اداریہ: قائد انقلاب ایک اُمید، ایک روشنی

چیف ایڈیٹر نور اللہ صدیقی

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت ساری سیاسی تحریکیں چلیں،ان میں حکومتوں کو ختم کرنے اور جمہوریت کو بحال کرنے جیسی تحریکیں بھی شامل تھیں اور پھر ان تحریکوں کی تکمیل پر جو سیاسی و عوامی ثمرات یا مضمرات سامنے آئے ان پر بہت کچھ لکھا گیا، لکھا جارہا ہے اور لکھا جاتا رہے گا مگر مستقبل کا غیر جانبدار مورخ جب بھی پاکستان کے سیاسی مدوجزر پر قلم اٹھائے گا تو وہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تحریکی اور سیاسی جدوجہد کے بغیر اپنا مضمون مکمل نہیں کر سکے گا۔ ماضی میں جو تحریکیں چلیں ان کا ٹائٹل جمہوریت کی بحالی تھا مگر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی جدوجہد حقیقی جمہوریت کی بحالی کیلئے تھی، فرد کی معاشرتی عزت نفس کی بحالی کیلئے تھی، سیاست کی بجائے ریاست بچانے کیلئے تھی، آئینی الیکشن کمیشن کی تشکیل اور دھاندلی سے پاک انتخابی نظام کیلئے تھی، آئین و قانون کی بالادستی اور انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے تھی، سویلین اداروں بالخصوص پولیس کو سیاسی اثر و رسوخ سے پاک کرنے کیلئے اور انہیں حقیقی معنوں میں ریاست کے وفادار اور عوام کے خدمت گزار ادارے بنانے کیلئے تھی، پارلیمنٹ کو بدعنوان عناصر سے پاک کرنے کیلئے تھی۔ مورخ یہ بھی لکھے گا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کسی ریاستی عہدے کی خواہش کیے بغیر یہ قومی خدمت انجام دیتے رہے اور انہوں نے اس سفر میں سانحہ ماڈل ٹائون کے زخم بھی کھائے، سٹیٹس کو کی حامی قوتوں نے 17 جون کو ان کے کارکنوں کی لاشیں بھی گرائیں، چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا مگر ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کے محب وطن کارکنان نے وقت کی طاغوتی طاقتوں کے سامنے نہ سر جھکایا اور نہ ہی خوف زدہ ہوکر بھاگے بلکہ اشرافیہ کے ماورائے آئین و قانون اقدامات کے خلاف پوری جرأت کے ساتھ میدان میں کھڑے رہے اور آج تک حصولِ انصاف اور اس ظالم نظام کے چہرے کو بے نقاب کرنے کے لیے عملی جدوجہد میں مصروفِ عمل ہیں۔ لاشیں گرنے اور پورا پنجاب سیل ہونے کے باوجود اشرافیہ عوامی تحریک کے کارکنان کا راستہ نہ روک سکی۔ افسوس! یہاں انصاف و بنیادی حقوق کے حصول کے لیے بھی احتجاج اور دھرنے ناگزیر ہوچکے ہیں، پوری قوم گواہ ہے کہ 72 دن کے دھرنے کے نتیجے میں ہی شہدائے ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر درج ہوئی اور اس وقت کے آرمی چیف کی مداخلت پر شہدائے ماڈل ٹائون کے مظلوم ورثاء کو ایف آئی آر کے اندراج کا بنیادی حق ملا۔ہمارے نظام کا یہ المیہ ہے کہ جب تک ریاست کے طاقتور اداروں کی طاقتور شخصیات نوٹس نہ لیں تب تک غریب کو انصاف نہیں ملتا۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی جدوجہد ہمیشہ آئین کی عملداری اور قانون کی سربلندی کیلئے رہی ہے اور وہ برملا اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ان کی جدوجہد آئین کے بنیادی پہلے چالیس آرٹیکلز سے کبھی باہر نہیں گئی۔ امن پسندی کی ایک خوبصورت مثال جنوری 2013 ء کے لانگ مارچ کی ہے، لاکھوں افراد پر مشتمل یہ لانگ مارچ جو انتخابی اصلاحات اور آئینی الیکشن کی تشکیل کیلئے لاہور سے اسلام آباد کی طرف کیا گیا، یہ ملکی تاریخ کا واحد عوامی پرامن احتجاج تھا کہ جس میں نہ تو کوئی پتا ٹوٹا نہ کوئی گملا اپنی جگہ سے ہلا اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے اس دعویٰ کو سچ کر دکھایا کہ انہوں نے اپنے کارکنوں کو امن کی تعلیم اور تربیت دی اور ان کے کارکن امن کے سفیر ہیں۔ اس کے بعد انہی امن کے سفیروں پر جب 17 جون 2014ء کے دن قیامت ڈھائی گئی تو جدید ہتھیاروں سے مسلح سیکڑوں پولیس اہلکاروں، شوٹرز اور سنائپرز نے فائرنگ کی مگر ردعمل میں کسی کارکن نے قانون ہاتھ میں نہیں لیا اور پھر پونے چار سال گزر جانے کے بعد بھی انصاف کیلئے آئینی اور قانونی راستہ اختیار کیا۔ حصول انصاف کی جدوجہد میں ایک نیا موڑ اے پی سی کی شکل میں آیا جب ملک کی تمام بڑی جماعتوں نے شہدائے ماڈل ٹائون کے انصاف کیلئے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو اپنی غیر مشروط حمایت کا یقین دلایا۔ شریف برادران کو سانحہ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے استعفیٰ کا مطالبہ کیااور حصول انصاف تک شانہ بشانہ اور قدم بہ قدم چلنے کی یقین دہانی کروائی، اس کے باوجود سربراہ پاکستان عوامی تحریک نے حصول انصاف کی جدوجہد کو آئین، قانون اور امن کے دائرے کے اندر رکھنے کا اعلان کیا اور آج بھی وہ انصاف کیلئے انصاف کے اداروں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ مورخ امن پسندی اور حب الوطنی کے اس شاندار مظاہرے کو کبھی نظر انداز نہیں کر سکے گا کہ لاشیں اٹھانے اور بدلے کی سکت رکھنے کے باوجود ڈاکٹر طاہرالقادری نے قانون ہاتھ میں لیا نہ اپنے کارکنوں کو لینے دیا۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بھی ناگزیر ہے کہ پاکستان میں سسٹم اور ادارے عملاً غیر فعال ہو چکے ہیں، جب تک کوئی لاش لے کر ایوان وزیراعلیٰ یا کسی پریس کلب کے سامنے نہ لائے، اس کی ایف آئی آر درج نہیں ہوتی، اگر ایف آئی آر درج ہو بھی جائے تو غیر جانبدار تفتیش اور ملزمان کی گرفتاری کا مرحلہ نہیں آتا۔ اگر ہم قصور کی 8سالہ معصوم زینب کے واقعہ کو بطور مثال پیش کریں تو اس ظالم نظام کی اصلیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ زینب کے انصاف کیلئے سب سے پہلے میڈیا کھڑا ہوا، پھر اس کے بعد عوام کھڑے ہوئے، پھر اس کے بعد سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کھڑی ہوئی، پھر آرمی چیف کھڑے ہوئے تب جا کر شہباز حکومت اور پنجاب پولیس کی آنکھیں کھلیں اور دھڑا دھڑ فرانزک ٹیسٹ بھی ہوئے اور ڈی این اے بھی،اس کے باوجود پولیس ملزمان تک نہ پہنچ سکی، جبکہ زینب کے ورثاء اول روز سے جس شخص پر شک و شبہ کا اظہار کررہے تھے اس کو پولیس نے ایگزامن نہیں کیا، ورثاء کے بے حد اصرار پر ملزم کو پکڑا گیا اور پھر سائنسی تجزیات پر وہ ملزم قرار پایا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس گرفتاری کا کریڈٹ سب سے پہلے معصوم زینب کے ورثاء کو جاتا ہے، دوسرا کریڈٹ عوام، میڈیا، سپریم کورٹ اور آرمی چیف کو جاتا ہے کہ جن کے نوٹس لینے پر پولیس حرکت میں آئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا انصاف اس وقت ہی ملے گا جب عوام،میڈیا، عدلیہ اور آرمی چیف کھڑے ہونگے؟ کیا مہذب جمہوری ملکوں میں انصاف کی فراہمی کا یہ پیمانہ ہے؟ اس حوالے سے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون میں شہدائے ماڈل ٹائون کے ورثاء اور میڈیا تو کھڑے ہوئے مگر ابھی ریاست کے دیگر طاقتور ادارے کھڑے نہیں ہوئے ورنہ سانحہ کے ملزمان اب تک قانون کے کٹہرے میں ہوتے۔ ان کا یہ کہنا بھی بجا طور پر مبنی برحقائق ہے کہ زینب کے قاتل کو گرفتار کرنے کیلئے پولیس اور اداروں کو بے پناہ مشکلات کا سامنا رہا مگر سانحہ ماڈل ٹائون کے ملزمان کے چہرے تو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں، وہ قانون کی گرفت سے باہر کیوں ہیں؟

یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس کیلئے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ظالم نظام کی تبدیلی کا نعرہ بلند کرتے ہیں کہ جب تک یہ نظام اور اس کے محافظ موجود ہیں قاتلوں کو تحفظ ملتا رہے گا اور غریب حصول انصاف کیلئے سڑکوں پر رلتا رہے گا۔ دسمبر 2012ء میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے موجودہ ظالم نظام کے چہرے سے نقاب ہٹاتے ہوئے کہا تھا ’’یاد رکھ لیں دولت کا مزاج ہے کہ دولت کبھی عوام کو اٹھنے نہیں دیتی، اگر دولت کے سامنے غریب سر اٹھائے گا تو دولت اس کے سر کو کچل دے گی، اگر طاقت کے سامنے کمزور سر اٹھائے تو طاقت کمزور کے سر کو کچل دے گی، اگر سیاست کے سامنے کوئی مظلوم اور محروم سر اٹھائے گا تو سیاست اس محروم کا سر کچل دے گی۔ یہاں سب کچھ طاقتور کے قبضے میں ہے، سیاست بھی طاقتور کے پاس ہے، جمہوریت بھی طاقتور کے پاس، قانون بھی طاقتور کے پاس اور انصاف بھی طاقتور کے پاس ہے، حتی کہ یہاں عزت، خوشحالی، حفاظت سب کچھ طاقتور کے پاس ہے۔‘‘ طاقتور کے بے رحمانہ اظہار کا منظر حال ہی میں قوم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک طاقتور شخص کو جھوٹ بولنے پر سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا تو اس طاقتور، دولت مند شخص نے سپریم کورٹ کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ اگر اس کے راستے میں قومی سلامتی کے ادارے آئے تو اس نے نیوز لیک سکینڈل کی شکل میں قومی سلامتی کے ادارے پر حملہ کر دیا، اگر اس کے ماورائے آئین و قانون اقدامات کے خلاف سیاست راستے میں آئی تو اس نے سانحہ ماڈل ٹائون کی شکل میں 14 لاشیں گرا دیں۔ اگر طاقتور دولت مند طبقہ کے کسی حاکم کو نیب اربوں کی بے ضابطگیوں پر محض طلب کرے تو وہ طاقتور الٹا نیب کو دھمکیاں دیتا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا سیاسی انقلابی فلسفہ معاشی اور سماجی حوالے سے طاقت کا توازن قائم کرنا ہے اور ایک ایسا نظام تشکیل دینا ہے جو آئین و قانون کے تابع ہو اور جس میں امیر اور غریب کی عزت، زندگی، جان و مال کا تحفظ ایک جیسا محترم اور مقدم ہو۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی 67 ویں سالگرہ کے موقع پر ہم انہیں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں اور اللہ رب العزت سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و تندرستی کے ساتھ ہمارے سروں پر سلامت رکھے اور وہ اسی آن بان شان کے ساتھ اہل پاکستان اور ملت اسلامیہ کیلئے ایک امید اور روشنی بنے رہیں۔