نور احمد نور

میرے قائد تو نے گلشن کو وہ نکہت دی ہے
جس نے برفاب خیالات کو حدّت دی ہے

عشقِ سرکارِ مدینہ کی جلا کر شمع
اس پہ دیوانوں کو مر مٹنے کی دعوت دی ہے

کب سے آنکھیں تھیں سرابوں کے عذابوں میں گھِری
میرے قائد نے ملت کو حقیقت دی ہے

زندگی کربِ مسلسل میں مسلسل گذری
تو نے آکر اسے تسکین کی دولت دی ہے

تیری دانش نے کیا چشمِ جہاں کو خیرہ
تیرے افکار نے اسلام کو جدّت دی ہے

تیری للکار نے طاغوت کے بت توڑ دیئے
تیری تدبیر نے شیطاں کو ہزیمت دی ہے

تیرے سر پر ہے جو نعلینِ نبی کا سایہ
اب میں سمجھا کہ تجھے کس نے یہ جرأت دی ہے

شاملِ حال شہنشاہِ مدینہ کا کرم
ربِّ اکبر نے تجھے عزت و شہرت دی ہے

نور کیوں وجد میں آکر نہ قصیدے لکھے
ایسے قائد کی خدا نے جسے سنگت دی ہے