تبدیلیٔ نظام کی یکتا و توانا آواز

غلام مرتضیٰ علوی

اللہ رب العزت نے بشر کو پیدا کیا اور اسے تمام علوم سے نوازنے کے بعد اس کے سر پر تاجِ خلافت رکھتے ہوئے اپنا نمائندہ مقرر کردیا۔ پھر تمام مخلوقات کو اس کے تابع کرکے اشرف المخلوقات کے اعزاز سے نوازا۔ پیدائش سے موت تک کا سفر طے کرنے کے لیے اسباب پیدا کیے اور نظام کائنات کو بحال رکھنے کے لئے قوانین بنائے۔ اپنے بندے کو امرِکن کی شان عطا کر کے اس میں تصرف کا اختیار عطا فرما دیا۔ اب اللہ کی شان کا مظہر ہوتے ہوئے کوئی پلک جھپکتے ہزاروں میل کی مسافت سے تخت بلقیس لے آیا تو کوئی جنات سے مسجد تعمیر کرواتا رہا،کسی نے زمین پر حکومت کی تو کسی نے ہواؤں کو مطیع بنایا، کسی نے جنوں کو غلام بنایا تو کسی کی خدمت پر اللہ نے ملائکہ کو معمور کر دیا۔ یہ رب کا خلیفہ ہی ہے جو کبھی زیر زمین قبر کے عذاب کو دیکھتا ہے تو کبھی عرش پر ملائکہ کی گفتگو سنتا ہے، کسی نے قوم کی آزادی کے لئے فرعون کو للکارا تو کسی نے حق کی خاطر نار نمرود میں چھلانگ لگا دی، کسی نے لاکھوں مربع میل فتح کیا تو کسی نے تن تنہا 90 لاکھ کو کلمہ پڑھا دیا، کسی نے ایک ایجاد سے انسان کو ستاروں سے آگے دیکھنے کی طاقت دی تو کسی نے اپنی ایجاد سے انسان کو اپنے اندر جھانک کر نئی دنیا دریافت کروائی۔ الغرض اس کائنات میں ہزاروں انسان ایسے آئے جن میں سے ہر ایک نے تنہا لاکھوں افراد سے بڑھ کر معاشرے میں کردار ادا کیا، اکیلے قوموں کی سوچ بدلی، ملکوں کے نقشے اور جغرافیے تبدیل کئے، بعض نے تنہا مردہ قوموں کو زندگی بخشی تو بعض نے اپنے لئے نیا جہاں خود تخلیق کر لیا۔ ہر ایک نے اللہ کی عطا کردہ قوتوں سے اس کے نائب ہونے کا ثبوت دیا۔

اللہ رب العزت نے عالم بشریت کی رہنمائی کے لیے انبیاء و رسول مبعوث فرمائے بلکہ سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنا نائب بنایا اور اپنے حبیب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درختوں کو حکم دیتے تو وہ زمین کا سینہ چیر کر سجدے کرتے، پتھر کلمہ پڑھتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اشارے پر چاند دو ٹکڑے ہوا اور ڈوبا ہوا سورج واپس پلٹا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مختصر ترین وقت میں محدود وسائل کے ساتھ دنیا میں سب سے بڑا ایسا انقلاب برپا کر دیا کہ لوگوں کے اخلاق، کردار، اعمال، سوچ، فکر، نظریات اورعقائد الغرض ہر شے بدل گئی۔

رواں صدی ہجری میں قوم و امت کو درپیش چیلنجز

ہر دور میں ایسے نابغہ روزگار اور یکتائے زمانہ افراد ہوئے ہیں جنہوں نے عروج و زوال کی تا ریخ خود لکھی ہے۔ ایسی ہی ایک ہستی جو گزشتہ نصف صدی سے زمانے کے ہر طوفان کا مقابلہ اور ہر فتنہ کی آگ کو تنہا بجھا رہی ہے اور جس نے ملکی اور بین الاقوامی طا قتوں کی ہر سازش کو اللہ کے کرم اس کی عطا کردہ توفیق اور علم و حکمت سے ناکام کیا ہے۔ یہ شخصیت شیخ الاسلام ڈاکڑ محمد طاہر القادری ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ایک ہزار کتب لکھ کر یو رپ اور عرب و عجم کی علمی پیاس بجھائی۔ انہوں نے علم حدیث میں قدم اٹھایا تو 14 سو سالہ تدوین حدیث کی تاریخ میں 30 جلدوں میں جامع السنہ کی صورت میں ایک غیر معمولی باب کا اضافہ کیا۔ محض 4 دھائیوں میں پوری دنیا میں تنظیمی نیٹ ورک قائم کیا۔فتنہ قادیانیت ہو یا عقیدہ ختم نبوت کے خلاف سازشیں، فتنہ انکار حجیت حدیث ہو یا ضعیف حدیث کا فتنہ،انکار علمِ تصوف ہو یا تعلیمات صوفیاء سے روگردانی، سود کا متبادل نظام ہو یا احتساب کا لائحہ عمل، ملکی تعلیمی مسائل کا حل ہو یا نصاب تعلیم کی پیچیدگیاں، 70 سالہ بوسیدہ عدالتی نظام کے مسائل ہوں یا مقروض معیشت کے مسائل، انتخابی نظام میں اصلاحات ہوں یا متناسب نمائندگی کا متبادل نظامِ انتخاب، بین الاقوامی سطح پر گستاخیِ رسول کافتنہ ہو یا اہا نتِ قرآن، پوری دنیا میں دہشت گردی کا ناسور ہو یا تہذیبوں کے تصادم کا خطرہ الغرض پچھلی نصف صدی میں جن فتنوں نے سراٹھایا، معاشرے کو کوئی چیلنج درپیش ہوا یا کسی علمی، فقہی، معاشی حتیٰ کہ سائنسی مسئلے پر قوم، امت یا انسانیت نے رہنمائی مانگی تو تنہا شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہر القادری نے اللہ کی توفیق اور اس کے عطا کردہ علم و رحمت کے سمندرسے فتنوں کی آگ کو بجھایا، انسانیت کی رہنمائی کی اور ہر چیلنج کا مقابلہ کیا۔

زیرنظر مضمون میں ہم اس امر کا جائزہ لیں گے کہ گزشتہ 38 سالوںمیں ملکی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر آنے والے فتنوں، مسائل اور چیلنجز کا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کیسے مقابلہ کیا؟

ملکی و قومی سطح پر سیاسی و معاشی چیلنجز

پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں متعدد سیاستدان اور معیشت دان آئے، فلاحی اور سماجی خدمات دینے والے انسانیت کے ہمدرد آئے، حکمران آئے، ڈکٹیٹر آئے لیکن کوئی بھی اس ملک کے مسائل کو سمجھ کر اس کا حقیقی حل نہ دے سکا۔ ہر دورِ حکومت میں مسائل بڑھتے چلے گئے۔ وطن عزیز کو اس مختصر سی عمر میں کئی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا۔ انڈیا اور افغانستان کی بیرونی جنگوں کے علاوہ قرضوں میں ڈوبی معیشت، انصاف کے لیے عدالتوں میں کئی کئی نسلوں کی ذلت و رسوائی، ہسپتالوں میں سہولیات نہ ہونے کے باعث دم توڑتے مریض، بم دھماکوں میں شہید ہوتے لاکھوں معصوم شہری، تعلیم سے محروم کروڑوں بچے، کلرک پید اکرنے والا 100 سالہ پرانا تعلیمی نظام، سب سے بڑی نوجوان آبادی پر مشتمل بے روزگار معاشرہ، الغرض پولیس کا گھِسا پٹا ظالمانہ نظام ہو یا دھاندلی پر مشتمل انتخابی نظام، ہر سمت پھیلی کرپشن ہو یا قومی وسائل پر قابض چند خاندان، بجلی کا بحران ہو یا پیٹرول کی قیمتوں میں ہر روز اضافہ، جس سمت دیکھا جائے مسائل اور بحرانوں کی ایک طویل لسٹ ہے جو چیلنج بن کر کسی مسیحا کی منتظر ہیں۔

پاکستان کے جملہ مسائل کا حل ’’نظام کی تبدیلی‘‘

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں چند لیڈروں اور عبقری شخصیات کو چھوڑ کر زیادہ تر نے ملک کے مسائل میں اضافہ کیا لیکن پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسی شخصیت بھی آئی جس نے اپنی عملی سیاست کے آغاز سے 20 سال قبل طویل مطالعہ تحقیق اور ریسرچ کے بعد اس ملک کے جملہ مسائل کا واحد حل ’’نظام کی تبدیلی‘‘ تجویز کیا اور کہا کہ ہر سطح پر اس پرانے فرسودہ استحصالی نظام کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ پاکستانی تاریخ کی واحد شخصیت ہے جس کی پوری جنگ کسی پارٹی، فرد یا جماعت کے خلاف نہیں رہی۔ انہوں نے 25 مئی 1989ء کو اپنی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھتے ہوئے یہ لفظ کہے کہ میری جنگ کسی پارٹی یا جماعت کے خلاف نہیں بلکہ اس فرسودہ استحصالی نظام کے خلاف ہے۔ الحمراء ہال، ایوان اقبال، PC اور فلیٹیز ہوٹل کے ہال ہوں یا 23 دسمبر 2012ء کو مینار پاکستان میں پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ، گذشتہ 38 سالوں میں ڈاکٹر طاہر القادری نے ہر موقع پر ایک ہی بات کی ہے کہ چہرے نہیں نظام بدلو؛ سیاست نہیں، ریاست بچائو۔ اگر اس ملک کا مقدر بدلنا ہے تو اس کا نظام بدلو۔ اول دن سے بیسیوں TV چینلز پر سیکڑوں انٹرویوز میں پوری قوم اور اس کے اداروں کو سمجھایا کہ نظام کی تبدیلی کے بغیر مسائل بڑھ سکتے ہیں، کبھی ختم نہیں ہوسکتے۔

خود غرض عوام اور ہوس پرست سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ طاہر القادری کے دونوں دھرنے ناکام ہوئے۔ لیکن حقائق یہ ہیں کہ نہ طاہر القادری کی آواز دبی ہے نہ انہوں نے فکر چھوڑی ہے۔ مگر آج اداروں کی غفلت اور حکمرانوں کی ناکام پالیسیوں کے سبب پوری قوم بیک زبان ہے کہ طاہرالقادری ٹھیک کہتے تھے۔ جس دن قائد انقلاب کی قیادت میں تبدیلی کا سورج طلوع ہوگا تب ملک کا ہر ادارہ اور قوم کہے گی کہ اگر 38 سال پہلے ہمیں یہ سمجھ آجاتا تو ہماری دو نسلیں ذلت و رسوائی کی موت نہ مرتیں۔ اگر ہم یہ بات وقت پر سمجھ لیتے تو بے روزگاری، غربت اور سیاسی و معاشی بدحالی کا دور اتنا طویل نہ ہوتا۔ جہاں اس قوم کے مؤثر افراد کی خاموشی اورعوام کی جہالت و ہٹ دھرمی پر تعجب ہے وہاں بے غرض، بے لوث، مخلص اور جرات مند قیادت کو سلام ہے جس نے 38 سالوں میں اس قوم کی بے حسی اور حکمرانوں کے ظلم و تشدد کے باوجود اپنے عزم اور جدوجہد سے ایک بال برابر پیچھے ہٹنا گوارا نہیں کیا ۔

نظام کے محافظ ظالم حکمرانوں نے 14 افراد کو شہید کیا اور 100 افرد کو گولیوں سے چھلنی کر دیا۔اس سب کے باوجود بھی آپ نے احتجاجی جدوجہدسے نظام بدلنے کی کوشش جاری رکھی، جس سے قوم کا شعور بلند ہوا، نظام اور اس کے سیاسی محافظ بے نقاب ہوئے ۔ آج 38 سال گزر جانے کے باوجود شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ظالمانہ استحصالی نظام کے محافظوں اور جابروں کو عبرت ناک انجام تک پہنچانے کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔ ان کی استقامت بتاتی ہے کہ

وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقین ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلے گا

اسلام کو درپیش معاشی چیلنج

پاکستان میں اسلام کو کئی چیلنجز درپیش ہوئے ۔ 1993ء میں پنجاب کے ایک صوبائی وزیر نے اعلان کردیا کہ اسلام کے پاس سود کا متبادل معاشی نظام نہیں ہے لہذا ہم اسی سودی بینکاری نظام کے تحت چلنے پر مجبور ہیں۔

اس موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اعلان کیا کہ اسلام میں سود سے پاک بینکاری نظام موجود ہے۔ حکومت دنیا کے جس معیشت دان کو چاہے بلالے، میں بلاسود بینکاری نظام پیش کروں گا۔آپ نے حکومت کو TV پر مناظرے کا چیلنج دے دیا۔ جب حکومت نے کوئی جواب نہ دیاتو ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 1993ء میں لاہور موچی دروازہ کے گرائونڈ میں 4 گھنٹے مسلسل خطاب کرتے ہوئے بلاسود بنکاری نظام کا خاکہ پیش کیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ نظام کو دور حاضر میں قابل عمل ثابت کردیا مگر اس وقت کی حکومت نے اس کا اطلاق کرنے سے معذرت کرلی۔

احتساب کا حقیقی اور واضح لائحہ عمل

وطن عزیز کے سیاسی مسائل میں سے سب سے بڑا اور اہم مسئلہ احتساب کا نہ ہونا ہے۔ ملک کا گھِسا پٹا عدالتی نظام صرف مجبور و بے بس اور کمزور شہریوں کو چھوٹی موٹی کرپشن پر احتساب کے شکنجے میں جکڑنے کے لیے رہ گیا ہے۔ قوم کے ہر فرد کا عدالتی نظام پر اس قدر ایمان اٹھ چکا ہے کہ زبان زد عام ہے کہ حکمرانوںکا حقیقی احتساب نہیں ہوسکتا۔ طاقتور کو قانون کے سامنے نہیں جھکایا جاسکتا۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے قوم اور اس کے اداروں کو جھنجھوڑنے کے لیے عظیم الشان احتساب مارچ کیا۔ یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا پہلا مارچ تھا جو سیاسی کلچر کی طہارت کے لیے تھا۔ مارچ کے اختتام پر جہاں قوم کو پیغام دیا وہاں انتخابات سے قبل احتساب کا مکمل لائحہ عمل بھی دیا۔ آپ نے واضح کہا کہ ملک کے مسائل کا حل نظام کی تبدیلی میں ہے اور نظام کی تبدیلی کے لیے قیادت کی تبدیلی ضروری ہے اور قیادت بدلنے کے لیے احتساب اور انتخابی نظام میں اصلاحات ضروری ہیں۔ اُس وقت آپ نے احتساب کا نظام دیتے ہوئے کہا کہ اس کا آغاز سیاستدانوں سے کیا جائے۔ آپ نے کہا کہ قومی و صوبائی سطح کے 500 سیاستدانوں کو لے لیں، چاروں ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ میں ایک ایک سو سیاستدان تقسیم کردیئے جائیں اور پوری قوم سے کہا جائے کہ ایک ماہ تک آپ کے کیس بند رہیں گے۔ تمام عدالتی مشینری500 سیاستدانوں کا احتساب کرے۔ ان کے سیکڑوں جرائم میں سے ایک جرم بھی ثابت ہوجائے تواس کو نااہل کرکے ہمیشہ کے لیے سیاست سے آئوٹ کردیا جائے۔ صرف ایک ماہ میں قوم کو کرپشن سے نجات دی جاسکتی ہے لیکن قوم اور اس کے موثر طبقات کو یہ بات سمجھ نہ آئی۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے احتساب کے نظام کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ جس کے اثاثے اس کی آمدن سے زائد ہوں تو انکوائری کے بجائے اس شخص سے پوچھا جائے کہ اس نے اضافی آمدن کہاں سے لی۔ اگر ثابت کردے تو درست، بصورت دیگر اسے گرفتار کرکے اس کے اثاثے ضبط کرلیے جائیں۔ تعجب ہے کہ اس دور کی عدلیہ کو یہ بات سمجھ نہ آئی لیکن آج اُسی اصول کے تحت وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بینک اکائونٹ منجمد کردیئے گئے اور اسے اشتہاری قرار دے دیا گیا۔ اس پر مزید تعجب یہ ہے کہ اس قانون کے تحت بقیہ سیاستدانوں کا احتساب کیوں نہیں ہوسکتا! حقیقت یہ ہے کہ کوئی اس کرپشن کے کلچر کو حقیقی طور پر بدلنا ہی نہیں چاہتا۔

ملک کے سیاسی و انتخابی مسائل اور حل

اس ملک کے سیاسی افق میں 70 سالوں میں جس کو جو سیاسی و انتخابی نظام ذاتی طور پر بہتر لگا اس نے وہ نظام اپنایا یا قانون کو اپنی مرضی کے مطابق بدل دیا۔ کسی نے صدارتی نظام رکھا تو کسی نے پارلیمانی، کسی نے نیشنل سیکیورٹی کونسل بنائی تو کوئی امیرالمومنین بننے کے لیے خواب دیکھنے لگا، کسی نے جاہلوں کو اسمبلیوں سے نکالنے کے لیے گریجوایشن کی شرط عائد کی تو کسی نے ایوان کو مچھلی منڈی بنانے کے لیے وہ شرط ختم کردی، کبھی فوجی ڈکٹیٹروں نے الیکشن کرواکر جمہوریت چلائی تو کبھی منتخب سیاسی حکمرانوں نے خود ملک میں فوجی عدالتیں بنائیں، کسی نے تیسری مرتبہ حکمران بننے کے لیے آئین میں ترمیم کرلی تو کسی نے نظریہ ضرورت پر عمل کرتے ہوئے ایمرجنسی کے نفاذ کو جائز قرار دیا، کسی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوا یا تو کسی نے چور دروازے سے قانون پاس کرواکر ان کو دوبارہ سیاسی مقام دلوانے کی کوشش کی، کسی نے 62، 63 کی شق کا اضافہ کرکے کرپٹ، بدعنوان اور چوروں کا راستہ روکا تو کسی نے اسمبلی کو توڑنے کا اختیار اپنے پاس رکھ لیا، الغرض آئین میں ترمیم کی ایک طویل فہرست ہے۔ ہر صاحب اقتدار نے اپنے دور حکمرانی کو طول دینے کے لیے نظام میں سے اپنا راستہ بنایا، قوانین بدلے، اپنا دور حکمرانی پورا کیا اور قوم کے عذابوں میں اضافہ کیا۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 38 سالہ سیاسی سفر میں ہر موقع پر سیاسی مسائل کا حل دیا۔ جن میں سے اہم ترین حسب ذیل ہیں:

  1. سیاسی نظام کی پاکیزگی کے لیے احتساب کا لائحہ عمل
  2. سیاست میں سب کو نمائندگی دلوانے کے لیے متناسب نمائندگی کا نظام
  3. مشرف دور میں مکمل بلدیاتی انتخابی نظام دیا جس کے مطابق ایک مرتبہ الیکشن ہوئے اور ہر طبقے کو نمائندگی میسر آئی اور اختیارات منتقل ہوئے۔
  4. 23 دسمبر 2012ء کو پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کرکے مفاہمت کے نام پر سیاسی مک مکا کو بے نقاب کرتے ہوئے انتخابی نظام میں اصلاحات کو نا گزیر قرار دیا۔
  5. انتخابی اصلاحات کے نفاذ کے لیے دھرنا دیا اور حکمرانوں اور اس کے اتحادیوں کوپوری قوم کے سامنے اعتراف کروایا کہ واقعتا اِن انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے۔

مگر کوئی ان کی آواز کو سمجھ نہ سکا۔ پھر وہی ہوا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر اس نظام میں ذرہ برابر تبدیلی نہ ہونے دی۔

دہشت گردی کے مسائل کا حل

دہشت گردی کے ناسور نے اس قوم کے 70 ہزار سے زائد معصوم شہریوں اور فوجی جوانوں کو موت کی نیند سلادیا۔ دہشت گردی نے خوف و ہراس کا ایسا ماحول پیدا کردیا ہے کہ عوام تو درکنار کوئی حکومتی ادارہ بھی اس سے محفوظ نہیں رہا۔ ہر طرف لاشوں کے انبار لگ گئے، معاشرے کا ہر طبقہ متاثر ہوا، پورا ملک ایمرجنسی کی کیفیت سے دوچار ہوگیا، کروڑوں نہیں اربوں روپے ماہانہ سیکیورٹی اور تحفظ کے لیے خرچ ہونے لگے۔ کبھی راہِ نجات اور کبھی ضربِ عضب کے آپریشنوں میں لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے۔ الغرض پوری قوم حالت جنگ میں مبتلا ہوگئی۔

ایسے میں جب پاکستانی افواج کو ان دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے شرعی دلیل کی ضرورت پڑی:

  1. جب حکمران دہشت گردوں کے تحفظ کے لیے ان سے مذاکرات کا ڈھونگ رچا رہے تھے۔
  2. جب دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو کوئی بے نقاب نہیں کررہا تھا۔
  3. جب کسی کو اندرونی دہشت گردی کے اسباب سمجھ نہیں آرہے تھے۔
  4. جب کسی کے پاس متبادل بیانیہ نہیں تھا۔
  5. جب بعض لوگ حرام موت مرنے والے دہشت گردوں کو شہید کہہ رہے تھے ۔

توتنہا ایک شخص نے پوری قوم اور اداروں کی رہنمائی کی۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں دہشت گردی کے خلاف 700 صفحات پر مشتمل فتویٰ دے کر واضح کیا کہ معصوم شہریوں کا قتل جائز سمجھ کر انہیں قتل کرنے والے مسلمان نہیں بلکہ دائرہ اسلام سے خارج اور کافر ہیںبلکہ جہنم کے کتے ہیں۔ وہ کسی بھی کیفیت میں ہوں ان کو عاد و ثمود کی طرح قتل کرنا لازم ہے۔

جب حکمران اور ہر سیاسی جماعت دہشت گردوں سے مذاکرات کا راگ الاپ رہی تھی اور حکمران مذاکرات کی آڑ میں دہشت گردوں کو ملک سے فرار کروا رہے تھے تو تنہا ایک شخص متعدد ٹی وی چینلز پر قرآن و حدیث کے دلائل کی قوت سے کہہ رہا تھا کہ ان سے مذاکرات کرنا غیر شرعی، غیر اسلامی، غیر اخلاقی اور غیر آئینی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دہشت گردوں کو قومِ عاد اور قومِ ثمود کی طرح قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔لہذا انہیں طاقت سے کچلا جائے۔ اگر وہ ہتھیار پھینکیں، اپنے آپ کو قانون کے حوالے کریں تو پھر عدلیہ ان کے جرم کو دیکھ کر فیصلہ کرے۔

یہ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری تھے جنہوں نے قرآن و احادیث کی روشنی میں واضح کیا کہ دہشت گردوں کے سہولت کار ان کے شریک جرم ہیں۔ ان کو گرفتار کرکے دہشت گردوں کی طرح سخت ترین سزا دینا بھی لازم ہے۔ جب کسی پر دہشت گردی کے اسباب واضح نہیں تھے تو اس وقت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پوری قوم پر واضح کیا کہ دہشت گردی انتہا پسندی کا نتیجہ ہے اور انتہا پسندی تنگ نظری کی پیداوار ہے۔ جب تک تنگ نظری کا خاتمہ نہیں ہوگا تو انتہا پسندی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نہ صرف اسباب واضح کیے بلکہ ان کا حل بھی دیا ہے۔

مدارس میں نصاب کی تبدیلی سے لے کر سیاسی کلچر میں تحمل و برداشت کے رویے تک شیخ الاسلام نے ہر ہر پہلو سے تنگ نظری اور انتہا پسندی کے خاتمے کا لائحہ عمل دیا۔ جب کسی کو متبادل بیانیے کا شعور تک نہ تھا تو ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اردو اور انگلش میں 25کتابوں پر مشتمل نصابِ امن، متبادل بیانیے کی صورت میں پیش کردیا۔

جب دہشت گردوں کے سہولت کار میڈیا پر حرام موت مرنے والے دہشت گردوں کو شہید کہہ رہے تھے تو اس وقت شیخ الاسلام نے قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح کیا کہ دہشت گردوں سے جنگ کرتے ہوئے شہید ہونے والے فوجیوں کا درجہ عام شہداء سے 10 گنا زیادہ ہے۔

الغرض ہر ہر اٹھنے والے سوال کا جواب دیا، یہاں تک کہ ایک ماہ قبل بتادیا کہ مذاکرات ناکام ہونگے۔ مگر افسوس! بے ضمیر حکمران اور مصلحت کا شکار ادارے ہزاروں لوگوں کو شہید ہوتا دیکھتے رہے۔

تعلیمی مسائل اور ان کا حل

جیسے حکماء بیان کرتے ہیں کہ قبض اُم الامراض ہے، اسی طرح جہالت تمام مسائل اور بربادیوں کی جڑ ہے۔ 70 سالہ دور میں محض محمد خان جونیجو مرحوم کے نئی روشنی پراجیکٹ یا ہائر ایجوکیشن کمیشن میں ڈاکٹر عطاء الرحمن کے دور کو نکال دیا جائے تو جہالت کے فروغ کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ معاشرے میں سیکڑوں گائوں اور قصبے آج بھی سکولوں سے محروم ہیں۔ اگر تعلیم کے سیکٹر میں نجی سکولوں کو نکال دیا جائے تو حکومت کا دامن علم سے خالی ہے۔ قوم کو جاہل رکھنا آمروں اور سیاستدان کے ایجنڈے میں شامل رہا ہے۔

ماضی میں ایک دفعہ حکومتی سطح پر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے ملکی مسائل اور ان کے حل پر رہنمائی مانگی گئی توآپ نے کہا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ جہالت اور اس کا حل تعلیمی ایمرجنسی ہے۔ آپ نے کہا کہ اگر ملک کا مستقبل روشن کرنا ہے تو کم از کم 10 سے 15 سال کے لیے تعلیمی ایمرجنسی لگائی جائے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد گرامی ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد اور عورت) پر فرض ہے‘‘ کے تحت ہر بچے پر پڑھنا لازم کردیا جائے اور بچوں کو سکول نہ بھیجنا والدین کے لیے جرم قرار دیا جائے ِاس پر کہا گیا کہ لائحہ عمل تو درست ہے مگر اس ایمرجنسی کے بعد کروڑوں طلبہ سکول آئیں گے تو اتنے سکول کی عمارتیں فرنیچر اور اساتذہ کہاں سے آئیں گے۔ خزانہ تو خالی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ جیسے ملک کے کئی محکمے واپڈا، ریلوے، ہسپتال، فیکٹریاں اور کارخانے تین تین شفٹ میں کام کرتے ہیں اسی طرح سکولز کو تین شفٹ کردیا جائے۔ ساڑھے پانچ گھنٹے کے تدریسی دورانیے کی تین شفٹیں لگائیں۔ یوں ایک اینٹ مزید لگائے اور ایک کرسی مزید خریدے بغیر انہی وسائل کے ساتھ قوم کو تعلیم دی جاسکتی ہے۔ سوال کرنے والے حیرت میں گم تھے۔ انہوںنے پوچھا کہ دو شفٹوں کے اساتذہ کے لیے تنخواہ کہاں سے آئے گی تو آپ نے کہا کہ آپ نسلوں کو سنوارنا چاہتے ہیں تو اس قوم کے دو فرد صدر اور وزیراعظم اپنی رہائش کے لیے سرکاری گھر چھوڑ دیں اور ذاتی رہائش گاہ پر آرام کریں تو اتنا بجٹ بچ جائے گا کہ تمام اساتذہ کو تنخواہ دی جاسکتی ہے۔ مگر افسوس! مذاکرات کی ٹیبل پر پڑی بجٹ میں منظور شدہ اخراجات کی کاپی حکمرانوں سے قوم کی تعلیم کی بھیک مانگتی رہی لیکن روشنی ہارگئی اور تاریکی اسی طرح قوم پر مسلط رہی۔ ہاں دکھلاوے کے لیے بعض شہروں کے چند سکولز کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے طور پرکرائے پر دے دیا گیا اور کمیونٹی سکول کے نام پر چند ادارے بنادیئے گئے۔

بین الاقوامی فتنے، مسائل اور چیلنجز

اسلام دینِ دعوت ہے۔ کائنات کے ہر فرد تک اسلام کا پیغام پہنچانا امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔ اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے نمائندوں کو روم، ایران، یمن کی سلطنتوں اور دیگر شہروں، ملکوں اور قبیلوں کو دعوت اسلام کے لیے نہ بجھواتے؛ اگر خلفائے راشدین کے دور میںلاکھوں مربع میل تک دعوتی و تبلیغی وفود نہ بجھوائے جاتے؛ اگر چین، برصغیر سے لے کر افریقی ممالک تک صحابہ کرام کی ہجرتیں نہ ہوتیں تو آج دین اسلام صرف دین حجازی ہوتا۔ اگر محمد بن قاسم کے ساتھ آنے والے 12 ہزار مجاہدین اسی سرزمین کو اپنی قیام گاہ نہ بناتے؛ اگر سرزمین حجاز، غزنی، کابل اور دیگر وسط ایشیائی ریاستوں سے سیکڑوں صوفیاء کرام اپنے وطن چھوڑ کر برصغیر کی شہریت اختیار نہ کرتے تو ہمارے آبائو اجداد ہندو یا سکھ ہوتے۔ اگر لاہور کو حضرت علی بن عثمان ہجویری اپنا وطن نہ بناتے اور حضرت معین الدین چشتی اجمیری ہند میں قدم رنجا نہ فرماتے تو ایک کروڑ سے زائد لوگ کیسے دائرہ اسلام میں داخل ہوتے۔

60ء کی دہائی سے یورپ میں مقیم ہونے والے لاکھوں پاکستانی مسلمانوں کا اس معاشرے میں ایڈجسٹ ہونا، اس معاشرے میں اپنی نسلوں کو حلال و حرام کی تمیز پر قائم رکھنا، دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ integration کو ممکن بنانا، دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے ناسور کے باعث مسلمانوں کے خلاف پیدا ہونے والی نفرت کا خاتمہ کرنا، یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کے مزدور طبقات کی حیثیت کا معاشرے کی ترقی میں کردار کا تعین کرنا، اس معاشرے میں پروان چڑھنے والی مسلمان نسلوں کے ایمان، کلچر اور اقدار کا دفاع ممکن بنانا، اور مستقبل میں یورپ میں مسلمانوں کے استحکام کے تقاضوں کو پورا کرنا کیونکر ممکن ہوگا؟ اس جیسے سیکڑوں سوال تھے جن کا دور حاضر میں مفصل اور مدلل جواب اشد ضروری تھا۔

یہ وہ مسائل اور چیلنجز ہیں جن کی خاطر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری گذشتہ 38 سالوں سے 100 سے زائد ممالک میں دعوت و تبلیغ اور اصلاح احوال کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔ کبھی ورلڈ اکنامک فورم میں معاشرے میں حقیقی امن کے قیام پر تجاویز دیتے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی لندن ویمبلے ارینا میں تمام مذاہب کو یکجا کرکے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ رحمت انسانیت پر آشکار کرتے ہیں۔ ہر سال یورپ کے مسلمانوں کو جمع کرکے الہدایہ کیمپ کے ذریعے مسلمانوں کی نئی نسلوں کو تنگ نظری اور انتہا پسندی سے پاک کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ الغرض یورپ میں امت مسلمہ کے وقار کی بحالی ہو یا ان کے معاشی استحکام کا مسئلہ، mortegage کے مسائل ہوں یا یورپ میں عید کا چاند دیکھنے کا مسئلہ، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری شرق سے غرب تک امت مسلمہ کی رہنمائی کرتے نظر آتے ہیں۔ ذیل میں ان چند مسائل اور چیلنجز کی وضاحت کی جارہی ہے جن کے حل اور مقابلے میں شیخ الاسلام نے تنہا پوری امت مسلمہ کی رہنمائی کی ہے۔

یورپ میں گستاخیِ رسالت کے خاتمے کی جدوجہد

ڈنمارک کی سرزمین سے گستاخی رسالت کا آغاز ہوا تو پورے یورپ میں کشیدگی کی لہر دوڑ گئی۔ پوری امت اور خصوصاً پاکستان میںجلسے جلوسوں اور احتجاج کا آغاز ہوگیا۔ پاکستان میں جلائو گھرائو شروع ہوگئے۔ ایسی صورت حال میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نےUNO، امریکہ، یورپی یونین کے تمام ممالک کے سفرائ، وزراء اعظم اور صدور کو ایک کھلا خط لکھا جس میں ان کے ملکی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کا حوالہ دے کر ان ممالک کو دعوت دی کہ وہ انسانیت کے امن کی خاطر تمام مذاہب کے بانیوں اور انبیاء کا احترام کریں۔ جب یورپی معاشرے میں آزادیِ اظہارِ رائے کے باوجود وہاں عزت نفس کے قوانین موجود ہیں تو پھر محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کیوں؟ اگرچہ اس سفارتی کوشش سے گستاخی کا سلسلہ تو نہیں رکا لیکن عالمی ضمیر پر دستک جاری رہی۔

چند سال قبل ڈنمارک میں ہی انتہا پسندی کے خلاف ایک کانفرنس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے گستاخی رسالت کے قانون کا دفاع کرتے ہوئے دلائل کے ذریعے گستاخی رسالت کے اس فتنے کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیا۔ آپ نے یہودیوں اور عیسائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گستاخی رسالت کی سزا کا قانون سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے دور نبوت کا ہے۔ آپ کے دور نبوت میں اللہ، نبی اور آسمانی کتاب (تورات) کی گستاخی کی سزا رجم (پتھر مار مار کر ہلاک کرنا) تھی۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے اس قانون کو جاری رکھا اور دین اسلام میں بھی اسی قانون کو جاری رکھا گیا۔ آپ نے ان کی کتب کے حوالے دے کر یہ بات ثابت کی اور فرمایا کہ آج کے بعد کوئی یہودی اور عیسائی اگر اپنے نبی پر یقین رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ کسی بھی نبی کی گستاخی سے باز رہے، اس لیے کہ یہ ان کے اپنے انبیاء کا بنایا ہوا قانون ہے۔

یورپی معاشرے میں مسلمانوں کے معاشرتی مسائل

پاکستان سے جاکر یورپ میں بسنے والے مسلمان وہ تھے جو کسی دوسرے مسلک کی مسجد میں اللہ کی عبادت کرنے نہیں جاتے تھے۔ وہ مختلف مسلک اور عقیدہ رکھنے والے لوگوں سے ہاتھ ملانا یا ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ جو مسلمانوں کے کسی دوسرے مسلک کی مذہبی تقاریب میں شریک نہیں ہوتے تھے، اب انہیں ایک ایسے معاشرے میں ایڈجسٹ ہونا تھا جہاں اس کا پڑوسی غیر مسلم تھا۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں میلوں تک مسجد موجود نہ تھی، جہاں کسی اذان کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں حلال گوشت تلاش کرنے کے لیے کئی کلومیٹر سفر کرنا پڑتا تھا۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں سکولوں میں اسلامیات کی تعلیم نہ تھی، جہاں ان کے بچوں اور بچیوں کو چھٹی کلاس سے سوئمنگ اور ڈانس لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا تھا۔ انہیں ایک ایسی سوسائٹی میں رہنا تھا جہاں 10 سالہ بچے کی ذاتی اور نجی زندگی میں مداخلت کی اجازت نہ تھی۔ جہاں 18 سالہ نوجوان بیٹا یا بیٹی کئی دن یا مہینے گھر واپس نہ آئے تو والدین خون کے آنسو پینے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ جہاں مہینوں، ہفتوں اور سالوں میں کی جانے والی اولاد کی تربیت ایک دن یا رات میں برباد ہوجانے کا خطرہ ہو۔

ان ساری آزمائشوں کے ساتھ ساتھ ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہے کہ پھر کسی نائن الیون کے بعد ہمیں راتوں رات ملک چھوڑنا پڑسکتا ہے، کب کس وقت immigration کے قواعد بدل جائیں۔ کب محض معمولی سی داڑھی رکھنے پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزام پر گرفتار کرلیا جائے۔ اپنے ایمان کا تحفظ کرنا، اولادوں کا ایمان بچانا، ان کی دینی تعلیم و تربیت کرنا اور پھر انہیں بہترین عصری تعلیم دے کر معاشرے کا مفید شہری بنانا ایک ایسی آزمائش تھی جس کی سنگینی کو سمجھنے کے لئے بھی ایک نسل کا وقت درکار ہے۔

یہ وہ سب چیلنجز تھے اور ہیں جن کی وجہ سے ڈاکٹر طاہرالقادری ہر انٹرویو سے دوہری شہریت اور بیرون ملک سفر کا طعنہ سننے کے باوجود اور ہر لمحہ اس ملک میں رہنے اور انقلاب کی جدوجہد جاری رکھنے کی شدید خواہش کے باوجود دنیا بھر میں اپنا دعوتی و تبلیغی سفر جاری رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے اور اپنی اولادوں کے ایمان کے تحفظ کے ساتھ اس معاشرے میں ایڈجسٹ کرنے کے لیے ڈاکٹر طاہرالقادری نے جو کردار ادا کیا ہے وہ 38 سالوں پر محیط ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے ہزاروں صفحات کی ضخامت درکار ہے۔ ذیل میں ہم چند خدمات کی لسٹ شامل کررہے ہیں:

  1. جب شیخ الاسلام سے پوچھا گیا کہ غیر مسلموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا جائز ہے تو آپ نے واضح کیا کہ اگر کھانے والی شے حلال ہے تو ہر ایک کے ساتھ بیٹھ کر کھانا جائز ہے۔ آپ نے مسلمانوں اور اہل کتاب کے باہمی تعلق کو قرآن و حدیث سے واضح کیا۔ جس سے مسلمانوں میں اس سوسائٹی میں جینے کی جرات پیدا ہوئی۔
  2. آپ نے 70 سے زائد ممالک میں تنظیمات، دفاتر اور اسلامک سینٹرز قائم کرکے یورپ میں بسنے والوں کو خدمت دین کے لیے ایک منظم پلیٹ فارم عطا کیا۔
  3. ہفتہ وار حلقہ درود، ماہانہ اجتماعات، محافل میلاد، الہدایہ تربیتی کیمپ، سیمینارز اور پروگراموں کا ایسا جال بچھایا کہ نوجوان نسل کو دینی و اخلاقی تربیت کے لیے مکمل ماحول میسر آیا۔
  4. بیرونی دنیا میں 100 سے زائد مساجد اور دینی تعلیم کے مراکز قائم کیے جہاں بچے بچیوں اور ان کے والدین کے لیے بھی دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا گیا۔ Daily اور Week End کلاسز کا اجراء کیا گیا۔
  5. منہاج یونیورسٹی کے سیکڑوں اسکالرز کو دنیا بھر میں بھجوا کر یورپ میں مقیم مسلمانوں کی اگلی نسلوں کی تعلیم و تربیت کے مستقل بندوبست کا اہتمام کیا۔
  6. افریقہ، امریکہ، یورپ اور ایشیائی ریاستوں میں اسلام دین امن و رحمت، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیغمبر امن و رحمت، انسانی حقوق اور بین المذاہب رواداری پر درجنوں نہیں، 38 سال میں سیکڑوں کانفرنسز، سیمینارز اور اِجلاس منعقد ہوئے۔ ویمبلے ارینا میں تمام مذاہب کو جمع کرکے امن کے قیام کے لیے دعا مانگی گئی۔ اس کے بعد شیخ الاسلام نے تمام مذاہب کے افراد کو جمع کرکے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان رحمت پر خطاب فرمایا۔ بیسیوں ٹی وی چینلز پر انٹرویوز دیئے، متعدد یونیورسٹیز، کالجز اور اداروں میں اسلام کے تصور جہاد پر خطابات کیے۔ ہر موقع پر سوال و جواب کی نشستیں منعقد کیں۔ اس طویل جدوجہد کے نتیجے میں یورپ کے مسلمانوں کا وقار بلند ہوا اور انہیں عزت و وقار اور جرأت کے ساتھ جینا نصیب ہوا۔
  7. یورپ کے کئی ممالک میں حکومتوں کے ساتھ مل کر مصالحتی کونسلز کا قیام عمل میں لایا تاکہ یورپ میں مقیم پاکستانی مسلمانوں کے گھریلو اور ازدواجی مسائل کو عدالتوں میں لے جانے کے بجائے مصالحتی کونسلز میں حل کرلیا جائے۔
  8. رؤیت ہلال کے مسئلے میں یورپ کے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ و اختلاف کو ختم کرنے کے لیے تحقیق کرکے قمری کیلنڈر تیار کردیا کہ وہ عید کے تعین میں اختلاف سے بچ سکیں۔
  9. دنیا بھر میں دہشت گردی کے اکثر واقعات کے سبب غیر مسلم، مسلمانوں سے جو نفرت کا اظہار کرتے ہیں، اس سے مسلمانوں میں بھی ردعمل کے جذبات ابھرتے ہیں۔ اسی طرح دنیا بھر میں امت مسلمہ پر ہونے والے ظلم و ستم کے باعث مسلمانوں میں انتقام کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جس سے اسلام اور کفر کے درمیان نہ ختم ہونے والی نفرت اور جنگ کا آغاز ہونے کا خطرہ تھا۔ شیخ الاسلام نے الہدایہ کیمپوں کے ذریعے یورپ کے مسلمانوں کو انتہا پسندی سے بچانے اور دہشت گردی میں ملوث ہونے سے روک کر یورپ میں مسلمانوں کا مستقبل محفوظ کردیا ہے۔

الغرض ڈاکٹر طاہرالقادری نے 38 سالہ جدوجہد میں شرق سے غرب تک پوری دنیا کو اسلام اور پیغمبر اسلام کا جو تعارف کروایا اس کے نتیجے میں الحمدللہ انڈیا کا وزیراعظم ہو یا صدر اوبامہ، چائنہ کا صدر ہو یا UNO کا جنرل سیکرٹری ہر ایک نے اعلان کیا ہے اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ الحمدللہ دین اسلام اب یورپ میںاپنی بقاء اور دفاع کی جنگ نہیں لڑ رہا بلکہ دینِ دعوت بن کر انسانیت کو امن و سلامتی کے دائرے میں داخل کررہا ہے۔