القرآن: اخلاقِ حسنہ (شہرِاعتکاف سے خطابات)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

عبادت کا مقصود اخلاق میں بہتری لانا ہے

عبادت جنت، ادب و اخلاق خدا تک پہنچاتا ہے

حُسنِ خلق یہ ہے کہ جسم فرشی اور طبیعت عرشی ہوجائے

شہرِ اعتکاف سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطابات کا خلاصہ

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: طالب حسین سواگی

اِمسال شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہرِ اعتکاف 2017ء میں ’’اخلاقِ حسنہ‘‘ کے موضوع پر انتہائی ایمان افروز تربیتی و اصلاحی خطابات فرمائے۔ ذیل میں اِن 9 خطابات کی تلخیص پر مبنی پہلا حصہ نذرِ قارئین ہے:

1۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ چشمۂ علم و ہدایت اور تعلیماتِ اہلِ بیت اطہار رضی اللہ عنہم

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 21 ویں شب رمضان 16 جون 2017ء کو شہرِ اعتکاف سے اپنے پہلے خطاب کے آغاز میں اعتکاف کی روح اور اجتماعی عبادات کے اثرات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:

’’حضرت بایزید بسطامی رضی اللہ عنہ  کے دل میں اللہ تعالیٰ نے القاء فرمایا کہ ’’ماترید‘‘ تو کیا چاہتا ہے؟ عرض کیا:

اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اُرِيْدُ اَنْ لَا اُرَيْدُ اِلَّا مَاتُرِيْد.

’’اے اللہ میں یہ چاہتا ہوں جو تو چاہتا ہے اس کے سواء کچھ نہ چاہوں‘‘۔

یہ الفاظ روحِ اعتکاف ہیں جو حضرت بایزید بسطامی رضی اللہ عنہ  کی زبان سے ادا ہوئے۔ اعتکاف میں ظاہر و باطن معتکف رہے، گیان اور گمان/ دل و جان بھی معتکف رہے۔ اللہ کی غیر کوئی چیز آپ کے اور اللہ کے درمیان حائل نہ ہو۔ یہ کیفیت 10 دن جاری و طاری رہے۔ اجتماعی اعتکاف کا فائدہ یہ ہے کہ جب کثیر تعداد میں اللہ کے بندے جمع ہوکر اس کا ذکر کرتے ہیں تو وہ بھی عرش پر اپنے ملائکہ میں ان بندوں کا ذکر کرتا ہے۔ اس لئے کہ اس کا وعدہ ہے:

فَاذْکُرُوْنِيْٓ اَذْکُرْکُمْ.

(البقرة:152)

’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا ‘‘۔

جو اللہ کو یاد کرتا ہے اسے یقین ہونا چاہئے کہ اللہ بھی اس کو یاد کرتا ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے کہ فرشتے بھی ذاکرین الہٰی کے ہم نشین ہوتے ہیں۔ تنہا ذکرو فکر کی اپنی اہمیت ہے مگر اجتماعی شکل میں ذکرِ الہٰی کی محفل میں بیٹھنے کا الگ رنگ ہے۔ ذاکرین کے ساتھ محض بیٹھنے والے بھی بخشے جاتے ہیں۔ یاد رکھیں! اجتماعیت میں فیض اور قبولیت بڑھ جاتی ہے۔

قرآن میں نماز تنہا پڑھنے والے کو بھی ’’اَعْبُدُ‘‘ کے بجائے ’’نَعْبُدُ‘‘ کہنے کا حکم ہے۔ تحریکِ منہاج القرآن کے زیر اہتمام شہر اعتکاف کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اَعْبُدُ کے بجائے نَعْبُدُ اور اَسْتَعِيْنُ کے بجائے ’’نَسْتَعِيْنُ‘‘ کا نظارہ عطا کرتا ہے۔ ’’میں‘‘ کو ’’ہم‘‘ میں گم کرنا سکھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس اجتماعیت کا حصہ ہر ایک کو عطا فرمائے‘‘۔

ابتدائی گفتگو کے بعد شیخ الاسلام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے یوم شہادت کی نسبت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی انفرادی فضیلتوں اور اخلاق حسنہ پر ان کی تعلیمات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:

حضرت موسیٰ علیہ السلام  جب حضرت خضر علیہ السلام  سے ملاقات کے لئے گئے تو اللہ رب العزت نے اس ملاقات کو اِن الفاظ میں بیان فرمایا:

فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ اٰتَيْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا.

(الکهف: 65)

’’تو دونوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے (خضر e) کو پا لیا جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے علمِ لدنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھا‘‘۔

آیت مبارکہ میں مذکور ’’رحمت‘‘ سے ان کی ولایت کی طرف اشارہ ہے اور ’’علم لدنی‘‘ سے ان کے علم کی طرف اشارہ ہے۔ گویا ولایت اور علم حضرت خضر علیہ السلام  کی خصوصیت بنا۔ معلوم ہوا کہ اللہ کا ولی کبھی جاہل نہیں ہوسکتا۔ وہ علم لدنی سے سرفراز ہوتا ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ جاہل کبھی ولی نہیں ہوسکتا۔ ولایت اور علم لازم و ملزوم ہیں۔ عِلمِ صحیح سے ولایت جنم لیتی ہے اور ولایت عِلم صحیح پر قائم ہوتی ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے جمیع صحابہ کو طرح طرح کے فضائل حاصل تھے مگر ایک خصوصیت ایسی تھی جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خصوصی طور پر حاصل تھی اور وہ یہ کہ آپ رضی اللہ عنہ کی ذات میں ولایت اور علم اس قدر جمع کیا گیا کہ صحابہ میں سے کوئی اور اس مقام کو نہ پہنچ سکا۔ آپ رضی اللہ عنہ ولایت کا بھی منبع و چشمہ تھے اور علم کا بھی منبع و چشمہ تھے۔ گویا امت میں آپ رضی اللہ عنہ کو ولایت و علم کا منبع بنادیا گیا۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے غدیر خم کے مقام پر فرمایا:

الست اولیٰ بالمومنين من انفسهم؟ فقلنا بلی يارسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ، قال من کنت مولاه فعلی مولاه.

’’کیا میں مومنین کی جانوں کا اُن سے زیادہ مالک نہیں ہوں؟ (صحابہ) نے عرض کیا، کیوں نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: میں جس کا مولیٰ ہوں، علی رضی اللہ عنہ بھی اس کے مولیٰ ہیں‘‘۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

اللهم وال من والاه وعاد من عاداه.

’’اے اللہ! تو اس شخص سے محبت کر جو علی رضی اللہ عنہ کو محبوب رکھے اور اس شخص سے عداوت رکھ جو علی رضی اللہ عنہ سے عداوت رکھے‘‘۔

یاد رہے کہ 12 بدری صحابہ سمیت 98 صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو روایت کیا اور سیکڑوں کتبِ حدیث میں اسے ائمہ حدیث نے بیان کیا۔ امام ابن عقدہ رضی اللہ عنہ  (تیسری/ چوتھی صدی) نے مذکورہ حدیث ’’من کنت مولاہ۔۔۔‘‘ کے 100 طرق اپنے ایک رسالہ میں جمع کئے۔ ان کے بعد علامہ ذہبی رضی اللہ عنہ  (ساتویں صدی) نے اس حدیث کے 25 مزید طرق اپنی کتاب میں جمع کئے۔ اس طرح کل 125 طرق ہوگئے۔ اب اللہ نے ہمیں توفیق دی اور اس کے کرم و توفیق سے میں نے احادیث کے ذخائر کھنگالے اور اس حدیث کے مزید 28 طرق جمع کئے، اس طرح کل طرق 153 ہوگئے۔ ان تمام طرق سے روایات کو میں نے اپنی کتاب ’’الکفایۃ فی حدیث الولایۃ‘‘ میں جمع کردیا ہے۔

اس بات کو بیان کرنے کا مقصد ان لوگوں کے مغالطے کو دور کرنا ہے جو اس حدیث کو صحیح نہیں سمجھتے۔ سن لیں! اس حدیث کے 153 طرق ہیں اور کئی طرق صحیح اور حسن ہیں۔ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شخصیت کا یہ ایک پہلو ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کو منبعِ ولایت بنایا گیا ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ آپ علمِ لدنی میں بے نظیر و بے مثال تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

انا مدينة العلم وعلی بابها.

’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس شہرِ علم کا دروازہ ہیں‘‘۔

یعنی جو میرے شہرِ علم میں داخل ہونا چاہے وہ اس دروازے سے آئے۔ گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے قطع تعلق کرنے والا علم اور ولایت سے بہرہ یاب نہیں ہوسکتا۔ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت اور محبت سے کتراتا ہے وہ کبھی علمِ نبوت کے شہر میں داخل نہیں ہوسکتا۔ وہ علمِ نبوت سے محروم رہے گا۔

کثیر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مختلف الفاظ کے ساتھ مذکورہ حدیث کو روایت کیا ہے۔ اس حدیث کے تمام طرق بھی میں نے اپنی کتاب ’’القول القیم فی باب مدینۃ العلم‘‘ میں جمع کردیئے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ کسی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’ میری امت میں اللہ تعالیٰ نے علم و حکمت کے 10 حصے بنائے، علی کو اس علم و حکمت کے 9حصے دیئے اور ایک حصہ ساری امت میں تقسیم کیا‘‘۔

پس امت میں نہ ولایت میں آپ رضی اللہ عنہ کا کوئی ہم مرتبہ تھا اور نہ علم میں کوئی آپ رضی اللہ عنہ کا ہم مرتبہ تھا۔

حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس وقت سے پناہ مانگا کرتے تھے کہ جب کوئی مشکل شرعی مسئلہ درپیش ہو اور حضرت علی رضی اللہ عنہ موجود نہ ہوں۔ اس لئے کہ علمی مشکل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بغیر حل نہیں ہوتی تھی۔

اس فرمانِ عمر رضی اللہ عنہ کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ ’’مشکل کشا‘‘ ثابت ہوتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے:

لَوْلاَ عَلِیٌّ لَهَلَکَ عُمَر.

’’اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا‘‘۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہر ہر حرف کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ ہر ہر حرف کے ظاہرو باطن کا علم رکھتے ہیں۔ گویا عِلم قرآن کے ظاہر و باطن کے جامع ہیں۔

  • اخلاقِ حسنہ کی تعلیمات کے حوالے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ اللہ کے ہاں اچھے لوگ کون ہیں؟ فرمایا: اللہ سے ڈرنے والے، علم اور تقویٰ کو جمع کرنے والے اور دلوں کو دنیا سے بے رغبت رکھنے والے سب سے زیادہ اچھے ہیں۔
  • امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ اچھے کون ہیں؟ فرمایا: جن میں درج ذیل پانچ خصلتیں ہوں وہ مقرب اور اچھے ہیں:
  1. اگر نیکی کریں تو ان کے دل میں فرحت ہو۔
  2. جب کوئی غلطی کریں تو اللہ کے حضور فوری معافی مانگیں۔
  3. نعمت پر شکر کریں۔
  4. تکلیف پر صبر کریں۔
  5. زیادتی کرنے والے کو معاف کردیں۔
  • حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اچھائیوں میں بہترین اچھائی اخلاق کا اچھا ہونا ہے۔

لوگو! اگر دوسروں کو معاف کرنے والے، محبت کرنے والے، دل کو وسیع کرنے والے اور اخلاق حسنہ کے مالک بن جائو گے تو یہ بہترین اچھائی ہے۔ اس لئے کہ حسن الخلق راس لکل بر۔ (حسن اخلاق ہر نیکی کا تاج/ کمال ہے)۔ کوئی بھی عبادت اخلاق حسنہ کے بغیر مقبول نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ہماری عبادت کی کوئی حاجت نہیں بلکہ وہ ہمارے اخلاق سنوارنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ مخلوق خدا کے ساتھ بھلائی سے پیش آئیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

جس کے اخلاق اچھے ہوگئے اس کی ساری زندگی سنور گئی۔

حدیث مبارک میں ہے کہ جس کے اخلاق اچھے ہوجائیں اگر اس کی عبادت کم بھی ہو تو پھر بھی اس کو قائم اللیل اور صائم النہار کا درجہ عطا کردیا جاتا ہے‘‘۔

2۔ اخلاقِ حسنہ دین کی روح ہیں

22 ویں شبِ رمضان، 17 جون کو شہرِ اعتکاف سے دوسرے خطاب میں شیخ الاسلام نے وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْم کو موضوع گفتگو بناتے ہوئے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو اس کثرت سے خصائل، صلاحیتیں، فضائل، خصلتیں اور سعادتیں عطا کی ہیں کہ جن کا کوئی شخص شمار نہیں کرسکتا۔ فضائل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی شان کو اللہ نے لامحدود بنایا اور ان کا ذکر بھی قرآن میں جابجا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو اپنے دست قدرت سے سنوارا اور بنایا، لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے سارے وصف عظیم ہیں، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے کسی وصف کو عظیم نہیں کہا۔ کسی ایک وصف کا نام لے کر اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ خوبی عظیم ہے، سوائے ایک وصف کے اور وہ وصف اخلاق ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ.

(القلم: 4)

’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)‘‘۔

انسان میں مختلف اوصاف/ خصائل ہوتے ہیں، ظاہری و باطنی خوبیاں بھی ہوتی ہیں مگر اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ساری خوبیوں میں سے خُلق کی خوبی کو چنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی رحمت کا ذکر کیا تو فرمایا: وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے توکل، صبر، شکر، یقین، صدق و اخلاص کا ذکر کیا مگر ان تمام اوصاف کی نسبت صرف اخلاق کو عظیم کہا۔

اس گفتگو کا مقصود یہ ہے کہ دین اور سنتِ نبوی میں اخلاق کی اہمیت کو سمجھا جائے۔ افسوس! ہم اس پہلو کو نظر انداز کرچکے ہیں۔ ایک لفظ ’’خَلق‘‘ ہے اور ایک لفظ ’’خُلق‘‘ ہے۔ خَلق ظاہر ہے اور خُلق باطن ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اپنے خَلق میں بھی بے مثال ہیں اور خُلق میں بھی بے مثال ہیں۔

خُلق کا ایک معنی ’’ادب‘‘ بھی ہے۔ عرفِ عام میں ہم نے ادب کا معنی محدود کردیا ہے جبکہ ادب کا تصور نہایت وسیع ہے۔ ادب کا معنی ’’حسنِ سیرت‘‘ ہے۔ ہر کسی کے ساتھ معاملہ اور برتائو کا حسن ’’ادب‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ ادب بندے کا اللہ کے ساتھ بھی ہے اور مخلوق کے ساتھ بھی ہے۔ گویا اللہ، دین، رسول، والدین، اولاد، دوستوں، غیر مسلموں، پڑوسیوں، نیکوں، بدوں ہر ایک کے ساتھ تعلق اور برتائو کی نوعیت کو جاننا ’’ادب‘‘ ہے۔ اصل میں ادب اور خُلق ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔

خوبصورتی، ہمہ گیر اور جامع توازن کا نام ہے۔ جس طرح انسانی جسم میں توازن ہے، اسی طرح انسان کے برتائو، طبیعت، اور مزاج میں بھی ایک توازن ہے۔ اگر ہمارے برتائو کے ہر پہلو میں توازن آجائے تو اس کو اخلاقِ حسنہ کہتے ہیں۔

ہمارا جسم مادی اور ارضی ہے۔ اس کے اندر اللہ نے روح کی شکل میں آسمان/ ملاء اعلیٰ رکھ دیا ہے۔ اندھیرے کے اندر نور رکھ دیا ہے۔ گویا انسان کے اندر زمیں بھی ہے اور آسمان بھی ہے۔ یہ احسن تقویم بھی ہے اور اسفل سافلین ہے۔ اس جوڑ کے اندر گویا اوصاف و رذائل دونوں آئیں گے۔ زمینی خصلتوں میں سے جملہ رذائل حسد، لالچ، بغض، فریب، کینہ، خیانت، جھوٹ سب آئیں گے۔ ان تمام رذائل کا نمائندہ نفس ہے۔ دوسری طرف فنفخت فیہ من روحی کا فیض بھی چونکہ انسان کو حاصل ہے۔ لہذا زمین میں آسمان گیا۔ روح اس جسم میں اپنے اوصاف لے کر آئی۔ اس کے اوصاف و خصلتیں، زمینی اوصاف و رذائل جیسے نہیں ہیں۔ روح ملاء اعلیٰ سے آئی ہے، اس نے وہاں ہر وقت اللہ کی تسبیح ہی سنی اور اللہ کے انوار، ملائکہ اور تجلیات ہی کو دیکھا تھا۔

اس دنیا میں جسم چاہتا ہے کہ انسان میری خصلتوں کے مطابق چلے۔ روح چاہتی ہے کہ انسان میری خصلتوں کے مطابق چلے۔ حُسنِ خُلق یہ ہے کہ جسم فرشی ہو اور طبیعت عرشی ہو۔ اس ملاپ سے یہ ہوگا کہ بشری پیکر میں عرش چلتا پھرتا نظر آئے گا، پھر زمین پر عرش کا سماں ہوگا۔ اس بندے کو اللہ کے حضور جھکنا آئے گا، اس کے اندر سے رذائل نکل جائیں گے۔ اس کا پیکر انسانی ہوگا مگر اندر کے احوال عرشی ہوں گے۔ اس توازن کو حسنِ اخلاق کہتے ہیں۔ باطنی انقلاب اخلاقِ حسنہ کے کامل ہونے سے آتا ہے اور اسی کا نام ولایت ہے۔

دینی عبادات کی روح بھی اخلاقِ حسنہ ہے۔ قرآن مجید میں ارکانِ اسلام میں سے نماز کے باطن کو یوں بیان کیا گیا:

اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰی عَنِ الْفحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ.

’’بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے‘‘

(العنکبوت: 45)

فحاشی اور برے اعمال سے رکنا نماز کی روح ہے۔ جو نماز فحاشی و منکر سے نہ روکے وہ مردہ نماز ہے۔ برے اخلاق فحاشی ہیں اور برے اعمال منکرات ہیں۔ غلط برتائو، سوچ کا گندا ہونا فحاشی ہے۔ تمام برے رویے فحاشی میں آتے ہیں۔ برے رویوں اور برے اعمال سے رکنا نماز کی روح ہے۔ گویا نماز کی روح اخلاق کو سنوارنا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں اس شخص کی نماز قبول کرتا ہوں جو میری عظمت کی خاطر متواضع و منکسر ہوتا ہے۔ اور میری مخلوق پر ظلم نہیں کرتا، میری نافرمانیوں پر اصرار نہیں کرتا، مصیبتوں کے مارے پر رحم کرتا ہے۔ جس میں ایسے اوصاف پیدا ہوجائیں، ان ہی کی نماز قبول کرتا ہوں۔ گویا نماز جن لوگوں کی سیرت میں یہ تبدیلی پیدا نہ کرے تو ان کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ نماز فرض کرنے کا مقصد اخلاق سنوارنا ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات تو ہماری عبادتوں کی محتاج نہیں۔ پھر اس نے ہمیں ان عبادات اور اعمال میں کیوں ڈالا؟ ہم پر عبادت کا بوجھ کیوں ڈالا؟ اپنی ضرورت کے لئے یا ہماری ضرورت کے لئے؟

یاد رکھیں! عبادات اللہ کی ضرورت نہیں، وہ غنی و بے نیاز ہے۔ یہ ہماری ضرورت ہیں، اس لئے کہ وہ ہمارے اخلاق اور رویے سنوارنا چاہتا ہے کہ میں نے تو نماز فرض ہی اس لئے کی ہے تاکہ تم فحشاء اور منکرات سے بچ جائو، اگر مَن نہ بدلے تو تن کو مشکل میں ڈالنے کا کیا فائدہ۔

اسی طرح زکوٰۃ کی روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کیا اڑھائی فیصد اللہ کی اپنی ضرورت ہے؟ نہیں، بلکہ اس سے وہ ہماری تطہیر و تزکیہ کرنا چاہتا ہے۔

یہی حقیقت اور روح دیگر عبادات میں بھی کار فرما ہے۔ تمام ارکانِ اسلام کا مقصود حُسنِ خلق پیدا کرنا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے مبعوث ہونے کا مقصد بھی انسانیت کے اخلاق سنوارنا ہے۔ پورا دین اخلاق سنوارنے کا نام ہے۔ جس کو حسنِ خلق نصیب ہوگیا، اسے پورا دین نصیب ہوگیا۔

یاد رکھیں! عرشی مقام پر عرشی طبیعتوں والے ہی جائیں گے۔ دین کی روح اخلاقِ حسنہ ہے۔ یہی وہ انقلاب ہے جسے ہمیں اپنی زندگیوں میں بپا کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔

3۔ اخلاقِ حسنہ ولایت کی اصل ہیں

23 ویں شبِ رمضان، 18 جون کو شہرِ اعتکاف سے شیخ الاسلام نے اپنے تیسرے خطاب میں ’’ادب‘‘ کی وضاحت کی کہ ’’ادب‘‘ کیا ہے اور دین میں اس کی کیا حیثیت ہے؟ آپ نے فرمایا:

’’ادب‘‘ پوری سیرت پر حاوی ہے۔ سلف صالحین حُسنِ اخلاق اور ادب کو نہایت اہمیت دیتے۔ اخلاقِ حسنہ اور ادب جیسے موضوعات پر وعظ و تلقین اور تاکید کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اور اسلاف کے درمیان کئی صدیوں کا فاصلہ آگیا ہے، اس بناء پر ہماری ترجیحات بدل گئی ہیں۔ دین کا فہم اس فہم پر قائم نہ رہا جس پر قائم ہوا تھا۔ زمانے میں وقت کے ساتھ ساتھ تغیر و تبدیلی آتی ہے۔ مختلف ممالک کے حالات، ثقافت، حادثات، وقائع سے انسانی فکر پر اثرات پڑتے ہیں اور انسانی فکر متاثر ہوتی ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے دین کی تجدید کے لئے کیوں فرمایا کہ 100 سال بعد تجدید ہوگی۔ اس تجدید کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے حالانکہ دین تو زندہ ہے؟

تجدید کی ضرورت اس لئے پیش آتی ہے کہ حالات کے ساتھ سوچ، فکر، معاملات، فتاویٰ اور تصنیف و تالیف میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ عالم کے وعظ و تقریر اور فکرو تحقیق میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے۔ یہ تبدیلی اس ماحول کا اثر ہوتا ہے جس ماحول میں وہ زندہ رہ رہے ہوتے ہیں۔ اِن حالات میں دین کی حفاظت کرنے والے اسی ماحول میں کھڑے ہوکر دین کے اصل چہرے کو بچاتے ہیں۔ اس لئے کہ اگر اساسی چیزوں کو اجاگر نہ کیا جائے تو یہ اساس اور بنیادیں آہستہ آہستہ زمانے کے حالات کے گردو غبار کی نذر ہوجاتی ہیں۔ ان حالات میں ضرورت دین کے چہرہ پر پڑنے والی گردو غبار کو ہٹانا ہے تاکہ دین کا چہرہ اسی طرح اُجلا ہوجائے جس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے عطا فرمایا تھا اور مجدد یہی خدمت سرانجام دے رہا ہوتا ہے۔

یہ اسباق/ موضوعات جو میں آپ کو شہر اعتکاف میں یاد دلارہا ہوں، یہ بھولا ہوا وہ سبق ہے جو زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم فراموش کر بیٹھے ہیں۔ میں نئے زمانے میں چلتے چلتے آپ کو پرانے زمانے میں بھی لے کر چلتا ہوں اس لئے کہ نور حقیقت میں پرانے زمانوں سے ہی ملتا ہے۔ آیئے ’’ادب‘‘ کے حوالے سے اسلاف کے فرامین کا مطالعہ کرتے ہیں:

  • امام ابن سیرین رضی اللہ عنہ  (تابعی) فرماتے ہیں: پہلے زمانے کے اچھے لوگ (یعنی صحابہ کرام) جس طرح علم سیکھتے تھے، اسی طرح ادب اور اخلاق سیکھنے کا بھی اہتمام کرتے تھے۔
  • امام حسن بصری رضی اللہ عنہ  (تابعی) فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص گھر سے صرف ادب اور اخلاق سیکھنے کے لئے نکلے اور اس میں اس کے سالہا سال بھی بیت جائیں تو پھر بھی کم ہیں۔
  • امام حبیب بن شہیدالبصری رضی اللہ عنہ  اپنے بیٹے سے فرماتے ہیں: بڑے علمائ/ صلحاء کی صحبت میں بیٹھا کر اور ان سے صرف علم ہی نہیں بلکہ ادب اور اخلاق بھی سیکھ۔ اگر تم سفر کرکے احادیث سیکھ کر آئو تو مجھے اس سے زیادہ پسند یہ ہے کہ تم اخلاق سیکھ کر آئو۔
  • اولیاء فرماتے ہیں: اگر تو ادب و اخلاق (اچھے برتائو) کا ایک باب سیکھ لے تو یہ علم کے 70 ابواب سیکھنے سے بہتر ہے۔

یاد رکھیں! علم کا معنی ’’جاننا‘‘ ہے اور اس علم کا استعمال ’’ادب و اخلاق‘‘ ہے۔ یعنی قرآن و حدیث سے حاصل ہونے والے علم کو دنیا میں استعمال کیسے کرنا ہے؟ اس کے متعلق ادب اور اخلاق ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔

  • امام ابوعلی الدقاق رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں: بندہ اپنی عبادت کے ذریعے جنت تک تو جاسکتا ہے مگر خدا تک نہیں جاسکتا۔ خدا تک جانے کے لئے ادب و اخلاق کا درست ہونا ضروری ہے۔
  • امام شافعی کو ان کے استاد نے فرمایا: علم اور ادب و اخلاق کا جوڑ آپس میں اس طرح ہے کہ علم نمک کے برابر اور ادب و اخلاق آٹے کی طرح ہو۔

افسوس! ہم ادب و اخلاق کے حوالے سے غفلت کا شکار ہیں۔ علم، کتاب کے بغیر نہیں آتا جبکہ ادب و اخلاق محض ادب و اخلاق والوں کو دیکھنے اور ان کے ساتھ بیٹھنے سے بھی آجاتا ہے۔ ادب و اخلاق کا راستہ آسان ہے مگر شرط یہ ہے کہ مقصد واضح ہونا چاہئے۔ ہم جہاں بھی جاتے ہیں بس چلے جاتے ہیں، ہمیں معلوم نہیں کہ کیا لینے جاتے ہیں۔ جب مقصد قائم ہوجاتا ہے تو سفر آسان ہوجاتا ہے۔ ہم وعظ و تلقین سُن کر صرف ’’واہ واہ‘‘ کرتے ہیں جبکہ ضرورت ادب و اخلاق کے گھونٹ پینے کی ہے۔ زندگی اور سیرت میں ادب و اخلاق آجائیں تو علم کا چشمہ بھی پھوٹ جاتا ہے جبکہ محض علم جتنا مرضی پڑھ لیں، اس سے ادب کا دروازہ نہیں کھلتا۔ جس نے ادب و اخلاق کو نظر انداز کردیا، اس کو پلٹادیا جاتا ہے۔ اس لئے کہ ادب و اخلاق دین کی روح ہے۔

اسی ادب و اخلاق پر احادیث اور ائمہ اسلاف کے اقوال پر مبنی میری تصوف پر عربی زبان میں چار کتب ان شاء اللہ جلد آرہی ہیں، اس میں ایک کتاب ’’الرقائق والحقائق‘‘ ہے۔ یہ تمام اقوال میں نے تفصیلی اس کتاب کے مقدمہ میں درج کئے ہیں۔

  • کبار اولیاء سے پوچھا گیا کہ مخلوق سے اچھا ادب و اخلاق کا برتائو کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا:

مخلوق کی جفا کو ماتھے پر شکن لائے بغیر قبول کرلینا حسن خلق ہے۔ یعنی جفائے خَلق سے نفس متاثر نہ ہو۔ جبکہ ہمارے جھگڑے کا آغاز ہی یہاں سے ہوتا ہے کہ اس نے میرے ساتھ یہ کیا ہے، لہذا میں اس کو معاف نہیں کرسکتا۔ حسنِ اخلاق یہ ہے کہ ملال کے بغیر دوسرے کی زیادتی کو قبول کرلیا جائے۔

مخلوق سے اچھا ادب برتنا یہ ہے کہ تو دوسرے کے ساتھ جتنی بھلائی کرے وہ تجھے قلیل نظر آئے اور اگر دوسرا تجھ سے بھلائی کرے اگرچہ وہ رائی کے برابر ہو مگر پھر بھی وہ تجھے پہاڑ کی طرح نظر آئے۔ اگر زاویہ نگاہ یہ ہوجائے تو یہ حسن خلق ہے۔

بوجھل/ تکلیف دہ چیزوں کو مسکراتے چہروں سے برداشت کرنا حسنِ خلق ہے۔

کسی کو تکلیف نہ دی جائے مگر دوسروں سے تکلیف ملے تو اسے برداشت کیا جائے۔

  • حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: مومنین میں سے اس کا ایمان اعلیٰ ہے جس کا اخلاق سب سے اعلیٰ ہے۔
  • حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: دو خصلتیں مومن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتیں۔ 1۔ کنجوسی 2۔بداخلاقی۔
  • یعنی جس کو کنجوس دیکھو تو جان جائو کہ اس کے مال میں کمی نہیں بلکہ ایمان میں کمی ہے۔ اس لئے کہ سخاوت مال سے نہیں بلکہ دلوں کے حال سے متعلق ہے۔ اس لئے دل کا حال بدلو، نفوس کو سخی کرو۔
  • حضرت ذوالنون مصری فرماتے ہیں: جو اپنے غم کا زیادہ ذکر کرے وہ شخص اچھے اخلاق والا نہیں۔ اس لئے کہ وہ دوسروں کی فکر نہیں کرے گا، اپنے غموں کو ہی لے کر بیٹھا رہے گا۔
  • پوچھا سوئے خلق کیا ہے؟ فرمایا: جس کو دوسرے کی بداخلاقی نظر آئے وہ حسنِ اخلاق کا مالک نہیں۔ اس لئے کہ جس کو اپنے عیب نظر آجائیں وہ دوسروں کے عیب کی طرف نظر نہیں کرتا۔
  • امام محاسبی رضی اللہ عنہ  نے فرمایا: پہلے زمانے میں تین چیزیں ہوتی تھیں مگر اب اس زمانہ میں نہ رہیں:
  1. خوبصورت چہرہ، خوبصورت کردار کے ساتھ
  2. خوبصورت اخلاق، دین کی پختگی کے ساتھ
  3. خوبصورت بھائی چارہ، بددیانتی سے پاک
  •  تصوف، حسن اخلاق کا نام ہے۔ جو اخلاق میں اچھا، وہ تصوف میں اچھا ہے۔

میں نے عظیم ذخیرہ حدیث پر مشتمل اپنی تالیفات جامع السنۃ اور معارج السنن کی تیاری کے دوران 5/6 لاکھ احادیث کے ذخیرہ کو کھنگالا مگر میری نظر سے ایک بھی حدیث ایسی نہیں گزری جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے یہ فرمایا ہو کہ تم میں سب سے زیادہ ایمان والا وہ ہے جس کی عبادات، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ سب سے زیادہ ہوں۔ جس جگہ بھی دیکھا زیادہ اور کامل ایمان کو حسنِ اخلاق کی شرط سے مشروط پایا۔

  • حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: حسنِ اخلاق کا حامل قیامت کے دن آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی قربت میں بٹھایا جائے گا اور قائم اللیل اور صائم النہار میں شمار ہوگا۔
  • ایک اور مقام پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق.

’’مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے‘‘۔

گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے دوھرا کام کیا کہ بندے کو اللہ کا ادب کرنا بھی سکھایا اور بندے کو بندوں کا ادب و اخلاق کرنا بھی سکھایا۔ حقوق اللہ کی کوتاہی تو اللہ معاف کردیتا ہے مگر حقوق العباد میں کوتاہی اللہ بھی اس وقت تک معاف نہیں کرتا جب تک بندہ معاف نہیں کرتا۔ معلوم ہوا حسنِ اخلاق عظیم امور میں سے ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: بندے کے لئے اللہ کی سب سے بڑی عطا خلقِ حسن ہے۔ حسنِ اخلاق کا حامل اللہ کی قربت میں رہائش پائے گا، عرش کا سایہ پائے گا اور جنت کے چشموں سے سیراب کیا جائے گا‘‘۔

(جاری ہے)