الفقہ: قربانی رضائے الہٰی کے حصول کا ذریعہ ہے

مفتی عبدالقیوم خاں ہزاروی

سوال : بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ قربانی میں گوشت اور پیسے کا ضیاع ہوتا ہے۔ قرآن وسنت کی روشنی میں قربانی کے وجوب کا فلسفہ بیان فرمائیں۔

جواب:’’قربانی‘‘ عربی زبان کے لفظ ’’قْرب‘‘ سے ہے، جس کا مطلب ’’کسی شے کے نزدیک ہونا‘‘ ہے۔ ’’قْرب‘‘، دوری کا متضاد ہے۔ ’قربان‘ ’قرب‘ سے مبالغے کا صیغہ ہے۔ امام راغب اصفہانی قربانی کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

القربان مايتقرب به الی الله وصارفی التعارف اسماً للنسيکة التی هی الذبيحة.

’’قربانی وہ چیز جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے، شرع میں یہ قربانی یعنی جانور ذبح کرنے کا نام ہے‘‘۔

(المفردات للراغب، 408، طبع مصر)

قربانی کے لئے قرآن کریم میں تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں:

  1. قربانی
  2. منسک
  3. نحر

قربانی کے حوالے سے ارشاد فرمایا:

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّم اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا.

’’(اے نبی مکرم!) آپ ان لوگوں کو آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں (ہابیل و قابیل) کی خبر سنائیں جو بالکل سچی ہے۔ جب دونوں نے (اللہ کے حضور ایک ایک) قربانی پیش کی‘‘۔

(المائدة، 5: 27)

قربانی کے لئے لفظ ’’منسک‘‘ استعمال کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَلِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّيَذْکُرُوا اسْمَ اﷲِ عَلٰی مَا رَزَقَهُمْ مِّنْم بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ.

’’اور ہم نے ہر امت کے لئے ایک قربانی مقرر کر دی ہے تاکہ وہ ان مویشی چوپایوں پر جو اللہ نے انہیں عنایت فرمائے ہیں (ذبح کے وقت) اللہ کا نام لیں‘‘۔

(الحج، 22: 34)

قربانی کے لئے لفظ ’’النحر‘‘ یوں استعمال فرمایا: ارشاد فرمایا:

فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ.

’’پس آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں (یہ ہدیہ تشکرّ ہے)‘‘۔

(الکوثر، 108: 2)

پس قرآن کریم سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر امت پر نماز و روزہ فرض فرمائے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہر قوم پر قربانی لازم کی ہے۔

ہر انسان کو بڑی بڑ ی تین نعمتیں ملی ہیں:

  1. جان کی نعمت: اس کا شکریہ یہ ہے کہ اپنی تمام صلاحیتوں کو اطاعت خداوندی میں استعمال کیا جائے۔ ہاتھ، پاؤں، زبان اوردماغ سے مخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچایا جائے۔
  2. مال کی نعمت: اس کا شکر یہ ہے کہ حلال و جائز ذرائع سے مال حاصل کیا جائے، اللہ کی رضا کے لئے غریبوں ناداروں یتیموں اور حاجت مندوں کو ضروریات زندگی بہم پہنچانے میں اسے خرچ کیا جائے۔ مال میں و ہ پالتو جانور بھی شامل ہیں جو قدرت نے ہمارے لئے مسخر فرمائے ہیں۔ جن سے ہمیں اون، کھال، دودھ اور گوشت حاصل ہوتا ہے، ان سے ہم سواری و باربرداری کا کام لیتے ہیں۔ ان کے ایک ایک عضو سے ہمیں بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ان کا شکر یہ ہے کہ ہم ان منافع میں ان کو شریک کریں جو اس نعمت سے محروم ہیں۔ سوار و بار برداری کی سہولتوں سے ان کو بھی بہرہ مند کریں۔ ذبح کریں تو ان کا گوشت دوسروں کو بھی دیں۔ دودھ جیسی نعمت حاصل ہو تو حسب توفیق ناداروں کو ان کا حصہ ادا کریں۔ ان جانوروں کے ذریعے جوئے جیسا حرام کاروبار نہ چلائیں۔ ان کو آپس میں لڑا لڑا کر لہولہان نہ کریں۔ صرف اللہ کے نام پر ذبح کریں۔ کسی اور کے نام پر ذبح نہ کریں۔ قربانی، دم، تمتع، دم احصار، ہدی، نذر اور دم جنایت کے طو رپر جو جانور ذبح کرو، اسے ان تلوثیات سے پاک رکھو، جن سے دور جاہلیت کے مشرک اسے ملوث کرتے تھے کہ جانور ذبح کیا، اس کا خون کعبے کی دیواروں پر لتھیڑ دیا، بتوں کے آستانوں پر لگادیا اور گوشت ضائع کردیا۔ قربانی کا گوشت خود بھی کھاؤ، دوسروں کو بھی کھلاؤ، غریب ہو یا امیر سبھی کھاسکتے ہیں۔
  3. علم کی نعمت: علمِ مفید حاصل کریں، یہ آپ کا پیدائشی حق بھی ہے اور آپ پر فرض بھی۔ اس کی قربانی یہ ہے کہ ہم اس پر عمل کریں۔ اس کو دوسروں تک پہنچائیں اور کوئی علمی بات کسی سے نہ چھپائیں، نہ لالچ سے نہ کسی کے ڈر سے۔

ظاہر ہوا کہ قربانی مسلمانوں پر حسبِ توفیق لازم ہے۔ سورۂ کوثر میں نماز اور قربانی کا ایک ساتھ جمع ہونا اس بات کا غماز ہے کہ جس طرح نماز اپنی شرائط کے ساتھ اوقاتِ مقرر پر لازم ہے اسی طرح قربانی بھی اپنی شرائط کے ساتھ اوقات مقررہ پر لازم ہے۔ جیسے نماز کسی خاص مقام کے ساتھ مقید نہیں، ہر جگہ کے لئے عام ہے، اسی طرح قربانی بھی کسی مخصوص جگہ کے لئے نہیں بلکہ ہر جگہ کے مسلمانوں کے لئے حکمِ شرعی ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَاعَمِلَ ابْنُ اٰدَمَ يَوْمَ النَّحْرِ عملاً اَحَبَّ اِلَی اللّٰهِ مِنْ هَراقَةِ الدَّمِ واِنَّه لَيَاْتِیْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ بِقُرُوْنِهَا وَاشعارِهَا وَاَظْلاَفِهَا وَاِنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللّٰهِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ يَّقَعَ علی الارض فَطِيْبُوْا بِهَا نَفْسًا.

’’ابن آدم نے قربانی کے دن خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ خدا کے حضور پسندیدہ کوئی کام نہیں کیا اور بے شک وہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور بے شک خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے۔ لہذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو‘‘۔

(سنن ابن ماجه، جلد2، باب ثواب الاضحيه، رقم : 1045)

پس جو قربانی صدق و اخلاص سے دی جائے اس قربانی کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت پا جاتی ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

ضَحیّٰ رَسُوْلُ اللّٰه صَلیَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِکَبْشَيْنِ اَمْلَحَيْنِ اَقْرَنَيْنِ زَبَحَهُمَا بِيَدِهِ وَسَمّٰی وَکَبَّر قَالَ رَاَيْتُهُ وَاضِعًا قَدَمَهُ عَلٰی صَفَا حِهِمَا وَيَقُوْلُ بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ اَکْبَرُ.

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو چتکبرے سینگوں والے مینڈھے اپنے ہاتھ سے قربانی کے لئے ذبح فرمائے۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے پہلوئوں پر قدم رکھے دیکھا اور بسم اللّٰہ اللّٰہ اکبر فرماتے جاتے بسم اللّٰہ، اللّٰہ اکبر‘‘۔

اپنے ہاتھ سے قربانی کرنے میں حکمت یہ ہے کہ عمل قربانی میں انسان کی اپنی دلچسپی ہو۔ اگر آپ نے قربانی کا جانور قصاب کے حوالے کر دیا اور خود کسی اور کام میں مصروف ہوگئے تو اس طرح سے قربانی ہو جاتی ہے لیکن اس میں اس دلچسپی کا مظاہرہ نہ ہو سکا جتنی دلچسپی کا اظہار خون گراتے وقت ظاہر ہونی تھی کیونکہ قربانی کا فلسفہ محض جانور ذبح کر دینا اور گوشت تقسیم کرنا نہ تھا بلکہ ہاتھ سے اس جانور کا خون بہانا تھا۔ جب خون بہانے کا کام انسان نے اپنے ہاتھ سے نہ کیا تو عمل قربانی میں حسن نیت اپنے کمال کو نہ پہنچی۔ اس لئے سنت یہ ہے کہ قربانی اپنے ہاتھ سے کی جائے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم دیا۔ جو سیاہی میں چلتا ہو، سیاہی میں بیٹھتا ہو اورسیاہی میں دیکھتا ہو یعنی اس کے پاؤں، پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں، وہ قربانی کے لئے حاضر کیا گیا۔ فرمایا عائشہ! چھری لائو، پھر فرمایا اسے پتھر پر تیز کرو میں نے تیز کردی پھر آپ نے چھری پکڑی، مینڈھا لٹایا، اسے ذبح کیا پھر فرمایا۔

بِسْمِ اللّٰهِ اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مْحَمَّدٍ وَّمِنْ اْمَّةِ مْحَمَّدٍ.

’’الہی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، آپ کی آل اور آپ کی امت کی طرف سے قبول فرما‘‘۔

قربانی میں مقصود گوشت نہیں ہوتا بلکہ قربانی کے عمل کی روح صرف چْھری چلا کر بسم اللّٰہ، اللّٰہ اکبر کہتے ہوئے اللہ کے نام پر خون بہا دینا ہے۔ پس اس خون کے قطرے کے گرانے کو قربانی کہتے ہیں جبکہ گوشت کی تقسیم کا معاملہ، عام صدقے کی طرح ایک صدقہ ہے۔ جس طرح آپ اس قربانی کے علاوہ غرباء میں گوشت تقسیم کرتے رہتے ہیں۔

نیز یہ بھی کہ قربانی کے گوشت کی تقسیم کا ایک سنت طریقہ ہے کہ اس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے ایک غرباء کے لئے، ایک حصہ رشتہ داروں کے لئے اور ایک حصہ اپنے لئے لیکن اگر اپنی فیملی کے احباب زیادہ ہوں تو خود دو حصے بھی رکھ سکتے ہیں اور اگر دو حصے بھی کفایت نہ کریں تو سارے کا سارا گوشت خود بھی رکھ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قربانی کا مقصود صرف گوشت کی تقسیم نہیں بلکہ مقصودِ قربانی اللہ کی رضا کے لئے اس کے نام پر خون بہانا ہے۔ مقصود گوشت کی تقسیم نہیں، اگر مقصود گوشت کی تقسیم ہوتی تو یہ عمل تو سال بھر ہوتا رہتا ہے۔ لیکن اس عید کو عید قربان جس سبب سے کہا جاتا ہے وہ گوشت کی تقسیم نہیں، بلکہ اللہ کی رضا کے لئے اس خون کو گرانے کا عمل ہے، جس سے بندے کو اللہ کا قرب عطا ہوتا ہے کہ اللہ کی رضا کے لئے جان کے نذرانے کی علامت کے طور پر خون گرایا جاتا ہے۔

سوال: قربانی کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب:اگر شرعِ متین میں بیان کردہ قربانی کی تمام شرائط کسی شخص کے ہاں موجود ہوں، تو اس پر قربانی واجب ہے اور اگر ان میں سے کوئی شرط نہ پائی جائے تو اس صورت میں قربانی واجب نہیں بلکہ سنت و نفل ہوگی۔ وہ شرائط درج ذیل ہیں:

  1. مسلمان ہونا، چنانچہ غیرمسلم پر قربانی واجب نہیں۔
  2. مقیم ہونا، چنانچہ مسافر پر قربانی واجب نہیں۔
  3. مالک نصاب ہونا، اس سے مراد یہ ہے کہ اس شخص کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اتنی مالیت کی رقم یا اتنی مالیت کا تجارت کا مال یا اتنی مالیت کا ضروریات زندگی سے زائد سامان ہو اور اس پر اتنا قرضہ نہ ہو کہ جسے ادا کرنے سے مذکورہ نصاب باقی نہ رہے۔
  4. بالغ ہونا، چنانچہ نابالغ پر قربانی واجب نہیں۔ نابالغ شخص صاحبِ نصاب ہی کیوں نہ ہو اس پر قربانی واجب نہیں۔

قربانی کا وجوب قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ.

’’پس آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں (یہ ہدیہ تشکرّ ہے)‘‘۔

(الکوثر، 108: 2)

درج بالا آیتِ مبارکہ میں اِنْحَر صیغہ امر ہے اور عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جب امر کو مطلق ذکر کیا جائے تو اس سے وجوب مراد ہوتا ہے۔ لہٰذا اس آیت سے قربانی کا واجب و ضروری ہونا ثابت ہوتا ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَيُّهَا النَّاسُ! اِنَّ عَلٰی اَهْلِّ بَيْتٍ فِی کُلِّ عَامٍ اُضْحِيَّةً.

’’اے لوگو! ہر سال ہر گھر والے پر ایک قربانی واجب ہے‘‘۔

(احمد بن حنبل، مسند احمد، 4: 215)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَنْ کَانَ له سعة فلم يضح ، فلا يقربن مصلانا.

’’جو آسودہ حال ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔‘‘

(ابن ماجه، رقم الحديث: 3123)

مذکورہ احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کرنے کا حکم فرمایا اور قربانی نہ کرنے والوں پر اظہار ناراضگی فرمایا ہے۔ ناراضگی کا اظہار اسی مقام پر ہوتا ہے جہاں کوئی چیز واجب و ضروری ہو۔