پاکستان کو ایماندار قیادت کی ضرورت ہے

نوراللہ صدیقی

پاکستان کے موجودہ مسائل کی وجوہات کو اگر ایک جملے میں بیان کرنا ہو تو بے دھڑک کہا جا ئے گا کہ کر پشن نے ملک کی بنیادیں کھوکھلی کر دیں۔ نظام ختم اور ادارے مصلحتوں کا شکار ہیں۔ موجودہ نظام وفات پا چکا اور اس کی لاش متعفن ہو چکی۔ اس کے باوجود 21 کروڑ عوام کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ اس متعفن لاش کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر قریہ قریہ گھومتے رہیں۔ نظام میں سکت ہوتی تو’’نظام سکہ‘‘ ٹائپ کے لوگ ملکی وسائل اور تقدیر کے سیاہ و سفید کے مالک نہ بنتے اور پانامہ کیس کے فیصلے کی سماعت کے دوران اور فیصلہ آنے کے بعد قوم نے جو مناظر دیکھے وہ نظر نہ آتے۔ نظام زندہ ہوں تو فرد واحد چیلنج نہیں بنتے اور پارلیمنٹ جیسے بلند تر آئینی ادارے مجرموں کیلئے قانونی ڈھال نہ بنتے۔

25 دسمبر کو پاکستان کے عوام قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کا یوم پیدائش منا رہے ہیں۔ یہ دن ہر سال منایا جاتا ہے مگر سیاسی حوالے سے گزرا ہوا ہر سال گزشتہ سال کی نسبت ملک و قوم کیلئے زیادہ تکالیف کا سبب بنا۔ وہ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ جن کی زندگی کا ہر لمحہ حصول پاکستان کی جدوجہد میں گزرا اور انہوں نے اصول،ضابطے اور دیانت و امانت کے ذریعے آزادی کی بیش قدر نعمت حاصل کر کے دکھائی۔ بلا شبہ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی ایماندار اور مخلص قیادت کی وجہ سے وجود میں آیا مگر افسوس کہ ہم چھٹیوں سے لطف اندوز ہونیوالی قوم بن کر رہ گئے ہیں اور من حیث المجموع اسلاف کے کردار سے استفادہ پر آمادہ نہیں۔

آج کل ایک شخص پوچھتا پھر رہا ہے کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘۔ وہ شخص جو اس لوٹ کھسوٹ کے نظام کے بل بوتے پر تین بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوا اور جب پانامہ لیکس کے ذریعے سامنے آنے والی اس کی دولت کے بارے میں منی ٹریل مانگی گئی تو اس کے پاس اداروں کو دھمکیاں دینے کے سوا کچھ نہیں تھا۔

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کے چند ایسے گوشے بھی ہیں جنہیں سن اور پڑھ کر ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔ لیڈر شپ کیسی ہونی چاہیے؟ قائد اعظم کے کردار سے اسکے خدو خال ابھر کر آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں۔ ہم بانی پاکستان کے بارے میں اغیار کی زبان سے بھی سنتے ہیں کہ وہ سچے انسان تھے، جھوٹ نہیں بولتے تھے، کسی قسم کی خرید و فروخت پر یقین نہیں رکھتے تھے اور عوامی مقبولیت کے لیے موقف تبدیل نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی اصول پسندی کے سبب مسلم لیگ کو عوامی تحریک میں تبدیل کیا اور پھر اپنے سے کئی گنا طاقت میں بڑی اور چالاک، غاصب ایلیٹ کے نقطہ نظر کو شکست دے کر پاکستان حاصل کیا۔

15 نومبر2017ء کی صبح تحریک پاکستان کے باوقار کارکن محترم آزاد بن حیدر سے گفتگو ہوئی اور گفتگو کے دوران میں نے ان سے گزارش کی کہ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ایمانداری، اصول پسندی اور شفافیت کے کچھ ایسے واقعات سنائیں جن کی یادیں آپ کو مسحور کرتی ہیں۔ انہوں نے مجھے جو چند واقعات سنائے، ان سطور میں ان تاریخی واقعات کو میں ضبط تحریر میں لارہا ہوں:

’’قائد اعظم، ولی اللہ ہیں‘‘

انہوں نے اپنی گفتگو کا آغاز ان جملوں سے کیا کہ 1946ء کے انتخابات سے قبل قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کو کافر اعظم کہا جانے لگا تو اس پر ایک اجلاس کے دوران حضرت علامہ پیر جماعت علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مریم کی تلاوت کی اور اس کا ترجمہ اور تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا کہ’’ ولی اللہ‘‘ کی تعریف یہ ہے کہ اس سے سوادِ اعظم محبت کرے اور ہندوستان کا سوادِ اعظم قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ سے محبت کرتا ہے۔ جس نے کافر اعظم کہنا ہے، کہے مگر ہم اسے ولی کہتے ہیں۔

’’بد عنوانی کی اجازت ہرگز نہیں دوں گا‘‘

جناب آزاد بن حیدر نے بانی پاکستان کے کرپشن سے پاک، شفاف انتخابی نظام کے حوالے سے چند واقعات بیان کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ کلکتہ میں الیکشن کے دوران ایک مسلم لیگی امیدوار کے خلاف ایک مسلمان امیدوار بھی آزاد حیثیت میں کھڑا ہوا۔ اس وقت کی مسلم لیگی قیادت نے بانی پاکستان کی خدمت میں عرض کی کہ ایک ایک ووٹ قیمتی ہے، یہ شخص ہزار یا پندرہ سو روپے لے کر ہمارے امیدوار کے حق میں دستبردار ہو جائیگا، اس کی اجازت دیں؟ جس پر بانی پاکستان نے انتہائی تلخ لہجے میں جواب دیا : ہمارا امیدوار ہارتا ہے تو اسے ہارنے دو، میں اس کرپٹ پریکٹس کی ہرگز اجازت نہیں دوں گا۔

اسی طرح 1946ء کے انتخابات میں سندھ، حیدر آباد سے مسلم لیگی امیدوار کے مقابلے میں کچھ امیدوار کھڑے ہو گئے۔ یہاں پر بانی پاکستان کے دست راست عبدالرحمن صدیقی اور ایم ایچ اصفہانی نے مشورہ دیا کہ انتخابی مہم کو موثر بنانے کے لیے ووٹرز کو کچھ دے دلا کر ہم اپنے امیدوار کی پوزیشن مستحکم کر سکتے ہیں۔ یہاں بھی بانی پاکستان کا جواب تھا : ہمارے امیدوار ہارتے ہیں تو ہار جائیں، میں اس بدعنوانی کی ہر گز اجازت نہیں دوں گا۔ جس نے ووٹ دینا ہے ہمارے نظریے کو ووٹ دے۔

محترم آزاد بن حیدر نے چند واقعات اور بھی سنائے ، انہوں نے بتایا ایک مسلمان نوجوان شعلہ بیان مقرر کانگریس کے جلسوں کو اپنی شعلہ بیانی سے گرماتا تھا۔ بانی پاکستان کو کچھ مسلم لیگی عہدیداروں نے مشورہ دیا کہ اس کا صرف 50 روپے ماہانہ وظیفہ لگا دیا جائے تو وہ مسلم لیگ کے جلسوں میں وہی رنگ پیدا کرے گا جو وہ کانگریس کے جلسوں میں کرتا ہے اور وہ اس وظیفے کی وجہ سے کانگریس کے جلسوں میں جانا بھی بند کر دے گا۔ بانی پاکستان کا جواب تھا: 50 روپے لینے والے کو جب کوئی 200 روپے دے گا تو وہ ادھر چلا جائے گا، جس نے اِدھر آنا ہے، نظریے کی بنیاد پر آئے۔

قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے عوام کی والہانہ محبت کے مظاہر

1946ء کے انتخابات کے حوالے سے ایک اور واقعہ سنایا کہ ہندوستان کی اہل تشیع کی نمائندہ کونسل دبنگ انداز میں قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں تحریک پاکستان کی حمایت کررہی تھی تو کچھ عناصر نے پشاور میں حسین بھائی لالجی کی قیادت میں ایک ڈمی تنظیم بنا کر مسلم لیگی امیدواروں کے خلاف امیدوار کھڑے کرنے شروع کر دئیے۔ پشاور کے عوام کو جب اس سازش کا علم ہوا تو انہوں نے راتوں رات دیواروں پر لالجی کے نام کے نیچے ’’جی‘‘ کے نکتوں میں ’’دو نکتوں‘‘ کا اضافہ کر دیا، جس سے وہ لالجی کی جگہ’’لالچی‘‘ پڑھا جاتا۔ اگلے دن الیکشن میں تمام امیدواروں کی ضمانت ضبط ہوئی اور لالجی کے باکس سے صرف ایک ووٹ نکلا۔ اس نے گھر آ کر اپنی بیوی سے پوچھا کہ آپ نے کسے ووٹ دیا؟ بیوی نے کہا: محمد علی جناح کے امیدوار کو۔

معلوم ہواجب قیادت صادق و امین ہو تو پھر عوام پڑھے لکھے ہوں یا ان پڑھ، وہ قیادت کی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔

ایماندار قائداعظم سے محبت کے اظہار کا ایک اور واقعہ آزاد بن حیدر نے سنایا کہ 1946ء کے انتخابات میں ڈسکہ میں ایک خاتون نے اپنے خاوند سے کہا کہ آپ کانگریس کی بات کرتے ہیں، اس سے باز آجائیں اور ووٹ مسلم لیگ کے امیدوار کو دینا ہے اور اگر آپ نے مسلم لیگ کے امیدوار کو ووٹ نہ دیا تو میں خودکشی کر لوں گی۔ الیکشن کی شام خاتون نے خاوندسے پوچھا کس کو ووٹ دیا؟خاوند نے جواب دیا: کانگریس کو۔ وہ خاتون چپ چاپ اپنے کمرے میں چلی گئی اور صبح اس کی لاش چارپائی پر پڑی تھی۔

قومی دولت کی حفاظت اور قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی اصول پسندی

قائداعظم کی اصول پسندی کا ایک واقعہ سناتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بانی پاکستان گورنر جنرل کی حیثیت سے کراچی میں اپنے دفتر میں تشریف فرما تھے کہ سیکرٹری نے بتایا کہ آپ کے بھائی علی احمد جناح ملاقات کے لیے آئے ہیں۔ بانی پاکستان نے سیکرٹری سے استفسار کیا کہ ان کا نام ملاقات کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہے اور انہوں نے ملاقات کا وقت لیا ہے؟ سیکرٹری نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر بانی پاکستان نے نہ صرف ملاقات کرنے سے انکار کیا بلکہ یہ حکم بھی دیا کہ میں جب تک گورنر جنرل ہوں، وہ مجھے ملنے نہ آئیں۔

سادگی کا یہ عالم کہ اپنے ہاتھوں اور اپنی محنت سے کمائی ہوئی دولت کا اسراف بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ آزاد بن حیدر صاحب نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک ملاقات میں تین مہمان تھے اور میز پر چار سیب پڑے تھے۔ مہمانوں کے جانے کے بعد انہوں نے سوال کیا: جب مہمان تین تھے تو چوتھا سیب کیوں رکھا؟

بانی پاکستان بیماری کی حالت میں جب زیارت میں آرام فرما تھے تو ڈاکٹرز نے مشورہ دیا کہ آپ گرم زیر جامہ پہنیں تاکہ سردی سے بچے رہیں مگر انہوں نے کہا کہ جب گزارہ ہورہا ہے تو فضول خرچی کی کیا ضرورت ہے۔

فاطمہ جناح بانی پاکستان کے کچن کے یومیہ خرچہ کا اندراج کرتی تھیں اور فضول خرچی پر ناراض ہوتی تھیں۔

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ صفحہ اول کے وکیل اور ایک تاجر خاندان کے چشم و چراغ اور صاحب حیثیت انسان تھے مگر جب انہیں قوم کی امانتیں سونپی گئیں تو انہوں نے ایک ایک پائی کا حساب رکھا۔ پہلی قانون ساز اسمبلی کے اجلاس کا احوال تو زبان زد عام ہے کہ جب چائے پیش کرنے کیلئے دربانوں نے اجازت مانگی تو بانی پاکستان نے استفسار کیا: صبح کا وقت ہے، کیا یہ گھر سے چائے پی کر نہیں آئے؟

ان کی سادگی اور کفایت شعاری کی درجنوں مثالیں اور بھی ہیں جو ہم مختلف مواقع اور تحریروں میں ملاحظہ کرتے رہتے ہیں۔ بانی پاکستان نے اپنے ہاتھوں سے کمائے ہوئے اثاثے اپنی بیٹی کا قانونی حصہ الگ کرنے کے بعد سندھ مدرسۃ الاسلام، اسلامیہ کالج پشاور اور علی گڑھ یونیورسٹی کو دے دی۔

وہ شخص جو کہتا ہے ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ ان چند واقعات کی روشنی میں اپنے کردار اور اعمال کا محاسبہ کرے تو اسے یہ سوال کرنے کی جرأت بھی نہ ہو۔ پاکستان ایماندار ،غیرت مند، جرأت مند، خدا ترس ، خوددار لوگوں نے بنایا اور افسوس اسے ’’بازاری کردار ‘‘کے حامل سیاسی مداریوں نے نوچ کھایا۔

آزاد بن حیدر نے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے حوالے سے بھی گفتگو کی اور ان کے لیے چند کتب بھی تحفے میں بھجوائیں۔ قائدانقلاب کے حوالے سے ان کا موقف ہے کہ انتخابی نظام کو کرپٹ پریکٹسز سے نجات دلوانے کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے جو جاندار سیاسی، عوامی اورآئینی کردار ادا کیا وہ قابل قدر ہے۔ انہوں نے صاف، شفاف انتخابات کیلئے عوام اور اداروں کی توجہ آئین پر عمل درآمد کی طرف مبذول کروائی جو بانی پاکستان کی فکر کے عین مطابق ہے۔ آئین پاکستان بھی ان کرپٹ پریکٹسز کے خاتمے کی بات کرتا ہے مگر دولت مند طبقہ اس حد تک مضبوط ہو چکا ہے بلکہ بقول سپریم کورٹ مافیا کا روپ دھار چکا ہے ، اس طبقے نے پورے نظام کو اپنی جکڑ میں لے رکھا ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے پاکستان کے حصول کے عظیم مشن کیلئے بھی کسی امیدوار کو بٹھانے کیلئے 15 سو روپے دینے سے انکار کر دیا تھا اور یہاں پر قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کے پاکستان میں چھانگا مانگا کے جنگل آباد کیے گئے اور میریٹ ہوٹل اسلام آباد کو لوٹوں اور گھوڑوں کے اصطبل میں تبدیل کیا گیا اور آج بھی لوٹا گردی جاری و ساری ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے 2008ء کے عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کے 108 امیدواروں کے ساتھ مل کر پنجاب میں حکومت بنائی اور جب پیپلز پارٹی اتحاد سے علیحدہ ہوئی تو پنجاب میں ایک فارورڈ بلاک تیار کیا گیا تا کہ اگر وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئے تو وہ فارورڈ بلاک حکومت کا ساتھ دے۔

قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے بلا اجازت ملاقات کیلئے آنیوالے اپنے بھائی سے ملنے سے انکار کیا مگر یہاں ’’پورا ٹبر‘‘ منتخب ہو یا غیر منتخب حکومت کی باگ ڈور تھام لیتا ہے۔ یہ ہے اشرافیہ کی سیاسی اخلاقیات اور اصول پسندی۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے پاکستان کے حصول کی عظیم جدوجہد کے کسی بھی مرحلے پر قانون ہاتھ میں نہیں لیا، حالانکہ غاصب کے قانون کو ثواب کا کام سمجھ کر چیلنج کیا جا سکتا تھا مگر انہوں نے قانون اور اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے تحریک پاکستان کی جدوجہد جاری رکھی اور آج بانی پاکستان کے پاکستان کے اندر سیاسی مخالفین کی تنقید کا جواب دینے کی بجائے لاشیں گرائی جاتی ہیں اور ماڈل ٹائون جیسے سانحات برپا کیے جاتے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے غاصب انگریزکی عدالتوں کے وقار کے خلاف بھی کبھی کوئی بات نہیں کی مگر آج آزاد ملک کی سپریم کورٹ کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی گئی۔

قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے بارے ہم عصر شخصیات کے خیالات

ہمارے عظیم قائد کے متعلق نابغہ روزگار شخصیات کے کیا خیالات تھے ایک نظر اس پر بھی ڈالتے ہیں:

مولانا ابوالکلام آزادنے کہا ''قائدِ اعظم محمد علی جناح ہر مسئلے کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیتے تھے اور یہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔''

فخرالدین علی احمد (سابق صدر بھارت) نے کہا ''میں قائدِ اعظم کو برطانوی حکومت کیخلاف لڑنے والی جنگ کا عظیم مجاہد سمجھتا ہوں۔‘‘

کلیمنٹ اٹیلی (وزیرِ اعظم برطانیہ) نے کہا''نصب العینِ پاکستان پر ان کا عقیدہ کبھی غیر متزلزل نہیں ہوا اور اس مقصد کے لیے انہوں نے جو انتھک جدو جہد کی وہ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔''

مسولینی( وزیرِ اعظم اٹلی) نے کہا ''قائدِ اعظم کے لیے یہ بات کہنا غلط نہ ہو گی کہ وہ ایک ایسی تاریخ ساز شخصیت تھے جو کہیں صدیوں میں جا کر پیدا ہوتی ہے۔''

برٹرینڈ رسل( برطانوی مفکر)نے کہا ''ہندوستان کی پوری تاریخ میں کوئی بڑے سے بڑا شخص ایسا نہیں گزرا جسے مسلمانوں میں ایسی محبوبیت نصیب ہوئی ہو۔''

مہاتما گاندھی نے کہا ''جناح کا خلوص مسلمہ ہے۔ وہ ایک اچھے آدمی ہیں۔ وہ میرے پرانے ساتھی ہیں۔ میں انہیں زندہ باد کہتا ہوں۔''

مسز وجے لکشمی پنڈت نے کہا ''اگر مسلم لیگ کے پاس سو گاندھی اور دو سو ابوالکلام آزاد ہوتے اور کانگریس کے پاس صرف ایک لیڈر محمد علی جناح ہوتا تو ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا۔‘‘

ماسٹر تارا سنگھ (سکھ رہنما)نے کہا ''قائدِ اعظم نے مسلمانوں کو ہندوؤں کی غلامی سے نجات دلائی۔ اگر یہ شخص سکھوں میں پیدا ہوتا تو اس کی پوجا کی جاتی۔''

برطانوی وزیرِ اعظم سر ونسٹن چرچل نے کہا ''مسٹر جناح اپنے ارادوں اور اپنی رائے میں بےحد سخت ہیں۔ ان کے رویے میں کوئی لچک نہیں تھی۔ وہ مسلم قوم کے مخلص رہنما ہی نہیں سچے وکیل بھی ہیں۔''

مسز سروجنی نائیڈو (سابق گورنر یو پی) نے کہا ''ایک قوم پرست انسان کی حیثیت سے قائدِ اعظم کی شخصیت قابلِ رشک ہے۔ انہوں نے ذاتی اغراض کے پیشِ نظر کسی شخص کو نقصان نہیں پہنچایا۔ اپنی بےلوث خدمت کے عوض ہندوستان کے مسلمانوں کے لیڈر ہیں۔ ان کا ہر ارادہ ہر مسلمان کے لیے حرفِ آخر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کا ہر حکم مسلمانوں کا آ خری فیصلہ ہے جس کی انتہائی خلوص کے ساتھ لفظ بہ لفظ تعمیل کی جاتی ہے۔''

''جناح آف پا کستان'' کے مصنف پروفیسر اسٹینلے اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں'' بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں اور ایسے لوگ تو اور بھی کم ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیتے ہیں اور ایسا تو کوئی کوئی ہوتا ہے جو ایک نئی مملکت قائم کر دے۔ محمد علی جناح ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے بیک وقت تینوں کارنامے کر دکھائے۔''

مسیحی لیڈر سر فریڈرک جیمز نے کہا کہ ’’قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو دنیا کی کوئی طاقت خرید نہیں سکتی۔‘‘

اللہ رب العزت سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمارے عظیم قائد بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے درجات بلند کرے۔