درجاتِ ولایت کی بلندی کا طریق علم ہے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
ناقل:طالب حسین سواگی، محمد خلیق عامر

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے:

اَ لَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ ﷲِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ.

’’خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔‘‘

(یونس، 10: 62)

امتِ مسلمہ میں ولایت کے باب میں جو مقام و مرتبہ حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کو حاصل ہے وہ کسی اور ولی کو نصیب نہیں ہوا۔ آپ تمام اولیاء کے نہ صرف سردار ہیں بلکہ کسی کی مرتبۂ ولایت پر تقرری بھی آپ کی بارگاہ کی منظوری سے ہی مشروط ہے۔ حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ ہمہ جہتی اوصاف کے مالک ہیں۔ آپ نہ صرف روحانیت بلکہ علو م و معارف کا بھی بحرِ بے کنار ہیں۔ عموماً ہم جب بھی سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ کرتے ہیں تو سارا بیان ان کی کرامات کا ہی ہوتا ہے۔ ہم ان کی ولایت اور مقام و مرتبے کو حسّی کرامات کے ساتھ پرکھتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ آپ کی کرامات حدِتواتر کو پہنچی ہوئی ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کی کرامات کے تواتر کو صرف صوفیاء نے ہی بیان نہیں کیا بلکہ محدثین بھی انہیں بیان کرتے آئے ہیں۔ ائمہ، علماء اور محدثین نے لکھا ہے کہ جس تواتر کے ساتھ آپ کی کرامات مروی اور ثابت ہیں، اتنے تواتر کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں کسی اور ولی کی کرامات ثابت نہیں۔ مگر حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی شخصیت کا ایک گوشہ ایسا بھی ہے کہ جسے کبھی علماء، خطباء اور واعظین نے بیان نہیں کیا اور نہ اس حوالے سے کوئی کتاب لکھی گئی۔ گذشتہ نو سو سال میں اس پہلو کو نہ اجاگر کیا گیا اور نہ اس سمت دھیان ہی نہیں دیا گیا۔

کرامت کی اقسام

کرامت کی دو قسمیں ہیں:

  1. کرامتِ حسّی
  2. کرامتِ معنوی

کرامتِ حسّی وہ ہے جس کا عامۃ الناس ادراک کرسکیں اور کوئی خارق العادت واقعہ ہوتا دیکھ یا سُن سکیں جبکہ کرامتِ معنوی میں بظاہر کوئی خارق العادت واقعہ ہوتا نظر نہیں آتا مگر اس ولی کی دین اسلام کے فروغ کے لیے کی گئی علمی و فکری خدمات اس قدر اعلیٰ و عظیم ہوتی ہیں کہ وہ خدمات اپنے اثرات کی بناء پر کرامت کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کرامت کو کرامتِ معنوی کہا جاتا ہے۔

ولایت میں کرامتِ معنوی ہی اصل اور عظیم چیز ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ کسی بھی ولی کی کرامت اُس امت کے نبی کے معجزے کا تسلسل ہوتی ہے، یہ ایک اصول ہے۔ لہٰذا ہر ولی کی کرامت مِنْ وَجہ اُس امت کے نبی کے معجزات کا تسلسل ہے، گویا وہ کرامت حقیقت میں اس نبی کا معجزہ ہوتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی بہت سے معجزات عطا ہوئے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ کیا تھا؟ پھر اُسی معیار پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے اولیاء کی کرامات کی نوعیت کو دیکھا جائے گا۔ کسی نبی کے معجزات میں جو معجزہ سب سے اعلیٰ ہوگا، اس نبی کے اولیاء کی اُسی نوعیت کی کرامات سب سے اعلیٰ ہوں گی۔ اگر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں سے سب سے بڑا معجزہ جاننا چاہیں تو کسی کا ذہن چاند کو دو ٹکڑے کرنے کی طرف جائے گا۔۔۔ کسی کا ذہن معراج شریف کی طرف جائے گا۔۔۔ کسی کا ذہن ڈوبے سورج کو پلٹانے کی طرف جائے گا۔ کوئی شک نہیں کہ یہ سارے معجزات عظیم ہیں مگر ائمہ، اولیائ، محدثین اور فقہاء سب کے ہاں جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات کی فہرست بنتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ ’’قرآن مجید‘‘ قرار پاتا ہے۔ اس لئے کہ اس شان کا حامل معجزہ پہلے انبیاء کو بھی حاصل نہیں۔

سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ پہلے انبیاء و رسل پر بھی تو صحائف و کتب نازل ہوئی ہیں، پھر قرآن مجید کو یہ امتیاز کیوں حاصل ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کا سب سے بڑا معجزہ تورات نہیں ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کا سب سے بڑا معجزہ انجیل نہیں ہے۔ داؤد علیہ السلام کا سب سے بڑا معجزہ زبور نہیں ہے۔ اگر اُن انبیاء کے معجزات میں بھی سب سے بڑا معجزہ اُن کی کتابیں ہوتیں تو اُن کی کتابوں میں تحریف نہ ہو سکتی، اُن کی کتابیں اسی طرح محفوظ و مامون ہوتیں جیسے قرآن مجید محفوظ و مامون ہے۔ اس لئے کہ معجزہ کبھی انسانی کاوشوں سے مغلوب نہیں ہوسکتا۔ معجزے پر کبھی کوئی حاوی اور غالب نہیں آسکتا۔ معجزہ ہر ایک پر غالب ہوتا ہے اور ہر ایک کو عاجز کر دیتا ہے۔ دیگر آسمانی کتابیں بھی انبیاء و رسل پر نازل ہوئیں، بلاشبہ وہ منزّل من اللہ کتابیں تھیں مگر معجزات کے باب میں یہ کتابیں ان انبیاء کا سب سے بڑا معجزہ نہیں ہیں جبکہ دوسری طرف آقا علیہ السلام کو قرآن مجید کی شکل میں جو سب سے بڑا معجزہ اللہ نے عطا کیا اس کتاب جیسی کوئی کتاب نہیں، جو 1400 سال گزرنے کے بعد بھی تحریف سے کلیتاً پاک ہے۔ اس کی مثل و مثال آج تک کوئی پیش نہیں کرسکا اور یہ ایک مفصل علم کی حامل ہے۔

موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جو معجزات عطا کئے، ان میں جادوگروں کے جادوؤں کو ختم کر دینا، دریائے نیل کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے بنی اسرائیل کو لے کر نکلنا، عصا مبارک کا عطا کیا جانا اور ید بیضاء وغیرہ شامل ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام کو ملنے والا سب سے بڑا معجزہ مردوں کو زندہ کرنا تھا۔ ان معجزات نے اُس دور کی انسانیت کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ جب آقا علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیگر معجزات بھی عطا ہوئے اور وہ سارے معجزات حق ہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں سب سے عظیم الشان معجزہ ’’قرآن‘‘ ہے، جس کی بلاغت و فصاحت، علمی شان اور دیگر خصوصیات کا زمانۂ نزول کے وقت بھی کوئی مقابلہ نہ کرسکا اور نہ کوئی قیامت تک کرسکتا ہے۔

قرآن مجید۔۔۔ عظیم ترین معجزئہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ معجزہ اثباتِ رسالت کے لیے ہوتا ہے۔ چاند دو ٹکڑوں میں تو ایک بار ہوا تھا اور اس واقعہ کو چودہ سو سال گزر گئے، چاند کا ٹکڑے ہونا آج کس نے دیکھا ہے۔۔۔؟ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے، کفار و مشرکین نے پوچھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں جواب دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جانا اور آنکھ جھپکنے میں پلٹ کر آنا، آج کوئی کس طرح دیکھے گا۔۔۔؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب کے سامنے پتھروں کو کلمہ پڑھا دیا، لوگ دیکھ کر ایمان لے آئے مگر آج تو اس طرح ہونا کوئی نہیں دیکھے گا۔۔۔؟ درخت زمین کو چیر کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے، دیکھنے والے ایمان لے آئے، اس وقت ان کے سامنے نبوت و رسالت ثابت ہوگئی مگر آج اُس معجزہ کو اُس طرح ہوتے کون دیکھے گا۔۔۔؟ یہ سارے معجزات حسّی تھے، زمانی و مکانی تھے۔ ایک زمانہ گزر گیا ہے، آج ان تمام معجزات کو دیکھنے والے لوگ موجود نہیں ہیں جبکہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت تو آج بھی موجود ہے، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نبوت ختم کر دی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت قیامت تک رہے گی۔ پہلے نبی تو ایک مخصوص مدت کے لیے ہوتے تھے، پھر نیا نبی آ گیا اور ہر دور میں نئی بعثت ہوتی رہی مگر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت قیامت تک رہے گی اور وہی رسول رہیں گے۔

جب تک رسالت ہے تو اس کا لازمی تقاضا ہے کہ کوئی معجزہ بھی برقرار رہے جو آنے والوں کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا ایک ثبوت دیتا رہے۔ آج حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سارے معجزات میں سے قرآن مجید کے علاوہ کوئی اور معجزہ ہماری آنکھوں کے سامنے نہیں ہے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت قیامت تک ہے اور قرآن مجید بھی قیامت تک ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کے نزول کے ساتھ ہی ارشاد فرمادیا تھا کہ قرآن میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے سچے ہونے کا معجزہ ہے، اگر کوئی اس کا انکار کرتا ہے تو اس جیسا قرآن لا کر دکھا دے (بنی اسرائیل، 17: 88)۔ دوسرے مقام پر فرمایا کہ دس سورتیں ہی اس جیسی لاکر دکھادو (ھود،11: 13) پھر فرمایا کہ دس سورتیں نہیں لاسکتے تو اس جیسی ایک ہی سورت بنا لاؤ (البقرہ، 2: 23)

قرآن مجید کے حوالے سے یہ challenge قیامت تک کے لیے ہے۔ انکار کرنے والوں نے انکار بھی کیے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس پر لغویات بکنے والوں نے لغویات بھی بکیں، تہمت لگانے والوں نے تہمتیں بھی لگائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عصمت و تقدس پر کیچڑ اچھالنے والوں نے سیکڑوں کتابیں بھی لکھیں، عالم مغرب ایسی کتابوں سے بھرا پڑا ہے، سب کچھ کیا گیا مگر کسی بڑے سے بڑے دشمن کو بھی قرآن مجید کے مقابلے میں کوئی کتاب لکھنے کی جرات نہیں ہوسکی۔ اس کو عظیم معجزہ کہتے ہیں۔

غیر مسلموں کی طرف سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس پر کیچڑ اچھالنے کے لئے کتابیں لکھی جارہی ہیں اور ہم اپنی کتابوں میں اُن کا رد کرتے رہتے ہیں۔ یہ ایک علمی جنگ ہے۔ وہ تہمت لگاتے رہتے ہیں اور ہم دفاع کرتے رہتے ہیں، اس لئے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نوکر جو ہوئے۔ دشمن تہمت لگاتا ہے تو ہم اپنے مالک اور اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دفاع کے لیے جنگ لڑتے رہتے ہیں۔ دشمنوں نے ہر طریق سے دشمنی کی مگر ساری دنیا کی دشمنی مل کر بھی قرآن کے مقابلے میں کوئی کتاب بنا کر نہیں لا سکی۔ ان کے لئے یہ کتنا ہی آسان ہوتا کہ انہیں سیکڑوں کتابیں لکھنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی، قرآن کے مقابلے میں ایک ہی کتاب لکھ دیتے اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس پر الزام اور بہتان تراشی کی ضرورت ہی نہ رہتی، بات ختم ہو جاتی اور ہر کوئی دیکھ لیتا کہ یہ قرآن کے بدلے میں کتاب ہے۔ نتیجتاًبڑی وزنی دلیل لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی اور لوگ رسالت کا انکار کر دیتے۔ مگر اسی کو تو معجزہ کہتے ہیں کہ سیکڑوں ہزاروں کتابیں لکھ ڈالی ہیں مگر قرآن کے ایک پارہ یا ایک سورت کے مقابلے میں بھی کچھ نہیں لکھا جا سکا۔ اس لئے کہ قرآن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ ہے، یہ دائمی، ابدی اور مستقل معجزہ ہے جو زمان و مکان کی حدود سے ماوریٰ ہے۔

قرآن کی شان ’’علم‘‘ ہے

سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی شکل میں موجود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے بڑے معجزہ کی حیثیت کیا ہے؟

قرآن مجید نے خود اپنی حیثیت واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَلَقَدْ جِئْنٰهُمْ بِکِتٰبٍ فَصَّلْنٰهُ عَلٰی عِلْمٍ هُدًی وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ.

’’اور بے شک ہم ان کے پاس ایسی کتاب (قرآن) لائے جسے ہم نے (اپنے) علم (کی بنا) پر مفصّل(یعنی واضح) کیا، وہ ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔‘‘

(الأعراف، 7: 52)

گویا قرآن مجید مفصّل علم ہے۔ اس میں وہ باتیں کہہ دی گئی ہیں جنہیں قیامت تک کوئی زمانہ کسی بھی علمی معیار پر غلط ثابت نہیں کر سکتا۔ قرآن مجید کے معجزہ ہونے کا مرتبہ یہ ہے کہ یہ علم میں سب سے اونچا ہے۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن مجید ہوا اور قرآن مجید کی سب سے بڑی شان ’’علم‘‘ ہے۔

عظیم ترین کرامات کا قرآنی معیار

قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے جس طرح انبیاء و رسلf کے معجزات بیان کئے، اسی طرح پہلے زمانوں کے کئی اولیاء کی کرامات بھی قرآن نے بیان کیں۔ اس موقع پر قرآن میں مذکور اُن کرامتوں میں سے دو کا ذکر ذیل میں کیا جارہا ہے:

1۔حضرت سلیمان علیہ السلام کا امتی اور ملکہ سبا کا تخت

حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں سے پوچھا: کوئی ہے جو ملکہ سبا کا تخت میرے پاس لے آئے؟

قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِیْکَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِکَج وَاِنِّیْ عَلَیْهِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌ.

’’ایک قوی ہیکل جِن نے عرض کیا: میں اسے آپ کے پاس لاسکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ اپنے مقام سے اٹھیں اور بے شک میں اس (کے لانے) پر طاقتور (اور) امانت دار ہوں۔‘‘

(النّمل، 27: 39)

حضرت سلیمان علیہ السلام نے اُس کی پیشکش کو قبول نہیں کیا۔ درباریوں میں سے ایک اور درباری کھڑا ہوا، قرآن مجید اس کا تعارف کرواتے ہوئے کہتا ہے:

قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیْکَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ.

’’(پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کاکچھ علم تھا میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)۔‘‘

(النّمل، 27: 40)

حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی پیشکش کو قبول کیا اور اس نے اپنے دعوے کے مطابق تخت لاکر دربارِ سلیمان علیہ السلام میں پیش بھی کردیا۔ قرآن مجید نے اُس کی کرامت کو علم کے ساتھ متعلق کیا۔ تخت لانے کی پہلی پیشکش کرنے والا جن تھا، اُس کے پاس تو صاف ظاہر ہے ماورائے علم طاقت تھی، اُس کی پیش کش کو قبول نہیں کیا۔ پھر دوسرا کھڑا ہوا، اُس کے تعارف میں قرآن مجید نے یہ نہیں کہا کہ ایسا شخص کھڑا ہوا جو عابد و زاہد تھا، تہجد گزار تھا، کرامات والا تھا، ایسی کسی چیز کا ذکر نہیں کیا بلکہ فرمایا: عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ جس کے پاس کتاب کا علم تھا۔ اُس نے آنکھ جھپکنے سے پہلے تخت پیش کر دیا۔ دربارِ نبوت میں کرامت ظاہر ہو رہی ہے، اللہ کے نبی تخت پر جلوہ افروز ہیں، ان کے سامنے ان کی امت کا ایک ولی کرامتاً تخت لا رہا ہے اور اُس کرامت کا عنوان قرآن مجید نے الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰب کے الفاظ کے ذریعے علم کو بیان فرمایا۔ معلوم ہوا کہ قرآن مجید نے کرامت کا سب سے بڑا جو پیمانہ عطا کیا ہے اس کا عنوان ’’علم‘‘ ہے۔

2۔ حضرت خضر علیہ السلام کا امتیازی وصف

قرآن مجید میں مذکور دوسری عظیم کرامت حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات والے واقعہ میں مذکور ہے۔ اللہ کے برگزیدہ رسول سیدنا موسیٰ علیہ السلام جب حضرت خضر علیہ السلام کی تلاش میں نکلے تو جس جگہ مچھلی زندہ ہوکر دریا میں چلی گئی، اس جگہ پر وہ پلٹ کر واپس گئے اور وہاں انہوں نے حضرت خضر علیہ السلام کو پایا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت خضر کا تعارف کرواتے ہوئے اس مقام پر قرآن مجید میں فرمایا:

فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ اٰتَیْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًاo

’’تو دونوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے (خضر علیہ السلام ) کو پا لیا جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے علمِ لدنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھا۔‘‘

(الکهف، 18: 65)

حضرت موسیٰ علیہ السلام جس ولی کی تلاش میں گئے ہیں اُس ولی کی پہچان اللہ تعالیٰ بیان فرمارہا ہے کہ ہماری بارگاہ اور خزانہ علم میں سے اُسے خصوصی علم کا خزانہ عطا ہوا ہے۔ گویا اس ولی کی امتیازی شان بھی علم ہے۔

بعد ازاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ سفر کے دوران جو تین کرامتیں صادر ہوئی ان تینوں کرامتوں کا تعلق بھی علم کے ساتھ ہے۔

  1. کشتی کو توڑنا اور بعد میں بتانا کہ پیچھے ایک بادشاہ آ رہا ہے، حالانکہ اس کو دیکھا نہیں تھا، اُس خبر کے بیان کا تعلق بھی باطنی علم کے ساتھ ہے۔
  2. بچے کو مار دینا اور بتانا کہ جوان ہو کر کافر بنتا، اُس کا تعلق بھی علم کے ساتھ ہے۔
  3. گرتی ہوئی دیوار کو تعمیر کر کے بتانا کہ اس کے نیچے خزانہ دفن ہے، اُس کا تعلق بھی علم کے ساتھ ہے۔

ان دونوں واقعات سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید نے کرامت و ولایت کو ’’علم‘‘ کے ساتھ متعلق کیا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں جس شخص سے کرامت صادر ہوئی، اس کے پاس بھی علم تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اُس شخص سے ملنے گئے جس کو اللہ نے اپنے خزانہ علم سے بڑا حصہ عطا کیا تھا۔

معیارِ قرآن یہ ہے کہ معجزہ کے باب میں بھی ’’علم‘‘ سب سے بلندہے اور کرامت کے باب میں بھی ’’علم‘‘ سب سے بلند ہے۔

کرامتِ علمیہ کا مقام

شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ فتوحات مکیہ میں فرماتے ہیں کہ تمام کرامات میں سب سے اونچے رتبے کی کرامت ’’کرامتِ علمیہ‘‘ ہوتی ہے۔ شیخ اکبر نے ’’کرامت‘‘ پر بحث کر کے اس کا خلاصہ اور نچوڑ اس طرح بیان کیا کہ اگر کوئی ہواؤں میں اڑے تو یہ کرامت ہے مگر اونچی کرامت نہیں کیونکہ پرندے بھی تو ہوا میں اڑتے ہیں۔ اگر کوئی پانی پر چلے تو یہ بھی کرامت ہے مگر اعلیٰ کرامت نہیں، اس لئے کہ مچھلیاں بھی تو پانی پر چلتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ حسّی کرامتیں اور خوارق العادات واقعات کرامات ضرور ہیں مگر یہ کرامات اعلیٰ و عظیم مرتبے کی حامل نہیں ہیں۔ بلند مرتبے کی کرامت ’’کرامتِ علمیہ‘‘ ہے جس کو قرآن مجید نے واضح کیا ہے۔

ولایت کا اعلیٰ رتبہ کیا ہے؟

حضور سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے بے شک مردے زندہ کیے، وہ قُمْ بإذنِ اﷲ کہتے تو مُردے کو زندہ کر دیتے۔ اِن سے یہ کرامت تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔ اسے اولیاء و صوفیاء نے تو بیان کیا ہی ہے مگر ائمہ، فقہاء اور محدثین نے بھی اپنی کتب میں تواتر کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے طبقات الشافعیۃ الکبریٰ میں کرامت کے باب میں حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی مرُدوں کو زندہ کرنے والی کرامت کے ساتھ ساتھ اور بھی کئی کرامات بیان کیں۔ مقصد بات کا یہ ہے کہ آپ کی کرامات بے حساب ہیں جن کا کوئی شمار نہیں مگر آپ کی ساری کرامتوں میں سے سب سے بڑی کرامت جس نے آپ رضی اللہ عنہ کی ولایت کو قطبیت کے مرتبے تک پہنچایا، وہ کرامت ’’علم‘‘ ہے۔

یاد رہے کہ قطبیت ولایت کا آخری مرتبہ ہے۔ قطب سے اوپر ولایت کا کوئی رتبہ نہیں ہوتا، ولایت قطبیت پر جا کر ختم ہو جاتی ہے۔ لفظ ’’غوث‘‘ itself ولایت کا مرتبہ نہیں بلکہ یہ روحانی دنیا میں انتظامی عہدہ (managerial rank) ہے۔ اقطاب میں سے جن کو روحانی تقرر کا انتظام و انصرام (management,administration) سونپا جاتا ہے اُس قطب کو غوث کا title دیتے ہیں۔ قطب کئی ہوتے ہیں مگر senior most قطب کو دیگر اقطاب اور عالم ولایت کی management اورadministration سونپی جاتی ہے، اُس کو غوث کا title دے دیتے ہیں۔ حقیقت میں غوث، ولایت میں مراتب کے اعتبار سے قطب ہوتا ہے۔

سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ جب ولایت میں آخری مرتبۂ قطبیت پر پہنچے جو غوثیت عظمیٰ بھی ہے تو اس وجہ سے آپ غوث الاعظم کہلائے۔ اس آخری مقام پر پہنچنے کے حوالے سے جو کرامت کار فرما ہے، وہ طریقِ علم ہے۔ مرتبۂ ولایت میں حاصل مکانتِ علمیہ (مرتبہ علم) نے آپ کو سب سے اعظم قطبیت اور غوثیت کے درجے تک پہنچایا۔اسی لئے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

دَرَسْتُ الْعِلْمَ حَتّٰی صِرْتُ قُطْباً
وَنِلْتُ السَّعْدَ مِنْ مَّوْلیَ الْمَوَالِي

’’میں علم حاصل کرتا گیا، طریقِ علم پر چلتا گیا اور علم حاصل کرتے کرتے قطب ہوگیا۔‘‘

ولایت کے اور باب بھی ہیں۔طریقِ صدق بھی ایک باب ہے مگر یہ ولایت میں اونچا جانے کا دوسرا باب ہے۔ ولایت کے رتبات اور درجات میں سب سے منتہائے کمال پر پہنچنے کا جو طریق ہے وہ حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی ولایت عظمیٰ کا طریقِ علم ہے اور یہ ہی سب سے بڑی کرامت ہے۔

افسوس! ہمارے ہاں علم اِس حد تک زوال کا شکار ہوچکا ہے کہ ہم نے مرتبۂ علم کو ولایت کے ساتھ کبھی جوڑا ہی نہیں اور ہم اس کا تعلق ہی نہیں سمجھتے۔ ہم نے ولایت کے باب میں جہالت کو زیادہ جگہ دے رکھی ہے۔ ہم نے کاروبار اور دھندہ چلانے کے لیے جہالت based ولایت بنا دی ہے۔

یاد رکھیں! جہالت پر مبنی ولایت کی کوئی حقیقت نہیں۔ علم کے بغیر کوئی ولایت نہیں ہوتی۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس علم طریقِ ظاہر سے نہیں ہوتا مگر اللہ تعالیٰ طریقِ باطن سے ان کی ضرورتِ علمی کو پورا کر دیتا ہے۔ جیسے حضرت خضر علیہ السلام کسی مدرسہ سے پڑھے ہوئے نہیں مگر اللہ تعالیٰ انہیں مختلف طریقے سے اپنی بارگاہ سے علم عطا کر دیتا ہے اور علم کے ذریعے ولایت کے آخری مرتبے تک پہنچادیتا ہے۔

حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کا مقامِ علمی

حضور سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ 461 ہجری میں پیدا ہوئے۔ 488 ہجری میں آپ بغداد تشریف لائے۔ 521 ہجری سے 561 ہجری تک 40 سال آپ نے اپنے مدرسہ باب الشیخ پر لوگوں کو خطبۂ علمی دیا اور علم کی خیرات بانٹی۔ آپ ہفتے میں 3 دن، جمعہ کو جمعہ سے قبل، اتوار کی صبح اور منگل کی شام خطاب فرماتے تھے۔ آپ ایک معلم، شیخ اور مدرس تھے اور ہفتہ کے ساتوں دن طلبہ کو باقاعدہ پڑھاتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے خطاب کی مجلس میں 70 ہزار سے لے کر 1 لاکھ تک افراد آپ کے علم و فکر سے ہفتے میں 3 دن استفادہ کرتے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی جملہ کرامات اپنی جگہ مگر وہ تمام کرامات آپ رضی اللہ عنہ کے مرتبۂ علمی کی گرد ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

قَدَمِي هٰذِهٖ عَلٰی رَقَبَةِ کُلِّ وَلِيّ اﷲِ.

’’میرا قدم ہر ولی کی گردن پر ہے‘‘۔

آپ کا یہ فرمان آپ رضی اللہ عنہ کا رتبۂ ولایت ظاہر کرتا ہے اور اس رتبہ کا طریق ’’علم‘‘ ہے۔ آپ کا لقب ’’محی الدین‘‘ (دین کو زندہ کرنے والا) ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حِسّی کرامتوں سے دین کو زندہ نہیں کیا بلکہ ’’علم‘‘ سے دین کو زندہ کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے مدرسہ میں اپنے شیخ سے ملنے والی مسندِ علمی پر 528 ہجری سے 561ھ تک 33 سال روزانہ کی بنیادوں پر تدریس کے فرائض سرانجام دیئے۔ ہم نے کبھی سیدنا حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کی شان کے اس گوشہ کے حوالے سے سوچا ہی نہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ ہر روز تفسیرِقرآن، حدیث مبارک، فقہ، تصوف و معرفت، ادب، نحو، لغت اور بلاغت وغیرہ سمیت 13 علوم و فنون (subjects) پڑھاتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے خطابات میں علم کا اتنا ذخیرہ ہوتا تھا کہ 70 ہزار سے 1 لاکھ سامعین کی مجلس میں تقریباً 400 علماء یا کاتب آپ رضی اللہ عنہ کے خطابات کو لکھتے تھے۔

آپ کے زمانے کے اکابر علماء، محدثین اور فقہاء بھی آپ رضی اللہ عنہ کے حلقہ تدریس و ارادت میں باقاعدگی سے شامل ہوتے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے تلامذہ میں سے ایک نام امام ابن قدامہ المقدسی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ امام ابن قدامہ المقدسی رحمۃ اللہ علیہ شافعی اور حنبلی دونوں مذاہب پر فتویٰ دیتے۔ عراق اور اردگرد کے ممالک سے لوگ شرعی رہنمائی چاہتے اور آپ بغیر کسی تاخیر کے فوراً جواب مرحمت فرماتے۔ یعنی علم اتنا مستحضر رہتا تھا، علم پر اتنا تمکن، مضبوطی، دسترس، گہرائی اور گیرائی تھی کہ ایک دن بھی تامل اور تفکر نہیں فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ 100 نامور فقہاء امتحان لینے آئے کہ سمجھ نہیں آتا کہ ان کے پاس اتنا علم کہاں سے آتا ہے۔ کتابیں ہم بھی پڑھتے ہیں، مدارس میں ہم بھی جاتے ہیں، مطالعہ ہم بھی کرتے ہیں مگر جو علم یہ بیان کرتے ہیں ہم نہیں جانتے، اس علم کا کہاں سے ورود ہوتا ہے؟ چنانچہ 100 فقہاء کی جماعت نے آپ سے سوالات کیے، آپ نے ان کے ایسے جامع و مانع جوابات مرحمت فرمائے کہ سو کے سو فقہاء پر حالت وجد طاری ہوگئی اور وہ پکار اٹھے کہ ان کے علم کے جو وسائل، ذرائع اور مصادر ہیں وہ ہمارے فہم سے بھی بالا ہیں۔

امام ابن قدامہ المقدسی رحمۃ اللہ علیہ فقہ حنبلی کی تقریباً سب سے بڑی اور معتمد مصدر و مرجع کتاب ’’ المغنی‘‘ کے مصنف ہیں۔ آپ کی یہ تصنیف15 جلدوں پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب امام ابوالقاسم الخرقی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک چھوٹی سی کتاب ’’المختصر‘‘ کی شرح ہے۔ یعنی کتاب ’’المغنی‘‘ کا اصل متن ’’مختصر الخرقی‘‘ ہے۔ امام ابن قدامہ المقدسی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ’’المختصر الخرقی‘‘ حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھی اور پھر اس کی عظیم شرح لکھی۔

امام ابن قدامہ المقدسی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ 561 ہجری میں ہم حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بغداد پہنچے، یہ آپ کی عمرِ مبارک کا آخری سال تھا۔ میں نے اور امام عبدالغنی المقدسی رحمۃ اللہ علیہ (حنبلی امام ہیں، بہت بڑے جید محدث اور فقیہ) نے صرف 49دن آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گزارے، دوسری روایت میں ہے کہ صرف 39 دن آپ رضی اللہ عنہ کے پاس رہے۔ اُن 39 دنوں میں آپ رضی اللہ عنہ سے میں نے ’’مختصر الخرقی‘‘ پڑھی اور امام عبدالغنی المقدسی رحمۃ اللہ علیہ نے حضور غوث الاعظم سے فقہ حنبلی کی کتاب ’’الہدایۃ‘‘ پڑھی۔ ایک ’’الہدایۃ‘‘ فقہ حنفی کی کتاب بھی ہے، یہ امام مرغینانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی ہے، اس کا زمانہ بعد کا ہے۔ جبکہ فقہ حنبلی کی بھی ایک کتاب کا نام ’’الہدایہ‘‘ ہے، عام لوگوں کو اس کے متعلق معلوم نہیں چونکہ ہم دوسرے مذاہب کے بارے زیادہ نہیں جانتے۔ امام عبدالغنی مقدسی رحمۃ اللہ علیہ حضور غوث پاک سے روزانہ ’’الہدایۃ‘‘ پڑھتے اور امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ ’’مختصر الخرقی‘‘ پڑھتے۔ اس طرح دیگر علماء و طلبہ میں سے کوئی تفسیر پڑھتا، کوئی حدیث پڑھتا، کوئی عقیدہ پڑھتا، کوئی تصوف و معرفت پڑھتا اور کوئی لغت و بلاغت کی تعلیم حاصل کرتا۔

اس زمانے میں نحو کے ایک بہت بڑے عالم ابو محمد خشاب نحوی تھے، وہ کہتے ہیں کہ ہم کئی بار سوچتے کہ ہم نے حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ سے کیا سننے جانا ہے، اتنے وقت میں ہم نحو پڑھ لیتے ہیں۔ نحو ایک ایسا علم ہے کہ اس کو جاننے والوں کا اپنے اوپر بڑا گھمنڈ ہوتا ہے۔ بعض فنون پر دسترس کی وجہ سے بندوں کو گھمنڈ ہوتا ہے۔ معقولات کے فنون فلسفہ، منطق، بلاغت، نحو، لغت وغیرہ انسان میں بڑی ’’میں‘‘ پیدا کر دیتے ہیں۔ ابو محمد خشاب نحوی کہتے ہیں کہ ایک روز سوچا کہ چلو آج حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا درس سنتے ہیں۔ چنانچہ ہم آپ رضی اللہ عنہ کے درس میں گئے ہم چونکہ نحوی تھے اور فنون، بلاغت، لغت اور نحوی چیزوں کو سننے کے عادی تھے جبکہ اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کا درس معرفت پر ہو رہا تھا: لہذا ہمیں مزہ نہیں آیا۔ فرماتے ہیں کہ جونہی خیال آیا کہ ’’آج نحو کا سبق بھی گیا اور یہاں بھی مزہ نہیں آیا‘‘، اسی وقت دُور منبر پر جلوہ افروز حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ (جو معرفت کا مضمون بیان فرما رہے تھے) نے میرا نام لے کر مخاطب کیا اور فرمایا: تمہیں اپنی صحبت میں اس لیے نہیں بٹھایا کہ تمہیں نحو کا سیبویہ بنا دوں۔ تم نحو کا اللہ کی معرفت کے ساتھ مقابلہ کرتے ہو؟

یعنی اگر آپ کے پاس بیٹھے کسی شخص کے دل میں کوئی خیال آتا تو آپ رضی اللہ عنہ اسی وقت اسے مخاطب کرکے اصلاح فرمادیتے۔ آپ رضی اللہ عنہ سے اس طرح حجابات اٹھے ہوئے تھے مگر اس کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ مرتبۂ علم سے نہ ہٹتے۔ یاد رکھیں! عبادت اور زہد وورع کے بغیر علم نور نہیں لاتا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے 40 سال عشاء کے وضو سے نمازِ فجر ادا کی۔

3 ہزار علماء اور تربیت یافتہ اشخاص ہر سال آپ کے دست مبارک سے علم اور تربیت پا کر فارغ التحصیل ہو کر نکلتے تھے۔ فلسطین آزاد کرنے والی سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کی فوج میں اکثریت ان علماء کی تھی جو حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے۔ آپ کے طلبہ معرفت، توحید، تصوف، علم فقہ، علم العقیدہ بھی پڑھتے، اللہ کے دین کی طرف دعوت بھی دیتے اور دوسری طرف میدان کے غازی بھی تھے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی نے مناقب شیخ عبدالقادر جیلانی میں لکھا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں ستر ہزار کا مجمع ہوتا۔ (اس زمانے میں لاؤڈ سپیکر نہیں تھے۔) جو آواز ستر ہزار کے اجتماع میں پہلی صف کے لوگ سنتے، اتنی ہی آواز ستر ہزار کے اجتماع کی آخری صف کے لوگ بھی سنتے۔ اس مجلس میں علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ (صاحبِ صفۃ الصفوہ اور اصول حدیث کے امام) جیسے ہزارہا محدثین، ائمہ فقہ، متکلم، نحوی، فلسفی اور مفسر بیٹھتے اور اکتسابِ فیض کرتے تھے۔

حضور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے اُس زمانے میں اس طریقِ علم سے دین کو زندہ کیا۔ اپنی ولایت کی بنیاد آپ رضی اللہ عنہ نے صدق پر رکھی اور درجاتِ ولایت کی بلندی کا طریق علم پر رکھا۔

پیغام!

افسوس! آج ہمارا تعلق علم سے ٹوٹ گیا ہے حالانکہ قرآن مجید نے بھی فرق کا معیار علم کو قرار دیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ.

’’فرما دیجیے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں۔‘‘

(الزمر، 39: 9)

اللہ تعالیٰ نے آقا علیہ السلام کی شانِ علم کو یوں بیان فرمایا:

وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَo

’’اور تمہیں وہ (اسرارِ معرفت وحقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔‘‘

(البقرة، 2: 151)

یعنی نبوت و رسالت کی شان ہو یا ولایت کی شان، اللہ رب العزت نے جتنی شانیں تقسیم فرمائیں، اِن تمام کا مدار علم پر رکھا۔

یاد رکھیں! امت، قوم اور ہمارے جملہ طبقات کی کامیابی علم کے ساتھ وابستہ ہونے میں ہے۔ لہذا مطالعہ کی عادت بنائیں۔ ہمارے پاس قرآن مجید ہے، جس کا مرتبہ علم ہے اور جس میں اللہ تعالیٰ نے مفصل علم رکھا ہے، اس قرآن کو عرفان القرآن کے ترجمہ کے ساتھ پڑھیں۔ حدیث مبارکہ کو ’’المنہاج السوی‘‘ کے ذریعے پڑھیں۔ دیگر کتب پڑھیں۔ علم کا شغف اور ذوق پیدا کریں۔ علم سے تعلق پیدا کریں۔ روز علم کو حاصل کرنے کے لیے تھوڑا وقت ضرور نکالیں خواہ سن کر ہو یا پڑھ کر۔ حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ سے تعلق کی مضبوطی اور نبوت و ولایت کی حامل شخصیات کی بارگاہ میں قربت ’’صدق‘‘ اور ’’علم‘‘ سے ہی نصیب ہوتی ہے۔