امام جلال الدین سیوطی اور شیخ الاسلام کے مابین علمی و فکری مماثلت

ڈاکٹر حسن محی الدین القادری

یہ حقیقت اَظہر من الشمس اور زبان زدِ عام ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا شمار اُن نابغۂ روزگار اَربابِ علم و حکمت میں ہوتا ہے جو ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں اور جن کی مساعی اور جہدِ مسلسل کا دائرۂ کار زندگی کے ہر شعبے پر محیط نظر آتا ہے۔ وہ بیک وقت دنیوی علوم پر بھی دسترس رکھتے ہیں اور دینی علوم پر بھی مہارتِ تامہ کے حامل ہیں۔ یہ اللہ رب العزت کی ان پر خاص عنایت ہے کہ وہ وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر ہر مرض کی درست تشخیص کرتے ہوئے مسائل کی نشان دہی کے ساتھ ساتھ ان کا حل بھی تجویز کرتے ہیں۔

تاریخ اِسلام کا ہر دور ایسے مجددین اور شیوخ الاسلام سے مزین رہا ہے، جنہوں نے اپنے اپنے زمانے میں پیش آمدہ مسائل کا شافی و کافی حل پیش کیا اور مشکلات کی گرداب میں پھنسی اُمت کو بآسانی باہر نکال کر اپنا فریضہ بطریقِ احسن سر انجام دیا ہے۔ حقائق اس بات پر قوی دلالت کرتے ہیں کہ ان کی علمی و فکری تحقیقات رہتی دنیا تک امت کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتی رہیں گی، کیوں کہ تاریخ کے اَوراق اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ شیوخ الاسلام کے فیوضات تسلسل کے ساتھ نسل در نسل آگے منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے امام اعظم ابو حنیفہ ہوں یا امام دار الہجرۃ مالک بن انس، امام شافعی ہوں یا امام احمد بن حنبل، امام بخاری ہوں یا امام مسلم، امام ابو عبد اﷲ زکریا الانصاری ہوں یا سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی سے لے کر امام جلال الدین سیوطی رحمہم اللہ تک ہر شیخ الاسلام اپنی علمی فیوضات اور فکری تحقیقات کے گراں قدر سرمائے کو پشت در پشت آگے منتقل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

اِسی مبارک سلسلے کے تناظر میں جب ہم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شخصیت اور علمی کارناموں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ان تمام شیوخ الاسلام اور مجددین کے فیوضات کی جھلک مجددِ رواں صدی کی ذاتِ بابرکات میں نمایاں نظر آتی ہے۔ زیرِ نظر مضمون میری زیرِ تکمیل تصنیف ’شیوخ الاسلام‘ سے ماخوذ ہے۔ اس کتاب میں تاریخِ اسلام کے نمایاں 63 شیوخ الاسلام کے تذکار تحریر کیے گئے ہیں اور شیوخ الاسلام کی زندگی کے نمایاں اور متعدد گوشوں پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے جب کہ آخر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شخصیت اور علمی و فکری اور تحقیقی منفرد و ممتاز خدمات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔ مگر زیر نظر مضمون میں شیخ الاسلام امام جلال الدین سیوطی (849-911ھ) اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے مابین علمی و فکری اور تحقیقی مماثلت کا مختصر ذکر کیا جارہا ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ سے روحانی استفادہ بھی کیا ہے اور کسبِ علم بھی۔ امام جلال الدین سیوطی نے عالمِ رُویا میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو اپنا روحانی فرزند اور شاگرد ہونے کی نعمت عطا کی ہے۔ اِس لیے امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کا علمی و فکری رنگ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے علمی و فکری آہنگ کی ترنگ میں دکھائی دیتا ہے اور ہمیں امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے بہت سے فیوضات اور علمی جہات کی فراوانی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شخصیت میں جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ساتھ دیگر شیوخ الاسلام کے فیوضات بھی بکثرت ملے ہیں جن میں management ،administration، سائنس، فلکیات، کونیات و دیگر بے شمار میادین شامل ہیں۔ اِنہی فیوضات کا مظہر ہے کہ مجددِ رواں صدی ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دنیا کے نوے ممالک میں اپنی تحریک کا تنظیمی نیٹ ورک قائم کرتے ہوئے مختلف ادارے بنائے ہیں، یونی ورسٹی قائم کی اور تنظیمات کو فعال کیا ہے۔ واضح رہے کہ ہر دور میں شیخ الاسلام کی صفات مختلف رہی ہیں، جنہیں امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے رسالے التنبئۃ بمن یبعثہ اﷲ علی رأس کل مائۃ میں بیان کیا ہے۔ مگر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شخصیت میں ہمیں ان تمام شیوخ الاسلام کی صفات مشترکہ طور پر مجتمع نظر آتی ہیں۔

ذیل میں ہم امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کی چند علمی و فکری گوشوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کے روحانی فرزند اور تلمیذ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زندگی پر ان کی تاثیر دیکھیں گے کہ انہوں نے امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ سے کتنا اِکتسابِ فیض کیا ہے۔

تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ امام عبد الرحمن بن کمال الدین المعروف جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ (849-911ھ) اپنے عہد کے عظیم محدّث، مفسر، مجتہد، متکلم، معلم، مفکر، محقق اور مصنف تھے، اُنہوں نے علومِ دینیہ اور علم و تحقیق کے میدانوں میں شان دار کارہاے نمایاں سر انجام دیے ہیں۔ دوسری طرف عصر حاضر میں اسی طرز پر ہمیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شخصیت دکھائی دیتی ہے جو علمی، فکری اور تحقیقی جہات میں شرق تا غرب اور عرب و عجم میں ایک منفرد و ممتاز حیثیت رکھتی ہے اور عقلِ سلیم کا حامل ہر صاحبِ علم اُن کے علمی مقام کا معترف ہے۔ دونوں عظیم ہستیوں کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں حیرت انگیز مماثلت نظر آتی ہے۔

گزشتہ سال کے وسط میں اپنے دورۂ مصر کے دوران جب راقم نے مفتی الدیار المصریۃ ڈاکٹر شوقی ابراہیم علّام سے ملاقات کی اور انہیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب الإرھاب وفتنۃ الخوارج (فتوٰی) اور دیگر کتب پیش کیں تو وہ محبت و وارفتگی میں بے ساختہ پکار اٹھے کہ ’جب شیخ الاسلام کا کام دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی حیات میں ہی پانچ سو سے زائد کتب لکھ ڈالی ہیں اور اتنے عظیم کارہاے نمایاں سرانجام دیے ہیں تو وہ ’’سیوطی العصر‘‘ لگتے ہیں‘۔

زیرِ نظر مضمون میں دونوں ہستیوں کی اِنہی علمی و فکری اور تحقیقی مماثلتوں کو قارئین کے سامنے لانا مقصود ہے جو ہمیں ان دونوں شخصیات کے زمانۂ طالب علمی سے لے کر تصنیف و تالیف کے مراحل تک واضح طور پر نظر آتی ہیں۔

1۔ بچپن کے حالات

(1) امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیم و تعلّم میں مشغولیت کا عالم

امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی عمر پانچ سال اور سات ماہ تھی کہ سایۂ پدری سے محروم ہوگئے۔ انہوں نے آٹھ سال سے بھی کم عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا تھا۔ اوائل عمری ہی میں عمدۃ الأحکام، منہاج النووي، ألفیۃ بن مالک اور منہاج البیضاوي جیسی کتب اَزبر کر کے اپنے زمانے کے مستند علماء سے اجازاتِ علمیہ حاصل کر لیں۔ بعد ازاں امام سیوطی نے جلال الدین المحلی اور الزین العقبی جیسے شیوخ سے اِکتسابِ علم کیا۔

امام جلال الدین سیوطی باقاعدہ علمِ حدیث کی طرف ماہِ ربیع الاوّل 864ھ میں راغب ہوئے۔ انہوں نے الشمس السیرامی پر ’صحیح مسلم‘ (علاوہ قلیل حصہ کے)، الشفا، الفیۃ ابن مالک اور التسھیل کا کچھ حصہ قرأت کیا۔ آپ نے ان سے التوضیح، شرح الشذور، المغني في أصول فقہ الحنفیۃ اور شرح العقائد للتفتازانی کے کثیر حصے بھی سماع کیے۔ امام سیوطی نے الشمس المرزبانی الحنفی پر الکافیۃ اور اس کی شرح، مقدمۂ ایسا غوجی اور اس کی شرح کایاتی کی قرأت کی اور ان سے المتوسط، الشافیۃ اور اس کی شرح جاربردی اور الفیۃ عراقی کا سماع کیا۔ انہوں نے علم الفرائض اور حساب کو الشھاب الشارمساحی سے پڑھا اور پھر البلقینی سے حدیث کے بے شمار دروس لیے اور الشرف المناوی کی وفات تک ان سے اخذِ علم کرتے رہے۔

امام سیوطی نے دیارِ مصریہ کے محقق سیف الدین محمد بن محمد الحنفی، علامہ التقی الشمنی اور الکافیجی سے بھی کسبِ علم کیا۔ انہوں نے العز الکنانی پر بھی علمی قرأت کی، مجد الدین ابن السباع اور العز بن محمد المیقاتی سے علم المیقات اور محمد بن ابراہیم الدوانی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہم أجمعین سے علم الطب حاصل کیا۔ بعد ازاں انہیں اپنے اساتذہ سے اِفتاء اور ان تمام علومِ دینیہ کی تدریس کی بھی اجازت ملی۔ [ابن العماد، شذرات الذھب، 8: 51-53]

اِس مختصر بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ امام سیوطی نے علوم کی تحصیل کے لیے باقاعدہ معتبر ماہر اساتذہ کے ہاں زانوئے تلمذ طے کیے۔ انہوں نے حدیث اور علوم الحدیث، فقہ و اصول الفقہ، علم الکلام، عربی لغت، علم المیقات، علم الطب اور دیگر علوم کو اس دور کے اکابر شیوخ و علماء سے حاصل کیا۔

(2) بچپن سے شیخ الاسلام کا ذوقِ مطالعہ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدّظلہ العالی 19 فروری 1951ء کو جھنگ شہر میں پیدا ہوئے۔ امام سیوطی کی طرح شیخ الاسلام میں بھی فطری طور پر بچپن ہی سے حصولِ علم کی رغبت تھی۔ انہوں نے مروّجہ اسلامی نصاب ’درسِ نظامی‘ باقاعدہ پڑھنے سے قبل محض سات/ آٹھ سال کی عمر ہی سے علم العقیدہ و الکلام، تصوف و روحانیت اور فقہ و سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مشتمل کثیر کتب کا مطالعہ کیا اور اسی دوران کئی کتابیں اَزبر کر لی تھیں۔ اُس دور میں مولانا محمد عمر اچھروی کی مقیاس کے نام سے کئی کتابیں طبع ہو چکی تھیں: ’مقیاسِ حنفیت‘، ’مقیاسِ نور‘، ’مقیاسِ صلوٰۃ‘، ’مقیاسِ نبوت‘ وغیرہ۔ انہوں نے بچپن میں یہ ساری کتب پڑھ ڈالیں۔ اس کے علاوہ اسی زمانے میں مفتی احمد یار خان نعیمی کی کتاب ’جاء الحق‘ کا مطالعہ کیا۔ اسی زمانے میں شیخ عبد الحق محدّث دہلوی کی کتب ’تکمیل الایمان‘، ’مَا ثَبَتَ بِالسُّنَّۃِ فِي أَیَّامِ السَّنَۃ‘ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مناقب پر ’جذب القلوب إلی دیار المحبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘ آپ کے زیرِ مطالعہ رہیں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان کی کتب احکامِ شریعت، حیات الاموات، تقبیلِ ابہامین اور دیگر بھی اسی زمانے میں مطالعہ کیں۔ چونکہ یہ کتب کافی اَدق ہیں لہٰذا جو حصہ سمجھ میں نہ آتا وہ اپنے والد گرامی کی رہنمائی میں حل کرلیتے۔ اس دوران سید احمد سعید کاظمی شاہ صاحب کے بعض رسائل کا بھی مطالعہ کیا۔ پھر شاہ عبد العزیز محدّث دہلوی کے بعض رسائل، ’فتاویٰ عزیزی‘ اور ’تفسیر عزیزی‘ اورامام یوسف رحمۃ اللہ علیہ بن اسماعیل نبہانی کی کتاب ’شواہد الحق في الاستغاثۃ بسید الخلق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘ بھی پڑھی۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کم عمری میں ہی تصوف کی کثیر کتب کا بھی مطالعہ کیا۔ اولیاء کرام کے احوال و کرامات پر مشتمل امام یوسف بن اسماعیل نبہانی کی کتاب ’جامع کرامات الأولیاء‘ کا اردو ترجمہ بھی مطالعہ کیا۔ اس کے علاوہ حضور غوثِ اعظم کی کتب ’فتوح الغیب‘، ’الفیوض الرباني‘، ’غنیۃ الطالبین‘، ’سرّ الأسرار‘؛ داتا گنج بخش علی ہجویری کی ’کشف المحجوب‘؛ مولانا غوث علی شاہ قلندر پانی پتی کی ’تذکرہ غوثیہ‘؛ سلطان العارفین حضرت سلطان باہو کی اردو زبان میں کتب، شاہ ولی اﷲ محدّث دہلوی کی تصانیف ’ہمعات‘، ’فیوض الحرمین‘، ’الإنتباہ في سلاسل أولیاء اﷲ‘، ’الدر الثمین في مبشرات النبي الأمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘؛ شیخ عبد الحق محدّث دہلوی کی کتاب ’أخبار الأخیار‘؛ حضرت خواجہ عثمان ہارونی سے لے کر حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی تک سلسلۂ چشتیہ کے اکابر بزرگانِ دین کے احوال و واقعات اور ملفوظات پر مشتمل ’ہشت بہشت (آٹھ رسائل)‘ شاہ محمد غوث گوالیاری کی کتاب ’جواہرِ خمسہ‘ بھی آپ کی علمی تشنگی کا سامان مہیا کرتی رہیں۔

گویا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنی عمر کے پہلے عشرہ میں ہی یہ تمام کتبِ تصوف پڑھ چکے تھے۔ انہیں یہ تمام کتب اور مطالعہ کا ذوق اپنے والدِ محترم ہی کے توسط سے ورثہ میں ملا تھا۔

علاوہ ازیں ’مثنوی مولانا روم‘ کا اردو ترجمہ اور اس پر مستزاد مولانا اشرف علی تھانوی کی ’کلید مثنوی‘ کے نام سے مبسوط شرح بھی بکثرت آپ کے زیر مطالعہ رہی۔ ان کے مطالعہ میں حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی اور مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کی دیگر کتب اور رسائل جیسے ’فیصلہ ہفت مسئلہ‘، ’شمائمِ امدادیہ‘، ’امداد المشتاق‘، ’نشر الطیب في ذکر النبي الحبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘ اور ’جمال الاولیائ‘ بھی کثرت سے رہتی تھیں۔ مولانا عبد الحی فرنگی محلی کی کتابوں کے قدیم طرز کے اردو ترجمے بھی اسی زمانہ میں پڑھے۔ آج بھی یہ تمام کتب فرید ملّت رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ کی لائبریری کے ’مکتبہ فریدیہ قادریہ‘ میں محفوظ ہیں اور ان پر آپ کے ہاتھ سے لکھے ہوئے نوٹس بھی موجود ہیں۔ یہ تمام تفصیلات آپ کے خاص علمی ذوق اور نادر تربیت کا پتہ دیتی ہیں کہ انہوں نے بچپن میں وہ کتب کثرت کے ساتھ پڑھیں کہ شاید لوگ پختہ عمر میں بھی ان کے مطالعہ کی بساط نہ رکھتے ہوں۔

یوں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری میں بچپن ہی سے یہ علمی ذوق پروان چڑھا۔ پھر جیسے جیسے ان کے تعلیمی مدارج طے ہوتے چلے گئے، مطالعہ کی استعداد بڑھتی گئی اور کتب کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ آپ نے کتبِ عربیہ اور دینی تعلیم کی ابتدا اپنے والد گرامی کے ہاں 1962ء سے کی مگر باقاعدہ رسمِ بسم اللہ 1963ء میں مدینہ طیبہ میں حضرت مولانا ضیاء الدین مدنی سے نسبتِ تلمذ سے ہوئی، جنہیں براہِ راست تلمذ اور خلافت اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان سے حاصل تھی۔ اس طرح صرف ایک واسطے سے آپ کو اعلیٰ حضرت سے شاگردی کی نسبت نصیب ہوئی۔ جب آپ 1962ء میں ہفتم جماعت میں تھے تو سکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ والد گرامی ڈاکٹر فرید الدین قادری نے آپ کو دینی علوم کی مبتدی کتب یعنی صرف، نحو، منطق، بلاغت اور لغت وغیرہ کی تعلیم کا بھی آغاز کرا دیا تھا۔ آپ دن میں عصری تعلیم کے لیے سکول جاتے اور شام کے اوقات دینی علوم کے حصول کے لیے وقف کرتے۔ آپ نے بعد ازاں فیصل آباد میں FSc کرنے کے دوران مزید اعلیٰ دینی علوم کے حصول کے لیے قطب آباد جھنگ میں فاضل استاد حضرت علامہ مولانا عبد الرشید رضوی جھنگوی کے ہاں زانوئے تلمذ طے کیے۔ حصولِ علم کے لیے آپ وہاں تین تین ماہ بھی لگاتار گزارتے تھے۔ اسی طرح آپ نے دورۂِ حدیث کے بعد غزالی زماں مولانا سید احمد سعید کاظمی سے بھی خصوصی تلمذ کے ساتھ سندِ حدیث حاصل کی۔

2۔ شیوخ و اساتذہ

(1) امام سیوطی کے جلیل القدر شیوخ

امام سیوطی نے بذاتِ خود اپنے شیوخ پر ’حاطب لیل وجارف سیل‘ کے نام سے کتاب تصنیف کی ہے۔ اس تصنیف میں انہوں نے اپنے ان تمام شیوخ اور شیخات کا ذکر کیا ہے جن سے انہوں نے تفسیر، حدیث، فقہ، عربی اور دیگر علوم کو روایت کیا، سماع کیا یا پھر ان سے اجازات لی ہیں۔ ان کے شیوخ کی تعداد 600 کے لگ بھگ تک جا پہنچتی ہے۔ بعد ازاں انہوں نے اس کی مزید تلخیص ’المنجم في المعجم‘ کے نام سے کی۔ انہوں نے اس میں 195 شیوخ کے اسماے گرامی کا تذکرہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ ان کے شیوخ میں رجال و نساء دونوں شامل ہیں اور ان کا تعلق مصر، حجازِ مقدس، حلب اور دیگر علاقوں سے ہے۔ ذیل میں امام سیوطی کے بعض شیوخ کے نام درج کیے جا رہے ہیں:

  1. إبراهیم بن أحمد بن حسن ابن الغرس أبو إسحاق العجلوني
  2. إبراهیم بن أحمد بن یونس البرهان الغزی ثم الحلبي
  3. إبراهیم بن عبد الرحمن بن محمد المعروف بابن قاضی عجلون
  4. إبراهیم بن محمد بن عبد اﷲ البرهان الدیری القاضی الحنفي
  5. أحمد بن إبراهیم بن نصر اﷲ العز أبو البرکات العسقلاني
  6. أحمد بن الجمال عبد اﷲ بن علي أبو العباس الکنانی العسقلانی
  7. أحمد بن محمد بن عبد الرحمن بن عمر بن رسلان
  8. أحمد بن محمد الشهاب أبو الطیب الحجازی الأنصاري
  9. أحمد بن محمد أبو العباس الشمنی الإسکندری ثم المصري
  10. خلیل بن عبد القادر بن علي أبو عبد القادر النابلسي الشافعي
  11. عبد الرحمن بن علی الجلال أبو هریرة ابن الملقن الأنصاري
  12. محمد بن أحمد بن علی الشمس ابن قدامة الصالحي الحنبلي
  13. محمد بن علی بن أحمد أبو عبد اﷲ المصري الشاذلي
  14. محمد بن محمد ابن ظهیرة أبو عبد اﷲ المکي المالکي
  15. محمد بن محمد العلاء المعروف بابن العفیف الإیجي
  16. ألف بنت الحسن بن محمد ابن إدریس النسابة الحسنی
  17. ألف بنت الجمال عبد اﷲ الکناني العسقلاني المصري الحنبلي
  18. خدیجة بنت علی بن عمر ابن الملقن الشافعي
  19. خدیجة بنت محمد ابن رسلان البلقیني
  20. فاطمة بنت التقی محمد ابن فهد القرشیة الهاشمیة المکیة رحمة ااﷲ تعالٰی علیهم أجمعین

[إیاد خالد الطباع، الإمام الحافظ جلال الدین السیوطي: 48-68]

(2) شیخ الاسلام کے اکابر شیوخ و اساتذہ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ذاتِ گرامی میں دنیا بھر کی شہرہ آفاق علمی و روحانی شخصیات کے لامحدود فیوضات مجتمع ہیں جن کے طرق سے آپ کی سند کا اِتصال اَئمہ حدیث و تصوف اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوتا ہے۔ حرمین شریفین، بغداد، شام، لبنان و طرابلس، مغرب و شنقیط (مراکش و موریطانیہ)، یمن (حضر موت) اور برّصغیر پاک و ہند سے تعلق رکھنے والے ان کے چند اکابر شیوخ کے نام حسبِ ذیل ہیں:

  1. محدّث الحرم الشیخ علوی بن عباس المالکی المکی (یہ شیخ محمد بن علوی المالکی کے والدِ گرامی تھے، ان سے شیخ الاسلام نے 1963ء میں مسجد حرام (مکہ معظمہ) میں سماع کیا تھا)۔
  2. الشیخ المعمّر حضرت ضیاء الدین احمد القادری المدنی
  3. الشیخ حسین بن احمد العسیران (آپ بیروت (لبنان) کے رہنے والے تھے اور انہوں نے سو سال کی عمر میں وفات پائی۔)
  4. حضرت الشیخ الدکتور فرید الدین القادری
  5. سیدنا الشیخ طاہر علاؤ الدین الجیلانی الآفندی البغدادی
  6. الشیخ السید محمد الفاتح بن محمد المکی الکتانی (دمشق)
  7. الشیخ السید عبد المعبود الجیلانی المدنی (انہوں نے 165 سال کی طویل عمر پائی اور یہ براہِ راست حضرت شاہ امداد اﷲ مہاجر مکی کے شاگرد تھے۔)
  8. محدّثِ اعظم علامہ سردار احمد قادری
  9. الشیخ السید ابو البرکات احمد محدث الوری
  10. غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی امروہی
  11. حضرت علامہ عبد الرشید الرضوی رحمۃ ااﷲ تعالٰی علیہم أجمعین۔

یوں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ذاتِ گرامی میں دنیا بھر کی شہرۂ آفاق علمی و روحانی اکابر شخصیات کے بے شمار فیوضات مجتمع ہیں۔

3۔ بحر العلوم ہونا - قدرِ مشترک

(1) امام سیوطی - بحر العلوم شخصیت

تاریخِ اسلام کی معدودے شخصیات ہیں جنہیں جامع العلوم و الفنون کہا گیا ہے۔ پھر اُن شخصیات میں بھی ہر علم و فن پر کتب تالیف کرنے کا شرف خال خال کو ہی نصیب ہوا ہے۔ حافظ جلال الدین سیوطی کا شمار بھی تاریخ کی اُنہی منفرد اور غیر معمولی علمی شخصیات میں ہوتا ہے، جنہیں اﷲ رب العزت نے دونوں طرح کے کمالات سے نوازا تھا۔ وہ اپنی ذات میں بحر العلوم شخصیت تھے۔ بایں وجہ خلقِ خدا کی علمی سیرابی کے لیے تصنیف و تالیف کا گراں قدر ذخیرہ بھی چھوڑ گئے۔ حافظ سیوطی کی جامع العلوم شخصیت اور اُن کی علمی خدمات کا اِعتراف جلیل القدر اَئمہ کرام نے بھی کیا ہے۔

1۔ علومِ دینیہ کے کثیر میادین اور اُن میں خدمات کے بارے میں بذاتِ خود حافظ جلال الدین سیوطی نے بھی اظہارِ خیال فرمایا ہے۔ امام سخاوی اِس حوالے سے لکھتے ہیں:

إنه رزق التبحر في سبعة علوم: التفسیر والحدیث والفقه والنحو والمعاني والبیان والبدیع۔ ودون هذه السبعة في المعرفة: أصول الفقه والجدل والصرف ودونها الإنشاء والترسل والفرائض ودونها القرائات ولم آخذها عن شیخ، ودونها الطب۔ قال: وقد کملت عندي آلات الاجتهاد بحمد اﷲ۔ ولو شئت أن أکتب في کل مسئلة تصنیفاً بأقوالها وأدلتها النقلیة والقیاسیة ومدارکها ونقوضها وأجوبتها والمقارنة بین اختلاف المذاهب فیها لقدرت علی ذلک.

’’اُنہیں سات علوم : تفسیر، حدیث، فقہ، نحو، معانی، بیان اور بدیع میں تبحر حاصل ہے۔ اُنہیں ان سات علوم کے علاوہ اِن علوم کی بھی معرفت ہے: اصول الفقہ، جدل، صرف، کتابت، میراث اور ان کے علاوہ علم القرأت میں بھی، اگرچہ انہوں نے اسے کسی شیخ سے اخذ نہیں کیا اور اس کے علاوہ طب کی بھی معرفت ہے۔ وہ کہتے ہیں: بحمد اﷲ! میں نے اپنے پاس اجتہاد کے ذرائع کی تکمیل کر لی ہے۔ اگر میں کسی بھی مسئلہ پر کوئی کتاب لکھنا چاہوں جس میں اس مسئلہ کے اَقوال، اس کے دلائلِ نقلیہ و قیاسیہ، اس کے مدرکات، نقیضات و جوابات اور بین المذاہب اختلافات (جیسی کثیر جہات) کا تقابل ہو تو مجھے اس پر بھی قدرت ہے‘‘۔

[سخاوی، الضوء اللامع لأهل القرن التاسع، 4/67]

حافظ جلال الدین سیوطی نے اپنے اس قول میں مذکور چودہ علوم کی خود نشان دہی کر دی ہے کہ اُنہیں اِن علوم میں ملکہ حاصل تھا۔ اگر اُن کی کتب کی فہرست ہی ملاحظہ کی جائے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ اُنہیں مذکورہ علوم کے علاوہ بھی دیگر کئی علوم و فنون پر ملکہ حاصل تھا جیسے علوم القرآن، عقائد اور تاریخ وغیرہ۔ اس بحث سے یہ نتیجہ واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے درج بالا قول اپنی زندگی کے اوائل دور میں کہا ہوگا۔ پھر اﷲ رب العزت نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے قلب و نظر اور فکر کے ظرف کو مزید علوم سے بھر دیا تھا۔

2۔ امام نجم الدین الغزی (م 1061ھ) نے امام جلال الدین سیوطی کی جامع شخصیت کے تعارف میں تحریر کیا ہے:

الشیخ، العلامة، الإمام، المحقق المدقق، المسند، الحافظ، شیخ الإسلام. وکان في سرعة الکتابة والتألیف آیة کبری من آیات اﷲ تعالی. ومحاسنه ومناقبه لا تحصی کثرة، ولو لم یکن له من الکرامات إلا کثرة المؤلفات مع تحریرها وتحقیقها لکفی ذلک شاهدا لمن یؤمن بالقدر.

’’الشیخ، العلامہ، امام، محقق مدقق، المسند، حافظِ حدیث، شیخ الاسلام۔ وہ تالیف اور سریع الکتابت میں اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے واضح نشانی تھے۔ ان کے محاسن اور مناقب حدِ شمار سے باہر ہیں۔ اگر ان کی کرامات نہ بھی ہوں تو تحریر و تحقیق کے ساتھ ان کی بکثرت تالیفات ہی ہر اس شخص کے لیے جو تقدیر پر ایمان رکھتا ہے، گواہ ہیں‘‘۔

[الغزی، الکواکب السائرة/142-144]

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اِن جمیع علوم میں سے حافظ جلال الدین سیوطی کی علم الحدیث میں خدمات ان کا طُغرائے امتیاز بنا۔ انہوں نے حدیثِ مبارک کے متعدد علوم مثلاً جمعِ متونِ حدیث، علم الجرح والتعدیل، علم الرجال، اسباب الحدیث اور دیگر پر اجتہادانہ قلم اٹھایا اور اس علم و فن کی گراں قدر خدمت سرانجام دی۔

3۔ حافظ سیوطی کے علومِ حدیث میں مقام اور خدمات کو اُن کے ایک شاگرد شمس الدین الداودی (م 945ھ) یوں تحریر کرتے ہیں:

عاینت الشیخ وقد کتب في یوم واحد ثلاثة کراریس تألیفاً وتحریراً، وکان مع ذلک یملي الحدیث ویجیب عن المتعارض منه بأجوبة حسنة. وکان أعلم أهل زمانه بعلم الحدیث وفنونه رجالًا وغریبًا ومتنًا وسندًا واستنباطًا للأحکام منه. وأخبر عن نفسه أنه یحفظ مائتي ألف حدیث. قال: ولو وجدت أکثر لحفظته.

’’میں شیخ کو بغور دیکھتا کہ وہ ایک دن میں تین رجسٹروں کو اِحاطہ تحریر و تالیف میں لے آتے، اس کے ساتھ وہ حدیث کی اِملاء کراتے اور اس پر اٹھنے والے اعتراضات کا بھی تسلی بخش جواب دیتے۔ وہ اپنے زمانہ میں علم الحدیث اور اس کے فنون - علم الرجال، غریب الحدیث، متنِ حدیث و سند حدیث اور اس سے مستنبط اَحکام - کے سب سے زیادہ عالم تھے۔ انہوں نے بذاتِ خود فرمایا کہ اُنہیں دو لاکھ احادیث زبانی یاد ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: اگر مجھے اس سے زیادہ ملتیں تو میں اُنہیں بھی حفظ کر لیتا‘‘۔

[ابن العماد، شذرات الذهب، 8/53]

(2) شیخ الاسلام - بحر العلوم شخصیت

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدّظلہ العالی کے علمی و فکری اور تحقیقی مقام پر ساری دنیا گواہ ہے۔ انہوں نے آج تک ہر موضوع ٹھوس، جامع اور قاطع دلائل کے ساتھ بیان فرماتے ہوئے قرآن مجید اور حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر تحریر و تقریر کا محور و مرکز بنایا ہے۔ انہوں نے مضبوط استدلال کو اپنی شناخت بنایا۔ اِسی بناء پر اپنا ہو یا غیر، ہر کوئی ان کی علمی ثقاہت، تحقیقی وجاہت اور فکری واضحیت کا معترف ہے۔

مجددِ رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے بلند علمی مرتبے اور ہمہ جہت خدمات پر ماضی قریب اور عصرِ حاضر کی مقتدر مذہبی، روحانی، سماجی، سیاسی اور ثقافتی شعبوں سے تعلق رکھنے والی چند نامور شخصیات کے تاثرات یہاں درج کیے جا رہے ہیں:

  1. جب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی عمر پندرہ سال تھی شیخ المشائخ حضرت خواجہ پیر قمر الدین سیالوی نے 1966ء میں حضرت سید ابو البرکات، حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہری، حضرت خواجہ غلام محی الدین المعروف بابو جی گولڑہ شریف اور حضرت خواجہ خان محمد تونسہ شریف کی موجودگی میں دار العلوم سیال شریف کی تقریب میں آپ کو تقریر کا حکم دیا۔ خواجہ صاحب کے حکم کے مطابق آپ نے دس منٹ خطاب کیا۔ اس کے بعد حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی نے آپ کی پیشانی چومتے ہوئے فرمایا:

’’لوگو! آپ نے اس بچے کا خطاب تو سن لیا ہے، میں آپ کو گواہ بنانا چاہتا ہوں کہ ہمیں اس بچے پر فخر ہے۔ ایک دن ایسا آئے گا کہ یہی بچہ عالمِ اسلام اور اہلِ سنت کا قابل فخر سرمایہ ہو گا۔ میں تو شاید زندہ نہ ہوں لیکن آپ میں سے اکثر لوگ دیکھیں گے کہ یہ بچہ آسمانِ علم و فن پر نیر تاباں بن کر چمکے گا۔ اس کے علم و فکر اور کاوش سے عقائدِ اہلِ سنت کو تقویت ملے گی اور علم کا وقار بڑھے گا۔ اہلِ سنت کا مسلک اس نوجوان کے ساتھ وابستہ ہے اور اس کی کاوشوں سے ایک جہاں مستفید ہوگا‘‘۔

  1. غزالی زماں قطبِ دوراں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی نے ایک مرتبہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے متعلق فرمایا:

’’اللہ پاک نے انہیں بہت صلاحیتیں عطا کر رکھی ہیں، مجھے اس نوجوان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ آپ سب لوگ گواہ ہو جائیں اور میری یہ بات غور سے سن لیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے سینے میں فیوضاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسا نور رکھ دیا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھے گا اور ایک عالم کو فیض یاب کرے گا۔ کاش! تم بھی اس نور کو پھلتا پھولتا دیکھ سکو۔ اللہ کرے ان کے اس علمی، فکری اور روحانی نور سے پورا عالم اسلام اور دنیائے اہلِ سنت روشن و منور ہو جائے۔ اِن شاء اللہ ایسا ہوگا‘‘۔

  1. فروری 1997ء میں منہاج القرآن کے شہرِ اعتکاف کے دورہ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے الشیخ الدکتور عبد الرزاق السعدی، مفتی اعظم عراق معتمد العام اسلامک آرگنائزیشن عراق، نے فرمایا:

’’مجھے یہ دیکھ کر دلی مسرت ہوئی ہے کہ منہاج القرآن کے اس تربیتی مرکز کے روحانی سرپرست سیدنا طاہر علاء الدین الگیلانی کا مرکز فیض بھی بغداد ہے اور اس مرکز منہاج القرآن کا نام بھی بغداد ٹاؤن ہے، تو یہ خطہ نام اور کام کے اعتبار سے سیدنا شیخ عبد القادرجیلانی سے منسوب ہو کر عالم اسلام کا عظیم روحانی مرکز بن گیا ہے۔ فیضِ غوثیت مآب کی یہاں منتقلی اس بات کی بیّن دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مرکز کے قائد شیخ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے اِحیاے امت کے لیے بہت بڑا کام لینا ہے۔ ادارہ منہاج القرآن بیک وقت ایک عظیم روحانی تربیت گاہ بھی ہے اور علمی و فکری مرکز بھی۔ اس کے تحت منہاج یونی ورسٹی جو عالم اسلام کو انقلابی، فکری اور روحانی قیادت دے رہی ہے، اس تحریک کے بانی نے جتنا عظیم مرکز بنایا ہے دنیا میں کہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ شیخ ڈاکٹر طاہرالقادری کی تصانیف اور خطابات پوری دنیا میں روحانی فیض عام کر رہے ہیں۔ میں نے کئی تحریکیں، تنظیمیں اور علمی مراکز دیکھے مگر حقیقت یہ ہے کہ تحریک منہاج القرآن جیسا نہ مرکز دیکھا، نہ تحریک دیکھی اور نہ ہی قائد دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے قائد کو اَن گنت خوبیوں سے نوازا ہے۔ وہ ایک اَعلیٰ منتظم بھی ہیں، معلم بھی، روحانی مربی بھی ہیں اور اِنقلابی راہنما بھی۔ وہ ایک مصلح سیاست دان بھی ہیں اور شفیق باپ بھی۔ حدیثِ نبوی میں ولی کی پہچان کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’جب اسے دیکھا جائے تو اللہ یاد آجائے‘۔ اللہ کی قسم! ڈاکٹر طاہرالقادری کو دیکھ کر خدا یاد آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر سو سال کے بعد کسی ایسی شخصیت کو بھیجتا ہے جو دینی اَقدار کا اِحیاء اور تجدید کرتا ہے اور اس صدی کا یہ عظیم منصب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو عطا ہوا ہے۔

میں پوری دنیا میں بڑے بڑے علماء کرام سے ملاہوں اور فقہاء سے بھی لیکن میں نے ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرح کا کوئی شخص بھی نہیں دیکھا جس میں بیک وقت علم کے ساتھ جہاد کا جذبہ بھی ہو اور قیادت کے اعلیٰ اوصاف کے ساتھ وہ روحانی مربی بھی ہو۔ اتنی جامع صفات شخصیت جس میں ہر خوبی یکساں نظرآئے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم کی دلیل ہوا کرتی ہے۔ ڈاکٹر محمدطاہرالقادری کا وجود تمہارے لیے حجت ہے۔ میں نے آج تک اپنے والدین اور اپنے شیخ کے علاوہ کسی شخص کی دست بوسی نہیں کی لیکن آج سے میں شیخ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی دست بوسی کو اپنے لیے سعادت سمجھوں گا۔ اللہ تعالیٰ کے حضو ر دعا ہے کہ وہ قائد تحریک ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی عمر دراز فرمائے اور انہیں صحت وعافیت عطا فرمائے اور ہم سب کو قیامت کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت نصیب ہو اور حوضِ کوثر سے ان کے ہاتھوں جام نصیب ہوں۔

  1. شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے چند سال قبل جامعہ الازہر مصر میں شیوخ اور طلباء کے کثیر اجتماع سے ’المذہب المختار في الحدیث الضعیف‘ کے موضوع پر خطاب کیا تو ان کے خطاب کے بعد جامعہ الازہر کے علوم الدین اور فلسفہ ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر طہ جیشی نے اپنی گفتگو میں حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا:

’’میرے بیٹو! میں جب محترم المقام صاحبِ فضیلت شیخ الاسلام کے خطاب کے لیے آیا تو مجھے مسرت کا احساس ہو رہا تھا کہ میں آج ایک محدّث کے سامنے بیٹھوں گا اور یہ بات حق ہے (کہ آپ ایک عظیم محدّث ہیں)؛ لیکن خطاب نے (میری سوچ کے برعکس) ایک بالکل مختلف رنگ اختیار کر لیا۔ بھلا وہ کون سا رنگ ہے جو خطاب نے اختیار کیا؟ بے شک خطاب نہایت عمدہ اَذواق کا حسین امتزاج تھا، جس میں اُصولِ فقہ کی ابحاث حجیت کے پردہ پر آشکار ہوئیں۔ ہم سب پر یہ لازم کرتا ہے کہ ہم اصولِ فقہ پڑھیں تاکہ کلمہ حجیت اور اس کا مدلول جان سکیں۔ پھر یہ دوسرا کلمہ جس کا اضافہ شیخ نے کیا ہے، وہ سنتِ مطہرہ کا کلمہ ہے۔ سنتِ مبارکہ مطالبہ کرتی ہے کہ حدیث رِوایتاً اور دِرایتاً پڑھیں، یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث اور علوم الحدیث پڑھیں۔ بعد ازاں آپ نے قرآن مجید کے موضوع سے متعلقہ آیات بھی بیان فرمائیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ (فقہ اور حدیث کی طرح) آپ تفسیر میں بھی کامل مہارت و اِدراک رکھتے ہیں۔ ہم نے اس خطاب سے پہلے اور اس کے بعد بھی شیخ الاسلام کو سنا کہ وہ بہت خوب صورتی سے تفسیر، حدیث، فقہ اور عقیدہ کے مابین باہمی ربط پیدا کرتے ہیں۔ یہ شے توحید میں آپ کے بہت زیادہ فہم و اِدراک کی غمازی کرتی ہے۔ پھر اﷲ تعالیٰ اور اس کے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان یہ تعلق ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اﷲتعالیٰ کی وحی کے واحد شاہد ہیں۔ اﷲتعالیٰ نے انہیں اسی لیے معصوم بنایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روایت روایتِ آحاد ہے۔ میرے بیٹو! آج کا خطاب بیک وقت کئی علوم کا حسین اِمتزاج تھا‘‘۔

  1. سابق چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس سید سجاد علی شاہ فرماتے ہیں:

’’ڈاکٹر طاہرالقادری ایک عظیم اور ذہین انسان اور ایک شعلہ بیان مقرر ہیں۔ وہ اپنی تنظیم کو نہایت منظم انداز میں لے کر رواں دواں ہیں۔ میں نے سب سے اہم بات جو ان میں دیکھی ہے کہ وہ وسیع المطالعہ ہیں۔ وہ ہر موضوع پر بلا جھجک کئی کئی گھنٹے گفتگو کر سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریک کو بڑے اچھے انداز میں منظم کیا ہوا ہے، نہ صرف ملک بھر میں ان کی شاخیں ہیں بلکہ پوری دنیا میں ان کے بڑے بڑے اسلامک سنٹرز ہیں۔ جہاں مثبت انداز میں اسلام کو پیش کیا جا رہا ہے اور تعلیم کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے بہت بڑی منہاج یونی ورسٹی بھی قائم کی ہے جہاں سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم بھی دی جا رہی ہے۔ علاوہ ازیں انہوںنے دینِ اسلام کی وسیع پیمانے پر خدمت کی ہے اور بہت سی کتابیں بھی لکھی ہیں‘‘۔

  1. سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ، جسٹس غلام مجدد مرزا نے آپ کے متعلق کہا:

’’ڈاکٹر طاہرالقادری کی ذاتی عظمت، اَن تھک جد و جہد، اُن کے اَفکار و کردار کی خوبصورتی، ان کی پاکیزگی اور ان کا نیک سیرت و باکردار ہونا یہ سب چیزیں مل کر انہیں گلشنِ اسلام کا ایک منفرد پھول بنا دیتی ہیں۔ ان کی زندگی کا مشن اسلام کی خدمت اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کا ابلاغ و فروغ ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کو علومِ جدیدہ و قدیمہ دونوں پر عبور اور ملکہ حاصل ہے۔ انہوں نے جس انداز اور طریق پر ادب و تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اِتباع و اِطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تحریک کا آغاز کیا ہے، اس نے انسانیت کے قلب و روح کو ایک نئی خوبصورتی عطا کی ہے اور اللہ کے بندوں کو ایک نئی خوشبو سے معطر کر دیا ہے‘‘۔

  1. سابق چیف آف آرمی سٹاف، مرزا اسلم بیگ نے شیخ الاسلام کی ہمہ جہت شخصیت کو ان الفاظ میں سراہا ہے:

’’میرے خیال میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے فکری مقام اور علمی وسعت کو ناپنا بہت مشکل کام ہے۔ ایک منفرد بات اور حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ایک شخص اتنے مختصر عرصہ میں وہ سب کچھ کر ڈالے جو ڈاکٹر طاہرالقادری نے کیا ہے۔ 1951ء میں ڈاکٹر طاہرالقادری پیدا ہوئے اور اب اتنا بڑا علمی نام، بے شمار تصانیف اور اتنی زیادہ زمین پر نظر آنے والی عملی خدمات اور اتنے زیادہ ادارے اور دنیا کے بے شمار ممالک میں تنظیمی نیٹ ورک اور وہ بھی اتنے کم اور انتہائی مختصر عرصے میں، یہ سب کچھ دیکھ کر انسان محوِ حیرت ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری روایتی علماء سے کلیتاً مختلف شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ تنگ نظر نہیں ہیں اور ایک ہی سمت نہیں سوچتے ہیں۔ در حقیقت ڈاکٹر طاہرالقادری ایک متبحر عالمِ دین بھی ہیں، ایک مفکر بھی ہیں، ایک روحانی رہنما بھی ہیں، ایک معاشرتی مصلح بھی ہیں، ایک سیاسی مدبر بھی ہیں اور ساتھ ساتھ ایک عظیم قائد بھی ہیں‘‘۔

  1. آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) حمید گل، شیخ الاسلام کی ذات پر یوں لب کشائی کرتے ہیں:

’’ڈاکٹر طاہرالقادری ایک God Gifted انسان ہیں۔ آپ عظیم اسکالر اور بہترین مقرر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ آپ کے پاس نہ صرف دینی علوم کا خزانہ موجود ہے بلکہ دنیاوی و سائنسی علوم پر بھی کامل دسترس ہے۔ نوجوان نسل ڈاکٹر طاہرالقادری سے اسی بناء پر بہت متاثر ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو یہ کمال بھی حاصل ہے کہ آپ اسباب Create کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور آپ کی شخصیت میں Diversity اور تنوع ہے جس سے نوجوان نسل آپ کی جانب مائل ہوتی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نوجوانوں کی علمی، فکری اور عملی تربیت کر رہے ہیں۔ آپ کا علمی مقام مستند ہے جو اتحادِ امت مسلمہ کا تصور دیتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے نوجوانوں کو سائنسی علوم کی ترغیب دی ہے جس کی وجہ سے وہ آپ کی شخصیت سے inspired ہیں۔ بہر حال میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے بارے میں اتنا کہوں گا:

He is an Intelligent, Energetic, Honest, Honourable and Hardworking Leader.

آپ نوجوانوں کے لیے Absorbing شخصیت کے مالک ہیں اور آپ ایک عظیم معلم، اعلیٰ مربی اور نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں‘‘۔

  1. 5 اگست 2003ء کو سابقہ وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے منہاج القرآن اسلامک سنٹر لندن میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے ملاقات کی۔ وہ منہاج القرآن کے اَہداف اور مقاصد سے بے حد متاثر ہوئیں۔ انہوں نے اس موقع پر منہاج القرآن انٹرنیشنل کی تا حیات ممبر شپ حاصل کی اور کہا:

’’منہاج القرآن فرقہ واریت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کام کر رہا ہے اور بین المذاہب مکالمہ اور رواداری کے فروغ کے لیے یہ سب کچھ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔ جب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جیسی شخصیت دنیا کو اسلام کے متعلق اپنا نقطہ نظر پیش کرتی ہے تو مجھے خوشی اور اطمینان ہوتا ہے اور اس پر فخر کرتی ہوں کہ ہم عالم گیر مذہب اسلام کے پیروکار ہیں‘‘۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے منہاج القرآن کے مختلف شعبہ جات کا دورہ کرتے ہوئے کہا:

’’منہاج القرآن انٹرنیشنل اسلامی دنیا میں اِسلام کی حقیقی روح پھیلانے اور بہت سے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے میں مصروف ہے جو بہت قابلِ تعریف ہے۔ میں نے ویلفیئر سسٹم اور منصوبہ جات کا بغور جائزہ لیا ہے اور MQI کے مختلف شعبہ جات کا دورہ کیا ہے۔ میں پورے وثوق اور یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ پاکستان سے باہر کوئی دوسری تنظیم منہاج القرآن انٹرنیشنل کا مقابلہ نہیں کر سکتی‘‘۔

عرب و عجم کے ممتاز اور ملک کے معروف اَہلِ علم کی طرف سے مذکورہ بالا معدودے اِقتباسات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اﷲ رب العزت نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو جامع العلوم و الفنون بنایا اور ہمہ جہت خوبیوں سے نوازا ہے۔ آپ نے اِنہی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرے میں پیدا ہونے والے بگاڑ کی تمام جہات سے اصلاح کرنے کی ٹھانی اور ہر جہت پر کام کرتے ہوئے اس کا حق ادا کیا ہے۔

4۔ کثیر تصانیف - ایک اور وجہ مشترک

(1) امام سیوطی - صاحبِ تصانیفِ کثیرہ

امام جلال الدین سیوطی نے علوم القرآن و التفسیر، حدیث و علوم الحدیث، فقہ و اصول الفقہ، لغت، نحو، علم الاصوات، ادب، بلاغت، تاریخ، تراجم و اَعلام و اَنساب، منطق، کلام اور دیگر متعدد علوم و فنون پر قلم اٹھایا اور بے بہا خزانے جمع کر دیے۔ ان کی تمام تصانیف ان کی زندگی میں شرق تا غرب مثلاً حجازِ مقدس، شام، حلب، روم، مراکش، یمن اور ہندوستان کے دور دراز علاقوں تک پھیل گئیں۔

علامہ خیر الدین زرکلی (م 1396ھ) حافظ سیوطی کے تعارف میں لکھتے ہیں:

إمام حافظ مؤرخ أدیب. له نحو 600 مصنف، منها الکتاب الکبیر والرسالة الصغیرة.

’’وہ امام، حافظِ حدیث، مؤرخ اور ادیب ہیں۔ ان کی تقریباً 600 کتب ہیں، ان میں بڑی کتاب سے لے کر چھوٹے رسالے تک سب شامل ہیں‘‘۔

[زرکلی، الأعلام، 3/301]

امام سیوطی کی نمایاں کتب کے نام حسبِ ذیل ہیں:

  1. الاتقان في علوم القرآن
  2. الدر المنثور في التفسیر بالمأثور (چار جلدیں)
  3. التوشیح شرح الجامع الصحیح
  4. الدیباج علی صحیح مسلم بن الحجاج
  5. الجامع الصغیر في حدیث البشیر النذیر صلی الله علیه وآله وسلم
  6. جمع الجوامع في الحدیث
  7. الدرر المنتثرة في الأحادیث المشتھرة
  8. تدریب الراوي في شرح تقریب النواوي
  9. حسن المقصد في عمل المولد
  10. الخصائص الکبری
  11. التعظیم والمنة في أن أبوي النبي صلی الله علیه وآله وسلم في الجنة
  12. الحاوي للفتاوی
  13. الأشباه والنظائر في الفقه
  14. تاریخ الخلفاء
  15. تبییض الصحیفة بمناقب الإمام أبي حنفیة
  16. التعلیقة المنیفة علی مسند أبي حنیفة
  17. أحیاء المیت بفضائل أھل البیت
  18. إرشاد المهتدین إلی بصرة المجتهدین
  19. أزھار المتناثرة في الأخبارالمتواترة
  20. أسباب الحدیث
  21. أنباء الأذکیاء لحیاة الأنبیاء
  22. أنوار الحلک في إمکان رؤیة النبی صلی الله علیه وآله وسلم والملک
  23. بشری الکئیب بلقاء الحبیب
  24. التحبیر في علوم التفسیر
  25. تجرید العنایة في تخریج أحادیث الکفایة
  26. تحفة الآثار في الأدعیة والأذکار
  27. تحفة الجلساء برؤیة اﷲ تعالٰی للنساء
  28. التنبئة بمن یبعثه اﷲ علی رأس کل مائة
  29. تهذیب الأسماء
  30. الثغور الباسمة فی مناقب فاطمة
  31. الخبر الدال علی وجود القطب والأوتاد والنجباء والأبدال
  32. دیوان الشعر
  33. رسالة في الصلاة علی النبي
  34. الروض الأنیق في مسند الصدیق
  35. شرح الصدور بشرح أحوال الموتی والقبور

(2) شیخ الاسلام - عدیم النظیر مصنف

گزشتہ چالیس سالوں میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی اُردو، انگریزی اور عربی زبانوں میں تقریباً 535 کتب زیورِ طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں۔ دنیا کی کئی زبانوں میں ان کتب کے تراجم بھی ہو رہے ہیں۔ اگرچہ پرنٹنگ پریس کو شروع ہوئے دو تین صدیاں بیت چکی ہیں، لیکن تاریخ میں ایسا نہیں ہوا کہ کسی کی زندگی میں ہی اس کی پانچ سو سے زائد کتب طبع ہوئی ہوں۔ یہ بلا شبہ شیخ الاسلام کی ایک اِنفرادی اور تجدیدی خدمت ہے۔ علوم القرآن ہوں یا علوم الحدیث؛ اِیمانیات اور عبادات ہوں یا اِعتقادیات (اُصول و فروع)؛ سیرت و فضائلِ نبوی ہوں یا ختمِ نبوت اور تقابلِ اَدیان؛ فقہیات ہو یا اَخلاق و تصوف یا اَوراد و وظائف؛ اِقتصادیات و سیاسیات ہو یا فکریات؛ دستوریات ہو یا قانونیات؛ شخصیات ہوں یا سوانح؛ سائنس ہو یا حقوقِ اِنسانی، عصریّات ہو یا اَمن و محبت اور ردّ تشدد و اِرہاب یا سلسلہ تعلیماتِ اِسلام؛ الغرض شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ہر موضوع پر اُردو، عربی، انگریزی میں نادر کتب تالیف کی ہیں۔

برصغیر میں کئی صدیوں سے حدیث اور اُصولِ حدیث پر کام اور لٹریچر تعطل کا شکار تھا۔ زیادہ تر چھ سات سو سال پہلے کے کیے ہوئے کام پر ہی تکیہ کیا جارہا تھا۔ پچھلی دو صدیوں میں علمی نوعیت کے جو کام ہوئے ہیں وہ زیادہ تر حواشی اور شروحات کی نوعیت کے ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عصر حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق ایک ایک موضوع اور اس کی جزئیات کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سے ثابت کر کے ایک compendium کی شکل میں پیش کیا ہے جو اﷲ تعالیٰ کا اِحسانِ عظیم ہے۔ پوری مغربی دنیا اور اور عالم عرب بھی ان کے بلند علمی مقام و مرتبہ کا معترف ہے اور ان سے بھر پور فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ ذیل میں حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی بعض معرکہ آراء کتب کے نام تحریر کیے جا رہے ہیں:

  1. عرفان القرآن (قرآن حکیم کا اُردو ترجمہ)
  2. تفسیر منہاج القرآن (سورۃ الفاتحہ، جزو اول)
  3. تفسیر منہاج القرآن (سورۃ البقرہ)
  4. مَناهِجُ العرفان في لفظ القرآن

  5. العرفان في فضائل وآداب القرآن
  6. حروفِ مقطعات کا قرآنی فلسفہ
  7. تَسْمِیَةُ الْقُرْآن (تفسیر بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمَانِ الرَّحِیْمِ)
  8. لفظِ ربُ العالمین کی علمی و سائنسی تحقیق
  9. شانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں قرآنی قَسمیں {کَشْفُ الْغِطَا عَنْ مَعْرِفَةِ الْأَقْسَامِ لِلْمُصْطَفٰی صلی الله علیه وآله وسلم}
  10. مَعَارِجُ السُّنَنِ لِلنَّجَاةِ مِنَ الضَّلَالِ وَالْفِتَنِ

  11. اَلمِنْهَاجُ السَّوِيّ مِنَ الْحَدِیْثِ النَّـبَوِيّ {فہمِ دین اور اِصلاحِ اَحوال و عقائد پر مجموعہ اَحادیث مع اُردو ترجمہ}
  12. هِدَایَةُ الْأُمَّة عَلٰی مِنْهَاجِ الْقُرْآنِ وَالسُّنَّة (الجزء الأوّل): اُمتِ محمدیہ کے لیے قرآن و حدیث سے ضابطہ رُشد و ہدایت
  13. اَلْخُطْبَةُ السَّدِیْدَة فِي أُصُوْلِ الْحَدِیْثِ وَفُرُوْعِ الْعَقِیْدَة

  14. عاشقوں کا سفر {رِحْلَةُ الْعَاشِقِیْن إِلَی الْبَلَدِ الْمُبَارَکِ الْأَمِیْن}
  15. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نبوی خصائصِ مبارکہ {اَلْمَکَانَةُ الْعَلِیَّة فِي الْخَصَائِصِ النَّبَوِیَّة}
  16. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دُنیوی خصائصِ مبارکہ {اَلْمِیْزَاتُ النَّبَوِیَّة فِي الْخَصَائِصِ الدُّنْیَوِیَّة}
  17. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برزخی خصائصِ مبارکہ {اَلْعَظَمَةُ النَّبَوِیَّة فِي الْخَصَائِصِ الْبَرْزَخِیَّة}
  18. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُخروی خصائصِ مبارکہ {اَلْفُتُوْحَاتُ النَّبَوِیَّة فِي الْخَصَائِصِ الأُخْرَوِیَّة}
  19. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمائلِ مبارکہ {اَلْجَوَاهِرُ النَّقِیَّة فِي الشَّمَائِلِ النَّبَوِیَّة}
  20. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائلِ مبارکہ {اَلْمَطَالِبُ السَّنِیَّة فِي الْخَصَائِلِ النَّبَوِیَّة}
  21. صحابہ کرام و اَہلِ بیت اَطہار کے فضائل و مناقب {اَلنَّجَابَةُ فِي مَنَاقِبِ الصَّحَابَةِ وَالْقَرَابَةِ}
  22. جنت کی خصوصی بشارت پانے والے 60 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین {خَیْرُ الْـمَآب فِیمَنْ بُشِّرَ بِالْجَنَّةِ مِنَ الْأَصْحَاب}
  23. بابِ مدینہ علم علیہ السلام {اَلْقَوْلُ الْقَیِّم فِي بَابِ مَدِیْنَةِ الْعِلْم علیه السلام}
  24. حدیث ردِّ شمس کا تحقیقی جائزہ {اَلْقَوْلُ السَّوِيِّ فِي رَدِّ الشَّمْسِ لِعَلِيِّ علیه السلام}
  25. حدیثِ ولایتِ علی رضی اللہ عنہ کا تحقیقی جائزہ {اَلْکِفَایَة فِي حَدِیْثِ الْوِلَایَة}
  26. سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے فضائل و مناقب {اَلدُّ رَّةُ الْبَیْضَاء فِي مَنَاقِبِ فَاطِمَةَ الزَّهْرَاء رضی الله عنها}
  27. حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے فضائل و مناقب {مَرَجَ الْبَحْرَیْن فِي مَنَاقِبِ الْحَسْنَیْن رضی اللہ عنهما}
  28. ذِکرِ شہادتِ اِمام حسین رضی اللہ عنہ (احادیثِ نبوی کی روشنی میں) {ذِکْرُ مَشْهَدِ الْحُسَیْن رضی الله عنه مِنْ أَحَادِیْثِ جَدِّ الْحُسَیْن صلی الله علیه وآله وسلم}
  29. الْقَولُ الْقَوِيّ في سَمَاعِ الْحَسَنِ عَنْ عَلِيّ رضی الله عنهما (عربی مع اُردو ترجمہ)

  30. اَلْمُنْتَقَی لأَسَانِیْدِ الْعَسْقَلَانِي إلٰی أَئِمَّةِ التَّصَوُّف وَالْعِلْمِ الرَّبَّانِي

  31. کتابُ التّوحید (جلد اوّل)
  32. کتابُ التّوحید (جلد دُوُم)
  33. کتاب البدعۃ (بدعت کا صحیح تصور)
  34. کتاب التوسل (وسیلہ کا صحیح تصوّر)
  35. مسئلہ اِستغاثہ اور اُس کی شرعی حیثیت
  36. کتاب الشفاعۃ
  37. عقیدۂ علمِ غیب
  38. حیاۃُ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  39. شہرِ مدینہ اور زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  40. میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  41. تحفظِ ناموسِ رِسالت
  42. مقدّمہ سیرۃُ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (حصہ اَوّل و دُوُم)
  43. سیرۃُ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (جلد دُوُم تا دہم)
  44. عقیدۂ ختمِ نبوت
  45. الحکم الشرعی
  46. توبہ و اِستغفار
  47. دَلَائِلُ الْبَرَکَات فِی التَّحِیَّاتِ وَالصَّلَوَات (بارگاہِ رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اَڑھائی ہزار درود و سلام کا ہدیہ عقیدت و محبت: عربی مع اُردو ترجمہ)
  48. اِقتصادیاتِ اِسلام {تشکیل جدید}
  49. بلاسود بنکاری کا عبوری خاکہ
  50. بلاسود بنکاری اور اِسلامی معیشت
  51. معاشی مسئلہ اور اُس کا اِسلامی حل
  52. قرآنی فلسفۂ انقلاب (جلد اول)
  53. قرآنی فلسفۂ انقلاب (جلد دوم)
  54. اِسلامی فلسفۂ زِندگی
  55. اِیمان، یقین اور اِستقامت
  56. علم اور مصادرِ علم
  57. میثاقِ مدینہ کا آئینی تجزیہ
  58. اِسلامی اور مغربی تصوّرِ قانون کا تقابلی جائزہ
  59. اِسلام میں سزائے قید اور جیل کا تصور
  60. قَرَابَۃُ النَّبِيّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  61. اِمام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ عنہ: اِمام الائمہ فی الحدیث (جلد اَوّل تا سوم)
  62. اِسلام اور جدید سائنس
  63. تخلیقِ کائنات (قرآن اور جدید سائنس کا تقابلی مطالعہ)
  64. دہشت گردی اور فتنۂ خوارِج (مبسوط تاریخی فتویٰ)
  65. اِسلام دینِ اَمن و رحمت ہے
  66. فروغِ امن اور انسدادِ دہشت گردی کا اسلامی نصاب
  67. اِسلام میں اِنسانی حقوق
  68. اِسلام میں خواتین کے حقوق
  69. اِسلام میں اَقلیتوں کے حقوق
  70. سلسلہ تعلیماتِ اِسلام 1 تا 11
  1. The Glorious Qur’an (English Translation of Irfan-ul-Qur’an)

  2. Islam on Mercy & Compassion

  3. Muhammad: The Merciful

  4. Prophetic Virtues & Miracles (al-Minhaj al-Sawi [Part I])

  5. Righteous Character & Social Interactions (al-Minhaj al-Sawi [Part II])

  6. Mawlid al-Nabi a: Celebration and Permissibility

  7. The Book on Divine Oneness (Kitab al-Tawhid) Volume 1

  8. Muhammadan Blessings (Collection of Prophetic Prayers and Spiritual Practices)

  9. Fatwa on Terrorism and Suicide Bombings

  10. Interest-Free Banking in Islamic Perspective

اِن کتب کے علاوہ مختلف النوع موضوعات پر کثیر اَربعینات کی طباعت آپ کا نادر الوجود تحقیقی کام ہے۔

مجددِ رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اُردو، عربی اور انگلش میں 50 کتب پر مشتمل ’فروغِ اَمن اور اِنسدادِ دہشت گردی کا اِسلامی نصاب‘ بھی مرتب فرمایا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد کام ہے جو کسی محقق یا عالم دین کے حصے میں نہیں آیا اور آپ نے تجدیدِ دین کا حق ادا کرتے ہوئے دین اِسلام کا حقیقی پُر اَمن چہرہ دنیا کے سامنے واضح فرمایا ہے۔

5۔ شیخ الاسلام کا خطیبانہ تفرّد

امام جلال الدین سیوطی بلاشبہ ایک زمانہ مدرّس رہے اور تدریسی ذمہ داریاں بخوبی سرانجام دیتے رہے۔ مگر جب اُن کی عمر چالیس سال ہوئی تو دنیا وما فیہا کو چھوڑتے ہوئے اﷲ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے دھیان میں مشغول ہو گئے حتیٰ کہ انہوں نے اِفتاء اور تدریس کی ذمہ داری بھی ترک کر دی اور اس کی بجائے تصنیف و تالیف کا کام شروع کر دیا۔ [ابن العماد، شذرات الذھب، 8/53]

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مذکورہ بالا تمام مماثلت کے ساتھ علمی، فکری اور تحقیقی میدان میں امام سیوطی سے اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ وہ بلا مبالغہ دورِ حاضر کے بے مثال و بے نظیر خطیب اور مقرر ہیں۔ ان کی تصنیف و تالیف کے میدان میں صلاحیتیں بعد میں ظاہر ہوئیں، اس سے پہلے ہی آپ بلند پایہ خطیب اور مقرر بن چکے تھے۔ یہ بھی فی زمانہ آپ ہی کا خاصا ہے کہ انہوں نے خطابت اور تقریر کو نکتہ آفرینی اور شعلہ بیانی تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے علم و فکر اور تحقیق میں رَنگ دیا ہے۔ آپ نے نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت، مشرق بعید، عرب ممالک، آسٹریلیا، جاپان، یورپ، امریکا اور کینیڈا تک اردو، عربی اور انگریزی زبانوں میں ہزارہا خطابات کیے اور لیکچرز دیے ہیں۔ تصنیف و تالیف کی طرح آپ کے خطابات کے موضوعات بھی عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق دین کے جمیع جوانب پر محیط ہوتے ہیں۔ دنیا و آخرت سے متعلق شاید ہی کوئی ایسا موضوع ہو جس پر آپ نے دلائل و براہین سے گفتگو نہ کی ہو۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی گفتگو اور خطاب جہاں علمی موتیوں سے مزین ہوتا ہے وہیں فصاحت و بلاغت میں بھی بے مثل و بے نظیر ہوتا ہے۔ نہ صرف خطابات بلکہ عام گفتگو میں بھی الفاظ کے چناؤ اور ادائیگی کا خاص ملکہ رکھتے ہیں۔ مسندِ خطابت اور وعظ و نصیحت کے دوران باقاعدہ تیاری کے ساتھ بیٹھتے ہیں مگر دیگر محافل یا نجی مجالس میں جب غیر رسمی گفتگو فرماتے ہیں تو اس میں بھی الفاظ کی حسنِ ادائیگی برقرار رہتی ہے۔ ان کی گفتگو میں بلا کی شائستگی، خوبصورتی اور فصاحت (eloquence) ہوتی ہے۔ حتی کہ اگر آپ اپنی مادری زبان پنجابی بول رہے ہوں تو اس میں بھی ویسی ہی خوبصورتی دکھائی دیتی ہے۔ اس میں بھی الفاظ بغیر تذبذب اور تردد کے آپ کے منہ سے پھولوں کی طرح جھڑ رہے ہوتے ہیں۔ نیز دیگر زبانوں یعنی انگلش، عربی اور فارسی میں بھی گفتگو ایسی ہی فصاحت و بلاغت کا شاہکار ہوتی ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے بین الاقوامی زبان انگریزی میں بھی سیکڑوں لیکچرز ہیں اور ان لیکچرز میں الفاظ کا تکرار بھی نہیں ہے۔ جس زبان میں بھی گفتگو کرتے ہیں اس میں الفاظ کی محتاجی نظر نہیں آتی۔ جب گفتگو شروع کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ الفاظ قطار در قطار دست بستہ منتظر کھڑے ہیں۔ ان کی انگریزی زبان پر دسترس کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انگریزی سمیت مختلف زبانوں میں آپ کئی اصطلاحات کے خالق ہیں۔ مغربی لوگ آپ کے مستعمل الفاظ پر بعض اوقات یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہمیں لغات (dictionaries) میں یہ الفاظ ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا ہے۔ خلقِ خدا نے ان کے فصیح و بلیغ انداز سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ آپ کی خطابت اور گفتگو سے استفادہ کرتے ہوئے شرق تا غرب اردو اور انگریزی کے ہزارہا لوگ مقرر ہو گئے۔ یہ کہنا بھی بے جانہ ہوگا کہ اکثریت کو اپنے مافی الضمیر کے اظہار کا قرینہ اور بات کرنے کا سلیقہ شیخ الاسلام کے خطابات سُن کر ہی نصیب ہوا ہے۔

عربی زبان میں فصاحت کا عالمی سطح پر اعتراف

آپ کی لغتِ عرب میں مہارت بھی قابلِ دید ہے۔ عربی میں خطابت اور ذخیرۂ لفظی کو سن کر بڑے بڑے عربی دان انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں کہ یہ الفاظ کہاں سے نازل ہورہے ہیں؟ آپ کی بڑی خوبی موقع کی مناسبت سے موزوں الفاظ کا استعمال ہے۔ اس سے آپ کی عربی زبان میں فصاحت و بلاغت اور دست رس ظاہر ہوتی ہے اور آپ بلاشبہ اہلِ زبان شمار ہوتے ہیں۔

  1. راقم کو یاد ہے کہ ضعیف حدیث سے استدلال اور اس سے حجت قائم کرنے پر جب شیخ الاسلام نے الازہر یونیورسٹی میں فنِ حدیث کے مستند اساتذہ، پروفیسرز، شعبہ علوم الحدیث کے سربراہان اور دیگر اہلِ علم و فن شیوخِ عرب کی موجودگی میں تین سے چار گھنٹے تک عربی میں خطاب فرمایا تو وہ سب اہلِ زبان حیران و ششدر رہ گئے۔ انہوں نے بعد ازاں اقرار کیا کہ ہم الازہر میں استاد اور اس شعبہ کے صدر ہو کر بھی اس موضوع پر اس طریقے سے بیان نہیں کر سکے جو آج شیخ نے بیان فرمایا ہے۔ آپ نے غیرِ عرب عجمی ہو کر کئی گھنٹے تک وہاں ایسی علمی کیفیت طاری کر دی کہ حاضرین و سامعین میں سے ہر شخص اپنے گرد و پیش سے بے پروا ہمہ تن گوش ہو کر ان کی طرف متوجہ تھا۔ ان پر سکتے کی ایسی کیفیت طاری تھی کہ جیسے وہ کسی صاحبِ لغت کے منہ سے سُچے موتیوں کی برسات ہوتے دیکھ رہے ہوں۔
  2. نومبر 2016ء میں مراکش کے دورہ کے دوران راقم، شیخ الاسلام کی سنگت میں تھا۔ ہم فاس پہنچے۔ وہاں کے روحانی بزرگ شیخ عبد اﷲ الحداد، حضرت شیخ الاسلام سے بڑی عقیدت محبت رکھتے ہیں۔ انہوں نے مجددِ رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے تمام اجازات بھی لی ہیں اور خود کو عقیدتاً ان کا شاگرد کہتے ہیں۔ انہوں نے ایک زاویۃ السلام بنایا ہے جس میں سالکین کی تربیت کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے زاویہ میں آپ کو دعوت دی۔ جب آپ تشریف لے گئے تو وہاں ان کے طلبائ، فاس کے علماء اور مستفیدین کی قابلِ ذکر تعداد جمع تھی۔ شیخ عبد اﷲ الحداد نے شیخ الاسلام کا تعارف کرواتے ہوئے گفتگو کرنے کے لیے استدعا کی۔ شیخ الاسلام نے عقیدۂ رسالت پر ایمان افروز خطاب کیا تو وہاں پر موجود حاضرین کی آنکھوں سے چھما چھم آنسو برسنے لگے۔ فاس اور مراکش میں علمی گہرائی اور استدلال و استنباط کرنے والے علماء نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں، جس کی بنا پر وہ تشنہ تھے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے اُن کی علمی پیاس بجھتے ہوئے دیکھی۔ جب شیخ الاسلام کا خطاب ختم ہوا تو سب نے بے پناہ عقیدت کا اظہار کیا، کوئی ہاتھ چوم رہا تھا اور کوئی معانقہ کر رہا تھا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطاب کے بعد شیخ عبد اﷲ الحداد نے تمام حاضرین کو اظہارِ خیال کی دعوت دی۔ ان میں بڑے بڑے علمائ، پروفیسرز اور مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے مگر وہ سب آپ کے سامنے گنگ ہو گئے اور برملا معذوری کا اظہار کرنے لگے کہ بظاہر تو ہم عرب ہیں مگر حقیقی عرب تو جناب ہیں۔ عربی لغت میں ایسی فصاحت …؛ ہم تو بے زبان ہو گئے ہیں۔ پھر وہ معانقہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ آپ علم کا ایسا سمندر ہیں جو ہم بیان نہیں کر سکتے۔

ماحصل

زیرِ نظر تحریر کا مقصد فقط یہ ہے کہ اسلام کی ان دو عالی مرتبت شخصیات یعنی امام جلال الدین سیوطی اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے مابین پائی جانی والی علمی و فکری اور تحقیقی مماثلتوں کو اہلِ علم کے لیے بالخصوص اور عامۃ الناس کے لیے بالعموم واضح کیا جا سکے۔ واضح رہے کہ مضمون ہٰذا کو درج ذیل نکات میں سمیٹا جا سکتا ہے:

  1. امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدّظلہ العالی فطری طور پر بچپن سے علم کی طرف خصوصی رغبت رکھتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دونوں ہستیوں پر یہ خاص عنایت تھی۔ یہ عطا شاید اس وجہ سے تھی کہ دونوں نابغہ عصر شخصیات اپنے اپنے زمانے میں پنپنے والے مختلف فتنوں سے بخوبی نبرد آزما ہو سکیں۔
  2. دونوں شیوخ الاسلام کو اپنے زمانوں کے اکابر علمی و روحانی شیوخ اور اساتذہ کی قربت میسر رہی ہے۔ امام سیوطی کو ایسے شیوخ نصیب ہوئے جنہوں نے ان کی صحیح سمت کا تعین کیا اور وہ کبھی بھٹکے نہیں۔ گویا مَا زَاغَ الْبَصَرُ کا فیضِ وافر نصیب ہوا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو بھی حضرت فرید ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادری اور علامہ عبد الرشید رضوی صاحب جیسے متبحر اور متفنن اَہلِ علم کی صحبت و سرپرستی میسر رہی ہے۔ نیز عرب و عجم کے بہترین اساتذہ سے حصولِ علم کا موقع نصیب ہوا ہے۔ درحقیقت یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے خاص کرم ہوتا ہے۔ حکیم الامت نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:

اگر کوئی شعیب آئے میسر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے

  1. دونوں شیوخ عبادت، زُہد و ورع اور تقویٰ میں بھی کمال پر فائز ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی اپنی جبینِ نیاز کو رکوع و سجود کی لذتوں سے مزین رکھا۔ انہیں بچپن سے ہی مصلے سے شغف، محبتِ اِلٰہی، رِقت و خشیت اور ذِکر و اَذکار کا حصہ وافر نصیب ہوا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بیان کیا کرتے ہیں کہ میری نمازِ تہجد کی عادت اتنی اوائل عمری میں پختہ ہوگئی تھی کہ مجھے یاد بھی نہیں۔
  2. دونوں شیوخ الاسلام کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ محبت، قلبی وارفتگی اور عشقی تعلق بچپن سے ہی عروج پر تھا۔ اس نسبت کا اتنا زیادہ کرم ہوا کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در سے بے پناہ خیرات نصیب ہوئی اور دونوں کا سلسلہ علم تھما نہیں اور وہ اپنی علمی فراوانیوں کے ساتھ ہر دور اور قوم کو سیراب کر رہے ہیں۔ یہ غلامیِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیضان ہی ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فکری و اِنقلابی اور وسیع تنظیمی نیٹ ورک کے ساتھ پوری دنیا میں اُمت کی سیرابی کا اہتمام کررہے ہیں۔
  3. دونوں شخصیات کے ’بحر العلوم‘ اور ’جامع العلوم والفنون‘ ہونے کا اِعتراف ان کے زمانے کے معتبر و مستند اَئمہ و علماء اور اَہلِ علم نے کھلے دل سے کیا ہے۔ یہ ان کے بلند و بالا علمی مقام کی زمینی گواہی ہے جسے جھٹلانا کسی بھی صاحبِ عقل کے بس کی بات نہیں۔
  4. دونوں شیوخ میں یہ خوبی بھی مشترک اور وسیع ہے کہ دونوں اپنے اپنے دور کے عدیم المثال مصنف ہیں۔ تاریخ میں مختلف النوع موضوعات پر تصنیف و تالیف میں امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کوئی مثال دکھائی نہیں دیتی۔ صاحبانِ علم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ماضی بعید اور قریب میں جس شخصیت نے بھی قلم اٹھایا وہ کسی خاص موضوع یا چند موضوعات تک محدود رہا، مگر ربِّ ذو الجلال والاکرام نے تاریخِ اسلام میں ان دو شخصیات کا ایسا انتخاب کیا ہے کہ ان کے قلم کی وسعت کو ماپنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
  5. جب امام جلال الدین سیوطی کی عمر چالیس سال ہوئی تو وہ خلوت میں چلے گئے۔ پھر انہوں نے جو شاہ کار خلوت میں تخلیق کیے، وہ جلوت میں نہیں ہوئے تھے۔ گویا خلوت میں امام جلال الدین سیوطی کا قلم ایسا چلا کہ چہار سو اُن کے علمی اَنوار و تجلیات سے منور ہوئے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بھی اَوائل دور میں جب ترجمہ قرآن اور تفسیر کا آغاز کیا تھا تو اس کے لیے خلوت کا ہی اِنتخاب کیا۔ بلکہ آپ نے اپنی سب سے پہلی کتاب ’اَلأَرْبَعِیْن فِي فَضَائِلِ النَّبِيِّ الْأَمِیْن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘ بھی اکیس سال کی عمر میں اپنے محلے کی مسجد میں دورانِ اِعتکاف لکھی تھی۔ اُس وقت کی خلوتوں سے میسر آنے والا نور آج تک دنیا کو روشن کر رہا ہے۔ آپ جلوت میں بھی رہے مگر تخلیقات کا عمل جوں کا توں جاری رہا ہے۔ ملکِ پاکستان میں مختلف النوع مصروفیات میں اضافہ کے سبب جب علمی و فکری کاموں کے لیے خاطر خواہ وقت میسر نہ آیا تو آج سے بارہ سال قبل برطانیہ کی سرزمین پر ہجرت کرتے ہوئے معنوی خلوت اِختیار کی اور اس دوران قرآن حکیم کے ترجمہ ’عرفان القرآن‘ کا کام مکمل کیا۔ پھر کینیڈا شفٹ ہوئے اور وہاں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا کردہ خیرات سے بُراقی قوت کے ساتھ بے پناہ شاہ کار تخلیق کیے۔ یعنی اتنی سرعت کے ساتھ تحقیقات کو مکمل کیا کہ ہر آنکھ دنگ رہ گئی۔ آپ نے علوم الحدیث میں سیکڑوں کتب تالیف کیں۔ اِنسدادِ دہشت گردی اور فروغِ اَمن کا اِسلامی نصاب تشکیل دیا۔ اَن گنت موضوعات پر سو سو خطابات کی سیریز ریکارڈ کروائیں۔ اس کے بعد آپ نے وقت کے حکمرانوں کو للکارا اور ظالموں کے سامنے عملاً کلمہ حق کہتے ہوئے جلوت اِختیار کی۔ اگرچہ آپ نے اپنے اَوقات اور زمانے کو جلوت و خلوت میں تقسیم کیا ہوا ہے، تاہم جب آپ خلوت میں جاتے ہیں تو اَوقاتِ جلوت کی کمی کو پورا کرلیتے ہیں۔ کئی کئی مہینے جلوت میں رہتے ہیں تو کئی کئی مہینے خلوت میں بھی رہتے ہیں۔ دن کو اِنقلابی کام کررہے ہوتے ہیں تو شب بھر گھر میں تجدیدی کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ جب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی مسلسل جد و جہد اور سعی پیہم کو دیکھتے ہیں تو ہر زبان بے ساختہ پکار اٹھتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں طی زمانی، طی لسانی، طی کلامی اور طی قلمی سے بہت زیادہ نوازا ہے۔
  6. ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ دور میں اﷲ تعالیٰ کا اُمتِ مسلمہ پر بہت بڑا فضل و اِحسان یہ بھی ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو قلمی و تحریری وسعت عطا کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں تقریر و خطابت کے بے مثال فن سے بھی نوازا ہے۔ تاریخِ اسلام میں ہمیں ایسی شخصیات بہت ہی کم دکھائی دیتی ہیں جو اعلیٰ محقق و مدرس اور مصنف ہونے کے ساتھ اسی پایہ کی مقرر اور خطیب بھی ہوں۔ ان تمام اَوصاف کی حامل شخصیات میں ہمیں مجددِ رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سرفہرست نظر آتے ہیں۔ اس پر ہم اﷲ ربّ العزت کی بارگاہ میں جتنا بھی سجدۂ شکر بجا لائیں اتنا ہی کم ہے۔ آخر میں اﷲ تعالیٰ کے حضور دعاگو ہیں کہ وہ ہمیں اپنے محبوب اور مقرب بندوں کی صحبت و سنگت میں صراطِ مستقیم پر اِستقامت سے گامزن فرمائے۔ (آمین بجاہ سیدنا و مولانا محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)