صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی کی یاد میں تعزیتی ریفرنس

رپورٹ: طالب حسین سواگی

گذشتہ ماہ محترم صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی مرحوم (امیر تحریک منہاج القرآن) کی خدمات کے اعتراف اور ان کے ایصال ثواب کے لئے ملک بھر میں دعائیہ تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ ان تقریبات میں مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی بلندی درجات کے لئے دعائیں کی گئیں۔ مرکزی تقریب 15 اگست 2017ء بروز منگل جامع المنہاج بغداد ٹاؤن میں ہوئی جس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، محترم حضرت پیر خواجہ غلام قطب الدین فریدی (گڑھی شریف)، مرکزی قائدین تحریک، سٹاف ممبران، اساتذہ، طلبہ، علماء و مشائخ اور مرحوم کے لواحقین نے خصوصی شرکت کی۔ محفل کا آغاز تلاوتِ و نعت رسولِ مقبولa سے ہوا۔ نقابت کے فرائض علامہ غلام مرتضیٰ علوی اور علامہ محمد حسین آزاد نے سرانجام دیئے۔ اس تقریب سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور دیگر مقررین نے اظہار خیال کیا۔

اظہارِ خیال: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے محترم صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے دنیا بھر میں موجود منہاج القرآن کی تنظیمات اور مراکز کو ہدایت کی کہ وہ مسکین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ایصال ثواب کے لئے اجتماعی قرآن خوانی اور حلقات ذکر کی تقریبات کا اہتمام کریں۔

شیخ الاسلام نے فرمایا کہ میرا ان کے ساتھ تعلق تین عشروں سے زائد کا ہے۔ یہ تعلق دورۂ پشاور کے دوران 1983ء سے قائم ہوا۔ پشاور میں ہمارے دو دیرینہ ساتھی تھے: ایک مرحوم خٹک صاحب اور ایک حضرت مسکین صاحب۔ دونوں حضرات کو حضرت شلپانڈی بابا رحمۃ اللہ علیہ (بُنیر شریف) کے ساتھ نسبت تھی۔ حضرت مسکین رحمۃ اللہ علیہ صاحب تو ان کے خلیفہ اعظم بھی تھے۔ ایک بار حضرت شلپانڈی بابا رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے بہت بڑا عشائیہ دیا تھا اور بڑی محبت کے ساتھ عظیم استقبال کروایا تھا۔ اسے آرگنائز کرنے میں بھی مسکین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ہاتھ تھا۔

ہر ماہ جب میں پشاور جاتا تھا تو مرحوم خٹک صاحب (سابق ڈپٹی اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان) اور مسکین صاحب ہر ماہ دروس قرآن رکھواتے، جہاں پر بڑے اہل علم اور اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ آتے تھے۔ جج حضرات، علمائ، سکالرز، ڈاکٹرز، شعرائ، ادیب الغرض ہر طبقے کے لوگوں کو یہ دونوں احباب اکٹھا کرتے تھے۔ ہر ماہ مختلف لوگوں کو بلاتے تھے۔ اس طرح ان پروگراموں کو آرگنائز کرنے کی وجہ سے میرے ساتھ ان کا تعلق بنا۔ اس زمانے کے (سرحد) KPK کے چیف جسٹس تک درس قرآن سننے آتے تھے۔

حضرت مسکین صاحب رحمۃ اللہ علیہ جیسے لوگ آسانی کے ساتھ کسی تنظیم و تحریک سے وابستہ نہیں ہوتے بلکہ خوب چھان پھٹک اور تحقیق کے بعد فیصلہ کرتے ہیں۔ ہمارے پنجاب میں غلامانہ ذہنیت ہے، اس سرزمین سے غلام پیدا ہوتے ہیں، اگر کوئی بہادر پیدا ہوجائے تو زمین کا مزاج اس کا ساتھ نہیں دیتا۔ KPK پختونوں کی سرزمین ہے، ان لوگوں نے ہمیشہ جنگیں لڑی ہیں، مزاحمت کی ہے۔ افغانستان میں روس آگیا تھا تو ان کے ساتھ جنگ لڑی اور اس کو خالی کروایا۔ اللہ نہ کرے کہ اس خطہ پنجاب میں کوئی آجائے جس سے جنگ کرنی پڑجائے، اس لئے کہ اس خطے کے لوگ بنی اسرائیل کی طرح کے ہیں۔ البتہ مستثنیات ہر جگہ ہوتی ہیں۔

جناب مسکین فیض الرحمن رحمۃ اللہ علیہ کی رگوں میں افغانی خون تھا، مجاہدین کا خون تھا۔ امت کا ایک درد تھا، اس وجہ سے دور دراز کے لوگوں کو بلاتے تھے اور اُنہیں دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آشنائی دلوانے کے لئے میرے خطاب سنواتے۔

ان کی اس لگن اور محنت کو دیکھتے ہوئے میں نے ان کو KPK کا امیر تحریک مقرر کیا اور عرصہ دراز اس عہدہ پر فائز رہے۔ اسکے بعد میں نے ان سے کہا کہ آپ مرکزی امیر تحریک منہاج القرآن کے طور پر لاہور آجائیں۔ ان کی وفاداری، استواری، اللہ اور رسولa کے ساتھ تابعداری اور ایمان داری کا اس بات سے جائزہ لیں کہ انہوں نے ایک اعلیٰ گورنمنٹ جاب چھوڑ دی اور لاہور آگئے اور پھر واپس نہیں گئے۔ ان کی وفا داری کا عالم یہ ہے کہ آج وہ روضۃ المخلصین میں مدفون ہیں۔

کئی لوگوں میں محبت ہوا کے جھونکے کی طرح آتی بھی ہے اور جاتی بھی ہے، ہر ایک کی محبت مجرد نہیں ہوتی۔ توحید کا عقیدہ بھی ہر ایک کے پاس ہے مگر صوفیاء اور اولیاء نے توحید کے مراتب مقرر کئے ہیں۔ توحید تفرید بھی ہے اور تجرید بھی ہے۔ توحید کو ہر بندہ مانتا ہے مگر اس کی یکتائی کو کیسے ماننا ہے، یہاں سے مراتب شروع ہوتے ہیں۔ کوئی تفرید کے مقام پرجاتا ہے اور کوئی تجرید کے مقام پر ہوتا ہے۔ اسی لئے قرآن مجید نے قل ھواللہ احد کہا ہے، قل ھواللہ واحد نہیں کہا۔ ’’واحد‘‘ کا مطلب ہے ایک اور ’’احد‘‘ کا مطلب ہے یکتا۔ ’’احد‘‘ کا درجہ ’’واحد‘‘ سے اونچا ہے۔

اسی طرح محبت میں بھی تفرید اور تجرید ہوتی ہے۔ کیونکہ ایسی محبتیں ہمارے میں موجود ہیں جس میں بہت سے لوگ شامل ہیں۔ مثال کے طور پر جان، اولاد، بیوی، بچے، والدین پھر ان کی اولادیں یہ سب محبتیں انسان کے دل میں شامل ہیں۔ درجے اوپر نیچے ہوتے ہیں مگر محبت ہوتی ہے۔ اس میں اعلیٰ کام یہ ہے محبت میں تجرید ہو اور اس میں مجرد ہوا جائے۔ محبت جب تک اپنا درجہ کراس نہ کرجائے، اس وقت تک انسان بڑے فیصلے نہیں کرسکتا۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اس بندے میں محبت ہی نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا:

قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اﷲِ وَرَسُوْلِهٖ وَجِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اﷲُ بِاَمْرِهٖط وَاﷲُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ.

(التوبه، 9: 24)

اللہ تعالیٰ نے ان سب محبتوں کو جائز قرار دیا مگر مراتب رکھے ہیں۔سارا کچھ بیان کردیا تو آخر میں فرمایا احب الیکم من اللہ ورسولہ کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ان تمام محبتوں سے بڑھ جائے اور محبت احبیت کے درجے میں چلی جائے۔ جو سب محبتوں سے بڑھ جائے پھر وہ محبوب نہیں ہوتا بلکہ وہ اَحب کے درجہ پر پہنچ جاتا ہے۔ اس طرح محبت آگے بڑھتی اور تفرید و تجرید سے آگے جاتی ہے تو انسان بڑے فیصلے کرتا ہے۔ ورنہ آدمی کہتا ہے محبت کرتا ہوں، کرنا بھی چاہتا ہوں اور کر بھی نہیں سکتا، مجبوریاں ہیں، رکاوٹیں ہیں۔

یہ بھی یاد رکھیں کہ محبت اس وقت تک کامل نہیں ہوتی جب تک بے نیاز نہ ہوا جائے، پھر اس کو لومۃ لائم کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ کوئی طعنے دے یا برا بھلا کہے، پھر وہ کسی تعریف کا محتاج نہیں ہوتا۔ پھر محبوب دے تب بھی خوش، نہ دے تب بھی خوش کیونکہ وہ ان چیزوں سے بے نیاز ہوتا ہے۔ اسے ان چیزوں سے محبت نہیں بلکہ اسے تو محبوب کی ذات سے محبت ہوتی ہے۔

محبت تعریف اور نظر کرم جیسی چیزوں سے بے نیاز ہوتی ہے۔ محبت کا تعلق نعمت سے نہیں ہوتا بلکہ منعم سے ہوتا ہے۔ وہ محبوب کو دیکھتی رہتی ہے۔ محبوب بلائے یا نہ بلائے، پوچھے یا نہ پوچھے، بیمار کردے یا صحت مند کردے، محبوب منع کردے یا دے دے وہ ان چیزوں کو نہیں دیکھتا کیونکہ یہ سب چیزیں نیچے رہ جاتی ہیں۔ جب محبت بالغ ہوتی ہے تو انسان کے اندر جرأت پیدا ہوتی ہے۔ محبت بے خوف اور بے حرص ہوتی ہے۔ ہر وہ چیز جو بندے کو کمزور کرتی ہے وہ اس سے بے نیاز ہوتی ہے۔ اس کا تعلق طاقتور ہوتا ہے۔

مسکین صاحب کی محبت بڑی پختہ تھی اور بہت سے لوگوں کی محبت سے منفرد محبت تھی۔ جس محبت نے ان کو استقامت دے دی تھی اور اتنے لمبے عرصے میں اول سے آخر تک ان کی محبت میں کمی نہیں دیکھی۔ ہم انسان ہیں، کئی بار محفلوں میں ایسا ہوا ہوگا کہ انسان مصروف ہوتا ہے اور کسی کا نام لے کر حال احوال نہیں پوچھ سکتا اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ حال پوچھ لیا جاتا ہے۔ جب کبھی ان کا نام لے کر پوچھ لیا، تب بھی ان کے چہرے پر خوشی ہوتی۔ اگر کبھی نام لے کر احوال نہیں پوچھا تو میں نے 35 سال میں نہیں دیکھا کہ ان کے چہرے پر کبھی ملال آیا ہو۔ ان کو ہمیشہ مسکراتا ہوا پایا ہے۔

اگر کسی کے احوال دیکھنے ہوں اور اس کے دل میں کیا ہے دیکھنا چاہتے ہیں تو دیکھیں کہ چہرہ کیا کہتا ہے؟ مسکین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا چہرہ ہمیشہ مسکراتا رہتا، میں نے زندگی میں مسکین صاحب کے علاوہ ایسا چہرہ نہیں دیکھا جو ہمہ وقت مسکراتا ہو، ان کو ہر حال میں مسکراتا دیکھا ہے۔ وہ ہمیشہ چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کا ادب کرتے تھے۔ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ ہر بندے کا علم کے حوالے سے ادب کرتے تھے۔ ان کی سوچ کلیر تھی، وہ مدارس سے باقاعدہ درسی علوم و فنون پڑھے ہوئے نہیں تھے لیکن اس کے باوجود شریعت کا علم ان پر واضح تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم لدنی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم تقویٰ اختیار کرو تو وہ تمہیں علم عطا کرے گا۔

میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ ان کو بطریق تقویٰ علم ملا تھا اور ایک خوبی یہ تھی کہ بڑے باعمل انسان تھے۔ ان کے علم، عمل اور قول و فعل میں تضاد نہیں تھا۔ وہ تقویٰ ظاہر نہیں کرتے تھے بلکہ متقی تھے۔ اُن کے گھر والوں نے مجھے بتایا کہ آخر دن تک نماز تہجد، فرض نماز، تلاوت قرآن، وظائف، نوافل کے پابند تھے۔ ہمہ وقت باوضو رہتے، اتنے باعمل تھے کہ آخری دن تک کوئی نماز قضا نہیں ہوئی۔ میں نے ہمیشہ ان کو تقویٰ اور صالحیت پر پایا ہے۔ ان کی نیت کوہمیشہ حسنہ دیکھا ہے، ان کے اندر قناعت تھی، وسائل میں اتنی فراوانی نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ جیسے چاہتا ہے معاملہ فرماتا ہے مگر وہ دل کے بہت امیر تھے۔ تحریک کے ہی امیر نہیں بلکہ دل کے بھی امیر تھے۔ سب سے بڑھ کر میں نے اُنہیں حالتِ شکر پر دیکھا ہے۔ بہت زیادہ خوش اخلاق تھے۔ جتنا عرصہ مرکز میں گزارا، کبھی نہیں دیکھا کہ کسی کے ساتھ زیادتی کی ہو، کسی سے اختلاف جھگڑا نہیں تھا، کبھی شکایت نہیں کی۔ یہ بہت عظیم چیزیں ہیں۔ ان کے وصفِ عدل و انصاف کی وجہ سے تنظیمی انکوائری ان کے ذمہ ہوتی تھی جس کا وہ ہمیشہ میرٹ پر فیصلہ کرتے۔

اللہ رب العزت ان کے درجات بلند فرمائے۔ صدیقین، صالحین کی معیت عطا فرمائے اور ان کے گھر والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ ہم ان کے غم میں شریک ہیں۔ جس طرح گھر والے سوگ میں ہیں، ہم بھی ان کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلینa

اظہار خیال: حضرت پیر خواجہ غلام قطب الدین فریدی

حضرت پیر خواجہ غلام قطب الدین فریدی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ گڑھی شریف، مرکزی صدر نیشنل مشائخ کونسل پاکستان) نے اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ

حضرت صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال پُرملال پر میں سب حضرات سے دل کی گہرائیوں سے اظہار افسوس کرتا ہوں۔ ایسی شخصیات روز روز پیدا نہیں ہوتیں، اللہ ان کی قبر انور پر کروڑہا رحمتیں نازل فرمائے۔ یہ نظام تو اسی طرح چلتا رہتا ہے، موت و حیات کا سلسلہ اسی طرح جاری رہتا ہے۔

اجل کے ہاتھ کوئی آرہا ہے پروانہ
نہ جانے آج کی فہرست میں رقم کیا ہے

کچھ پتہ نہیں ہوتا کس کی کس وقت موت آجائے لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ مر کر مر جاتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ مرکر بھی نہیں مرتے۔ علامہ اقبال نے بڑی خوبصورت بات کی کہ آپ اگر کسی کو کوئی چیز بخش دیں تو وہ واپس نہیں لیتے، اس لئے کہ زیب نہیں دیتا کہ بخشی ہوئی چیز واپس لی جائے۔ لہذا اللہ جو جان بخش دیتا ہے وہ بھی واپس نہیں لیتا۔ فرماتے ہیں:

جانی کہ بخشد دیگر نگیرند
آدم بمیرد از بی یقینی

یعنی بندہ بے یقینی کی وجہ سے مرتا ہے۔ حضرت صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی رحمۃ اللہ علیہ یقین کی حامل شخصیت تھے کہ عسر اور یسر کی ہر کیفیت اور حال میں خوش رہے، ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہی ہے۔

ہر حال میں رہتے ہیں شاد دیوانے
نہ جانے ان کو تیری کس ادا سے نسبت ہے

ایسے لوگوں کو یار کی ہر ادا سے نسبت ہوتی ہے اس لئے کہ ان کا یہ ایمان تھا:

ہجر اچھا نہ وصال اچھا ہے
یار جس حال میں رکھے وہی حال اچھا ہے

محترم مسکین صاحب رحمۃ اللہ علیہ مزاجاً اور شخصیت کے اعتبار سے بہترین انسان بھی تھے اور انسان دوست بھی تھے۔ قبلہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کے سامنے لب کشائی تو عجیب بات ہے کہ لقمان کے سامنے حکمت بیان کرنا عجیب بات ہوتی ہے، سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے لیکن چند جملے اجازت سے پیش کررہا ہوں کہ

انسان کے بارے میں ہم نے عام طور پر یہی سمجھا ہے کہ انسان بھولنے والے کو کہتے ہیں۔ لیکن دراصل انسان وہ ہے جو اللہ کی محبت کے سوا سب کچھ بھول جائے۔ یہ پہلی سٹیج ہے۔ اس کے بعد دوسری سٹیج یہ ہے کہ پھر اپنے آپ کو بھی بھول جائے اور اس سے اگلی سٹیج یہ ہے کہ پھر اس بھولنے کو بھی بھول جائے۔

حضرت مسکین رحمۃ اللہ علیہ صاحب اس طرح کے انسان تھے۔ وہ انسان دوست تھے۔ انسان دوست کا مطلب کیا ہے؟

یاد رکھیں! ایک دوست ہی تو ہوتا ہے جس کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ اگر مطلب ہے تو پھر کیسا دوست ہے۔ وہ تو ایسے دوست تھے کہ جن کو مطلب سے بھی کوئی مطلب نہیں تھا۔ رب کائنات نے فرمایا:

الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً.

(الملک، 67: 2)

’’جس نے موت اور زندگی کو (اِس لیے) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے‘‘۔

ایک ترتیب وہ ہے جو ہمارے دیکھنے میں آتی ہے اور ایک ترتیب وہ ہے جو قرآن پاک میں موجود ہے۔ دیکھنے میں جو ترتیب ہے اس کے مطابق پہلے حیات ہوتی ہے اور بعد میں موت۔ بندہ پہلے آتا ہے پھر اس کو موت آجاتی ہے۔ اس آنے اور جانے کا سارا خلاصہ یہ ہے:

از بیابان عدم تا سرِ بازار وجود
بہ تلاش کفنی آمدہ عریانی چند

کچھ ننگے لوگ بیابانِ عدم سے اس بازارِ وجود میں کفن تلاش کرنے کے لئے آئے تھے اور اس کو حاصل کرکے چلے گئے۔ یہ زندگی کا خلاصہ ہے۔ ہماری پوری زندگی میں جھگڑے بہت ہوتے ہیں کہ مرنے والا کیا چھوڑ گیا ہے۔ اس لڑائی جھگڑے میں پتہ نہیں کیا کچھ ہوتا ہے، یہ ایک پہلو ہے۔ اگر اس کا دوسرا پہلو دیکھ لیں کہ مرنے والا ساتھ لے کر کیا گیا ہے تو کوئی جھگڑا رہتا ہی نہیں۔ ہمیں دوسرے پہلو پر بھی غور کرنا چاہئے۔ دیکھنے میں جو ترتیب ہے وہ یہ ہے کہ پہلے حیات ہے پھر موت ہے لیکن قرآن پاک میں جب بیان فرمایا تو پہلے موت کو بیان فرمایا پھر حیات کو بیان فرمایا ہے۔ ترتیب کو رب کائنات نے الٹ دیا، کیوں؟ اس لئے کہ ہم نے جس حیات کو حیات سمجھا ہے، وہ حیات نہیں ہے اور ہم نے جس موت کو موت سمجھا ہے، وہ موت نہیں ہے۔ حیات اصل میں ہوتی ہی وہ ہے جو اس موت کے بعد شروع ہوتی ہے۔

یہ مرنا کس لئے ہوتا ہے؟ اگر خدانخواستہ کوئی آدمی پانی میں ڈوب جائے تو جب تک وہ زندہ رہے گا اس وقت تک ڈوبتا جائے گا اور جب مرجائے گا تو تر کر اوپر جائے گا۔ یہ مرنا تو ترنے کے لئے ہوتا ہے۔ غور سے اس ریڑھی والے کی بات سنئے جو ہر چیز بیچنے والے کی طرح اپنی چیز کی اچھائی بیان کرتا ہوا سنگترے بیچ رہا تھا، وہ کہہ رہا تھا ’’اچھے سنگترے‘‘۔ ان الفاظ پر غور کریں ’’اچھے سنگ ترے‘‘ گویا ترتا وہی ہے جو اچھوں کے سنگ لگ جائے۔ یہ مرنا تو ترنے کے لئے ہوتا ہے۔ اصل میں موت کے ذریعے انسان ڈوب کر اوپر آتا ہے اور پھر وہ زندہ ہو جاتا ہے۔

حضرت خواجہ محمد یار فریدی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حوالے سے ایک بڑی پیاری بات کی ہے، وہ فرماتے ہیں:

نے باری پانی تار اے
دلدار دا ڈیرا پار اے

اس یار سے ملنے کا دل کرتا ہے مگر اس نے دریا کے پار ڈیرہ ڈال رکھا ہے اور دریا کا پانی بہت زیادہ ہے۔

اب اس ملاقات کا شوق کیسے پورا ہوگا؟ شوق دامن گیر ہے۔ اس پر خواجہ محمد یار فریدی رحمۃ اللہ علیہ خود ہی جواب دیتے ہیں:

فریدا ٹریا ٹریا جا

یار سے ملنا چاہتے ہو تو اس دریا کے کنارے چلتے رہو ایک پُل آجائے گا، اس پُل کو جب عبور کرو گے تو یار سے مل جاؤ گے۔ وہ پل کون ساہے؟

الموت جسر یوصل الحبیب الی الحبیب.

’’موت ایک پُل ہے جو یار کو یار سے ملا دیتا ہے‘‘۔

جب اس پل پر پہنچنا ہے تو اس موت کو چکھنا ہے۔ یاد رہے کہ موت کھانے کے لئے نہیں دی جاتی بلکہ چکھنے کے لئے دی جاتی ہے۔ انحصار اس بات پر ہے کہ وہ چکھنے کے بعد آپ کو کیسی لگتی ہے؟ اگر آپ کے اندر عشق ہے تو اس کو جب چکھیں گے تو یار سے مل جائیں گے، پھر آپ کہیں گے یہ تو مزے کی چیز ہے، اس نے تو یار سے ملادیا ہے۔ میں اتنے عرصے سے یار سے ملنے کے لئے اشتیاق میں تھا، پھر چکھیں گے، پھر ملیں گے، پھر چکھیں گے، پھر ملیں گے۔ عاشق تو چکھتے چکھتے موت کو کھاجاتا جاتا ہے لیکن موت اس کو نہیں کھاتی۔

کشتگان خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جان دیگر است

میں حضرت صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی رحمۃ اللہ علیہ کا جتنا بھی اظہار تعزیت کروں اور صبرکا کہوں، وہ کم ہے۔ اس حوالے سے میں اتنی بات عرض کروں گا:

چارۂ دل سوائے صبر نہیں
سو تمہارے سوا نہیں ہوتا ہے

ان شاء اللہ یہ نظام چلتا رہے گا، امیر تحریک بھی کوئی بن جائے گا اور ان کے بچے ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلتے ہوئے اس معاشرے میں بہتر مقام پیدا کرلیں گے لیکن بات یہ ہے کہ

ہمیں التجا نہیں باقی، ضبط کا حوصلہ نہیں باقی
اک تیری دید چھن گئی مجھ سے ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی

اظہارِ خیال: خرم نواز گنڈا پور

ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن خرم نواز گنڈا پور نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی رحمۃ اللہ علیہ کے ایصالِ ثواب کی محفل میں اکٹھے ہوئے ہیں۔ وہ تحریک کا عظیم اثاثہ تھے۔ جنہوں نے 30 سال سے زائد عرصہ شیخ الاسلام کے ساتھ گزارا۔ اس دوران ان کا کردار، گفتار اور ان کی تحریک سے محبت کسی سے پنہاں نہیں ہے۔ میرے ساتھ ان کا تعلق ایک بڑے بھائی اور رہبر کی حیثیت سے تھا۔ جب بھی مجھے مشکل معاملات میں رہنمائی درکار ہوتی تو میں ان کے پاس جاتا تھا اور وہ محبت سے نوازتے تھے۔ ہم نے جس بھی معاملے پر ان سے بات کی، آخر کار ان کی گفتگو کا رخ محبت، دین اور اسلام کی سربلندی ہوتا۔ وہ شہدائے ماڈل ٹاؤن کا انصاف لینا اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ جو خلا اس تحریک میں چھوڑ گئے ہیں، وہ پورا نہیں ہوسکتا۔ وہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان کے خاندان سے محبت ہمارے دلوں میں ہے۔ وہ ایک عظیم انسان تھے، اس کمی کا مداوا ہم تو نہیں کرسکتے لیکن تحریک منہاج القرآن ان کے بچوں کا گھر ہے، یہاں سے ان کو اسی طرح محبت ملے گی اور وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں رہیں گے۔

  • اس تقریب سے صدر منہاج القرآن علماء کونسل حاجی امداداللہ خان، نائب صدر تحریک منہاج القرآن محترم بریگیڈیئر (ر) اقبال احمد خان، نائب ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن احمد نواز انجم، پروفیسر علامہ محمد نواز ظفر اور لعل مہدی (سیکرٹری جنرل امامیہ آرگنائزیشن پاکستان) نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حضرت مسکین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جن کا عمل اپنے قول کے مطابق ہوتا ہے۔ ہم نے مسکین صاحب کو نام کا مسکین نہیں پایا بلکہ وہ عملاً بھی مسکین تھے، عجز و انکساری کے پیکر تھے۔

وہ بہت حلیم اور درویش انسان تھے۔ کبھی ان کے گمان میں بھی نہیں آیا کہ وہ تکبر اور غرور کریں۔ وہ منصف اور جہان دیدہ انسان تھے۔ اچھے منتظم (administrator) تھے۔ وہ تحریک اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو ہر پروگرام میں ضرور represent کرتے اور بڑے وقار سے تحریک کا پیغام دیتے تھے۔ یقینا ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ میری دعا ہے اللہ رب العزت ان کو جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔

تقریب کے اختتام پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے محترم صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی صاحب کے ایصالِ ثواب اور بلندیٔ درجات کے لئے خصوصی دعا فرمائی۔