حسن کلام، ادبِ گفتگو، صاحب حلم ہی صاحب علم ہے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

شہرِ اعتکاف سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطابات کا خلاصہ

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: طالب حسین سواگی

گذشتہ سے پیوستہ
اِمسال شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہرِ اعتکاف 2017ء میں ’’اخلاقِ حسنہ‘‘ کے موضوع پر انتہائی ایمان افروز تربیتی و اصلاحی خطابات فرمائے۔ ان 9 خطابات میں سے پہلے 3 خطابات کی تلخیص ماہ اگست2017ء کے شمارہ میں شائع ہوچکی ہے۔ بقیہ خطبات کی تلخیص نذرِ قارئین ہے:

4۔ حسنِ کلام، ادبِ گفتگو:

24 ویں شبِ رمضان، 19 جون 2017ء کو شہرِ اعتکاف سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ادب الکلام (گفتگو کے آداب) کے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا:

’’اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا.

’’اور عام لوگوں سے (بھی نرمی اور خوش خُلقی کے ساتھ) نیکی کی بات کہنا‘‘

(البقرة: 83)

اس آیت میں کلام کرنے کا ادب/ خلق سکھایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے للناس فرماکر ہر ایک کو اس دائرہ میں شامل کردیا کہ ہر طبقہ اور ہر قسم کے لوگوں سے عمدہ طریق سے گفتگو کرو۔ جس طرح اقیموالصلوۃ اور دیگر عبادات کا حکم دیا اس طرح قولوا فرماکر آداب گفتگو سکھائے۔ یہ حکم بھی دیگر عبادات کی طرح ہے۔ یہ اللہ کے اوامر میں سے ہے، جو اس پر عمل نہیں کرے گا وہ اللہ کے حکم کا نافرمان بنے گا۔ نیز یہ حکم بھی دیا کہ جو بات کرو اس میں خیر بھی ہو۔ گویا اللہ تعالیٰ نے آیت مبارکہ میں ایک طرف بات کرنے کا سلیقہ بھی بتادیا کہ اچھے انداز سے بات کرو اور دوسری طرف کلام کا Content بھی بتادیا کہ کلام خیر اور بھلائی پر مبنی ہونا چاہئے۔

  • اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نرمی اور خوش خلقی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ.

’’اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے‘‘

(آل عمران: 159)

اس آیت میں تین چیزیں بیان ہوئی ہیں:

1۔ گفتگو کی درشتی 2۔ دل کی سختی 3۔ مخلوق سے وابستگی

گویا پہلی دو چیزوں کو عاشقوں کے ہجوم کے ساتھ جوڑا کہ دل میں خیر خواہی ہو اور کلام میں نرمی ہو تو مخلوق کے ساتھ محبت کا رشتہ قائم ہوتا ہے۔ برتن بندے کا کلام ہے اور اس میں موجود مشروب اللہ کا پیغام ہے۔ اگر کلام کا برتن اچھا نہ ہوا تو پیغام کے مشروب کو کون پئے گا۔ زبان اگر سخت ہے تو بیان تاثیر نہیں لاتا۔

  • اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

اَلرَّحْمٰنُ. عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ. خَلَقَ الْاِنْسَانَ. عَلَّمَهُ الْبَيَانَ.

’’(وہ) رحمن ہی ہے۔ جس نے (خود رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو) قرآن سکھا یا۔ اُسی نے (اِس کامل) انسان کو پیدا فرمایا۔ اُسی نے اِسے (یعنی نبیِ برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مَا کَانَ وَمَا یَکُون کا) بیان سکھایا‘‘

(الرحمٰن: 1تا4)

ان آیات میں پیغام ہے کہ جب اللہ نے انسان کو بیان کرنا سکھایا تو اس نے اس بات کو بیان کرنے سے پہلے اپنی صفت ’’الرحمن‘‘ کو بیان کیا۔ اس اسلوب سے یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ اے بندے تیرا بیان اس وقت میرا ہوگا جب اس میں رحمت کی جھلک ہوگی۔ الرحمن ایک چشمہ ہے اس سے علم القرآن کا پانی نکلا۔ لہذا جب آپ قرآن سکھائیں اور تعلیم و تربیت کریں تو اس میںبھی رحمت کا عنصر نمایاں ہونا چاہئے۔

  • حضرت ابوشریح رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ یارسول اللہ! مجھے وہ ایک چیز بتائیں کہ جو مجھ پر جنت واجب کردے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

طِيْبُ الْکَلاَمِ وَبَذْلُ السَّلَامِ وَاِطْعَامُ الطَّعَامِ.

’’میٹھی گفتگو کرنا، سلام پھیلانا اور کھانا کھلانا‘‘۔

  • حضرت جابر بن عبداللہ الانصاری روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَلْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَيْسَ لَهُ الْجَزَاءُ اِلَّا الْجَنَّة.

’’مقبول حج کی جزا جنت کے سوا کچھ نہیں‘‘۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ کس چیز نے اس حج کو مقبول بنایا؟ فرمایا:

اطعام الطعام وطيب الکلام.

معلوم ہوا کہ اگر زبان میں مٹھاس نہیں، دلوں میں سخاوت نہیں تو حج بھی مقبول نہیں۔

  • حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ پوچھا گیا یارسول اللہ ! بِرْ (نیکی) کیا ہے؟ فرمایا:

جس میں تین خوبیاں جمع ہوجائیں اس نے نیکی کو پالیا:

1۔ سخاوت نفس 2۔ تکلیف پر صبر 3۔ عمدہ کلام

گویا من کی کنجوسی (گھٹن، تنگی) ختم ہو تو ہاتھوں اور زبانوں میں سخاوت آتی ہے۔ معاشرے میں ہمیں جو تنگیاں آتی ہیں،یہ نفس کی تنگی ہے۔ نفس میں تنگی و کنجوسی آنے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا اللہ پر ایمان و یقین کمزور ہے۔ ہم کسی کو مال/ عزت دینے سے کتراتے ہیں کہ کہیں یہ عزت دار اور مالدار نہ ہوجائے حالانکہ عزت و مال دینے والا اللہ ہے‘‘۔

5۔ تحمل و بردباری: صاحبِ حلم ہی صاحبِ علم ہے:

25 ویں شبِ رمضان 20 جون کو شیخ الاسلام نے ہزاروں معتکفین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

دین کا مغز، خلاصہ اور نچوڑ خلقِ حسن، حسنِ معاملہ، حسنِ ادب، حسن سیرت اور خوبصورت برتاؤ ہے۔ دین ہمیں آداب، خصائل، برتاؤ، رویے اور معاملہ کرنے میں نرم دیکھنا چاہتا ہے۔

مذکورہ اخلاق حسنہ کی جملہ تعلیمات کا تعلق ذاتی معاملات سے ہے مگر جب اجتماعی بات آئے تو وہاں اخلاق حسنہ کا تقاضا یہ ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کا کردار ادا کیا جائے۔ اگر کوئی ذاتی سطح پر ہمیں تکلیف پہنچائے تو وہاں عفوودرگزر اور تحمل و بردباری کا حکم ہے مگر جہاں دین اورمعاشرے کا مسئلہ آئے تو وہاں دین کا دفاع کرنا ہی اخلاقِ حسنہ ہے۔ گویا ظالم کے خلاف کھڑے ہونا اور مظلوم کی مدد کرنا اخلاق حسنہ کا حصہ ہے اور مظلوم کی مدد نہ کرنا بدخلقی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَحَلِيْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِيْبٌ.

’’بے شک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے متحمل مزاج، آہ و زاری کرنے والے، ہر حال میں ہماری طرف رجوع کر نے والے تھے‘‘

(هود، 11: 25)

اس آیت میں حضرت ابراہیم کی تین صفات بیان کیں۔ ان صفات میں پہلی صفت کا تعلق مخلوق سے ہے اور بقیہ صفات کا تعلق اللہ کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان صفات کو بیان کرتے ہوئے پہلے تحمل و بردباری کی صفت بیان کی جس کا تعلق بندوں کے ساتھ ہے۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، ہمارے کلام جیسا نہیں کہ جس لفظ کو جس مرضی ترتیب سے لکھ ڈالیں۔ اللہ کے کلام میں الفاظ کی ترتیب بے معنی و بے جگہ نہیں ہوتی۔ قرآن کی بلاغت کی شان یہ ہے کہ جس جگہ جو لفظ آیا ہے اس سے بہتر کوئی اور جگہ تھی ہی نہیں۔ اسی طرح کوئی صیغہ، حرف، شد اور مد بھی ایسی نہیں جو بہترین جگہ اور بہترین ترتیب کے ساتھ نہ ہو، یہ اعجاز القرآن ہے۔

اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَحَلِيْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِيْبٌ کے ذریعے پیغام دیا کہ تحمل و برداشت کو اپناؤ گے تو رب تمہیں بھی اپنا بنالے گا۔ اللہ فرمارہا ہے کہ اے بندے! میرے ہاں گریہ و زاری کرنا ہے تو پہلے میرے بندوں کے ساتھ بردباری کر، تیری اس بردباری کو دیکھ کر تیری گریہ و زاری کی قبولیت یا عدم قبولیت کا فیصلہ کیا جائے گا۔

  • حضرت ابراہیم علیہ السلام  کی عمر جب 90 سال تھی تو انہوں نے اللہ سے دعا کی کہ

رَبِّ هَبْ لِيْ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ.

’’میرے اللہ مجھے صالح فرزند عطا فرما‘‘

(الصافات، 37: 100)

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام  کی دعا کا جواب دیا:

فَبَشَّرْنٰـهُ بِغُلٰمٍ حَلِيْمٍ.

’’ہم نے اسے بردبار/ تحمل مزاج بیٹے کی خوشخبری دی‘‘

(الصافات، 37: 101)

معلوم ہوا کہ صالح وہی ہے جس کی طبیعت میں بردباری ہے۔ بردباری کے بغیر صالحیت نہیں ہے۔ غصہ آگ سے ہے اور شیطان بھی آگ سے ہے۔ لہذا غصہ نکال دو اور بردباری اختیار کرو۔

  • حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عبدالقیس اشج رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

تمہارے اندر دو ایسی خصلتیں ایسی ہیں کہ اللہ ان سے پیار کرتا ہے (اگر اللہ پیار نہ کرتا ہو تو اللہ کے نبی کبھی ایسا نہیں فرماتے)

1۔ حلم 2۔ وقار و تمکنت

لہذا ہماری طبیعت میں بردباری، تواضع، انکساری ہو۔ بردباری اور تواضع و انکساری ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں۔ اگر بردباری نہ ہو تو تواضع و انکساری نہیں آسکتی۔ دوسری صفت یہ بیان کی کہ تحمل کے ساتھ ساتھ طبیعت میں وقار بھی ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے امتی کو اور اللہ اپنے بندے کو نرم اور باوقار دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ دین کا کام کرنے والا باوقار دکھائی دے۔ ستھرا لباس پہنے۔ اس لئے کہ ان اللہ جمیل ویحب الجمال۔ لہذا طبیعت میں انکسار ہو اور شخصیت میں وقار ہو۔ اللہ چاہتا ہے کہ میرا بندہ باوقار لگے۔ ایسا وقار کہ اس میں تکبر و رعونت نہ ہو۔

  • حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا آج میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ کس شخص پر دوزخ حرام کردی گئی ہے؟

فرمایا: جس کی خوش اخلاقی کے باعث لوگ اس کے قریب ہوتے ہیں، وہ شخص جس کی طبیعت اور مزاج میں نرمی ہوتی ہے اور وہ شخص جو برتاؤ کے اعتبار سے آسان سمجھا جائے یعنی دلیل سے بات کی جائے تو مان جاتا ہے۔ اس پر دوزخ حرام ہے۔

  • حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

علم سیکھو اور علم کی خاطر وقار اور بردباری سیکھو۔ وقار اور تحمل سیکھنا علم پر مقدم ہے۔ اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے ہیں کہ دین کا عالم پر وقار لگے۔ لہذا علم سیکھنے سے پہلے وقار سیکھو۔ جس عالم کو حکمران ہلکا اور معمولی جانیں اور اس سے نہ ڈریں تو وہ عالم جان لے کہ اس کے پاس علم نہیں، وہ حکمرانوں کا سائل ہے۔ جس کے پاس علم ہوگا اس کے پاس وقار بھی ہوگا۔

  • امام شافعی فرماتے ہیں: علم کی زینت ورع اور تقویٰ ہے اور ورع و تقویٰ کی روح زہد، بے نیازی اور بردباری ہے۔ سب سے اعلیٰ جوڑ حلم اور علم کا ہے۔ صاحبِ علم وہ ہے جو صاحبِ حلم ہے۔
  • حضرت عامر الشعبی نے فرمایا: علم کی زینت اہلِ علم کا حلیم ہونا ہے۔ اگر علم کے ساتھ حلم مل جائے تو علم نافع ہوجاتا ہے۔ اس میں فیض اور برکت آجاتی ہے۔ یہ تمام اخلاق حسنہ کے شجر کی فروع ہیں۔ یہ تمام چیزیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق میں جمع ہیں۔

6۔ الحب فی اللہ: سنگت اور رفاقت کے ثمرات:

رمضان المبارک کی 26 ویں شب، 21 جون کو شیخ الاسلام نے شہرِ اعتکاف میں موجود حاضرین سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا:

ایمان اور اللہ کے قرب کا مدار، آخرت کے بے حساب اجر اور اللہ کی محبت میں ہے یعنی اللہ کے لئے کسی سے محبت کرنا اور اللہ کی محبت کی خاطر آپس میں محبت کرنا، آپس میں رفاقت اختیار کرنا۔ اللہ کی محبت کی خاطر کسی سے رابطہ و تعلق بنانا اور اس تعلق پر قائم و دائم رہنا۔

جو لوگ اللہ کی تابعداری میں آجائیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بھی تابعداری کا تعلق جوڑ لیں تو پھر ان کو جنت میں بھی رفاقتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نصیب ہوگی۔ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:

وَمَنْ يُّطِعِ اﷲَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اﷲُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰلِحِيْنَج وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِيْقًا.

(النساء: 69)

یعنی وفاداری، محبت و اطاعت گزاری کے بدلے میں اللہ انبیائ، صدیقین، شہداء اور صالحین کی رفاقت عطا فرماتا ہے۔ قرآن نے شرط لگادی کہ اُس رفاقت کی بنیاد اس دنیا میں رکھنی پڑتی ہے۔ اسلاف اور پہلے زمانے کے لوگ الحب فی اللہ کو الاخوۃ کا نام دیتے تھے۔ اسی کی بنیاد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت مدینہ کے وقت مواخات کی صورت میں رکھی اور مہاجرین و انصار کو ایک دوسرے کا بھائی بنادیا۔ یعنی جو رفاقت جنت میں کام آنی ہے، اس کی بنیاد اس دنیا میں رکھ دی۔ اس تعلق کو قرآن نے اخوت اور رفاقت کا ٹائٹل دیا۔ میں نے 1981ء میں جب تحریک منہاج القرآن کی بنیاد رکھی تو اسی الحب فی اللہ کو زندہ کرنے کے لئے رفاقت کا سسٹم شروع کیا اور اس کو وحسن اولئک رفیقا کے تصور سے اپنایا۔

قیامت کے دن مومنین کا ایک طبقہ ایسا ہوگا کہ ان کو جنت میں بھیجا جائے گا مگر وہ جنت میں جانے سے انکار کردیں گے۔ اس طبقہ سے پوچھا جائے گا کہ جنت میں کیوں نہیں جاتے؟ وہ کہیں گے رفاقت یعنی جو ہماری صحبت و سنگت میں تھے، بھلے وہ ہمارے جیسے نہ بن سکے مگر ہم جنت میں ان کے بغیر نہیں جائیں گے۔ گویا وہ اپنی محبت و رفاقت میں رہنے والے لوگوں کو جنت میں ساتھ لے کر جائیں گے۔ یہ طبقہ اولیاء و صالحین کا ہوگا۔

احادیث مبارکہ میں ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، دیگر انبیاء کرام، ملائکہ، اولیاء اور صالحین بھی شفاعت کریں گے اور وہ لوگ جنہوں نے ان اللہ والوں کے ساتھ دنیا میں اپنا تعلق بنائے رکھا اُن کی شفاعت کرتے ہوئے اپنے ساتھ جنت میں لے جائیں۔

یہ ایک محبت و تعلق ہے جس کی لاج قیامت کے دن اس طرح رکھی جائے گی۔ معلوم ہوا کہ صحبت، سنگت، تعلق اور رفاقت دنیا و آخرت میں اثر انداز ہوتی ہے۔ اس لئے قرآن نے فرمایا:

اَ لْاَخِلَّآءُ يَوْمَئِذٍم بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ.

یعنی قیامت کے دن دنیا کے سارے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر متقین کے ساتھ دوستی رکھنے والے نفع میں رہیں گے۔

(الزخرف: 67)

سنگت کس طرح کام آتی ہے؟ شیخ الاسلام نے اس تصور کو سمجھانے کے لئے باقاعدہ چند پھل منگواکر ان کی مثالوں سے وضاحت کی۔ آپ نے فرمایا:

تربوز کا اندرون سرخ اور بیرون سبز ہے۔ مگر اس کے بیرونی سبز رنگ کے چھلکے کا اندرون سفید ہے۔ یہ سفید تہہ اس سرخ کے ساتھ جڑے رہنے اور تعلق کی وجہ سے ہے۔ باہر کا سبز رنگ باہر کے ماحول کی وجہ سے ہے۔ مگر چھلکا موٹا ہونے کی وجہ سے اندرون کا اثر بیرون حصہ پر اثر انداز نہ ہوسکا۔ معلوم ہوا کہ صحبت رنگ بدل دیتی ہے۔

اسی طرح کریلے کا اندرون بھی سفید اور باہر کا رنگ سبز ہے۔ مگر اس کے بیرون سبز چھلکے کا اندرون سفید ہے۔ اس کی جلد بھی موٹی تھی، لہذا اندر کا رنگ باہر نہ آیا۔ مگر جتنا اندرون چھلکے کے ساتھ جڑا رہا چھلکے کا وہ اندرون سفید ہوگیا۔

دوسری طرف کیلے کا چھلکا پتلا تھا، لہذا اس کا اندرونی رنگ کچھ نہ کچھ باہر کو بھی متاثر کرگیا اور بیرونی رنگ پیلا ہوگیا۔

معلوم ہوا جو جس کے ساتھ جڑا رہتا ہے اس کا رنگ اس پر چڑھ جاتا ہے۔ اگر جلد حسد، بغض، لالچ، غیبت کی وجہ سے موٹی ہوجائے تو اندر کا رنگ باہر نہیں آتا۔

اسی طرح ٹماٹر کا بھی چھلکا ہے مگر اس نے اپنا ظاہری وجود ختم کرلیا۔ یہ فنا کے درجے پر ہے، جو رنگ اس کے اندر ہے وہی باہر ہے۔ اس کی جلد نہایت پتلی/ لطیف تھی۔جس نے اندرونی رنگ کا مکمل اثر اپنے اندر جذب کرلیا۔

سنگت کا یہی تصور اصحابِ کہف کے کتے کی مثال سے بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ جہاں اصحاب کہف جائیں گے وہیں وہ کتا بھی جائے گا۔ جو جس کی سنگت میں ہے، اگر اپنے آپ کو اس تعلق میں فنا کردے تو وہ محبوب کے ساتھ مقام و درجہ پاتا ہے۔

یہی نظام بندوں کا ہے جو بندے اللہ والوں کے ساتھ اپنا تعلق/ رفاقت کی پختگی قائم کرلیتے ہیں اور متابعت جاری رکھتے ہیں ان پر ان کا رنگ چڑھا رہتا ہے۔ وہ لوگ جو آپس میں اللہ کے لئے محبت کرتے ہیں اور اخوت کے رشتے میں اللہ کی وجہ سے آپس میں ملتے ہیں اور اللہ کی خاطر آپس میں محبت کرتے ہیں، ان لوگوں کو نور کے منابر پر بٹھایا جائے گا، اللہ اِن کو اپنے عرش کے سائے میں رکھے گا۔ ان سے محبت کرنا اللہ نے اپنے اوپر واجب کرلیا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ولایت، اللہ کے لئے محبت کو بنیاد بنانے میں ہے۔ طرز عمل، سوچ، رویہ ہر ایک کی بنیاد الحب فی اللہ ہو تو ولایت عطا کی جاتی ہے۔ جو اللہ کے لئے محبت کرنے والا نہیں بنا، اس کو ایمان کا ذائقہ ہی نہیں ملا، خواہ وہ جتنی مرضی عبادت کرلے۔ اللہ کی دوستی انہی کو ملتی ہے جو اپنی دوستیوں کی بنیاد اللہ کی دوستی پر رکھتے ہیں۔

7۔ ارادہ اور محبتِ الہٰی کے ثمرات:

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے لیلۃ القدر کے عالمی روحانی اجتماع (27 ویں شب رمضان/ 22 جون) سے ارادہ اور محبتِ الہٰی کے ثمرات کے موضوع پر والذین امنوا اشد حبا للّٰہ کو موضوع خطاب فرماتے ہوئے فرمایا:

اللہ سے شدید محبت اہل ایمان کی علامت ہے۔ شدید محبت سے مراد عشق ہے۔ سورۃ آل عمران کی آیت 31 میں ارشاد فرمایا:

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ يُحْبِبْکُمُ اﷲُ.

اس آیت مبارکہ میں دو باتیں ارشاد فرمائیں:

  1. اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو اللہ کی محبت کا راستہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرو، نتیجتاً اللہ تمہیں اپنا محبوب بنالے گا۔
  2. اللہ نے اس آیت میں اپنے محِبوں اور محبوبوں دونوں کا ذکر کیا۔ ایک ہی آیت میں واضح کردیا کہ اللہ سے دوھرا رشتہ ہے، وہ لوگ جو اللہ سے محبت کرتے ہیں، وہ اللہ کے مرید ہوتے ہیں اور جن سے اللہ محبت کرتا ہے وہ اللہ کی مراد ہوجاتے ہیں۔

سورۃ المائدہ میں فرمایا: اگر تم اللہ کی وفاداری پر قائم نہ رہو گے تو اللہ ایسی قوم لائے گا جن سے وہ خود محبت کرتا ہوگا اور وہ بندے اللہ سے بھی محبت کرنے والے ہوں گے۔

تحریک منہاج القرآن میں ہم اپنے تعلق والوں کے لئے لفظِ مرید کا استعمال نہیں کرتے۔ اس لئے کہ میں سوچتا ہوں کہ پتہ نہیں میں ابھی خود بھی مرید ہوا ہوں یا نہیں۔ ہمارے ہاں رفقاء ہوتے ہیں۔ مرید بنایا جاتا ہے مگر اپنا نہیں بلکہ اللہ کا مرید ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ سن لیں! اگر اللہ کے مرید ہوں گے تو اللہ اس واسطہ سے ہمیں اپنی مراد بنالے گا۔

جو اللہ کے لئے اپنے ارادہ میں خالص ہوجائے اسے مرید کہتے ہیں۔ ارادۂ ثواب، طلبِ جنت، طلبِ درجات، طلبِ عزت، طلبِ رزق میں نہیں بلکہ ارادۂ محبت میں اس کے لئے خالص ہوجاؤ۔ ا س سے اس کی محبت، رضا اور قربت چاہو۔ اس سے صرف اسی کو چاہو۔ ارادہ جب اس کے ارادے میں فنا ہوجائے، صرف وہی چاہت ہوجائے تو ارادہ میں اس درجہ کی خالصیت کے حامل کو مرید کہتے ہیں، یہ درجہ محبت ہے۔ ارادہ کی تعریف اولیاء و صلحاء کے نزدیک یہ ہے کہ دل کا اللہ کی طلبِ محبت و عشق اور چاہت کے لئے بیدار ہوجانا۔ یہ دل کی کیفیت ہے۔ اس لئے اولیاء نے کہا کہ مرید وہ ہے جس کے ارادہ میں اللہ کے سوا کسی کا ارادہ نہ رہے۔

یہ درجہ ہر ایک طبقہ میں ہے۔ اگر اللہ اپنے بندے کو چاہنے لگے تو وہ بندے مراد ہوجاتے ہیں۔ انبیاء میں بھی کئی مرید اور کئی مراد تھے۔ حضرت موسیٰؑ اللہ کے مریدوں میں اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔ قرآن سے ان کی مریدی کا اظہار کچھ اس طرح سامنے آتا ہے، جب انہوں نے اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا:

رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ.

تو میرا سینہ کھول دے۔

یہ شان مرید کی ہے کہ وہ درخواست کررہا ہے۔

جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ نے مراد بنایا ہے، ان کے لئے فرمایا:

اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ.

موسیٰ سینے کے کھولنے کی دعا کررہے ہیں جبکہ یہاں اللہ خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینے کے کھولنے کی بات کررہا ہے۔ مرید اللہ سے طلب کرتے ہیں جبکہ مراد کو خود اللہ عطا کرتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام  کی مریدی کوہِ طور پر 40 راتوں کے وقت کمال پر تھی۔ عرض کیا:

رب ارنی انظر الیک یہ ان کی ارادت کا کمال ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درجہ مراد کا ہے۔ ان کے لئے اللہ خود نے فرمایا:

قد نری تقلب وجهک فی السمآء.

محبوب ہم تیرے چہرہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں۔

ایک اور مقام پر فرمایا:

وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْيُنِنَا.

ہم ہر وقت تمہیں تکتے رہتے ہیں۔

یہ مراد کا کمال ہے۔

اس موقع پر شیخ الاسلام نے اولیاء و صالحین سے محبتِ الہٰی کے حوالے سے متعدد واقعات اور اقوال بھی ارشاد فرمائے۔

8۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس: خلقِ عظیم کا پیکرِ جمیل:

28 ویں شبِ رمضان 23 جون کو شیخ الاسلام نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عملی اخلاق کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:

چشم تصور میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عملی پیکر خلق کو دیکھیں تاکہ ہمیں اپنے اخلاق کو تبدیل کرنے کا عزم نصیب ہوسکے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ نے خُلق اور خَلق میں حسین ترین پیکر بنایا ہے۔ حسن کا ایسا پیکر اللہ نے پیدا نہیں کیا۔ جس کو جو بھی جمال اور حسن ملا وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے سے ملا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ہی حسن کی تقسیم ہوئی ہے۔ خُلق کا حُسن، خَلق کا حُسن بن کر چمکتا ہے، باطن کا حُسن ظاہر پر حُسن بن کر چمکتا ہے۔ لہذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کو اپنائیں۔

حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ، حضرت ہند بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر گفتگو ایک فکر پر قائم ہوتی۔ آپ کی گفتگو مخلوق، آخرت، امت، حقدار کے غم کے فکر کے بغیر نہ ہوتی۔ آپ کی زندگی کا کوئی لمحہ بے فکر نہ ہوتا۔

  • حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مزاج بڑا نرم تھا۔ گفتگو میں کسی کی اہانت نہ کرتے۔ اگر کسی میں بھی کوئی نعمت ہوتی۔ اس کی تعظیم و اظہار کرتے۔ حق بات کہتے اور حق بات کہنے کی ترغیب دیتے۔ حق کی مخالفت کو برداشت نہ کرتے تھے اور حق کو بہر صورت غالب کرتے۔ اپنی ذات کے لئے غصہ نہ فرماتے مگر جب کسی پر ظلم ہوتا تو غصہ فرماتے۔ اپنی ذات کے لئے کبھی انتقام لینے والے نہ تھے۔
  • امام حسین رضی اللہ عنہ،  حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے گھر کے اندر کے معمولات کیا تھے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر کے اندر اپنے معمولات کے تین حصے کرتے:

1۔ گھر والوں سے ملاقات 2۔ اللہ کی عبادت کا وقت

3۔ آرام کا وقت

اس آخری آرام کے وقت میں بھی چند چیدہ چیدہ اُن احباب و اصحاب سے ملاقاتیں کرتے جن کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تنظیمی وانتظامی ذمہ داریاں سونپ رکھی تھیں۔ ان خواص اصحاب کو بلاتے اور ہدایات جاری فرماتے۔ انہیں عام اصحاب کی رہنمائی کے لئے تیار کرتے، ان کے ذریعے عام مسلمانوں تک بات پہنچاتے۔ گویا کچھ باتیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم براہ راست عام مسلمانوں کو سمجھاتے اور کچھ باتیں خواص کے ذریعے عوام کو پہنچاتے۔

  • حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب گھر سے باہر ہوتے تو لوگوں سے کیسا برتاؤ ہوتا؟ فرمایا:

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے معنی چیزوں اور بے مقصد باتوں سے پرہیز کرتے۔ لوگوں کو جوڑتے، تالیفِ قلب فرماتے۔ جس بھی قوم کا عزت مند شخص آتا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو بھی عزت دیتے۔ غیر مسلم قبائل کے سردار آتے تو ان کو بھی عزت دیتے، اس سے ان کی تالیف قلب ہوتی۔

اگر کسی شخص کے اندر کوئی شر ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے خود بھی بچتے اور صحابہ کو بھی بچنے کی تلقین کرتے۔ مگر رویہ خوش خلقی کا رکھتے۔ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے حال احوال پوچھتے، ذاتی گھر کے معاملات پوچھتے۔ آنے والے لوگوں سے ان کے قبائل اور علاقے کے واقعات بھی دریافت کرتے اور اگر کہیں ظلم ہوا ہے تو اس کی تفصیل بھی معلوم کرتے تاکہ ظالم کو پکڑا جاسکے اور مظلوم کی مدد کی جاسکے۔ اچھی بات کی حوصلہ افزائی کرتے اور بری بات کو ناپسند کرتے۔

  • حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام معمولات میں اعتدال تھا۔ کسی جگہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ، طبیعت، مزاج میں انتہا پسندی نہ تھی بلکہ اعتدال تھا۔ عبادات اور معاملات میں اعتدال تھا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام معمولات میں نظم بھی کمال پر ہوتا۔
  • صحابہ کرام میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقرب ہونے کا پیمانہ یہ تھا کہ وہ اصحاب جو علم، لوگوں کی غم خواری، لوگوں کی اعانت کرنے میں اعلیٰ ہوتے، اعلیٰ اخلاق میں جو جتنا زیادہ ہوتا اس کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنی ہی حوصلہ افزائی کرتے تاکہ اور لوگ بھی اس قرب کے لئے ان اوصاف کو اپنائیں۔
  • حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس 5 چیزوں کا خزانہ ہوتی:

1۔ علم، 2۔ حلم و بردباری 3۔ حیا 4۔ صبرو شکر 5۔ امانت و دیانت

  • آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 3 چیزوں سے اپنے آپ کو بچا رکھا تھا:

1۔ ریاء 2۔کثرتِ کلام 3۔ بے سود و بےمقصد بات

  • آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اہل مجلس کو 3 چیزوں سے بچا رکھا تھا:

1۔ کسی کی مذمت نہ کرنا 2۔ کسی کو اس کے عیب پر شرمندہ نہ کرنا

3۔ کسی کے عیب تلاش نہ کرنا

  • اگر کوئی آپ کی مجلس میں مسکراتا، ہنستا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اس کی دلجوئی کے لئے مسکراتے اور تعجب کا اظہار کرتے۔ گویا ان کے جذبات اور احساسات کے ساتھ شریک رہتے۔ یعنی اپنے آپ کو اُن کے جذبات و احساسات سے الگ تھلگ نہ کرتے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کا یہ بیان اس امید سے کیا ہے کہ ہم اپنے اخلاق کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق سے روشنی لیتے ہوئے سنواریں۔ جو کوئی جتنا لے سکتا ہے ضرور اس سے لے اور اس کا کچھ رنگ اپنے اوپر چڑھالیں۔ یہ ہمارے اعتکاف کا ماحصل ہے۔ اس کو پوری زندگی اپنا زیور بنائیں، اسی سے دنیا و آخرت میں نجات ممکن ہے۔

9۔ دل کی صفائی جنت کی ضمانت ہے:

امسال رمضان المبارک کی 29 ویں شب 24 جون کو شیخ الاسلام نے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:

اخلاق حسنہ، خوبصورت برتاؤ، خوبصورت دل، نرم زبان، کھلا ہوا چہرہ اور دوسروں کے لئے نرمی و شفقت ہونا دین کی اصل روح ہے۔ اگر ہم طبیعتوں اور مزاجوں میں یہ خوبیاں پیدا نہیں کرسکتے تو یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری عبادتوں کا محتاج نہیں ہے۔ وہ بے نیاز ہے۔ اس نے یہ احکام اس لئے دیئے تاکہ اطاعت کے طریق سے ہمارا باطن سنور جائے۔ دلوں میں سخاوت آجائے اور نفس سے کدورت نکل جائے۔ اگر یہ خوبیاں پیدا نہیں ہوتیں تو طاعات و عبادات بےکار ہیں۔

اخلاقِ حسنہ کی اعلیٰ ترین علامت یہ ہے کہ دل میں کسی کے لئے حسد، تنگی، خشکی اور سختی نہ ہو۔ جس شخص کو اللہ کوئی نعمت دے، اس سے دل میں حسد نہ آئے اور دل میں میل نہ آئے۔ احادیث مبارکہ کے مطابق ایسے ہی شخص کے لئے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کی ضمانت دی ہے۔ کوئی شخص اپنی عبادات کے قبول ہونے کی ضمانت اور دعویٰ نہیں کرسکتا۔ مگر صرف یہ کہ دل صاف ہوجائیں۔ اگر دل میں صفائی ہوجائے کسی کے لئے حسد، بغض، عناد، میل نہ ہو، کسی کا برا نہ چاہے بلکہ ہر ایک کا خیر خواہ ہوجائے تو یہ ایک ایسی کیفیت ہے کہ اس کی قبولیت کی ضمانت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دے دی ہے۔ اس لئے کہ انما الاعمال بالنیات۔ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے۔

نیت دل کے ارادہ کا عنوان ہے۔ اعمال دنیا دیکھتی ہے مگر دل کی کیفیت اللہ دیکھتا ہے۔ دل کی صفائی کی وجہ سے تھوڑا عمل بھی کثیر عمل میں بدل دیا جاتا ہے۔ اگر دل میں غلاظت ہو، دوسروں کے لئے برائی ہو تو سجدے بھی اس کے حال کو بدل نہیں سکتے۔ اس امر کا تعلق طبیعت کی سخاوت کے ساتھ ہے۔ اگر دل میں اللہ بس جائے، دل اللہ سے جڑ جائے تو وہ شخص کیسے گوارا کرے گا کہ اس دل میں پلیدی آجائے۔ ہم کسی مشروب و طعام کو گندے برتن میں نہیں ڈالتے تو اللہ اس دل میں اپنی محبت کیسے ڈالے گا جس دِل میں حسد، بغض، کینہ اور رذائل کی غلاظت ہو۔

یاد رکھیں! جس طرح ظلمت اور نور اکٹھے نہیں رہ سکتے، اسی طرح اللہ کی ذات کے ساتھ اخلاص، صدق، محبت، القائ، عطاء اور سخا اس دل میں نہیں آتی جس میں اللہ کی مخلوق کے لئے پلیدی ہو۔ عیب تلاش کرنے والے کے دل میں اللہ خیر نہیں ڈالتا۔ جس طبیعت میں تنگی اور غلاظت ہو اس پر وہ اپنا کرم نہیں کرتا۔ یہ نفس کی سخاوت، دلوں کی وسعت و طہارت اور مزاج کی سخاوت ہے کہ کسی کے عیب کو بندہ تلاش نہیں کرتا۔ ظاہر، باطن کا عکاس ہے۔ اگر کوئی دوسروں کے عیب تلاش کرتا اور بیان کرتا ہے تو اس کا دل صاف نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

کسی شخص کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوتا جب تک اس کا دل استقامت پر نہ آجائے اور دل کا استقامت پر آنا زبان کی صفائی و مٹھاس پر منحصر ہے۔ جس زبان پر کسی کا نقص اور عیب نہیں آتا، اس کا دل نقص اور عیب سے پاک ہے۔ اس دل میں اللہ قیام کرتا ہے اور جس دل میں اللہ قیام فرمائے، کعبہ اس دل کا طواف کرتا ہے۔ اس سوچ سے طرز فکر، زندگی اور مزاج بدل جاتا ہے اور بندہ سر تاپا سخاوت، جو دو کرم اور عفو و کرم کا پیکر ہوجاتا ہے۔

امام قشیری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک دن رو رہے تھے، کسی نے پوچھا کہ کیوں رو رہے ہیں؟ فرمایا: ایک ہفتہ گزر چکا، میرے گھر کوئی مہمان نہیں آیا، ڈرتا ہوں کہ کہیں میں اللہ کی نگاہ میں گر تو نہیں گیا۔

گویا دل صاف ہوجائے تو زاویہ نگاہ بدل جاتا ہے۔ مزاج، سوچ اور معاملات بدل جاتے ہیں۔ جس دل میں رب رہتا ہے اس جیسا غنی کوئی نہیں۔ اسے دنیاوی محتاجی کا ڈر نہیں رہتا اور اس کے دل میں بھی سخا اور وسعت آجاتی ہے۔