امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارہائے نمایاں

محمد تاج الدین کالامی

18 ذو الحج یوم شہادت کی مناسبت سے خصوصی تحریر

اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ جلیلہ سے امت مسلمہ کو ایسی عظیم ہستیاں عطا فرمائیں جنہیں تاریخ میں بلند مقام حاصل ہے۔ جن کی زندگیاں ہمارے لیے روشن مثال ہیں۔ انہی عظیم ہستیوں میں سے منفرد خصوصیات کی حامل ایک شخصیت، نیر تاباں حضرت سیدنا عثمان بن عفان ذوالنورین رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی زندگی کا ہر پہلو نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ عالم انسانیت کے لئے مشعل راہ ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ایک ہیں۔ آپ کا شمار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب شوریٰ میں بھی ہوتا ہے۔ امت مسلمہ میں کامل الحیا ء والایمان کے الفاظ آپ کی ہی شان میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایا:

أَلَا أَسْتَحْيِي مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحْيِي مِنْهُ الْمَلَائِکَةُ.

’’میں اس شخص سے کیسے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں‘‘

(مسلم، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عثمان بن عفان، 4: 1866، رقم: 2401)

آپ نے اسلام کی راہ میں بڑی تکلیفیں اٹھائیں، مگر دامے، درمے اورسخنے اسلام کے لیے سرگرم رہے۔

نام و نسب:

خلیفہ ثالث، کامل الحیاء والایمان سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کانام نامی اسم گرامی عثمان، کنیت ابوعبداللہ اورابوعمراورلقب ذوالنورین تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے والدکانام عفان بن ابی العاص تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے: عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبدمناف۔ آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ کانام ارویٰ بنت کریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبدشمس بن عبدمناف تھا۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی نانی محترمہ ام حکیم البیضاء تھیں جو حضرت عبد المطلب کی صاحبزادی اور حضرت عبداللہ کی سگی جڑواں بہن اور حضور نبی اکرم رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی پھوپھی تھیں۔ اس نسبت سے آپ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھانجے ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا تعلق شہرمکہ کے قبیلہ قریش کی شاخ بنوامیہ سے تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی پیدائش امام ابن حجر عسقلانی کے مطابق عام الفیل کے چھٹے سال یعنی ہجرت نبوی سے 47سال قبل مکہ مکرمہ میں ہوئی۔

(ابن حجر عسقلانی الإصابه، 4: 377)

سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا شمار سابقون الاولون میں ہوتاہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ابتدائی زمانہ اسلام میں ہی اسلام قبول کرلیاتھا۔ حضرت عثمان نے صدا ئے حق سنی تو اپنی فطری عفت، پارسائی، دیا نتداری اور ر است بازی کے باعث اس داعی حق کو لبیک کہا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے سلسلے میں محدثین و مورخین اس بات متفق ہیں کہ آپ قدیم الاسلام ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں، ابن حجررحمہ اللہ نے الاصابہ میں، امام سیوطی رحمہ اللہ نے تاریخ الخلفاء میں اور امام طبری رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ میں یہی لکھا ہے۔ ابن عساکر کی روایت ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا سیدنا ابو بکر، سیدنا علی اور حضرت زید بن حارثہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھا نمبر ہے۔

(ابن عساکر، تاريخ مدينة دمشق الکبير، 39: 10)

ذوالنورین لقب:

قبول اسلام کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ رضی اللہ عنہ کا نکاح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت سیدہ بی بی رقیہ رضی اللہ عنہا سے ہوگیا تھا۔ یہ نکاح اتنا بابرکت تھا کہ مکہ مکرمہ میں عام طور پر لوگ کہا کرتے تھے کہ بہترین جوڑا جو کسی انسان نے دیکھا وہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا اور ان کے شوہر نامدار عثمان رضی اللہ عنہ ہیں۔

(ابن کثير، البداية والنهاية، 7: 200)

بعدازاں آپ رضی اللہ عنہ کو ہجرت حبشہ کاشرف بھی حاصل ہوا اس پر حضور نبی اکرم رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا تھا کہ یہ دونوں میاں بیوی حضرت لوط eکے بعد سب سے پہلے شخص ہیں جنھوں نے اللہ کی طرف ہجرت کی ہے۔ جب حضور نبی اکرم رضی اللہ عنہ نے مدینہ ہجرت فرمائی تو آپ رضی اللہ عنہ بھی مدینہ چلے آئے، جہاں آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام اورمسلمانوں کے لیے گرانقدر کارنامے انجام دیے۔ غزوہ بدر کے دوران ہی جب حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا وصال ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا، اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کا لقب ذوالنورین یعنی دو نوروں والا ہو گیا۔

(بيهقی، السنن الکبری، 7: 73، رقم: 13205)

الاصابہ میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت عثمان کے بارے پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایسی عظیم الشان ہستی ہیں کہ جنہیں آسمانوں میں ذوالنورین کہا جاتا ہے۔

(ابن حجر عسقلانی، الإصابه، 4: 457)

بہترین اخلاق و کردار کے پیکر:

اخلاقِ عالیہ، صفات حمیدہ، عادات شریفہ اور خصائل کریمہ آپ رضی اللہ عنہ کے خمیر میں شامل تھے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

فَإِنَّهُ مِنْ أَشْبَهِ أَصْحَابِي بِي خُلُقًا.

’’بے شک عثمان میرے صحابہ میں سے خُلق کے اعتبار سے سب سے زیادہ میرے مشابہ ہے‘‘۔

(طبراني، المعجم الکبير، 1: 76، رقم: 99)

آپ رضی اللہ عنہ سب سے بڑھ کر شرم وحیا کا پیکر تھے۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:

أَشَدُّ أُمَّتِی حَيَاءً عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ.

’’عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ میری امت کے تمام لوگوں سے بڑھ کرشرم وحیاء کا پیکر ہیں ‘‘

(ابونعيم، حلية الأولياء، 1: 56)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمائندگی:

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدر والے دن فرمایا:

إِنَّ عُثْمَانَ انْطَلَقَ فِي حَاجَةِ اﷲِ وَحَاجَةِ رَسُوْلِ اﷲِ، وَإِنِّي أُبَايِعُ لَهُ، فَضَرَبَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِسَهْمٍ، وَلَمْ يَضْرِبْ لِأَحَدٍ غَابَ غَيْرُهُ.

’’بے شک عثمان اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کام میں مصروف ہے اور بے شک میں اس کی طرف سے بیعت کرتا ہوں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مالِ غنیمت میں سے بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا حصہ مقرر کیا اور ان کے علاوہ جو کوئی اس دن غائب تھا کسی کے لیے حصہ مقرر نہیں کیا‘‘۔

(أبوداود، السنن، کتاب الجهاد، باب فيمن جاء بعد الغنيمة لاسهم له، 3: 74، رقم: 2726)

سن 6 ہجری میں واقعہ حدیبیہ کے موقع پریہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہی تھے جنہوں نے سفارت کے فرائض انجام دیے اوراپنی جان کی پرواکئے بغیر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نمائندے کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاپیغام قریش مکہ تک پہنچایا۔ اسی موقع پر جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی افواہ پھیلی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چودہ سو کے قریب صحابہ کرام رضی اللہ عنہما کو جمع کر کے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص پر بیعت لی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیعت لے رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دائیں دست مبارک کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دیا۔ اسی بیعت کو بیعتِ رضوان کہتے ہیں۔

(بخاری، الصحيح، کتاب المغازی، 4: 1491، رقم: 3839 )

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک جنازہ لایا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر نماز پڑھیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر نماز نہیں پڑھی۔ عرض کیا گیا: یارسول اﷲ! ہم نے آپ کو کسی کی نمازِ جنازہ چھوڑتے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّهُ کَانَ يُبْغِضُ عُثْمَانَ فَأَبْغَضَهُ اﷲُ.

یہ شخص عثمان سے بغض رکھتا تھا لہٰذا اﷲتعالیٰ نے بھی اسے اپنی رحمت سے دور کردیا۔

(ترمذي، السنن، کتاب المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب في مناقب عثمان، 5: 630، رقم: 3709)

اہل بیت سے تعلق:

دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت کرام سے محبت اور عقیدت کا تعلق تھا۔ اس کا اندازہ اس ایک عمل سے ہو جاتا ہے کہ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شادی کا موقع آیا تو سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے پاس صرف ایک زرہ تھی۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے وہ زرہ چار سو درہم میں خرید لی۔ جب سودا مکمل ہوگیا اور عثمان رضی اللہ عنہ نے زرہ اور علی رضی اللہ عنہ نے درہم پکڑ لیے تو عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: ابو الحسن! کیا اب میں زرہ کا تمہاری نسبت اور تم درہموں کے میری نسبت زیادہ حق دار نہیں ہو؟ علی رضی اللہ عنہ المرتضی نے جواب دیا: کیوں نہیں۔ ایسا ہی ہے۔ تو عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ زرہ میری طرف سے تمہارے لیے تحفہ ہے۔ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں درہم اور زرہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارگاہ میں حاضر ہوااور سارا معاملہ گوش گزار کیا کہ کس طرح عثمان رضی اللہ عنہ نے میری خیرخواہی کی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عثمان رضی اللہ عنہ کے لئے دعائے خیر فرمائی۔

(کشف الغمة فی معرفة الائمة لابی الحسن علی بن عيسیٰ الاربلی)

جنت کی بشارت:

حضرت طلحہ بن عبید اﷲ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لِکُلِّ نَبِيٍّ رَفِيْقٌ وَرَفِيْقِي- يَعْنِي فِي الْجَنَّةِ - عُثْمَانُ.

’’ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے اور جنت میں میرا رفیق عثمان رضی اللہ عنہ ہے‘‘

(أحمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 1: 401، رقم: 616)

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا: کیا جنت میں بجلی ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

نَعَمْ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّ عُثْمَانَ لَيَتَحَوَّلُ، فَتَبْرَقُ لَهُ الْجَنَّةُ.

’’ہاں، اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! بے شک عثمان جب جنت میں منتقل ہو گا تو پوری جنت اس (کے چہرہ کے نور) کی وجہ سے چمک اٹھے گی۔ ‘‘

(حاکم، المستدرک، 3: 105، رقم: 4540)

فیاضی وسخاوت:

سخاوت، جودو سخا کی بات آئی تو آپ غنی کی صفت سے متصف ہوئے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا ایک لقب غنی بھی تھا اور درحقیقت آپ اس لقب کے پوری طرح مستحق تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ ہمہ تن دین اسلام کے لیے وقف رہے اور آپ کا مال و دولت ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کی ضروریات پرخرچ ہوتا رہا۔ یوں تو ساری عمر آپ نے اپنامال بڑی فیاضی سے راہ اسلام میں خرچ کیا تاہم غزوہ تبوک میں آپ کامالی انفاق حدسے بڑھ گیا۔ آپ نے اس موقع پرروایات کے مطابق نوسواونٹ، ایک سو گھوڑے، دو سو اوقیہ چاندی اورایک ہزاردینارخدمت ِ نبوی میں پیش کیے جس پرخوش ہوکر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ آج کے بعدعثمان جوبھی کریں انہیں ضررنہ ہوگا۔

سیرت نگاروں نے آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس حقیقت کا برملا اعتراف کیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالی نے مال و دولت سے خوب نوازا تھا اور آپ رضی اللہ عنہ اس کو راہ خدا میں بڑی فیاضی سے خرچ فرماتے۔ مشکل حالات میں آپ رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے لیے ان کی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کیا، خصوصاً غزوات میں اسلحہ، سواریاں اور فوجی راشن کا بندوبست، آپ رضی اللہ عنہ کی امتیازی شان ہے۔

ہجرتِ مدینہ کے بعدمسلمانوں کومیٹھے پانی کی بڑی تکلیف تھی۔ شہرمدینہ میں بئررومہ کے نام سے میٹھے پانی کاایک کنواں تھا جس کا مالک ایک یہودی شخص تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کے یہودی مالک کو منہ مانگی قیمت 20ہزاردرہم دے کر یہ کنواں خریدلیا اور تمام انسانوں کے لئے وقف کردیاجس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کوجنت کی بشارت دی۔

(ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 5: 408)

مسجد نبوی کی توسیع کے لیے حضور نبی اکرم رضی اللہ عنہ کی ایماپرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قطعہ زمین خرید کر بارگاہ نبوت میں پیش کر دیا جو کہ مسجد نبوی میں پہلااضافہ ـتھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے مسجدسے متصل ایک قطعہ زمین 20 یا 25 ہزاردرہم میں خریدکرمسجدمیں شامل کردیا جس سے مسجد میں لوگوں کے لئے وسعت پیدا ہوگئی۔

(نسائی، السنن، کتاب الأحباس، باب وقف المساجد، 6: 234، رقم: 3607)

ابن عماد حنبلی نے شذرات الذہب میں لکھا ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سابقین اولین میں ہیں، قدیم الاسلام ہیں، دو مرتبہ ہجرت فرمائی ہے، بیت اللہ و بیت المقدس دونوں قبلوں کی طرف منہ کر کے نمازیں ادا کی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے شادی کی، لشکر اسلام کی خوب امداد کی، اسلحے اور راشن سے لدے ہوئے تین سو اونٹ، ہزاروں دینار فی سبیل اللہ وقف کیے، اسی وجہ سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے حق میں فرمایا کہ آج کے بعد عثمان کو اس کا کوئی عمل نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خود کفیل بنانے کے لیے انتظامات کیے۔ البدایہ والنہایہ میں ابن سعد کی روایت ہے کہ محمد بن ہلال اپنی دادی سے روایت کرتے ہیں کہ جب میرا بیٹا ہلال پیدا ہوا تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے میرے پاس پچاس درہم اور کپڑے بھیجے اور ساتھ ہی یہ بھی کہلا بھیجا کہ یہ تیرے بیٹے کا وظیفہ اور کپڑا ہے جب یہ ایک سال کا ہو جائیگا تو اس کا وظیفہ بڑھا کر سو درہم کر دیں گے۔

البدایہ والنہایہ میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا اپنا بیان موجود ہے کہ میں ہر جمعہ ایک غلام آزاد کرتا تھا اگر کسی جمعہ آزاد نہ کر پاتا تو اگلے جمعہ کو دو غلام آزاد کرتا۔

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کثرت سے صدقہ و خیرات فرمایا کرتے تھے۔ تاریخ طبری میں آپ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ جس وقت میں خلیفہ بنایا گیا اس وقت میں عرب میں سب سے زیادہ اونٹوں اور بکریوں کا مالک تھا اور آج میرے پاس سوائے ان دو اونٹوں کے کچھ بھی نہیں جو میں نے حج کے لیے رکھے ہوئے ہیں۔

بطور خلیفہ پہلا خطبہ:

تاریخ طبری میں ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ جب خلیفہ بنے تو آپ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا:لوگو!مجھ پر خلافت کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اور میں نے اسے قبول کیا۔ میں پہلے لوگوں کی پیروی میں امور خلافت انجام دوں گا، ان سے ہٹ کر نہیں۔ قرآن و سنت پر عمل کرنے کے بعد تم سب کے میرے اوپر تین بنیادی حقوق ہیں۔ اجماعی امور میں پہلے پیشروؤں کا اتباع کرنا۔ غیر اجماعی امور میں اہل خیر کے طریقے کو اپنانااور یہ کہ میں تم میں سے کسی پر کسی طرح کی کوئی زیادتی نہ کروں۔ اورتم خود بھی ایسے کام نہ کرنا جن سے تم سزا کے مستحق بن جاؤ۔ دنیا کی بے ثباتی کو ہر وقت ملحوظ رکھو اور اس کے دھوکے سے بچو۔

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جن حالات میں خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالیں اگرچہ وہ مشکل ترین حالات تھے لیکن اس کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ کی فراست، سیاسی شعوراور بہتر حکمت عملی کی بدولت اسلام کو خوب تقویت ملی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے خلیفہ بننے کے بعد سب سے پہلے لوگوں کو نماز عصر پڑھائی۔ آپ نے فوجیوں کے وظائف میں سو سو درہم کے اضافے کا اعلان کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ طرابلس، قبرص اور آرمینیہ میں فوجی مراکز قائم کیے۔ ملکی نظم و نسق کو مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر استوار کیا۔ آپ رائے عامہ کا تہہ دل سے احترام فرمایا کرتے تھے۔ آپ نے اداروں کو خود مختار بنایا اور محکموں الگ الگ تقسیم فرمایا۔ چونکہ اس وقت فوجی سواریاں اونٹ اور گھوڑے ہوا کرتے تھے اس لیے فوجی سواریوں کے لیے چراہ گاہیں بنائیں۔

مدینہ کے قریب ربذہ کے مقام پر دس میل لمبی دس میں چوڑی چراگاہ قائم کی۔ مدینہ سے بیس میل دور مقام نقیع پر، اسی طرح مقام ضربہ پر چھ چھ میل لمبی چوڑی چراہ گاہیں بنوائیں۔ ہر چراہ گاہ کے قریب چشمے بنوائے اور چراہ گاہ کے منتظمین کے لیے مکانات تعمیر کرائے۔ آپ کے زمانہ خلافت میں اونٹوں اور گھوڑوں کی کثرت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف ضربہ نامی کی چراہ گاہ میں چالیس ہزار اونٹ پرورش پاتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں لاتعداد فتوحات حاصل ہوئیں اور اسلامی سلطنت وسیع سے وسیع تر ہوگئی۔ امت کو اختلاف سے نکال کر اتفاق پر قائم کر دیا۔

جمع و تدوینِ قرآن کا عظیم کارنامہ:

صحیفہ انقلاب قرآن مجید کی جمع و تدوین کا عظیم کارنامہ انجام دینے کے سبب آپ جامع القرآن کے لقب سے بھی ملقب ہوئے۔ درحقیقت کتابی صورت میں کتاب اللہ کی تدوین عہدابوبکر میں ہی ہوچکی تھی، تاہم اسکی اشاعت نہ ہوئی تھی جسکی وجہ سے مختلف علاقوں کے رہنے والوں میں قرأت میں اختلاف پھیل رہاتھا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے توجہ دلانے پرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد کا مدون کیا ہوا نسخہ منگوا کر قریش کی قرأت کے مطابق اس کی نقول کروائیں اورپھریہ نقول ملک کے مختلف حصوں میں روانہ کردیں گئیں اوراس مستند نسخہ کے علاوہ دیگرمصاحف کو آپ نے نذر آتش کروادیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کایہ عظیم کارنامہ، کارنامہ صدیقی کی طرح تکملہ کارنبوت کی حیثیت رکھتاہے۔

سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا المناک واقعہ:

باغیوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا چالیس دن تک محاصرہ کر کے 18 ذوالحج بروز جمعہ تقریباً نماز عصر کے وقت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا۔ آپ نے کل 82 سال کی عمر پائی۔ ریاض النضرہ میں حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خون میں لت پت پڑے ہوئے تھے اور آپ کی زبان پر اللہ کے حضور یہ دعا جاری تھی:

اللهم اجمع امة محمد.

اے اللہ امت محمدیہ کو باہمی اتفاق نصیب فرما۔

(رياض النضرة، 3: 73)

آپ رضی اللہ عنہ کی سیرت کے مطالعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطرراہ حق میں پیش آمدہ تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سنت ہے۔ دین کے لئے جان ومال کی قربانی کا جذبہ ہمارے اندر ہونا چاہیے۔ ہمیں ہرحال میں پرامن رہنا چاہئے اور صبروتحمل اور حلم وبردباری کو اختیار کرنا چاہیے۔