سانحہ ماڈل ٹاؤن، قاتلوں کا اللہ کی طرف سے مواخذہ

خصوصی رپورٹ: نعیم الدّین چوہدری ایڈووکیٹ

8 اگست 2017 ء کے دن قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر عوامی تحریک، تحریک منہاج القرآن کے کارکنان اور شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء نے استقبال کیا۔ اپنے قائد کے استقبال کیلئے عوام کا سمندر امڈ آیا اور ایئرپورٹ کے اطراف میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ خواتین، ایم ایس ایم، یوتھ لیگ، علماء کونسل کی بڑی تعداد شریک تھی۔ یہ قافلہ صبح 9 بجے لاہور ایئرپورٹ سے روانہ ہوا اور ساڑھے 4 گھنٹے کے بعد ناصر باغ استنبول چوک پہنچا جہاں پہلے سے بڑی تعداد میں کارکن موجود تھے۔ استنبول چوک سے لے کر تاحد نگاہ سر ہی سر تھے۔ اس کامیاب ریلی اور احتجاجی جلسہ نے تخت لاہور کے نااہل حکمرانوں کے ہوش اڑا دیئے اور اس شکست خوردہ قافلے نے اپنی لاہور آمد کے شیڈول کو بدل دیا۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اہم خطاب کیا اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کا عدل کے ایوانوں سے انصاف مانگا۔ اس احتجاجی ریلی میں ڈاکٹر طاہر القادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ

متفقہ طور پر نااہل ہونے والا شخص بتائے کہ اس کا احتجاج کس کے خلاف ہے؟ اور مطالبہ کیا ہے؟ اگر ہمت ہے تو نام بتائے کہ سازش میں کون ملوث ہے، ورنہ یہی سمجھا جائے گاکہ ان کا احتجاج سپریم کورٹ اور قومی سلامتی کے ادارے کے خلاف ہے۔ بددیانت شخص پوچھتا ہے میرا قصور کیا ہے؟ میں پوچھتا ہوں کہ ماڈل ٹاؤن میں جن 14 بے گناہوں کی لاشیں گرائی گئیں ان کا قصور کیا تھا؟ تمہارا قصور تمہیں معلوم ہے۔ میری دانست میں ماڈل ٹاؤن میں بے گناہوں کا خون بہانے پر یہ اللہ کی طرف سے مواخذہ ہے۔ اپوزیشن کو سی پیک منصوبے خطرے میں ڈالنے کے طعنے دینے والے اب خود سڑکوں پر ہیں، اب یہ منصوبے کیسے مکمل ہونگے؟ ہم نے کن کے خلاف دھرنے دئیے، سب جانتے تھے، آپ بتائو آپ کا احتجاج کس کے خلاف ہے؟ ’’کبھی کہتے ہیں ’’انہوں نے ‘‘سازش کی، کبھی کہتے ہیں ’’سازشی‘‘سن لیں، یہ اگر مگر کی بزدلی چھوڑو جرأت ہے تو نام لو ورنہ ہم سمجھیں گے ایک بددیانت نے ریاست کے خلاف اعلان جنگ کر دیا، نواز شریف آپ کو بددیانتی کا سرٹیفکیٹ ملا ہے، آپ میں شرم ہوتی تو جی ٹی روڈ پر تماشا کرنے کے بجائے خاموشی سے گھر بیٹھتے۔

وفاق میں وہی وزیراعظم بنا جس کے سر پر نااہل نے ہاتھ رکھا، پنجاب میں بھی ن لیگ کی حکومت ہے، مینڈیٹ کا احترام کس نے نہیں کیا؟مینڈیٹ تو آج بھی آپ کا ہے۔ جی ٹی روڈ کی جماعت جی ٹی روڈ پر ہی دفن ہوگی۔ سپریم کورٹ نے جعل سازوں کے ساتھ نرمی سے کام لیا، ورنہ جعلی دستاویزات پیش کرنے پر انہیں فوری 7 سال کیلئے جیل بھیجا جا سکتا تھا، مال روڈ پر نعرے درج ہیں کہ ’’ہم صادق اور امین ہیں، ہم نواز شریف ہیں‘‘ حالانکہ نواز شریف آج ایک گالی کا نام ہے، ایک خائن کا نام ہے۔ یہ خائن کہتے ہیں ہماری دلوں پر حکومت قائم ہو گئی، تم شوق سے ساری زندگی دلوں پر حکومت کرو لیکن پاکستان کی جان چھوڑ دو، جو غلیظ دل ہیں، جو کرپشن کو درست سمجھتے ہیں ان دلوں پر شوق سے حکومت کرو۔

جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ پبلک کی جائے۔ پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کروائی جائے۔ 100 لوگوں کو گولیاں مارنے والوں نے ایف آئی آر بھی درج نہیں ہونے دی، غیر جانبدار جے آئی ٹی نہ بننے دی اور استغاثہ میں جن 124 پولیس ملزمان کو طلب کیا گیا ان میں سے ایک بھی گرفتار نہیں ہوا۔ انہیں ضمانت کرنے کی تکلیف بھی نہیں دی گئی اور جنہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا حکم دیا انہیں طلب ہی نہیں کیا گیا۔ یہ ظلم ہم مزید برداشت نہیں کرینگے، ہمیں جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ اور شہدائے ماڈل ٹاؤن کا انصاف چاہیے۔

احتجاجی ریلی سے دیگر قائدین کے خطابات

احتجاجی ریلی سے شیخ رشید احمد، شاہ محمود قریشی، چودھری سرور، سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور، چودھری ظہیر الدین خان، صاحبزادہ حامد رضا، عبدالخالق رضوی، صمصام بخاری نے خطاب کیا۔

  • شیخ رشید نے ناصر باغ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کو 14 شہداء کی بددعا لگی۔ نواز شریف احتجاج کی آڑ میں فوج سے این آر او مانگ رہے ہیں، اب انہیں بھاگنے کا راستہ نہیں ملے گا، شاہد خاقان عباسی نے ایل این جی میں کمیشن کھایا، یہ پارٹنر ہیں، انہیں بھی بے نقاب کروں گا، جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ پبلک کی جائے، 14 شہداء کو انصاف دیا جائے۔
  • شاہ محمود قریشی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے حصول میں عوامی تحریک کے ساتھ ہیں، ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ ہیں، ہم کل بھی شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ساتھ تھے ہم آج بھی ان کے ساتھ ہیں۔ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی جوڈیشل انکوائری کو پبلک کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ عوامی تحریک کے کارکن نڈر اور جرأت مند ہیں۔
  • تحریک انصاف کے مرکزی رہنما چودھری سرور نے کہا کہ نائن الیون کے بعد مسلمانوں کو یورپ میں مشکلات کا سامنا تھا اس موقع پر ڈاکٹر طاہرالقادری نے یورپ میں جا کر دلائل کے ساتھ اسلام پر انتہا پسندی کے لگائے جانے والے داغ کا جواب دیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی مشکلات میں کمی آئی۔ڈاکٹر طاہر القادری نے پوری دنیا میں اسلام کا روشن خیال چہرہ پیش کیا اور انتہا پسندی کے خاتمے کی جنگ لڑی، عوامی تحریک کے کارکنوں کے ساتھ دہشتگردی ناقابل قبول ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا انصاف ہونا چاہیے۔ ہم حصول انصاف کی جدوجہد میں ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ ہیں۔
  • ق لیگ پنجاب کے جنرل سیکرٹری چودھری ظہیر الدین نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ کی طرف سے عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری اور کارکنان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے آئے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے ہماری قیادت کا کردار پہلے دن سے شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ساتھ ہے، اب بھی ہمارا مطالبہ ہے کہ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کو پبلک کیا جائے اور شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کو انصاف دیا جائے۔
  • سنی اتحاد کونسل کے صدر صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ پنجاب حکومت کی ماتحت ایجنسیاں ہمیں قتل کی دھمکیاں دے رہی ہیں، ہم انہیں کہتے ہیں ہمت ہے تو آئیں، ہم کرپٹ اور بزدل شریف برادران نہیں ہیں کہ مشرف کی چند دن کی جیل سے گھبرا کر جدہ بھاگ جائیں گے۔ اب پاناما کے بعد سانحہ ماڈل ٹاؤن کا احتساب ہوگا۔ ہم عوامی تحریک کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں اور خزانے کے چوروں کو انجام تک پہنچائیں گے۔
  • عبدالخالق رضوی نے بھی شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور ڈاکٹر طاہر القادری کو یقین دلایا کہ مجلس وحدت المسلمین کل بھی ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ تھی، آج بھی ہم ان کے ساتھ ہیں۔ شریف برادران کو 14 بے گناہوں کا خون ہضم نہیں ہوگا۔ ایک بے گناہ کو قتل کرنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ شریف برادران نے 14 بار انسانیت کا قتل عام کیا۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن پس منظر اور پیش منظر

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن اور عوام کے حقوق کی بازیابی کے لیے ماہ جون 2014 کو پاکستان آکر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا تو حکومت بوکھلا اْٹھی اور اوچھے ہتھکنڈوں پر اْتر آئی اور اس تحریک کو کچلنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی اور فیصلہ کیا کہ ادارہ منہاج القرآن اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ پر لگے ہوئے بیرئیرز کو ہٹانے کے بہانے دھاوا بولا جائے گا اور جو بھی اس راہ میں رکاوٹ بنے گا اسکو ختم کر دیا جائیگا۔ حالانکہ بیرئیرز جو کہ عدالت عالیہ لاہور کے حکم سے پولیس نے خود اس وقت کے SP ماڈل ٹاؤن ایاز سلیم کی موجودگی و نگرانی میں لگوائے تھے۔ رٹ پٹیشن 22367/2010 کی سماعت کے دوران عدالت عالیہ کے حکم سے مورخہ 20/01/2011 کو ایاز سلیم سابق SP ماڈل ٹاؤن لاہور عدالت عالیہ میں حاضر ہوئے اور اپنا بیان قلمبند کروایا جس میں عدالت عالیہ کو تحریری یقین دہانی کروائی کہ انہوں نے ادارہ منہاج القرآن اور گردونواح کے مکینوں کی سیکیورٹی کے لئے 16 پولیس اہلکاران کو 24 گھنٹے متعین کردیا ہے اور متعلقہ سڑکوں پر جرسی بیرئیرز (Jersey Barriers) رکھوادیے ہیں۔

یہ بیرئیرز اس لیے لگے تھے کہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے سال 2010 میں پاکستان اور دنیا کے دیگر علاقوں میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف ایک عالمی اہمیت کا فتویٰ جاری کیا جو کہ 600 صفحات پر مشتمل دہشت گردی اور فتنہ خوارج کتاب کے نام سے تحر یر شدہ ہے جسے پوری دنیا میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی اور اس سے پاکستان اور دنیا بھر میں دہشت گرد مشتعل ہو کر بوکھلا اْٹھے اور ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے جانی دشمن بن گئے۔ پاکستان اور دنیا بھر کے دہشت گروں نے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دینا شروع کردیں جس پر پاکستان کی مختلف ایجنسیوں نے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو ان دہشت گردوں کے مذموم عزائم کے بارے میں تحریری طور پر آگاہ بھی کیا۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تحریک کو روکنے کے لیے جو منصوبہ بندی کی گئیں تھیں اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مورخہ 16جون 2014 کو رانا ثناء اللہ وزیر قانون کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں سید توقیر شاہ پرسنل سیکرٹری ٹو وزیر اعلیٰ، میجر (ر) اعظم سلیمان ہوم سیکرٹری، راشد محمود لنگڑیال کمشنر لاہور، محمد عثمان DCO لاہور، طارق منظور چانڈیو AC ماڈل ٹاؤن لاہور، علی عباس TMO ماڈل ٹاؤن لاہور، رانا عبدالجبار DIG آپریشن لاہور و دیگران شامل تھے۔جس میں اس بات کے فیصلہ کیا گیا کہ میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف کے فیصلے کی تکمیل کے لیے ادارہ منہاج القرآن کے اردگرد رکاوٹوں کو ہٹانے کے بہانے دھاوا بولا جائے گا اور جو بھی شخص اس میں روکاوٹ بنے اْس ختم کردیا جائے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن پاکستان کی تاریخ کا ایک بھیانک کھیل ہے جس میں گورنمنٹ نے طے شدہ منصوبہ کے تحت منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے معصوم نہتے اور بےگناہ کارکنان کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ خونی اور دہشت گردی پر مبنی مناظر موقع پر موجود لوگوں کے علاوہ پوری دنیا نے میڈیا چینلز پر براہ راست دیکھے جس میں 2 خواتین سمیت 14 افراد شہید ہوئے اور 100 سے زائد افراد کو سیدھی گولیاں ماری گئیں اور ظلم وریاستی دہشت گردی کی ایک نئی تاریخ رقم کی گئی۔ قطع نظر اس سے کہ حکومت اعتراف گناہ کے ساتھ مظلوموں کی اشک شوئی کے اقدامات کرتی لیکن پولیس کی مدعیت میں جھوٹی FIR درج کرکے زخمی کارکنان اور مقتولین کے لواحقین کو گرفتار کرکے دنیا کی تاریخ میں ظلم وناانصافی کی نئی مثال قائم کردی۔

وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے اْسی دن پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری کے لیے جوڈیشل کمیشن بنا رہا ہوں اگر میری طرف انگلی بھی اْٹھی اور مجھے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار ٹھہرایا تو میں فوری طور پر استعفیٰ دے کر اپنے آپ کو قانون کے حوالے کردوں گا۔

وزیراعلیٰ نے ایک خط کے ذریعہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ لاہورکو کمیشن قائم کرنے کی درخواست کی جس پر چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ لاہور نے مسٹر جسٹس علی باقر نجفی جج لاہور ہائی کورٹ لاہور پر مشتمل یک رکنی عدالتی ٹربیونل قائم کیا جس پر جج صاحب نے حقائق جاننے کے لیے جائے وقوعہ کا خود معائنہ کیا اور اس علاقہ کا بھی خفیہ دورہ بھی کیا تاکہ حقائق کو جانا جاسکے۔ جج صاحب نے حساس اداروں سے بھی معاونت حاصل کی اور انسانی حقوق کی بعض تنظیمات نے بھی شواہد ازخود ٹربیونل کے رو بررو پیش کیے جس کے بعد اپنی تحقیقاتی رپورٹ مکمل کرکے مسٹر جسٹس علی باقر نجفی نے حکومت کو ارسال کی جس میں حکومت پنجاب اور پنجاب پولیس کو قتل وغارت گری کا ذمہ دار قراردیا گیا۔ جس میں کہا گیا کہ رانا ثناء اللہ کے اجلاس کے فیصلے پاکستانی تاریخ کے بد ترین قتل عام کے ذمہ دار ہیں۔ منہاج القرآن کے باہر بیرئیر ز قانونی تھے۔ پولیس نے وہی کچھ کیا جس کا حکومت نے اسکو حکم دیا تھا۔ حکومت پنجاب کی منظور ی سے پولیس نے آپریشن کیا۔ حکومت کا 17 جون 2014ء کا ایکشن غیر قانونی تھا۔ پولیس پوری طرح سانحہ ماڈل ٹاؤن میں خون کی ہولی میں ملوث ہے۔

اس رپورٹ کو حاصل کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ لاہورمیں رٹ پٹیشن 33702/2014 دائر کی ہوئی ہے جو کہ ابھی تک لاہور ہائی کورٹ لاہور کے فل بنچ میں زیر سماعت ہے۔ تاہم پاکستانی عوام ٹربیونل کی رپورٹ سے میڈیا کے ذریعہ آگاہ ہو چکی ہے اور حکومت کا رپورٹ کو دباکر بیٹھ جانا اور کسی بھی قیمت پر شائع نہ کرنا اس بات کا بین ثبوت ہے جوڈیشل کمیشن نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دارحکومت کو ٹھہرایا ہوا ہے۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی حکومت مخالف تحریک سے حکومت اتنی زیادہ پریشان ہو گئی تھی کہ اس وقوعہ کے چند روز بعدمورخہ 23 جون 2014ء کو جب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بیرون ملک سے بذریعہ طیارہ اسلام آباد آئے تو ہوائی جہاز کو اسلام آباد ایئر پورٹ پر اترنے نہ دیا گیا بلکہ طیارہ 15، 16 چکراسلام آباد کی حدود میں لگاتا رہا اور اس کے بعد ہوئی جہاز کارخ لاہور کی طرف کر دیا گیا۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کی FIR کے اندراج کے لیے شہداء کے لواحقین وزخمی جب تھانہ فیصل ٹاؤن میں گئے تو پولیس نے FIR درج کرنے سے انکار کر دیا۔ کیونکہ اس میں حکومت اور اعلیٰ پولیس افسران کے نام شامل تھے۔ پولیس کے FIR کے اندارج کے انکار پر سیشن کورٹ میں گئے تو ایڈیشنل سیشن جج صاحب نے FIR درج کر نے کا حکم دیا لیکن اس کے باوجود پولیس نے FIR درج نہ کی کیونکہ اس سانحہ میں حکومت اور بااثر اعلیٰ پولیس افسران شامل تھے۔ حکومتی وزراء نے سیشن کورٹ کے اس حکم کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن فائل کی جو عدالت عالیہ لاہور نے خارج کردی۔

حکومتی وزراء کی رٹ پٹیشن کے اخراج کے باوجود پولیس نے FIR درج نہ کی کیونکہ اس میں موجود ہ وزیراعظم، وزیر اعلیٰ، وزراء اور اعلیٰ پولیس افسران شامل تھے۔ دھرنا کے دوران چیف آف آرمی سٹاف کی مداخلت سے FIR درج ہوئی لیکن بعدازاں گورنمنٹ نے جانبدار JIT بنا کر اس میں گورنمنٹ کے افراد سمیت تمام پولیس افسران کو کلین چٹ دیدی صرف دو پولیس اہلکاروں کا چالان عدالت میں پیش کیا گیا۔ کیونکہ اس سانحہ میں شریف برادران اور انکے حواری/وزراء براہ راست ملوث تھا اور پولیس کے ذریعہ انہوں نے قتل وغارت گری کروائی تھی۔ اس لئے کسی بھی پولیس افسر کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی بلکہ اس سانحہ میں ملوث پولیس افسران کو مراعات اور عہدوں سے نوازا گیا۔ اس سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حصول انصاف کے لیے مورخہ 15 مارچ 2016 کو انسداددہشت گردی عدالت میں استغاثہ دائر کردیا گیا۔ اس استغاثہ میں 56 زخمی و چشم دید گواہان کے بیانات ہوئے ہیں۔

مورخہ 7 فروری 2017 کو انسداددہشت گردی عدالت نے اس سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں 124 پولیس والوں کو طلب کر لیاہے جو اس سانحہ میں ملوث ہیں جبکہ جن افراد کے حکم سے یہ ریاستی دہشت گردی ہوئی قتل وغارت گری ہوئی ہے انکو طلب نہیں کیا ہے۔ گورنمنٹ کے افراد کو طلب نہ کرنے پر ہائی کورٹ میں رٹ فائل کی ہوئی ہے۔

انسداددہشت گردی عدالت لاہور میں استغاثہ کیس میں 115 پولیس والے عدالت میں پیش ہو رہے ہیں جبکہ بقیہ ملزمان کو سمن جاری ہو رہے ہیں۔ اس کیس میں پولیس افسران DIG رانا عبدالجبار، SP عبدالرحیم شیرازی پیش نہیں ہوئے۔ جن کو گورنمنٹ نے بیرون ملک فرار کروایا ہوا ہے۔

جبکہ دیگر پولیس افسران SP طارق عزیز، SP محمد ندیم، SP معروف صفدر واہلہ، SP عمر ریاض چیمہ، SSP اقبال خاں، SSP ڈاکٹر فرخ رضا اور عمر ورک اس کیس میں عدالت میں پیش ہو رہے ہیں۔

شیخ عاصم SHO جو محمدعمر ولد محمد صدیق کا قاتل ہے وہ بھی بیرون ملک فرارہے۔

مقدمہ نمبر 510/14 میں JIT نے SP سلمان علی خاں کو بھی اس سانحہ میں ادارہ منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان پر خود فائرنگ کرنے اور دیگر پولیس افسران کو فائرنگ کرنے کاحکم دینے پر ذمہ دار ٹھہرایا۔اسی طرح مقدمہ نمبر 696/14 کی JIT نے بھی کہا کہ پولیس ملازمین نے اورSP سلمان علی خاں نے خود اور اسکے حکم پر کچھ ملازمین نے ادارہ منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان پر فائرنگ کی جسکی تصدیق ویڈیو فوٹیج سے ہوتی ہے۔ کیونکہ اس وقت سلمان علی خاں SPسیکورٹی تھے۔ ان کا اس سانحہ میں بہت بڑا کردار ہے۔

SP سلمان علی خاں جو کہ بیرون ملک فرار ہو گیا تھا اور مقدمہ نمبر 510/14 میں اشتہاری ہو گیا تھا اور جب تمام گرفتار پولیس والوں کی ضمانتیں انسداددہشت گردی کورٹ سے ہو گئیں تو SP سلمان علی خاں نے بھی مقدمہ نمبر 510/14 FIR میں ضمانت قبل ازگرفتاری کروالی۔ اب حکومت اور پولیس افسران کے ساتھ سازباز کرکے ضمانت کیس میں پولیس رپورٹ اپنے حق میں کروالی کہ ’’ صفحہ مثل پرSP سلمان علی خاں کے خلاف کوئی ٹھوس شہادت موجود نہیں ہیں اس لیے یہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 169 کے تحت اسکی گرفتاری کو التواء کیا جاتا ہے۔ جب اس کے خلاف کوئی ٹھوس شہادت آئے گی تو پھر دیکھیں گے‘‘ جب یہ رپورٹ پولیس کی طرف سے عدالت میں پیش کی گئی تو SP سلمان علی خاں کے وکیل نے bail Petition کو withdraw کر لیا۔ کیونکہ اب پولیس اور حکومت کے ساتھ سازباز کرنے کے بعد SP سلمان علی خاں کو ضمانت کروانے کی ضرورت نہ رہی تھی۔

ملزمان کی طلبی سے پہلے انسداددہشت گردی کورٹ میں درخواست دی تھی کہ جسٹس علی باقر نجفی کی رپورٹ کو منگوایا جائے اور اس رپورٹ کو استغاثہ کا حصہ بنایا جائے لیکن انسداددہشت گردی عدالت نے یہ درخواست خارج کر دی۔ اس آرڈر کیخلاف ہائی کورٹ میں گئے تھے، ہائی کورٹ نے بھی اس رٹ کو خارج کردیا۔ اب ہم اس سلسلہ میں سپریم کورٹ گئے ہوئے ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ لاہور میں جسٹس علی باقر نجفی کی رپورٹ کو منظرعام پر لانے کے لئے دسمبر 2014ء سے رٹ دائر کی ہوئی ہے جس کے لئے فل بنچ نے باقاعدہ سماعت کی اور فریقین کی بحث /دلائل سنے۔ لیکن فیصلہ نہ کیا اس بنچ کی سربراہی جسٹس خالد محمود خاں کر رہے تھے۔ بعدازاں ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد مختلف درخواستیں دی گئیں جس پر جسٹس یاور علی کا فل بنچ بنا لیکن دسمبر 2016ء میں تاریخ پیشی کے بعد اب تک اس کیس میں کوئی سماعت نہیں ہوئی ہے۔

IG مشتاق سکھیرا کو انسداددہشت گردی عدالت نے طلب کیا تھا لیکن IG نے لاہور ہائی کورٹ لاہور میں اپنی طلبی کو چیلنج کیاہوا ہے اور لاہورہائی کورٹ لاہور نے IG کی طلبی کی حد تک ATC کے آرڈر کو Suspend کیا ہوا ہے اس میں آئندہ تاریخ 21 ستمبر 2017 ہے۔ یہ کیس جسٹس یاور علی کے فل بنچ میں زیر سماعت ہے۔

اسطرح لاہور ہائی کورٹ لاہور میں کیپٹن (ر) عثمان DCO اور علی عباس TMO نے بھی اپنی طلبی کو چیلنج کیا تھا تو ابتدائی سماعت کے دوران ہی فل بنچ لاہور ہائی کورٹ لاہور ان Petitions کو خارج کرنے لگا تو کیپٹن (ر) عثمان DCO اور علی عباس TMO کے وکلاء نے ان Petitions کو واپس لے لیا تھا۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس پر تاریخ پر تاریخ پڑتی جارہی ہے اور ہم انصاف کے لئے آئین و قانون کی پیروی جاری رکھے ہوئے ہیں۔