شہدائے ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے لیے عوامی احتجاج (رپورٹ)

نوراللہ صدیقی

آرٹیکل 62 اور 63 کا نفاذ، کڑا احتساب، انتخابی اصلاحات

قائد انقلاب کا 15 جولائی کے احتجاج سے خطاب کا مکمل متن

قائد انقلاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے 15 جولائی 2017 ء کو شہدائے ماڈل ٹاؤن کے انصاف بشکل قصاص کیلئے مال روڈ استنبول چوک لاہور میں منعقدہ عظیم الشان احتجاجی جلسہ سے خطاب کیا۔ قائد انقلاب کے تاریخی خطاب کا مکمل متن قارئین مجلہ منہاج القرآن کے مطالعہ کیلئے پیش کیا جارہا ہے۔ احتجاجی جلسہ کی مختصر رپورٹ ،دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کے خطابات اور شہدائے ماڈل ٹاؤن کی یادگار کی افتتاحی تقریب کا مختصر احوال بھی زیر نظر رپورٹ میں شامل ہے۔

’’میں آج پاکستان عوامی تحریک کے ہزار ہا کارکنان کو اور جملہ قائدین کو مبارک باد پیش کرتا ہوں جنہوں نے شہدائے ماڈل ٹاؤن کی یاد میں حصول انصاف ،حصول قصاص کے لئے ایک عظیم الشان احتجاجی مظاہرہ کیا ہے اور ا پنے اس عظیم عزم کو دہرایا ہے کہ ہم ماڈل ٹاؤن کے شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جانے دیں گے اور ان شا اللہ تعالیٰ حصولِ انصاف اور حصولِ قصاص کی قانونی جنگ پر امن طریقے سے جاری رکھیں گے۔

آج ملک ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں اس ملک میں ظلم و جبر، قتل و غارت گری، دہشت گردی، کرپشن اور لوٹ مار کے نظام کو جاری رکھنا ہے یا اس سے نجات حاصل کرنی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 23دسمبر 2012ء لاہور میں مینار پاکستان میں ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا تھا، وہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے ایک دو جلسوں میں سے ایک جلسہ تھا اور عظیم تاریخی اجتماع تھا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے میں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ اگر ہم اس ملک میں آئین وقانون کی بالا دستی چاہتے ہیں، جان و مال، عزتوں کا تحفظ، حقیقی انصاف، حقیقی جمہوریت اور کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 اور63 کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ نافذ کرنا ہوگا اور ملک میں رائج انتخابی نظام کو بدلنا ہوگا۔ اس انتخابی نظام میں انقلابی اصلاحات کرنا ہوں گی اور انقلابی اصلاحات کرنے سے قبل بہت کڑا،سخت اور بے رحم احتساب کرنا ہوگا تاکہ اس نظام کی کرپشن سے تطہیر ہو سکے اور آئین کی روح کے مطابق ہم ایک ایسا معاشرہ وجود میں لاسکیں جو قائداعظم کی امنگوں اور قیامِ پاکستان کے بنیادی نظریہ کے عین مطابق ہو۔

بعد ازاں اسی کے تحت ہم نے جنوری2013 ء میں لانگ مارچ کیا تھا اور5 دن اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا۔آپ کو یاد ہوگا کہ پورے 5دن پوری قوم کو پہلی مرتبہ جھنجھوڑ کر دو باتیں کہی تھیں:

  1. آئین کے آرٹیکل 62، 63 کا نفاذ اور اس ملک میں کڑا احتساب۔
  2. انقلابی نوعیت کی انتخابی اصلاحات ناگزیر ہیں
  3. پھر اس سلسلے میں ہم سپریم کورٹ تک بھی گئے تھے اور کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62، 63 کے ذریعے کرپٹ عناصر کا احتساب کیا جاسکتا ہے اور انہیں پاکستان کی سیاست سے بے دخل کیا جا سکتا ہے۔ یہ سبق میں نے پوری قوم کے کروڑوں افراد کو پڑھایا اور ہر خاص و عام کی زبا ن پر یہ الفاظ تھے کہ آرٹیکل 62، 63 پر عمل کیا جائے۔ اگر اس وقت آرٹیکل 62، 63کو نافذ کردیا گیا ہوتا اور سپریم کورٹ میری درخواست کو منظور کر لیتی تو آج قوم کو یہ دن دیکھنے نہ پڑتے اور یہ گھناؤنے کردار جو پانامہ لیکس کی صورت میں سامنے آئے ہیں، انجام کو پہنچ چکے ہوتے۔

اس جے آئی ٹی کے بارے میں میرے کچھ تحفظات تھے، مجھے کسی خیر کی توقع نہیں تھی، میں سمجھتا تھا کہ یہ نون لیگ کا الیکشن سیل ہے اوراس کے آئندہ کے انتخابات کا ایک منشور تیار ہو رہا ہے۔ میرا یہ خیال سابقہ تجربات ،مشاہدات اور سابقہ تاریخ کی روشنی میں تھا کہ کبھی بھی جرات مندانہ فائنڈنگز نہیں آئیں گی۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میرا تجزیہ پہلی بار غلط ثابت ہوا اور جے آ ئی ٹی کی رپورٹ نے میرے اندازوں اور تجزیے کے برعکس اس گھناؤنے، کرپٹ عناصر کے چہرے کو بے نقاب کردیا ہے۔ میں اس موقع پر جے آئی ٹی کے اراکین کو صمیم قلب سے مبارکباد پیش کرتا ہوں ان کی جرأت ، عرق ریزی اوران کی بے پناہ محنت کے نتیجہ میں جوشاندار تحقیقاتی رپورٹ پیش ہوئی اس پر انہیں مبارک باد دیتا ہوں ۔ یہ کام ناقابل فہم حد تک مشکل تھا، جس کی توقع نہیں کی جارہی تھی لیکن اللہ نے انہیں توفیق دی اور یہ کر گزرے۔

اب اس کے بعد اگلا مرحلہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا ہے۔ جو سمت جے آئی ٹی کی رپورٹ نے متعین کردی ہے اگر فیصلہ اس سمت کے مطابق ہوجاتا ہے تو پھر یہ اس ملک میں کرپشن کے خاتمے کی طرف ایک اہم پیش رفت ہو سکتی ہے مگر دوسری سمت میں یہ بھی سن رہا ہوں کہ صرف نواز شریف صاحب برطرف ہو جائیں اور یہ نظام چلتا رہے۔ میری سمجھ سے بالا تر ہے اگر نواز شریف چلے جاتے ہیں اور انہی کا نامزد کیا ہو اکوئی آدمی ٹیک اوور کر لیتا ہے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ کرپٹ نظام کا فرنٹ مین بدلا مگر کرپشن کے نظام کا تسلسل برقرار ہے۔ تو کیا ملک بار بار ایسے حادثات کا متحمل ہو سکتا ہے کہ ملک سالہا سال لٹ جانے کے بعد پھر کسی نئے پاناما لیکس کا انتظار کریگا پھر سپریم کورٹ کسی نئے کیس کی سماعت کریگی اور پھر کوئی نئی جے آئی ٹی بنے گی پھر اس کی فائنڈنگز آئیں گی اور اس کے نتیجے میں پھر ایک اور نواز شریف برطرف ہوگا؟ اور نظام اسی طرح تسلسل کے ساتھ جاری رہے گا؟ ایسی صورت ہوتی ہے تو اللہ نہ کرے اس میں ملک کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔

ہم نے دیکھا کہ نواز شریف نے اس کرپٹ نظام کو جنم دیا اور کرپٹ نظام نے نواز شریف کو تحفظ دیا، یہ دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ اب کڑا احتساب ہونا چاہیے،ہر اس شخص کا احتساب ہونا چاہیے جو اقتدار میں رہا ، پارلیمنٹ کا ممبر رہا۔ ان سب سے عالیشان محلات، فارم ہائوسز، اندرون بیرون ملک کاروباری کمپنیوں، بنک بیلنس، عالیشان رہن سہن کی منی ٹریل مانگی جائے، اس احتساب میں سابق و حاضر بیوروکریٹس بھی شامل کیے جائیں اور پارلیمنٹ کا نمائندہ بننے کے لئے آگے جو تیار ہیں انہیں بھی اس مرحلہ سے گزارا جائے۔ آرٹیکل 62، 63 کے مطابق اسی طرح جے آئی ٹی قائم کر کے فرداً فرداً سب کا احتساب ہونا چاہیے۔

اس نظام کی اس طرح کی تطہیر کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے اندر جمہوریت حقیقی معنوں میں بحال ہو، ملک میں آئین اور اداروں کی بالا دستی ہو، افراد کی بالا دستی نہ ہو۔ اگر افراد بدلتے رہے اور کرپشن پر مبنی نظام جوں کا توں برقرار رہا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پھر یہ نظام کبھی بھی اداروں کو مضبوط اور مستحکم نہیں ہونے دے گا۔ اسی طرح کے حادثات ہوتے رہیں گے اور قوم ہوا میں معلق رہے گی، اس کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔یہ لمحہ غنیمت ہے ،اس سے فائدہ اٹھایا جائے ۔جے آئی ٹی نے کسی فرد کو نہیں بلکہ پورے نظام کو ننگا کر دیا ہے، اداروں کا کردار بھی ننگا ہو اہے، کئی دہایئوں سے یہ کیس ان کے خلاف چلتے رہے، انہی اداروں سے انہوں نے سٹے آرڈرلیے، انہی اداروں پر اپنی مرضی کے افسران مسلط کیے ،انہیں اداروں نے لکھ کر دیا کہ ہم ان کے پانامہ کیس کی کرپشن کی تحقیقات نہیں کر سکتے ،یہی ادارے جن کے بارے میں جے آئی ٹی نے کہا کہ ان کے ساتھ پورا تعاون نہیں کیا گیا۔

یہ ایک فرد کی کرپشن نہیں بلکہ پورا ایک نظام ہے، یہ کرپشن بیسڈ ایک کلچر ہے ،اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ہمیں اس کرپٹ سسٹم کو ختم کرنا ہوگا اور ہر اس شخص کو جو اس کرپٹ سسٹم کا سہولت کار ہے اسے اٹھا کر جیلوں میں پھینکنا ہوگا۔ کڑے احتساب کے ذریعے ایک بہت بڑی تطہیر کی ضرورت ہے تاکہ آئین اپنی حقیقی روح کے ساتھ بحال ہو اور قانون کی حقیقی بالا دستی قائم ہو، اس ملک میں عدل و انصاف کا راج قائم ہو، ادارے اپنے اندر خود احتسابی کا نظام وضع کر سکیں اور ایسے لوگوں کا کڑا احتساب کریں تاکہ دوبارہ ملک کو لوٹنے کی کسی کو جرأت نہ ہوسکے۔

پانامہ لیکس نواز شریف اور اس کے خاندان کی کرپشن کے سمندر کا ایک قطرہ ہے۔ لندن فلیٹس جو پانامہ لیکس کی صورت میں پکڑے گئے، اس ایک قطرے کو بے نقاب کرنے میں سوا سال لگ گیا اور قوم کا وقت ضائع ہوا، بلند ترین سطح کے اداروں کو اس تحقیق میں شامل ہونا پڑا،اس کے باوجود یہ ابھی صرف بے نقاب ہوئے ہیں مگر ایکشن نہیں ہوا، اگر پورے سمندر کو بے نقاب کرنا ہوگا تو اس کا مطلب ہے صدیاں لگ جائینگی، سو نسلیں گزر جائینگی، تو کیا ملک اس لئے بنا ہے کہ سارے ادارے اسی کام پر لگے رہیں گے؟ اداروں کے اندر ایک جان اور شفافیت ہونی چاہیے تاکہ ایک فرد اداروں کوچیلنج نہ کر سکے۔ حقیقی جمہوریت خود احتسابی پر مبنی ہوتی ہے۔ حقیقی جمہوریت میں قانون، آئین اور ادارے بالا دست ہوتے ہیں۔ افراد آئین و قانون اور اداروں سے مرضی کے فیصلے نہیں لے سکتے۔ بڑے بڑے طاقتور حکمران بھی آئین وقانون اور اداروں کے سامنے کمزور ہو جاتے ہیں، اس نظام کو پاکستان میں نافذ کی ضرورت ہے۔ پانامہ کیس کے نتیجہ میں جو تحقیقات آئی ہیں، اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا یہ لوگ برطرف ہوں گے اور جیل میں جائیں گے مگر اس نظام کو ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ لوٹ مار نہ ہوسکے۔

اسی نظام کو چیلنج کرتے ہوئے ہم نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے زخم سہے، حکومتی مظالم کا سامنا کیااور کررہے ہیں۔ اس باطل نظام کے خلاف ہمارے 23کارکنوں نے جانیں دیں، ہماراخون بہایا گیا، ہم نے 72دن کادھرنا دیا، ہزاروں کارکنوں کو حبس بے جا میں رکھا گیا، سینکڑوں پر دہشتگردی کے جھوٹے مقدمات درج ہوئے، ہم نے اس کرپٹ سسٹم کے خلاف قربانیاں دیں۔ آج کے دن تک ان شہیدوں کے خون کوانصاف نہیں مل سکا۔ ان کے ورثاء کوانصاف نہیں مل سکا، اگر نظام کے اندر شفافیت ہوتی اور اداروں کے اندر کوئی طاقت ہوتی تو 3 سال سے ماڈل ٹاؤن کے سانحہ کا انصاف لینے کے لئے در بدر دھکے نہ کھا رہے ہوتے۔ آج تک قاتلوں میں سے اصل منصوبہ ساز نواز شریف صاحب ، شہباز شریف صاحب اور ان کے حواری وزراء کو طلب ہی نہیں کیا گیا۔ ہماری ایف آئی آر پر کاروائی نہیں کی گئی، اس لیے کہ ادارے ان کوطلب کرنے کی جرأت نہیں رکھتے اور 124پولیس افسران جن کو طلب کیا گیا ان میں سے ایک شخص بھی جیل میں نہیں ہے، کوئی مفرور ہوگئے کچھ کو فرار کروا دیا گیا اور باقی سب کو ترقی دے کر اعلی عہدے دے دئیے گئے۔ یہ ہے اس ملک کا آئین، قانون، انصاف اور جمہوریت۔ کیا پاکستان کی تاریخ میں کوئی واقعہ ایسا رونما ہوا ہے جس میں124پولیس افسران کودہشت گردی کے کیس میں عدالت طلب کرے اور ایک شخص کو بھی جیل نہ ہو ،انہیں ضمانتیں دینے اور کروانے کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔جسٹس باقرنجفی کمیشن کی رپورٹ پبلک کروانے کے لئے ہم ہائی کورٹ میں بیٹھے ہیں اور سپریم کورٹ تک گئے ہوئے ہیں وہ پبلک نہیں ہورہی۔ آخر کوئی تو طاقتور فرد ہے جس نے یہ رپورٹ دبا رکھی ہے اور وہ قانون اوراداروں سے زیادہ طاقتور ہے۔ اگرصرف افراد بدلے اور نظام نہ بدلا تو پھر اس کا مطلب ہے پورا ملک اس طاقتور طبقے اور اشرافیہ کے ہاتھ میں اسی طرح یرغمال رہے گا غریب کو کبھی انصاف نہیں ملے گا۔

آپ دیکھئے کہ جے آئی ٹی جو پاناما لیکس پر سپریم کورٹ نے بنائی، یہ جے آئی ٹی غیر جانبدار بنی، اس کی رپورٹ پبلک بھی ہوگئی، اس کے ایک ایک لفظ کی سب کو خبر ہے، پوری دنیا کو آن لائن یہ رپورٹ میسر آگئی مگر جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ آج تک پبلک نہیں ہوسکی اور ہم سپریم کورٹ سے بار بار مطالبہ کر چکے ہیں۔ میں آج بھی سپریم کورٹ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کو بھی اسی طرح پبلک کیا جائے جس طرح پانا ما لیکس کی جے آئی ٹی کی رپورٹ بے نقاب ہوئی ۔جسٹس باقر نجفی کمیشن رپورٹ آخر پبلک کیوں نہیں ہو رہی ہے؟ یہاں مال لوٹنے کی بات تھی، وہاں جانوں سے کھیلنے کی بات ہے، خون بہایا گیا ہے۔ لہذا وہ رپورٹ بھی پبلک کریں، جو ذمہ دار ہیں ان کو گرفتار کیا جائے، انہیں جیل بھیجا جائے اور ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو اس ملک میں عام قاتل کا ہوتا ہے۔ یہ لوگ قاتل بھی ہیں اور ڈاکو بھی ہیں۔ جو قانون عام دوسرے ڈاکو اور قاتل کے لئے ہے وہ ان قاتلوں اور ڈاکوؤں کے لئے کیوں نہیں ہے؟

ہم اس موقع پر قرارداد پیش کرتے ہیں:

  1. سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کو پبلک کرے۔
  2. اس رپورٹ کی روشنی میں ملزموں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
  3. شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کی درج کروائی گئی ایف آئی آر پر کارروائی کی جائے، جو ایف آئی آر عدالت کے حکم اور سابق آرمی چیف کی مداخلت پر درج ہوئی تاکہ انصاف ہوسکے۔
  4. ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث اور نامزد ان سارے ملزمان کو گرفتار کرنے کا حکم دے اور انہیں شامل تفتیش کرے۔
  5. تین سالوں سے شہیدوں کے جو ورثاء انصاف کے منتظر ہیں ان کو انصاف دلانے کیلئے مؤثرکاروائی کی جائے۔
  6. ان زخمیوں کو انصاف دلایا جائے، ان معذوروںکو انصاف دلایا جائے جو دھکے کھا رہے ہیں۔ انہیں قتل کرنے والے، انہیں زخمی کرنے والے، ان کء جان و مال پر ڈاکہ زنی کرنے والے طاقتور حکمران دندناتے پھررہے ہیں۔

میں امید کرتا ہوں کہ جس طرح پانامہ کیس میں ایک آزاد جے آئی ٹی نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ دی ہے اس سے ملک کے ایک بہتر مستقبل کا راستہ کھلتا ہوا نظر آرہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک اور کیس ماڈل ٹاؤن کے شہیدوں کا بھی انصاف کا منتظر ہے۔ سپریم کورٹ مظلوموں،محروموں،یتیموں اور بیواؤں کی آہوں کو سنے اور انہیں انصاف دلودانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ قوموں کے پاس یہ لمحے ہمیشہ نہیں آتے، کبھی کبھی آتے ہیں۔ پاناما کیس میں ان کی ڈاکہ زنی اور ماڈل ٹاؤن میں ان کا قاتل ہونا بے نقاب ہوگیا۔ یہ ان کے دو بڑے گھناؤنے جرم ہیں، اس کے بعد بھی اگر ملکی ادارے اور قوم ان کو برقرار رکھتے ہیں یا ان کے قائم کردہ نظام کو برقرار رکھتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ پھر پاکستان کے مستقبل کے بارے میں دعا ہی کی جاسکتی ہے۔ یہ لوگ، کرپٹ نظام اور پاکستان اکٹھے نہیں چل سکتے۔ ہمیں دو میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔

اس موقع پر میں پاکستان عوامی تحریک کے جملہ قائدین اور جملہ کارکنان کو اور تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو جو ہمارے ساتھ اس احتجاج میں شریک ہوئے ہیں، مبارک باد بھی دیتا ہوں اور جملہ جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنان کی شرکت پر ان کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں۔ میڈیا کے تمام اراکین اور پرنٹ میڈیا ، الیکٹرونک میڈیا ،فوٹو گرافرز اور باقی شرکا شہریوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے آج کے پورے احتجاج کو کور کیا اور میری آواز کو لوگوں تک پہنچایا ۔اللہ اس قوم کا حامی و ناصر ہو، مدد گار ہو۔ وہ وقت جلد آئے جب ظلم کی اندھیری رات کا خاتمہ ہوگا اور عدل و انصاف کی بالادستی کا سویرا طلوع ہوگا۔

دیگر جماعتوں کے قائدین کا اظہارِ خیال:

پاکستان عوامی تحریک کے احتجاجی جلسے سے پی پی پی کے سنیئر رہنما میاں منظور احمد وٹو، جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ، تحریک انصاف کے میاں محمود الرشید،چوہدری محمد سرور، سنی اتحاد کونسل کے صاحبزادہ حامد رضا، MQM پاکستان کے سینیٹر عتیق الرحمان،پی ایس پی کے بیرسٹر مختار احمد، غلام محی الدین ایوان، مسلم لیگ ق کے میاں محمد منیر، خرم نوازگنڈا پور،رفیق نجم،جواد حامد،ساجد بھٹی،افضل گجر ،حافظ غلام فرید، میاں کاشف اور تنزیلہ امجد شہید کی بیٹی بسمہ نے بھی خطاب کیا۔

بسمہ نے کہا کہ میں ایک شہیدہ کی بیٹی کی نسبت سے اور مریم نواز کرپٹ باپ کی بیٹی کی نسبت سے تاریخ میں یاد رہے گی۔

میاں منظور احمد وٹو نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میاں نواز شریف، حسنی مبارک اور کرنل قذافی کی طرح اقتدار اپنی آئندہ نسلوں تک محدود رکھنا چاہتے ہیں،لیکن ان کا انجام بھی یاد رکھیں۔ڈاکٹر طاہر القادری عالم اسلام کے عظیم سکالر ہیں ،ان کے کارکنوں کو خون میں نہلانا بد ترین ظلم ہے۔

میاں محمود الرشید نے کہا کہ میرا مطالبہ ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس اور اسکی ایف آئی آر پانامہ کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے ممبران کے سپرد کریں۔ قوم گو نواز گو کے نعرے پر اکٹھی ہو چکی۔یہ ماڈل ٹاؤن کیس پر پھانسیاں چڑھیں گے اور جسٹس باقر نجفی کمشن کی رپورٹ بھی جلد پبلک ہوگی۔

پی ٹی آئی رہنماچودھری محمد سرور نے کہا کہ جے آئی ٹی کے ویڈیو ریکارڈ کے ساتھ ساتھ جسٹس باقر نجفی کمشن کی رپورٹ کو بھی پبلک کیا جائے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مکمل انصاف تک ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔

جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ17جو ن آمرانہ ذہنیت کا وار تھا، اہل سیاست، اہل دین اس ظلم پر خاموش رہے تو پھر ظالموں کا ہاتھ کوئی نہیں روک سکے گا۔ میںشیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کو جانتا ہوں، انکا جپھا انکے خاتمہ کا سبب بنے گا۔ 17جون کے مظلوموں کی آہوں کی وجہ سے وزیر اعظم اللہ کی گرفت میں ہیں۔ جے آئی ٹی نے حکمران خاندان کا ایم آر آئی اور ایکسرے کر دیا۔ حکمرانوں کے جرائم کی فہرست بڑی طویل ہے، کرپشن کی وجہ سے انہوں نے قومی سیاست کا شیرازہ بکھیر دیا۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے انصاف کی راہ میں حکمران رکاوٹ ہیں۔

سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ جسٹس باقر نجفی کمشن کی رپورٹ پبلک نہ ہوئی تو ڈاکٹر طاہر القاری کے کندھے سے کندھا ملا کر احتجاج کریں گے۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، سلطنت شریفیہ نہیں۔ انکی گردنوں پر لاتعداد مظلوموں کا خون ہے۔اشرافیہ گردنوں کا مقدر صرف پھانسی کے پھندے ہیں۔

ایم کیو ایم پاکستان کے سینیٹر عتیق الرحمان نے کہا کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور انکے جرات مند کارکنوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کو دبنے نہیں دیا،انصاف ہو کر رہے گا، میں معزز ججز سے ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں جسٹس باقر نجفی کمشن کی رپورٹ کو پبلک کریں۔ انہوں نے ڈاکٹر طاہر القادری زندہ باد کے نعرے بھی لگوائے۔

غلام محی الدین دیوان نے کہا کہ پاکستانی قوم کا واسطہ بے ایمان حکمرانوں سے پڑا ہے جو پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر بھی جھوٹ بھی بولتے ہیں۔

مجلس وحدت المسلمین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ اقبال حسین نے کہا کہ عوام نے کرپٹ حکمران خاندان کو مسترد کر دیا ہے۔ یہ ریاستی اداروں پر حملوں کے منصوبے بنا رہے ہیں مگر یہ اپنے ناکام ارادوں میں کبھی کامیاب نہیں ہونگے۔ جسٹس باقر نجفی کمشن رپورٹ پبلک کی جائے۔

پی ایس پی کے بیرسٹر مختیار احمد نے شہدائے ماڈل ٹاؤن کے انصاف کیلئے عوامی تحریک کے موقف کی حمایت کی۔

اس احتجاجی جلسہ میں خواتین کی بھرپور شرکت پر سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کا شکریہ ادا کیا۔ ویمن لیگ، یوتھ لیگ کی اور ایم ایس ایم کی بھرپور نمائندگی پر اِن فورمز کے سربراہان اور ذمہ داران کو مبارک باد دی۔ رفیق نجم، جواد حامد، ساجد بھٹی نے شاندار طریقے سے سٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دئیے۔

تقریب رونمائی یادگارِ شہداء

30 جون کو قائدانقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے شہدائے انقلاب کی یادگار پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور اس حوالے سے منعقدہ دعائیہ تقریب سے خصوصی خطاب بھی کیا۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن کی یاد میں منعقدہ تقریب سے پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما قمر زمان کائرہ، میاں منظور احمد وٹو، اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید، اعجاز چودھری، فردوس عاشق اعوان، بریگیڈیئر فاروق حمید، فیاض وڑائچ، بریگیڈیئر(ر) محمد مشتاق، بشارت جسپال، میاں منیر، علامہ سید ضیاء اللہ شاہ بخاری، حافظ محمد علی یزدانی، پاسٹر سیموئل و دیگر رہنمائوں نے خصوصی طور پر شرکت کی ۔اس موقع پر مسیحی بھائیوں نے شہداء کی یادمیں شمعیں بھی روشن کیں۔

23شہدائے انقلاب کی ایک یادگار منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ کے مرکزی دروازے پر قائم کی گئی ہے۔ یادگار شہداء پر شہداء انقلاب کے اسماء گرامی تنزیلہ امجد، شازیہ مرتضیٰ، محمد عمر صدیق، صوفی محمد اقبال، عاصم حسین، غلام رسول، حکیم صفدر علی، محمد شہباز اظہر، محمد رضوان خان، قاری خاور نوید، محمد آصف علی، رفیع اللہ نیازی، ڈاکٹر محمد الیاس، عبد المجید، شکیلہ بی بی، حمیرا امانت، سیف اللہ چٹھہ، ملک محمد یونس اعوان، ظہور احمد، رفیع اللہ، گلفام ولید بھٹی، محمد عزیز، محمد نوید رزاق بھی کنندہ کئے گئے ہیں۔

اس موقع پر قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اس عزم کا اظہار کیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں کو ریمنڈ ڈیوس نہیں بننے دینگے۔ جب تک سانس ہے شہداء کا قصاص مانگتے رہیں گے اور میری آئندہ نسلیں بھی قاتلوں سے قصاص مانگتی رہیں گی۔