اداریہ: پانامہ فیصلہ، نیب ریفرنسز اور نظام بدلنے کی باتیں

28 جولائی 2017 کا دن ملکی تاریخ میں اس اعتبار سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں پہلی بار وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھے ہوئے طاقتور شخص کا احتساب ہوا اور اسے سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے متفقہ طور پر نااہل قرار دیا، ایک ایسا شخص جو 35 سال سے موجودہ نظام کا سب سے بڑا کھلاڑی اور ’’بینی فیشل اونر‘‘ چلا آرہا تھا جب اس سے غیر ملکی اثاثوں کی منی ٹریل مانگی گئی تو اس نے قدم قدم پر جھوٹ بولا اور آج ڈھٹائی کے ساتھ پوچھ رہا ہے کہ میرا قصور کیا ہے اور مجھے کیوں نکالا؟سپریم کورٹ کا متفقہ فیصلہ آچکا ہے لیکن ایک والیم نمبر 10 کھلنا باقی ہے، یقینا جب یہ والیم کھلے گا تو بہت کچھ مزید کھلے گا، ابتدا میں ملزمان کی طرف سے مطالبہ کیا جاتا رہا کہ اسے بھی کھولا جائے مگر جب معزز ججز نے مجرمان کے وکلاء کو والیم نمبر 10دکھایا تو اس کے بعد اسے کھولنے کا ذکر بھی نہیں کیا گیا، امید ہے یہ والیم بھی جلد کھلے گا اور عوام کو حکمران خاندان کے دیگر جرائم کے بارے میں بھی آگاہی حاصل ہوگی۔

جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ مجھے کیوں نکالا، یہ سوال معصوم عوام کو گمراہ کرنے کیلئے اور اس کا تعلق آئندہ کی انتخابی مہم سے ہے، ورنہ انہیں بھی پتہ ہے کہ انہیں کیوں نکالا گیا۔ کرپشن کیسز سے متعلق فیصلے نیب سے آئیں گے اور احتساب عدالت سنائے گی، سپریم کورٹ نے اپنے متفقہ فیصلے میں 13 مالی بدعنوانیوں کے حوالے سے نیب کو تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے، ان میں ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کا ریفرنس ہے جو پیسے سعودی عرب سے لندن شفٹ کرنے سے متعلق ہے، فلیگ شپ انویسٹمنٹ کا تعلق دبئی میں کاروبار سے متعلق ہے، کیپیٹل ایف زیڈ ای کا معاملہ تنخواہ اور اقامہ سے متعلق ہے، رمضان شوگر مل قرضہ لے کر واپس نہ کرنے سے متعلق ہے، اسی طرح حمزہ سٹمنگ مل، محمد بخش ٹیکسٹائل مل، محمد رمضان ٹیکسٹائل قرضہ لے کر واپس نہ کرنے سے متعلق ہے، حدیبیہ پیپر مل قرضہ لے کر کمپنی کو دیوالیہ ظاہر کرنے، معاف کروانے اور لندن میں پراپرٹی خریدنے سے متعلق ہے، اسی طرح اتفاق شوگر مل، انصاف ٹیکسٹائل لمیٹیڈ، حدیبیہ انجینئرنگ کمپنی قرضوں اور تحائف کے معاملات سے متعلق 13 ریفرنس دائر کرنے کا نیب کو حکم ملا ہے۔ اس کے علاوہ جو سب سے اہم حکم ہے، وہ اعلانیہ و غیر اعلانیہ کی اثاثوں کی چھان بین سے متعلق ہے کہ نیب ازخود بھی چھان بین کر سکتا ہے۔

یہ وہ سارے ریفرنس ہیں جو کرپشن سے متعلق ہیں جب ان کے فیصلے آئیں گے تو ’’مجھے کیوں نکالا گیا‘‘ کا راگ الاپنے والے کو علم ہو جائے گا کہ انہیں کیوں نکالا گیا۔ بات پاناما لیکس سے شروع ہوئی تھی مگر سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران مزید حیرت انگیز انکشافات سامنے آئے۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے 2014 ء کے دھرنے میں اشرافیہ کے جرائم سے متعلق جو حقائق قوم کے سامنے رکھے تھے، ان کی کرپشن کے بارے میں قوم کو جو کچھ بتایا اور سنایا تھا، آج سپریم کورٹ نے ان پر تصدیق کی مہر ثبت کر دی اور ان کی مالی بدعنوانیوں کے خلاف دنیا بھر سے شہادتیں آئیں اور مزید آئیں گی۔ ابھی تک ریفرنس دائر کرنے سے متعلق نیب نے گرم جوشی نہیں دکھائی، تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ ریفرنسز کی مانیٹرنگ کے حوالے سے سپریم کورٹ کے جج کی نگرانی ایک صائب فیصلہ ہے، اس فیصلے سے نیب کو ڈنڈی مارنے کی جرأت نہیں ہوگی۔ جس طرح جے آئی ٹی کی مانیٹرنگ کیلئے ججز کو نگران مقرر کیا گیا تھا اور جے آئی ٹی نے اپنا کام انتہائی ایمانداری اور سبک رفتاری کے ساتھ مکمل کیا، اس دوران جے آئی ٹی ممبران کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں، کردار کشی کی کوشش بھی کی گئی مگر سپریم کورٹ کی براہ راست مانیٹرنگ کے باعث معاشی دہشتگرد خاندان تحقیقات کے عمل میں رکاوٹ کھڑی نہ کر سکا اور الحمداللہ آج ایک خائن کا اصل چہرہ قوم کے سامنے آچکا ہے۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ خلاف آنے کے بعد نواز شریف نے انقلاب اور نظام بدلنے کی باتیں شروع کر دیں، یقینا یہ گفتگو کسی صحت مند انسان کی نہیں ہو سکتی، یہ فیصلے کا وہ جھٹکا ہے جس نے دماغ پر اثر کر دیا ورنہ منہ میں سونے کا چمچ لیکر پیدا ہونے والے پیدائشی سرمایہ دار کا انقلاب اور نظریے سے کیا لینا دینا۔ یہی وہ شخص ہے جس نے 35 سال تک اس ظالم نظام کو پالا پوسا، اسے پروموٹ کیا اور پھر اس سے اپنا خاندانی اقتدار مستحکم کیا، مالی فوائد حاصل کیے، دنیا بھر میں دولت کے ڈھیر لگائے، آف شور کمپنیاں بنائیں، شخصی آزادیوں کو سلب کیا، آئین کو پامال کیا، عوام کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا، تعلیم، صحت، روزگار اور فوری انصاف جیسی بنیادی ضرورتیں پوری نہ ہونے دیں، دولت کو مخصوص منصوبہ جات پر خرچ کرکے بڑے بڑے کمیشن لیے، ترقیاتی فنڈز کے نام پر اراکین اسمبلی کو کرپٹ اور لالچی بنایا، اقرباپروری کو پروان چڑھایا اور قومی اداروں میں ایسے لوگوں کو بٹھایا جن کا ماضی لوٹ مار اور کرپشن سے داغدار تھا۔

ایسے عناصر نے قومی اداروں پر مسلط ہو کر ان کو غیر فعال کر دیا، نیب مجرموں کو سزائیں دینے کی بجائے ان کو جزائیں اور دعائیں دینے لگا، ایف بی آر نے ٹیکس چوری روکنے کی بجائے ٹیکس چوروں کو تحفظ دیا، ایف آئی اے نے سائبر کرائم کو روکنے کی بجائے حکمران خاندان کا تحفظ کیا، سٹیٹ بینک میں منی لانڈرنگ کرنے والوں کو بڑے بڑے عہدے دیے گئے، نیشنل بنک جیسے ادارے کو ایک فراڈیے کے ہاتھ گروی رکھا گیا، پولیس کو خاندانی باڈی گارڈ کا درجہ دیا اور اس ظالم نظام کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والے ڈاکٹر محمد طاہر القادری اور ان کے کارکنوں پر پاکستان کی زمین کو تنگ کرنے کیلئے ہر ہتھکنڈا اختیار کیا۔

17 جون 2014 ء کے دن جو 14لاشیں گرائی گئیں وہ انقلاب کی آواز دبانے کیلئے گرائی گئیں، اسلام آباد میں 30 اور 31 اگست کی رات نظام بدلنے کی بات کرنے والوں پر بارود کی بارش کی گئی، وہاں بھی لاشیں گرائی گئیں، آج یہ شخص کس منہ سے انقلاب اورنظام بدلنے کی باتیں کررہا ہے۔ یہ تو جمہوریت کو خاندانی بادشاہت اور ظلم کے نظام سے ہم آہنگ کرنے والا ہے۔ آج بھی ان کے انقلاب کا نعرہ آئین میں سے آرٹیکل 62 اور 63 سمیت ہر اس شق کو نکالنے کیلئے ہے جو امانت اور دیانت کا تقاضا کرتی ہے لیکن ان شاء اللہ تعالیٰ یہ خائن اور اس کا کوئی حواری اب کوئی نیا ڈرامہ نہیں رچا سکے گا۔

نااہلی کے بعد لوٹ مار کی دولت کا حساب کتاب باقی ہے۔ یہاں اس امر کا ذکر انتہائی ضروری ہے کہ نیب آرڈیننس سیکشن 12 کے تحت انکوائری کے آغاز پر ہی جس شخص کے خلاف انکوائری ہو رہی ہو اس کی تمام جائیداد ’’فریز‘‘ کی جا سکتی ہے اور نیب ایسے شخص کو جس کے خلاف انکوائری کا آغاز ہو سیکشن 24 کے تحت گرفتار کر سکتی ہے۔ اسی سال جنوری 2017 ء میں ریفرنس نمبر 28/2014  میں میاں مرسل نامی ایک شخص کو لیسکو نے 22 لاکھ روپے کا بل بھجوایا جو غلط بھجوایا گیا تھا، لیسکو نے اس کا کیس نیب کو بھجوا دیا، نیب نے ریفرنس ملتے ہی نہ صرف شہری کو گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا بلکہ اس کی 56 کنال اراضی بھی فریز کر دی تھی، شہری کی طرف سے بارہا درخواست کی کہ اراضی بیچنے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ بل ادا کر سکے، نیب نے یہ اجازت بھی نہ دی۔ ہم نیب سے سوال کرتے ہیں کہ وہ شریف خاندان کے معاملے میں انہی قوانین کا استعمال کرنے کے حوالے سے خوفزدہ کیوں ہے؟اور دوہرے معیار کیوں ہیں؟ ان سطور کے ذریعے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ شریف برادران اور ان کے خاندان کے خلاف بلاتاخیر ریفرنس دائر کیے جائیں اور ریفرنس دائر کرنے کے بعدان کی تمام جائیدادوں کو فریز کیا جائے اور گرفتارکر کے انکوائری کی جائے۔ اگر نیب کے قوانین پاکستان کے عام شہری پر لاگو ہو سکتے ہیں تو اس شخص پر کیوں نہیں جسے سپریم کورٹ کے ججز نے متفقہ طور پر خائن قرار دیا ہے۔

چیف ایڈیٹر