تحریک کے زیر اہتمام 34 ویں عالمی میلاد کانفرنس

رپورٹ: محبوب حسین جوئیہ

تحریک منہاج القرآن کی پہچان اور انفرادیت محبت و عشقِ مصطفی سے عبارت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے جشنِ میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اہتمام نہایت تزک و احتشام سے کیا جاتا ہے۔ عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فروغ کے لیے عظیم عالمی میلاد کانفرنس کا آغاز ہوئے 34 برس ہوچکے ہیں۔ الحمدللہ تحریک منہاج القرآن نے بھرپور ذوق و شوق کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ محبت و الفت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وفاداری نبھانے کا پیغام نہ صرف دنیا بھر میں پہنچایا ہے بلکہ جشن آمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معاشرتی ثقافت کا اہم حصہ بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ آمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی کے ساتھ ساتھ ولادت باسعادت کی مقصدیت و اہمیت کے تصور کو بھی تحریک اجاگر کررہی ہے اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روشنی لیتے ہوئے آمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرمسرت ساعتوں کو منانے کے ساتھ ساتھ اتحاد و یکجہتی، محبت و رواداری، امن و آشتی اور قوتِ برداشت کی تعلیمات کو بھی دنیا بھر میں عام کررہی ہے۔

اللہ رب العزت کے پیارے حبیب اور محسن کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر اظہار تشکر کے لئے اس سال بھی حسب روایت ماہ ربیع الاول کا چاند طلوع ہوتے ہی تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ اور مینارۃ السلام کو برقی قمقموں اور روشنیوں سے سجایا گیا۔ یکم ربیع الاول سے لے کر دس ربیع الاول تک مرکزی سیکرٹریٹ سے مشعل بردار ریلیاں نکالی گئیں، ان ریلیوں میں کالج آف شریعہ منہاج یونیورسٹی کے طلبہ، اساتذہ اور مرکزی قائدین کے علاوہ اہل محلہ سیکڑوں کی تعداد میں شریک ہوئے۔ نماز عشاء کے بعد مرکزی سیکرٹریٹ کے صفہ ہال میں روزانہ محافل میلاد کا انعقاد کیا گیا جس میں مرکزی قائدین، کارکنان، سٹاف ممبران اور عوام الناس کی کثیر تعداد شریک ہوئی۔ محفل کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوتا، اس کے بعد ذکر و نعت اور درود وسلام کے ذریعے عشاقان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلوب و اذہان کو منور کیا جاتا اور رقت آمیز دعا کے بعد ضیافت میلاد کا اہتمام بھی کیا جاتا۔

اس ماہ مبارک میں تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان و وابستگان نے پوری دنیا میں قائم مراکز میں بھی محافل میلاد کا انعقاد کیا اور ان مراکز کو خوبصورت روشنیوں سے سجایا گیا۔ یوں تحریک منہاج القرآن کو میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کا ایک منفرد اعزاز حاصل ہے۔

ان تمام محافل کا عروج و کمال اپنے اندر فیوض و برکات سموئے ہوئے گیارہ اور بارہ ربیع الاول کی درمیانی شب 30 نومبر 2017ء لاہور کے تاریخی مقام مینار پاکستان پر عالمی میلاد کانفرنس کی صورت میں جلوہ گر ہوا جس میں ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے نامور احباب، علماء و مشائخ، اقلیتی نمائندوں، وکلائ، سیاستدان، تاجر برادری، طلبہ، اساتذہ اور خواتین و حضرات نے لاکھوں کی تعداد میں شرکت کی۔ امسال عالمی میلاد کانفرنس کو ’’تاجدارِ ختم نبوت کانفرنس‘‘ سے موسوم کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دھن، دھونس اور دھاندلی کے نتیجہ میں اقتدار پر مسلط حکمرانوں نے اپنے آقائوں کو خوش کرنے اور اپنے اقتدار کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچانے کے لیے پاکستان کے آئین و قانون میں موجود ختم نبوت کے تحفظ میں پاس کئے گئے قوانین ختم اور حلف نامہ کو بدل دیا جس پر اسلامیان پاکستان کی طرف سے شدید رد عمل آیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بروقت اپنا شدید ردعمل دیا، جس بناء پر حکمران اپنے اس مکروہ و مذموم ایجنڈے میں بری طرح ناکام ہوئے اور حکومت اصل شکل میں اس حلف نامہ کو بحال کرنے پر مجبور ہوگئی۔ یہ کانفرنس منہاج ٹی وی اور پاک نیوز کے ذریعے پوری دنیا میں براہ راست نشر کی گئی۔

اس عالمی میلاد کانفرنس کے مہمانِ خصوصی نیلسن منڈیلا کے پوتے محترم مانڈلا منڈیلا تھے جو سائوتھ افریقہ سے تشریف لائے۔ دیگر مہمانانِ گرامی میں محترم شیخ ابوالحسن اسماعیل خطیب (سائوتھ افریقہ)،محترم احمد ولی محمد (سائوتھ افریقہ)، محترم منظور احمد وٹو (مرکزی رہنما پیپلز پارٹی)، محترم ولید اقبال (علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے اور رہنما تحریک انصاف)، محترم فرید احمد پراچہ (رہنما جماعت اسلامی)، محترم علامہ امدادللہ خان، علامہ محمد امین شہیدی (مجلس وحدت المسلمین)، مسز نوشین حامد (رہنما PTI)، مسیح برادری سے تعلق رکھنے والے بشپ منوہر لال، سردار گوپال سنگھ چاولہ اور سروا گھماکشن شامل ہیں۔

سٹیج پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ہمراہ مہمانان گرامی کے ساتھ چیئرمین سپریم کونسل محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، صدر تحریک منہاج القرآن محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن محترم خرم نواز گنڈا پور، محترم بریگیڈیئر (ر) اقبال احمد خان، محترم جواد حامد (ڈائریکٹر نظامت سیکرٹریٹ)، جملہ مرکزی قائدین تحریک اور اندرون و بیرون ممالک کی مختلف مہمان شخصیات تشریف فرما تھیں۔

پہلا سیشن

کانفرنس کے پہلے سیشن میں نقابت کے فرائض محترم محمد عامر، محترم محمد انعام مصطفوی، محترم منہاج الدین اور محترم حافظ حسن شیر نے ادا کئے جبکہ تلاوت کلام پاک کی سعادت محترم قاری طارق علی شاہ، محترم قاری جنید رسول بغدادی، محترم قاری عبدالصمد اور محترم قاری فرحان بخش نے حاصل کی۔ نعت رسول مقبول کی سعادت محترم قاری عبیداللہ و ہمنوا، محترم حافظ برادران، کوئٹہ سے تشریف لائے ہوئے ننھے نعت خواں محمد معارج، محترم شکیل احمد طاہر، محترم طاہری برادران، محترم محمد عمر فاروق، محترم محمد عمر بٹ اور محترم قاری فرحان بخش نے حاصل کی۔

  • ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن محترم خرم نواز گنڈا پور نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے تشریف لانے والے تمام احباب و انتظامی کمیٹیوں کو مبارکباد دی اور عالمی میلاد کانفرنس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔
  • صدر یوتھ لیگ محترم مظہر محمود علوی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلاشبہ عقیدہ ختم نبوت ایمان کا حصہ ہے۔ صحابہ کرام نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جذبہ ایمانی کے تحت دین کا پیغام پہنچایا جس کی بدولت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو صداقت کا فیض ملا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو عدالت کا، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو حیاء و غناء اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شجاعت کا فیض عطا کیا گیا اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اسی جذبے کے تحت مقام رضا پر فائز ہوئے۔ اسی عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جذبہ ایمانی کا تسلسل ہے کہ ہمارے قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا بھر میں پھیلا رہے ہیں۔
  • بہاولپور سے تعلق رکھنے والے ہندو برادری کے مہمان سروا گھماکشن لال نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں ہندو برادری کی طرف سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت پر تمام مسلمانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے امن کا پیغام پہنچارہے ہیں اور ان کا قائم کیا ہوا ادارہ واحد ادارہ ہے جو ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو علم سے آراستہ کررہا ہے۔
  • محترم علامہ امداد اللہ خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ رب العزت نے اس پرفتن دور میں ہمیں ایک ایسا رہنماء عطا کیا جو امت مسلمہ کو درپیش تمام بحرانوں سے نکالنے کی صلاحیت و قابلیت رکھتا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری عقیدے میں پختگی اور سوچ میں وسعت دیتے ہیں۔ تحریر ہو یا تقریر، تدبیر ہو یا قانون، ہمارا قائد ہر فن میں بے مثال ہے۔
  • ویمن لیگ کی نمائندگی کرتے ہوئے محترمہ افنان بابر اور محترمہ لبنیٰ مشتاق نے کہا کہ جب بھی ناموس رسالت پر حملہ ہوا تو ایک ہی مرد حر میدان میں آیا جس کا نام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہے جس کے عمل کی بدولت نسل انسانی کو سیدھی راہ مل رہی ہے اور لوگوں کے ذہنوں میں فکری انقلاب بپا ہوا ہے۔ عالمی میلاد کانفرنس میں تشریف لانے والی تمام خواتین کو خوش آمدید کہ ان کی لازوال خدمات تحریک کے ماتھے کا جھومر ہیں۔

دوسرا سیشن

اسی اثناء میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری عالمی میلاد کانفرنس کے سٹیج کی زینت بنے۔ پرجوش نعروں سے آپ کا استقبال کیا گیا اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔ شیخ الاسلام کے ساتھ معزز مہمانان گرامی محترم مانڈلا منڈیلا، محترم احمد ولی محمد، محترم شیخ اسماعیل خطیب بھی تشریف لائے۔ شیخ الاسلام کی آمد کے ساتھ ہی کانفرنس کے دوسرے سیشن کا آغاز تلاوت کلام مجید سے ہوا جس کی سعادت قاری نور احمد چشتی نے حاصل کی۔ نعت رسول مقبول بحضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سعادت محترم افضل نوشاہی، محترم شہزاد برادران اور محترم بلالی برادران نے حاصل کی۔ اس کے بعد مہمانان گرامی کے خطابات کا سلسلہ شروع ہوا۔

  • مسیحی برادری کے رہنما بشپ منوہرلال کا کہنا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جنم دن پر خوشی کا ماحول ہے اور اس خوشی کے ماحول میں مسیحی برادری کی طرف سے میلاد مبارک ہو۔ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب دل اور انسانیت کا دروازہ کھولتے ہیں۔ آپ محبت، میل ملاپ اور صلح کا پیغام لے کر آئے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم آپ کے پیغام کو پوری دنیا تک پہنچائیں۔
  • سکھ برادری کی نمائندگی کرتے ہوئے سردار گوپال سنگھ چاولہ نے کہا کہ

کاٹ دیں گے وہ ہاتھ جو مٹائے نام محمد کا
چوم لیں گے وہ ہاتھ جو لکھے نام محمد کا

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن نے تمام جہانوں کے لیے رحمت کہا ہے لہذا وہ صرف مسلمانوں کے ہی نبی نہیں بلکہ ہمارے لیے بھی رحمت ہیں، اس لیے صرف مسلمانوںکا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اجارہ نہیں ہے۔ آج اگر معاشرتی، فکری اور علمی سطح پر بچے بچے میں شعور ہے تو وہ صرف ڈاکٹر طاہرالقادری کی وجہ سے ہے۔ ختم نبوت کے قانون میں تبدیلی کرکے گستاخی کے مرتکب لوگ سزا کے مستحق ہیں۔

  • محترم فرید احمد پراچہ (رہنما جماعت اسلامی) نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ختم نبوت کے قانون میںتبدیلی کرنے والے آج بھی ہمارے اوپر مسلط ہیں۔ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے ہم سب کو مل کر چلنا ہوگا۔ جماعت اسلامی کی طرف سے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ساتھ ہم آہنگی کا اعلان کرتا ہوں۔ ہمارے ملک میں چور بازاری، کرپشن اور منی لانڈرنگ کا جو ناسور ہے، اس کو مل کر ختم کرنا ہوگا۔
  • پاکستان تحریک انصاف کے رہنما محترم ولید اقبال نے کہا شیخ الاسلام اور ہماری فیملی کا ایک گہرا رشتہ ہے جو عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بنیاد پر قائم ہے۔ شیخ الاسلام کو معاشرے میں محبت و ہم آہنگی اور رواداری کا ماحول قائم کرنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
  • محترم علامہ محمد امین شہیدی (مجلس وحدۃ المسلمین) نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں شیخ الاسلام کو اس حساس وقت میں ایسا پروگرام منعقد کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آپ نے عشق رسول کا پیغام دے کر امت مسلمہ کی رہنمائی فرمائی ہے۔
  • پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما میاں منظور احمد وٹو نے اس خوبصورت پروگرام کے انعقاد پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ سعادت صرف ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو حاصل ہے کہ انہوں نے عظیم الشان عالمی میلاد کانفرنس کا اہتمام کیا۔ شیخ الاسلام سے جن کا تعلق ہوجائے تو وہ اس تعلق کو قائم بھی رکھتے ہیں اور اس کا بھرم بھی رکھتے ہیں۔ موجودہ حکمرانوں کو مکروہ چہرے بے نقاب ہوچکے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ وہ شیخ الاسلام کو کندھوں پر اٹھا کر غار حرا لے گئے مگر جوں ہی یہ حکمران دین سے دور ہوتے گئے تو نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ اب کرپشن بچانے کے لئے ختم نبوت پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔
  • سائوتھ افریقہ سے تشریف لانے والے معزز مہمان بیرسٹر شیخ اسماعیل ابوالحسن خطیب نے خوبصورت محفل کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی اور کہا کہ ہم سب کو مل کر لوگوں کے لیے بہتر زندگی گزارنے کی جدوجہد کرنی چاہئے۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمیں شیخ الاسلام کی سنگت ملی ہے۔ شیخ الاسلام کے سامنے میرا بولنا ایسا ہے جیسے پانی کے ہوتے ہوئے تیمم کی اجازت نہیں۔ تین سے چار دہائیوں کے اندر شیخ الاسلام نے امت مسلمہ اور انسانیت کے لیے جو خدمات سرانجام دی ہیں اس کے حصول کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام علمی بصیرت رکھنے والی شخصیت اور اللہ کی نعمت ہیں۔ انہوں نے شیخ الاسلام کو Man of Vision قرار دیا۔
  • محترم اے وی محمد (سائوتھ افریقہ) کا کہنا تھا کہ شیخ الاسلام ایک چاندہیں اور آپ سب لوگ اس کے ستارے ہو۔ ہم سب کو مل کر شیخ الاسلام کی ہر جہت میں مدد کرنی چاہئے کیونکہ آپ ایک قابل قدر شخصیت کے مالک ہیں۔ صرف شیخ الاسلام کی ذمہ داری نہیں کہ وہ اکیلے امن کی جنگ لڑیں بلکہ آپ سب لوگوں کو شیخ الاسلام کا ساتھ دینا چاہئے۔ میں اس حیران کن پروگرام پر آپ تمام کو سلام کرتا ہوں۔ شیخ الاسلام سے ملاقات اور آپ کے کام کو دیکھ کر میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ آپ کے بارے کچھ کہوں۔ شیخ الاسلام Man of action ہیں، آپ نے وہ کام کیا ہے جو دوسرے نہیں کرسکے۔ آپ کے علم کی میراث آئندہ چودہ سو سال اور اس سے بھی آگے تک پوری انسانیت کے لیے ہے۔ اب میں آئندہ سے منہاج القرآن اور شیخ الاسلام کا سفیر بن کر کام کروں گا۔ آخر میں انہوں نے شیخ الاسلام کو اپنے ملک سائوتھ افریقہ تشریف لانے کی دعوت بھی دی۔
  • محترم مانڈلا منڈیلا (سائوتھ افریقہ) نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری دعا ہے کہ پاکستان ہمیشہ سلامت رہے۔ قائد تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک ایسی شخصیت ہیں جو زندگی میں ہم آہنگی اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں ایک عالمی سطح کا پروگرام منعقد کرنا ایک عظیم کامیابی ہے۔ پاکستان اہل محبت کا ملک ہے اور میں بحثیت مسلمان پاکستان کا دورہ کر کے فخر محسوس کر رہا ہوں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی دعوت پر پاکستان آنا اور ختم نبوت کانفرنس میں شرکت میرے لیے ایک بڑا اعزاز ہے۔ کانفرنس کے انعقاد پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو سلام پیش کرتا ہوں۔ مجھے خوشی ہے میں آج اس جگہ کھڑا ہوں جہاں پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔ اسلام ایک امن پسند دین ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا کے عظیم انقلابی لیڈر ہیں۔ میرے دادا نیلسن منڈیلا نے کمزوروں کے حقِ آزادی کیلئے بے مثال جدوجہد کی۔ تحریک منہاج القرآن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اسلام اور پاکستان کے پرامن تشخص کو کامیابی کے ساتھ پوری دنیا میں اجاگر کررہے ہیں۔ اسلام قبول کرنا میری خوش بختی ہے۔ پاکستان کے عوام محبت کرنے والے اور امن پسند ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کی جدوجہد میں ان کی قربانیاں قابل تحسین اور پوری دنیا کیلئے قابل تقلید ہیں۔

خطاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے خطاب سے قبل عالمی میلاد کانفرنس میں تشریف لانے والے مہمانان گرامی بالخصوص مہمان خصوصی محترم مانڈلا منڈیلا کو خوش آمدید کہا اور ان کے دادا نیلسن منڈیلا کی انسانیت کی بھلائی کے لیے کی جانے والی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے سائوتھ افریقہ میں انسانوں کو محکومی سے آزادی دلانے کے لیے جنگ لڑی اور کامیاب ہوئے۔

شیخ الاسلام نے فقیدالمثال سٹیج اور عظیم الشان پنڈال سجانے پر محترم ناظم اعلیٰ خرم نواز گنڈا پور، محترم جواد حامد اور ان کی پوری ٹیم کو مبارک باد دی۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ آج کے عالمی میلاد کانفرنس کو تاجدار ختم نبوت کا موضوع دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس لیے کہ ایسے کرپٹ لیڈر جو نااہل ہوچکے ہیں، جنہوں نے نہتے انسانوں کا خون بہایا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ عقیدہ ختم نبوت پر حملہ کرکے مسلمانوں کے ایمان کو قتل کرنا چاہا اور رات کے اندھیرے میں حلف نامہ تبدیل کرکے ناموس رسالت پر حملہ آور ہوئے۔ اس تمام واردات کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح یہ حکمران بیرونی طاقتوں کی حمایت حاصل کرسکیں اور اقتدار پر براجمان رہ سکیں۔ آج کی یہ عالمی کانفرنس اس بات کا اظہار ہے مسلمان ناموس رسالت پر کوئی Compromise نہیں کرسکتا۔ ان کرپٹ لوگوں نے سازش کرکے ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنا چاہا مگر پاک فوج نے عقلمندی سے ان کے ناپاک عزائم کو سبوتاژ کیا۔ ہم آج میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر پاک افواج کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ ہماری افواج ملک کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ایمان کی اساس کی بھی حفاظت کر رہی ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین بنایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی تخلیق میں اول اور بعثت میں آخری ہیں۔ خلق کی ابتدا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے ہوئی اور نبوت کی انتہاء آپ کی نبوت کے ظہور سے ہوئی۔ ہم زندہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے ہیں اور یہ ساری کائنات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے سے چل رہی ہے۔ لہذا کلمہ گو کا جینا اس وقت تک حرام ہے جب تک ختم نبوت سے وفادار ہوکر نہ جیئے۔

شیخ الاسلام نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ کو موضوع گفتگو بناتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے مگر ایک عظیم بیان ’’خلق‘‘ کا ہے جس کے بارے فرمایا:

وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ.

’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)۔‘‘

(القلم، 68: 4)

خلق کی جمع اخلاق ہے۔ اخلاق کا مطلب انسان میں ایک ایسی قوت کا پیدا ہوجانا ہے جس سے بندہ مخلوقِ خدا کی بھلائی کے کام بغیر سوچے سمجھے اور بلا تکلف سرانجام دے اور بندے کی طبیعت میں اس حوالے سے استحکام آجائے تو اسے خلق کہتے ہیں۔

اخلاق وہ ہوتے ہیں جو عادیہ ہوں یعنی انسان ایک خوبصورت رویے اور طرز عمل کے لیے اپنے نفس میں صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ اس صلاحیت کے نتیجے میں نارمل طبیعت کے ساتھ عمل کرنے، دل کو وسیع کرنے، دوسرے کو عزت دینے، دوسروں کے دکھ درد مٹانے کے لئے اُسے دقت پیش نہ آئے اور وہ آسانی اور خوش اسلوبی سے ایسے کام کرتا چلا جائے، اسے خلق کہتے ہیں۔ اگر انسان کو جبراً کوئی کام کرنا پڑے تو وہ خلق کے دائرے میں نہیں آتا۔

اخلاق کی یہ صلاحیت بندے میں پیدائشی بھی ہوتی ہے اور بندہ خود بھی پیدا کرلیتا ہے۔ یعنی یہ اکتسابی بھی ہے اور قدرتی بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت انبیاء علیہم السلام میں ودیعت کردی ہوئی ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی پیدائش سے لے کر نبوت اور پھر آخری عمر تک بدخلقی نہیں کرسکتے۔ اسی لیے انسان ان ہستیوں سے مل کر خوشی و فرحت محسوس کرتا ہے کیونکہ ان میں سخاوت، طہارت اورپاکیزگی ہوتی ہے اور یہ ساری خوبیاں اللہ تعالیٰ نے پیدائش سے ہی ان کے اندر پیدا کی ہوئی ہوتی ہیں۔ اولیاء و صالحین اپنی کوششوں سے ان صفات و خصائل کو Develope کرتے رہتے ہیں کیونکہ اخلاق جبلت میں بھی ہوتا ہے اور اکتسابی بھی، اس لیے انسان محنت کرکے اخلاق کو بہتر بناسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر طبیعت میں اخلاق کے بیج رکھے ہوتے ہیںجب وہ پروان چڑھتے اور نمو پاتے ہیں تو انسان میں وسعت آجاتی ہے۔ اگر انسان اس سلسلہ میں محنت نہ کرے تو یہ Develope ہونے کی بجائے کمزور پڑجاتے ہیں۔ جیسے نظر کمزور ہو تو عینک لگالیتے ہیں اسی طرح نفس کی کمزوریوں کو ریاضت اور اچھی صحبت سے دور کیا جاسکتا ہے۔

بندہ محنت کے ذریعے اخلاق کو Develope کرکے کمال حاصل کرسکتا ہے لیکن اگر محنت چھوڑ دے تو وہ کمال، زوال کا شکار ہوجاتا ہے۔ لہذا کمال کے درجے بلند کرنے کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے۔ نفس میں حسن اخلاق کو محفوظ کرنے کے لئے لازم ہے کہ بندہ اعتدال کی راہ پر چلے۔

اگر انسان کی عقل اعتدال پر رہے تو اسے ذہانت کہتے ہیں اگر زوال میں پڑ جائے تو اسے بیوقوفی و حماقت کہتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی عمل حد سے بڑھ جائے تو انسان ظالم اور سفاک بن جاتا ہے۔ لہذا اگر انسانی عقل اعتدال میں رہے تو انسان میں صبرو تحمل اور سخاوت آجاتی ہے اور اس صورت میں انسان دوسروں کے لیے نفع بخش ثابت ہوتا ہے۔ اگر زوال آجائے اور راہ اعتدال سے تنزلی کی طرف چل پڑے تو انسان کاہل، سست، بزدل اور کنجوس بن جاتا ہے۔ لہذا اگر انسان میں اچھی صلاحیت موجود ہو اور طبیعت کنٹرول میں ہو تو محنت کرکے راہ اعتدال کو محفوظ رکھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کا کمال بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ.

’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)۔‘‘

(القلم، 68: 4)

حضرت عائشہ صدیقہ سے جب پوچھا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کیسے تھے؟ تو آپ نے جواب دیا: کیا تو نے قرآن نہیں پڑھا؟ یہ جواب اس لیے دیا کیونکہ آپ نے پوچھنے والے کے سوال میں کمی اور غلطی محسوس کی کہ شاید اس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کو محدود سمجھا ہے، اسی لیے پوچھا کہ کیسے اخلاق تھے تاکہ وہ گنے چنے اخلاق سن سکے مگر اس کو کیا خبر کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے اخلاق کی کوئی حد نہیں رکھی۔ جیسے قرآن ایک سمندر ہے، ویسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق بھی ایک سمندر کی مانند ہیں جیسے قرآن کے معانی و معارف کی حد نہیں، ویسے ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کی حد نہیں۔

حضرت شہاب الدین سہروردی نے عوارف المعارف میں فرمایا کہ حضرت عائشہ صدیقہ فرمانا یہ چاہتی تھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق اللہ کے اخلاق ہی تو ہیں کیونکہ کلام صفت ہوتا ہے اور قرآن اللہ کا کلام ہونے کی وجہ سے اللہ کی صفت ہے۔ لہذا ادب الوہیت میں رہتے ہوئے عظمت مصطفی بیان کرگئیں کیونکہ قرآن پاک میں آیاتِ محکمات بھی ہیں، حروفِ مقطعات بھی ہیں اور آیاتِ متشابہات بھی ہیں۔ آیات محکمات کو ہر کوئی سمجھ لیتا ہے۔ آیات متشابہات کا علم اللہ کو یا اہل اللہ کو ہے، غیراللہ کو اس کا علم نہیں۔ مگر تیسری قسم حروفِ مقطعات کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرمانا یہ چاہتی تھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ اخلاق کو لوگوں نے آیات محکمات کی طرح جان لیا, کچھ اخلاق کو آیات متشابہات کی طرح عارفوں نے جانا مگر کچھ اخلاق ایسے بھی ہیں جن کو حروف مقطعات کی طرح صرف اللہ جانتا ہے اور کوئی نہیں جانتا۔ یہی وجہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کو قرآن سے تشبیہ دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ زمانہ گزر گیا مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقت کو نہ کوئی جان سکا اور نہ احاطہ کرسکا۔

شیخ الاسلام نے لوگوں کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا کہ نیک اور اچھی سنگت اختیار کرو تاکہ اخلاق اچھے بن جائیں کیونکہ انسان کے اخلاق کی تعمیر و ترقی میں صحبت کا اثر ہوتا ہے۔ اگر صحبت اچھی اور نیک ہوگی تو انسان نیکی کی طرف راغب ہوگا اور صحبت بری ہوگی تو انسان کا نفس برائی کی طرف مائل ہوگا۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا ﷲَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ.

’’اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہو۔‘‘

(التوبة، 9: 119)

اولیاء، صلحاء کی سنگت اختیار کرنے سے انسان بدل جاتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ وقت کے امام بھی صوفیاء و صلحاء کی سنگت میں بیٹھتے۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت بہلول دانا رحمۃ اللہ علیہ کی سنگت اختیار کی۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے محمد بن المقتدر رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت سے فیض پایا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کی سنگت اختیار کی اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت بشر الحافی رحمۃ اللہ علیہ کی سنگت و صحبت سے استفادہ کیا۔ یہ سب وقت کے امام تھے مگر احوال باطنی کی اصلاح اور حفاظت کے لیے عارفوں کی سنگت میں بیٹھتے۔ بندہ جس کی صحبت میں بیٹھے گا، اسی کا رنگ اس پر چڑھتا جائے گا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر وقت اللہ کی صحبت میں ہوتے تھے جس وجہ سے آپ کی ذات پر اللہ کی صفات کا رنگ چڑھ گیا تھا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ذات پر کیے گئے ظلم کو معاف فرمادیتے مگر دوسروں کے ساتھ کیے جانے والے ظلم کو معاف نہ فرماتے۔ اس سے ہمیں سبق لینا چاہئے کہ آج کے دور کے حکمران دوسروں پر کس قدر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ دن دیہاڑے ماڈل ٹائون میں 14 شہید اور 90 سے زائد زخمی کرادیئے، اس کا حساب انہیں دینا پڑے گا۔ ان مظالم کی بناء پر پوری دنیا میں جس قدر شریف خاندان کی ذلت و رسوائی ہوئی ہے اتنا کسی اور کی نہیں ہوئی۔ شہداء ماڈل ٹائون کے ورثاء کو صبرو استقامت پر مبارک باد دیتا ہوں، اللہ پاک مظلوم کو جلد فتحیاب اور ظالموں کو عبرت کا نشان بنائے گا۔

  • شیخ الاسلام کے خطاب کے بعد افضل نوشاہی، ظہیر بلالی اور شہزاد برادران نے مل کر درود و سلام کا نذرانہ پیش کیا۔ عالمی میلاد کانفرنس کے اختتام پر میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں آتش بازی بھی کی گئی اور ہوا میں غبارے چھوڑے گئے۔ پنڈال کا منظر دیدنی تھا۔ سب لوگ پرجوش انداز میں آمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعرے لگاتے رہے۔