میں ایک جاوداں اور نازاں مقام پر فائز کیا ہے۔ یہ دھرتی دیگر امور کی طرح اخوت، بھائی چارے اور انسان دوستی میں بھی ایک تابناک تاریخ رکھتی ہے۔

زمانہ قدیم سے یہاں مختلف تہذیبوں، مذاہب اور قوموں کا اختلاط رہا ہے۔ یہاں کی برادریوں میں سیال سب سے بڑی قوم ہے۔ جھنگ چنیوٹ روڈ پر واقع کھیوہ میں آباد یہ قبیلہ ایک زمانے میں پورے علاقے کا مختارِ کل تصور کیا جاتا تھا۔ وقت کا پہیہ تیزی سے گھومتا رہا اور 18 ویں صدی عیسوی میں ہندوستان بھر میں طوائف الملوکی اور سیاسی انتشار کے بُرے اثرات اس علاقے پر بھی رونما ہوئے۔ ایک طرف سرحدی علاقوں کے لوگ جبکہ دوسری جانب سکھ گردی، ڈاکہ زنی، قتل و غارت اور خاندانی جھگڑوں نے کھیوہ کی ریاست کو بھی کمزور کر دیا۔

ان دنوں تین بھائی باہم مل کر ریاست کے امور سرانجام دیتے تھے۔ ان میں سے ایک سیاسی امور کا ماہر جبکہ دو درویشانہ مزاج کے حامل تھے۔ ان میں سے درویشانہ مزاج رکھنے والے دو بھائی اپنی ریاست سے دستبرداری کا اظہار کرتے ہوئے ایک بھائی جمعہ خان ڈیرہ اسماعیل خان میں اور دوسرے بھائی میاں احمد یار خان مگھیانہ جھنگ میں آکر آباد ہو گئے۔

میاں احمد یار خان نے مگھیانہ سکونت اختیار کی اور ترکِ دنیا پر عمل کرتے ہوئے عشقِ الٰہی میں مستغرق ہوگئے۔ انہوں نے صاحبِ فقر ہونے کے سبب پیری فقیری کو بطور پیشہ اختیار کرنے کے بجائے الکاسبِ حبیب اللہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے محنت مزدوری کرتے ہوئے اپنے اہلِ و عیال کی کفالت کا فریضہ سرانجام دیا۔ اللہ رب العزت نے انہیں ایک فرزندِ ارجمند سے نوازا، جن کا نام بہائو الدین رکھا گیا۔ انہوں نے بھی اپنے والدِ محترم کے سلسلۂ فقر کو بغیر دنیاوی لالچ و طمع کے جاری رکھا۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے تین بیٹوں میاں اللہ بخش، میاں خدا بخش اور میاں پیر بخش سے نوازا۔ میاں اللہ بخش بھی راۂ صدق و صفا کے راہی تھے اور انہوں نے سلوک و معرفت کی بلند منزلوں کو چھوا۔ میاں اللہ بخش کی طرح میاں خدا بخش بھی فقر کے اوصاف سے متصوف تھے۔ خالقِ کائنات نے انہیں پانچ صاحبزادگان اور ایک دختر عطا فرمائی۔ ان کے فرزندِ کبیر ڈاکٹر فریدالدین قادری نے اپنی ہمہ گیر شخصیت کے لحاظ سے تاریخ میں فرید العصر، فرید ملت اور فریدِ علم و حکمت کے القاب پائے۔ یہ وہی افقِ سعید ہیں جہاں سے قائدِ انقلاب ، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری جیسے علم و عمل کے آفتاب طلوع ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر فرید الدین قادری 1918ء میں جھنگ کی سرزمین پر پیدا ہوئے۔ انہوں نے پہلی جماعت سے مڈل تک تعلیم اسلامیہ ہائی سکول جھنگ سے حاصل کی۔ وہ شروع دن ہی سے ذہنی صلاحیتوں میں اپنی مثال آپ تھے۔ انہوں نے ہر جماعت میں اول آنا، ہرمیدان میں اپنا سکہ جمانا اور اعلیٰ نتائج کی بنا پر وظیفہ حاصل کرنا پہلی جماعت ہی سے سیکھ لیا تھا اور یہ سلسلہ جماعت ِ ہفتم تک بدستور جاری رہا۔ وہ سکول کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ جھنگ کے معروف عالمِ دین حضرت مولانا غلام فرید سے درسِ نظامی کی ابتدائی کتابیں بھی درساً پڑھتے رہے۔ وہ اسی دوران کم سنی کے باوجود تفکر، تدبر اور عشقِ الٰہی میں ڈوب کر گھر سے چار میل دور بہتے دریائے چناب کے کنارے عالمِ تنہائی میں غور و خوض کرتے اور اپنے من میں آگہی کی جوت جگاتے رہتے۔

ڈاکٹر فرید الدین کے والدِ محترم انہیں روایتی مسیحا بنانا چاہتے تھے، مگر گھریلو مخدوش حالات کی بنا پر مزید تعلیم حاصل کرنے کے حق میں نہ تھے۔ انہی معاملات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے نو خیز فرید الدین کو سکول سے اٹھا کر ایک ماہر طبیب کے پاس بٹھا دیا گیا۔ سکول کے اساتذہ نے والد سے مل کر اس گہرِ تابدار کے تعلیمی سلسلہ کو رواں رکھنے کی استدعا کی مگر والدِ محترم کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ ننھے فرید الدین کو دوائوں، نسخوں اور کشتوں والی حکمت کا قطعاً کوئی شغف نہ تھا۔ جب انہیں ہر طرف سے مایوسی کی گھٹائوں نے گھیر لیا تو والدہ کا آنچل ہی ان کے لیے روشن مستقبل کی امیدوں کا پیام بر ثابت ہوا۔ والدہ محترمہ نے سینہ فرزند میں حصولِ علم کی آگ کو اپنی کل پونجی طلائی زیورات کے ذریعے بجھانے کا ارادہ کیا۔ اس طرح حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی  رحمۃ اللہ علیہ  کی پیروی میں اوائل عمری ہی میں فرید الدین خطیر رقم اپنے چولے میں چھپائے علم کی منزلوں کی جستجو میں روانہ ہوئے۔

فرید الدین علم کے جویا ہو کر شہرِ اقبال سیالکوٹ پہنچے۔ یہاں انہیں مفتیِ اعظم حضرت علامہ محمد یوسف سیالکوٹی کے حلقۂ تلمذ میں شمولیت کا اعزاز حاصل ہوا۔ انہوں نے دو سال کے عرصہ میں درسِ نظامی کی کتب بھی پڑھیں اور ساتھ ہی سکول میں داخلہ لے کر میٹرک کا امتحان بھی شاندار نمبروں سے پاس کیا۔ لکھنؤ جو اس دور میں اپنی تاریخی اہمیت، رنگینیوں اور علم و ادب کے لحاظ سے ہندوستان بھر میں اپنی مثال آپ سمجھا جاتا تھا۔ یہاں کا فرنگی محل تو دنیا بھر میں علم، ادب اور فن کا گہوارہ تصور کیا جاتا تھا۔ فرید الدین سیالکوٹ سے درسِ نظامی اور میٹرک کرنے کے بعد لکھنؤ نگری پہنچے اور فرنگی محل جیسی تاریخی درس گاہ سے منسلک ہو گئے۔ انہوں نے اس کے ساتھ ساتھ جوائنٹ طبیہ کالج میں بھی داخلہ لے لیا۔ اپنی طرز کے اِس انوکھے، اچھوتے اور منفرد طرز کے طبی ادارے کے بارے میں مولانا عبدالحق ظفر چشتی تحریر کرتے ہیں:

’’لکھنؤ میں جوائنٹ طبیہ کالج کا محل وقوع کچھ ایسا تھا کہ اس کے بالکل سامنے کنگ جارج میڈیکل کالج کی پُرشکوہ عمارت دعوتِ نظارہ دیتی تھی۔ دونوں اداروں میں باقاعدہ طے شدہ نظم کے تحت کبھی طبیہ کالج کے طلبہ کنگ جارج میڈیکل کالج چلے جاتے اور کبھی وہاں کے طلبہ ادھر آجاتے اور کبھی دونوں کسی ایک کالج میں ہم سبق ہو جاتے۔ اسی حسین امتزاج کی وجہ سے طلبہ قدیم و جدید طب سے یکساں بہرہ ور ہوتے۔ ایک طرف وہ حکیم حاذق کہلاتے تو دوسری طرف ڈاکٹر اور ایل۔ ایس۔ ایم۔ ایف اور ایم ۔ بی ۔ بی۔ ایس وغیرہ کی ڈگریوں کے اعزازات بھی حاصل کر لیتے‘‘۔

(تذکره فريد ملت، مرتبه: علامه عمر حيات الحسينی، ص 33)

فرید الدین بھی اس منفرد تعلیمی ادارے میں تعلیم کے مدارج طے کرتے رہے۔

کہاں جھنگ! کہاں لکھنؤ! دیارِ غیر میں نہ کوئی مونس، نہ کوئی مددگار ، نہ کوئی آشنا ، نہ کوئی واقف کار اور گھر سے مزید رقم کا حصول مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن تھا۔ بالآخر حالات کی کڑی دھوپ میں جھنگ کا یہ سوہنا گھبرو جوان زمانے کے سرد و گرم تھپیڑے ہنس کر جھیلتا رہا اور دیوانہ وار اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہا۔ بالآخر پانچ سال کے طویل عرصے میں علم و حکمت کے گہر ہائے بے بہا سے اپنی جھولی کو بھر کر گھر واپس لوٹے۔ انہوں نے جوائنٹ طبیہ کالج سے طب کی سند لی تو کنگ جارج میڈیکل کالج سے میڈیکل سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔ دورۂ حدیث اور درسِ نظامی کی تکمیل اس پر مستزاد تھی۔

ڈاکٹر فرید الدین دینی اور پیشہ ورانہ تعلیم کی تکمیل کے بعد لکھنؤ سے لاہور پہنچے۔ اس زمانے میں زبدۃ الحکماء طب کی سب سے بڑی ڈگری ہوتی تھی۔ وہ اس امتحان میں پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے شریک ہوئے اور نبض کے موضوع پر چالیس صفحات پر مشتمل عربی زبان میں مقالہ تحریر کرتے ہوئے پنجاب بھر میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ تقسیمِ انعامات کی تقریب میں شہرہ آفاق ادبی مجلہ ’’مخزن ‘‘ کے روحِ رواں اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے دوست سر عبدا لقادر نے صدارتی خطبہ میں ڈاکٹر فرید الدین کی کاوش کو ان الفاظ سے سراہا:

’’یہ طالب علم (ڈاکٹر فرید الدین) مبارک باد کا مستحق ہے کہ اس نے نبض کے موضوع پر ایک عظیم مقالہ لکھا ہے۔ اپنے موضوع پر ایک بہترین مقالہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ایک ادبی شہ پارہ بھی ہے۔ ہم اسے دیکھ کر حیران رہ گئے اور یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ یہ ایک طالب علم کا نبض کے موضوع پر مقالہ ہے یا کہ نبض کے فن پر کسی امام کی کتاب، ہم پچاس میں سے پچاس نمبر دینے پر مجبور تھے ورنہ یہ مقالہ زیادہ نمبروں کا مستحق تھا‘‘۔

(ايضاً، ص83)

ڈاکٹر فرید الدین زمانہ طالبِ علمی ہی سے روحانیت، سلوک اور فقر کے مدارج میں ترقی کے لیے کسی شیخِ کامل کی تلاش میں کوشاں تھے۔ انہوں نے اس ضمن میں 1934ء میں حضرت پیر مہر علی شاہ  رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر حلقۂ ارادت میں شمولیت کرنے کی استدعا بھی کی۔ تاجدارِ گولڑہ شریف رحمۃ اللہ علیہ  نے جواباً ارشاد فرمایا کہ آپ کی بیعت کی منطوری تو ہو چکی ہے۔ آپ کے اصرار پر انہوں نے یہی الفاظ تین بار دہرائے تو فرید الدین سمجھ گئے کہ میرے نصیب کا فیض کسی اور در سے منسوب ہے۔

دن گزرتے چلے گئے اور شیخِ کامل کی جستجو ان کے سینے میں مسلسل مچلتی رہی۔ انہوں نے بالآخر 1948ء میں استخارۂ بیعت کیا، جس پر انہیں عالمِ رویا میں بغداد شریف کے عظیم بحرِ ولایت کا نظارہ کرایا گیا اور جگر گوشۂ غوث الورا حضرت شیخ ابراہیم سیف الدین کی زیارت بھی کرائی گئی۔ بعد ازاں ڈاکٹر فرید الدین نے گہرِ مراد کو پانے کے لیے بغداد نگری کا قصد کیا۔ بالآخر برسوں کی یہ طلب اپنے انجام کو پہنچی اور قطرہ اپنے سمندر سے مل کر سمندر بن گیا۔ کئی دن تک شیخِ کامل نے اپنے مریدِ صادق کو معرفت کے جام بھر بھر کر پلانے کے بعد واپس گھر جانے کا عندیہ دیا۔ اس طرح وہ نسبتِ شیخ کے سبب ڈاکٹر فرید الدین قادری کہلانے لگے۔

وہ انسان دوستی، اعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیوں اور حق شناسی کے سبب ترقی کے بتدریج مدارج طے کرتے چلے گئے۔ وہ دنیاوی طب کی تعلیم کے بعد روحانی مسیحائی کے مدارج بھی طے کر چکے تھے۔ اس طرح اب وہ جسمانی کے ساتھ ساتھ روحانی مسیحا بھی بن چکے تھے۔ اس حقیقت کو شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد معراج الاسلام کچھ یوں تحریر کرتے ہیں:

’’حضرت ڈاکٹر فرید الدین رحمۃ اللہ کی حیات مبارکہ پر ایک بھرپور نظر ڈالیں تویہ ماننا پڑتا ہے کہ وہ مرددرویش صرف طبیبِ جسمانی ہی نہ تھے بلکہ طبیب روحانی بھی تھے اور راہِ سلوک میں باطنی طور پر باقاعدہ ان کی تربیت کی گئی تھی اور انہیں ایک متوکل طبیب روحانی بھی بنا دیا گیا تھا‘‘۔

(ايضاً، ص 145)

ڈاکٹر فرید الدین قادری ملکِ طریقت کے راہرو ہونے کے ساتھ ساتھ رہبرِ شریعت بھی تھے۔ انہوں نے حضرت سید احمد سعید کاظمی، حضرت مولانا قطب الدین، حضرت مولانا عبدالغفور ہزاروی، حضرت صاحبزادہ فیض الحسن آلو مہار شریف، حضرت مناظرِ اہلِ سنت مولانا عمر اچھروی، حضرت مولانا عبدالرشید رضوی، حضرت مولانا عبدالستار خاں نیازی اور حضرت خواجہ فخرالدین سیالوی جیسی نابغۂ روزگار ہستیوں کے ساتھ مذہبی محافل میں نہ صرف شمولیت اختیار کی بلکہ ان سعید شخصیات کی موجودگی میں اپنے جانفزا خطبات سے لوگوں کے قلوب کو معرفتِ الٰہی اور عشقِ رسول a کی تجلیوں سے بھی جگمگایا ہے ۔ ڈاکٹر فرید الدین قادری کا مقصدِ حیات سوکھے اور بنجر دلوں میں عشقِ رسول a کی جوت جگانا تھا۔

پیشہ ورانہ طور پر دیکھا جائے تو ڈاکٹر فریدالدین ایک طبیب کی حیثیت سے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنے شعبے میں بھی ایک بلند اور تاریخی مقام رکھتے تھے۔ طب پر تحریر کردہ ان کی تصنیفات کی تفصیل کچھ یوں ہے:

1۔شفاء الناس 2۔بیاض ِفریدی

3۔زبدۃ التجربات 4۔تفرید الفرید

دیگر شعبوں کی طرح اردو ادب بھی ڈاکٹر فرید الدین کے کارناموں کا معترف ہے۔ لکھنؤ کی ادبی محافل سے بھی کسبِ فیض حاصل کیا۔ اردو ادب کے نام ور سخنور امیر مینائی کے فرزند شاعر شکیل مینائی سے زانوے تلمذ طے کیے اور مشاعروں میں اپنا رنگ جمایا۔ مشاعروں میں ان کی مقبولیت کا اندازہ اس تحریر سے لگایا جا سکتا ہے:

’’لکھنؤ کے مشاعرے لوٹے اور پھر لکھنؤ کا کوئی مشاعرہ ایسا نہ ہوتا جس میں چوٹی کے شعراء شریک ہوں اور ان میں علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری شامل نہ ہوں۔ شاعری کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی اور خوب کی۔ بڑے بڑے نامور شعراء میں ناموری پائی‘‘۔ (ایضاً)

ان کی شاعری بھی منفرد طرز کی ہے۔ اس ضمن میں ان کا دیوان ’’دیوانِ قادری‘‘ بھی ترتیب دیا گیا تھا مگر حالات کی آندھی نے ان اوراق کو منتشر کر دیا ۔ ان میں سے چند اوراق میں موجود چند فن پارے باقی رہ گئے۔ ان میں سے بطور نمونہ سلام کے چند اشعار حاضرِ خدمت ہیں:

السلام اے مطلع صبح ازل

السلام اے جانِ ہر نثر و غزل

السلام اے قلزمِ جود و سخا

السلام اے مصدرِ حمد و ثنا

السلام اے موجبِ ایجابِ کن

السلام اے جرأتِ آموزِ سخن

السلام اے پرتوِ ذاتِ جلال

السلام اے حلقۂ نور و جمال

اردو ادب کی بڑی شخصیات نے ڈاکٹر فریدالدین کو نہ صرف سراہا ہے بلکہ ان سے اصلاح بھی لی ہے۔ اس ضمن میں محمد فاروق رانا تحریر کرتے ہیں:

’’شیر افضل جعفری اور مجید امجد جیسے شعراء کرام آپ کے معاصرین میں سے تھے اور آپ سے اشعار کی اصلاح لیتے تھے‘‘۔ (ایضاً، ص۱۳۹)

ڈاکٹر فرید الدین قادری نے شاعری کے ساتھ ساتھ نثر میں بھی کار ہائے نمایاں سر انجام دیے ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے اپنے ایران، عراق، شام اور سعودی عرب کے زیارتی اسفار کو بھی قلمبند کیا ہے۔ انہوں نے اس دوران دلی وارفتگی اور سرشاری کے لمحات میں ان مقدس مقامات کی زیارات کو سپردِ تحریر کیا ہے۔ اس سفرنامے کے ہر ورق، ہر سطر اور ہر لفظ میں گہرے جذبات اور سرشاری کے لمحات نگینوں کی طرح جڑے دکھائی دیتے ہیں۔

غور کیا جائے تو ڈاکٹر فرید الدین قادری ہمہ پہلو اور رنگارنگ شخصیت ہیں۔ وہ ایک وقت میں روحانی طبیب بھی ہیں اور جسمانی بھی، وہ عالمِ بے بدل بھی ہیں اور مقررِ بے مثال بھی۔ وہ شاعرِ لاجواب ہیں تو مصنفِ باکمال بھی۔ وہ سیلانی مزاج رکھنے کے سبب محدود مخدوش سفری سہولیات کے باوجود ایران ،عراق، سعودی عرب اور شام جیسے ملکوں کی سیاحت کر لیتے ہیں۔ وہ نوعمری ہی میں جھنگ سے لکھنؤ نگری کا سفر تن تنہا طے کرتے ہیں۔ ان کی خوش قسمتی یہ کہ انہیں حضرت مولانا محمد یوسف سیالکوٹی، حضرت مولانا عبد الحی فرنگی محل، حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی، حضرت مولانا عبدالشکور مہاجر مدنی، حضرت شیخ المالکی، حضرت شیخ محمد الکتانی، حضرت مولانا سردار احمد، حضرت حضرت ابو البرکات سید احمد قادری، حضرت حکیم عبدالوہاب نابینا انصاری اور شفاء الملک حکیم عبدا لحکیم جیسی تاریخ ساز شخصیات کے حلقۂ تلمذ میں رہنے کا اعزاز حاصل رہا۔ ان عظیم شخصیات کی تعلیم و تربیت، خدا داد صلاحیتوں اور شبانہ روز کاوشوں کے سبب وہ ہر فن مولا کے محاورہ پر تصدیق کی سند ثبت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ نحو، صرف، منطق، فلسفہ، اصول فقہ، معانی، علمِ عروض، عربی ادب، فارسی ادب، طب، حدیث، اصولِ حدیث، اصولِ تفسیر اور تصوف جیسے شعبوں میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔

بھرپور زندگی گزارنے اور علم و عمل سے ایک جہاں کو مستفید کرنے کے بعد آخر ڈاکٹر فرید الدین کی شاندار زندگی کے سفر کا آخری موڑ بھی آگیا۔ 2 نومبر 1974ء کو علم و حکمت کا یہ آفتاب آخر غروب ہو گیا۔ کہنے کو تو یہ سورج ڈوب چکا ہے مگر اس کی تابانیاں آج بھی حق کے افق پر چمک رہی ہیں، کیونکہ جو لوگ فکر و نظر کی ظلمتوں کو حق کی روشنی سے جگمگاتے ہیں وہ ہمیشہ کے لیے سراپائے نور بن جاتے ہیں۔ ایسے ہی جذبات کا اظہار عہد ساز نعت گو شاعر ریاض حسین چودھری ڈاکٹر فرید الدین قادری کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:

’’سچی بات تو ہے کہ وہ لوگ جو ذہنوں میں چراغ جلانے کا منصب سنبھالتے ہیں خود بھی تاریخ کے چہرے کی روشنی بن جاتے ہیں اور ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ بھی تاریخ کے چہرے کی اسی روشنی کا نام ہیں‘‘۔ (ایضاً، ص ۱۱۵)

یہ نور دراصل نورِ حق ہے جو کبھی بھی ختم نہیں ہوتا، وقت کے تندوتیز تھپیڑے اور حتیٰ کہ موت بھی اسے ختم نہیں کر سکتی۔

ڈاکٹر فرید الدین قادری کی تابانیوں کا ایک عظیم سلسلہ ان کے فرزندِ ارجمند قائدِ انقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی صورت میں دنیا بھر میں علم و حکمت اور شعورِ آگہی کے اجالوں سے سیاہ دلوں کو منور فرما رہا ہے۔ یہ ڈاکٹر فرید الدین کا ہی ایک عظیم فیض ہے، جو منہاج القرآن کی صورت میں تا قیامت حق کے متلاشیوں کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ ان شاء اللہ ان لمحات میں مجھے محترم محمد فاروق رانا کے یہ الفاظ گدگدا رہے ہیں کہ ’’فریدِ ملت ڈاکٹر فرید الدین قادری عصرِ حاضر کی اِحیائی تحریک‘ تحریکِ منہاج القرآن کی خشتِ اَوّل ہیں‘‘۔