سہ روزہ دورہ علوم الحدیث

رپورٹ: عین الحق بغدادی

سمرقند، بخارا، نیشاپور اور کوفہ و بغداد کی قرونِ اُولیٰ میں ہونے والی علمی و فکری اور تحقیقی مجالس کی یاد تازہ کرتے ہوئے منہاج القرآن علماء کونسل کے زیر اِہتمام جامع المنہاج، بغداد ٹاؤن لاہور میں سہ روزہ دورہ علوم الحدیث کا انعقاد کیا گیا جس میں پورے پاکستان سے علماء کرام و مشائخ عظام، شیوخ الحدیث، متعدد مدارس و یونیورسٹیز کے پروفیسرز، ڈاکٹرز، لیکچرار، اساتذہ کرام، معلمات اور منتہی کلاسز کے طلبہ و طالبات نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ ان علمی و تحقیقی دروس میں خواتین کی بھی کثیر تعداد شریک ہوئی۔ چونکہ یہ دروس عامۃ الناس کے لیے نہیں تھے، اس لیے خیال کیا جا رہا تھا کہ شرکاء کی تعداد قلیل ہوگی؛ مگر بفضلہٖ تعالیٰ حجۃ المحدثین شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کی موجودگی اور اُن سے عصری تقاضوں کے مطابق حدیث سیکھنے کے شوق نے تشنگانِ علم کو نہ صرف اپنی طرف متوجہ کیا بلکہ وہ اس شمعِ فروزاں سے اِکتسابِ علم اور حصولِ فیض کے لیے کشاں کشاں چلے آئے۔

4 اکتوبر 2017ء کی مقررہ تاریخ سے قبل ہی ہزاروں علماء نے اپنی رجسٹریشن کروا لی تھی، یہ سلسلہ آخری دن تک جاری رہا جس کی بنا پر تقریباً چار ہزار مرد و زن نے اس دورہ علوم الحدیث میں بھرپور شرکت کی۔ یوں یہ جم غفیر سہ روزہ اِجتماعی اِعتکاف کا منظر پیش کرنے لگا۔ آنے والے ہر شخص کو رجسٹریشن کے عمل سے گزرنا پڑا تاکہ مہمانوں کی صحیح تعداد کا اندازہ ہو سکے اور انتظامیہ کو آنے والے مہمانانِ گرامی قدر کی رہائش اور کھانے کے انتظامات میں آسانی ہو۔

ناظمِ اَعلیٰ تحریک منہاج القرآن خرم نواز گنڈا پور صاحب کی سربراہی میں کام کرنے والی انتظامی ٹیم نے آنے والے تشنگانِ علوم الحدیث کی رہائش کے لیے آغوش کمپلیکس اور تحفیظ القرآن کی عمارتوں میں بہترین رہائش اور کھانے کا بندوبست کیا اور اس کا برملا اِظہار مہمانانِ گرامی نے بھی کیا۔ کھانے کے وقت بوفے سسٹم کے تحت تین دن صاف ستھرے اور لذیذ کھانے سے تواضع کی جاتی رہی۔ اس پروگرام کے انعقاد کے لیے جامع المنہاج کے صحن میں خوبصورت اسٹیج اور پنڈال سجایا گیا تھا۔ شرکاء کے لیے بڑی سکرین بھی آویزاں کی گئی تھی تاکہ لوگ اپنے محبوب مربی و شیخ کو سننے کے ساتھ ساتھ اُن کی زیارت بھی کر سکیں۔

سہ روزہ دورہ علوم الحدیث کی سب سے بڑی اور اہم خصوصیت یہ تھی کہ اس کے روحِ رواں حجۃ المحدثین شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری تھے جو نہ صرف عرب و عجم کے اجل شیوخ الحدیث سے سند یافتہ و اجازات یافتہ ہیں بلکہ عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق علم حدیث پر کیا گیا آپ کا وقیع کام آنے والی صدیوں کی علمی ضروریات پوری کرتا رہے گا۔ قدیم و جدید علوم پر عبور کے ساتھ ساتھ آپ کا یہ خاصہ ہے کہ آپ کے پیش نظر قرآن و حدیث اور مصادر اصلیہ ہوتے ہیں جو - اِلّا ماشاء اللہ - موجودہ زمانے کے اسکالرز کے مطالعہ میں ناپید نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف آپ کا ہاتھ موجودہ زمانے کی نبض پر بھی ہوتا ہے۔ یوں قدیم و جدید کا یہ حسین امتزاج آپ کی گفت گو کو سمجھنے میں ممد و معاون ہوتا ہے۔

حجۃ المحدثین مدظلہ العالی کا یہ خاصہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو کسی خاص مسلک کے ساتھ نتھی نہیں کیا اور ان کی تحریک کا مقصود فقط دین اسلام کی خدمت و اشاعت اور اس کا اِحیاء ہے۔ اسی بنا پر سہ روزہ دورہ علوم الحدیث کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس میں کسی خاص مسلک یا فقہی مذہب کے لوگ نہیں تھے بلکہ ہر مسلک اور فقہی مذہب سے تعلق رکھنے والے طالبانِ حدیث شریک ہوئے۔ گویا یہ دورہ صرف تدریسی نہ تھا بلکہ مختلف مکاتبِ فکر (schools of thought) کی یگانگت کا عملی مظاہرہ بھی تھا۔ یہ اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ آج کے پُرفتن دور میں جب ہر کوئی اپنی اپنی دکان کھولے بیٹھا ہے اور اپنے مذہب، مسلک یا دعوے کی تائید میں قرآن و حدیث کے مفاہیم کو من پسند طریقے سے پیش کرتا ہے، جہاں ہر وقت نفرت کے بیج بوئے جاتے ہیں، ہر کوئی دوسرے کی بات کو بلا دلیل ردّ کرنے پر تلا ہے اور فتویٰ بازی معمول بن چکا ہے؛ ایسی سوسائٹی میں کوئی شخصیت ایسی بھی ہے جس کی بات سننے کے لیے تمام مسالک و مکاتبِ فکر کے نمائندے بلا تفریق جوق در جوق کھنچے چلے آتے ہیں۔

خطباتِ دورہ علوم الحدیث:

قرآن مجید کے بعد احادیث نبویہ اسلامی قانون سازی میں حجیت کا درجہ رکھتی ہیں۔ سورۃ النجم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰیo اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰیo

اور وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے بلکہ اُن کا ارشاد سراسر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔

اسی طرح سورۃ الحشر کی آیت نمبر 7 میں ارشاد ہوتا ہے:

وَمَآ اٰتٰـکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا.

اور جو کچھ رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو۔

ان آیات مبارکہ اور دیگر بے شمار نصوصِ قرآنیہ سے حدیث و سنت کی حجیت ثابت ہوتی ہے۔ حدیث قرآن کے لیے تشریح کا درجہ بھی رکھتی ہے اور الگ سے تشریعی درجہ بھی۔ ہر دو صورتوں میں اس کی اہمیت و افادیت مسلمہ ہے۔

حجۃ المحدثین شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے آغاز میں واضح فرما دیا تھا کہ یہ دورہ متون الحدیث کا نہیں بلکہ علوم الحدیث کا ہے۔اس تین روزہ دورۂ علوم الحدیث کے موضوعات درج ذیل تھے:

  1. سہ روزہ دورہ علوم الحدیث کے پہلے روز مصطلحات الحدیث، أقسام الحدیث اور الحدیث الصحیح کو موضوعِ سخن بنایا تھا۔ اگرچہ بظاہر یہ اِصطلاحات عام ہیں تاہم ان کی صرف وہ اَبحاث لی گئیں جو بالعموم پڑھی پڑھائی نہیں جاتیں۔
  2. دوسرے روز مراتب الحدیث الصحیح، عدم استیعابہ فی الصحیحین اور الحدیث الضعیف جیسے موضوعات کو زیر بحث لایا۔
  3. سہ روزہ دورہ علوم الحدیث کے آخری روز حکم الحدیث الضعیف، مراتبِ سنن اَربعہ اور قواعد الجرح والتعدیل پر علمی بحث کی گئی۔

حجۃ المحدثین مدظلہ العالی نے یہ اور ان جیسی دیگر ضروری فنی مباحث و اَحکام کے ذیل میں ایسے نادر اور اچھوتے نکات بیان کیے کہ حاضرین میں موجود تیس چالیس سال سے علوم الحدیث پڑھانے والے اَجل اساتذہ اور شیوخ الحدیث نے بھی برملا اِظہار کیا کہ ہمارے لیے یہ تمام اَبحاث اور معلومات بالکل نئی ہیں اور ہم اس کا بہت قلیل حصہ پہلے جانتے تھے۔ انتہائی دقیق اَبحاث کو جس نظم اور اِجمال و اِکمال سے حجۃ المحدثین شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے بیان فرمایا یہ انہی کا خاصہ ہے۔

یہاں چند سطور میں ان دروس کا خلاصہ بیان کرنا تو ممکن نہیں ہے۔ اس کا حق تو اُسی صورت میں ادا ہوسکتا تھا کہ براہِ راست حجۃ المحدثین کی صحبت و سنگت میں رہتے ہوئے اِس سہ روزہ دورہ میں شرکت کرکے یہ جمیع علوم سیکھے جاتے۔ البتہ ہم دیگ میں سے چند دانے کے مصداق اِجمالی طور پر صرف چند نکات یہاں بیان کرنے پر اِکتفا کریں گے تاکہ پڑھنے والوں کی پیاس بڑھے اور وہ نہ صرف ان دروس کی ریکارڈنگز سن کر مزید اِستفادہ کریں بلکہ آئندہ سالوں میں ہونے والے دورہ جات کے لیے بھی بروقت رجسٹریشن کروائیں۔

حدیث کی تعریف کرتے ہوئے حجۃ المحدثین نے فرمایا کہ وہ بات جو قولاً، فعلاً یا تقریرًا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کی جائے یا اُس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی وصفِ خُلقی یا وصفِ خَلقی بیان ہو حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خواب بھی حدیث ہے۔ اس پر متعدد احادیث مبارکہ سے تفاصیل اور اَمثلہ بھی بیان کی گئیں۔ ابن الاکفانی کی کتاب ’ارشاد المقاصد‘ کا حوالہ دیتے ہوئے علم الحدیث کے دو حصے بیان کیے۔ ایک روایت کے ساتھ خاص ہے جب کہ دوسرا درایت کے ساتھ خاص علم ہے۔ روایت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَقوال و اَفعال اور تقریرات کو آگے بیان کرنے کا علم ہے جبکہ درایت میں روایت کی حقیقت، شرائط، اَقسام، اَحکام اور راویوں کے اَحوال وغیرہ زیر بحث آتے ہیں۔

حدیث کی اقسام بیان کرتے ہوئے انتہائی جامعیت و اِختصار کے ساتھ ایک ہی قسم کے کئی درجات جیسے صحیح، حسن، ضعیف، مرسل، معضل، منقطع، منکر اور موضوع وغیرہ کا بیان کیا گیا اور انہیں عام فہم بنانے کے لیے مثالوں سے واضح کیا گیا۔ انہوں نے فرمایا کہ حدیث متواثر محدثین کی مباحث میں سے نہیں ہے کیونکہ جب خبر متواتر علم یقینی کا فائدہ دے رہی ہو تو اُس کی سند پر بحث نہیں کی جاتی۔ خبر الآحاد محدثین کی مباحث میں سے ہے کیونکہ خبر واحد اگر محدثین و ائمہ اصول الحدیث کی وضع کردہ شرائط پر پوری اُترتی ہو تومقبول ہوگی اور اگر شرائطِ صحت پر پوری نہ اُترتی ہو تو مردود۔

آپ نے حدیث مردود کے بارے میں فرمایا کہ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہر وہ حدیث جو مردود یا ضعیف ہے، اسے حجت نہیں مانا جائے گا۔ بعض اوقات ضعیف حدیث کسی اور طریق سے روایت ہونے کے بعد مقبول کے درجے میں آجاتی ہے۔

حدیث غیر صحیح کا مطلب ہے کہ شرائط صحت میں تھوڑی کمی کی وجہ سے یہ حدیث صحیح کے درجے سے نیچے حسن ہے یا ضعیف۔ اس کا کبھی یہ مطلب نہیں ہوگا کہ اب یہ حدیث موضوع ہوگئی ہے۔

حدیثِ ضعیف کی چالیس سے زائد اقسام ہیں۔ غیر مقبول حدیث کی تمام اقسام میں سے صرف ’موضوع‘ اور ’متروک‘ ناقابلِ قبول ہیں۔ باقی تمام اقسام اپنی شرائط کے ساتھ قابلِ قبول ہیں۔ علوم الحدیث کی پوری تاریخ میں کسی بھی محدث نے ضعیف کو حدیث کی اقسام سے خارج نہیں کیا۔ البتہ انہوں نے موضوع کو حدیث کی قسم نہیں لکھا۔ اگر حدیث ضعیف مطلقاً مردود ہوتی تو پھر ائمہ و محدثین حدیث کی صرف دو قسمیں لکھتے اور ضعیف کو قسم نہ بناتے۔

حدیثِ ضعیف کے مختلف درجات کو روز مرہ کی مثالوں سے واضح کرتے ہوئے فرمایا: جس طرح مریض کے کئی درجات ہیں مثلاً زکام اور معمولی بخار والا بھی مریض ہے اور ٹی بی، ہیپاٹائٹس اور کینسر کے آخری مرحلے والا بھی مریض ہی کہلاتا ہے۔ ہر درجے کے مریض کا علاج ہوتا ہے سوائے اُس کے جو وفات پا جائے۔ کیونکہ جو فوت ہو جائے اُسے مریض نہیں بلکہ میت کہیں گے۔ ایسے ہی ضعف کے اعتبار سے ضعیف حدیث کی مختلف اقسام ہیں جو سب کی سب علاج ہونے کے بعد مقبول کے درجے پر آجاتی ہیں سوائے حدیث موضوع کے کہ اُس کا علاج ممکن نہیں، لہٰذا وہ متروک ہے۔

حدیث صحیح پر بات کرتے ہوئے شیخ الاسلام مدظلہ العالی نے فرمایا کہ صحیح حدیث وہ ہے جس میں محدثین کی وضع کردہ شرائط صحت پائی جائیں نہ کہ وہ جو ’صحیح بخاری‘، ’صحیح مسلم‘ یا صرف صحاح ستہ میں پائی جائے۔ آپ نے ائمہ و محدثین کے بیان کردہ صحیح حدیث کے سات مراتب اور درجات بھی بیان کیے۔اس میں دلچسپ امر یہ ہے کہ آپ نے ان درجات کو محلِ نظر قرار دیا اور مثالوں سے اپنے موقف کی وضاحت کی۔

اَصحیت (صحیح ہونے) کا معیار کتاب یا متن پر نہیں بلکہ سند پر ہوتا ہے۔ بحیثیت مجموعی کتاب کے طور پر ’صحیح بخاری‘ کا درجہ پہلا ہے اور ’صحیح مسلم‘ کا اس کے بعد، لیکن اگر کسی حدیث پر اِنفرادی حیثیت میں حکم لگانا ہو تو پھر سند کے اعتبار سے اِمام بخاری کی روایت کے علاوہ کسی بھی امام کی روایت اَصح ہو سکتی ہے۔ اسی لیے اَصحّیت کا حکم اَغلبیت و اکثریت کی بنیاد پر لاگو ہوتا ہے۔ فی زمانہ احادیث کی اَصحیت کو ’صحیح بخاری‘ اور ’صحیح مسلم‘ میں مقید کر کے دراصل احادیث صحیحہ کا دروازہ بند کرنے کی کوشش کئی گئی ہے جبکہ یہ دعویٰ تو امام بخاری و مسلم نے خود بھی نہیں کیا تھا اور نہ ہی انہوں نے کبھی تمام صحیح احادیث کو جمع کرنے کی ذمہ داری لی تھی بلکہ اُن سے بہت سی صحیح احادیث بیان ہونے سے رہ گئی تھیں۔

امام بخاری فرماتے تھے کہ انہوں نے چھ لاکھ صحیح احادیث میں سے اپنی ’الجامع الصحیح‘ مرتب کی ہے۔ امام مسلم بیان کرتے ہیں کہ وہ تمام احادیث جو میرے نزدیک صحیح ہیں میں نے اپنی کتاب میں ذکر نہیں کیں بلکہ صرف منتخب احادیث جمع کی ہیں۔ امام احمد بن حنبل کو سات لاکھ احادیث یاد تھیں مگر اپنی ’المسند‘ میں انہوں نے صرف تیس چالیس ہزار احادیث ہی جمع کی ہیں۔ لہٰذا یہ واضح ہوگیا کہ صحیح حدیث وہ ہے جو محدثین کی وضع کردہ شرائط صحت پر پوری اُترتی ہو۔ بارہ سو سال میں کسی امام الحدیث نے حدیث کے صحیح ہونے کا ایسا قاعدہ بھی کہیں بیان نہیں کیا۔ حدیثِ صحیح کو ’صحیح بخاری‘، ’صحیح مسلم‘ یا کسی اور کتاب کے ساتھ خاص کرنے والے علوم الحدیث سے بالکل نابلد ہیں۔

حدیث ضعیف کا حکم بیان کرتے ہوئے حجۃ المحدثین نے فرمایا کہ احادیثِ ضعیفہ کو ہر امام اور محدث نے بیان کیا اور ان سے استشہاد کیا ہے۔ فضائلِ اعمال، ترغیب و ترہیب، اَخلاق و معاملات وغیرہ میں احادیثِ ضعیفہ کو تمام ائمہ نے بالاتفاق حجت تسلیم کیا ہے، حتیٰ کہ امام بخاری نے بھی اپنی دیگر کتب جیسے کتاب ’الأدب المفرد‘ وغیرہ میں ضعیف احادیث کو روایت کیا اور ان سے استشہاد کیا ہے۔ امام ترمذی نے اپنی ’السنن‘ میں چودہ ایسی ضعیف احادیث بیان کی ہیں جن پر اُنہوں نے خود حکم لگایا کہ ان پر جمہور کا عمل موجود ہے اور اِنہیں تلقی بالقبول حاصل ہے۔ آپ نے اصول بیان کیاکہ حدیثِ ضعیف پر اَہلِ علم عمل کر لیں تو وہ ضعیف نہیں رہتی بلکہ صحیح یا حسن کے درجے پر آجاتی ہے۔ گویا عمل اور تلقی بالقبول سے حدیثِ ضعیف صحیح یا حسن کے درجے پر آجاتی ہے۔ امام نسائی صرف اُس ضعیف حدیث کو ترک کرتے جس کے ترک پر اجماع ہوتا تھا۔

اسی طرح حجۃ المحدثین نے کثیر اَئمہ و محدثین کے اَقوال اور ان کی کتب سے دلائل پیش کرکے ثابت کیا کہ حدیث ضعیف بالاتفاق اَخلاق و آداب، زہد و رقائق اور ترغیب و ترہیب کے باب میں مقبول ہے؛ البتہ احکام اور عقائد کے باب میں قبول نہ ہوگی۔ لیکن اگر احکام کے باب میں کوئی صحیح یا حسن حدیث موجود نہ ہو تو پھر حدیثِ ضعیف اَحکام کے باب میں بھی قابلِ حجت ہوگی۔ یہ مذہب امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا ہے۔

حجۃ المحدثین نے سننِ اَربعہ کے مراتب بھی بیان کیے۔ اس ضمن میں خصوصی طور پر امام ابو داود کے الرسالۃ إلی أہل مکۃ سے اَصل حوالہ جات دیے گئے۔ نیز امام سیوطی کی سنن النسائی پر شرح زہر الرِّبٰی علی المجتبٰی بھی quote کی گئی۔ اِن کتب کی عبارات سے یہ حقیقت اَلم نشرح کی گئی کہ ہر امام نے اپنی اپنی کتاب کا اُسلوب اور معیار خود واضح کیا ہے۔ لہٰذا صحیح احادیث کو صرف ’صحیح بخاری‘ اور ’صحیح مسلم‘ کے ساتھ کسی صورت مختص نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا کرنا سراسر جہالت پر مبنی ہوگا۔

قواعد الجرح و التعدیل پر گفت گو کرتے ہوئے حجۃ المحدثین نے ایسے ایسے نکات واضح کیے کہ حاضرین میں سے کوئی بھی داد و تحسین دیے بغیر نہ رہ سکا۔ ائمہ کی جرح و تعدیل کو علم الجرح والتعدیل کے اُصولوں پر پرکھا جائے گا۔ اگر اُصول منطبق ہوں تو وہ جرح و تعدیل قبول ہوگی ورنہ ردّ کر دی جائے گی۔ معاصرانہ جرح مقبول نہیں ہوگی۔ نیز اہل تجریح و تعدیل کے طبقات، جرحِ مبہم و مفسر اور معاصرین کی باہم جرح کے مقبول وغیر مقبول ہونے کے ضوابط بھی بیان کیے گئے۔ اِس ضمن میں امام اَعظم ابو حنیفہ، امام بخاری اور دیگر ائمہ کی حیات سے چشم کشا مثالیں بیان کرتے ہوئے انتہائی مختصر وقت میں علم الجرح و التعدیل کا موضوع اس طرح واضح کیا گیا کہ شرکاء مجالس عش عش کر اُٹھے۔

آخر میں حجۃ المحدثین شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے شرکاء کو چند مواعظ و نصائح بیان کیں کہ اپنے اندر علمی ثقاہت پیدا کریں، اپنی گفت گو کو علمی دلائل سے مزین کریں، دلوں میں وسعت پیدا کریں، علمی اختلاف کریں مگر اِحترام ختم نہ کریں؛ جس کے فتویٰ سے چاہیں اتفاق کریں یا اختلاف مگر فتویٰ کو مذہب یا مسلک نہ بنائیں۔ کیونکہ فتویٰ کسی ایک شخص کا قول و اجتہاد ہوتا ہے جو کسی صورت مذہب یا مسلک نہیں ہو سکتا۔ فرد کے اِجتہاد سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور ایسا کرنا کفر نہیں کہلاتا۔ لہٰذا آپ اگر کسی کا فتویٰ چھوڑ بھی دیں تو کوئی حرج نہیں مگر احترام نہ چھوڑیں۔ اسلاف کی تعظیم کریں اور معاصرت کی برائیوں سے اپنے آپ کو بچائیں کیونکہ اکثر ہم عصر ایک دوسرے کے لیے حسد کی برائی میں آگے بڑھ جاتے ہیں۔ لہٰذا دل ودماغ میں وسعت پیدا کریں، ہر کسی کو فتویٰ کی کلہاڑی سے ذبح نہ کریں، کسی ایک موضوع یا مسئلہ پر اختلاف سے کوئی شخص ہرگز ہرگز دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہو جاتا۔ اِس وطیرہ کی حوصلہ شکنی کریں۔ احکامِ شریعت کی پابندی کریں، نفلی عبادات کا اہتمام کریں اور اپنے آپ کو اَخلاقِ حسنہ سے مزین کریں کہ اِس سے علمی نور پیدا ہوگا۔

دورہ کے آخری روز پروگرام کے آخر میں حجۃ المحدثین مدظلہ العالی نے شرکاء کو اپنی اسانید و اجازات دیں تاکہ وہ قدیم ائمہ کے اُسلوب پر عمل پیرا ہوتے ہوئے تسلسل اور سند کے ساتھ علم کا نور دوسروں کو منتقل کریں۔

تأثرات علماء و مشائخ:

مجلہ کی کاپیاں پریس میں جانے کے لیے بالکل تیار ہیں۔ لہٰذا قلتِ وقت اور اِختصار کے پیش نظر ہم ذیل میں شرکاء سہ روزہ علوم الحدیث میں سے صرف چند ایک تأثرات بیان کریں گے۔ اِن شاء اللہ آئندہ کسی شمارے میں اس پر تفصیلی مضمون قلم بند کیا جائے گا۔

1۔ شیخ الحدیث مفتی محمد فاروق (جامعہ حامدیہ رضویہ، کراچی):

جامعہ حامدیہ رضویہ کراچی کے شیخ الحدیث مفتی محمد فاروق نے آخری نشست میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ

میری خوش نصیبی کہ میں نے ان عظیم علمی نشستوں میں شرکت کی اور شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب سے اکتسابِ فیض کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جو اساتذہ اور شیوخ الحدیث جس فن کو ساری زندگی پڑھتے پڑھاتے رہے اور خدمت حدیث میں مشغول رہے، انہیں بھی بعض اوقات مصطلحاتِ حدیث پڑھاتے ہوئے توقف کرنا پڑتا ہے، لیکن شیخ الاسلام نے جس تسلسل، جامعیت اور حسنِ اُسلوب کے ساتھ دورہ علوم الحدیث پڑھایا اس سے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے آپ نے ساری زندگی علوم الحدیث کی تدریس کے علاوہ کوئی دوسرا کام ہی نہیں کیا۔ یہ آپ ہی کا مقام ہے اور دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کی پذیرائی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ جس فن پر کلام کرتے ہیں کمال کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو اس دور میں علوم قرآنیہ کے ساتھ علوم الحدیث کے لیے بھی چن لیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ آپ کا سایہ ہمارے سروں پر تادیر قائم و دائم فرمائے اور ہمیں ان سے اکتسابِ فیض کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔

2۔ ڈاکٹر شمس الرحمن شمس (امپیریل یونیورسٹی لاہور):

امپیریل یونیورسٹی لاہور کے شعبہ اسلامیات کے ڈاکٹر شمس الرحمن شمس نے دورہ علوم الحدیث کے بارے اپنے تأثرات کا اظہار کچھ یوں کیا:

عالم اسلام کی نابغہ روزگار ہستی، پاکستانی مسلمانوں کی پوری دنیا میں ترجمانی کرنے والے ممتاز دینی وروحانی رہنما شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کی شخصیت میں دینی اور قومی جذبات اتنے زیادہ ہیں جن کا تذکرہ کیے جانے کا موقع نہیں۔ میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ علوم الحدیث ہم پڑھتے رہے اور اکثر شرکاء و علماء بھی پڑھتے رہے لیکن جن علمی نکات کی طرف حضور شیخ الاسلام نے اشارہ فرمایا یہ ہمارے لیے ایک نئی تحقیق ہے۔ یہ کمال ایک مجدد کا ہی ہے۔ علوم الحدیث کا دورہ کر کے تشنگان علوم دینیہ کی علمی پیاس بجھانے کا جو ساماں کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ جس پر علماء منہاج القرآن علماء کونسل کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ آج اس بزم میں علوم الحدیث کو سالوں پڑھانے والے حضرات شیوخ الحدیث فرماتے ہیں کہ حضور شیخ الاسلام کی علمی مجلس میں بیٹھ کر بغداد اور عراق میں اسلاف کی علمی مجالس کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔ اور ہم اپنے لیے اس علمی مجلس میں بیٹھنا اور حضور شیخ الاسلام کی شاگردی کا اعزاز حاصل کرنا نعمت غیر مترقبہ سمجھتے ہیں۔ اللہ رب العزت اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت اور وسیلہ جلیلہ سے قبلہ شیخ الاسلام کو صحت و سلامتی کے ساتھ طویل زندگی نصیب فرمائے اور آپ کا سایہ عاطفت امت مسلمہ کے سر پر قائم رہے۔ آمین۔

3۔ علامہ ظہور احمد فیضی:

جس جامعیت کے ساتھ اِصطلاحاتِ محدثین، حدیث کی اَقسام، ایک ہی قسم کے کئی درجات؛ صحیح، حسن، ضعیف، مرسل، معضل، منقطع، منکر اور موضوع وغیرہ کی تعریف اور قریب الفہم بنانے کے لیے ان کی اَمثلہ، جرح و تعدیل، اہل تجریح و تعدیل کے طبقات، جرح مبہم و مفسر، معاصرین کی باہم جرح کے مقبول وغیر مقبول ہونے کے ضوابط، حدیث ضعیف کی چالیس سے زائد اقسام اور ان میں کتنی اقسام قابل عمل ہیں اور کتنی نہیں، بعض صورتوں میں حدیث ضعیف کا احکام میں بھی قابل حجت ہونا وغیرہ جیسے دقیق اُمور کو جس اِجمال اور پھر اِکمال سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری حفظہ اللہ نے بیان فرمایا یہ انہی کا کام ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ سہ روزہ دورہ علوم الحدیث اپنی افادیت وتاثیر کے لحاظ سے سالانہ دورے پر فائق رہے گا۔ ان شاء اللہ یہ بیان موجودہ ذرائع ابلاغ سے جوں جوں پھیلتا جائے گا توں توں علماء و طلباء کی لائبریریوں میں یہ غیر مانوس کتب بھی آتی جائیں گی، کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے اس غیر مانوس موضوع کو مانوس و دل چسپ بنا دیا ہے۔